Tag: شارٹ اسٹوری

  • ایک اور ڈر کا جنم

    ایک اور ڈر کا جنم

    مریل سے کلرک نے جیب سے مہینے بھر کی تنخواہ نکال کے چارپائی پر رکھی اور سرہانے کے نیچے سے لین داروں کی فہرست نکالی، جمع تفریق کے بعد اس کے پاس صرف پچاس روپے بچے تھے اور پورے اکتیس دن آگے کھڑے تھے۔

    کمرے میں وہ اکیلا تھا، بچوں کی ضرورتیں اور بیوی کی حسرتیں فلم کی ریل کی طرح اس کی آنکھوں سے گزرنے لگیں۔ بیوی کی مطلوبہ چیزوں پر لکیر پھیرتے ہوئے اسے تھوڑی تکلیف ہوئی، لیکن اسے احساس تھا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔

    ششی کی اَدھ گھسی پتلون نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر پپی کے ٹوٹے ہوئے جوتے نے ایک جھٹکے سے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا۔ ابھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ بیوی اندر آگئی اور پچاس کا ٹوٹ اٹھا کر بولی۔

    "مجھے نہیں پتا، یہ تو میں نہیں دوں گی۔”

    "ارے میری بات تو سنو۔”

    "بالکل نہیں۔”

    "سردیاں شروع ہوگئی ہیں اور پپی…..” اس کی بات سنی ہی نہیں‌ گئی اور بیوی نے کہا۔

    "پپی کے جوتے سے زیادہ ضروری آپ کی دوا ہے۔”

    وہ کچھ نہ بول سکا۔ اس نے گلے سے اٹھتی ہوئی کھانسی جبراً روک لی کہ اسے کھانستا دیکھ کر بیوی ڈاکٹر کو بلانے نہ چلی جائے۔

    مصنف: نامعلوم

  • کرامات

    کرامات

    لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔

    لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے، کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔

    ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک آیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔

    شور سن کر لوگ اکھٹے ہوگئے۔ کنوئیں میں رسیاں ڈالی گئیں۔

    دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔

    دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لیے اس کنوئیں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا!

    اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے۔

    مصنّف : سعادت حسن منٹو

  • تین سوال

    تین سوال

    کسی بادشاہ کے دل میں‌ خیال آیا کہ اگر اسے تین باتیں معلوم ہو جائیں تو اسے کبھی شکست اور ناکامی نہ ہو اور ہر کام حسب خواہش انجام پائے۔ اس کے ذہن میں‌ آنے والے تین سوال یہ تھے۔
    کسی کام کو شروع کرنے کا کون سا وقت موزوں ہے۔
    کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
    دنیا میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز کیا ہے۔

    بادشاہ نے منادی کروا دی کہ جو بھی ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے پایا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا۔

    پہلے سوال کا جواب کچھ لوگوں کے پاس یہ تھا کہ کسی بھی کام کا صحیح وقت اپنے معمولات اور نظام الاوقات کو ترتیب دینے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے ہی معلوم ہوگا۔

    بعض‌ نے کہا کہ انسان کے لیے کسی بھی کام کے صحیح وقت کا تعین ناممکن امر ہے۔ بادشاہ کو ایک مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ وہ عالم اور فاضل لوگوں کی ایک جماعت ترتیب دے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہو۔
    ایک گروہ کا موقف یہ بھی تھا کہ کچھ معاملات عجلت میں طے کرنے کے ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں کسی سے مشورے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے بادشاہ کو فوری طور پر ایک نجومی کی خدمات حاصل کرنی چاہییں جو قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔

    اسی طرح دوسرے سوال کے بھی کئی جواب سامنے آئے۔ کچھ کا خیال تھاکہ انتظامیہ سب سے اہم ہے بادشاہ کے لیے۔ کچھ کے خیال میں مبلغ و معلم جب کہ کچھ کا اندازہ یہ تھا کہ جنگ جو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔
    بادشاہ کا آخری سوال ‘‘کرنے کے لیے سب سے ضروری کیا چیز ہے؟’’ اس کا جواب تھا کہ سائنسی ترقی جب کہ کچھ کی ترجیح عبادت تھی۔ بادشاہ نے کسی بھی جواب سے اتفاق نہیں کیا۔

    بادشاہ نے فیصلہ کیاکہ وہ ان جوابات کی تلاش میں درویش کے پاس جائے گا جو اپنی فہم و فراست کے لیے مشہور تھا۔ درویش کا بسیرا جنگل میں تھا اور سادہ لوح لوگوں تک محدود تھا۔ بادشاہ نے عام لوگوں جیسا حلیہ بنایا اور اپنے محافظوں کو ایک مخصوص مقام پر چھوڑ کر اکیلا درویش کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو گیا۔

    بادشاہ نے دور سے دیکھا تو درویش اپنے باغ کی مٹی نرم کر رہا تھا۔ بادشاہ جب پہنچا تو درویش خوش دلی سے اس سے ملا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ کم زور اور ضعیف تھا۔ جب وہ اپنا بیلچہ زمین پر مارتا تو تھوڑی مٹی اکھڑتی اور وہ زور سے ہانپنے لگتا۔

    بادشاہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم کرنے آیا ہوں۔ بادشاہ نے اپنے تینوں سوال درویش کے سامنے دہرائے۔ درویش نے بغور سننے کے بعد کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ مٹی نرم کرنے میں لگ گیا۔

    بادشاہ نے درویش سے بیلچہ لیتے ہوئے کہا کہ لائیں میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں، آپ خود کو نڈھال کر رہے ہیں۔ دو کیاریاں تیار کرنے کے بعد بادشاہ نے کام سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے سوالات دہرائے۔ درویش زمین سے اٹھتے ہوئے کہا کہ اب تم آرام کرو میں باقی کام کر لیتا ہوں۔

    بادشاہ نے بیلچہ نہیں دیا اور بدستور کام میں لگا رہا۔ ایک گھنٹہ گزرا اور پھر ایک اور۔ سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا۔ بادشاہ نے بیلچہ زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں۔

    وہ دیکھو کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہے۔ درویش نے کہا۔ آؤ دیکھتے ہیں کون ہے۔ بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں خون سے لتھڑی ہوئی تھیں۔ قریب پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ وہ بالکل ساکت تھا اور کراہنے کی مدہم سی آواز آ رہی تھی۔

    بادشاہ اور درویش نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پیٹ پر ایک گہرا زخم تھا۔ بادشاہ نے اس زخم کو ممکنہ حد تک صاف کر کے مرہم پٹی کردی۔ جب خون بہنا بند ہوا تو باریش آدمی نے ہوش میں آتے ہی پانی مانگا۔ بادشاہ اس کے پینے کے لیے تازہ پانی لے آیا۔

    اس وقت تک سورج ڈوب گیا تھا اور فضا خوش گوار ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے درویش کی مدد سے اس انجان شخص کو جھونپڑی میں بستر پر لٹا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔

    بادشاہ کام سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ لیٹتے ہی سو گیا۔ وہ گرمیوں کی مختصر رات میں پرسکون سو رہا تھا۔ جب وہ بیدار ہوا تو وہ زخمی آدمی اپنی روشن آنکھوں سے بادشاہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کو بیدار دیکھ کر فوراً اپنی نحیف آواز میں معافی طلب کرنے لگا۔ بادشاہ نے کہا کہ میں‌ تم کو جانتا نہیں اور کس وجہ سے تم معافی مانگ رہے ہو۔

    تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں۔ میں تمھارا دشمن ہوں اور یہاں میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم یہاں اکیلے ہو گے اور میں واپسی پر تمھیں قتل کر دوں گا۔ جب پورا دن گزرنے پر بھی تم واپس نہیں آئے تو میں تلاش میں‌ نکلا اور تمھارے محافظوں کے نرغے میں پھنس گیا اور زخمی حالت میں وہاں سے بھاگا۔ تم نے کوشش کی اور میں مرنے سے بچ گیا۔ میں نے تمھارے قتل کا منصوبہ بنایا اور تم نے میری زندگی بچائی۔ جب تک زندہ رہوں گا تمھارا شکر گزار اور خدمت گزار رہوں گا۔ مجھے معاف کر دو۔

    بادشاہ نے اسے معاف کر دیا اور درویش کو دیکھنے باہر نکلا تو وہ کیاریوں میں بیج بو رہا تھا، بادشاہ نے آخری بار اپنے سوال دہرائے۔ درویش نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا کہ تمھیں جوابات مل چکے ہیں۔ بادشاہ نے استفسار کیا کیسے؟
    درویش نے کہا کہ تم اگر مجھے کم زور جان کر میرے لیے کیاریاں نہیں کھودتے اور یہاں‌ نہ رکتے تو واپسی پر اس شخص کے ہاتھوں‌ قتل ہو جاتے۔ تمھارے لیے سب سے اہم وقت وہ تھا جب تم کیاریاں بنا رہے تھے اور سب سے اہم کام اس وقت اس زخمی آدمی کی دیکھ بھال تھی ورنہ وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے سب سے اہم آدمی وہی تھا تمھارے لیے اور تم نے جو اس کے لیے کیا وہ سب سے اہم کام تھا۔

    یاد رکھو، سب سے اہم وقت وہی لمحۂ موجود ہے جس میں ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں۔ سب سے اہم وہی ہے جو لمحے آپ کے ساتھ موجود ہو اور سب سے اہم کام کسی کے ساتھ بھلائی ہے جو انسان کو دنیا میں بھیجنے کا واحد مقصد ہے۔
    (روسی ادب سے، لیو ٹالسٹائی کی مشہور کہانی کا ترجمہ)

  • انتخاب

    انتخاب

    ریاست کی جوائنٹ اسکول ہاکی ٹیم کے انتخاب کا عمل چل رہا تھا۔ مختلف اضلاع سے پینتیس لڑکوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ان میں سے سولہ لڑکوں کا انتخاب نیشنل اسکول کامپیٹیشن کے لیے کیا جانا تھا۔ تمام کھلاڑیوں کو تین ٹیموں میں تقسیم کیا گیا، جن کو آپس میں میچ کھیل کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا تھا۔

    چیف کوچ رحمان قریشی، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اہم گیم افسر رتی لال یادو اور حکومت کے گیم ڈیپارٹمنٹ کے نمائندے وامن راؤ ناگپورے کو سولہ کھلاڑیوں کے حتمی انتخاب کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

    میچوں کے اختتام کے بعد تمام سلیکٹرز اسٹیڈیم کی کینٹین میں ملے۔ وامن راؤ نے اپنی جیب سے ایک فارم نکالا اور ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولے۔

    وزیرِ کھیل کی طرف سے دو لڑکوں کے نام آئے ہیں۔ بھونیش کمار اور سشیل چوکسے۔ دونوں ان کے علاقے کے ہیں۔
    ٹھیک ہے۔ وزیر صاحب نے کہا ہے، تو دونوں کو ٹیم میں لینا ہی پڑے گا۔ رحمان بولے۔ یادو جی نے بھی رضامندی میں سر ہلایا۔

    ایک نام اسپورٹس ڈائریکٹر آشیش سنگھ نے بھی دیا ہے۔ ان کے کسی رشتہ دار کے بیٹے پریکشت سنگھ۔ وامن راؤ بولے۔ ان کا بھی نام لکھ لو۔ رحمان نے کہا۔

    سر دو نام ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری اور جوائن ڈائریکٹر صاحب نے دیے ہیں۔ رتی لال یادو نے ناموں کی پرچی سب کے سامنے رکھی۔ ان کا انتخاب بھی بلامقابلہ ہو گیا۔

    ٹریڑری کے بابو شیش راؤ کے بیٹے بھیم راؤ کو بھی لینا پڑے گا ٹیم میں۔ ورنہ ہمارے بل بھی پاس نہیں ہوں گے۔ مسئلے ہوتے رہیں گے۔ رتی لال نے پرانے تجربے کی بنیاد پر اپنی بات رکھی۔ بات میں دَم تھا سو سب نے فوری طور پر مان لی۔

    چھے لوگوں کا انتخاب تو ہو ہی چکا ہے۔ ایک نام ڈاکٹر صاحب سے لے لیتے ہیں اور باقی بچے نو لوگ، تین تین لوگوں کے نام ہم آپس میں فائنل کر لیتے ہیں۔ رحمان کی یہ تجویز سب کو پسند آئی۔

    ڈاکٹر صاحب نے فون پر اپنے پسندیدہ کھلاڑی کا نام نوٹ کرا دیا۔ رتی لال نے اپنی ذات برادری کے تین نام طے کیے۔ وامن راؤ نے بھی اپنے دو رشتہ داروں اور کالونی کے ایک لڑکے کا نام کمیٹی کے سامنے رکھا۔ رحمان نے ایک مسلمان اور دو کم سِن چھوکروں کے نام رکھے۔ ٹیم کا انتخاب ہو گیا تھا۔ چنانچہ سب نے دستخط کیے اور ایک اسٹیٹمنٹ جاری کیا۔

    اپنی ٹیم پر ایک گول بھی اسکور نہ ہونے دینے والے اور سب سے قابلِ اعتماد گول کیپر کے طور پر ابھرے پی رنگا ناتھ کو میڈیکلی ان فٹ ہونے کی وجہ سے نہیں لیا جا سکا۔ سب سے زیادہ گول کرنے والے پربھجوت سنگھ بھی ڈسپلن کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔ ان کے خلاف متفقہ طور پر مناسب کارروائی کرنے کے لیے کیس ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن کو بھیجنے کی سفارش کی گئی۔
    (مصنف: ارون ارنو کھرے)

  • ہرا چشمہ

    ہرا چشمہ

    مصنف: شرن مکڑ
    گؤ دان کی اپیل سن کر ایک سیٹھ نے گائے خیرات کی۔ جس شخص کو خیرات کی گائے ملی، وہ شہر کی گندی سی بستی میں رہنے والا ایک غریب مزدور تھا۔ اس کی کون سی زمین تھی جہاں ہری ہری گھاس اگتی۔ بستی کے آس پاس ہریالی کا نام و نشان نہ تھا۔

    خیرات میں اُسے گائے ملی تھی، گھاس نہیں۔ اس نے گائے کو کھلانے کے لیے سوکھی گھاس ڈالی۔ امیر کی گائے نے سوکھی گھاس دیکھ کر منہ پھیر لیا، وہ کسی حالت میں سوکھی گھاس کھانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ آدمی نے اس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیر کے منت کی گائے ٹس سے مس نہ ہوئی۔

    وہ دو دن سے بھوک ہڑتال پر ڈٹی ہوئی تھی۔ مزدور ڈر رہا تھا کہ گائے کو کچھ ہوگیا تو گائے کی موت کا گناہ اس کے سر ہوگا۔ وہ دل ہی دل میں خوف زدہ ہو رہا تھا۔

    اسے اس طرح پریشان اور گائے کی منت سماجت کرتے دیکھ کر کسی نے اسے گائے کی آنکھوں پر ہرا چشمہ باندھنے کا مشورہ دیا۔ مزدور نے ایسا ہی کیا۔ ہری پٹی کی عینک بناکر اس نے گائے کی آنکھوں پر لگا دی۔ اب گائے کے سامنے سوکھی گھاس کی جگہ ہری گھاس تھی۔ وہ خوش ہوگئی۔

    مزدور اب خوش تھا لیکن اس کا پڑھا لکھا بے روزگار بیٹا اداس تھا۔ مزدور نے اس سے اداسی کا سبب پوچھا، وہ روہانسا سا ہوکر بولا۔ ”بابو! مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم عوام بھی گائے ہیں۔ لوگ ہماری آنکھوں پر امیدوں کا ہرا چشمہ لگا کر ہم سے ووٹ لے جاتے ہیں اور ہم سوکھے کو ہریالی سمجھ لیتے ہیں۔“