بہت دنوں میں یہ عقدہ کھلا کہ میں بھی ہوں فنا کی راہ میں اک نقشِ جاوداں کی طرح
آج اس شعر کے خالق رسا چغتائی کی برسی ہے، رسا چغتائی کا اصل نام مرزا محتشم علی بیگ تھا۔
وہ 1928 میں ریاست جے پور کے شہر سوائے مادھوپور میں پیدا ہوئے تھے، 1950 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور مختلف اداروں سے وابستہ رہے۔ انھیں بینش سلیمی سے تلمذ حاصل تھا۔
حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں 2001 میں انھیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا، رسا چغتائی کی تصانیف میں ریختہ، زنجیر ہمسائیگی، تصنیف، چشمہ ٹھنڈے پانی کا اور تیرے آنے کا انتظار رہا شامل ہیں۔
رسا چغتائی کا انتقال 5 جنوری 2018 کو کراچی میں ہوا۔ ان کے کچھ مشہور اشعار درج ذیل ہیں:
تیرے آنے کا انتظار رہا عمر بھر موسم بہار رہا
تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا
بہت دنوں سے کوئی حادثہ نہیں گزرا کہیں زمانے کو ہم یاد پھر نہ آ جائیں
صرف مانع تھی حیا بند قبا کھلنے تلک پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا ایسا کھلا
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
بھارتی مسلمان نغمہ نگار، فلم لکھاری اور شاعر جاوید اختر نے ہنی ایرانی سے اپنی پہلی شادی کی ناکامی پر خود کو قصوروار قرار دے دیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق نغمہ نگار جاوید اختر ان دنوں پرائم ویڈیو کی نئی ڈوکو سیریز ’اینگری ینگ مین‘ کی تشہیر میں مصروف ہیں، اسی سیریز کی تشہیر کے دروان انہوں نے اپنی شادی ختم ہونے سے متعلق گفتگو کی۔
جاوید اختر نے اپنی سابق اہلیہ ہنی ایرانی سے شادی ٹوٹنے کا الزام اپنے سر لیتے ہوئے خود کو قصورار ٹھہرایا کہا کہ ہنی دنیا میں واحد انسان ہے جس کے بارے میں میں خود کو قصوروار قرار دیتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس شادی کی ناکامی میں تقریباً 60 سے 70 فیصد میری غلطی تھی، جتنی سمجھ بوجھ مجھے آج ہے، اگر اتنی اس وقت ہوتی تو معاملات کبھی اتنے خراب نہ ہوتے۔‘
سینیئر رائٹر نے مزید کہا کہ ’یہ بات تسلیم کرنا بہت مشکل ہے لیکن یہ ہی سچائی ہے، ساتھ ہی موجود شبانہ عظمی نے کہا کہ میں ہنی کو اس بات پر بہت کریڈٹ دینا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے بچوں کے کان میرے خلاف بھر سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
شبانہ عظمی نے کہا کہ ہنی نے بچوں کو سیکیورٹی دی کہ آپ کو اپنی سوتیلی والدہ کو ظالم نہیں سمجھنا، میرا اور ہنی ایرانی کا بہت اچھا تعلق ہے،
خیال رہے کہ جاوید اختر اور ہنی ایرانی کی شادی 1980 میں ختم ہوئی، اس شادی کے بعد اُن کے ہاں زویا اختر اور فرحان اختر کی پیدائش ہوئی، پہلی شادی کے اختتام کے بعد جاوید اختر نے 1984 میں شبانہ عظمی سے دسری شادی کی۔
’انجیر کے درخت پر ہر شاخ تازہ جامنی انجیروں سے لدی ہوئی ہے، اسے کسی ایک انجیر کا انتخاب کرنا ہے اور اس انتخاب نے اسے سخت تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔
ہر انجیر دوسری سے لذیذ اور خوش نما دکھائی دے رہی ہے اور اس کے انتخاب کو مشکل بنا رہی ہے، لیکن ابھی وہ کوئی ایک انجیر منتخب کر کے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہی ہے، کہ تمام انجیریں ایک بعد ایک درخت سے گرنے لگتی ہیں اور گرتے ہی سوکھ جاتی ہیں، اس نے انہیں چننے میں اتنی دیر لگائی کہ ان کی تازگی ختم ہوگئی اور وہ بدمزہ ہوگئیں۔‘
یہ منظر معروف امریکی شاعر سلویا پلاتھ کے واحد ناول دا بیل جار کا ہے اور یہ زندگی کی تمثیل ہے۔ عورت کی زندگی کے بے شمار رنگ الگ الگ انجیروں کی صورت اس کے سامنے آتے ہیں اور اسے ان میں سے کسی ایک کو چننا ہوتا ہے۔
ایک انجیر شوہر کا گھر اور گھریلو زندگی ہے، دوسری انجیر شاعر ہونا ہے، تیسری انجیر اپنی دلچسپی کے مطابق کسی شعبے میں جانا اور اس کی ماہر بننا ہے، چوتھی انجیر دنیا کے سفر پر نکلنا ہے، اور اوپر کی شاخوں پر مزید کئی خوش نما انجیریں جو ناقابل رسائی ہیں، لیکن اسے کوئی ایک انجیر چننی ہے۔
اس تمثیل میں دراصل سلویا نے بیسویں صدی کے محدود معاشرے میں جینے والی ایک عورت کی افسردگی بیان کی ہے، جس کے خیال لامحدود لیکن زندگی محدود ہے۔ جو کوئی فیصلہ کر بھی لے، تو اسے اس کے غلط ہونے کا خوف اور دوسری انجیر نہ چننے کا قلق ہے۔
اس نے ایک بار لکھا، کیا میں لباس کی طرح زندگی کو بھی بدل بدل کر دیکھ سکتی ہوں کہ کون سی میرے لیے موزوں ترین ہے؟
جسے اس بات کی خلش ہے، کہ میں زندگی کے ہر رنگ اور ہر تنوع کو بھرپور طریقے سے محسوس کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں خوفناک حد تک محدود ہوں۔
سلویا پلاتھ 27 اکتوبر 1932 کو امریکی ریاست میساچوسٹس میں پیدا ہوئی، اس کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر تھے، لیکن جب سلویا صرف 8 برس کی تھی تو وہ چل بسے۔
والد کی موت نے سلویا کو گہرا جذباتی و نفسیاتی صدمہ پہنچایا اور غالباً یہیں سے اس کی زندگی میں ایک طویل اور عذاب ناک ڈپریشن کی بنیاد پڑی، اس ڈپریشن نے اس کی زندگی کے سارے رنگوں کو پھیکا کردیا اور پیچھے رہ گئی اتھاہ سیاہ تاریکی جس میں وہ ساری زندگی ڈوبتی ابھرتی رہی۔
11 برس کی عمر سے سلویا نے ڈائری لکھنی شروع کردی تھی اور اپنے احساسات اور جذبات کو ایسے خوبصورت جملوں میں پرویا جنہیں پڑھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ یہ بچی بڑی ہو کر لفظوں سے کھیلنے والی جادوگر بنے گی۔
18 برس کی عمر میں اس کی پہلی باقاعدہ نظم ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی، بعد میں سلویا نے نثر بھی لکھا اور ایک ناول اور کچھ افسانے تحریر کیے۔
دا بیل جار
سنہ 1953 میں کالج کی تعلیم کے دوران سلویا نے نیویارک میں میڈموزیل میگزین میں ملازمت کی، فیمنسٹ نظریات کا حامل یہ میگزین خواتین میں بے حد مقبول ہوا اور یہاں گزارے گئے وقت نے سلویا کے ادبی سفر کا تعین کیا۔
سلویا کے واحد ناول دا بیل جار کی داغ بیل اسی ملازمت نے ڈال دی تھی جب اس نے وہاں اعلیٰ حس مزاح اور بلند معیار سوچ رکھنے والے افراد اور خصوصاً خواتین کے ساتھ وقت گزارا۔
تصویر: ٹیڈ ایکس
دا بیل جار کی کہانی ایسٹر گرین ووڈ نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو خطرناک حد تک ذہین اور بہترین حس مزاح کی حامل لیکن شدید ڈپریشن کا شکار ہے، سلویا نے دراصل اپنی زندگی کی کہانی ایسٹر کی صورت میں پیش کی اور اس میں کچھ افسانوی رنگ بھی اختیار کیا۔
سلویا کی حس ظرافت اس قدر ذومعنی تھی کہ سننے والے کو ہنسنے کے بہت دیر بعد علم ہوتا کہ کہنے والا اس کا تمسخر اڑا گیا، اس نے یہی انداز اپنے ناول کی ہیروئن کا بھی رکھا جو بہت مقبول ہوا۔
اس کے ناول نے اس وقت کی عورت کے لیے مروجہ اصول، مرد کی کھلی چھوٹ اور معاشرے کے تضادات پر بہت بے باک انداز میں سوال اٹھائے۔
یہ ناول جنوری 1963 میں سلویا کی موت سے صرف ایک ماہ قبل اس کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔
ذہنی خلجان، خودکشی کی کوشش اور شاعری
سلویا کی اصل وجہ شہرت اس کی نظمیں ہیں جو اس کے ذہنی خلفشار کا تحفہ تھیں، اس کے اپنے اندر کی عکاس نظمیں جو بھیانک خالی پن، عام لوگوں کی ڈگر سے ہٹ کر مشاہدے اور ذہانت و ڈپریشن کی پیدا کردہ مختلف ڈھب کی سوچ کی تصویر ہیں۔
اس کی شاعری نے عورت کے دکھوں، ان کہے جذبات اور جنسیت کے گرد قائم خاموشی کا حصار توڑا اور اس کا نڈر اظہار کیا۔
ذہنی خلجان اور ڈپریشن کے باعث سلویا ہمیشہ بے چینی کا شکار رہی، اس میں خودکشی کا رجحان بھی موجود تھا اور عام افراد کے برعکس موت اسے خوفزدہ کرنے والی شے نہیں لگتی تھی۔
سنہ 1954 میں وہ ایک بار خودکشی کی کوشش بھی کر چکی تھی جس کے بعد کئی ماہ اسے نفسیاتی اسپتال میں گزارنے پڑے، ڈپریشن کی گولیاں تو ہمیشہ ہی اس کی ساتھی رہیں۔
اس کی ایک نہایت مشہور نظم لیڈی لازرس جسے شاہکار کی حیثیت حاصل ہے، بائبل کے ایک کردار پر مبنی ہے جو فنا ہو کر پھر سے جی اٹھتا ہے۔ سلویا نے یہ نظم اپنی موت سے چند ماہ قبل اس وقت لکھی جب وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی۔
خود کو لیڈی لازرس سے تشبیہ دیتے ہوئے اس نے لکھا، مرنا بھی ایک آرٹ ہے۔
اس نے ایک بار اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھا، میں یا تو لمحے بھر میں بے حد خوش اور سرگرم رہ سکتی ہوں، یا پھر بے حد سست اور غمگین ہو سکتی ہوں، ان دونوں کیفیات کے بیچ معلق رہنا مجھے پاگل بنا دے گا۔
ایک بار اس نے کہا، کیا سوچوں سے باہر جانے کا کوئی راستہ ہے؟
محبت، جو اسے موت تک لے گئی
سنہ 1956 میں سلویا کی ملاقات انگریزی کے معروف شاعر ٹیڈ ہیوز سے ہوئی، دونوں ایک دوسرے سے متاثر اور پھر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے اور محبت ناموں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔
جلد ہی دونوں میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ اس دوران دونوں کے یہاں ایک بیٹی فریڈا اور بیٹا نکولس پیدا ہوئے۔
لیکن اصل طوفان شادی کے 6 برس بعد تب آیا جب یہ دونوں ڈیوڈ وول اور آسیا وول نامی ایک جوڑے کے گھر کے ایک حصے میں کرائے پر رہنے لگے اور ٹیڈ آسیا کی زلف کے اسیر ہوگئے۔
سلویا کو جب ٹیڈ کی اس بے وفائی کا علم ہو تو وہ بے حد دل برداشتہ اور رنجیدہ ہوئی، شوہر سے جھگڑے کے بعد سنہ 1962 میں وہ بچوں کو لے کر انگلینڈ چلی آئی، یہاں نئی زندگی کی مشکلات، ڈپریشن اور نفسیاتی دوروں کا جن منہ کھولے کھڑا تھا اور اب سلویا کے لیے ان سے نمٹنا آسان نہ تھا۔
اپنے ذہنی خلجان اور غم کی کیفیت میں سلویا نے ایک کے بعد ایک نظم لکھ ڈالی، لیڈی لازرس انہی دنوں کی تخلیق ہے۔ ان دنوں میں تخلیق کی گئی اس کی نظموں کا مجموعہ بعد از مرگ ایریل کے نام سے شائع ہوا۔
ان دنوں سلویا کے ڈاکٹر نے اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر اسے اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن سلویا نے اینٹی ڈپریسنٹس تک کھانا چھوڑ دی تھیں۔
5 ماہ تک رنج، تنہائی اور ذہنی خلفشار سے لڑتے رہنے کے بعد بالآخر ایک دن سلویا نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے، فروری 1963 کی ایک صبح، جب اس کے دونوں بچے سو رہے تھے، اس نے بچوں کا ناشتہ بنا کر ان کے سرہانے رکھا اور گیس اوون کھول کر اپنا سر اس میں گھسا دیا، کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر نے جلد اسے تمام تکلیفوں سے نجات دلا دی۔
بچے اٹھے تو وہ اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔ اپنی موت کے وقت سلویا کی عمر صرف 31 برس تھی۔
سلویا کی زیادہ تر نظمیں ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں جنہیں عام لوگوں نے بھی پسند کیا اور ادبی حلقے بھی ان کی اختراعی سوچ اور بے باکی پر دم بخود رہ گئے، سنہ 1971 میں ان کا ناول دا بیل جار ان کے اصل نام سے شائع ہوا۔
سنہ 1982 میں سلویا کی نظموں کے مجموعے کو پلٹزر پوئٹری پرائز بھی ملا۔
سلویا کی موت ان کے شوہر ٹیڈ کے لیے بھی مشکلات لے آئی، ادبی طبقے کی خواتین نے انہیں سلویا کی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ٹیڈ کو قتل کی دھمکیاں تک موصول ہوئیں۔
دوسری طرف آسیا وول بھی احساس جرم کا شکار رہی اور 6 سال بعد اس نے بالکل اسی طرح خودکشی کرلی جیسے سلویا نے کی تھی، ساتھ ہی اپنی 4 سالہ بیٹی کو بھی مار ڈالا، گیس سے بھرے بند کچن سے دونوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
سلویا کا ذہنی خلفشار اور خودکشی کا رجحان صرف اس تک محدود نہ رہا، اس کے بچوں نے اس کی دیوانگی، ذہانت اور فن سب ہی وراثت میں پایا، بیٹی فریڈا شاعر اور مصور بنی، بیٹے نکولس نے جو ایک پروفیسر تھا، سنہ 2009 میں 47 سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔
سلویا نے ایک بار کہا تھا، مجھے ان چیزوں کی خواہش ہے جو مجھے آخر میں مار ڈالیں گی، کون جانے کہ اسے خوشی کی خواہش تھی جس کی تلاش میں وہ تمام عمر سرگرداں رہی، یا پھر یہ اذیت اور بے چینی خود اسی کی منتخب کردہ تھی جو اسے موت تک لے آئی۔
معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 137 واں یوم پیدائش ہے، خلیل جبران کو پڑھنے والوں کی بڑی تعداد پاکستان میں بھی موجود ہے۔
لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔
خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔
جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی، بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔
خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ وہ ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔
آئیں ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ غاروں میں رہنے والے اب بھی موجود ہیں۔ ہاں، یہ غار ہمارے دلوں میں بنے ہوئے ہیں۔
وہ شخص جو موت کی تمنا لے کر بھی اپنے عزیز و اقارب کے لیے جیے جا رہا ہے، زندگی اس کے لیے اذیت سے بھری ہوئی ہے۔
اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟
میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔
خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کر پاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔
بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔
تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔
حیرت ہے کہ مجھ میں موجود اچھائی نقصان کے سوا مجھے کچھ نہیں دیتی، جبکہ مجھ میں موجود برائی نے مجھے کبھی نقصان نہیں دیا۔ تاہم اچھائی سے میری وارفتگی جاری ہے۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگ خاموش بغاوت اور چرب زبان اطاعت کے درمیان مشکوک طور پر معلق ہیں۔
خدا سے قربت چاہتے ہو تو اس کے بندوں کے قریب ہو جاؤ۔
بناؤ سنگھار کرنے والا اپنی بدنمائی و بدصورتی کی تائید کرتا ہے۔
کچھ لوگ اپنے کانوں سے سنتے ہیں، کچھ اپنے پیٹ سے، کچھ اپنی جیب سے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سنتے ہی نہیں۔
بدنیت اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
شاعر تو وہ ہے جس کی غزل پڑھنے کے بعد آپ یہ محسوس کریں کہ اس کے بہترین اشعار تو ابھی کہے نہیں گئے۔
تحریکِ آزادی میں پیش پیش رہنے والے انور صابری اپنی شاعری سے آزادی کے متوالوں کا لہو گرماتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
لقب ان کا شاعرِانقلاب تھا۔ کہتے ہیں اس زمانے میں انور صابری مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔
بڑے تن توش کے آدمی تھے۔ رنگ گہرا سانولا تھا۔ داڑھی سر سید کی داڑھی سے بس اُنیس تھی اور بہ سبب خضاب شب دیجور کو شرماتی تھی۔ بدیہہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ مشہور ہے کہ بیٹھے بیٹھے بیس تیس شعر کہہ دیتے۔ انور صابری سے کئی لطائف بھی منسوب ہیں۔ آپ بھی پڑھیے۔
ایک بار انور صابری کا پاکستان جانا ہوا۔ راولپنڈی کے مشاعرہ میں شرکت کرنی تھی۔ مشاعرے کے بعد دل میں آیا کہ بس سے مری کا سفر کریں اور وہاں گھومیں پھریں۔ اس لیے تنہا ہی نکل کھڑے ہوئے۔ بس میں ان کے ساتھ نشست پر ایک بزرگ خاتون آ کر بیٹھ گئیں۔ انور صابری نے وقت گزاری کے لیے ان سے بات شروع کی اور پوچھا۔
آپ کہاں جا رہی ہیں؟
خاتون نے کہا۔
میں مری جا رہی ہوں۔
صابری صاحب خاموش ہو گئے۔ ان سے خاتون نے بھی پوچھ لیا۔
اور بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں؟
انور صابری نے بڑی متانت سے جواب دیا۔
میں ‘‘مرا’’ جارہا ہوں!
ابرار ترمذی کا خاندانی نام سید ابرار حسین شاہ تھا، لیکن وہ اپنے دوستوں اور آشناؤں میں ابرار شاہ کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔
چوں کہ اسے لکھنے لکھانے اور شاعری کا بھی شوق تھا، اس لیے اپنے فن پاروں اور تحریروں میں ابرار ترمذی کا نام استعمال کرتا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب وہ برطانیہ آیا تو شروع میں ابرار پاکستانی بھی کہلاتا تھا، لیکن بعد میں ابرار ترمذی یا ابرار شاہ سے ہی پہچانا جاتا تھا۔ معروف صحافی اور ادیب شفیع عقیل کی کتاب سے اس مصور کے بارے میں یہ تحریر آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔
ابرار ترمذی 1938 میں پیدا ہوا۔ ساہیوال سے بی اے کیا۔ پھر وہ لاہور آگیا اور پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس کے شعبے میں داخلہ لے لیا جہاں سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ یہاں اس کے ہم جماعتوں میں آج کے مشہور مصور عبدالرحیم ناگوری بھی شامل تھے۔ اس کے بعد لاہور ہی میں انجینئرنگ یونیورسٹی سے گرافک ڈیزائننگ کی تربیت حاصل کی۔
1964ء میں جب لاہور میں کُل پاکستان آرٹس نمائش کا انعقاد ہوا تو ابرار نے مجسمہ سازی میں انعام حاصل کیا اور نام ور مصور عبدالرحمٰن چغتائی کے ہاتھوں وصول کیا۔ اس نے یونیورسٹی میں ڈرائنگ، مجسمہ سازی اور اناٹومی کی خصوصیت سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اس کے اساتذہ میں اینا مولکا احمد، مس حفیظ قاضی، خالد اقبال اور کولن ڈپوڈ جیسی شخصیات شامل تھیں۔
ابرار ترمذی نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے گھروالوں کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بنے یا پھر کسی اعلیٰ سرکاری عہدے پر پہنچے، لیکن اسے بچپن ہی سے آرٹ، فوٹو گرافی اور موسیقی سے دل چسپی تھی۔ اس لیے اس نے والدین کی تمنا کے برعکس اپنے شوق ہی کو پیشہ بنانے کا ارادہ کیا۔ وہ آرٹ کے ساتھ ساتھ استاد محمد حسین سے موسیقی کا درس بھی لیتا رہا، لیکن موسیقی کو ذریعہئ اظہار نہ بنایا۔
اس کے لیے اس نے مصوری کا انتخاب کیا تھا اور فوٹو گرافی شوق کے ساتھ ساتھ آمدنی کا ذریعہ بھی بنتی رہی۔ تاہم اس نے موسیقی کو بالکل ترک نہیں کیا۔ اس کا چسکا بھی ایسا لگا ہوا تھا کہ زندگی کے ساتھ چل رہا تھا۔ اس طرح دیکھیں تو وہ مصوری، موسیقی اور فوٹو گرافی سے بیک وقت وابستہ تھا۔ اس کا کہنا تھا، اگر انسان کو موسیقی کے رموز سے آگاہی حاصل ہوجائے تو اس میں اس کے دکھوں اور خوشیوں کے اظہار کا ویسا ہی سلسلہ ملتا ہے جیسا بصری فنون میں ہے۔
آرٹ کی تعلیم و تربیت سے فارغ ہونے کے بعد وہ دل میں ارادہ کیے ہوئے تھا کہ مغربی دنیا میں جائے گا تاکہ یورپ کے جن فن کاروں کا کام کتابوں میں دیکھا تھا ان کے فن پارے اصل صورت میں دیکھ سکے۔ وہاں کے میوزیم دیکھنے کی تمنا تھی، مگر ابھی اس کے لیے وسائل میسر نہ تھے۔ پھر یہ تھا کہ وہ اپنے بعض دوستوں کے رویے سے بھی دل برداشتہ ہو رہا تھا اس لیے کوشش میں تھا کہ کسی طرح بیرون ملک جائے۔ آخر کار اسے یہ موقع بھی مل ہی گیا۔ چناں چہ ابرار ترمذی 1968ء میں برطانیہ پہنچ گیا۔
اگرچہ اس وقت ہوائی سفر کے کرائے اتنے زیادہ نہیں تھے۔ تاہم اس کے مالی حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ اس نے جوں توں کرکے ٹکٹ کا انتظام کیا اور لندن روانہ ہوگیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں اپنے معاشرے کے تضاد سے بھاگا تھا اور اپنے خوابوں کا پیچھا کرتے ہوئے زندگی کی تعمیر کی جستجو میں انگلستان پہنچ گیا۔ جب میں یہاں آیا تو میرے سامنے قطعی طور پر کوئی معاشی یا فنی منصوبے نہیں تھے۔ بس یوں تھا کہ ماحول کی گھٹن سے نکلا جائے اور سبزہ زاروں کی تازہ ہوا میں آزادی سے سانس لیا جائے۔
ابرار سب سے پہلے مانچسٹر پہنچا جہاں اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور کچھ عرصے تک مزید فن کی تعلیم و تربیت حاصل کرتا رہا۔ مانچسٹر میں قیام تو کرلیا تھا، لیکن وہاں رہنے اور زندگی گزارنے کے لیے اخراجات کا وسیلہ کوئی نہ تھا۔ اس موقعے پراس کا فوٹو گرافی کا شوق کام آیا۔
اس نے ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے کر اس میں رہائش اختیار کرلی اور اسی کو اپنا اسٹوڈیو بنالیا۔ اسٹوڈیو قائم کرنے کے بعد اس نے پاکستانیوں اور ہندوستان کے لوگوں کی چھوٹی موٹی تقریبات کی فوٹو گرافی شروع کردی۔ شروع میں کچھ مشکل پیش آئی، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ کام چل نکلا۔
مشہور شاعر اسرار الحق مجاز بلا کے مے نوش تھے۔ ایک روز کسی صاحب نے ان سے پوچھ لیا۔
’’کیوں صاحب! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر اعتراض نہیں کرتے؟‘‘
مجاز جیسے زرخیز ذہن کے مالک اور خوب صورت شاعر نے اس سوال پر ان صاحب کو ایک نظر دیکھا اور نہایت سنجیدگی سے مختصر جواب دیا۔
‘‘جی نہیں۔’’ پوچھنے والا ان کے اس مختصر جواب سے مطمئن نہیں ہوا اور اس کی وجہ جاننا چاہی۔ اس کے اصرار پر مجاز نے جو کہا وہ ان کی حاضر دماغی اور ظرافت کا ثبوت ہے۔
‘‘دیکھیے، یوں تو لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، مگر آپ سمجھ لیں کہ میرے والدین سعادت مند ہیں۔’’
تن ہا
یہ اردو کے ایک لکھاری کی شادی کی تقریب کا واقعہ ہے جو اپنے وقت کی قدرآور شخصیات کے نہایت شستہ مزاح اور شگفتہ بیانی کی ایک مثال ہے۔
محمد یحییٰ تنہا کی شادی تھی۔ انھوں نے تقریب میں اپنے ادیب اور شاعر دوستوں کو بھی مدعو کیا تھا۔ ان میں مولانا حالی اور مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی جیسی قدآور شخصیات بھی شامل تھیں۔
تقریب کے بعد اپنے وقت کی ان قابل شخصیات نے ایک جگہ بیٹھ کر کچھ گفتگو کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ اصحاب بیٹھے ہی تھے کہ تنہا وہاں آگئے۔ اسماعیل میرٹھی نے انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولے۔
جناب، آپ اپنا تخلص بدل دیں، کیوں کہ اب آپ تنہا نہیں رہے۔
اس سے پہلے کہ محمد یحییٰ تنہا ان کی بات کا جواب دیتے مولانا حالیؔ بول پڑے۔
نہیں مولوی صاحب یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘تن۔۔۔ہا’’ تو دراصل یہ اب ہوئے ہیں۔ اس پر سبھی مسکرا دیے اور مولانا حالیؔ کی اس شگفتہ بیانی کا خوب چرچا ہوا۔
اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کی آج 35 ویں برسی منائی جارہی ہے، ان کی نظمیں آج بھی پسے ہوئے لیکن باغی و خود سر طبقے کی آواز ہیں۔
13 فروری سنہ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے فیض نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے جبکہ اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
فیض انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے۔ سنہ 1930 میں انہوں نے لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔
فیض اور ان کی اہلیہ میں ذہنی ہم آہنگی، محبت اور دوستی کا بے حد مضبوط رشتہ تھا۔ حمید اختر نے لکھا ہے کہ ایک بار ہم نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے میاں کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار تو ضرور ہوتی ہوں گی؟‘
مگر ایلس کا کہنا تھا، ’حمید! شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا؟‘
سنہ 1942 میں فیض فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوگئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔
فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔
وہ مختلف رسالوں اور روزناموں کے مدیر بھی رہے جن میں ادب لطیف، روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شامل ہیں۔
انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔
اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سر وادی سینا، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔
9 مارچ سنہ 1951 میں فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ قید میں لكھی گئیں۔
فیض احمد فیض واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔
ان کی شہرہ آفاق نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ ملکہ ترنم نور جہاں نے اس قدر چاہت، رچاؤ اور لگن کے ساتھ سروں میں ڈوب کر گائی تھی کہ فیض کہا کرتے تھے، یہ نظم اب میری کہاں رہی ہے یہ تو نور جہاں کی ہوگئی ہے۔
خوبصورت لب و لہجے کی شاعری سے لاکھوں دلوں کو اسیر کرنے والے فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی آخری آرام گاہ لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں ہے۔
لازوال گیتوں کے شاعر سرور بارہ بنکوی کی انتالیسویں برسی آج منائی جارہی ہے، ان کے سدابہار نغمات آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق 30 جنوری 1919 کو بارہ بنکی، اتر پردیش میں پیدا ہونے والے باکمال شاعر نے پاکستانی انڈسٹری کو خوب صورت گیتوں سے نوازا۔
ان کا شمار اردو کے ممتاز شعرا اور مستند فلم سازوں میں ہوتا تھا، انھوں نے مشہور پاکستانی فلم "آخری اسٹیشن” بنائی۔
سروربارہ بنکوی نے شائقین فن کو تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے، ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے، کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں جیسے لازوال گیت تخلیق کیے۔
اس منفرد شاعر کے ہاں جذبات کا اظہار اپنے اوج پر دکھائی دیتا، الفاظ موتیوں کی طرح پروے جاتے، خیالات نغمگی کے حامل ہوتے اور یوں ان کے مصرعے دلوں میں گھر کر جاتے۔
ان کا اصل نام سعید الرحمن تھا، انھوں نےعملی زندگی کا آغاز فلموں کے مکالمے لکھ کر کیا، بعد ازاں فلم ساز ی اور ہدایت کار ی کے میدان میں بھی فن کے جوہر دکھائے۔ 3 اپریل 1980 کو ان کا ڈھاکا، بنگلا دیش میں انتقال ہوا۔
لندن: اردو کے ممتاز مترجم، سینئر شاعر اور ماہر نوبیلیات باقر نقوی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے.
تفصیلات کے مطابق نوبیل انعام یافتگان کے خطبات کو اردو روپ دینے والے ممتاز مترجم گذشتہ روز لندن میں انتقال کر گئے. ان کی عمر 83 برس تھی.
ادبی سفر پر ایک نظر
باقر نقوی کی شعرگوئی کا سلسلہ عشروں پر محیط تھا، پھر تخلیقی سفر میں موڑ آیا، وہ ترجمے کے میدان میں آئے، پہلے مصنوعی ذہانت کے موضوع پر قلم اٹھایا، پھر نوبیل انعام یافتگان جیسا اَن چھوا موضوع منتخب کیا.
بیسویں صدی میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والوں کے خطبات کا ترجمہ نوبیل ادبیات کے نام سے چھپا، کارنامے نے سب کو متوجہ کیا، مشاہیر نے جی کھول کر سراہا۔
اِس کام میں ایسا لطف آیا کہ امن کے شعبے میں انعام حاصل کرنے والوں کے خطبات کا بھی ترجمہ کر ڈالا، اگلی باری نوبیل حیاتیات کی تھی۔ لوگ انھیں اردو کا پہلا ماہرنوبیلیات کہنے لگے.
فکشن کی سمت بھی گئے۔ ہرٹا میولر اور گنٹر گراس کے منفرد ناولوں کو اردو روپ دے کر ناقدین سے داد سمیٹی۔ وکٹر ہیوگو کے شہرۂ آفاق ناول Les Misérables کا ترجمہ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والے جاپانی ادیبوں کے کام کو بھی اردو روپ دیا.
حالات زندگی
باقر نقوی 1936 میں الہ آباد اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ 55ء میں والد کے انتقال کے بعد جدوجہد کا سفر شروع ہوا۔ ہجرت کے بعد کئی معاشی مسائل کا سامنا کیا، انشورنس کے کاروبار میں آنے کے بعد کیریر کو سمت ملی. آنے والے برسوں میں کئی ممتاز انشورنس فرم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے.
تذکرہ کتابوں کا
ان کے شعری مجموعے تازہ ہوا، مٹھی بھر تارے، موتی موتی رنگ، دامن (کلیات) کے زیر عنوان شایع ہوئے.
نوبیل انعام یافتگان کے خطبات کے علاوہ الفریڈ نوبیل کی حیات، خلیے کی دنیا، برقیات، مصنوعی ذہانت کے عنوان سے بھی کتابوںکو اردو روپ دیا.