Tag: شاعرہ پروین شاکر

  • آج اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ وفات ہے

    آج اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ وفات ہے

    آج 26 دسمبر اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ وفات ہے۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    پروین شاکر 24 نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں بچپن میں پروین کو کئی شعراء کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

    سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔

    ممکنہ فیٖصلوں میں اک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو اک بات کی اس نے کمال کردیا

    شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔ 1977ء میں آپ کا پہلا مجموعہ کلام خوشبو شائع ہوا۔ اس مجموعہ کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعرامیں ہونے لگا۔ خوشبو کے بعد پروین شاکر کے کلام کے کئی اور مجموعے صد برگ، خود کلامی اور انکار شائع ہوئے۔ آپ کی زندگی میں ہی آپ کے کلام کی کلیات ’’ماہ تمام‘‘ بھی شائع ہوچکی تھی جبکہ آپ کا آخری مجموعہ کلام کف آئینہ ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔

    26 دسمبر 1994ء کو اس خبر نے ملک بھر کے ادبی حلقوں ہی نہیں عوام الناس کو بھی افسردہ اور ملول کردیا کہ ملک کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر اسلام آباد میں ٹریفک کے ایک اندوہناک حادثے میں وفات پاگئی ہیں۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    پروین شاکر نے کئی اعزازات حاصل کئے تھے جن میں ان کے مجموعہ کلام خوشبو پر دیا جانے والا آدم جی ادبی انعام، خود کلامی پر دیا جانے والا اکادمی ادبیات کا ہجرہ انعام اور حکومت پاکستان کاصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست تھے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

  • خوشبوکی شاعرہ پروین شاکرکی آج 19ویں برسی ہے

    خوشبوکی شاعرہ پروین شاکرکی آج 19ویں برسی ہے

    خوشبو، رنگ اور محبت کی شاعرہ پروین شاکر کی آج 19ویں برسی ہے، انیس برس پہلے آج کے دن ان کا ایک حادثے میں انتقال ہوا تھا۔

    پروین شاکر نے کراچی میں جنم لیا، یہیں سے تعلیم اور ملازمت پائی، شاعری اسی شہر میں پروان چڑھی، خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب جس نے شاید نوجوانوں میں پھرسے کتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا، لڑکی کی زبان سے جرات مند لہجے میں جذبات کا اظہار ان کی غزلوں اور نظموں کا خاصہ بنا۔

    پذیرائی اور جدائی اس کی دومثالیں ہیں، جن میں تصویر حقیقت کا روپ دھارتی محسوس ہوتی ہے، بے باک اندازمیں اس طرح دلوں کی باتیں کہہ دینا آسان نہیں ہوتا لیکن پروین نے یہ کر دکھایا، ایسی بہت سی مثالیں ان کے کلام میں جا بجا ملتی ہیں۔

    اندھیرے میں بھی مجھے جگمگا ہے کوئی بس ایک نگاہ سے رنگ بدن بدلنے لگا، بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگولیے ناممکن تھا کہ ان کے کلام پر گلوکار طبع آزمائی نہ کرتے، سو مہدی حسن، ٹینا ثانی، تصورخانم جیسے فنکاروں نے ان کا کلام اپنی گائیکی کی زینت بنایا۔

    خوشبوکے بعد انکار، خودکلامی، صد برگ ان کی مشہور کتابیں رہیں، ان کا کلام ماہ تمام کے نام سے بھی شائع ہوچکا ہے، جس میں سوائے’’کف آئینہ‘‘ جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی تمام کلام شامل ہے، عکس خوشبو سے شروع ہونے والا کلام آج ایک دنیا کو اپنی مہک سے محظوظ کررہا ہے اور تادیر اس کا آہنگ اپنا رنگ جماتا رہے گا۔