Tag: شاعری

  • اسرار الحق مجاز: فیض احمد فیض کی نظر میں

    اسرار الحق مجاز: فیض احمد فیض کی نظر میں

    ’’آہنگ‘‘ کا پہلا ایڈیشن اس شعر سے شروع ہوتا تھا،

    دیکھ شمشیر ہے یہ، ساز ہے یہ، جام ہے یہ
    تو جو شمشیر اٹھا لے تو بڑا کام ہے یہ

    مشاہیرِ ادب کی مزید تحریریں اور مضامین پڑھیں

    مجاز کی شاعری انہیں تینوں اجزا سے مرکب ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ان کا کلام زیادہ مقبول بھی ہے۔ ہمارے بیشتر شعراء نے ان عناصر میں ایک فرضی تضاد کی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں، کوئی محض ساز و جام کا دلدادہ ہے تو کوئی فقط شمشیر کا دھنی، لیکن کامیاب شعر کے لیے (آج کل کے زمانے میں) شمشیر کی صلابت اور ساز و جام کا گداز دونوں ضروری ہیں۔

    دلبری بے قاہری جادو گری است

    مجاز کے شعر میں یہ امتزاج موجود ہے… اس امتزاج میں ابھی تک شمشیر کم ہے اور ساز و جام زیادہ، اس کی وجہ یہ ہے کہ شمشیر زنی کے لیے ایک خاص قسم کے دماغی زہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مجاز کی طبیعت میں زہد کم ہے۔ لذتیت زیادہ، شمشیر زنی کو میں انقلابی شاعری کے معنوں میں استعمال کر رہا ہوں۔ دماغی زہد سے میری مراد ہے ایک مخصوص انقلابی مقصد کے نشر و اظہار میں کلی ذہنی اور جذباتی یکسوئی۔ تمام غیرمتعلق جذباتی ترغیبات سے پرہیز۔ یہ کٹھن اور محنت طلب عمل ہے۔ مجازؔ ہم سب کی طرح لاابالی اور سہل نگار انسان ہیں۔ چنانچہ جب بھی انہیں ’ذوق پنہاں‘ کو کامرانی کا موقع ملے باز نہیں رہ سکتے۔

    مجازؔ کے شعر کا ارتقاء بھی ہمارے بیشتر سے مختلف ہے۔ عام طور سے ہمارے ہاں شعر یا شاعر کا ارتقائی عمل یہ صورت اختیار کرتا ہے۔ ساز و جام، ۔۔۔ ساز و جام + شمشیر۔ شمشیر، مجازؔ کے شعر میں اس عمل کی صورت یہ ہے۔ سازو جام۔ شمشیر۔ سازوجام + شمشیر، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ رجعت نہیں ترقی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ شاعر کے مضمون اور تجربہ میں مطابقت اور موانست زیادہ گہری ہوتی جارہی ہے۔ شاعر کی طبیعت خارجی اور انقلابی مضامین کے اینٹ پتھرکو تراشنے اور جوڑنے جمانے میں زیادہ لذت محسوس کرنے لگی ہے۔

    مجازؔ بنیادی طور پر اور طبعاً غنائی شاعر ہے، اس کے کلام میں خطیب کے نطق کی کڑک نہیں، باغی کے دل کی آگ نہیں۔ نغمہ سنج کے گلے کا وفور ہے، یہی وفور مجازؔ کے شعر کی سب سے بڑی خوبی ہے اور اس شعر کی کامیابی کا سب سے بڑا امین۔

    بیچ کے ایک مختصر سے دور کے علاوہ مجاز ہمیشہ سے گاتا رہا ہے۔ اس کے نغموں کی نوعیت بدلتی رہی، لیکن اس کے آہنگ میں فرق نہ آیا۔ کبھی اس نے آغازِ بلوغت کی بھرپور بے فکرانہ خواب نما محبت کے گیت گائے۔

    چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
    مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
    اللہ کرے روزِ شباب اور زیادہ

    نور ہی نور ہے کس سمت اٹھاؤں آنکھیں
    حسن ہی حسن ہے تاحدِ نظر آج کی رات

    اللہ اللہ وہ پیشانیِ سیمیں کا جمال
    رہ گئی جم کے ستاروں کی نظر آج کی رات

    وہ تبسم ہی تبسم کا جمالِ پیہم
    وہ محبت ہی محبت کی نظر آج کی رات

    کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا، اے شورشِ دوراں بھول گئے
    وہ زلفِ پریشاں بھول گئے، وہ دیدۂ گریاں بھول گئے
    اے شوقِ نظارہ کیا کہیے، نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
    اے ذوقِ تصور کیا کیجیے، ہم صورتِ جاناں بھول گئے

    کبھی اس خالص تخریبی اور مجبور پیچ و تاب کا اظہار کیا جو موجودہ حال کے متعلق ہر نوجوان کا اضطراری اور پہلا جذباتی ردِّعمل ہوتا ہے۔

    جی میں آتا ہے کہ یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
    اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
    ایک دو کا ذکر کیا، سارے کے سارے نوچ لوں
    اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
    بڑھ کے اس اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں
    اس کا گلشن پھونک دوں، اس کا شبستاں پھونک دوں
    تختِ سلطاں کیا میں سارا قصرِ سلطاں پھونک دوں
    اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

    کبھی اس تعمیری انقلاب کے اسباب و آثار کا تجزیہ کیا، جس کے نقوش صرف غور و فکر کے بعد دکھائی دینے لگتے ہیں۔

    اک نہ اک در پر جبینِ شوق گھستی ہی رہی
    آدمیت ظلم کی چکی میں پستی ہی رہی
    رہبری جاری رہی، پیغمبری جاری رہی
    دین کے پردے میں جنگِ زرگری جاری رہی
    ذہن انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں
    زندگی کی سخت طوفانی اندھیری رات میں
    کچھ نہیں تو کم سے کم خوابِ سحر دیکھا تو ہے
    جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک، ادھر دیکھا تو ہے

    یہ کافی متنوع مرکب ہے لیکن اس میں کہیں بھی مجاز کا ترنم بے آہنگ، اس کی دھن پھیکی، یا اس کے سُر بے سُر نہیں ہوئے۔ مجاز کے کلام میں پرانے شعراء کی سہولت اظہار ہے۔ لیکن ان کی جذباتی سطحیت اور محدود خیالی نہیں۔ نئے شعراء کی نزاکتِ احساس ہے، ان کی لفظی کھینچا تانی اور توڑ مروڑ نہیں۔ اس کے ترنم میں چاندنی کا سا فیاضانہ حسن ہے۔ جس کے پرتو سے تاریک اور روشن چیزیں یکساں دلکش نظر آتی ہیں۔ غنائیت ایک کیمیاوی عمل ہے، جس سے معمولی روزمرہ الفاظ عجب پراسرار، پرمعنی صورت اختیار کر لیتے ہیں، بعینہ جیسے عنفوانِ شباب میں سادہ پانی مے رنگین دکھائی دیتا ہے یا مَے رنگین کے اثر سے بے رنگ چہرے عنابی ہو جاتے ہیں۔ مجازؔ کو اس کیمیاوی عمل پر قدرت ہے۔

    ہمدم یہی ہے رہگزرِ یارِ خوش خرام
    گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم

    ضوفگن روئے حسیں پر شبِ مہتابِ شباب
    چشمِ مخمور نشاطِ شبِ مہتاب لیے

    نشۂ نازِ جوانی میں شرابور ادا
    جسم ذوقِ گہر و اطلس و کمخواب لیے

    یہی غنائیت مجاز کو اپنے دور کے دوسرے انقلابی اور رعنائی شاعروں سے ممیز کرتی ہے۔
    مجازؔ کی غنائیت عام غنائی شعراء سے مختلف ہے۔ عام غنائی شعراء محض عنفوانِ شباب کے دوچار محدود ذاتی تجربات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں ان تجربات کی تحریک، ان کی شدت اور قوتِ نمو ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام غنائی شعراء کی شاعرانہ عمر بہت کم ہے۔ ان کا اوسط سرمایہ پانچ دس کامیاب عشقیہ نظمیں ہیں۔ بعد میں وہ عمر بھر انہیں پانچ دس نظموں کو دہراتے رہتے ہیں یا خاموش ہوجاتے ہیں۔ مجازؔ کی غنائیت زیادہ وسیع، زیادہ گہرے، زیادہ مستقل مسائل سے متصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ابھی تک ارتقاء کی گنجائش اور پنپنے کا امکان ہے۔ اس کے شباب میں بڑھاپے کا رنگ نہیں جھلکتا۔ عام نوجوان شعراء کی غنائیت زندگی سے بیزار اور موت سے وابستہ ہے۔ انہیں زندگی کی لذتوں کی آرزو نہیں۔ موت کے سکون کی ہوس ہے۔ مجازؔ گرم زندگی کے نشے سے چور اور موت کے سرد جمود سے سراسر بیزار ہے۔

    مجھے پینے دے، پینے دے کہ تیرے جامِ لعلیں میں
    ابھی کچھ اور ہے، کچھ اور ہے، کچھ اور ہے ساقی

    یہی وجہ ہے کہ مجازؔ کے شعر میں تھکن نہیں مستی ہے، اداسی نہیں سرخوشی ہے۔ مجازؔ کی انقلابیت، عام انقلابی شاعروں سے مختلف ہے۔ عام انقلابی شاعر انقلاب کے متعلق گرجتے ہیں۔ للکارتے ہیں، سینہ کوٹتے ہیں، انقلاب کے متعلق گا نہیں سکتے۔ ان کے ذہن میں آمد انقلاب کا تصور طوفانِ برق و رعد سے مرکب ہے۔ نغمۂ ہزار اور رنگینیٔ بہار سے عبارت نہیں۔ وہ صرف انقلاب کی ہولناکی کو دیکھتے ہیں۔ اس کے حسن کو نہیں پہچانتے۔ یہ انقلاب کا ترقی پسند نہیں رجعت پسند تصور ہے۔ یہ برق و رعد کا دور مجاز پر بھی گزر چکا ہے۔ لیکن اب مجاز کی غنائیت اسے اپنا چکی ہے۔

    ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
    تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

    تقدیر کچھ ہو، کاوشِ تدبیر بھی تو ہے
    تخریب کے لباس میں تعمیر بھی تو ہے
    ظلمات کے حجاب میں تنویر بھی تو ہے
    آمنتظرِ عشرتِ فردا ادھر بھی آ

    برق و رعد والوں میں یہ خلوص اور تیقن تو ہے، یہ لوچ اور نغمہ نہیں ہے۔ ان میں انقلاب کی قاہری ہے دلبری نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجازؔ کی ’خوابِ سحر‘ اور ’نوجوان خاتون سے خطاب‘ اس دور کی سب سے مکمل اور سب سے کامیاب ترقی پسند نظموں میں سے ہیں۔ مجازؔ انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں، انقلاب کا مطرب ہے۔ اس کے نغمہ میں برسات کے دن کی سی سکون بخش خنکی ہے اور بہار کی رات کی سی گرم جوش تأثر آفرینی!

    (ہندوستان کے مشہور رومانوی اور انقلابی شاعر اسرار الحق مجاز کے فنِ شاعری پر فیض احمد فیض‌ کا ایک توصیفی مضمون)

  • معروف شاعر منور رانا کی طبیعت تشویش ناک ہو گئی

    معروف شاعر منور رانا کی طبیعت تشویش ناک ہو گئی

    لکھنؤ: معروف شاعر منور رانا کی طبیعت تشویش ناک ہو گئی، جس پر انھیں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر اور مشاعروں میں بے انتہا مقبول منور رانا کی طبیعت خراب ہونے پر انھیں اسپتال داخل کر دیا گیا ہے۔

    منور رانا کو علاج کے لیے ایس جی پی جی آئی، لکھنؤ میں داخل کرایا گیا ہے، ڈاکٹروں کے مطابق ان کی حالت تشویش ناک ہے اور ان کی سرجری کی جانی ہے، جس کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق منور رانا گردے کی تکلیف کے باعث ڈائیلاسز پر ہیں اور ان کا علاج دہلی میں چل رہا تھا۔

    منگل کے روز ان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی، جس پر ان کے اہل خانہ نے انھیں لکھنؤ کے سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرایا، جہاں ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا ہے۔

    پی جی آئی کی پبلک ریلیشن آفیسر کسم یادو کے نے کہا کہ منور رانا کو اس سے پہلے دل کا دورہ پڑنے پر بھی یہاں داخل کرایا گیا تھا، انھیں گردے کا مسئلہ ہے اور اس کا اثر متعدد اعضا پر ہو رہا ہے۔

    منور رانا کے یہ اشعار زبان زد عام ہیں:

    کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
    میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

    سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
    مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

    وسعت صحرا بھی منہ اپنا چھپا کر نکلی
    ساری دنیا مرے کمرے کے برابر نکلی

  • قادرُ الکلام شاعر احمد حسین مائل کی ایک غزل

    قادرُ الکلام شاعر احمد حسین مائل کی ایک غزل

    احمد حسین مائل حیدرآباد دکن کے ایک قادرُ الکلام شاعر تھے جو سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں شاعری کے لیے مشہور ہیں‌۔ وہ عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور سائنسی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ طبِ یونانی جانتے تھے اور برطانوی دور میں طبابت کا امتحان پاس کیا تھا۔

    ان کے بارے میں مشہور محقق، نقّاد اور تذکرہ نویس ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نے لکھا ہے، ’’کلامِ مائل کی دوسری خصوصیت نہایت ہی سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں طبع آزمائی ہے۔ شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ کے بعد اردو زبان کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر پیدا ہوا ہو جو اس خصوصیت میں مائل کی ہم سَری کرسکے۔‘‘ یہاں ہم مائل کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں، وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
    زمیں پہ بھی اضطراب میں ہوں، فلک پہ بھی اضطراب میں ہوں

    نہ میں ہَوا میں، نہ خاک میں ہوں، نہ آگ میں ہوں، نہ آب میں ہوں
    شمار میرا نہیں کسی میں اگرچہ میں بھی حساب میں ہوں

    سُلایا کس نے گلے لگا کر کہ صور بھی تھک گیا جگا کر
    بپا ہے عالم میں شورِ محشر، مجھے جو دیکھو تو خواب میں ہوں

    ہوئی ہے دونوں کی ایک حالت، نہ چین اس کو نہ چین مجھ کو
    ادھر وہ ہے محو شوخیوں میں، اُدھر جو میں اضطراب میں ہوں

    الٰہی مجھ پر کرم ہو تیرا نہ کھول اعمال نامہ میرا
    پکارتا ہے یہ خطِ قسمت کہ میں بھی فردِ حساب میں ہوں

    مٹا اگرچہ مزار میرا، چھٹا نہ وہ شہسوار میرا
    پکارتا ہے غبار میرا کہ میں بھی حاضر رکاب میں ہوں

    کرم کی مائلؔ پہ بھی نظر ہو، نظر میں پھر چلبلا اثر ہو
    ازل سے امیدوار میں بھی الٰہی تیری جناب میں ہوں

  • پہلے دل، پھر دل رُبا!

    پہلے دل، پھر دل رُبا!

    تسلیم فاضلی پاکستان کے ممتاز فلمی نغمہ نگار تھے جن کے کئی فلمی گیت اور غزلیں مشہور ہیں۔

    تسلیم فاضلی نے لاتعداد فلموں کے لیے گیت لکھے اور کئی فلمیں ایسی بھی ہیں جن کے نغمات پاکستان ہی نہیں، سرحد پار بھی مقبول ہوئے۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل پیش کررہے ہیں۔ تسلیم فاضلی کا یہ کلام مہدی حسن خاں کی آواز میں بہت پسند کیا گیا اور آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہو گئے

    دن بدن بڑھتی گئیں اس حسن کی رعنائیاں
    پہلے گُل، پھر گلبدن، پھر گُل بداماں ہو گئے

    آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے
    پہلے دل، پھر دل رُبا، پھر دل کے مہماں ہو گئے

    پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلّف مٹ گئے
    آپ سے پھر تم ہوئے، پھر تو کا عنواں ہو گئے

    تسلیم فاضلی کو ان کے فلمی نغمات پر نگار ایوارڈز بھی ملے۔ وہ 17 جون، 1982ء کو وفات پا گئے تھے۔

  • مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    کراچی: مسکراہٹیں بکھیرنے والے معروف شاعر اور استاد پروفیسر عنایت علی خان خالق حقیقی سے جا ملے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں طنز و مزاح کے نامور شاعر پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی انتقال کر گئے ہیں، ان کی نماز جنارہ کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں ادا کی جائے گی۔

    مرحوم کے اہل خانہ کے مطابق پروفیسر عنایت علی کا انتقال گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے سے ہوا، مرحوم کی عمر 85 برس تھی اور وہ کئی ماہ سے علیل تھے۔

    پروفیسر عنایت طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدہ شاعری میں بھی الگ پہچان رکھتے تھے، ان کی موت سے علم و ادب کی ایک اور شمع بجھ گئی ہے، وہ 1935 میں بھارتی ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے تھے، اور نومبر 1948 میں ہجرت کے بعد سندھ کے شہر حیدرآباد میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے 1962 میں سندھ یونی ورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا۔

    سنجیدہ شاعری ہو یا مزاحیہ پروفیسرعنایت علی خان منفرد اسلوب کے مالک تھے، تدریس سے وابستہ پروفیسر عنایت علی خان کو 6 کتابوں پر انعام سے بھی نوازا گیا، ان کی مشہور تصانیف میں ازراہِ عنایت، عنایات، عنایتیں کیا کیا شامل ہیں۔

    چنو منو اور شیطان، پیاری کہانیاں کے نام سے پروفیسر عنایت نے بچوں کے لیے کہانیوں اور نظموں کی دو کتابیں بھی لکھیں، ان کی نظم بول میری مچھلی کے کئی مزاحیہ قطعات زبان زد عام ہوئے۔

    پروفیسر عنایت کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

  • یہ نئے مزاج کا شہر ہے

    یہ نئے مزاج کا شہر ہے

    مشہور شاعر بشیر بدر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

     

    غزل
    یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی  شام گھر بھی رہا کرو
    وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو

    کوئی  ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو  گلے ملو  گے تپاک  سے
    یہ  نئے  مزاج  کا  شہر  ہے، ذرا  فاصلے سے  ملا کرو

    ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا، کوئی جائے گا
    تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا، اُسے بھولنے کی دعا کرو

    مجھے  اشتہار  سی  لگتی  ہیں  یہ   محبتوں  کی   کہانیاں
    جو  کہا  نہیں وہ  سنا  کرو،  جو  سنا  نہیں  وہ  کہا  کرو

    نہیں بے  حجاب وہ  چاند سا کہ نظر کا  کوئی  اثر نہ ہو
    اسے  اتنی  گرمئی شوق سے  بڑی دیر  تک نہ تکا کرو

    یہ خزاں کی  زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
    یہ تمہارے  گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

  • وہ اشعار جن میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے!

    وہ اشعار جن میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے!

    ایک زمانہ تھا جب سبزیوں، پھلوں اور دیگر غذائی اجناس سے مختلف بیماریوں اور امراض کا علاج کیا جاتا تھا۔ خالص غذائی اجناس اور تازہ سبزیوں اور پھلوں کی افادیت اور ان کی خاصیت و تاثیر سے حکیم اور معالجین خوب واقف ہوتے تھے۔

    آج جہاں نت نئے امراض اور بیماریاں سامنے آرہی ہیں، وہیں ان کے علاج کا بھی جدید اور سائنسی طریقہ اپنا لیا گیا ہے جو کہ ضروری بھی ہے۔ تاہم مہلک اور خطرناک امراض ایک طرف عام شکایات کی صورت میں بھی ہم قدرتی طریقہ علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

    یہ نظم جہاں آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی، وہیں عام جسمانی تکالیف کے حوالے سے ایک حکیم جو کہ شاعر بھی تھے، ان کے تجربات اور معلومات کا نچوڑ بھی ہے۔

    دیکھیے وہ کیا کہتے ہیں۔

    جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے​
    وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے

    ​اگر خوں کم بنے، بلغم زیادہ​
    تو کھا گاجر، چنے ، شلغم زیادہ

    جگر کے بل پہ ہے انسان جیتا​
    اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا

    جگر میں ہو اگر گرمی کا احساس​
    مربّہ آملہ کھا یا انناس

    ​اگر ہوتی ہے معدہ میں گرانی​
    تو پی لے سونف یا ادرک کا پانی

    تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے​
    تو فوراََ دودھ گرما گرم پی لے

    جو دُکھتا ہو گلا نزلے کے مارے​
    تو کر نمکین پانی کے غرارے

    ​اگر ہو درد سے دانتوں کے بے کل​
    تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مَل

    شفا چاہے اگر کھانسی سے جلدی​
    تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی
    ​​
    دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی​
    کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھلی
    ​​
    جو بد ہضمی میں تُو چاہے افاقہ​
    تو دو اِک وقت کا کر لے تُو فاقہ

  • میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    مجید لاہوری کے مزاحیہ اشعار محض سخن برائے گفتن نہیں بلکہ ہنسی ہنسی میں وہ زخم کریدنے، سماجی ناہمواریوں اور معاشرتی مسائل پر نشتر برسانے کا فن جانتے تھے۔ ان کے چند منتخب اشعار جو آج کے جدید معاشرے کی بھی عکاسی کرتے ہیں‌ ملاحظہ ہوں۔

    میدانِ سیاست سے زورِ خطابت تک دھوکے اور فریب سے خود کو مسیحا بتانے والوں‌ کے پیچھے چلنے والے عوام سے وہ ایسے مخاطب ہوتے ہیں۔

    اے قوم بنا دے تُو مجھ کو بھی ذرا لیڈر
    کیا اور کروں آخر جب کام نہیں ملتا
    گدھوں پہ لاد کے ہم بوجھ ذمے داری کا
    یہ کہہ رہے ہیں کوئی آدمی نہیں ملتا

    حضرتِ انسان کی کم عقلی، کج فہمی کا عالم یہ ہے کہ اس نے دنیا میں‌ اپنے ہی جیسے انسانوں‌ کو گویا پالن ہار اور ان داتا بنا رکھا ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر دیکھیے۔

    فرعون و ہامان و قارون سارے
    سبھی مفلسوں کے بنائے ہوئے ہیں

    وہ ہمارے جمہوری نظام اور سیاسی ابتری پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

    بناتے تھے مجھے کب لوگ ممبر
    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں

    اور یہ دو شعر کیسے نمکین ہیں جس میں‌ اردو زبان کی بے وقعتی پر انھوں‌ نے اہلِ علم کو خبردار کیا ہے اور اردو بولنے والوں‌ کو گویا جگانے کی کوشش کی ہے۔

    کھا کے امریکا کا گھی پھر نوجواں ہو جائے گا
    مولوی گل شیر، بھولو پہلواں ہو جائے گا
    غیر ٹھکرائیں گے،اپنے بھی نہیں اپنائیں گے
    اے مرے دل تو بھی کیا اردو زباں ہو جائے گا

    اس شعر میں‌ مجید لاہوری نے سیاسی نظام پر ظریفانہ چوٹ کی ہے

    ہم نے بی اے کیا، کلرک ہوئے
    جو مڈل پاس تھے، وزیر ہوئے

  • صدر کی پیروڈی

    صدر کی پیروڈی

    پیروڈی ادب کی معروف اصطلاح ہے جو مغرب سے آئی اور اردو زبان نے اسے سمیٹا۔

    ہمارے یہاں‌ ادب میں‌ زیادہ تر شاعری کو پیروڈی کا بوجھ اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم یہ نثر اور نظم دونوں سے متعلق ہے جس میں‌ ظرافت اور مزاح غالب ہوتا ہے۔

    اردو کی شعری روایات میں کسی شاعر کے مصرع پر مصرع باندھنے کی روایت بڑی پرانی اور مضبوط ہے۔ طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کرنے والے اکثر مشہور مصرعوں پر "ہاتھ صاف” کرتے ہیں اور اگر کبھی سامعین یا قارئین کو قہقہے لگانے پر مجبور نہ کرسکیں‌ تو یہ شاعری انھیں‌ مسکرانے پر ضرور مجبور کردیتی ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب مزاحیہ مشاعرے بھی منعقد ہوا کرتے تھے اور ان میں‌ اپنا طنز و مزاح‌ پر مبنی کلام پیش کرنے کے ساتھ شعرا پیروڈی بھی پیش کرتے تھے۔ دہلی کے ایک ایسے ہی مشاعرے کے آغاز پر صدرِ محفل اور اپنے وقت کے مشہور شاعر کے درمیان دل چسپ مکالمہ ہوا جس کا پنڈال میں‌ موجود شعرا اور سامعین نے خوب لُطف لیا اور وہاں دیر تک ان کے قہقہے گونجتے رہے۔ آپ بھی پڑھیے۔

    دہلی میں شعرا ایک پیروڈی مشاعرے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ جب گلزار زتشی کا نام صدارت کے لیے پیش کیا گیا تو انھوں‌ نے تواضع اور انکساری کا مظاہرہ کیا اور بولے:

    ”جناب! میں صدارت کا اہل کہاں ہوں؟“

    اس پر مشہور شاعر کنور مہندر سنگھ نے برجستہ کہا:

    ”مطمئن رہیں، آپ صدر کی پیروڈی ہی ہیں۔“

  • ابنِ انشا کا ایک ادیب دوست کے نام خط

    ابنِ انشا کا ایک ادیب دوست کے نام خط

    8 اپریل، 1956،
    کراچی

    بھائی اعظمی

    آداب

    جس روز آپ کا تمغہ جمیل ”کاغذی پیرہن“ پہنچا ہے، اس روز میں نیم علیل، چھٹی لے کر گھر پر لیٹا ہوا تھا۔ سارا دن اسے پڑھتا رہا اور لطف لیتا رہا۔

    ارادہ یہ تھا کہ ابھی اٹھوں گا اور آپ کو اس کے متعلق خط لکھوں گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ اور بات ایک مرتبہ ٹل جائے تو بہت دن لیتی ہے۔ جمیل جالبی کو کتاب پہنچا دی تھی، لیکن آج اتوار کے روز آپ کو خط لکھنے کے موڈ میں کتاب دوبارہ تلاش کرتا ہوں تو نہیں ملتی۔ یہیں بیٹھک میں رکھی تھی۔ جو آتا تھا دیکھتا تھا۔ میرا خیال ہے ممتاز حسین لے گئے۔ وہ کچھ مضامین لکھ رہے تھے اور شاعری کے مجموعے لینے میرے پاس آئے تھے۔ میرا خیال ہے میں نے انھیں دے دی۔ وہ تو واپس کر دیں گے، لیکن اگر کسی اور کے پاس ہے تو واپسی میں شبہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے کمرے میں کہیں دبی پڑی ہو یا پاس پڑوس کے کسی گھر میں گئی ہو۔

    بہرحال اب اس کو ڈھونڈوں تو مطلب یہ کہ خط نہ لکھوں اور پھر وہی چکر چلے۔ آج کل کام بہت ہے۔ رات کو آٹھ بجے دفتر سے آتا ہوں اور وہاں سوائے دفتر کے کام کے کچھ نہیں ہوتا۔ خیر آپ باقاعدگی سے یاد کر لیا کریں تو میں بھی خیال سے غافل رہنے والا نہیں ہوں۔ کاغذی پیرہن ایک سچے شاعر کا مجموعہ جذبات ہے۔ میں نے دانستہ مجموعہ افکار کے بجائے مجموعہ جذبات کا لفظ لکھا ہے اور خود اپنے مجموعے کو میں یہی نام دینا پسند کروں گا، لیکن آپ کے ہاں تو جذبے مجھ سے کہیں زیادہ شدید ہیں۔

    آپ میں مجھ کو اپنی بھٹکی ہوئی روح ملتی ہے اس لیے ان نظموں میں اور زیادہ اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت تفصیل تو کیا دے سکتا ہوں، مجموعہ سامنے نہیں، لیکن آپ کے مختصر اور حسین پیش لفظ سے لے کر (جس کے سامنے میرا مقدمہ بیکار ہے) آخر تک دل کے مسوسنے کے کئی مقام آتے ہیں۔

    ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
    جُز ترے غیر کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

    میں اس کے متعلق آپ کو بھی لکھوں گا اور کسی پرچے میں لکھنے یا لکھوانے کی کوشش کروں گا۔ ایک دوست کی کتاب کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے مجموعے کے طور پر جس میں اس دور کی روح جھلکتی ہے، لیکن یہ بازیاب تو ہو لے۔ ریویو کے لیے ایک کتاب ماہ نامہ مہر نیم روز کو بھی بھیجیے جس کے ایڈیٹر ابوالخیر کشفی ہیں۔

    میرے بھائی آپ نے آل احمد سرور کے تبصرے کا ذکر تو کر دیا، لیکن اردو ادب تو یہاں کبھی بھی نہیں آتا۔ آپ کو دو باتوں میں سے ایک کرنی ہوگی اور ضرور کرنی ہوگی۔ یا تو اردو ادب کا پرچہ خرید کر بھجوا دیجیے۔ یا اپنے پرچے میں سے کٹنگ بھیج دیجیے یا اس کو نقل کرا دیجیے یا کر دیجیے، لیکن اس تبصرے کا مجھ تک پہنچنا ضروری ہے۔

    باقی کیا لکھوں۔ کنور صاحب کو سلام۔ ان کی غزل میں نے غالباً شاہراہ میں دیکھی تھی۔ بہت اچھی تھی۔ زبان بھی ہمارے مطلب کی تھی۔ شاہد مہدی صاحب چپ ہی سادھ گئے۔ وہ کیا کرتے ہیں؟ اور چوپال کیا چوپٹ ہو گیا؟ بڑا افسوس ہے۔ میں یہاں سرکاری ملازمت میں ہوں ورنہ آپ کی اس یادگار کو یہاں سے نکالتا اور وہ کام یاب رہتی۔

    اس امید میں خط بند کرتا ہوں کہ آپ جلد جواب لکھیں گے۔

    نوٹ: معروف ادیب، شاعر اور نقاد خلیل الرحمٰن اعظمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہنے والی شخصیات میں نمایاں تھے۔