Tag: شاعری کا عالمی دن

  • عالمی یومِ شاعری: غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے

    عالمی یومِ شاعری: غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے

    ادیب اور شاعر اپنے خیالات، جذبات کا اظہار کرنے اور حالات و واقعات کو بیان کرنے کے لیے نثر اور نظم جیسی دو بنیادی اصنافِ ادب کا سہارا لیتے ہیں۔ تخلیقی ادب کی بات کی جائے تو نثر کے میدان میں ناول، افسانہ، ڈراما دنیا بھر میں مقبول ہیں جب کہ نظم ہر ملک کے شعری ادب کی خوب صورت اور نہایت مقبول صنف رہی ہے۔

    آج دنیا یومِ شاعری منارہی ہے۔ 1999 ء سے یہ دن ہر سال21 مارچ کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد فروغِ ادب، بالخصوص سخن فہمی ہے۔ یہ دن باذوق قارئین کو تخلیقی ادب سے جوڑتا ہے، کہنہ مشق اور نوآموز شعرا کو تحریک دیتا ہے اور ہر ملک میں ادبی روایات اور قدروں کو مستحکم و توانا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    اردو شاعری کی بات کریں تو یہاں نظم اور غزل تخلیقی اظہار کے دو مقبول ترین سانچے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب شاعری غزل کی ہیئتی بندش اور روایتی موضوعات تک محدود تھی، کلاسیکی دور گزرا تو اس صنفِ سخن میں اندروں بینی اور وارداتِ قلبی کے بیان سے بڑھ کر بات کی جانے لگی اور آگے چل کر اردو شعرا کی طویل فہرست میں ہم نے میر تقی میر، مرزا غالب جیسے شاعروں کو پڑھا جب کہ بیسویں صدی میں جب ہندوستان میں شعرا نے نظم کو گلے لگایا تو اسے مختلف ہیئتی تجربات اور موضوعات سے سجنے سنورنے کا موقع ملا جسے جدید دورِ شاعری اور پھر ترقّی پسند تحریک تک خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔ اردو شاعری میں مختکلف ادوار میں ہیئت کے تجربات ہوئے اور موضوعات کے تنوع نے اسے وسعت اور کمال عطا کیا۔

    اردو شاعری کے معتبر اور مستند ناموں کے ساتھ پاکستان میں نوجوان تخلیق کار نظم اور غزل جیسی مقبول اصناف میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور ادبی تنظیموں کے زیراہتمام مشاعروں کا سلسلہ جاری ہے جو کہ ہماری ادبی روایت کا خوب صورت حصّہ اور سخن فہم و باذوق قارئین کی تسکین کا باعث ہے۔ یہ مشاعرے اور ادبی محافل خاص طور پر نئے شعرا کی حوصلہ افزائی، شہرت اور مقبولیت کا سبب بنتی ہیں۔

    یومِ شاعری پر مرزا غالب کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے

    بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
    ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

    ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
    گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

    مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
    تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

    پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار
    رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

    ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
    کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

    عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
    مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے

    خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
    آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے

    گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
    رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

    ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
    غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے

  • شاعری کا عالمی دن: شعر کہہ رہا ہوں مجھے داد دیجئے

    شاعری کا عالمی دن: شعر کہہ رہا ہوں مجھے داد دیجئے

    آج شاعری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، شاعری جذبات کی عکاسی اورالفاظ میں کہانی کے ساتھ ساتھ افراد اور قوموں کی راہ بانی کا فریضہ انجام دیتی ہے،  یوم شاعری کا مقصد شاعری کی اہمیت کو اجاگرکرنا ہے۔

    یوم شاعری سال 1999 سے منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے مطابق یہ تقریب منانا شروع کی گئی تھی۔ سال دو ہزار نو سے روس میں شاعری کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات ایوان ادباء میں منعقد کی جاتی ہیں۔

    یوم شاعری کا مقصد نوجوان شاعروں کو اپنی تصانیف متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے۔ جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔

     جب شاعری خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی، اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔ فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔

    فنِ شعرِ گوئی نے جب عقیدت کی راہ پر سفرشروع کیا تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان بھی۔

    اس حوالے سے تاریخ دانوں کے مطابق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ تیئیسویں صدی قبل از مسیح میں موجودہ ایران کی سرزمین پر واقع ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہیدوُآنا نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار شاعرکی تھی۔

    شاعری کیا ہے ؟؟

     کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے، ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔

    شاعری کی اقسام

    شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم غزل ہے، صنف غزل قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے۔ لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے ساتھ مخصوص ہے۔

    مشہوراصناف میں حمد نعت مثنوی مسدس نظم پابند نظم آزاد نظم قصیدہ رباعی سلام گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں قلی قطب شاہ، میرتقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی اوربہادرشاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔

    تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے شعراء بامِ شہرت کے عروج پر فائر ہوئے جن میں فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، محسن نقوی،احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی ‘ افتخار عارف‘ حمایت علی شاعر اور جون ایلیاء جیسے عظیم نام ملتے ہیں۔