Tag: شاعری

  • جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والے اسرار احمد کو ان کے قلمی نام ابنِ صفی سے لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو زبان میں‌ جاسوسی ادب تخلیق کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔ 1952 میں ابنِ صفی کا پہلا ناول دلیر مجرم کے نام سے شایع ہوا تھا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    ابنِ صفی کی وجہِ شہرت تو جاسوسی ناول نگاری ہے، مگر وہ ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ غزلوں‌ کے علاوہ انھوں‌ نے فلموں‌ کے لیے گیت بھی تخلیق کیے۔

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ان کی ایک غزل گائی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔ ابنِ صفی کی یہ غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    راہِ طلب  میں   کون  کسی  کا،  اپنے  بھی  بیگانے  ہیں
    چاند سے مکھڑے، رشکِ غزالاں،سب جانے پہچانے ہیں

    تنہائی سی  تنہائی  ہے،  کیسے  کہیں،  کیسے سمجھائیں
    چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

    اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں، جائیں کہاں
    صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں، صحرا میں دیوانے ہیں

    ہم  کو  سہارے  کیا  راس آئیں، اپنا سہارا ہیں ہم  آپ
    خود ہی صحرا، خود ہی دِوانے، شمع نفس پروانے ہیں

    بالآخر  تھک ہار  کے  یارو! ہم  نے  بھی  تسلیم  کیا
    اپنی ذات سے عشق ہے سچا،  باقی سب  افسانے  ہیں

  • میرتقی میر کو گزرے 209 برس بیت گئے

    میرتقی میر کو گزرے 209 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے 209 برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    اردو ادب کے نامور شاعر اورادیب احمد ندیم قاسمی کی آج تیرویں برسی منائی جارہی ہے، آپ لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔

     احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ء کو پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ  پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ انہوں نے نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔

    احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔

    قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔

    یہاں تو اپنی صدا کان میں نہیں پڑتی

    وہاں خدا کا تنفس سنائی دیتا ہے

    انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’پھول‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لیِ، پھول بچوں کا رسالہ تھا اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔

    قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’سیاست‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’انقلاب‘ لاہوراور ’زمیندار‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ جوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔

    اُسی دور میں اُنہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے۔ اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اُس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ قائم کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔ قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد اُن کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    ان کے شعری مجموعات میں میں بے گناہ، رم جھم، دھڑکنیں، جلال وجمال، لوح وخاک اوردشتِ وفا بے حد معروف ہیں جبکہ افسانوں میں چوپال، آنچل، آبلے درو دیواراور برگ حنا بے پناہ شہرت کے حامل ہیں۔

    احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصرعلالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریباً 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے سبب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا  ، تاہم وہ جاں بر نہ ہوسکے اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہوگیا۔

    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

  • معروف شاعرناصرکاظمی کو بچھڑے 47 برس بیت گئے

    معروف شاعرناصرکاظمی کو بچھڑے 47 برس بیت گئے

    اردو ادب کے معروف شاعر ناصر کاظمی کی 47 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے اس سلسلے میں ادبی وصحافتی حلقوں میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

    غزل کے نامور شاعر ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔

    انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ناصر کاظمی لاہور کے ایک ہاسٹل میں رہتے تھے ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لیے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر ہی بات کرتے تھے۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    قیام پاکستان تک اُن کے شعروں کی مہک چہار سو پھیل چکی تھی، ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی زندگی بنا لیا اور رات دن اسی کی دھن میں مست رہے، ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہارغم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔

    ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔ ناصر کا ظمی نے شاعری میں سادہ الفاظ کا چناؤ کیا خوبصورت استعاروں اورچھوٹی بحر میں غزلیں کہنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔

    ناصر کاظمی کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے۔

    ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ “برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ دوسرے دو مجموعے “دیوان” اور “پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پرمشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔

    گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
    عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ

    ناصر کی شاعری میں محبت کے ان جزیروں کی تلاش ہے جہاں پرندے چہکتے اور پھول مہکتے ہیں،جہاں کو ئی کسی سے نہ بچھڑتا ہو۔ ناصر کاظمی دو مارچ 1972 کو اِس دارفانی سے کوچ کرگئے، وہ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﭘﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻮﺩﮦ ﺧﺎﮎ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﻮﺡ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ان ہی ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﮯ۔

    ﺩﺍﺋﻢ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺩﻧﯿﺎ
    ﮨﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ

  • مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی 150ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، گیارہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے اسد اللہ کو شاید خود بھی علم نہ تھا کہ ان کی شاعری اردو زبان کو رہتی دنیا تک روشن کرتی رہے گی۔

    مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ اور والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہوگئے۔

    آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

    نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
    ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

    شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اورقرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے شاہی قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    مرزا غالب اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انہوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اوراشعار میں زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی نے غالب کو عظیم بنایا۔

    شاعری میں روز مرہ محاوروں سے دل میں اتر جانے والی سادگی کے کمال نے غالب کو زمانے میں یکتا کر دیا، وہ بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔

    غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔

    کثرت شراب نوشی کے باعث ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی انتقال سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

    غم ہستی کو اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

  • خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    کراچی : محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر جن کا ساحرانہ ترنم اور لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے کا ہنر انہیں امر کرتا ہے، بلند خیالات کو انوکھے انداز میں بیان کرنے والی اس عظیم شاعرہ کی آج 24ویں برسی ہے۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 14 نومبر1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

    دوران تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1986 میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکریٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔

    سن 1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی۔

    پروین شاکر کی شادی ڈاکٹر نصیرعلی سے ہوئی ، جس سے بعد میں طلاق لے لی۔ انہوں نے جذبات کو اپنی تصانیف میں نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

    خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب تھی جس نے پھرسے کتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا بے، بے باک اندازمیں دل کی بات کہہ دینا آسان نہیں لیکن پروین شاکرکی شاعری میں اس کی جا بہ جا مثالیں ملتی ہیں۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    عظیم شاعرہ پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے میں 42 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • میر انیس کی 144 ویں برسی

    میر انیس کی 144 ویں برسی

    ٓج اردو زبان کے محسن شاعر خدائے سخن میر ببر علی انیس کا 144 واں یوم وفات ہے، انہوں نے صنف مرثیہ میں طبع آزمائی کی اور ان کی رزمیہ شاعری کے سبب اردو کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین زبانوں میں ہونے لگا۔

    میر انیس 1803 میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔

    انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنؤی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔

    ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

    شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 سال کی عمر میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

    انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

    میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291 مطابق 10 دسمبر 1874 کو لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963 میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    مرزا دبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی۔

    آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
    طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس

    یہی شعر ان کے لوح مزار پر بھی کندہ ہے۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔

    انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

    رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
    وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

    کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
    جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

    خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
    انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

  • اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    لاہور: نامور شاعرہ، مترجم اور افسانہ نویس فہمیدہ ریاض کو لاہور کے ایک مقامی قبرستان میں سپردِ خا کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی ممتاز نظم نگار اور افسانے لکھنے والی ترقی پسند 73 سالہ ادیبہ فہمیدہ ریاض گزشتہ روز انتقال کر گئیں تھیں، انھیں آج لاہور میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

    [bs-quote quote=”شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فہمیدہ ریاض کی نمازِ جنازہ میں ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات نے شرکت کی۔

    نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والوں میں معروف شاعر امجد اسلام امجد بھی شامل تھے، شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

    فہمیدہ ریاض نے اپنی ادبی اور سماجی زندگی میں ملک میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور خواتین کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے جدوجہد کی۔

    خیال رہے فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایک ادبی خاندان سے تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں


    ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا، تاہم جب ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ منظرِ عام پر آیا تو اس نے بولڈ نسائی اظہار کے باعث قارئین کو چونکایا۔

    فہمیدہ ریاض کے انتقال پر آج پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی اظہارِ افسوس کیا۔

  • حسب حال: مصوری، شاعری اور رقص کا انوکھا امتزاج

    حسب حال: مصوری، شاعری اور رقص کا انوکھا امتزاج

    معروف مصور تصدق سہیل کے مطابق مصوری رنگوں کی شاعری کا نام ہے، لیکن اگر کسی نمائش میں شاعری اور رقص کو بھی شامل کر لیا جائے، تو  شرکا کے لیے وہ ایک دل پذیر تجربہ بن جاتا ہے۔

    کچھ ایسا ہی خوب صورت واقعہ گذشتہ دنوں کراچی کی مجموعہ آرٹ گیلری میں ”حسب حال ‘‘ کے زیر عنو ان رونما ہوا۔

    تقریب میں جہاں صادقین، آزر  ذوبی اور اقبال مہدی جیسے سینئرز کے فن پارے آویزاں کیے گئے، وہاں موجودہ نسل کے فن کار ظہیر مرزا اور  علی شاہ کے فن پاروں بھی نمائش کے لئے رکھے گئے۔

    اس موقع پر پروفیسر سحر انصاری کا کہنا تھا کہ فنون لطیفہ کو الگ الگ خانوں میں بانٹا نہیں جاسکتا، موسیقی ، شاعری ، فنِ تعمیر، مصوری؛ کوئی بھی شعبہ زمینی حقائق سے تعلق رکھے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ اس نمائش میں جہاں صادقین، آزر ذوبی اور دیگر سینئر مصوروں کی تصویریں دیکھیں، وہیں باصلاحیت نوجوانوں کا کام بھی سامنے آیا۔

    انھوں نے کہا کہ تصویری سیر گاہ کے بعد شعر و شاعری کی محفل بھی ہوئی، جس کے بعد رقص پیش کیا گیا، اس طرح کم وقت میں ان تینوں فنون  لطیفہ کو یک جا کرنا یقیناً مہرین الہٰی کا بڑا کارنامہ ہے، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، کیوں کہ اس وقت دہشت گردی ، خوف، قتل و غارت گری ، ڈکیتی اور انسانی اقدار کی پامالی کے جو تجربے ہمارے معاشرے میں ہو رہے ہیں ان کا تدارک اسی طرح کیا جاسکتا ہے۔

    شرکا کا کہنا تھا کہ آج کے تیز رفتار معاشرے میں ہمارا اپنی ذات سے  تعلق بہت کم  رہ گیا ہے، اس ضمن میں ایسی تقریبات سودمند ہیں، کیوں کہ فن کاروں کی معاشرتی ناہمواریوں اور ظلم کے خلاف کاوششیں  آگہی عطا کرتی ہیں۔

    بلاصلاحیت نوجوان آرٹس ظہیر مرزا اور علی شاہ نے بھی اس نمائش کو فروغ فن کی مثبت کاوش قرار دیا۔

    ظہیر مرزا کا کہنا تھا کہ جن معاشروں میں ادب اور آرٹ کا فقدان ہوتا ہے، وہ ہیجان زدہ ہو جاتے ہیں، انھوں نے اسی صورت حال کو موضوع بنایا ہے، جہاں معاشرتی اقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

    شرکار نے جہاں فن پاروں کو سراہا، وہیں وہ سینئر شاعر پروفیسر سحرانصاری اور معروف شاعرہ عنبرین حسیب امبر کا کلام سن کر بھی محظوظ ہوئے۔

    آخر میں مجموعہ آرٹ گیلری کی روحِ رواں مہرین الہٰی نے فن کاروں اور شرکا کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

  • حفیظ تبسم کی کتاب ’دشمنوں کے لیے نظمیں‘ اور دشمنانِ منظومہ کا مختصر جائزہ

    حفیظ تبسم کی کتاب ’دشمنوں کے لیے نظمیں‘ اور دشمنانِ منظومہ کا مختصر جائزہ

    تحریر: شیخ نوید

    میرے پسندیدہ ادیب گیبریئل گارسیا مارکیز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نوبیل انعام کے حصول کے بعد جب ان کی شہرت کو پر لگ گئے تو ان کے لیے نئے دوستوں کی تعداد گننا نا ممکن ہو گیا، مارکیز کے مطابق جہاں کچھ افراد منافقانہ خوشامد کے ساتھ ان کی شہرت سے اپنا حصہ لینے کے خواہش مند تھے وہیں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اتنے ہی مخلص تھے جتنا غربت اور مشکلات کے دور میں ساتھ دینے والا کوئی خلوص کا مارا ہم درد ساتھی ہوسکتا ہے، شہرت نے انھیں میرا اتا پتا بتایا اور وہ مجھ سے آ ملے، شہرت سے مخلص دوستوں کے ملنے کا یہ پہلو تعجب خیز اور دل فریب بھی ہے۔

    حفیظ تبسم سے رابطے کا معاملہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہے لیکن یہاں ملاپ کا ذریعہ میری یا حفیظ کی شہرت نہیں بلکہ فیس بک کی ویب سائٹ تھی۔ صحیح طرح سے یاد نہیں، حفیظ نے شاید اپنے پسندیدہ ناولوں کی فہرست لگائی تھی اور دوستوں کو دعوت دی کہ وہ بھی اپنے ناولوں کی لسٹ بنائیں، حفیظ نے شاید میرے کسی دوست کو ٹیگ کیا ہوا تھا اس لیے اُس پوسٹ تک میں بھی پہنچ گیا، اس وقت دوچار تنقیدی کتابیں کچی پکی پڑھ کر میں ’’کلاسیکی تنقیدیت‘‘ کو اپنے جیب میں ڈالے گھوما کرتا تھا۔ جھٹ سے اپنی فہرست اس تیقن کے ساتھ لگائی کہ اس سے بہتر کوئی لسٹ روزِ قیامت تک وجود میں نہیں آ سکتی۔ حفیظ نے اعتراض کیا، میں نے جواب دیا، کچھ ایچ پیچ بھی ہوئی، میں نے حفیظ کی پروفائل پر جا کر سرسری جائزہ لیا تو ان کو صاحبِ کتاب پا کر مرعوب ہوگیا، وہ بھی تین کتابیں، میں نے پسپائی میں ہی عافیت سمجھی، دوسری مرتبہ کسی پوسٹ میں برادرم سید کاشف رضا کا کمنٹ پڑھا جس میں انھوں نے حفیظ تبسم کی شاعری سے نہایت مثبت توقعات کا اظہار کیا تھا۔ میں نے اسی روز انہیں فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی اور یوں ہماری دوستی کی بنیاد پڑی۔

    حفیظ تبسم

    حفیظ سے پہلی ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں عالمی ادبی کانفرنس کے موقع پر ہوئی جب وہ عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام کے گھیرے میں آڈیٹوریم کے مرکزی دروازے کی سیڑھیوں پر ٹہلتے نظر آئے، عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام سے حلقہ ارباب ذوق کراچی کے اجلاسوں میں شناسائی ہوچکی تھی، حیرت کی بات یہ تھی کہ حفیظ تبسم کو پہچاننے میں بھی مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی، شاید اس کی وجہ ان کا اور میرے جثے کا متضاد ہونا تھا، مجھے اگر تین برابر حصوں میں کاٹا جائے تو ایک حصے کا وزن حفیظ تبسم سے تھوڑا زائد ہی نکل آئے گا، ایک بھاری جسم والا انسان سنگل پسلی کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھتا ہے اور زیادہ نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ پھر اسے بھوک لگ جاتی ہے۔ رشک کے اسی جذبے نے اس کے منحنی سے وجود کو میرے دماغ میں نقش کردیا تھا۔

    حفیظ تبسم نے جب اپنی کتاب ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ میرے حوالے کی تو انوکھے عنوان نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا، دشمنوں کی فہرست کا جائزہ لیا تو سرفہرست میرے جگری دوست رفاقت حیات، سید کاشف رضا، عاطف علیم، عطاء الرحمٰن خاکی اور پسندیدہ شخصیات میں افضال احمد سید، پابلو نیرودا، رسول حمزہ توف، نصیر احمد ناصر، ملالہ یوسف زئی، سید سبط حسن، سورین کرکیکارڈ، عذرا عباس اور انور سن رائے کی نام جگمگاتے نظر آئے، حفیظ نے منٹو کو بھی نہیں بخشا، فیشن کے مطابق تو منٹو کو گالی دینا مشرقی روایات کے عین مطابق ہے لیکن حفیظ نے دشمنی کے لیے منٹو کو کیوں چنا یہ فی الوقت واضح نہیں تھا۔

    سب سے پہلے لفظ دشمن پر غور کیا، امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا فقرہ یاد آیا کہ میری قدر و قیمت کا اندازہ میرے دشمنوں سے لگایا جائے، مطلب یہ کہ دشمن آپ کی طاقت یا کم زوی کا پیمانہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو حفیظ تبسم نے ایسے دشمن چنے ہیں جن کی تخلیقات لاکھوں افراد کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں اور کروڑوں دلوں پر راج کرتے ہیں اور حتمی طور پر حفیظ تبسم کے فکری نشوونما اور شاعری کی رخ کو بھی متعین کرتے ہیں۔

    دشمنوں کو ایک اور پہلو سے ممتاز بھارتی ادیب ارون دھتی رائے نے دیکھا ہے، ان کے بقول دشمن تمہارے حوصلے کبھی توڑ نہیں سکتے یہ کام صرف دوست سر انجام دیتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے حفیظ تبسم کے دشمنوں کی لسٹ پر نظر دوڑائی جائے تو حفیظ کے حوصلوں کی بلندی قابل داد نظر آتی ہے۔ کس ماں نے ایسا بچہ کب جنا ہے جو منٹو کے حوصلوں کا مقابلہ کرے۔

    میں نے لفظ دشمن کو کسی اور نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عام فہم معنی میں میٹھی سی زندگی کے اندر کڑواہٹ گھولنے والوں کو دشمن کہا جاتا ہے، جسم کی طرح دماغ بھی آرام کا متلاشی رہتا ہے، دماغ کے لیے سوچنا ایک قسم کی مشقت ہے اور پسینہ بہانا (لغوی معنوں میں) کسے پسند ہے۔ دنیوی راحتوں اور رنگینیوں میں مست فرد کے دماغ کو سوچنے کی دعوت دینا سخت اذیت سے دوچار کرنا ہی کہلائے گا، بغیر کسی حتمی جواب کے سوالات اٹھانا کسی بھی پرسکون دماغ میں اتھل پتھل لانے کے لیے کافی ہے، حفیظ نے جو دشمنوں کی فہرست بنائی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو سوالات اٹھانے کا خطرناک فن جانتے ہیں۔

    سنجیدہ ادب کے مقابلے میں پاپولر ادب کو اسی لیے عام قارئین پسند کرتے ہیں کہ اس میں اول تو کسی قسم کے سوالات اٹھائے ہی نہیں جاتے اور اگر غلطی سے ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ہلکے پھلکے سوالات خود بہ خود کھڑے بھی ہو جائیں تو مصنف کی جیب میں موجود آفاقی سچائیوں سے جوابات ڈھونڈ کر قاری کو مطمین کر دیا جاتا ہے اور سوالات ہمیشہ کے لیے لٹا دیے جاتے ہیں، ایک بے راہ رو ہمیشہ آسمانی عذاب کا شکار ہوتا ہے، گنہگار اپنے بد ترین انجام کو پہنچتا ہے، عظیم سپاہی ہمیشہ اپنے مشن میں کام یاب ہوتے ہیں اور آخر میں ہیرو ہیروئن  عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں (نسیم حجازی کے ناولوں میں وہ گھوڑوں پر سوار ہوکر اپنے مزاج کے مطابق بحرِ ظلمات کے روٹ پر بھی نکل جاتے ہیں)۔

    دماغ اسی وقت پریشان ہوتا ہے جب منٹو ایمان والوں کو ’’کھول دو‘‘ کی ننگی حقیقت سے دوچار کرتا ہے۔ جب وہ کوٹھے کے جہنم میں بھی جنتی وجود تلاش کرلیتا ہے اور چمڑی بیچنے والے سوداگروں میں انسانی جذبات کو باہر کھینچ نکال لاتا ہے۔

    حفیظ تبسم کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی جس نے مجھے از حد متاثر کیا وہ سریئلزم اور تجریدی تمثالوں کی فراوانی ہے، آپ ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ کا کوئی صفحہ بھی بلا ارادہ کھول لیں، سریئلزم کی جان دار تمثیلوں اور تشبیہوں سے دماغ کو عجیب سی فرحت کا احساس ملتا ہے، افضال احمد سید، احمد جاوید، احمد فواد اور سعید الدین سمیت ہمارے متعدد شعرا نے نثری نظموں میں جس کے قسم کے جدید سریئلزم تجربات کیے، حفیظ اسی راستے کو کام یابی کے ساتھ اپنے خوب صورت اور بے لگام تخیل سے مزید کشادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

    دوسری خوبی جو اس مجموعے کو منفرد بناتی ہے اور وہ منظومہ افراد کی تخلیقات کے عنوانات سے ان افراد کے کردار کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے سارے تخلیقی حوالوں کے بعد ان کی نظم کی تفہیم مشکل ہوجاتی اور جب تک دشمنانِ منظومہ کی تمام تخلیقات کا مطالعہ نہ کرلیا جائے اسے سمجھنا مشکل ہوتا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ حفیظ تبسم نے ان تخلیقات کے موضوعات اور عنوانات کو نظم کی کرافٹ میں اتنی سلیقہ مندی سے کھپایا ہے کہ وہ منظومہ فرد کی شخصیت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایک کارنامہ ہی ہے کہ حفیظ نے اپنے تخیل سے فن پارے کو اس کے فن کار کی ذات میں تحلیل کرکے اسے ایک نئی معنویت تک پہنچا دیا ہے۔

    دوسرے پہلو سے جن افراد نے دشمنانِ منظومہ کی تخلیقات کا فرسٹ ہینڈ مطالعہ کر رکھا ہے ان کے لیے نظم کی قرأت منفرد سطح کا لطف پیدا کرتی ہے، ویسے بھی نظموں میں اس طرح کے اشارے رکھنے کی ایک مکمل تاریخ ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے جب اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ شائع کی تو اسے بھی مشورہ دیا گیا کہ اس کے ساتھ اشارات اور علامات کی ایک شرح بھی شائع کی جائے۔ میرا خیال ہے حفیظ کو مجموعے کے آخر میں ایک اشاریہ مرتب کرنا چاہیے تاکہ ہم جیسے سہل طبیعت کے قاری بھی دشمنانِ منظومہ کی تخلیقی کارناموں سے واقف ہوسکیں اور ممکن ہے کہ جوش میں آکر کوئی قاری ان کی تخلیقات پڑھنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے دے، معجزے کی توقع کسی بھی شخص سے رکھی جاسکتی ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو اردو ادب کا قاری کہتا ہو۔

    حفیظ اپنے ’دشمنوں‘ کے صرف کردار کا جائزہ لینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے لاشعوری احساس سے اپنے عصر کے منظر نامے کو بھی پینٹ کرتا ہے اور اُس میں ہر اس انوکھے رنگ کو ڈال دیتا ہے جس کی ضرورت اس کا عصری مسائل سے لاشعوری طور پر مزین تخیل اجازت دیتا ہے۔ سیاسی سفاکیت اور بے حسی، فکری انہدام کی گہری گھاٹیاں، علم دشمنی کی خیرہ کن چمک دمک، نفسیاتی بھول بھلیوں اور سماجی ناانصافی کے غیر عقلی رویوں کا بیان بھی ان کی نظموں میں زیریں سطح پر بہتا ہوا نظر آتا ہے اور کسی موقع پر سرئیلزم کے زبان میں نہایت کاٹ دار لہجہ اختیار کرلیتا ہے۔

    اچھے اور معیاری ادب کی یہ خوبی مسلم ہے کہ وہ مانوس کو نامانوس بنا کرپیش کرتا ہے۔ دشمنانِ حفیظ بھی جانے پہچانے اور بہ ظاہر مانوس نظر آتے ہیں۔ منٹو کا نام سن کر ہر گنہگار کانوں کو ہاتھ لگانا فرض سمجھتا ہے، نیرودا کو بھی اسی قسم کے جنسی جذبات سے عاری قدسی صفات افراد کی مخالفت کا سامنا رہا، سبط حسن کی کتابیں آج بھی کئی افراد کی جبیبوں پر شکنیں ڈال دیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملالہ یوسفزئی کو گالی دینا تو کچھ افراد کے نزدیک مذہبی رسومات میں داخل ہوچکا ہے اور ہر گالی کے ساتھ ان کے ایمانی درجے میں بڑھوتری ہوجاتی ہے۔

    حفیظ کی نظموں میں یہ شخصیات ماوارئی کردار میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور کردار حقیقی وجود رکھتے ہوئے بھی اتنے غیر حقیقی بن جاتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے فینٹیسی کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ حفیظ ان کے ادبی یا سماجی کارناموں کی علامات کو تجریدیت اور سرئیلزم کی سرحد کے پار ڈال کر انہیں ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں مکمل نامانوسیت کی فضا طاری رہتی اور قاری بھی اسی انوکھی اور ان دیکھی فضا میں خود کو تحلیل ہوتے پاتا ہے۔

    کہیں پڑھا تھا کہ اگر امر ہونا چاہتے ہو تو کسی ادیب سے دوستی کرلو، حفیظ تبسم نے اپنے مجموعے ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ سے بھی اسی قسم کی کاوش کی، اُس نے اپنے’ دشمنوں‘ کو آب حیات کے رنگ سے تراشنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ خاکے ہمارے ادبی سفر کا ایک وقیع تجربہ ہیں جس کی معنویت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ خاکے ہماری زبان کے ادبی سفر کے روشن پڑاؤ ہیں جس کی روشنی راہ ادب کو مزید منور کرے گی۔

    خوشی کی بات ہے کہ شاعری کے ساتھ حفیظ تبسم نے ایک ناول بھی لکھا ہے جو اشاعت سے قبل کے نظرثانی کے آخری مراحل پر ہے، مجھے امید ہے کہ اپنی شعری تخلیقات کی طرح وہ اپنے فکشن سے بھی اپنے استاد ساحر شفیق کی طرح افسانوی ادب میں نئی راہ نکالنے میں کام یاب رہیں گے۔ مجموعہ پڑھنے سے پہلے میں حفیظ کو اپنا دوست سمجھتا تھا لیکن اب، مجموعہ پڑھنے کے بعد، اُس کا نام میں نے اپنے دشمنوں کی سنہری فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ روک سکو تو روک لو۔