Tag: شاعری

  • شاعری کے عالمی دن پر اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    شاعری کے عالمی دن پر اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    آج دنیا بھر میں شاعری کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہماری قومی زبان اردو نے میر تقی میر، غالب، اقبال، داغ، فیض ، فراز اور جون ایسے مایہ ناز شاعر پیدا کیے ہیں جن کے افکار سے ساری دنیا متاثر ہے۔

    شاعری کے عالمی دن پر آپ کے ذوق کو مہمیز کرنے کے لیے یہاں پر اردو کے وہ ایک سو مشہور ترین اشعار دیے جا رہے ہیں جو بہت مشہور اور زبان زد عام ہوئے، اور لوگوں نے بے حد پسند کیے۔

    1.  لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

    علامہ اقبال

    2.  بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
    تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

    مرزا غالب

    3. قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

    مولانا محمد علی جوہر

    4. نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے
    پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

    میر تقی میر

    5. خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
    خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

    علامہ اقبال

    6. دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
    تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

    کلیم عاجز

    7. قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
    خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

    میاں داد خان سیاح

    8. رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
    تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

    ابراہیم ذوق

    9. کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    مرزا غالب

    10. خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی

    11. چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
    عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

    فدوی عظیم آبادی

    12. پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
    مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

    علامہ اقبال

    13. تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
    کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

    علامہ اقبال

    14. مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
    وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

    برق لکھنوی

    15. فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
    بس ہو چکی نماز، مصلّہ اٹھایئے

    حیدر علی آتش

    16. آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
    میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا

    حیدر علی آتش

    17. مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
    مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے

    حیدر علی آتش

    18. امید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت
    کہ اس کافر کی ’ہاں‘ بھی اب ’نہیں‘ معلوم ہوتی ہے

    چراغ حسن حسرت

    19. داور حشر میرا نامہء اعمال نہ دیکھ
    اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

    محمد دین تاثیر

    20. اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
    یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

    فراق گورکھپوری

    21. ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
    اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

    عزیز الحسن مجذوب

    22. وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
    پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

    مہاراج بہادر برق

    23. چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
    چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے

    یگانہ چنگیزی

    24. دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا
    وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا

    عزیز لکھنوی

    25. اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
    بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا

    عزیز لکھنوی

    26. دینا وہ اس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
    منہ پھیر کر اُدھر کو، اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ

    نظام رام پوری

    27. یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
    یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے

    اکبر الہٰ آبادی

    28. بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
    اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
    پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

    اکبر الہٰ آبادی

    29. آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
    تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

    گمنام

    30. اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
    گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

    علامہ اقبال

    31. توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جایئے
    بندہ پرور جایئے، اچھا، خفا ہو جایئے

    حسرت موہانی

    32. تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
    مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

    مضطر خیر آبادی

    33. دیکھ آؤ مریض فرقت کو
    رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے

    حسن بریلوی

    34. خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں
    مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

    اکبر الہٰ آبادی

    35. دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
    جب تک شراب آئے کئی دور ہوگئے

    شاد عظیم آبادی

    36. ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
    راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

    الطاف حسین حالی

    37. سب لوگ جدھر وہ ہیں، ادھر دیکھ رہے ہیں
    ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

    داغ دہلوی

    38. دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
    ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

    داغ دہلوی

    39. گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد
    ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں

    امیر مینائی

    40. فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
    بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    41. ذرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے
    بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے

    علامہ اقبال

    42. ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ
    پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لایئے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    43. وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
    میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    44. لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار
    خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

    میر انیس

    45. شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
    زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے

    مومن خان مومن

    46. الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
    لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

    مومن خان مومن

    47. اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا
    کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا

    محمد رضا برق

    48. کوچہء عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
    خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے

    وزیر علی صبا

    49. دم و در اپنے پاس کہاں
    چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں

    مرزا غالب

    50. گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
    کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی

    مرزا غالب

    51. جانتا ہوں ثواب طاعتِ و زہد
    پر طبیعت ادھر نہیں آتی

    مرزا غالب

    52. غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
    ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

    مرزا غالب

    53. بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
    کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

    مرزا غالب

    54. اسی لیے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں
    اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

    خواجہ وزیر

    55. زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
    کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایماں بہہ گیا

    محمد ابراہیم ذوق

    56. ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
    مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

    اکبر الہٰ آبادی

    57. فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
    اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کیا کرے

    محمد رفیع سودا

    58. یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
    یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

    علامہ اقبال

    59. تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

    علامہ اقبال

    60. یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
    جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے

    شاد عظیم آبادی

    61. حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    مخدوم محی الدین

    62. اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
    سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

    میر تقی میر

    63. اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

    اقبال

    64. آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

    مرزاغالب

    65. اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض احمد فیض

    66. دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

    ناصر کاظمی

    67. نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیئے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی

    68. اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
    پھر ملیں گے اگر خدا لایا

    میر تقی میر

    69. شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
    عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے

    میر تقی میر

    70. بہت کچھ ہے کرو میر بس
    کہ اللہ بس اور باقی ہوس

    میر تقی میر

    71. بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
    تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

    مادھو رام جوہر

    72. عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
    دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

    بہادر شاہ ظفر

    73. بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
    جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے

    میر تقی میر

    74. ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
    آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

    میر تقی میر

    75. سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    میر تقی میر

    76. نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
    جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

    علامہ اقبال

    77. کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
    ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجیئے حضور
    ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

    ساغر صدیقی

    78. زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
    سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

    علامہ اقبال

    79. دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
    رات کٹتی نظر نہیں آتی

    سید محمد اثر

    80. تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
    اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

    میر تقی میر

    81. میرے سنگ مزار پر فرہاد
    رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد

    میر تقی میر

    82. ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ
    کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

    قائم چاند پوری

    83. زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ساغر صدیقی

    84. ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا
    یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

    نظیر اکبر آبادی

    85. پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے
    جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے

    نظیر اکبر آبادی

    86. دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
    بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں

    اکبر الہٰ آبادی

    87. کہوں کس سے قصہ درد و غم، کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے
    جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
    مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر، ترا حال اکبرِ نوحہ گر
    تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے

    اکبر الہٰ آبادی

    88. نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی
    کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی

    اکبر الہٰ آبادی

    89. مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
    ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں

    امیر مینائی

    90. اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
    الفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے

    ماہر القادری

    91. کہہ تو دیا، الفت میں ہم جان کے دھوکہ کھائیں گے
    حضرت ناصح! خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟

    ماہر القادری

    92. اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر
    مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہء نو بہار بن کر
    یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
    وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر

    ساغر صدیقی

    93. آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    ساغر صدیقی

    94. محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم
    کچھ گفتگو تو کھل کے کریں گے خدا کے ساتھ

    عبدالحمید عدم

    95. عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
    ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے

    حفیظ میرٹھی

    96. صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
    نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی

    گستاخ رام پوری

    97. چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
    اے شبِ ہجر تیرا کالا منہ
    بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
    آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ

    مومن خان مومن

    98. سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

    احمد فراز

    99. مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
    وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

    افتخار عارف

    100. اے خدا جو کہیں نہیں موجود
    کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں

    جون ایلیا

    101. بس یہی قیمتی شے تھی سو ضروری سمجھا
    جلتے گھر سے تیری تصویر اٹھا کر لے آئے

    ریحان اعظمی

    نوٹ: اگر آپ اس فہرست میں آپ اپنی پسند کے کسی شعر کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے کمنٹ میں شعر اور شاعر کا نام لکھیئے۔

  • مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 135 واں یوم پیدائش ہے۔ خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    art-1

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی۔ بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیے ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کرپاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس مخلوق کی کمر میں مہرے نہیں، وہ سیپی کے اندر مہرہ دار مخلوق سے زیادہ پر امن زندگی بسر کرتی ہے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    گزرنے والا کل آج کی یاد ہے، آنے والا کل آج کا خواب ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مرزاغالب کی 220ویں سالگرہ پرگوگل کا خراجِ تحسین

    مرزاغالب کی 220ویں سالگرہ پرگوگل کا خراجِ تحسین

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220ویں سالگرہ پر پرانہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے گوگل نے اپنا ڈوڈل تبدیل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ہر اہم دن کے موقع پراپنا ڈوڈل تبدیل کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل نے اردو کے عطیم شاعرمرزا غالب کی 220ویں سالگرہ پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیےڈوڈل بنادیا۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔


    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی 220ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے


    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی 220ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی 220ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔


    اردو کے 100 مشہور اشعار


    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

    محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

    منفرد انداز اور شان بے نیازی کے مالک اردو اور پنجابی کے صف اول کے شاعر منیر نیازی کی آج دسویں برسی ہے۔

    منیر نیازی 9 اپریل سنہ 1928 کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ دیال سنگھ کالج میں تعلیم سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک وہ لاہور میں رہے۔

    جنگل سے منسلک علامات کو خوبصورت شاعری کا حصہ بنانے والے منیر نیازی اپنی مختصر نظموں میں ایسی کاٹ دکھاتے گویا نشتر آبدار فضا میں لہرا رہا ہو۔

    منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا۔ انہوں نے کبھی خود کو حکومت وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔

    ان کی شخصیت کا ایک حصہ شان بے نیازی ان کی شاعری کا اہم جزو ہے۔

    زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
    دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
    کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
    جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

    منیر نیازی نے اردو اور پنجابی زبان میں شاعر کی۔ ان کے اردو میں 13 اور پنجابی میں 3 اور انگریزی میں 2 شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    منیر نیازی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ادیب اور صحافی بھی تھے۔

    انہیں ہمیشہ اپنے معاشرے سے شکوہ رہا۔ ایک محفل میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’ایک زمانے میں نقادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں‘۔

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 26 دسمبر سنہ 2006 کو وہ لاہور میں وفات پاگئے۔ انہیں لاہور کے قبرستان ماڈل ٹاؤن کے بلاک میں پیوند خاک کیا گیا۔

    ستارے جو دمکتے ہیں
    کسی کی چشم حیراں میں
    ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
    جمال ابر و باراں میں
    یہ نا آباد وقتوں میں
    دل ناشاد میں ہوگی
    محبت اب نہیں ہوگی
    یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
    گزر جائیں گے جب یہ دن
    پھر ان کی یاد میں ہوگی

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو شاعری میں کلاسک کی حیثیت رکھنے والے اس شعر کے خالق حسرت موہانی کی آج 66 ویں برسی ہے۔

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    قیام پاکستان سے قبل جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار، انگریزوں کی غلامی کا دور اور اس کے بعد تحریک پاکستان کا غلغلہ اٹھا تو اردو شاعری حسن و عشق کے قصوں کو چھوڑ کر قید و بند، انقلاب، آزادی اور زنجیروں جیسے موضوعات سے مزین ہوگئی۔ غزل میں بھی انہی موضوعات نے جگہ بنالی تو یہ حسرت موہانی ہی تھے جنہوں نے اردو غزل کا ارتقا کیا۔

    البتہ اس وقت کے بدلتے ہوئے رجحانات سے وہ بھی نہ محفوط رہ سکے اور ان کی شاعری میں بھی سیاست در آئی۔ وہ خود بھی سیاست میں رہے۔ پہلے کانگریس کے ساتھ تھے پھر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

    حسرت موہانی ایک صحافی بھی تھے۔ 1903 میں انہوں نے علی گڑھ سے ایک رسالہ اردو معلیٰ بھی جاری کیا۔ 1907 میں ایک حکومت مخالف مضمون شائع ہونے پر انہیں جیل بھی بھیجا گیا۔

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

    ان کا یہ مشہور زمانہ شعر اسی دور کی یادگار ہے۔

    علامہ شبلی نعمانی نے ایک بار ان کے لیے کہا تھا۔ ’تم آدمی ہو یا جن؟ پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔‘ حسرت موہانی سے زیادہ متنوع شاعر اردو شاعری میں شاید ہی کوئی اور ہو۔

    حسرت کی شاعری سادہ زبان میں عشق و حسن کا بہترین مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کو ہر دور میں پسند کیا جاتا ہے۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے بہترین غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔

    بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
    ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

    اردو غزل کو نئی زندگی بخشنے والا یہ شاعر 13 مئی 1951 کو لکھنؤ میں انتقال کر گیا۔

  • ساکنان شہر قائد کے تحت کراچی میں عالمی مشاعرہ منعقد کیا گیا

    ساکنان شہر قائد کے تحت کراچی میں عالمی مشاعرہ منعقد کیا گیا

    کراچی: ساکنان شہر قائد کے تحت کراچی میں عالمی مشاعرہ منعقد کیا گیاجس میں مقامی اور بیرون ملک سےآنے والے نامور شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔

    ساکنان شہر قائد کے تحت کراچی میں ہونے والے عالمی مشاعرے میں ملکی اور غیر ملکی نامورشعرانےشرکت کی،ممتاز شعرائےکرام میں پروفیسرعنایت علی خان ،امجداسلام امجد،انورمسعود،افتخار عارف،پیرزادہ قاسم، عباس تابش،ذکیہ غزل،اقبال خاور سمیت دیگرشعرانےبھی کلام پیش کیاجبکہ شہریوں کی بڑی تعداد نےمحفل مشاعرہ میں شرکت کی ۔

    مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
    جتنا بُرا سمجھتے ہیں اتنا بُرا نہیں
                                                 امجد اسلام امجد

     محفل مشاعرہ میں بھارت سے تعلق رکھنے والے شاعر طاہرفراز رامپوری نےترنم سے کلام پیش کیا،جسکو سامعین نے خوب سراہا ۔

    ہم کسی اور سے منصوب ہوئے
    کیا یہ نقصان تمھارا نہ ہوا

    ساکنان شہر قائد کے تحت منعقد کردہ عالمی مشاعرہ کی صدارت عالمی شہرت یافتہ پاکستان کے مشہور و معروف شاعر افتخار عارف نے کی۔صدر محفل کی جانب سے پیش کردہ اشعار مندرجہ ذیل ہے۔

    اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا
    اس بار تو ہم شہہ کے مصاحب بھی نہیں تھے

    مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
    وہ قرض اتارے ھیں جو واجب بھی نہیں تھے

    پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
    ہم ایسے کون خدا تھے جو اپنے گھر رہتے

    عالمی مشاعرے کے منتظمین کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا،مشاعرے میں ڈپٹی اسپیکر سندھ شہلا رضا،سابق چیف سی پی ایل سی احمد چنائے، کمشنر کراچی اور ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی سمیت دیگر سماجی اور سیاسی شخصیات بھی موجود تھیں۔

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے