Tag: شاعر برسی

  • کلیم عثمانی: مقبول ترین ملّی نغمات اور فلمی گیتوں کا خالق

    کلیم عثمانی: مقبول ترین ملّی نغمات اور فلمی گیتوں کا خالق

    کلیم عثمانی مقبول ملّی نغمات کے خالق ہی نہیں ان کے فلمی گیت بھی بہت مشہور ہوئے، مگر بحیثیت غزل گو شاعر بھی انھوں نے اپنی پہچان بنائی۔ بلاشبہ وہ ان شعرا میں سے ہیں جن کا بطور فلمی نغمہ نگار ہی برصغیر میں چرچا نہیں ہوا بلکہ غزل جیسی معتبر صنف سخن میں بھی وہ قتیل شفائی، مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی اور دوسرے شعرا کی طرح مشہور تھے۔

    28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ ضلع سہارن پور، دیو بند میں 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے اور اس علمی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے احتشام الٰہی نے بھی یہی مشغلہ اپنایا۔ وہ شاعری کے میدان میں کلیم عثمانی کے نام سے پہچانے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آگیا تھا جہاں بطور شاعر انھوں نے شہرت پائی۔

    کلیم عثمانی نے اپنے وقت کے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ ان کا ترنم بہت مشہور تھا اور لاہور اور پاکستان بھر میں وہ مشاعروں میں‌ ترنم سے اپنا کلام پیش کرکے داد پاتے تھے۔ کلیم عثمانی نے غزل گوئی سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور بعد میں‌ فلموں کے لیے گیت لکھنے شروع کیے۔ فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے لیے ان کے تحریر کردہ گیت بہت مقبول ہوئے اور کلیم عثمانی کو ان کے بعد فلم انڈسٹری میں بہت اہمیت دی جانے لگی۔

    1966ء میں کلیم عثمانی نے فلم ہم دونوں اور جلوہ کے گیت تخلیق کیے جس سے ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔ جلوہ وہ فلم تھی جس کے یہ دو گیت انتہائی اعلیٰ درجے کے تھے، کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں… اور لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں…۔ ایک فلم راز کا مقبول ترین گیت تھا، میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. کلیم عثمانی نے لکھا تھا۔ 1974ء میں فلم شرافت ریلیز ہوئی جس کے ایک گیت کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ اس گیت کی موسیقی روبن گھوش نے ترتیب دی تھی اور اس کے بول تھے ’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے…. لہریں بھی ہوئیں مستانی سی۔‘‘ اس گیت کی مثال آج بھی دی جاتی ہے اور بلاشبہ یہ وہ گیت ہے جو کلیم عثمانی کو بطور نغمہ نگار ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

    جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین جیسی کام یاب فلموں کے نغمات بھی کلیم عثمانی نے لکھے تھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ایک زمانہ تھا جب ریڈیو پر فلمی گیت سامعین کی فرمائش پر نشر کیے جاتے تھے۔ ان میں دوسرے شعرا کی طرح کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے نغمات بھی شامل ہوتے تھے۔

    1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبولِ عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ یہ گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں محفوظ ہے اور جب بھی سنا جائے ایک عجیب لطف دیتا ہے۔ اگر ملّی نغمات کی بات کریں تو پاکستانی قوم کی امنگوں اور وطن کے لیے جذبات کی ترجمانی کرنے والے ان نغمات میں "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے….” سرفہرست ہیں۔ کلیم عثمانی کے یہ ملّی نغمات تاقیامت پاکستان کی فضاؤں میں گونجتے رہیں گے۔

    غزل گو شاعر، اور فلمی گیت نگار کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی جس کے چند اشعار ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    غزل
    رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
    چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
    شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

    پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
    پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

    بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
    میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

  • شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال پر پہنچانے والے فانی بدایونی کا تذکرہ

    شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال پر پہنچانے والے فانی بدایونی کا تذکرہ

    اردو ادب میں فانی بدایونی کو یاسیات کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام حزن و یاس، رنج و الم سے عبارت ہے۔

    فانی کا اصل نام شوکت علی خاں تھا، وطن بدایوں اور تخلّص انھوں نے فانی اختیار کیا۔ 1879ء میں پیدا ہوئے اور 27 اگست 1941ء تک دنیا کے میلے اور زندگی کے جھمیلے میں گرفتار رہے۔

    فانیؔ بدایونی کے کلام میں یوں تو وارداتِ قلب و نظر، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کا بیان بھی ملتا ہے، لیکن یاس و نا امیدی کے مضامین بڑی آب و تاب کے ساتھ کلام میں ظاہر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر انھیں یاسیات کا شاعر کہا گیا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔

    ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور بعد میں مکتب میں داخل ہوئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب کی فرمائش پر ان کو کلام سناتے رہتے تھے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا۔ معاش کے حوالے سے تنگی ان کو لاحق ہوئی۔ یہ ایک تکلیف دہ زمانہ تھا جس میں طبیعت یاسیت پر مائل ہوگئی۔ اسی دور میں انھیں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور عشق میں ناکامی ہوئی جس سے وہ شکستہ خاطر ہوئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کے لیے جگہ جگہ قسمت آزمائی۔ آخر وہ مرفہ الحال ریاست حیدر آباد دکن پہنچے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا۔ دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔

    ممتاز نقاد اور ادیب آل احمد سرور فانی بدایونی کے بارے میں‌ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

    "فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔”

    "ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔”

    "کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔”

    "فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔”

    "فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔”

    "فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔”

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    "وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔”

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو ان سے کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرع کا جواب کہاں..

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    "ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔”

    "1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔”

    فانی بدایونی کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے:

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

  • مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    جدید شاعری میں ایک بڑا نام احمد فراز کا ہے جو اردو کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ فراز کی ستائش اور پذیرائی کا سلسلہ ان کی زندگی میں بھی جاری تھا اور آج بھی فراز کو ایک ایسا شاعر کہا جاتا ہے جس نے ایک عہد کو متأثر کیا۔ فراز کی رومانوی شاعری ہی نہیں ان کا مزاحمتی کلام بھی بہت مشہور ہے اور ایک زمانہ میں فراز کی نظمیں سیاسی و سماجی جبر، بندشوں اور ناانصافی کے خلاف نعرہ بن کر گونجتی رہی ہیں۔ احمد فراز خواص اور عوام دونوں میں یکساں مقبول تھے۔

    احمد فراز 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں احمد فراز کے نام سے لازوال شہرت پائی۔ احمد فراز کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں نے ایڈورڈز کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اور بعد میں پشاور یونیورسٹی سے ہی اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری جیسے بڑے شعرا سے احمد فراز کا جو تعلق بنا، اس نے فراز کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعری انقلابی نظموں اور ترانوں میں ڈھلنے لگی۔ احمد فراز نے پشاور یونیورسٹی ہی میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیے۔ احمد فراز 25 اگست 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے پی ٹی وی کواپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،

    "زندگی کی کرشمہ سازیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ انسان خواب بھی دیکھتا ہے، تعبیریں کچھ نکلتی ہیں۔ مجھے بھی شروع میں پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ اس لیے کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا پاکستانی پائلٹ کی یونی فارم میں، مجھے بہت اچھا لگا۔ تو میں نے سوچا کہ میں پائلٹ بنوں گا۔ جب میں فرسٹ ایئر میں پہنچا تو میں نے بھی جی ڈی پائلٹ کے لیے اپلائی کر دیا۔ انٹرویو ہوا، اس میں سلیکٹ ہوا۔ پھر میڈیکل بھی ہو گیا ٹھیک ٹھاک ۔ پھر مجھے بلاوا آ گیا۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی نے آرمی جوائن کر لی تھی۔ تو میری والدہ کو ایک طرح کی پریشانی ہوئی۔ ایک بیٹا فوج میں چلا گیا، دوسرا بیٹا ایئر فورس میں جا رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ بہت اداس اور غم گین ہو گئیں۔ بل کہ یہاں تک کہ جب بلاوے کا کال آئی تو انھوں نے میرے کاغذات پھاڑ دیے اور بعد میں مجھے بتایا کہ بیٹا تمھیں وہاں نہیں جانا۔ والدین کی سوچ اپنی جگہ ہوتی ہے، خاص طور سے ماؤں کی۔” وہ مزید کہتے ہیں شاید مجھے شاعر بن کر شہرت کمانا تھی تو یہی ہوا۔

    احمد فراز کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ان کا سادہ اندازِ تحریر اور وہ سلاست ہے جس میں حد درجہ نزاکت اور لطافت پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ احمد فراز نے پہلا شعر کب کہا، اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد عید کے کپڑے لائے۔ فراز کو یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انھیں اپنے بھائی کے لیے خریدا گیا کپڑا زیادہ پسند آیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا:

    سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

    احمد فراز کی شاعری میں مزاحمتی رویے بھی بڑی شدت سے ملتے ہیں۔ انھوں نے ملک میں آمریت اور فوجی اقتدار کے خلاف کھل کر لکھا۔ ضیا دور میں فراز کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد میں فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ چھے سال تک برطانیہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہنے کے بعد وہ 1988ء میں پاکستان آئے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن چکی تھیں۔ فراز کو اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ کئی سال تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کے شعری مجموعوں میں ’’جاناں جاناں، نایافت، تنہا تنہا، سب آوازیں میری ہیں اور بے آواز گلی کوچوں میں‘‘ شامل ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔ جدید لب و لہجے کے اس خوب صورت شاعر کے کلام میں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل کے زیر اثر جنم لینے والے‌ خیالات اور جذبات بھی ملتے ہیں۔ وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے اور اس حوالے سے اپنی فکر اور نظریات کا شاعری میں بھی اظہار کیا ہے۔ احمد فراز کی چند غزلوں کو فلموں میں شامل کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں۔ خاص طور پر فلم ’’انگارے‘‘ اور ’’محبت‘‘ میں ان کی جو غزلیں شامل کی گئیں وہ کلاسک کا درجہ اختیار کر گئیں۔ مہدی حسن کی آواز میں ان کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہوگی:

    اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    فراز کی مشہور غزل کا مطلع جسے مہدی حسن نے گایا تھا

    رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے آ
    آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے آ

  • جانثار اختر: ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور فلمی صنعت کا بڑا نام

    جانثار اختر: ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور فلمی صنعت کا بڑا نام

    جانثار اختر کو ان کی فلمی شاعری کے علاوہ غزل اور نظم میں ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کے ایک ایسے شاعر تھے جنھوں‌ نے اہم سیاسی اور ادبی تحریکوں‌ اور نئے رجحانات کو دیکھا اور کئی بڑے ناموں کے درمیان اپنی شناخت اور پہچان بنائی۔

    18 فروری 1914 کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہونے والے جانثار اختر کو بیسویں صدی کا ایک اہم بھارتی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک کے رکن رہے اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ 19 اگست 1976 کو جانثار اختر ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    جانثار اختر کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد مظفر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں شاعر تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد جانثار اختر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا۔ 1943ء میں ان کی شادی معروف شاعر مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر تھے۔ آزادی کے بعد گوالیار میں فسادات پھوٹ پڑے تو جانثار اختر بھوپال منتقل ہو گئے۔ بھوپال میں انہوں نے حمیدیہ کالج میں اردو اور فارسی کے شعبے سنبھال لیے۔ بعد میں ان کی اہلیہ صفیہ بھی حمیدیہ کالج سے وابستہ ہو گئیں۔ جلد ہی دونوں میاں بیوی تحریک ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گئے۔ جانثار اختر کو اس تحریک کا صدر بنا دیا گیا۔ 1949ء میں انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی چلے گئے۔

    ممبئی جانثار اختر نے فلمی گیت لکھنا شروع کیا جہاں ان کی ملاقات ملک راج آنند کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے ترقی پسند ادیبوں سے ہوئی۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور خاص طور پر ان کے وہ خطوط بہت مشہور ہوئے جو انہوں نے اپنی بیوی صفیہ کے نام لکھے تھے۔ ان خطوط کے مجموعے 1955 میں شائع ہوئے۔

    شاعری کی بات کی جائے تو جانثار اختر کے ہاں معروضی صداقتوں کا برملا اظہار ملتا ہے اور ان کے اشعار میں رومانویت بھی ملتی ہے۔ جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’سلاسل‘‘، ’’جاوداں‘‘، ’’پچھلی پہر‘‘، ’’گھر آنگن‘‘ اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔ ’’خاک دل‘‘ وہ مجموعہ ہے جس پر انہیں 1976 میں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔

    اس شاعر کو اے آر کاردار کی فلم ’’یاسمین‘‘ کے نغمات سے شہرت ملی۔ بعد میں‌ انہوں نے 1967 میں بہو بیگم کے نام سے فلم بنائی اس فلم کا اسکرپٹ بھی خود لکھا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی دوسری فلموں کے اسکرپٹ اور مکالمے بھی لکھے تھے جو بہت کام یاب رہیں۔

  • شاذ تمکنت: دکن کا انمول رتن

    شاذ تمکنت: دکن کا انمول رتن

    شاذ تمکنت اردو کے نظم گو شعرا میں ایک مقبول نام ہے جن کا کلام اپنے وقت کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ شاذ برصغیر کی مرفّہ الحال ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور شاعر تھے۔

    اس شاعر کا اصل نام سیّد مصلح الدّین تھا اور ان کو شاذ تمکنت کے نام سے ادبی دنیا میں پہچان ملی۔ شاذ 31 جنوری 1933ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد نظامِ دکن کے ہاں ملازم تھے۔ افتادِ دوراں نے والدین کو زندگی بسر کرنے کی زیادہ مہلت نہ دی۔ شاذ تمکنت نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور کم عمری میں‌ شاعری کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس دور میں‌ ہندوستان میں کئی سیاسی تحریکیں چل رہی تھیں‌ اور معاشرہ بھی طرح‌ طرح‌ کی تبدیلیو‌ں سے گزر رہا تھا جب کہ اردو ادب ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تھا جو بڑی حد تک کم بھی ہو رہا تھا۔ افسانہ و مختصر کہانیوں کا سلسلہ نئے موضوعات کے ساتھ جاری تھا، انقلاب آفریں نغمات لکھے جارہے تھے اور تنقید کے میدان میں مختلف رجحانات کا زور تھا۔ شاذ تمکنت نے اسی ماحول میں روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ بجائے خود ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔

    آج شاذ کی برسی ہے۔ وہ 18 اگست 1985ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    نظم کے ساتھ شاذ کی غزلوں میں بھی ذاتی زندگی کے تجربات اور دکھ درد ملتے ہیں، مگر ان کے اشعار میں یہ سب زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ شاذ تمکنت نے جب شعر کہنا شروع کیا، ترقی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے عوامی مصنفین کا چولا بدلا تھا۔ شاذ تمکنت بھی اسی سے وابستہ ہوئے لیکن ترقی پسند تحریک کی ادعائیت سے خود کو دور رکھا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کرنے والے شاذ تمکنت نے اپنے دور کے دو بڑے شاعروں جوش اور فراق سے اکتسابِ ہنر کیا اور بہت جلد اپنا طرزِ اظہار الگ کر لیا۔ وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے پیش لفظ میں اپنا نظریۂ فن یوں بیان کرتے ہیں: میں غمِ ذات اور غمِ کائنات کو علاحدہ علاحدہ خانوں میں نہیں بانٹتا بلکہ میری دانست میں غمِ ذات عبارت ہوتا ہے، غمِ کائنات سے۔ ایک فرد کا غم اس کا ا پنا ہوتے ہوئے بھی درپردہ افراد کے دکھ سکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ کائنات کے خارجی موضوعات بھی اس وقت تک کام یاب شعر کا جامہ نہیں پہن پاتے جب تک کہ اس میں شخصیت کا غم ذات کا پُٹ نہ ہو۔ میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ، اوّل اوّل فن کار اپنی تسکین کے لیے، اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ متاعِ ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہلِ دہر کا قیاس کرے۔

    اردو شاعری کی محبوب صنف یعنی غزل اور نظم کے علاوہ شاذ تمکنت نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ غالب اور اقبال کی غزلوں پر تضمین کے علاوہ شاذ تمکنت کے ذخیرۂ کلام میں قطعات، گیت، نعت، اور مناجات بھی شامل ہیں۔

    شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں، لیکن غزل میں بھی ان کی منفرد شناخت ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں کا نمایاں وصف مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزوِ لاینفک ہیں۔ مرحوم کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں۔ آخری مجموعۂ کلام بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا تھا۔ شاذ تمکنت کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
    تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

    اس شاعر کی ایک مناجات "کب تک مرے مولا ” بہت مقبول رہی ہے اور اسے ہندوستان کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ شاذ تمکنت کا ایک گیت ”سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” بھی پاک و ہند کے معروف گلوکاروں کی آواز میں مقبول ہوا تھا۔

    شاعر اور نثر نگار رؤف خیر نے اپنے خاکہ اور شخصی تذکرے پر مبنی تحریر میں بعنوان ‘دکن کا انمول رتن: شاذ تمکنت’ ان کے بارے میں لکھا ہے، اردو میں شاذ تمکنت اک ایسا نام ہے جو شعر ادب کے طالب علم کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوسکتا۔ جب کبھی حیدرآباد کے سرکردہ شعراء کا ذکر چھڑے گا شاذ تمکنت کا نام ضرور لیا جائے گا۔ انہوں نے غزل کو اس کے لغوی معنوں سے دور ہونے نہیں دیا۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے بار بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اک خوب رو عاشق خوب صورت محبوبہ کی خدمت میں خوش سخنی کے جوہر دکھا رہا ہے۔

    شاذ تمکنت خوب صورت شخصیت کے مالک تو تھے ہی خوش لباس و خوش اطوار بھی تھے۔ ان سے مل کر کوئی شخص کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا۔ شاذ میں محبوبانہ ادائیں اور محبانہ صلاحیتیں دونوں متوازی چلتی تھیں۔ وہ اپنے ملنے والوں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ خوش گفتاری تو جیسے شاذ پر ختم تھی۔ وہ حیدرآباد ی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ ہر شخص شاذ کو پسند کرتا تھا۔ اور ان کے چاہنے والوں میں خود شاذ بھی شامل تھے۔ انھیں اپنے آپ سے عشق تھا۔ وہ اپنی غزل کے عاشق تھے۔ انھیں اپنی نظمیں بھی محبوب تھیں۔ اپنی ذات اور اپنی تخلیق کسے پیاری نہیں ہوتی۔ وہ شعر و ادب کو محض شعر و ادب سمجھتے تھے اور مقصدیت اور پروپیگنڈے سے ماوراء۔

  • تسلیم فاضلی: بے مثال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    تسلیم فاضلی: بے مثال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے لیے بے مثال نغمات تخلیق کرنے والے تسلیم فاضلی نے فلم انڈسٹری میں بڑا نام و مقام پایا۔ بحیثیت نغمہ نگار جس تیزی سے انھوں نے شہرت اور مقبولیت کا سفر طے کیا، اسی تیزی سے زندگی کا ساتھ بھی چھوڑ دیا۔ تسلیم فاضلی 17 اگست 1982 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے اور ان کے گھر میں‌ اپنے وقت کے مشاہیر اور جید اہل قلم کا آنا جانا لگا رہتا تھا جن میں شکیل ؔ بدایونی، جگر ؔمراد آبادی اور جانثار ؔ اختر وغیرہ شامل تھے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر ادبی مجالس اور مشاعروں میں بھی جاتے رہتے تھے جس نے تسلیم فاضلی کو لکھنے پڑھنے کی طرف مائل کیا اور وہ شعر موزوں کرنے لگے۔ تقسیم کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔

    کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد تسلیم ؔفاضلی نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے انٹر سائنس پھر اسلام آباد سے فنون میں بی اے کیا۔ اس عرصے شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا پھر اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے پاکستان کی معروف فلمی اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    انھوں نے سادہ اور عام فہم شاعری کی اور یہ فلمی گیت بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت میں ان کی ایک غزل شامل کی گئی تھی جو آج بھی بہت مقبول ہے۔ اس کا مطلع ہے:

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور یہی وہ گیت تھا جس کے بعد تسلیم فاضلی کو کئی فلموں کے لیے نغمات لکھنے پیشکش کی گئی۔ لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا اور انھیں صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ ان کے چند گیت پاکستانی فلم انڈسٹری کے کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے، ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا، مجھے دل سے نہ بھلانا، کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی…..جیسے کئی فلمی گیت لازوال ثابت ہوئے اور یہ وہ نغمات ہیں جنھیں‌ ہر دور میں سنا گیا اور سراہا گیا۔

    تسلیم فاضلی اپنی اسی سدا بہار اور بے مثال شاعری کی بدولت آج بھی ہمارے دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔

  • سیف الدین سیف: لازوال فلمی نغمات کا خالق

    سیف الدین سیف: لازوال فلمی نغمات کا خالق

    شاعری سیف الدین سیف کا بنیادی حوالہ اور ان کا تعارف ہے، لیکن بطور فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف ان کی فلم کرتار سنگھ (1959ء) انھیں ایک قابل اور باکمال فن کار ثابت کرتی ہے۔ سیف ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی فکر اور خیالات سے زندگی کو آسودگی بخشی اور اظہار و ابلاغ کی نئی نئی راہیں بھی تراشی ہیں۔

    سیف الدین سیف 12 جولائی 1993ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا جہاں وہ 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں کے ایک گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیا جہاں اس وقت پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض تھے ان عالی دماغ اور بلند قامت شخصیات کی قربت نے سیف الدین سیف میں علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔

    سیف الدین سیف کو شروع ہی سے شاعری سے لگاؤ تھا اور کالج کے زمانے میں وہ شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا فلمی دنیا سے بطور گیت نگار تعلق جڑ گیا تھا، مگر اتفاق ہے کہ وہ فلمیں ریلیز نہ ہو سکیں۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انھوں نے فلموں کے لیے مکالمے لکھنا شروع کیے۔ یہی ان کا ذریعۂ معاش تھا، لیکن شہرت اور مقبولیت بحیثیت گیت نگار پائی۔ وہ ایک عمدہ غزل گو شاعر بھی تھے اور مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ رباعی اور طویل و مختصر نظمیں کہنے والے سیف الدین سیف کو ذاتی طور پر غزل گوئی پسند رہی۔

    سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جسے پہلی پاکستانی فلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فلم کے لیے چار گیت لکھے تھے۔ ان کا پہلا گیت جو سپر ہٹ ثابت ہوا اس کے بول تھے، "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے…. ان کے مقبول ترین فلمی گیت ہیں۔ مشہورِ زمانہ امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا تخلیق کردہ ہے۔ ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے سیف الدین سیف کو سب سے زیادہ شہرت فلم ’’گمنام‘‘ کے گیت ’’تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘‘ سے ملی جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔

    سیف الدین سیف لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شیفتہ:‌ قادرالکلام شاعر جن کے متعدد اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    شیفتہ:‌ قادرالکلام شاعر جن کے متعدد اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    محمد مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کی شعر گوئی ہی نہیں ان کی سخن فہمی بھی مشہور ہے۔ وہ شعر و سخن کا ایسا اعلٰی مذاق رکھتے تھے کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب بھی ان سے پسندیدگی کی سند لے کر اپنے دیوان میں کوئی شعر شامل کرتے تھے۔ آج اردو کے معروف شاعر اور غالب کے اس محسن کی برسی ہے۔

    نواب مصطفیٰ خان متخلص بہ شیفتہؔ کے بارے میں‌ مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ شیفتہؔ سخن فہم ہی نہیں زبان و بیان پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ شیفتہ قادرُالکلام شاعر تھے۔ ان کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ نثر بھی خوب لکھی ہے۔ شیفتہ کو اردو اور فارسی زبان میں کامل دستگاہ تھی۔ مولانا حالیؔ نے بھی شیفتہ کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا جو اپنے علمی و تحقیقی کاموں اور ادبی تخلیقات کے سبب ہندوستان میں مشہور ہیں۔

    غالب کی وفات کے چند ماہ بعد 1869ء میں نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ بھی آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اور متأخرین شعرا میں شیفتہ اُن اصحاب میں سے ایک ہیں‌ جن کی رائے اہلِ قلم کے نزدیک سند کا درجہ رکھتی ہے۔ مرزا غالب کے علاوہ بھی معاصر شخصیات شیفتہ کے مذاقِ سخن اور نکتہ رسی کی معترف رہی ہیں۔

    شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا۔ ان کا سنہ پیدائش 1809ء بتایا جاتا ہے۔ شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور الطاف حسین حالی کو غالب سے انھوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے دواوین کے علاوہ ان کا سفرنامۂ حجاز بھی مشہور ہے جب کہ گلشنِ بے خار وہ کتاب ہے جو کلاسیکی ادب میں اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے جس میں‌ شعرا کے تذکرے کے ساتھ شاعری پر تنقیدی رائے شامل ہے۔ فارسی زبان میں شیفتہ کی یہ تنقید دقّتِ نظر کی حامل ہے۔

    ان کا سفرنامۂ حجاز ایک مقبول کتاب رہی ہے اور خاص طور پر وہ واقعات جو اُس افتاد اور مسافروں کے عالمِ بیچارگی سے جڑے ہیں کہ جب ان کا بحری جہاز تباہ ہو گیا لیکن حادثہ میں تمام مسافر زندہ بچ گئے۔ شیفتہ 1839ء میں اس بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے۔ بعد میں انھوں نے اس سفر پر فارسی زبان میں ’ترغیب المسالک الی احسن المسالک‘ نامی کتابچہ لکھا جس کا ایک اور نام ’رہَ آورد‘ بھی ہے۔ اسے ہندوستان کے اوّلین سفر ناموں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ شیفتہ کی اس کتاب کو پڑھ کر ایک طرف تو اس دور کے حجاز کے مقامات مقدسہ اور یمن کے حالات، معاشرت اور ثقافت سے آگاہی ہوتی ہے، اور دوسری طرف بحری جہاز کی تباہی کے بعد مسافروں‌ کے ایک بے آب و گیاہ اور گمنام جزیرے پر پناہ کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی سبق آموز ہیں۔ شیفتہ نے لکھا ہے کہ اس جزیرے پر بھوک پیاس مٹانے کو کچھ نہ تھا اور طوفانی ہواؤں کے ساتھ انھیں اور دیگر مسافروں کو موت کے منہ میں چلے جانے کا خوف بھی تھا۔ لیکن پھر ہمّت کر کے مسافروں میں سے چند ایک چھوٹی کشتی پر ساحل کی تلاش میں نکلے اور کئی روز بعد امداد پہنچی اور سب کو بخیریت جزیرے سے نکال لیا گیا۔

    نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی کو اردو ادب میں بہترین غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی گیت نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ نصف صدی پر محیط اپنے فلمی کیریئر کے دوران انھوں نے کئی گیت تحریر کیے جو یادگار ثابت ہوئے۔ آج بھی قتیل شفائی کی فلمی شاعری مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہماری سماعتوں میں رس گھول رہی ہے۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا۔ وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ قتیل شفائی ایک پسماندہ علاقے کے ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے جس میں علم و ادب سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ قتیل شفائی نے معاش کے لیے ابتداً جو کوششیں کیں، ان میں کھیل کے سامان کی دکان کے علاوہ راولپنڈی جاکر ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے لگاؤ رکھتے تھے اور اسی سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    بعد میں‌ قتیل شفائی لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں فلمی دنیا میں بطور گیت نگار قدم رکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عمر کے آخری برسوں میں بھارتی فلموں کے لیے بھی کئی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ شامل ہیں۔ اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    قیام پاکستان کے بعد یہاں بننے والی پہلی فلم ’تیری یاد‘ تھی اور اسی فلم سے قتیل شفائی نے اپنی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کے تحریر کردہ فلمی نغمات سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور پھر انھیں بولی وڈ کے لیے بھی لکھنے کا موقع دیا گیا۔ قتیل شفائی کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے مقبول ترین نغمات میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار قتیل شفائی کو ان کی ادبی خدمات اور فلمی دنیا کے لیے بہترین کام پر کئی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی بھی تحریر کی تھی جس میں وہ لکھتے ہیں‌، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی، پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    اپنے والدین اور اپنی پیدائش سے متعلق وہ لکھتے ہیں، میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ یوں ان کے والد نے مجبوراً دوسری شادی کی جس سے ان کو خدا نے ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا اور ان میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں (والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    قتیل شفائی کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا۔ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا تھا۔ اسی نام سے وہ اردو ادب اور فلمی دنیا میں پہچانے گئے۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • خاطر غزنوی: اردو، ہندکو کے شاعر اور نثر نگار

    خاطر غزنوی: اردو، ہندکو کے شاعر اور نثر نگار

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    جدید اردو اور ہندکو شاعری اور اردو نثر کے منفرد تخلیق کار خاطر غزنوی کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا اور پڑھا ہو گا۔ آج خاطر غزنوی کی برسی ہے۔ 7 جولائی 2008ء کو وفات پانے والے خاطر غزنوی پشاور میں آسودۂ خاک ہیں۔

    خوب صورت شاعری اور تحقیقی و تخلیقی نثر پر مشتمل متعدد کتابوں کے مصنّف خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ وہ 5 نومبر 1925ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ خاطر غزنوی نے اردو کے ساتھ ہندکو زبان میں شاعری کے علاوہ بہت سا علمی و تحقیقی کام بھی کیا۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، پشاور سے ہوا تھا۔ بعدازاں اردو میں ایم اے کی سند کیا اور پشتو کے ساتھ چینی زبان میں‌ اسناد حاصل کیں۔ ادبی سرگرمیوں اور تخلیقی کاموں کے ساتھ تدریس کا پیشے اختیار کیا اور پشاور یونیورسٹی میں چینی زبان پڑھانے لگے۔ خاطر غزنوی چند اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ ایک قابل اور منفرد تخلیق کار تھے جنھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ 1984 میں خاطر غزنوی اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مقرر کیے گئے۔ ان کی ادبی سرگرمیوں کے ساتھ تخلیقی سفر کی بات کی جائے تو شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثری کتب میں زندگی کے لیے، پھول اور پتھر، چٹانیں اور رومان، خوش حال نامہ، چین نامہ، اصناف ادب، ایک کمرہ شامل ہیں۔ خاطر غزنوی کو ڈرامہ نگار اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے بھی پہچان ملی۔

    خاطر غزنوی کی شاعری کے ساتھ شخصی خاکے بھی یادگار ہیں۔ اس صنف میں اپنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے انھوں نے خاص طور پر صوبۂ سرحد (خیبرپختون خوا) سے تعلق رکھنے والے شعرا اور ادیبوں کے شاہکار خاکے لکھے۔ ان شخصیات میں سیّد ضیاء جعفری، قتیل شفائی، فارغ بخاری، رضا ہمدانی، غنی خان، مرتضیٰ جعفری شامل ہیں۔ خاطرؔ غزنوی کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرا اور وسیع تھا اور وہ مردم شناس بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تحریر کردہ خاکے ان کے ہم عصروں کی جیتی جاگتی تصویر معلوم ہوتے ہیں۔

    بحیثیت شاعر خاطر غزنوی کی غزلیں اور نظمیں جدید طرز احساس کی نمائندگی کرتی ہیں۔ خاطر غزنوی نے غم جاناں اور غم دوراں کو خوبصورتی سے اپنے اشعار میں‌ سمویا ہے۔ ان کا کلام سادہ اور احساسات کا نمونہ ہے۔

    ان کا ایک شعر ہے:
    قطرے کی جرأتوں نے صدف سے لیا خراج
    دریا سمندروں میں ملے اور مر گئے