Tag: شاعر برسی

  • "نہ جنوں رہا نہ پری رہی….” سراج اورنگ آبادی کا تذکرہ

    "نہ جنوں رہا نہ پری رہی….” سراج اورنگ آبادی کا تذکرہ

    اردو شاعری کے کلاسیکی دور کا ایک نام سراج اورنگ آبادی کا ہے جنھیں‌ صوفی شاعر بھی کہا جاتا ہے ان کی ایک غزل کا مطلع دیکھیے

    خبرِ تحیرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
    نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

    اردو زبان کے ادیبوں اور شعرا نے اپنی کتابوں کے نام اس شعر سے مستعار لیے اور ٹیلی وژن ڈراموں کے لیے بھی ان دو مصرعوں سے نام چنا گیا۔ سراج اورنگ آبادی کی یہ غزل کئی مشہور اور بڑے گلوکاروں نے گائی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔

    سراج اورنگ آبادی ایک بڑے اور منفرد شاعر تھے جن کے کلام کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ آج بھی زندہ ہے اور اس کی زبان برسوں بیت جانے کے باوجود تازہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کا سنِ پیدائش 1712ء اور یومِ‌ وفات 6 اپریل 1764ء ہے۔

    سراج کا پورا نام میر سراج الدّین تھا۔ والد نے ان کی تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دی تھی۔ بارہ سال کی عمر تک سراج متداول علوم کی تحصیل میں مصرف رہے۔ اور تمام فارسی اساتذہ کا کلام پڑھ ڈالا۔ مشہور ہے کہ اسی زمانے میں وہ صوفی بزرگ برہان الدّین کے مزار پر جانے لگے اور رفتہ رفتہ ان کی حالت ایک مجذوب کی سی ہوگئی۔ انھیں گھر میں قید رکھنا پڑا اور یہ حالت سات سال تک رہی۔ بعد میں انھوں نے اس دور کے ایک جیّد بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسی زمانے میں شاعری کا آغاز کیا۔ سراج کی کلیات میں غزلیں، قصیدے، رباعیات اور مثنوی شامل ہیں۔ لیکن وہ اپنی مثنوی’بوستانِ خیال’ اور اپنی غزلوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

    سراج کی شاعری اردو میں عشقیہ شاعری کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ سراج کا معاملہ رہا کہ وہ ایک صوفی اور درویش بن گئے تھے اور اسی لیے ان کے ہاں وارفتگی، سوز و گداز، کیف و سرمستی اور وجد کا عالم نظر آتا ہے جس میں عشق اور پاکیزگی اپنی انتہا پر ہے۔

    سراج کی شاعری میں زبان اور اسلوب، رنگِ تغزل، بے تکلفی، بے ساختگی اور سلاست پائی جاتی ہے۔ سراج کی زبان اپنے تمام ہم عصروں کے مقابلے میں‌ آج بھی زیادہ تازہ نظر آتی ہے۔

    سراج اورنگ آبادی کی مشہور غزل پیشِ خدمت ہے۔

    خبرِ تحیّرِ عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
    نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

    شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباسِ برہنگی
    نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

    چلی سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
    مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہو سو ہری رہی

    نظرِ تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
    کہ شراب صد قدح آرزو خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

    وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
    کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

    کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراجؔ کوں
    نہ خطر رہا نہ حذر رہا، مگر ایک بے خطری رہی

  • عبدُالحمید عدم: قادرُالکلام، مقبولِ عام شاعر

    عبدُالحمید عدم: قادرُالکلام، مقبولِ عام شاعر

    عدم کا شمار اردو کے چند مقبول ترین غزل گو شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ سہلِ ممتنع کے ساتھ سادہ مگر نہایت دل نشیں پیرایۂ اظہار عدم کی پہچان ہے۔

    ’’نقشِ دوام‘‘ عدم کا اوّلین مجموعۂ کلام تھا۔ بعد میں ان کی شاعری ’خرابات‘، ’چارۂ درد‘، ’زلفِ پریشاں‘، ’سروسمن‘، ’گردشِ جام‘، ’شہرِ خوباں‘، ’گلنار‘، ’عکسِ جام‘، ’رم آہو‘، ’سازِ صدف‘، اور ’رنگ و آہنگ‘کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوئی۔

    عبدالحمید ان کا نام تھا اور تخلّص عدم۔ انھوں نے 10 مارچ 1981ء کو لاہور میں وفات پائی۔ آج عدم کی برسی ہے۔ اس قادرُ الکلام اور زود گو شاعر نے اپریل 1910ء کو تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ میں آنکھ کھولی۔ تعلیم وتربیت لاہور میں ہوئی۔ بی اے پاس کیا اور ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے میں ملازم ہوگئے۔ وہ اکاؤنٹس افسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    اوائلِ عمر ہی سے عدم کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ اسی شوق میں ان پر کھلا کہ وہ موزوں طبع ہیں اور شاعری کا آغاز کیا تو داخلی جذبات اور رومانوی خیالات کے ساتھ غمِ دوراں کو نہایت پُرسوز انداز میں‌ اپنے اشعار میں‌ پروتے چلے گئے جس نے انھیں‌ عوام میں‌ مقبول بنا دیا۔ رندی و سرمستی کے مضامین ان کی شاعری میں‌ جا بجا ملتے ہیں جو روایتی نہیں‌ بلکہ معنی آفرینی اور ندرتِ خیال کے سبب مشہور ہیں۔

    عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی نے بھی عبدالحمید عدم کا کلام گایا ہے جس میں ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، یہ تیری نظر کا قصور ہے….‘‘ سب سے مشہور ہے۔ اسی طرح طاہرہ سیّد کی آواز میں ان کی غزل ’’ وہ باتیں‌ تری وہ فسانے ترے، شگفتہ شگفتہ بہانے ترے‘‘ بہت مشہور ہوئی۔ عدم کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کی غزلیں فلم کے لیے بھی ریکارڈ کی گئیں۔

    عبدُالحمید عدم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    وہی شے مقصد‌ِ قلب و نظر محسوس ہوتی ہے
    کمی جس کی برابر عمر بھر محسوس ہوتی ہے

    ہم نے تمہارے بعد نہ رکھی کسی سے آس
    اک تجربہ بہت تھا بڑے کام آ گیا

  • اردو غزل کو نئی تب و تاب بخشنے والے ناصر کاظمی کا تذکرہ

    اردو غزل کو نئی تب و تاب بخشنے والے ناصر کاظمی کا تذکرہ

    ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی طرزِ ادا کی برجستگی اور ندرت سے سنورا اور اپنے تخلیقی جوہر سے دوسروں کو حیران کیا۔ احساسِ تحیّر اور سوز و تپش ان کی شاعری کا وہ رنگ ہے، جو انھیں اپنے دور کا منفرد غزل گو بناتا ہے۔ آج اردو کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    حسن و عشق کے موضوعات اور اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیاں، محرومیاں اور دکھ، حسرتیں، یاسیت اور میّسر آجانے والے خوشی کے لمحات کا بیان ناصر کی شاعری میں بڑی شدّت سے مگر انفرادیت کے ساتھ ملتا ہے۔ وہ روایتی شاعری سے مںحرف ہوئے بغیر اپنے کلام کو جدید رنگ میں ڈھالتے ہوئے نئے لب و لہجے سے آشنا کرتے چلے گئے، جو عام فہم اور نہایت دل نشیں‌ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی حلقوں‌ میں‌ مقبول اور ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
    جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ آزادی کے بعد کسمپرسی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    ناصرکاظمی 2 مارچ 1972ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شاعرِ آخر الزّماں جوش ملیح آبادی کا یومِ‌ وفات

    شاعرِ آخر الزّماں جوش ملیح آبادی کا یومِ‌ وفات

    شبیر حسن خاں کو جہانِ ادب میں جوشؔ ملیح آبادی کے نام سے شہرت حاصل ہے جن کے پَر دادا صاحبِ دیوان شاعر، دادا شعر و ادب کے شائق جب کہ والد بھی سخن وَر تھے۔ ان کی دادی مرزا غالب کے خاندان سے تھیں اور جوش کے خاندان کی خواتین بھی نہایت باذوق اور عروض بھی جانتی تھیں۔ اس ماحول کے پروردہ شبیر حسن خاں بھی شاعر ہوئے اور خوب نام پیدا کیا۔

    جوش نے کہا تھا،
    شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
    یہ مِرا فنِ خاندانی ہے

    ہندوستان کے ملیح آباد میں 1898 کوپیدا ہونے والے جوشؔ کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ لیکن انھوں نے نظم ہی نہیں نثر دونوں میں بھی کمال حاصل کیا۔ اردو ادب میں انھیں قادرُالکلام شاعر اور باکمال نثر نگارکہا جاتا ہے۔ 22 فروری 1982 جوش کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق تعلیم یافتہ اور علم و ادب کے رسیا گھرانے سے تھا، اسی لیے ابتدائی عمر ہی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ جوش نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور بعد میں مضامین کا اردو ترجمہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ فلم نگری سے وابستگی تک پھیل گیا۔ اس دوران فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریرکیے اور گیت بھی لکھے، لیکن طبیعت میں ٹھیراؤ نہ تھا۔ اس نے انھیں کہیں ٹکنے نہ دیا۔ نظام حیدر آباد میر عثمان علی خاں نے دارالترجمہ میں رکھ لیا، لیکن مزاج کی کج روی اور متنازع باتوں کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    پاکستان میں اردو بورڈ سے منسلک ہوئے لیکن اختلافات کے بعد سبک دوش ہونا پڑا۔ اس عرصے میں شاعری کا تو خوب شہرہ ہوا، لیکن وہ اپنے خیالات اور رجحانات کی وجہ سے متنازع اور ناپسندیدہ بھی رہے۔ جوش نے غزل ہی نہیں نظموں اور رباعیات میں بھی کمال دکھایا۔ مرثیہ گوئی میں خود کو منوایا اور اس صنفِ سخن کا حق ادا کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو شامل ہیں۔

    یادوں کی بارات جوش کی خود نوشت ہے جس کے متعدد ابواب تنازع و اختلاف کا سبب بنے۔ یہ کتاب ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی موضوعِ بحث بنی ۔ دیگر نثری کتب میں مقالات زریں، اوراق سحر اور ارشادات شامل ہیں۔

    جوشؔ کے چند اشعار پڑھیے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
    چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

    نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا لیکن
    ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
    اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے
    اچھے تو کیا برے سے بھی نفرت نہ چاہیے

  • جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

    جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

    جمال احسانی نے محبّت کرنے والوں کو ایک نیا راستہ یوں دکھایا تھا۔

    یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
    بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

    جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل کے روایتی موضوعات کو خوب صورت تشبیہات اور استعارے سے سجاتے ہوئے تازگی عطا کرنے والے ممتاز شاعر جمال احسانی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو دارِ بقا کو لوٹ گئے تھے۔

    جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا اور ان کا تخلّص جمال۔ شعروادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت اور مقام بھی ملا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تھا جو تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل اور مشہور علاقہ ہے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ اس وقت تک ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے کیوں کہ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے۔ ان روزناموں‌ میں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں جمال احسانی نے اپنی تخلیقات کی وجہ سے پہچان حاصل کرنا شروع کی اور جلد ان کا شمار اہم غزل گو شعرا میں ہونے لگا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • مرزا غالب کے بڑے مخالف یگانہ چنگیزی کا تذکرہ

    مرزا غالب کے بڑے مخالف یگانہ چنگیزی کا تذکرہ

    یگانہ چنگیزی یوں تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، لیکن مرزا غالب کی مخالفت کی وجہ سے انھیں‌ خاص شہرت حاصل ہوئی۔ وہ ایک قادرُ الکلام شاعر تھے جس نے اپنے زمانے کے رائج ادبی تصوّرات اور شعری روایات کو مسترد کردیا اور جدید غزل کے لیے راستہ ہموار کیا۔

    بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی، سماجی اور فرد کے داخلی مسائل کو غزل میں‌ پیش کرنے والے یگانہ چنگیزی 4 فروری 1956ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    یگانہ کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ وہ 17 اکتوبر 1884ء کو صوبہ بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو ابتدائی زمانے میں یاس تخلّص رکھا، بعد میں یگانہ کے نام سے پہچان بنائی۔ متعدد شہروں میں قیام رہا اور پھر 1904ء میں وہ لکھنؤ ہجرت کرگئے جہاں زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    اس دور میں لکھنؤ میں مشاعروں اور ادبی محافل کا انعقاد عام تھا، لیکن یگانہ کے مزاج نے انھیں سبھی سے دور رہنے پر مجبور رکھا۔ وہ مرزا غالب جیسے مشہور شاعر پر بھی اعتراض اور ان کی مخالفت کرتے رہے۔ تاہم اس سے یگانہ کی شعر گوئی اور ان کے فن کی اہمیت کم نہیں‌ ہوتی۔ وہ اردو زبان کے ایسے شاعر ہیں جس نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں تجربات کیے اور اسے نیا راستہ دکھایا۔

    یگانہ نے اپنی زندگی کا آخری حصّہ لکھنؤ میں بڑی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیا۔ ان کے شعری مجموعے نشترِ یاس، آیاتِ وجدانی، ترانہ اور گنجینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    یگانہ لکھنؤ میں کربلائے منشی تفضل حسین (وکٹوریہ گنج) میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    خودی کا نشّہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
    خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

    ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
    دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

    مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
    ہمیں سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

  • دلاور فگار کا تذکرہ جو "صرف ظرافت نگار ہیں!”

    دلاور فگار کا تذکرہ جو "صرف ظرافت نگار ہیں!”

    کراچی میں‌ پاپوش کے قبرستان میں دلاور فگار کی قبر کے کتبے پر ان کا یومِ‌ وفات 21 جنوری 1998ء درج ہے۔ یہ وہی دلاور فگار ہیں جنھیں شہنشاہِ طنز و مزاح کہا جاتا ہے۔ آج اردو کے مقبول مزاح گو شاعر کی برسی ہے۔

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار نے نہایت خوبی سے عام آدمی کے مسائل کو قہقہوں کی پوشاک پہناتے ہوئے اربابِ‌ حلّ و عقد پر طنز کے تیر برسائے اور ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کی۔ دلاور فگار کا مزاح سخت اور کھردرا نہیں‌ بلکہ یہ خوش دلی اور خوش مذاقی پر منبی ہے۔ ان کے طنزیہ اشعار بھی تہذیب اور شرافت کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
    میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے شباب بدایون کے تخلّص سے سنجیدہ شاعری بھی کی اور ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ 1954ء شایع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام حادثہ تھا۔ بعد میں انھوں نے تخلّص ہی نہیں اپنا ذوق و طرزِ شاعری ہی بدل لیا اور طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار مشہور ہوئے۔ وہ اس وقت تک بھارت میں مقیم تھے۔

    ان کا خاندانی نام دلاور حسین تھا۔ 1928ء میں بدایوں کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ 1942ء میں ہائی اسکول کے امتحان کام یاب ہوئے۔ والد مقامی اسلامیہ اسکول میں استاد تھے۔ دلاور حسین اس وقت اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن بعد میں ایم اے کے سند یافتہ ہوگئے۔ کم عمر تھے جب ایک ڈاک خانے میں کام کرنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں علم و ادب کا شوق ہوا اور شاعری شروع کی اور بدایوں کے مشاعروں میں پہچان بنانے لگے مگر شباب بدایوں کے نام سے۔ وہ لہک لہک کر اپنی غزلیں سنایا کرتے تھے۔

    دس جماعتیں پڑھ لینے کے چار سال بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور بریلی کالج گئے جہاں سے معلّمی کا ڈپلومہ بھی لے لیا اور والد کے سایۂ عاطفت سے محرومی کے بعد 1950ء میں ٹیچنگ شروع کردی۔ 1953ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے۔ 1966ء انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ یہ ان کا بھارت میں تعلیمی اور ادبی سفر تھا جس کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں مقیم ہوئے۔

    کراچی میں دلاور فگار کو عبد اﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اس وقت وہاں پرنسپل تھے۔ شہرِ قائد کے مشاعروں میں دلاور فگار شریک ہوتے اور اپنی مزاحیہ شاعری سے سامعین کو قہقہے لگانے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ انھیں مسائل کا ادراک کرواتے اور آمادہ کرتے کہ وہ اپنے لیے غوروفکر کریں۔

    ان کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی”، "ستم ظریفیاں”، "آداب عرض”، "شامتِ اعمال”، "مطلع عرض ہے”، "خدا جھوٹ نہ بلوائے”، "چراغِ خنداں” اور "کہا سنا معاف کرنا” شامل ہیں۔ مرحوم نے جمی کارٹر کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    یہاں ہم ان کی ایک مشہور ترین نظم نقل کررہے ہیں جس پر انھیں ادیبوں اور شعرا نے بھی خوب داد دی اور ان کے فن اور نکتہ رسی کو سراہا۔

    "شاعرِ اعظم”
    کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
    کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں

    کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
    وہ کون ہے کہ شاعرِ اعظم جسے کہیں

    میں نے کہا جگرؔ، تو کہا ڈیڈ ہو چکے
    میں نے کہا کہ جوشؔ کہا قدر کھو چکے

    میں نے کہا ندیمؔ تو بولے کہ جرنلسٹ
    میں نے کہا رئیسؔ تو بولے سٹائرسٹ

    میں نے کہا کہ حضرت ماہرؔ بھی خوب ہیں
    کہنے لگے کہ ان کے یہاں بھی عیوب ہیں

    میں نے کہا کچھ اور تو بولے کہ چپ رہو
    میں چپ رہا تو کہنے لگے اور کچھ کہو

    میں نے کہا کہ ساحرؔ و مجروحؔ و جاں نثارؔ
    بولے کہ شاعروں میں نہ کیجے انہیں شمار

    میں نے کہا کلامِ روشؔ لا جواب ہے
    کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے

    میں نے کہا ترنمِ انورؔ پسند ہے
    کہنے لگے کہ ان کا وطن دیو بند ہے

    میں نے کہا کہ ان کی غزل صاف و پاک ہے
    بولے کہ ان کی شکل بڑی خوف ناک ہے

    میں نے کہا کہ یہ جو ہیں محشرؔ عنایتی؟
    کہنے لگے کہ رنگ ہے ان کا روایتی

    میں نے کہا قمرؔ کا تغزل ہے دل نشیں
    کہنے لگے کہ ان میں تو کچھ جان ہی نہیں

    میں نے کہا فرازؔ تو بولے کہ زیر و بم
    میں نے کہا عدمؔ تو کہا وہ بھی کالعدم

    میں نے کہا خمارؔ، کہا فن میں کچّے ہیں
    میں نے کہا کہ شادؔ تو بولے کہ بچّے ہیں

    میں نے کہا کہ طنز نگاروں میں دیکھیے
    بولے کہ سیکڑوں میں ہزاروں میں دیکھیے

    میں نے کہا کہ شاعرِ اعظم ہیں جعفریؔ
    کہنے لگے کہ آپ کی ہے ان سے دوستی

    میں نے کہا ضمیرؔ کے ہیومر میں فکر ہے
    بولے یہ کس کا نام لیا کس کا ذکر ہے

    میں نے کہا کہ یہ جو دلاور فگار ہیں
    بولے کہ وہ تو صرف ظرافت نگار ہیں

    میں نے کہا مزاح میں اک بات بھی تو ہے
    بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے

    میں نے کہا تو شاعرِ اعظم کوئی نہیں
    کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی لازمی نہیں

    میں نے کہا تو کس کو میں شاعر بڑا کہوں
    کہنے لگے کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں

    پایانِ کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ
    میں نے کہا ‘حضور’ تو بولے کہ شکریہ

  • یومِ وفات: فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    یومِ وفات: فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    فیاض ہاشمی ایک لاجواب نغمہ نگار ہی نہیں، شان دار مکالمہ نویس بھی تھے۔ وہ 20 سال کے تھے جب گرامو فون کمپنی آف انڈیا میں ملازمت اختیار کی جہاں شعروسخن کے شائق فیاض ہاشمی کو اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کی رفاقت میں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    شعر گوئی کی صلاحیت اور ملازمت کا تجربہ انھیں فلم نگری تک لے گیا جہاں نغمہ نگار کے طور پر انھوں‌ نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ اس کام یابی کی ایک وجہ ان کا موسیقی کا شوق اور اس کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی تھی۔

    فیاض ہاشمی نے نوعمری ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے فلم ’’انتخاب‘‘ کے بعد ’’انوکھی‘‘ کے گیت لکھے جن میں‌ سے ایک ’’گاڑی کو چلانا بابو‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب لاہور میں بننے والی ہر دوسری فلم کے لیے ان سے گیت لکھوائے جاتے تھے۔

    تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
    یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے

    یہ گیت ایس بی جون کی آواز میں‌ آج بھی مقبول ہے اور یہی نغمہ اس گلوکار کی شہرت کا سبب بنا۔ فیاض ہاشمی کے کئی فلمی نغمات زباں زدِ عام ہوئے اور ان کے گانے والوں کو بھی لازوال شہرت ملی۔

    اس فلمی گیت نگار نے اسکرپٹ بھی لکھے اور اپنے زرخیز ذہن اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انھوں‌ فلم اولاد، زمانہ کیا کہے گا، نہلے پہ دہلا، انتخاب، پہچان جیسی فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھے۔ انھوں نے 24 فلموں کے لیے کہانی اور مکالمہ نویسی کی۔

    فیاض ہاشمی نے ’’سہیلی، اولاد، آشیانہ، سہاگن، ہونہار، پیغام، توبہ، سوال، دیور بھابھی‘‘ جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت نگاری کی۔ 1968ء میں فلمی گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ پر فیاض ہاشمی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ان کا لکھا ہوا وہ گیت تھا جسے کئی گلوکاروں نے گایا اور اس کے بول زبان زدِ عام ہوئے۔

    فیاض ہاشمی 1923ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد حسین ہاشمی بھی تھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا شوق اور تخلیقی جوہر انھیں‌ ورثے میں ملا تھا۔ فیاض ہاشمی نے 29 نومبر 2011ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی اور آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔

    فیاض ہاشمی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • کلاسیکی دور کے مشہور مگر مشکل گو شاعر شاہ نصیر

    کلاسیکی دور کے مشہور مگر مشکل گو شاعر شاہ نصیر

    شاہ نصیرؔ نے اپنے جوہرِ سخن، طبیعت کی روانی اور مشق و کمال کے سبب خوب شہرت اور اردو کے کلاسیکی دور کے شعرا میں نام و مقام پایا۔ سنگلاخ زمینوں اور مشکل قوافی کے باوجود ان کا کلام خاص و عام میں مقبول ہوا۔ آج شاہ نصیر کا یومِ وفات ہے۔

    کہتے ہیں‌، شاہ نصیر کی آواز پاٹ دار تھی جو مشاعروں میں جان ڈال دیتی تھی۔ وہ دہلی میں رہے اور وہاں ادبی محافل اور مشاعروں میں‌ ان کا بہت چرچا تھا۔ وہ جلد ہی اپنی طباعی اور زود گوئی کے سبب درجۂ اُستادی پر فائز ہوگئے۔

    شاہ نصیر کا سنِ پیدائش کسی کو معلوم نہیں اور ان کے وطن پر بھی تذکرہ نگاروں نے اختلاف کیا ہے، تاہم اکثر کے نزدیک وہ دہلی کے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے تذکرے میں‌ لکھا ہے کہ شاہ نصیر کا نام محمد نصیر الدّین تھا اور عرفیت میاں کلّو۔ انھوں نے لکھا ہے کہ رنگت کے سیاہ فام تھے، اسی لیے ’’میاں کلّو‘‘ کہلائے۔

    ان کے والد شاہ غریب (شاہ غریب اللہ) ایک خوش طینت و نیک سیرت بزرگ تھے۔ شہر کے رئیس و امیر سب ان کا ادب کرتے تھے، مگر وہ گوشۂ عافیت میں بیٹھے، اپنے معتقد مریدوں کو ہدایت کرتے رہے، یہاں تک کہ مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے عہد میں وفات پائی۔

    انہی کے بعد بیٹے شاہ نصیر نے شاعری میں بڑا نام پیدا کیا اور وہ ایسے شاعر تھے جو دہلی کے مشاعروں میں‌ ضرور دعوت پاتے۔ کلاسیکی دور کے اس شاعر نے 23 نومبر 1837ء کو حیدر آباد دکن میں انتقال کیا اور وہیں دفن ہوئے۔ شاہ نصیر کو نہایت مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنا پسند تھا، لیکن وہ زبان و بیان کے ماہر بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ نامانوس اور مشکل قوافی کے ساتھ لمبی لمبی ردیفوں میں غزلیں کہنے کے باوجود ان کی زبان نکھری ہوئی اور انداز دل نشیں ہے۔ ان کی غزلوں میں تشبیہ اور استعارے کا لطف موجود ہے۔

    اردو کے تذکرہ نگاروں اور نقّادوں‌ کے مطابق جن سنگلاخ زمینوں میں یہ دو غزلے کہتے دوسروں کو غزل پوری کرنا مشکل ہوتی۔ نصیرؔ ایک زبردست شاعر تھے۔ مشکل ردیف قافیے میں بغیر تشبیہ و استعارے کے بات نہیں بنتی، نصیرؔ کا تخیّل و تصوّر اس میں منجھا ہوا تھا۔ ان کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
    وہ کان دھر کے سنے کیا پیام عاشق کا

    قصورِ شیخ ہے فردوس و حور کی خواہش
    تری گلی میں ہے پیارے مقام عاشق کا

    غرورِ حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
    کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

    وفورِ عشق کو عاشق ہی جانتا ہے نصیرؔ
    ہر اک سمجھ نہیں سکتا کلام عاشق کا

  • اطہر نفیس: ”وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا!”

    اطہر نفیس: ”وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا!”

    60 کے عشرے میں فریدہ خانم کی آواز نے اپنی پہچان کا وہ سفر شروع کیا جو بعد میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت مقبول ہوئی۔ فریدہ خانم نے کلاسیکی موسیقی، بالخصوص غزل گائیکی میں الگ پہچان بنائی۔ اس گلوکارہ کی آواز میں‌ ایک غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے:

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اس غزل کے شاعر اطہر نفیس ہیں‌ جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شاعر اطہر نفیس 21 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    فریدہ خانم کی آواز میں‌ ان کی یہ غزل ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے کئی بار نشر ہوئی اور سننے والوں نے اسے سراہا۔ محافلِ موسیقی اور مختلف پروگراموں میں فریدہ خانم سے یہی کلام سنانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔

    اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی اور یافت و روزگار کے اس سلسلے کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری رکھی۔

    اطہر نفیس نے شاعری میں اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب کے باعث پہچان بنائی اور خاص طور پر غزل میں اپنے تخلیقی وفور کے ساتھ دل کش پیرایۂ اظہار کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو غزل کو خیال آفریں موضوعات کے ساتھ دھیما اور نرم لہجہ عطا کیا۔

    اطہر نفیس کا مجموعۂ کلام 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اطہر نفیس کی مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
    وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

    پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
    ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

    اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
    جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

    ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
    بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا