Tag: شاعر برسی

  • اختر شیرانی: شاعرِ رومان جو خرابات کی نذر ہو گیا

    اختر شیرانی: شاعرِ رومان جو خرابات کی نذر ہو گیا

    محمد داؤد خان کو جہانِ شعروسخن میں اختر شیرانی کے نام سے شہرت اور رومانوی نظموں کی بدولت بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ مولانا تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے۔

    ’’اے عشق کہیں لے چل‘‘ ، ’’او دیس سے آنے والے بتا‘‘ اور ’’ اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘‘ وہ نظمیں تھیں جنھوں نے اختر شیرانی کو شاعرِ رومان مشہور کردیا۔

    اختر شیرانی 4 مئی 1905ء کو ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے نام وَر محقّق اور عالم فاضل شخصیت جناب حافظ محمود خان شیرانی کے فرزند تھے۔ اختر شیرانی کی زندگی کا بیشتر حصّہ لاہور میں بسر ہوا۔ انھوں نے کئی ادبی جرائد کی ادارت کے ساتھ اپنی شاعری کی بدولت اردو ادب میں نام و مقام بنایا۔

    انھوں نے شاعری کے ساتھ نثر بھی لکھی، کئی کالم اور حکایات کے تراجم کے علاوہ اختر شیرانی نے بچّوں کا بھی ادب تخلیق کیا جس سے ان کا افادی ادب سے متعلق فکر اور رجحان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اختر شیرانی عشق اور مے نوشی کے سبب بدنام بھی بہت ہوئے۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر معاشرے میں مقام اور کوئی باعزّت پیشہ و ملازمت اختیار کریں، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کثرتِ شراب نوشی ہی ان کی ناگہانی موت کا باعث بنی۔ وہ کم عمری میں دنیا چھوڑ گئے۔

    اختر شیرانی کا پہلا مجموعہ کلام "پھولوں کے گیت” بچّوں کی نظموں پر مشتمل تھا۔ دوسرے مجموعہ کلام ” نغمۂ حرم” میں عورتوں اور بچّوں کے لیے نظمیں شامل ہیں۔ بڑی محنت اور تحقیق سے مختلف حکایات کو اردو کا جامہ پہنایا۔ ترکی کے ایک نگار کی کہانی کا ضحاک کے نام سے اردو ترجمہ کیا۔

    اختر شیرانی نے ہیئت میں بھی تجربات کیے۔ انھوں نے پنجابی سے ماہیا، ہندی سے گیت اور انگریزی سے سانیٹ کو اپنی شاعری میں کثرت سے برتا۔ رباعیات بھی کہیں، اور غزلیں بھی تاہم ان کی نظموں کو زیادہ پڑھا اور پسند کیا گیا۔

    رومانی نظم نگار کی حیثیت سے مشہور ہونے والے اختر شیرانی کے شعری مجموعوں میں غزلوں کی بھی کمی نہیں۔ تاہم انھیں غزل شاعر کے طور پر نہیں جانا جاتا۔

    ان کے شعری مجموعوں میں اخترستان، شعرستان، شہناز، جہاں ریحانہ رہتی ہے، صبحِ بہار، طیور آوارہ اور لالۂ طور سرِفہرست ہیں۔

    اختر شیرانی 9 ستمبر 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ان کا یہ شعر خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے۔

    چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچّھے
    بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

  • مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    اکبر الٰہ ابادی اردو شاعری میں اپنے طنز و مزاح پر مبنی کلام کی بدولت ہی مشہور نہیں تھے بلکہ انھیں اپنے زمانے کا ایک مفکّر، مدبّر اور مصلح بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

    اکبر الٰہ آبادی کے دور میں نہ صرف مشرقیت پر بلکہ اسلامیت پر بھی مغربی رنگ غلبہ پا رہا تھا۔ اس دور میں قوم و ملّت کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی، اکابرین چاہتے تھے کہ لوگ اپنی اسلامی روایات پر قائم رہتے ہوئے اپنی تہذیب اور ثقافت کو اہمیت دیں۔ انہی میں اکبر بھی شامل تھے۔ مغربیت کے اس غلبے کے خلاف اکبر الٰہ آبادی نے شاعری سے مدد لی۔

    آج اردو زبان کے اس مشہور شاعر کا یومَِ وفات ہے۔ وہ 1921ء کو آج ہی دن دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اکبر کی شاعری اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی۔ انھیں ان کی روایت اور جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    اکبر کو اس دور کے خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی۔ اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی گویا خبر لی، اور کسی سے مرعوب ہوئے۔ وہ حق بات کہنے سے نہ گھبرائے اور اس معاملے میں کسی کے عہدے مرتبے کا لحاظ بھی نہ کیا۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

    آج بھی جب ہم اکبر الٰہ آبادی کے اشعار پڑھتے ہیں تو مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں تو شرمندگی بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اکبر الہ آبادی کا اصل نام سیّد اکبر حسین تھا۔ انھوں نے 16 نومبر 1846ء کو آنکھ کھولی۔ اپنے وطن کی نسبت نام سے لاحقہ جوڑا اور اکبر الٰہ آبادی کہلائے۔ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد وکالت پڑھی اور امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ مقدمات لڑے اور پھر جج کے منصب تک پہنچے۔ اس دوران انھوں نے سماج کے مختلف روپ بھی دیکھے اور ہندوستان میں‌ انگریزوں کی آمد کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول اور تہذیب و ثقافت پر مغربیت کا غلبہ تو دیکھ ہی رہے تھے۔ سو، ان کی شاعری نے اصلاح اور طنز کا انداز اپنا لیا۔

    انھوں‌ نے اپنی شاعری سے اصلاحِ معاشرہ کا وہی کام لیا جو اس دور میں سر سیّد احمد خان اور علاّمہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کیا اور نئی تہذیب یا مغربیت کے دلدادگان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم ان کی اس طرزِ شاعری میں کوشش یہ تھی کہ لوگوں کا وقار اور انا مجروح نہ ہو اور وہ اپنا محاسبہ بھی کریں‌۔ ان کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور آج بھی ہماری اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کرتے ہیں۔

    لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
    مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

    ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
    کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

    چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
    شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
    چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
    کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

  • نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    مخدوم ایک نئی دنیا اور نئے آدم کے متمنّی رہے ہیں۔ ان کی انقلابی اور اشتراکی رنگ کی نظمیں انہی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہیں۔ آج اس عظیم شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 اگست 1969ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    1908ء میں ابو سعید محمد مخدوم محی الدّین حذری نے ہندوستان کی ایک متموّل ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی۔ مخدوم نے اس دور کے رواج کے مطابق قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم گھر پر مکمل کی۔ وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1936ء میں سٹی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور چند سال بعد مستعفی ہوگئے۔

    ان کا ادبی اور تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور اس زمانے میں ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں اور سیاسی ہنگامہ آرائیاں جاری تھیں، اسی ماحول میں‌ ادب میں ترقی پسند رجحانات کو فروغ ملا اور مخدوم 1940ء میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری منتخب ہوگئے۔ جولائی 1943ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ تشکیل مخدوم کی راہ نمائی میں ہوئی۔

    ان کی سیاسی مصروفیات بڑھ گئی تھیں اور وہ ہندوستان میں برطانوی راج کے عام انتخابات میں آندھراپردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی رومانوی اور انقلابی شاعری سے ہندوستان بھر میں شہرت پائی اور اصنافِ سخن میں پابند و آزاد نظموں کے علاوہ اپنے قطعات، رباعیوں اور غزلوں کے لیے مشہور ہوئے۔ ان کی مشہور تصانیف ’سرخ سویرا‘، ’گلِ تر‘ اور ’بساطِ رقص‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    مخدوم انسان دوست اور اشتراکیت کے حامی تھے۔ انھوں نے مشرق کی زبوں حالی، معاشی ابتذال، غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال، بھوک، افلاس، غربت کے خلاف اپنے اشعار میں‌ آواز بلند کی۔ مخدوم روس کے سرخ انقلاب سے بے حد متاثر ہوئے تھے اور اسی سے ذہنی وابستگی تادمِ آخر برقرار رکھی۔

    مخدوم کی قومی نظموں میں آزادئ وطن، جنگ آزادی، مسافر، بنگال، اور چاند تاروں کا بن قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نظموں میں علامات، اشاروں، استعاروں اور کنایوں میں ملک اور ہندوستان بھر کے سیاسی حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ فطرت اور مناظرِ قدرت کے بڑے دلدادہ رہے ہیں۔ ان کی مناظرِ قدرت پر لکھی ہوئی نظمیں بلیغ اشارے رکھتی ہیں جن میں وہ فلسفہ اور انقلاب کی رنگ آمیزی بھی کرتے ہیں اور بے لطف نہیں ہونے دیتے۔ مخدوم کی مشہور نظموں میں شاعر، سناٹا، قلندر، لختِ جگر، نہرو، رات کے بارہ بجے، گھر، اقبال، اور ‘اقبال کی رحلت’ شامل ہیں۔

    اس انقلابی شاعر نے دہلی میں وفات پائی۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    اس اہم ترقّی پسند شاعر کی چند غزلیں اور نظمیں بھارت کی مشہور اور مقبول فلموں ’بازار‘ اور ’ گمن‘ کے لیے نام ور گائیکوں کی آواز میں ریکارڈ کروا کے شامل کی گئی تھیں۔

  • یومِ وفات: تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے گیت سرحد پار بھی مقبول ہوئے

    یومِ وفات: تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے گیت سرحد پار بھی مقبول ہوئے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے کم عمری میں ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور شہرت حاصل کی۔ وہ 1982ء میں آج ہی کے دن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق دہلی کے علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔ یوں شعروسخن سے شروع ہی سے دل چسپی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب تسلیم فاضلی خود شاعری کرنے لگے۔ ان کا
    اصل نام اظہار انور تھا اور وہ 1947ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا تھا۔ تسلیم فاضلی صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر ان کے لکھے ہوئے نغمات آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔

  • ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    آج اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی کرّار نوری کا یومِ وفات ہے وہ 1990ء میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    کرّار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پَر پوتے تھے۔ جے پور، دہلی کرار نوری کا وطن تھا جہاں انھوں نے 30 جون 1916ء کو آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کرلی۔ بعد ازاں کراچی چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔

    کرّار نوری کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ انھوں نے نعتیہ شاعری بھی کی اور ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے نعتیہ کلام ان کی وفات کے بعد سامنے آیا۔

    کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ کرار نوری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    آج فقیر منش ساغر صدیقی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اردو زبان کا یہ شاعر تلخیٔ ایّام اور زمانے کی ستم ظریفی کا شکار رہا۔ اسی لیے رنج و غم، درد و الم، ناامیدی، حسرت و یاس اور دوراں کا فریب ساغر صدیقی کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔ ساغر نے 19 جولائی 1974ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔

    ساغر صدیقی کے تفصیلی اور مستند حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں۔ انھوں نے 1928ء میں انبالہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا خاندانی نام محمد اختر تھا۔ غربت ان کے گھر پر گویا راج کرتی تھی۔ ان حالات میں باقاعدہ تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا۔ اپنے محلّے کے ایک بزرگ سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ نوعمری میں امرتسر چلے گئے اور وہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے، انھوں نے کنگھیاں بنانے کا فن سیکھا اور اسی عرصے میں‌ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا۔

    1944ء میں امرتسر میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں کسی نے ساغر کو بھی پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا، روانی تھی اور وہ مشاعرے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی اوّلین مشاعرے نے انھیں‌ مشہور کردیا تھا۔ وہ لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدہ موعو کیے جانے لگے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں لطیف انور گورداسپوری کی صحبت میں‌ رہے اور بہت فیض پایا۔ ساغر کو ان کی شاعری اور مشاعروں میں‌ شرکت کے سبب کچھ آمدنی ہونے لگی تھی۔ ان کا کلام ہر بڑے روزنامے، ادبی جریدوں اور رسالوں میں شایع ہونے لگا۔ اسی مقبولیت کے زمانے میں‌ ساغر کو کچھ ایسے لوگ ملے جن کی خراب صحبت نے انھیں نشّے کی لت میں‌ مبتلا کردیا۔ انھوں نے بھنگ، شراب، افیون اور چرس وغیرہ کا استعمال شروع کردیا اور مستی و بے حالی کے عالم میں‌ جہاں جگہ مل جاتی پڑ جاتے۔ مشقِ سخن تو جاری رہی، لیکن ساغر کا حلیہ، ان کی صحّت بگڑتی چلی گئی اور وہ اپنی جسمانی صفائی اور ہر بات سے بے پروا فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے لگے۔

    اس زمانے میں بھی لوگ انھیں کچھ ہوش میں پاتے تو مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی، لیکن وقت کے ساتھ ساغر اس سے بھی گئے۔ انھیں اکثر داتا دربار کے اطراف اور احاطے میں‌ دیکھا جانے لگا تھا اور وہیں‌ قریب ہی فٹ پاتھ پر ان کے شب و روز بسر ہورہے تھے۔

    کہتے ہیں ساغر نشّے کے لیے رقم دینے والوں کے لیے کلام لکھ کر دینے لگے تھے جو وہ اپنے نام سے شایع کرواتے تھے۔ ساغر صدیقی نے ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور ان کا کلام مقبول ہوا۔

    اس حالت کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ امرتسر اور لاہور میں مشہور ہوچکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بھی خاصی حد تک مجموعوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔ ان کی تصانیف میں ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، شبِ آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوحِ جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘ شامل ہیں۔

    ساغر فالج کا شکار ہوئے تو ان کا ایک ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گیا۔ ان کا جسم سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا اور ایک روز فٹ پاتھ پر ہی ساغر نے دَم توڑ دیا۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ساغر صدیقی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

    بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

    اب کہاں ایسی طبیعت والے
    چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
    ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

  • یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    اردو زبان کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر 18 جولائی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہندوستان ہی نہیں‌ وہ پاکستان میں بھی اپنی شاعری اور خوب صورت شخصیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔

    ان کا نام کنور مہندر سنگھ بیدی اور تخلّص سحر تھا۔ 1909ء میں منٹگمری (ساہیوال) میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں کالج سے تعلیم پائی۔ تاریخ اور فارسی کے ساتھ بی اے کیا جس کے بعد سول انتظامیہ کے تحت امتحانات پاس کیے اور 1935ء کے آواخر میں ان کا تبادلہ بطور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ، روہتک ہوگیا۔ یہ گوڑ گاؤں میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ وہ ڈائریکٹر محکمہ پنچایت کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

    سکھ شعرا میں انھیں معتبر اور پُروقار شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سحرؔ ایک ہر دل عزیز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور ظرافت و خوش مزاجی کے لیے بھی مشہور تھے۔ وہ محفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر جانتے تھے اور ہر مجلس میں لوگوں کو متاثر کرلیتے تھے۔ ادیب و شاعر ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ نام ور شخصیات ان سے گفتگو اور تبادلۂ خیال کرنے کو اپنے لیے باعث لطف و کرم تصور کرتتی تھیں۔

    کنور مہندرسنگھ بیدی نے کم عمری میں‌ شاعری کا آغاز کردیا تھا، انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں‌ لی۔ انھوں نے اپنے کلیات کے علاوہ ’یادوں کا جشن‘ کے نام سے خود نوشت بھی یادگار چھوڑی ہے۔

    ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    تیرِ نظر چلاتے ہوئے مسکرا بھی دے
    آمادہ قتل پر ہے تو بجلی گرا بھی دے

    رخ سے نقاب اٹھا کے کرشمہ دکھا بھی دے
    سورج کو چاند چاند کو سورج بنا بھی دے

    منزل ہے تیری حدِ تعیّن سے ماورا
    دیر و حرم کے نقش کو دل سے مٹا بھی دے

    سجدے ہیں لاکھ نقشِ کف پا کے منتظر
    یہ سر نہیں ہے عرش سحر آ جھکا بھی دے

  • نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کی برسی

    نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کی برسی

    آج اردو کے نام وَر افسانہ نگار، شاعر، نقّاد، مترجم اور صحافی و مدیر احمد ندیم قاسمی کا یوم وفات ہے۔ ان کا شمار ترقّی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں ادبی شخصیات میں ہوتا تھا۔

    احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ انھوں نے 20 نومبر 1916ء کو ضلع خوشاب کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد گریجویشن مکمل کی۔ دیہاتی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا اور تنگی و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے علم و ادب کی جانب راغب ہوئے اور نام و مقام پیدا کیا۔

    احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے۔ انھوں نے ہر صنفِ ادب میں طبع آزمائی کی ہے، لیکن افسانہ اور شاعری ان کا بنیادی حوالہ ہیں۔

    احمد ندیم قاسمی کے شعری مجموعوں میں دھڑکنیں، رم جھم، جلال و جمال، لوحِ خاک جب کہ افسانوی مجموعوں میں چوپال، بگولے، طلوع و غروب، آنچل، آبلے، برگِ حنا، سیلاب و گرداب و دیگر شامل ہیں۔ انھوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے جنھیں تہذیب و فن، پسِ الفاظ اور معنٰی کی تلاش نامی کتب میں‌ محفوظ کیا جب کہ شخصیات پر مبنی ان کے خاکوں کے دو مجموعے بھی شایع ہوئے۔

    وہ 10 جولائی 1996ء کو 90 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بشر نواز کی برسی

    ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بشر نواز کی برسی

    ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر، فلمی نغمہ نگار اور نقّاد، بشر نواز 9 جولائی 1995ء کو وفات پاگئے تھے۔ بالی وڈ کی مشہور فلم بازار کے لیے ان کا لکھا ہوا ایک گیت ‘کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی’ بہت مقبول ہوا تھا۔

    ان کا اصل نام بشارت نواز خاں تھا جو دنیائے ادب میں بشر نواز کے نام سے جانے گئے۔ 18 اگست 1935ء کو اورنگ آباد، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد بھارت ہی میں قیام پذیر رہے اور وہیں زندگی کا سفر تمام ہوا۔ ان کے گھر کا ماحول علمی اور دینی تھا۔ والد ناظمِ تعلیمات اور والدہ عالمہ تھیں۔ بشر نواز نے 1953ء میں شاعری کا آغاز کیا اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ پہچان بنانے میں کام یاب رہے اور بعد میں فلم انڈسٹری کے لیے نغمہ نگار کی حیثیت سے شاعری کی۔

    انھیں حیدر آباد دکن کے ایک مشاعرے میں پہلی بار ممتاز ترقّی پسند شاعر مخدوم محی الدّین نے متعارف کروایا تھا۔ ان کے شعری مجموعے رائیگاں اور اجنبی سمندر کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ایک تنقیدی مجموعہ نیا ادب نئے مسائل کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔

    بشر نواز کی نظمیں بھی مشہور ہوئیں جب کہ ان کے لکھے ہوئے نغمات محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے جیسے نام ور گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ ہوئے اور فلم بینوں تک پہنچے۔

  • ممتاز شاعر نقّاد اور مدرّس منظور حسین شور کی برسی

    ممتاز شاعر نقّاد اور مدرّس منظور حسین شور کی برسی

    آج اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم منظور حسین شور کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 8 جولائی 1994ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ان کا خاندانی نام منظور حسین اور تخلّص شور تھا۔ وہ 15 دسمبر 1916ء کو امراوتی (سی۔ پی) ہندوستان میں پید اہوئے۔ میٹرک اور ایم اے کرنے کے بعد قانون کی سند حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔

    تعلیمی مراحل طے کرنے بعد ناگپور کے شعبہ ادبیات فارسی اور اردو میں بطور ریڈر ملازم ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور پروفیسر کی حیثیت سے پہلے زمیندار کالج، گجرات پھر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج، لائل پور (فیصل آباد) سے منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے جہاں جامعہ کراچی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

    شور صاحب بنیادی طور پر نظم گو شاعر تھے، لیکن غزل بھی کہا کرتے تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ’’نبضِ دوراں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد کے مجموعے بالترتیب ’دیوارِ ابد‘، ’سوادِ نیم تناں‘، ’میرے معبود‘ ، ’صلیبِ انقلاب‘ ، ’ذہن و ضمیر‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کا تمام کلام رفعتِ خیال اور غزل و نظم کی تمام تر نزاکتوں اور لطافتون سے آراستہ ہے۔

    شور صاحب نے چار کتابیں ’حشرِ مرتب‘ ، ’انگشتِ نیل‘ ، ’افکار و اعصار‘ ،’اندر کا آدمی‘ مرتّب کیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چین بھی لینے نہیں دیتے مجھے
    میں ابھی بھولا تھا پھر یاد آ گئے