Tag: شاعر برسی

  • ملّی نغمے ‘دل دل پاکستان’ کے خالق نثار ناسک کی برسی

    ملّی نغمے ‘دل دل پاکستان’ کے خالق نثار ناسک کی برسی

    آج "دل دل پاکستان” جیسے مقبول ترین ملّی نغمے کے خالق نثار ناسک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 3 جولائی 2019ء کو انتقال کرگئے تھے۔ نثار ناسک نے اردو اور پنجابی زبان میں شاعری کی۔

    سن 1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والے نثار ناسک کی وجہِ شہرت ”دل دل پاکستان“ تھا جسے جنید جمشید نے گایا تھا۔ اس نغمے نے جنید جمشید کو راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    نثار ناسک کی دو کتابیں ”چھوٹی سمت کا مسافر“ اور ”دل دل پاکستان“ بھی شائع ہوچکی ہیں۔ انھیں پی ٹی وی کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا جب کہ ادبی خدمات کے اعتراف میں‌ انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا۔

    نثار ناسک کے ملّی نغمے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ بھی کہا گیا ہے۔

  • یومِ وفات: صفی لکھنوی کلاسیکی دور کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے

    یومِ وفات: صفی لکھنوی کلاسیکی دور کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے

    لکھنؤ کے دبستانِ شاعری میں صفی لکھنوی کا نام ان کے کلام کی شیرینی، تنوع، لطافت، شگفتگی اور سادگی کے سبب نمایاں‌ ہے اور ان کی شاعری لکھنؤ کی ادبی فضا اور ماحول کی عکاس ہے جو انھیں ہم عصر شعرا میں ممتاز کرتی ہے۔ صفی لکھنوی 24 جون 1950ء کو وفات پا گئے تھے۔

    صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ وہ 3 جنوری 1862ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی سیکھی اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں‌ داخل ہوئے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد 1879ء میں تدریس سے وابستہ ہوگئے اور انگریزی پڑھانے پر مامور ہوئے۔ بعد ازاں محکمہ دیوانی میں ملازم ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور لکھنؤ کی بزمِ ادب کو اپنے فن سے رونق بخشی۔ صفی نے لکھنؤ کے عام شعری مزاج سے ہٹ کر شاعری کی، جس نے انھیں منفرد اور نمایاں‌ شناخت دی۔ مولانا حسرت موہانی انھیں ’مصلحِ طرزِ لکھنؤ‘ کہا کرتے تھے۔

    صفی نے غزل کی عام روایت سے ہٹ کر نظم کو اپنی قوّتِ متخیّلہ سے سجایا اور قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاس ہیں۔ اس کے علاوہ قصیدہ، رباعی اور مثنوی جیسی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔

    صفی لکھنوی کو شاعری کے کلاسیکی دور کا آخری اہم اور مقبول شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے شعر و ادب کا بڑا وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    صفی لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    جانا، جانا جلدی کیا ہے؟ ان باتوں کو جانے دو
    ٹھہرو، ٹھہرو دل تو ٹھہرے، مجھ کو ہوش میں آنے دو

    پانو نکالو خلوت سے آئے جو قیامت آنے دو
    سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو

    بادل گرجا، بجلی چمکی، روئی شبنم، پھول ہنسے
    مرغِ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو

    ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
    موجِ صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو

    کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گم نام صفیؔ
    نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقشِ لحد مٹ جانے دو

  • مجید امجد: اردو نظم کو جدید لہجے اور متنوع موضوعات سے آراستہ کرنے والا شاعر

    مجید امجد: اردو نظم کو جدید لہجے اور متنوع موضوعات سے آراستہ کرنے والا شاعر

    مجید امجد کا شمار جدید اردو نظم کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ 11 مئی 1974ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج اردو زبان کے اس نام وَر شاعر کی برسی ہے۔

    مجید امجد 29 جون 1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد صحافت کا شعبہ اپنایا اور عملی زندگی میں قدم رکھا۔ بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ وہ محکمہ خوراک سے وابستہ ہوگئے تھے۔

    مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات متنوع اور لہجہ و آہنگ جدید ہے جس نے انھیں اپنے دور کے شعرا میں‌ ممتاز کیا۔ مجید امجد کا اسلوب منفرد اور نہایت خوب صورت تھا جس نے انھیں ہر خاص و عام میں‌ مقبول کیا۔

    ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں شبِ رفتہ، شبِ رفتہ کے بعد، چراغِ طاقِ جہاں، طاقِ ابد اور مرے خدا مرے دل کے نام سرِفہرست ہیں۔ ان کی نظموں کے عنوانات ان کے تخیل کی دین اور نظمیں حالات و واقعات کے ساتھ سماج کے مختلف پہلوؤں پر ان نظر اور گرفت کی عمدہ مثال ہیں۔ مجید امجد کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
    میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا