Tag: شاعر برسی

  • قیوم نظر: اردو غزل کو نیا مزاج اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    قیوم نظر: اردو غزل کو نیا مزاج اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    ادب کی دنیا میں مختلف نظریات اور دبستان سے وابستہ ہونے والوں نے گروہی سرگرمیوں کے لیے تنظیموں اور اداروں کی بنیاد رکھی جن میں‌ بعض‌ پلیٹ فارم ایسے تھے جن کے ذریعے نہ صرف ادب سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اس نے نئے لکھنے والوں کی راہنمائی اور تربیت کا بھی کام کیا۔ حلقۂ اربابِ ذوق ایسا ہی ایک پلیٹ فارم تھا جس کی بنیاد رکھنے والوں میں‌ قیوم نظر بھی شامل تھے۔ لیکن پھر ادبی گروہ بندیوں کی وجہ سے قیوم نظر کو تنظیم سے دور ہونا پڑا۔ وہ اردو اور پنجابی زبانوں کے معروف شاعر تھے جنھوں نے ڈرامہ بھی لکھا اور بہترین تراجم بھی کیے۔ اردو غزل گوئی میں قیوم نظر کو ایک نئے مزاج اور آہنگ کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    قیوم نظر کا یہ تذکرہ ان کی برسی کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ 23 جون 1989ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    قیوم نظر نے حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھنے کے بعد اپنے ہم خیال ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ مل کر ادبی سرگرمیوں‌ کو فروغ دیا اور اس بینر تلے فعال رہے۔ ان کے ایک رفیق خواجہ محمد ذکریا اپنے اخباری کالم میں‌ لکھتے ہیں، قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے ’بڑوں‘ میں بہت پہلے سے شامل تھے۔ ایک سے زیادہ دفعہ سیکرٹری بھی رہے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد حلقے میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں انتظار حسین، ناصر کاظمی، شہرت بخاری وغیرہ تھے۔ قیوم نظر کا گروپ پہلے سے موجود تھا۔ دونوں گروپوں میں حلقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کشمکش شروع ہوگئی۔ چند سال قیوم نظر کا گروپ غالب رہا، پھر دوسرا گروپ غالب آگیا۔ حلقے نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے رفتہ رفتہ قیوم نظر اور ان کے گروپ کی اہمیت کم ہوتی گئی پھر قیوم نظر کی زندگی میں پے در پے ایسے حادثات ہوئے کہ وہ مجبوراً ادبی محفلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی۔ ان کے عزیز دوست انجم رومانی نے انھیں اس سلسلے میں بڑے خلوص سے ایک غلط مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ آنکھوں کے کسی معالج سے علاج کروانے کی بجائے آپ مجھ سے علاج کرائیں۔ میرے پاس اس کے لیے ایک بہت عمدہ کتاب ہے جس میں آنکھوں کے علاج کے لیے بہت اچھی ’ایکسرسائز‘ بتائی گئی ہیں۔ انھوں نے ایکسرسائز کرائی تو آنکھیں متورم ہوگئیں اور بینائی ایسی خراب ہوئی کہ ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے۔ ماہر آئی سرجنز کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ اب علاج ممکن نہیں۔ وفات تک بینائی کی یہی کیفیت رہی۔

    اس دوران پہلے ان کے بڑے بیٹے کا لندن میں انتقال ہوگیا جو کئی سال پہلے وہاں کا شہری بن چکا تھا۔ اس حادثے کو تو وہ برداشت کرگئے۔ اس کے دو تین برس بعد ان کے چھوٹے بیٹے سلمان بٹ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ اس حادثے نے قیوم نظر کو بالکل دل شکستہ کردیا۔ وہ لاہور سے بھی بیزار ہوگئے۔ وہ اپنی ایک بیٹی کے پاس کراچی میں رہنے لگے اور وہیں 23 جون 1989ء کو وفات پائی۔ اگلے دن تدفین ان کی وصیت کے مطابق لاہور میں ہوئی۔

    قیوم نظر لاہور میں‌ 7 مارچ 1914ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ قیوم نظر نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی سے متأثر تھے۔ تاہم روایتی بندشوں کے ساتھ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے اور تازہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں "پون جھکولے”، "قندیل”، "سویدا”، "اردو نثر انیسویں صدی میں”، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت ” شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔

    اردو ادب کی خدمت کرنے والے قیوم نظر نے پنجابی زبان میں بھی قابل ذکر کام کیا۔ میرا جی سے ان کی بے تکلفی تھی۔ وہ ادب میں نئے نئے تجربات کے امکانات پر غور کرتے تھے، تبادلۂ خیال کرتے تھے اور پھر اپنے اپنے انداز میں معاصر شاعری میں جدّت پیدا کرنے کے لیے لکھنے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں میں مختار صدیقی، یوسف ظفر، حفیظ ہوشیار پوری، ضیاء جالندھری وغیرہ تھے۔

    قیوم نظر نے بی اے کیا اور اے جی آفس میں کلرک بن گئے۔ پاکستان بنا تو ایم اے اردو کیا اور پھر کئی سال محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے، پھر ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر لاہور کے ڈائریکٹر بن گئے۔ آخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ پنجابی میں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یعنی معمولی ملازمتوں سے گز رکر رفتہ رفتہ اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہمیشہ تعلق برقرار رکھا۔ ان کی اولین اور اہم تر حیثیت تو شاعر کی تھی لیکن نثر سے بھی دامن کشاں نہیں رہے۔ تنقید لکھی، خاکہ نگاری کی طرف بھی التفات کیا اور ڈرامے بھی لکھے۔ کئی کتابیں مرتب کیں جن میں ان کی نصابی کتابیں میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔ نصابی کتابوں کو ترتیب دینے میں وہ اپنے رفقاء سے بہت بہتر تھے۔

    شاعری میں جدید انداز کے اچھے شاعر تھے۔ موضوعات کی جدت کے ساتھ ہیئت کے تجربات کرتے رہتے تھے۔ قیوم نظر نے عمر کے آخری ایک دو برسوں میں اپنی کلیات شاعری ’قلب و نظر کے سلسلے‘ کے نام سے ترتیب دی۔ وہ جدید نظمیں تو لکھتے ہی تھے مگر اپنے بعض معاصرین کے برخلاف غزلیں بھی برابر کہتے رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے شاہکار نظمیں تخلیق کیں جن کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں پوری پوری کلاس کو یہ نظمیں یاد ہوتی تھیں جن میں خصوصاً ’بلبل کا بچہ‘ ایسی پُرتاثیر تھی کہ بچوں کے دلوں میں عمر بھر کے لیے بس جاتی تھی۔ قیوم نظر کے گیت ، ترانے اور نعتیں بھی ان کی شاعری کے تنوع کا اچھا اظہار ہیں۔

    وہ لاہور اور امرتسر دونوں شہروں میں جوان ہوئے اس لیے پنجابی تو ان کی اپنی زبان تھی لیکن زندگی بھر اردو اوڑھنا بچھونا رہی۔ اردو تحریر و تقریر میں اظہار پر یکساں قدرت رکھتے تھے لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ بہت سے جدید امریکی اور برطانوی شعراء کی نظموں کے ترجمے کرتے رہتے تھے۔

    مجموعی طور پر بڑے ہنس مکھ، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن تھے۔ انھوں نے بذلہ سنجی سے بہت سے لوگوں کو دشمن بھی بنایا لیکن بہت سے لوگ ان کے محب بھی تھے۔ اگر آخری زندگی میں دل کو پاش پاش کرنے والے صدموں سے دوچار نہ ہوتے تو کہا جاسکتا کہ انھوں نے اچھی زندگی گزاری۔ ان کے مزاج میں اگر لوگوں کو فقرہ بازی سے ناراض کرنے کی عادت نہ ہوتی تو اور زیادہ کامیاب زندگی بسر کرتے مگر انسان کا جو مزاج بن گیا سو بن گیا۔

    یہاں‌ ہم قیوم نظر کے انٹرویو سے چند اقتباسات بھی نقل کرتے ہیں‌ جس سے قیوم نظر کی زبانی انھیں جاننے کا موقع ملے گا، وہ بتاتے ہیں، ’’خود میرا یہ حال تھا کہ میرے والد خواجہ رحیم بخش سرکاری ملازم تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں کا بوجھ بہ حیثیت بڑے بھائی مجھ پر آپڑا تھا۔ میں نے ٹیوشن اور ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں لگا ہوا تھا۔ میں اے جی آفس کی نوکری سے سخت اکتا گیا تھا لیکن اس سے گلو خلاصی بھی ممکن نہ تھی۔ میں سخت پریشان تھا۔ اتفاق سے یونیورسٹی کے مشاعرے میں میری ملاقات گورنر پنجاب عبدالرب نشتر سے ہوگئی۔ اے جی آفس سے میری ناخوشی کا سن کر انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے میرا تبادلہ محکمۂ تعلیم میں کروا دیا۔‘‘

    ’’1956ء میں مجھے یونیسکو کا کریٹیو رائٹر کا فیلو شپ ملا اور اس طرح مجھے فرانس، اٹلی، اسپین، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، روم وغیرہ گھومنے اور وہاں کے تخلیقی فن کاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔‘‘

    ’’شاعری کی ابتدا میں نے کالج ہی کے زمانے سے کر دی تھی۔ میں نے ایک دن اپنے استاد شمسُ العلما تاجور نجیب آبادی صاحب سے پوچھا کہ میں کیا تخلّص رکھوں؟ بولے ’’میں اپنے شاگردوں میں اب مزید کسی باغی کا اضافہ کرنا نہیں چاہتا۔ ن م راشد، اختر شیرانی، کنور مہندر سنگھ اور دیگر کئی نامور شعرا ان کی شاگردی میں رہ چکے تھے۔) میں نے وعدہ کیا کہ میں بغاوت نہیں کروں گا اس پر مشورہ دیا کہ ’’نظر تخلّص کر لو۔‘‘

  • آنند نرائن ملّا: وہ شاعر جنھیں مجاہدِ اردو کہا جاتا ہے

    آنند نرائن ملّا: وہ شاعر جنھیں مجاہدِ اردو کہا جاتا ہے

    یہ تذکرہ ہے آنند نرائن ملّا کا جن کا یہ قول آج بھی بالخصوص بھارت میں اردو کے متوالوں کو مسرور اور اس زبان کو ترک کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کو رنجور کیے دیتا ہے کہ ’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔ ‘‘

    معروف شاعر اور ہندوستان میں اردو کے فروغ کے ایک بڑے حامی آنند نرائن ملّا لگ بھگ صدی جیے۔ وہ 1997ء میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔ جائے پیدائش لکھنؤ اور سنہ پیدائش 1901ء ہے۔ بوقتِ مرگ آنند نرائن ملّا دلّی میں‌ مقیم تھے۔

    مسعود حسین خاں لکھتے ہیں، شاعر کے ہاتھ میں شمشیر دے کر اسے ’’مجاہد‘‘ بنا دیتے وقت کوئی بھی اس بارے میں اس کے ردعمل یا جذبات کا لحاظ نہیں رکھتا۔ چنانچہ مجھ سے بھی یہی غلطی ہوتی رہی اور میں پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی اس تقریر کے حوالے سے جو انھوں نے آزادی ملنے کے فوراً بعد جے پور کی اردو کانفرنس میں کی تھی اور کہا تھا۔ ’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ ان کا قول بارہا اپنی تقریر و تحریر میں نقل کرتا رہا۔ ایک بار تو انجمن ترقی اردو کے ایک تہنیتی جلسے میں، جہاں ملّا صاحب موجود تھے، یہاں تک کہہ گیا: ’’ہے اردو والوں میں کوئی اور مائی کا لال جو اس طرح کا دعویٰ کر سکے؟‘‘

    میرے اس مسلسل اصرار پر ملّا صاحب کا ردعمل مجھے حال میں معلوم ہوا جب انھوں نے ایک خط میں لکھا:’’میرے مجاہدِ اردو ہونے کا ذکر تو ہر شخص کرتا ہے لیکن میرے شاعر ہونے کو سب بھول گئے ہیں۔‘‘ مجھے اس ’’شکایت ہائے رنگیں‘‘ سے دھچکا سا لگا۔ یہ نہیں کہ ملّا صاحب کی شاعری کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی سخن وری کا اور ان کے اندازِ بیان کا اعتراف تو بہت پہلے سے ہوتا آیا ہے، یہ اور بات ہے کہ چوں کہ وہ کسی ادبی تحریک کے کفِ سیلاب بن کر نہیں ابھرے اس لیے دوسروں کی طرح ان کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا گیا! اس کے ثبوت میں میں آج ۱۹۴۱ء کی ایک دستاویز ’’جدید غزل گو‘‘ کی طرف اشارہ کروں گا، جس کے مرتب اور کوئی نہیں، رسالہ ’’نگار‘‘ کے مستند اور بے پناہ نقاد حضرت نیاز فتح پوری ہیں۔ ’’جدید غزل گو‘‘ میں ۱۹۴۰ء کے آس پاس کے ۳۱ زندہ اور معتبر غزل گوؤں کا انتخابِ کلام یکجا کر دیا ہے۔ یہ انتخاب خود انھیں شاعروں کا کیا ہوا ہے جن کو شامل کیا گیا ہے۔ پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کا انتخاب بھی، جو اس وقت ۳۸ برس کے تھے، شامل ہے۔ وہ ایک ایسی بزم کی زینت ہیں جہاں آرزوؔ لکھنوی، ثاقبؔ لکھنوی، جلیل مانک پوری، حسرتؔ موہانی، ساحرؔ دہلوی، سیمابؔ اکبر آبادی، نوحؔ ناروی اور وحشتؔ کلکتوی جیسے جیداساتذۂ سخن براجمان ہیں۔ ۳۱ کی اس فہرست میں صرف احسان دانش اور علی اختر جیسے چند شاعر ان سے جونیئر ہیں۔ ہم عصروں میں خاص نام فراق ؔ گورکھپوری کا ہے۔

    انتخاب کے افتتاحیہ نوٹ میں ملّا صاحب نے اپنا سنہ پیدائش اکتوبر ۱۹۰۱ء بتایا ہے۔ ان کی باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۲۷ء میں ایک نظم سے ہوا، اس کے ساتھ غزلیں بھی ہونے لگیں۔ جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، یعنی ۱۹۴۰ء تک بقول ملّا صاحب ’’پچاس ساٹھ نظمیں اور قریب سو (100) غزلیں کہی تھیں۔ ’’جدید غزل گو‘‘ کے لیے سو شعر انھوں نے انھیں سو غزلوں سے انتخاب کیے ہیں۔ ان سو غزلوں کی بدولت وہ غزل کے آسمانِ شعر میں اتنا بلند مقام حاصل کر چکے تھے کہ نیازؔ اپنی محفلِ سخن کے لیے انھیں دعوت نامہ بھیجنے پر مجبور ہو گئے۔

    ملّا صاحب کے احباب کا اصرار تھا کہ انھیں شعر گوئی کے لیے زانوئے تلمّذ کسی استاد کے سامنے تہ کرنا چاہیے کہ یہ دبستانِ لکھنؤ کی روایات کے عین مطابق تھا، لیکن ملّا صاحب یہ جواب دے کر گریز کر گئے: ’’شروع شروع میں میرے احباب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کسی کا شاگرد بن جاؤں، لیکن میرے ذوق نے اسے گوارا نہ کیا۔ اوّل تو یہ کہ شاگردی سے انفرادیت اس قدر مجروح ہوتی ہے کہ وہ پھر جاں بر نہیں ہو سکتی۔ استاد کا رنگ شاگرد کے کلام پر ایک نہ ایک حد تک ضرور حاوی ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر شخص کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ اس کے جذبات میں مختلف طریقوں سے کیف پیدا ہوتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر ایک مخصوص عالم طاری ہوتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہو سکتا … شاعر کے لیے سب سے پہلے صداقت کی ضرورت ہے اور صداقت دوسرے کے رنگ میں ڈوب کر قائم نہیں رہ سکتی!‘‘۔

    آنند نرائن ملّا سے متعلق ادبی مضامین سے اقتباسات میں ان کی شاعری کے آغاز، ان کے فن اور شخصیت ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ وہ ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی، سماجی اور لسانی کلچر کی زندہ علامت تھے جس کا اظہار اردو سے متعلق ان کے مشہور قول سے ہوتا ہے۔

    ملّا کشمیری الاصل تھے لیکن ان کے بزرگ پنڈت کالی داس ملّا لکھنؤ آکر بس گئے تھے اور یہیں پنڈت جگت نرائن ملّا کے یہاں آنند صاحب پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم فرنگی محل لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے استاد برکت اللہ رضا فرنگی محلی تھے۔ اس کے بعد ملا نے انگریزی میں ایم، اے کیا اور قانون کی پڑھائی کی اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۵۵ میں لکھنؤ ہائی کورٹ کے جج مقرر کئے گئے۔ سبک دوشی کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور ۱۹۶۷ میں لکھنؤ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے پارلیمینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۲ میں راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ آنند نرائن ملّال انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی رہے۔

    ابتداً انھوں نے انگریزی میں شاعری کی اور انگریزی ادب کے طالب علم ہونے کی وجہ سے انگریزی ادبیات پر بہت گہری نظر تھی لیکن پھر اردو شاعری کی طرف آگئے۔ لکھنؤ کے شعری و ادبی ماحول نے ان کی شاعرانہ صفات کو نکھارا۔ جوئے شیر، کچھ ذرے کچھ تارے، میری حدیث عمر گریزاں، کرب آگہی، جادۂ ملّا، ان کے شعری مجموعوں کے نام ہیں۔ کئی ادبی انعامات اور اعزازات سے بھی نوازے گئے۔

  • اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب کہا گیا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام ملا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔

    ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ یہ احمد ندیم قاسمی کے الفاظ ہیں جو جدید اردو نظم کے اس بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر و شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے لاہور شہر میں‌ زندگی کے آخری ایام گزارے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعہ آئینہ خانہ کو اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے ساتھ غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے والے اختر حسین جعفری نے اپنی شاعری میں تازہ فکر اور ندرتِ خیال کا اہتمام کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جا بجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے اختر حسین کی ابتدائی تعلیم ان کے ضلع کی درس گاہ سے مکمل ہوئی اور وظیفے کا امتحان پاس کرکے وہ گجرات آگئے۔ یہاں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور عملی زندگی کا آغاز سرکاری ملازمت سے ہوا۔ اسی ملازمت میں ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔

    اختر حسین جعفری نے اپنے تخلیقی سفر میں اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کروایا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ ممتاز نظم گو شاعر شمار کیے گئے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ کے علاوہ جہاں دریا اترتا ہے بھی بہت مقبول ہوا۔ آئینہ خانہ کی اشاعت پر اسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 2002 میں اس شاعر کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

  • عزیز حامد مدنی:‌ اردو شاعری کا منفرد اور نمایاں نام

    عزیز حامد مدنی:‌ اردو شاعری کا منفرد اور نمایاں نام

    عزیز حامد مدنی اردو شاعری کی توانا آواز تھے جو اپنے منفرد اور جدید لب و لہجے کے سبب اپنے ہم عصروں‌ میں نمایاں‌ ہوئے۔ وہ ایک براڈ کاسٹر اور نقّاد بھی تھے۔ 1991ء میں آج ہی کے دن عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    رائے پور( یو پی) کے ایک ذی علم گھرانے میں عزیز حامد مدنی نے 15 جون 1922ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد مولانا شبلی نعمانی کے شاگرد اور مولانا محمد علی جوہر کے دوستوں میں سے تھے۔ مشہور ادیب، نقاد، محقق، مترجم ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری بھی اُن کے عزیزوں میں سے تھے۔ عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔عزیز حامد مدنی نے اردو ادب میں شاعری کے ساتھ تنقید کے میدان میں خوب کام کیا۔

    عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    عزیز حامد مدنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی سانولی سلونی شخصیت بڑی دل آویز تھی۔ آواز میں نسوانیت تھی، ثقلِ سماعت کے سبب یا محض عادتاً پہلی بار مخاطب ہونے پر گویا کچھ سن، سمجھ نہ پاتے تھے اور ان کے سامنے بات دہرانا پڑتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منفرد اور باکمال شاعر عزیز حامد مدنی شعر بہت برے انداز سے سناتے تھے۔ ان کی آواز اور انداز شعر کو بے مزہ کردیتا تھا۔ اس کے باوجود باذوق سامعین اور اہلِ ادب ان کو بہت احترام سے سنا کرتے تھے۔

    مدنی صاحب کو کراچی میں لیاقت آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

  • عبدالحمید عدمؔ: جب کوٹھے پر ایک مغنیہ نے ان کی مشہور غزل چھیڑی

    عبدالحمید عدمؔ: جب کوٹھے پر ایک مغنیہ نے ان کی مشہور غزل چھیڑی

    اردو زبان کے مقبول رومانوی شاعر عبدالحمید عدمؔ کو قادر الکلام اور زود گو شاعر کہا جاتا ہے۔ عدم نے غزل جیسی مقبول صنف کو مختصر بحروں کے انتخاب‌ کے ساتھ خوب برتا۔ ان کا انداز سادہ مگر دل نشیں ہے اور سلاست و روانی ان کے کلام کی وہ خوبی ہے جس نے انھیں ہم عصروں‌ میں انفرادیت بخشی۔

    عبدالحمید عدم کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    عبدالحمید عدم 10 مارچ 1981ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو عدم کی شخصیت اور ان کی مقبولیت سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ عدم بھی اکثر شعرا کی طرح مے نوش تھے اور اسی باعث ان کی عراقی نژاد بیوی نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

    ایک شام میں نے عدم صاحب سے کہا، ’’عدم صاحب! یہاں ہیرا منڈی میں ایک گانے والی آپ کی غزلیں بڑے شوق سے گاتی ہے۔ اس کی دلی خواہش ہے کہ اُسے کبھی آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے۔‘‘

    کہنے لگے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ میں آپ کو اس گانے والی کے کوٹھے پر لے جاؤں۔ اگر آپ کو اس کی گائیکی پسند آ گئی اور آپ کو وہ محفل اچھی لگی تو میں بتا دوں گا کہ آپ سید عبدالحمید عدم ہیں ورنہ آپ کا تعارف کرائے بغیر وہاں سے اٹھ آئیں گے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد عدم صاحب راضی ہو گئے۔ ہم کوٹھے پر جا پہنچے۔ جونہی میرے پیچھے لڑکھڑاتے ہوئے جھومتے جھامتے عدم صاحب تشریف لائے، اُن لوگوں نے فوراً انہیں پہچان لیا۔ ساز و آواز یک لخت خاموش ہوگئے۔ گانے والی پہلے تو اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر حیرت سے عدم صاحب کو دیکھنے لگی پھر ایک دم اٹھ کر ان کے پاس آکر جھکی، ان کے پاؤں کو چھوا، اور ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔

    میں نے عدم صاحب کو بیٹھنے کو کہا۔ ایک بڑی بی نے عدم صاحب کو مخاطب کر کے کہا، ’’شاہ جی! تشریف رکھیں۔ یہ آپ نے بڑا کرم کیا جو ہم غریبوں کے گھر آئے ہیں۔‘‘

    گانے والی کا چہرہ تو شرم و حیا سے لال ہو رہا تھا۔ میں حیران ہوا کہ بازار میں بیٹھی ہوئی ایک گانے والی عدم صاحب سے شرما رہی ہے۔ عدم صاحب بالکل خاموش، پھٹی پھٹی نظروں سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ کمرے میں کچھ دیر بالکل سکوت طاری رہا۔ پھر میں نے اس گانے والی سے کہا، ’’تمہیں بڑا شوق تھا کہ عدم صاحب کو ان کی غزلیں سناؤ۔ اب اپنا شوق پورا کر لو۔‘‘ پان اور کوک وغیرہ سے خاطر تواضع ہونے لگی۔ میں نے عدم صاحب پر نظر ڈالی۔ وہ بالکل گم صم بیٹھے تھے۔ جیسے وہاں موجود ہی نہ ہوں۔

    بڑی بی نے کہا ’’شاہ جی فرمائیں۔ آپ کیسے ہیں۔‘‘ اس پر عدم تو بدستور خاموش رہے۔ میں نے کہا، ’’شاہ صاحب نے کیا فرمانا ہے۔ ہم تو سننے آئے ہیں۔ آپ عدم صاحب کو ان کی کوئی غزل سنوائیں۔‘‘ کچھ توقف کے بعد طبلے پر اچانک تھاپ پڑی اور ساز و آواز گونج اٹھے۔ اُس حسینہ نے سب سے پہلے عدم کی یہ مشہور غزل چھیڑی۔

    یہ باتیں تری، یہ فسانے ترے
    شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

    یہ محفل دیر تک جمی رہی۔ عدم صاحب مبہوت بیٹھے رہے۔ زبان سے کچھ نہ بولے۔

  • اختر الایمان: معروف نظم گو شاعر اور بہترین فلمی مکالمہ نویس

    اختر الایمان: معروف نظم گو شاعر اور بہترین فلمی مکالمہ نویس

    اختر الایمان کا نام اردو نظم کے لیے نئے معیارات متعین کرنے والے منفرد شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے دور میں جب غزل کا بول بالا تھا، اس صنف سے کنارہ کرتے ہوئے صرف نظم کو شعری اظہار کا ذریعہ بنایا۔

    وہ 12 نومبر 1915 کو مغربی اتر پردیش کے ضلع بجنور میں بستی قلعہ پتھر گڑھ کے ایک مفلوک الحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حافظ فتح محمد تھا جو پیشہ سے امام تھے۔ اس گھرانے نے بڑی غربت اور تنگی دیکھی جب کہ ماں اور باپ کے کشیدہ تعلقات نے بھی ان پر منفی اثر ڈالا۔ جلد ہی وہ اپنی چچی جو ان کی خالہ بھی تھیں، ان کے ساتھ دہلی چلے گئے اور وہیں آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ان کے ایک استاد نے اختر الایمان کو لکھنے لکھانے کی ترغیب دی اور ان کی حوصلہ افزائی سے اختر نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ فتحپوری اسکول سے 1937 میں میٹرک پاس کیا۔ اور اینگلو عربک کالج میں‌ داخلہ لیا۔ کالج میں وہ اک آتش نوا مقرراور رومانی نظموں کی بدولت سب کی نظروں میں اہمیت اختیار کرگئے۔ اسی زمانہ میں ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کر دی گئی جو طلاق پر ختم ہوئی۔ اختر نے کئی رومانس کیے اور مایوس و ناکام بھی رہے۔ شہروں شہروں معاش کے لیے پھرے اور پھر بطور کہانی نویس اور مکالمہ نگار ملازمت کر لی۔ بمبئی گئے تو فلموں میں مکالمے لکھنے کا کام مل گیا۔ 1947 میں انھوں نے سلطانہ منصوری سے شادی کی جو کام یاب رہی۔ بمبئی میں اختر الایمان کی مالی حالت میں بہتری آئی، وہاں اختر الایمان نے سو(100) سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے جن میں نغمہ، رفتار، زندگی اور طوفان، مغل اعظم، قانون، وقت، ہمراز، داغ، آدمی، مجرم، میرا سایہ، آدمی اور انسان جیسی کام یاب فلمیں شامل تھیں۔ ان کا نام بھی ادبی حلقوں میں ان کی نظموں اور غزل مخالف شاعر کے طور پر مشہور ہوا۔

    9 مارچ 1996 کو اخترالایمان عارضۂ قلب کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم ہندوستان کے مشہور شاعر اور ادیب رفعت سروش کے اخترالایمان سے متعلق ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو اس شاعر اور ادیب کی زندگی اور تخلیقی سفر کو بیان کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ادب میں اختر الایمان کی پہچان ایک شاعر کی طرح ہے، لیکن وہ تنہا شاعر ہیں جنھوں نے فلم میں رہ کر اپنی شاعری کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا۔ تقریباً نصف صدی وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے، فلموں کے لیے اسکرین پلے اور مکالمے لکھتے رہے لیکن (سوائے فلم ’’غلامی‘‘ کے اوپیرا کے) کوئی گانا انھوں نے فلم کے لیے نہیں لکھا۔

    ایسا نہیں کہ فلم کی سطح تک اتر کر شاعری نہیں کرسکتے تھے مگر ان کا شاعری کے لیے جذبۂ احترام تھا کہ انھوں نے اسے میوزک ڈائریکٹروں کی دھنوں کی تان پر قربان نہیں کیا۔ بلکہ اپنے ’’شعری جینیس‘‘ کو صرف سنجیدہ اور فکر انگیز شاعری کے لیے ہی محفوظ رکھا اور فلمی ادیبوں کی بھیڑ میں منفرد رہے۔ آج کے دور میں اپنے فن کے لیے اس قدر پرخلوص ہونا بے مثال ہے۔

    اخترالایمان نے نہ صرف یہ کہ فلمی شاعری نہیں کی، بلکہ سیاسی اور نیم سیاسی قصیدے بھی نہیں لکھے۔ اپنی شاعری کو ہر مصلحت سے دور رکھا اور وہی کہا جو شدت سے محسوس کیا اس لیے وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’گرداب‘‘ کی اشاعت (۱۹۴۳ء) کے ساتھ ہی صفِ اوّل کے شاعروں میں شمار کیے جانے لگے تھے اور یہ بلند مرتبہ انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ اخترالایمان کی شاعرانہ عظمت نہ کسی ’’تحریک‘‘ کی رہین منت ہے نہ کسی سیاسی یا غیرسیاسی گروہ یا شخصیت کی۔ وہ تنہا اپنے بل پر نمایاں رہے، بھیڑ میں سب سے الگ۔

    راقم الحروف کی ملاقات اختر الایمان سے ٹھیک ساٹھ سال پہلے ہوئی۔ ۱۹۴۲ء ماہ جون، میرے آبائی قصبہ نگینہ میں آل انڈیا انصار کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کے کونے کونے سے انصاری برادری کے لیڈران آئے تھے۔ میرا مطلب ہے ’’انصاری جدید‘‘ اور اس کانفرنس کی وجہ سے قصبہ کے ایک مشہور حکیم ایوب انصاری اپنی بدنامی سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ تین روزہ کانفرنس کے دوران اپنے گھر سے ہی نہ نکلے۔ اس کانفرنس کے سکریٹری مشہور رہنما قیوم انصاری نے ایسی گرم تقریر کی کہ غیر انصاریوں کو جوش آگیا اور نقصِ امن کا اندیشہ ہونے لگا۔ تب صدر محفل کے کہنے پر اخترالایمان نے جو ان ’جغادریوں‘ کے سامنے ’’طفلِ مکتب‘‘ معلوم ہو رہے تھے، وہ دھواں دھار تقریر کی کہ دونوں فریقوں کو شکایت کی گنجائش نہ رہی۔ انھوں نے کہا کہ دراصل یہ انگریزی سامراج کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے دو گروپ ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ اختر الایمان اس انصار کانفرنس کے ہیرو ٹھہرے۔ اور بعد میں ہم نوجوانوں نے جو ’’ساقی‘‘ میں ان کی نظمیں پڑھتے تھے، ان سے کلام سنانے کی فرمائش کی تو اخترالایمان نے اپنی دو نظمیں ’’نقش پا‘‘ اور ’’محلکے‘‘ ترنم سے سنائیں۔ تب تک ان کا مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا تھا۔ چند ماہ بعد پھر وہ نگینہ تشریف لائے اور اس رات ہم نے ان کی زبانی وہ سب نظمیں سنیں جو ’’گرداب‘‘ میں شائع ہوئیں۔

    ’’انصار کانفرنس‘‘ کی لیڈری ان کے قدموں میں تھی مگر اختر نے اس سلسلے کو منقطع کردیا۔ ان دنوں وہ ساغر نظامی کے رسالے ’ایشیا‘ کے نائب مدیر تھے۔ نگینہ کے بعد اخترالایمان سے میری ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں مگر وہ جلد ہی علی گڑھ ایم۔ اے کرنے چلے گئے۔ وہاں بھی ایک سال رکے اور ان کے کچھ عرصہ کے لیے قدم تھمے۔ پونا میں اور پھر پونا سے بمبئی۔ بمبئی میں اخترالایمان کو خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔ انھوں نے فلم کا اسکرین پلے اور مکالمے لکھنا اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ باندرہ میں ان کا دو کمرے کا ایک فلیٹ تھا، گراؤنڈ فلور پر۔ پھر جب ان کی مقبولیت اور آمدنی میں اضافہ ہونے لگا تو انھوں نے اس مکان میں اپنی لائبریری بنالی اور باندرہ میں ہی ایک بڑا فلیٹ خرید لیا۔ بمبئی آنے کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ اس نئے فلیٹ میں وہ ایک خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی فلم ’’قانون‘‘ جس میں کوئی گانا نہیں تھا، ان کے مکالموں کے باعث بہت مقبول ہوئی اور وہ ان کی کامیابی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ البتہ آخری دنوں میں انھوں نے بیماری اور مالی مجبوریوں کے باعث وہ بڑا فلیٹ بیچ دیا تھا اور باندرہ میں ہی دو کمرے کا فلیٹ خرید لیا تھا۔

    میں ان کے عقیدت مندوں میں تھا اور اکثر ان کے گھر ان سے ملنے جاتا تھا اور مجھے اخترالایمان نے ہمیشہ ایک مشفق بزرگ کا پیار دیا۔

    جس طرح اخترالایمان نے غزل نہیں لکھی اور فلمی شاعری نہیں کی اسی طرح ان کی وضع داری کا ایک گواہ ان کا لباس بھی تھا۔ وہ ہمیشہ بغیر کالر کا کھدر کا کرتہ اور پاجامہ پہنتے تھے۔ دہلی میں تو سردیوں میں شیروانی پہنتے تھے مگر بمبئی میں بس ان کا یہی ایک لباس تھا۔ کھدر کا سفید کرتہ اور پاجامہ۔ اس لباس میں میں نے انھیں پہلی بار نگینہ میں دیکھا تھا۔ اور اسی لباس میں ان کے انتقال سے کچھ دن پہلے تک دیکھا۔

    اختر الایمان کا ایک وصف بہت کاٹ دار تقریر کرنا تھا۔ ان کی سب سے پہلے تقریر تو میں نے انصار کانفرنس کے اسٹیج پر سنی اور دوسری تقریر ۱۹۴۴ء میں دہلی کے دربار ہال میں جہاں ترقی پسندوں اور رجعت پرستوں کے درمیان باقاعدہ مناظرہ ہوا تھا۔ ایک طرف خواجہ محمد شفیع، مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور سلطان اور دوسری طرف سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور اخترالایمان تھے۔ اختر الایمان کی تقریر مدلل اور برجستہ تھی۔ ایک کامیاب ڈبیٹر کی تقریر اخترالایمان کی تیسری معرکۃ الآراء تقریر میں نے بمبئی میں صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں سنی۔ یہ بھی ایک مناظرہ ہی تھا۔

    یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سردار جعفری کی انانیت نے اختر الایمان کو پنپنے نہ دیا لیکن جب ۱۹۶۰ء میں جدیدیت کی رو چلی تو اس گروپ نے اختر الایمان کو اپنا بنالیا تو اختر الایمان کو دیر سے ہی سہی، اپنی کاوشوں کا صلہ ملا اور ادبی حلقوں میں وہ سردار جعفری سے کہیں بہتر شاعر تسلیم کیے جانے لگے۔ مگر اپنے وقت کے ان دونوں بڑے شاعروں میں ایک محتاط دوستی تھی۔ محفلی زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا، ملنا جلنا بھی تھا۔ لیکن معاصرانہ چشمک کی ایک لہر دونوں طرف تھی۔

    اختر الایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیق القلب اور ہمدرد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا، اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔ میں اختر الایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اختر الایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔ اخترالایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب ولہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے بازگشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔ ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے سوائے ایک نظم ’’ایک لڑکا‘‘ کے۔

  • یوسف ظفر: شعر و ادب کی دنیا کا ایک بھولا بسرا نام

    یوسف ظفر: شعر و ادب کی دنیا کا ایک بھولا بسرا نام

    اردو زبان و ادب کے فروغ اور اپنے تخلیقی کاموں کی بدولت نام و مقام پانے والے یوسف ظفر کا تذکرہ آج بہت کم ہی ہوتا ہے، اور بالخصوص نئی نسل ان سے واقف نہیں ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ یوسف ظفر معروف ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ایک تھے۔

    یوسف ظفر یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہوئے۔ 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ پندرہ سال کے تھے جب والد اور اسی روز بڑی بہن کی اچانک وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔ یوسف ظفر نے کنبے کی ضروریات پوری کرنے کے دوران انتہائی نامساعد حالات میں اپنی زندگی بسر کی۔ وہ معاش کے لیے مشکلات کے سائے تلے جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ ان کا شعری سفر اور ادبی سرگرمیاں بھی ان کے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ غمِ دوراں سے ان کے فرار کا بہانہ بنی رہیں۔ 1939ء میں یوسف ظفر نے مشہور شاعر میرا جی کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے جہاں ادبی جریدے کی ادارت سنبھالی وہیں ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ ہوئے۔ وہ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    شاعر و ادیب یوسف ظفر کے تخلیقی سفر کو سمجھنے کے لیے ان مرکزی تحریکات و رجحانات کو مدنظر رکھنا ہو گا جن سے اردو شعر و ادب توانا ہوتا رہا اور ان تحریکوں میں خاص طور پر ترقی پسند تحریک اور تحریک حلقۂ ارباب ذوق کا نام لیا جائے گا۔ لاہور میں حفیظ ہوشیار پوری کے زیر صدارت پہلے جلسہ کے بعد جب قیوم نظر، میرا جی، ن م راشد جیسے شعرا اور ادیبوں کے ساتھ یوسف ظفر بھی شامل ہوئے تو اس کے اغراض و مقاصد میں بھی توسیع ہوئی اور اس انجمن نے پاکستان بھر میں اہل قلم شخصیات کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

    یوسف ظفر کے شعری مجموعے نوائے ساز، عشق پیماں، حریمِ وطن، صدا بہ صحرا، زہر خند اور زنداں کے نام سے شایع ہوئی اور سوانح عمری ظفر کی بات کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ یوسف ظفر نے یہودیت موضوع پر بھی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔

    7 مارچ 1972ء کو راولپنڈی میں انتقال کرنے والے یوسف ظفر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا
    کہ اس کا غم ہی مری زیست کا بہانہ ہوا

    نظر نے جھک کے کہا مجھ سے کیا دم رخصت
    میں سوچتا ہوں کہ کس دل سے وہ روانہ ہوا

    وہ یاد یاد میں جھلکا ہے آئنے کی طرح
    اس آئنہ میں کبھی اپنا سامنا نہ ہوا

    میں اس کے ہجر کی تاریکیوں میں ڈوبا تھا
    وہ آیا گھر میں مرے اور چراغ خانہ ہوا

    وہ لوٹ آیا ہے یا میری خود فریبی ہے
    نگاہ کہتی ہے دیکھے اسے زمانہ ہوا

    اسی کی یاد ہے سرمایۂ حیات ظفرؔ
    نہیں تو میرا ہے کیا میں ہوا ہوا نہ ہوا

  • جان کیٹس: نوجوانی میں موت سے ہم آغوش ہونے والا عظیم رومانوی شاعر

    جان کیٹس: نوجوانی میں موت سے ہم آغوش ہونے والا عظیم رومانوی شاعر

    بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار جانے والے جان کیٹس کو اس کی موت کے بعد بطور رومانوی شاعر لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ جان کیٹس ایسا جوانِ رعنا تھا جس کی زندگی نے ابھی اترانا سیکھا ہی تھا اور جو اپنے خوابوں کو شاعری میں جگہ دے رہا تھا۔ وہ 26 برس زندہ رہ سکا۔ جان کیٹس آج ہی کے روز 1821ء میں‌ چل بسا تھا۔

    لندن کے ایک علاقہ میں جان کیٹس نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ 31 اکتوبر 1795ء کو پیدا ہونے والے کیٹس کا باپ مقامی شراب خانے میں ساقیا تھا۔ وہ ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ جان کیٹس نے خراب مالی حالات کے باوجود طب کے مضمون میں سند حاصل کی۔ اُسے برطانیہ کے جس سستے اسکول میں داخلہ ملا تھا، وہاں خوش قسمتی سے جان کلارک جیسا ذہین، قابل اور ادبی ذوق رکھنے والا استاد اس کی زندگی میں آیا۔ کلارک نے کیٹس کو برطانوی زبان میں‌ ادب پاروں کا مطالعہ کرنے پر اکسایا اور کلاسیکی ادب کے تراجم سے واقف کرایا۔ ایک روز غربت زدہ کنبے کا سربراہ یعنی کیٹس کا باپ گھوڑے سے گِر کر ہلاک ہوگیا۔ یوں اس گھر کے افراد معمولی آمدنی سے بھی محروم ہوگئے۔ چند ماہ بعد کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی، مگر دوسرا شوہر ایک برا آدمی ثابت ہوا۔ جان کیٹس کی ماں نے اس سے طلاق لے لی اور بچّوں کے ساتھ ان کی دادی کے پاس چلی گئی۔ وہاں چند ماہ گزرے تھے کہ بچّے اپنی ماں کے سائے سے بھی محروم ہوگئے۔ اس کے بعد کیٹس کو اسکول سے اٹھا لیا گیا۔ اسے خاندان کے ایک شناسا سرجن کے پاس مقامی اسپتال میں‌ ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے جانا پڑا۔ کیٹس نے 1814 سے 1816 تک وہاں‌ ادویات اور سرجری کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ پھر ایک اسپتال میں معمولی نوکری مل گئی۔ اس نے اسپتال میں‌ سرجری کی کلاسیں‌ لینا شروع کردیا اور اسی عرصہ میں شاعری بھی کرنے لگا۔ اس کی لگن اور طلبِ علم کی شدید خواہش نے 1816 میں اسے ادویہ سازی اور سرجری میں سند یافتہ بنا دیا۔ جان کیٹس اس پیشے میں اب آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ وہ دادی کے گھر میں اپنا زیادہ وقت شاعری کرتے ہوئے گزارنے لگا۔

    جان کیٹس نے جس دور میں شاعری شروع کی‌، اس وقت دو ادبی رسائل تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اس کے ہم عصر اور برطانیہ کے مقبول شعرا میں‌ شیلے اور بائرن بھی شامل ہیں اور انھیں‌ بھی بے جا تنقید اور ادبی دنیا میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان ناموافق حالات میں اس وقت کے ایک اہم شاعر لی ہنٹ نے ایک رسالہ نکالا اور نئے لکھنے والوں کو اس میں جگہ دی۔ جان کیٹس کی نظمیں بھی ہنٹ کے رسالے میں شایع ہوئیں اور جلد ہی جان کیٹس کی نظموں کا پہلا مجموعہ بھی منظرِعام پر آ گیا۔ برطانیہ میں ادب کے قارئین جان کیٹس کو پہچاننے لگے، لیکن مستحکم ادبی حلقوں اور ان کے رسائل میں دوسروں کے ساتھ کیٹس پر بھی بے جا تنقید شروع کردی گئی اور یہ تک لکھا گیا کہ جان کیٹس کو شاعری ترک کر کے ادویہ سازی پر توجہ دینا چاہیے۔ جان کیسٹس جیسے حساس اور زود رنج شاعر کے لیے یہ تنقید ناقابل برداشت تھی۔ جان کیٹس بدقسمتی سے ٹی بی جیسے مرض کا شکار ہوچکا تھا جو اس دور میں‌ ناقابل علاج اور مہلک مرض تھا۔ دراصل جان کیٹس کو یہ مرض اپنے ٹی بی کا شکار بھائی سے منتقل ہوا تھا۔ وہ تنقید کے ساتھ ٹی بی کی شدت بھی سہہ رہا تھا۔ اگرچہ بائرن، لی ہنٹ اور شیلے وہ شاعر اور ادیب تھے جنھیں جان کیٹس سے ہمدردی بھی تھی اور وہ اس کی شاعری کے معترف بھی تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی اور ساتھ جان کیٹس کو ضرور نصیب تھا، مگر ٹی بی نے اسے مزید حساس بنا دیا تھا اور وہ خود پر کڑی تنقید برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔

    بات صرف یہی نہیں‌ تھی بلکہ جان کیٹس عشق کا روگ بھی لگا بیٹھا تھا۔ یہ لڑکی اس کی پڑوسی فینی بران تھی۔ کہتے ہیں کہ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت اور دیکھ بھال نے ہی جان کیٹس کو بہت سہارا دے رکھا تھا ورنہ بیماری اسے تیزی سے موت کی طرف لے جارہی تھی۔ جان کیٹس نے اپنی مشہور نظم برائٹ اسٹار اسی لڑکی فینی سے ایک ملاقات کے دوران لکھی تھی۔ ان میں پیامات کا تبادلہ بھی ہوتا تھا اور یہ خطوط بعد میں بے مثال رومانوی خطوط کے طور پر محفوظ کر لیے گئے۔

    نوجوان شاعر جان کیٹس نے اپنی نظموں‌ میں‌ حسن و عشق اور جذبات کو اپنے تخیل میں اس طرح‌ سمویا کہ بعد میں اس کی شاعری کو ایک دبستان قرار دیا گیا۔ مختصر زندگی میں غربت اور جسمانی تکلیف کے ساتھ نام نہاد ادبی نقادوں کی دل آزار باتوں اور عشق نے جان کیٹس کو ایک بے مثال شاعر بنا دیا۔ کیٹس کی شاعری لازوال ثابت ہوئی۔ انگریزی ادب کے ناقدین کہتے ہیں کہ کیٹس کی زندگی کے رنج و غم، اس پر بے جا تنقید اور فینی کی محبت نے ہی اسے بطور شاعر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جان کیٹس یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کرداروں کا ذکر جا بجا اس کی شاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

    اٹلی کے مشہور شہر روم میں‌ قیام کے دوران ٹی بی کے مرض کی شدت کے سبب جان کیٹس کی موت واقع ہوگئی۔ اس عظیم انگریز رومانوی شاعر کی تدفین بھی روم ہی میں کی گئی۔

  • صہباؔ اختر: جہانِ سخن کا ایک معروف نام

    صہباؔ اختر: جہانِ سخن کا ایک معروف نام

    صہباؔ اختر کے اشعار آج شاید ہی ادب اور شاعری کا شغف رکھنے والے کسی نوجوان کو یاد ہوں‌ اور بہت ممکن ہے کہ اکثریت ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو، لیکن یہ تعجب خیز بھی نہیں۔ آج نئی نسل کے لیے کئی نام نئے ہیں کہ یہ یہی وقت کی گردش اور الٹ پھیر ہے، لیکن تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں جو شاعر مشہور ہوئے، ان میں صہبا صاحب کا نام ضرور شامل ہے۔ انھیں شاعرِ پاکستان بھی کہا گیا اور یہ ان کا امتیاز ہے۔

    صہبا اختر کو مشاعرہ پڑھنے کے ان کے خاص انداز کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جو طنطنہ، رعب اور گھن گرج ان کی آواز میں تھی، وہ انہی سے مخصوص ہے۔ ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی اس لحن میں غزل یا نظم نہیں پڑھ سکا۔ آج اردو کے ممتاز شاعر صہبا اختر کا یومِ وفات ہے۔

    صہبا اختر نے غزل کے علاوہ حمد و نعت، مرثیہ گوئی، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور گیت نگاری کے ساتھ ان کی ملّی شاعری نے انھیں بڑی شہرت دی۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ بعد از مرگ صہبا صاحب کے لیے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا تھا۔

    صہبا صاحب کو غزل اور نظم گوئی میں کمال و شہرت نصیب ہوئی۔ ان کی بیشتر نظمیں وطن سے محبت اور اس مٹی سے پیار کا والہانہ اظہار ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ان مسائل کو بھی شاعری میں خوب صورتی اور شدت سے بیان کرتے ہیں‌ کہ جو ان کی نظر میں وطن کی صبحِ درخشاں کو تیرگی اور تاریکی کا شکار کرسکتے ہیں۔ ان کا لحن اور جذبہ ان کی شاعری میں دو آتشہ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔

    صہباؔ اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور صہبا اختر کم عمری میں شعر کہنے لگے۔ انھوں نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا، علی گڑھ سے بی اے کی سند لی اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمۂ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    احمد ندیم قاسمی نے اپنے مضمون میں‌ صہباؔ صاحب کے بارے میں‌ لکھا تھا:’’صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے۔ بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں۔ یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘

    صہبا صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے آپ میں گم رہنے والے، نہایت کم گو تھے اور دوسرو‌ں کے متعلق یا اپنے ہم عصر شعراء کی عیب جوئی یا کسی پر نکتہ چینی کبھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک مشاعرے کا احوال اور صہبا صاحب کا یہ تذکرہ پڑھیے: ’’غالباً 1955ء کا ذکر ہے، نواب شاہ میں ایک بڑے مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ کراچی سے شرکت کرنے والوں میں ایک چھیل چھبیلا جوان العمر شاعر بھی تھا۔ گھنے گھنے، گھنگریالے سیاہ اور چمکتے دمکتے بال، گول مٹول سا بھرا بھرا چہرہ، خمار آلود شربتی آنکھیں، ستواں ناک، متناسب لب اور دل کش قد و قامت کے ساتھ ساتھ تنومند جسم پر ململ کا کڑھا ہوا کرتا اور صاف و شفاف لٹھے کا ڈھیلا پاجامہ۔ یہ تھی صہبا اختر کی سج دھج، جنھوں نے اپنی باری آنے پر بڑی لمبی بحر کی غزل چھیڑی اور وہ بھی منجھے ہوئے ترنم سے۔ حاضرین منتظر ہیں کہ ذرا کہیں رکیں تو داد و تحسین سے نوازے جائیں۔ اُدھر بھائی صہبا اختر کی محویت کا یہ عالم کہ جیسے ایک ہی سانس میں پوری غزل سنا ڈالیں گے۔ مسئلہ پوری غزل کا نہیں بلکہ مطلع ہی ایسی بحرِ طویل کو تسخیر کر رہا تھا کہ سانس لینے کی فرصت کسے تھی۔ بہرکیف غزل خوب جمی اور داد بھی بہت ملی۔

    صہبا اختر کی غزل ملاحظہ کیجیے۔

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    صہبا اختر ایک عرصہ تک ریڈیو پاکستان کے لیے بھی پابندی سے لکھتے رہے۔ ان کے تحریر کردہ فلمی گیت بہت مقبول ہوئے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا شامل ہیں۔

    صہباؔ اختر 19 فروری 1996ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھیں کراچی میں گلشنِ اقبال کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • شہریار: مقبول ترین فلمی گیتوں کا گمنام خالق

    شہریار: مقبول ترین فلمی گیتوں کا گمنام خالق

    قسمت کے کھیل بھی عجیب ہیں کبھی کوئی معمولی شخص راتوں رات اپنے کسی کام کی وجہ سے وہ رفعت اور بلندی حاصل کرلیتا ہے جس کی وہ توقع بھی نہیں کرسکتا تھا لیکن کئی لوگ اپنی برسوں کی محنت، ریاضت سے کارنامے انجام دینے کے باوجود گمنام ہی رہتے ہیں۔ شہریار بھی ایسے ہی فلمی نغمہ نگار تھے۔ ان کی شاعری فلم ’امراؤ جان‘ کے ذریعے ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر میں مقبول ہوئی۔ لیکن شہریار غیر معروف اور گمنام شاعر رہے۔

    بولی ووڈ کی سپر ہٹ ترین فلم امراؤ جان کے شاعر شہریار کے تحریر کردہ تمام گیتوں نے ہندوستان میں دھوم مچا دی تھی۔ مگر بطور شاعر شہریار نے اپنی ناقدری دیکھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ ایک سیدھے سادے انسان تھے اور دکھاوا، خوشامد ان میں ہرگز نہیں تھا۔

    آج بھی یہ فلمی گیت ہماری سماعتوں کو سحر زدہ کیے ہوئے ہے:
    دل چیز کیا آپ میری جان لیجیے
    بس ایک بار میرا کہا مان لیجیے

    اور یہ نغمہ دیکھیے
    یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
    حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

    برصغیر میں ایک دور میں ہر ایک امراؤ جان کا یہ گیت گنگناتا نظر آتا تھا:
    ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
    ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں

    گلوکارہ آشا بھوسلے کی آواز نے ان گیتوں میں جادو سا بھر دیا تھا۔ فلم امراؤ جان میں اداکارہ ریکھا نے ہیروئن کا کردار بڑی خوبصورتی سے ادا کیا تھا۔ ہیرو فاروق شیخ تھے اور یہ فلم اپنے لازوال گیتوں کی وجہ سے آج بھی گویا زندہ ہے۔

    شاعر شہریار کو اپنے دور کے دوسرے شاعروں کی طرح جن میں ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری اور حسرت جے پوری اور دیگر شامل تھے، شہرت نصیب نہ ہوئی۔

    ان کا نام کنور محمد اخلاق تھا اور دنیائے ادب میں شہریار کے نام سے جانے گئے۔ وہ 16 جون 1936 کو آنولہ، ضلع بریلی، اُتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہردوئی میں حاصل کی۔ 1948میں علی گڑھ آئے۔ 1961 میں اردو میں ایم اے کیا۔ 1966میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر ہوئے۔ شہریار کو شروع ہی سے ہاکی، بیڈمنٹن اور رمی کھیلنا پسند تھا۔ ان کی ملاقات خلیل الرحمن اعظمی سے ہوئی اور پھر شہریار نے شاعری کا آغاز کیا۔ ان کے والد پولیس انسپکٹر تھے۔ شہریار نے فلم گمن اور امراؤ جان کے بعد فلم انجمن کے گانے بھی لکھے۔ بھارت میں انھیں گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکیڈمی سمیت متعد د اعزازات سے نوازا گیا۔ شہریار 13 فرروری 2012 کو انتقال کرگئے تھے۔