Tag: شاعر برسی

  • جمال احسانی: منفرد لب و لہجے کا شاعر

    جمال احسانی: منفرد لب و لہجے کا شاعر

    محبت کرنے والوں کو معروف شاعر جمال احسانی نے ایک نئے انداز سے دیکھنا سکھایا تھا۔ وہ کہتے ہیں:

    یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
    بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

    جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل میں روایتی موضوعات کو بہت خوب صورتی سے نبھانے والے شاعر جمال احسانی کی آج برسی ہے۔ تشبیہات اور استعاروں سے اپنی شاعری کو تازگی اور دل کشی عطا کرنے والے جمال احسانی 10 فروری 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    اردو کے معروف شاعر جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا۔ شعر و ادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت نصیب ہوئی۔ وہ 1951ء میں سرگودھا میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جن کے بزرگ متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تعلق رکھتے تھے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازم ہوگئے۔ اس سے پہلے ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بحیثیت معاون مدیر وابستہ رہے تھے۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں بطور شاعر جمال احسانی نے پہچان بنانا شروع کی اور جلد ان کا شمار خوش فکر شعرا میں ہونے لگا۔ جمال احسانی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    معروف شاعر جمال احسانی کے شعری مجموعے بعنوان ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شایع ہوئے۔

    جمال احسانی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • دلاور فگار:‌ اردو شاعری کے شہنشاہِ‌ ظرافت کا تذکرہ

    دلاور فگار:‌ اردو شاعری کے شہنشاہِ‌ ظرافت کا تذکرہ

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کے بادشاہ کہلانے والے دلاور فگار نے ایک زمانے میں عام آدمی کے مسائل اور اس کی مشکلات کو اپنے اشعار کی صورت میں اربابِ حلّ و عقد تک پہنچانے کا کام کیا۔ ان کی شاعری گویا عوام کی آواز تھی۔

    دلاور فگار مشاعروں میں اپنے ظریفانہ کلام اور انداز کی وجہ سے خوب داد وصول کرتے تھے۔ انھیں اردو کے مزاح گو شعراء میں شہنشاہِ ظرافت کے نام سے شہرت اور امتیاز حاصل ہوا۔ دلاور فگار 21 جنوری 1998ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    عام آدمی کے مسائل اور دکھوں کو قہقہوں کی پوشاک میں لپیٹ کر طنزیہ انداز میں حکم رانوں کے سامنے لانے والے دلاور فگار کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ایک تخلیق کار اور معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کی۔ دلاور فگار کا مزاح سخت اور کھردرا نہیں‌ بلکہ یہ خوش دلی اور خوش مذاقی پر مبنی ہے۔ ان کے طنزیہ اشعار بھی تہذیب اور شرافت کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
    میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلاور فگار نے شباب بدایونی کے تخلّص سے سنجیدہ شاعری بھی کی اور ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ بعنوان حادثہ 1954ء شایع ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے تخلّص ہی نہیں اپنا ذوق و طرزِ شاعری ہی بدل لیا اور طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار مشہور ہوئے۔ اس وقت تک وہ بھارت میں مقیم تھے۔

    ان کا خاندانی نام دلاور حسین تھا۔ 1928ء میں بدایوں کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 1942ء میں ہائی اسکول کے امتحان کام یاب ہوئے۔ والد مقامی اسلامیہ اسکول میں استاد تھے۔ دلاور حسین اس وقت اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن بعد میں ایم اے کے سند یافتہ ہوگئے۔ کم عمر تھے جب ایک ڈاک خانے میں کام کرنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں علم و ادب کا شوق ہوا اور شاعری شروع کی اور بدایوں کے مشاعروں میں پہچان بنانے لگے مگر شباب بدایوں کے نام سے۔ وہ لہک لہک کر اپنی غزلیں سنایا کرتے تھے۔

    دس جماعتیں پڑھ لینے کے چار سال بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور بریلی کالج گئے جہاں سے معلّمی کا ڈپلومہ بھی لے لیا اور والد کے سایۂ عاطفت سے محرومی کے بعد 1950ء میں ٹیچنگ شروع کردی۔ 1953ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے۔ 1966ء انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ یہ بھارت میں قیام کے دوران ان کا تعلیمی اور ادبی سفر تھا اور پھر وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں وہ کراچی میں مقیم ہوئے۔

    کراچی میں دلاور فگار کو عبد اﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اس وقت وہاں پرنسپل تھے۔ شہرِ قائد کے مشاعروں میں دلاور فگار شریک ہوتے اور اپنی مزاحیہ شاعری سے سامعین کو قہقہے لگانے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ انھیں مسائل کا ادراک کرواتے اور آمادہ کرتے کہ وہ اپنے لیے غوروفکر کریں۔

    دلاور فگار کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی”، "ستم ظریفیاں”، "آداب عرض”، "شامتِ اعمال”، "مطلع عرض ہے”، "خدا جھوٹ نہ بلوائے”، "چراغِ خنداں” اور "کہا سنا معاف کرنا” شامل ہیں۔ مرحوم نے جمی کارٹر کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

  • منور رانا:‌ مقبول شاعر اور نثر نگار

    منور رانا:‌ مقبول شاعر اور نثر نگار

    کئی ایوارڈز اپنے نام کرنے والے منور رانا ہندوستان کے ایسے شاعر تھے جو بیرونِ ملک بھی اردو شاعری پڑھنے اور سمجھنے والوں میں مقبول تھے وہ ایک کام یاب شاعر تھے جنھیں خاص طور پر مشاعروں میں حاضرین دیر تک سننا پسند کرتے تھے۔ منور رانا کی مقبول ترین نظم ’ماں‘ اور ’مہاجر نامہ‘ ہیں۔

    اردو کے معروف شاعر منور رانا کو 2014 میں ان کی نظم ’شہ دابا‘ پر ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ دیا گیا تھا، لیکن بھارت میں عدم برداشت اور بڑھتی ہوئی ناانصافی پر احتجاجاً منور رانا نے یہ ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ ان کی اردو ادب کے لیے خدمات کے اعتراف میں 2012 میں ’ماٹی ایوارڈ‘ جب کہ وہ امیر خسرو ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ سمیت دیگر کئی ادبی ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔

    منور رانا کو ہندوستان میں اردو زبان اور شعرو شاعری کے حوالے سے ان کے بعض بیانات کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاعرات کی اکثریت دوسروں سے کلام لکھواتی ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ منور رانا اس بات سے سخت نالاں تھے کہ موجودہ دور میں‌ مشاعروں کا انعقاد تجارتی سوچ کے ساتھ کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پست اور غیرمعیاری شاعری عوام تک پہنچ رہی ہے۔ بھارت میں اردو زبان اور شاعری کے حوالے سے منور رانا کو ہر تقریب میں مدعو کیا جاتا تھا اور لوگ ان کا کلام بڑے ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ منور رانا ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ منور رانا کا پہلا شعری مجموعہ ‘آغاز’ 1971ء میں شائع ہوا۔ بعد کے برسوں میں سرحد، مہاجر نامہ، ماں، دیگر کئی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ اُن کی نثر پر مشتمل کتاب ‘بغیر نقشے کا مکان’ بہت مقبول ہوئی۔ جنگلی پھول، سخن سرائے، چہرے یاد رہتے ہیں اور سفید جنگلی کبوتر بھی ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔

    شاعر منور رانا کا اصل نام سید منور علی تھا۔ وہ 26 نومبر 1952ء کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید انور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون تھا۔ منور رانا نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی تو ان کو لکھنؤ بھیج دیا گیا جہاں سینٹ جانس ہائی اسکول میں مزید تعلیم پائی۔ والد کا تبادلہ ہوا تو 1968ء میں منور رانا کو بھی کلکتہ جانا پڑا اور وہاں سے ہائر سیکنڈری کی سند لی اور پھر گریجویشن کے لیے کلکتہ کا رخ کیا۔ منور رانا کے ادبی ذوق و شوق کا سبب ان کے ادب نواز دادا مرحوم سید صادق علی رہے اور بعد میں اسی شوق نے انھیں شاعر بنا دیا۔

    زمانۂ طالب علمی سے ہی منور رانا کو فلم اور شاعری کا شوق رہا۔ انھیں فلمی اداکاروں کی آوازوں کی نقالی میں بھی مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ خاص طور پر فلم اسٹار شتروگھن سنہا کی آواز کی نقالی پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا تھا۔ منور رانا نے چند افسانے اور مختصر کہانیاں بھی لکھیں جو مقامی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

    اردو شاعری میں غزل کو وسیلۂ اظہار بنانے والے منور رانا نے ابتداً منور علی آتش کے قلمی نام سے شاعری شروع کی اور ان کی پہلی تخلیق 1972ء میں کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ بعد میں تخلص شاداں رکھ لیا اور 1977ء میں ایک مرتبہ منورؔ رانا بن گئے اور بے مثال شہرت پائی۔

    منور رانا پچھلے سال 14 جنوری کو انتقال کرگئے تھے، انھیں لکھنؤ کے مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ 71 سالہ منور رانا 2017ء سے گلے کے کینسر، دل اور گردے کے عوارض میں مبتلا تھے اور طبیعت خراب ہونے پر انھیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ ان کا ایک شعر ہے:

    جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہو جائیں گے ہم
    اے زمیں اک دن تری خوراک ہو جائیں گے ہم

  • خواجہ حیدر علی آتشؔ:‌ اردو کا مقبول و محبوب شاعر

    خواجہ حیدر علی آتشؔ:‌ اردو کا مقبول و محبوب شاعر

    خواجہ حیدر علی آتش کلاسیکی اردو غزل کے ابتدائی ادوار کے سرفہرست شعراء میں سے ایک تھے۔ آتش نے اردو غزل کو علم و بیان و بدیع کے جملہ محاسنِ شعری سے مزین کیا اور ان کی شاعری میں کلاسیکی روایت سے جڑے سبھی موضوعات اور اسالیب و شعری تلازموں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

    آتش کے کلام میں روایتی موضوعات سے لے کر جدید مباحث اور فکر و فلسفہ کی ترجمانی ملتی ہے۔ تصوف سے گہرا لگاؤ اور اخلاقی موضوعات کے بارے میں آتش کا نکتہ نظر منفرد اور دلآویز ہے۔ آج اپنے زمانے کے ممتاز اور معتبر شاعر خواجہ حیدر علی آتش کا یوم وفات ہے۔

    مولانا محمد حسین آزاد ؔ جیسے بڑے ادیب اور نقاد نے آتش کے گزر بسر کا نقشہ یوں کھینچا ہے: ”زمانے نے ان کی تصاویرِ مضمون کی قدر ہی نہیں کی بلکہ پرستش کی مگر انھوں نے اس کی جاہِ حشمت سے ظاہر آرائی نہ چاہی۔ نہ امیروں کے درباروں میں جاکر غزلیں سنائیں، نہ ان کی تعریفوں میں قصیدے کہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں جس کی چھت کچھ چھپر سایہ کیے تھے، بوریا بچھا رہتا تھا۔ اسی پر لُنگ باندھے صبر و قناعت سے بیٹھے رہے اور عمرِ چند روزہ کو اس طرح گزار دیا جیسے کوئی بے نیاز فقیر تکیے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی متوسط الحال اشراف یا کوئی غریب آجاتا تو متوجہ ہو کر باتیں بھی کرتے تھے، امیر آتا تو دھتکار دیتے، وہ سلام کر کے کھڑا رہتا کہ آپ فرمائیں تو بیٹھے، یہ کہتے ہوں، کیوں صاحب! بورے کو دیکھتے ہو کپڑے خراب ہو جائیں گے؟ یہ تو فقیر کا تکیہ ہے، یہاں مسند تکیہ کہاں؟″

    آتش کے خاندان کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت تذکروں میں نہیں ملتے۔ البتہ مصحفیؔ لکھتے ہیں: ”آتشؔ کا نسب نامہ خواجہ عبداللہ احرار تک پہنچتا ہے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا، وطنِ قدیم چھوڑ کر دلّی میں آبسے اور قلعہ کہنہ میں آباد ہو گئے۔”

    خواجہ حیدر علی آتشؔ کے والد کا نام خواجہ علی بخش تھا جو دلّی کے باشندے تھے۔ بعد میں دلّی چھوڑ کر فیض آباد آگئے اور یہیں خواجہ حیدر علی پیدا ہوئے۔ آتش کی تاریخِ ولادت بھی درست معلوم نہیں۔ لیکن سنہ 1778ء لکھا گیا ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش گورے، چٹے اور جوانِ رعنا تھے۔ تعلیم کا سلسلہ معقول حد تک چلا اور ابتدائے موزونی طبع سے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہنے لگے۔ آتش نے نوجوانی میں تعلیم ضروری حد تک حاصل کر لی تھی لیکن کئی ادبی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آتش بانکے اور آزاد منش شاعر تھے۔ نواب محمد تقی خاں کی سرکار میں ملازم ہوگئے تھے اور فیض آباد میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب کی فوج میں ملازمت تھی اور معلوم نہیں کہ کس سپاہ میں ملازم تھے اور کب اور کس عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ تذکرہ نگاروں نے بھی خواجہ صاحب کی زندگی کے حالات و اقعات کو اکٹھا کرنے اور کھوجنے کی کوشش بہت نہیں کی۔

    خواجہ حیدر علی آتش کی شادی کا ذکر عبدالرّؤف عشرت نے اپنے تذکرہ آبِ بقا میں اس طرح کیا ہے۔ ”نواز گنج کے قریب چوٹیوں سے آگے مادھو لال کی چڑھائی مشہور ہے۔ وہاں سے اتر کر ایک چھوٹا سا باغیچہ اور ایک کچا مکان تھا۔ وہ آتش نے خرید لیا اور اسی میں رہنے لگے۔ مکان لینے کے بعد آتش نے اپنا نکاح کسی شریف خاندان میں کر لیا۔ ”

    آتش نے فیض آباد سے ترکِ سکونت کیا اور لکھنؤ آگئے کیونکہ آصف الدولہ نے اس شہر کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تھا۔ آتش غزل گو شاعر تھے اور ان کا کمال اسی صنفِ سخن میں ظاہر ہوا۔ ادھر آتش کو لکھنؤ کی فضا میں اپنے دور کے نمائندہ شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    خواجہ صاحب کے اشعار میں مزاج اور اظہار کا وہ منفرد انداز واضح ہے جو کسی بھی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں ملتا۔ ان اشعار میں ندرتِ ادا بھی ہے اور تازگی بھی اور یہی آتش کی پہچان ہے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے۔

    ایک شعر دیکھیے؎
    آئے بھی، بیٹھے بھی، اُٹھ بھی کھڑے ہوئے
    میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا

    اور یہ شعر بھی ملاحظہ ہو؎
    سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
    کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

    خواجہ حیدر علی آتش کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا۔ ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام ایک دوست نے کیا۔ آج آتش کا گھر ہے نہ ان کی قبر کا کوئی نشان۔ سنہ وفات 1847ء ہے۔ مصحفی سے لے کر عشرت تک کے تمام تذکرہ نگاروں میں آتش کو مقبول و محبوب شاعر قرار دیا ہے۔

  • حفیظ ہوشیار پوری: دل نشیں لب و لہجے کے شاعر کا تذکرہ

    حفیظ ہوشیار پوری: دل نشیں لب و لہجے کے شاعر کا تذکرہ

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

    ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن پر گلوکار مہدی حسن اور نسیم بیگم کی آواز میں نشر ہونے والی یہ غزل آج بھی ہماری سماعتوں میں تازہ ہے۔ اس کے اشعار ہمارے دل پر گویا نقش ہوچکے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والے اس لافانی غزل کے خالق کا نام ہے حفیظ ہوشیار پوری جو 10 جنوری 1973ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج اس معروف شاعر کی برسی ہے۔

    ایک طرف تو اس غزل کے اشعار سلاست، سادگی، روانی اور سہلِ ممتنع کی عمدہ مثال ہیں اور دوسری جانب گلوکار مہدی حسن اور نسیم بیگم نے بھی اس کلام کو جس انداز سے گایا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    حفیظ، یکم جنوری 1912ء کو جھنگ کے ایک قصبہ میں پیدا ہوئے، مگر اپنے آبائی علاقہ ہوشیار پور کی نسبت اپنے نام سے جوڑی اور حفیظ ہوشیار پوری مشہور ہوئے۔ حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبد الحفیظ سلیم تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیار پور سے حاصل کی۔ 1936ء میں فلسفے میں بی اے اور ایم اے کیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے اور ممبئی اور لاہور کے ریڈیو اسٹیشنوں پر خدمات انجام دینے کے بعد تقسیمِ ہند کے موقع پر ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لی۔ حفیظ ہوشیار پوری نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن انہیں شہرت غزل سے ملی۔ مشہور اور باکمال شاعر ناصر کاظمی بھی حفیظ ہوشیار پوری کے شاگرد رہے۔

    ریڈیو سے قبل حفیظ ہوشیار پوری نے چند چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، میاں بشیر احمد کے ساتھ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے سیکرٹری رہے۔ اپنے وقت کے مشہور رسالہ ’’پھول‘‘ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کی ادارت بھی کی۔ حفیظ ہوشیار پوری کو شروع سے ہی شعر و ادب سے شغف تھا اور اس کا سبب ان کے نانا تھے جن کو سیکڑوں اشعار ازبر تھے اور ان کے گھر میں کتب کے ساتھ رسائل و جرائد بھی آتے تھے۔

    حفیظ ہوشیار پوری کا سب سے بڑا شعری وصف ان کی سادگی اور سلاست ہے۔ وہ چھوٹی بحر میں بڑی سادگی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ انھوں نے غزل کی کلاسیکی روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کی شاعری میں ندرتِ خیال اور نکتہ آفرینی بھی ملتی ہے جسے ان کے ہم عصر شعرا نے بھی سراہا ہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے نظمیں بھی کہیں اور قطعاتِ تاریخِ وفات بھی، مگر ان کی محبوب صنفِ سخن غزل ہی تھی اور غزل ہی ان کی صحیح پہچان ہے۔ بحیثیت غزل گو شاعر حفیظ ہوشیار پوری اپنے بہت سے اشعار کی بدولت ہمیشہ یاد رہیں‌ گے۔ حفیظ ہوشیار پوری کے یہ اشعار دیکھیے۔

    تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
    اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
    ……..

    دِل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظ
    بات دل میں کہاں سے آتی ہے
    ……..
    اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
    تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

  • دردؔ: وہ شاعر جسے  میر تقی میرؔ نے ریختہ کا "زور آور” کہا!

    دردؔ: وہ شاعر جسے میر تقی میرؔ نے ریختہ کا "زور آور” کہا!

    مرزا غالب نے میر تقی میرؔ کو استاد شاعر تسلیم کیا تھا اور میرؔ نے اپنے ہم عصر خواجہ میر دردؔ کو ریختہ کا "زور آور” شاعر کہا تھا۔ یہ تذکرہ خواجہ میر دردؔ کا ہے جن کا کلام عشقِ حقیقی میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن عشقِ حقیقی کے ساتھ دردؔ وارداتِ قلبی کے شاعر بھی تھے۔ دردؔ ہندوستانی موسیقی کا بھی علم رکھتے تھے۔

    مرزا لطف علی صاحب کی "گلشنِ سخن” میں‌ لکھا ہے کہ دردؔ کا کلام سراپا درد و اثر ہے۔ میر حسن نے انھیں آسمانِ سخن کا خورشید قرار دیا اور عبد السلام ندوی نے کہا کہ خواجہ میر دردؔ نے اس زبان کو سب سے پہلے صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا۔

    دردؔ ایک صاحب اسلوب شاعر تھے جن کی شاعری بنیادی طور پر عشقیہ شاعری ہے۔ ان کا عشق مجازی بھی ہے، حقیقی بھی۔ خواجہ میر درد کی شاعری میں بے ثباتی و بے اعتباری، بقا اور فنا، مکان و لا مکاں، توکل اور فقر کے مضامین بکثرت ملتے ہیں۔

    حضرت خواجہ میر درد کے اجداد بخارا کے باشندے تھے۔ سلسلۂ نسب والد کی طرف سے حضرت خواجہ بہاء الدّین نقش بندی سے جا ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے حضرت عبدالقادر جیلانی سے۔ والد کا نام خواجہ ناصر تھا۔ جو فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ عندلیبؔ تخلص کرتے تھے۔ میر دردؔ ۱۱۱۹ء میں پیدا ہوئے۔ تصوف اور شاعری ورثے میں پائی۔ اوائل عمر سے ہی ان کا رجحان شاعری اور مذہب کی طرف تھا۔ بچپن سے تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں رسالہ احکام الصلوٰۃ لکھا۔ اس دور میں کم عمری میں شادی کرنے کا رواج تھا۔ والد نے ان کی شادی کر دی۔ درد ۱۷۸۵ء میں آج ہی کے روز مالکِ حقیقی سے جا ملے۔

    میر دردؔ کی شاعری تصوف اور تغزل کے رنگ سے منوّر ہے۔ زبان بڑی تیکھی اور رواں دواں تھی۔ ان کے کلام میں آورد نام کو نہ تھا۔ بس آمد ہی آمد تھی۔ اس حوالے سے دردؔ لکھتے ہیں: ’’فقیر کے اشعار باوجود رتبۂ شاعری کی روایت کے، پیشۂ شاعری اور اندیشۂ ظاہری کے نتائج نہیں۔ بندے نے کبھی شعر بدون آمد کے آورد سے موزوں نہیں کیا اور بتکلف کبھی سحر شعرو سخن میں مستغرق نہیں ہوا۔ کبھی کسی کی فرمائش اور آزمائش سے متأثر ہو کر شعر نہیں کہے ‘‘

    دردؔ کی غزلیں متصوفانہ خیالات، معاملہ بندی، نزاکت، حسن خیال، شوخی اور لطافت سے معمور ہیں۔ وہ بڑی نغمگی سے بھر پور مترنم بحروں کا انتخاب کرتے تھے۔ وہ روزمرہ کی زبان بڑی بے تکلفی اور خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے

    تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
    دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

    ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
    میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

    شمس العلماء مولوی سید امداد امام اثر ؔ لکھتے ہیں: ’’خواجہ میر دردؔ کی غزل سرائی نہایت اعلیٰ درجے کی ہے۔ سوز و گداز میں ان کے جواب میں میر تھا یا آپ اپنا جواب تھے۔ واردات قلبی کے مضامین ایسے باندھتے تھے کہ سودا ان تک نہ پہونچتے تھے۔ ہر چند خواجہ کا دیوان مختصر ہے۔ مگر قریب قریب انتخاب کا حکم رکھتا ہے‘‘

    خواجہ میر دردؔ کی کتابیں یادگارِ زمانہ ہیں جن میں رسالۂ اسرار الصلوٰۃ، رسالۂ واردات، علم الکتاب، رسالۂ اربعہ، نالۂ درد، آہِ سرد، دردِ نہاں، اور فارسی اور دیوانِ اردو شامل ہیں۔

    دردؔ موسیقی کے ماہر تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بھی موسیقیت ہے۔ وہ تبھی شعر کہتے تھے جب آمد ہو۔ اسی لیے ان کا دیوان بہت مختصر ہے۔

  • تلوک چند محرومؔ: اردو شاعری کا ایک خوب صورت نام

    تلوک چند محرومؔ: اردو شاعری کا ایک خوب صورت نام

    تلوک چند محرومؔ کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے قارئین کو یہ یاد دلائے گا کہ وقت نے کیسے کیسے نام وروں اور انمول شخصیات کو ہم سے چھین لیا لیکن ان میں سے کئی کی باتیں، یادیں اور بہت سا خزانہ کتابی شکل میں‌ اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ تلوک چند محرومؔ انہی شخصیات میں سے ایک ہیں جو ادبی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

    زینت اللہ جاوید لکھتے ہیں، محرومؔ نے کچھ اپنا تخلّص خود ہی پسند کیا تھا جو ان کے فطری رجحان اور شعری مزاج کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا۔ ”بلاشبہ میری طبعیت شروع ہی سے غم پسند واقع ہوئی ہے۔ اسکول کی کتابوں میں رقت آمیز مضامین پڑھ کر اکثر جماعت ہی میں آنسو نکل آتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیس پچیس لڑکوں کی کلاس میں جب میں نے پہلی بار فسانۂ آزاد کا ایک مضمون ’محمود کا پھانسی پانا اور اس کے چھوٹے بچے کا بلبلانا‘ پڑھا تو میں اکیلا ہی ایسا طالب علم تھا جس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔

    تلوک چند نے تخلص محرومؔ رکھ لیا تھا، لیکن اسے فال نیک نہیں سمجھا۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”جب ہائی اسکول میں پہنچا اور "زمانہ” کانپور کے ایڈیٹر منشی دیا نرائن سے خط و کتابت ہوئی تو میں نے ان کو تخلص بدلنے کے متعلق اپنے ارادے سے مطلع کیا اور محرومؔ کے بجائے پروازؔ تخلص تجویز کیا۔ چند رباعیات بھی اس تخلص کے ساتھ اشاعت کے لیے بھیج دیں، لیکن انھوں نے اس تجویز کو رد کردیا۔“

    ایک وقت ایسا آیا جب وہ اپنے تخلّص محرومؔ پر فخر کرنے لگے۔

    پاتے ہیں درد کی تاثیر اسی نام سے شعر
    باعثِ فخر ہے محرومؔ مرا نام مجھے

    6 جنوری 1966ء کو دہلی میں تلوک چند محروم کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے بیٹے جگن ناتھ آزاد بھی معروف شاعر تھے۔

    اردو شاعری کی مختلف اصناف نظم، رباعی، قصیدے اور نوحے لکھنے والے تلوک چند کے شعری مجموعوں کی تعداد آٹھ ہے۔ تلوک چند یکم جولائی 1887ء کو میانوالی کے ایک چھوٹے سے گاؤں موسیٰ نور زمان شاہ میں پیدا ہوئے۔ بعد میں یہ خاندان میانوالی کے ایک اور قصبے عیسیٰ خیل چلا گیا جہاں تلوک چند نے پرائمری اسکول میں داخلہ لے لیا۔ وہ ایک ہونہار طالب علم تھے اور آٹھویں جماعت کے بعد مزید پڑھنے کے لیے بنّوں جانا پڑا جہاں‌ کا ماحول عیسیٰ خیل سے بالکل مختلف تھا۔ تلوک چند غالب اور اقبال سے شروع ہی سے متاثر تھے۔ بنوں میں چار سال کا عرصہ گزارا اور میڑک کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ انھوں نے شعری ذوق کی پرورش بھی کی۔ اچھی کتابوں اور شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے تلوک چند خود بھی شعر کہنے لگے۔ بنوں کے بعد تلوک چند اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور سینٹرل ٹریننگ کالج میں داخلہ لیا اور 1908ء میں تلوک چند کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک اسکول میں انگریزی کے مضمون کے استاد کی ملازمت مل گئی۔ اس ملازمت کے ساتھ شہر بھی بدلتے رہے اور تلوک چند محروم راولپنڈی کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوگئے اور یہ وہ دور تھا جب راولپنڈی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ وہاں کئی بڑے نام لاہور اور دیگر علاقوں سے بھی آتے جاتے اور ادبی محافل میں‌ شریک ہوتے رہتے تھے۔ یوں راولپنڈی میں مختلف شاعروں اور ادیبوں سے تلوک چند کی ملاقاتیں رہتیں لیکن عبدالحمید عدمؔ کا تلوک چند کے گھر تقریباً ہر روز کا آنا جانا تھا۔ 1943ء میں جب تلوک چند اسکول کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو راولپنڈی کے تاریخی تعلیمی ادارے گورڈن کالج میں ملازمت مل گئی جہاں وہ اردو اور فارسی پڑھانے لگے۔ راولپنڈی میں تلوک چند محروم کا ادبی اور شعری ذوق خوب پروان چڑھا اور اس زمانہ میں تلوک چند محروم نے خوب صورت نظمیں کہیں اور کئی مشاعرے پڑھ کر نام بنایا۔ تلوک چند محروم نے بچوں کے ادب کو بھی اہمیت دی اور ان کے لیے متعدد نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں۔

    تقسیم سے قبل تلوک چند کی راولپنڈی میں محفلوں میں شرکت اور شعر و ادب کے ساتھ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاری معمول تھا کہ اسی زمانہ میں راولپنڈی شہر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا اور تلوک چند آریہ محلّہ میں رہتے تھے لیکن وہ گھر انھیں چھوڑنا پڑا اور پھر کسی طرح وہ دہلی پہنچ گئے۔ وہاں تلوک چند کو ایک روزنامہ میں ملازمت مل گئی اور بعد میں بطور پروفیسر 1957ء تک کام کرتے رہے۔ 1953ء میں محروم کو اپنے شہر راولپنڈی آنے کا موقع ملا اور وہ اپنے کالج بھی گئے۔ اپنی خوب صورت یادیں تازہ کیں اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی دہلی لوٹ گئے۔

    1962ء میں بھارت کی حکومت نے تلوک چند کو ساہتیہ شاعری کا ایوارڈ دیا۔ انھیں کئی دیگر ادبی اعزازات سے بھی نوازا گیا اور مختلف ادبی تنظیموں‌ کی جانب سے انھیں شعرو ادب میں اپنی تخلیقات اور خدمات پر سراہا گیا۔

  • منیر نیازی کا تذکرہ جنھیں‌ اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے

    منیر نیازی کا تذکرہ جنھیں‌ اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے

    منیر نیازی کی شاعری کسی طلسم خانۂ حیرت سے کم نہیں ہے۔ اردو ادب میں اس ممتاز شاعر کا کلام ایک خواب ناک ماحول کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں‌ میں اپنے شعری اسلوب کی وجہ سے نمایاں‌ بھی ہوئے اور مقبول بھی۔ انھیں اپنے عہد کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔

    اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے منیر نیازی کی آج برسی ہے۔ شاعر منیر نیازی نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور وہ کسی دبستان کے زیرِ اثر نظر نہیں‌ آتے بلکہ انھوں نے اپنی شاعری کا ایک نیا جہاں متعارف کروایا اور اس کی تقلید کرنے کی کوشش ان کے بعد آنے والوں نے کی ہے۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    منیر نیازی کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے یہ مشہور اشعار دیکھیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘ حکومتِ پاکستان نے انھیں‌ ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

  • میر انیس: مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والا شاعر

    میر انیس: مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والا شاعر

    میر انیس کا نام اردو شاعری میں بطور مرثیہ نگار ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ اس فن کے بادشاہ کہلائے اور یہی حقیقت بھی ہے کہ اس صنفِ شاعری کو میر انیس کے بعد آج تک نہ تو حوالہ و سند کے لیے کسی دوسرے شاعر کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی اس صنف میں کمال و فن نے اس پائے کا کوئی شاعر دیکھا۔ مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والے میر انیس کے مراثی برصغیر میں ہر مجلس اور ہر محفل میں آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔

    آج میر انیس کی برسی ہے۔ میر انیس نے اپنے مرثیوں میں کربلا میں حق و باطل کے مابین جنگ کا نقشہ اور حالات و واقعات کا تذکرہ اس کیا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے کی آنکھوں‌ میں اس کی تصویر بن جاتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ان کا طرزِ بیان بہت مؤثر اور دل گداز ہے۔ انیس نے صرف جنگ کے ہی مناظر نہیں بلکہ میدان اور فطری مناظر کی ایسی لفظی تصویریں بنائی ہیں کہ آئندہ بھی اس کی مثال دی جاتی رہے گی۔

    میر انیس نے باقاعدہ شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا تھا۔ لیکن پھر منقبت اور مرثیہ کی صنف کو اپنایا اور بڑا نام پیدا کیا۔ برصغیر کا یہ عظیم مرثیہ نگار ایک نازک مزاج اور بڑی آن بان والا بھی تھا۔ وہ امیروں اور رئیسوں کی صحبت سے دور رہے۔ چاہتے تو اودھ کے دربار میں ان پر بڑی نوازش اور تکریم ہوتی مگر وہ ایک فقیر صفت اور اپنے حال میں رہنے والے انسان تھے۔

    میر انیس کا حقیقی نام میر ببر علی تھا۔ وہ 1803ء عیسوی میں اتر پردیش کے شہر فیض آباد کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد میر مستحسن خلیق اور پر دادا میر ضاحک اپنے دور کے استاد شاعر تھے۔ دادا میر حسن اردو ادب کے معروف مثنوی گو شاعر تھے۔ یہ وہی میر حسن ہیں جنھوں‌ نے اردو ادب کو مثنوی ‘سحر البیان’ دی۔ یوں کہیے کہ شاعری میر انیس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وہ پانچ چھ برس کی عمر سے ہی شعر موزوں کرنے لگے تھے۔

    میر انیس غزل گوئی اور مرثیہ گوئی میں اپنے والد میر خلیق کے شاگرد تھے۔ کبھی کبھی اپنے والد کے کہنے پر شیخ امام بخش ناسخ کو بھی اپنی غزلیں دکھا لیا کرتے تھے اور انہی کے کہنے پر انیس کا تخلص اپنایا۔

    یہاں ہم اس غزل کے چند اشعار پیش کررہے ہیں‌ جو میر انیس نے ایک مشاعرہ میں‌ پڑھی تھی اور ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ اشعار یہ ہیں۔

    اشارے کیا نگۂ نازِ دل ربا کے چلے
    ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے

    مثال ماہیٔ بے آب موجیں تڑپا کیں
    حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے

    کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
    چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے

    لیکن پھر وہ مرثیہ گوئی کی طرف آنکلے اور یہی صنف ان کی لازوال پہچان بنی۔ ہندوستان کے ممتاز ادیب، نقاد اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں میر انیس کے بارے میں لکھا، "میں میر انیس کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو۔ کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔
    مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہوگیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہر مرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پر غیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے لیکن میر انیس زبان پرحاوی ہے۔ معمولی مصرع بھی کہیں گے توایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔”

    اسی طرح‌ نیر مسعود جیسے بڑے ادیب اور افسانہ نگار لکھتے ہیں کہ "انیس کی مستند ترین تصویر وہ ہے جو ان کے ایک قدر دان نے کسی باکمال مصور سے ہاتھی دانت کی تختی پر بنوا کر ان کو پیش کی تھی۔ انیس کی جو تصویریں عام طور پر چھپتی رہتی ہیں وہ اسی ہاتھی دانت والی تصویر کا نقش مستعار ہیں۔ لیکن ان نقلوں میں اصل کے مو قلم کی باریکیاں نہیں آسکیں۔ اصل تصویر میں میر کی غلافی آنکھیں، آنکھوں کے نیچے باریک جھریاں، رخساروں کی ہڈیوں کا ہلکا سا ابھار، ذرا پھیلے ہوئے نتھنے اور بھنچے ہوئے پتلے پتلے ہونٹ مل کر ایک ایسے شخص کا تاثر پیدا کرتے ہیں جو بہت ذکی الحس اور ارادے کا مضبوط ہے۔ دنیا کو ٹھکرا دینے کا نہ صرف حوصلہ رکھتا ہے بلکہ شاید ٹھکرا چکا ہے۔ وہ کسی کو اپنے ساتھ زیادہ بے تکلف ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا اور کسی سے مرعوب نہیں ہوسکتا۔ اور اس کی خاموش اور بہ ظاہر پر سکون شخصیت کی تہ میں تجربات اور تاثرات کا ایک طوفان برپا ہے۔”

    یہاں ہم ایک شعر سے متعلق وہ دل چسپ واقعہ بھی نقل کررہے ہیں جو ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے: میر انیس نے ایک مرثیے میں دعائیہ مصرع لکھا۔ ”یارب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے“ مگر خاصی دیر تک دوسرا مصرع موزوں نہ کرسکے۔ وہ اِس مصرع کو شعر کرنے کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کی اہلیہ سے نہ رہا گیا، وہ ان سے پوچھ بیٹھیں کہ کس سوچ میں ہیں؟ میر انیس نے بتایا تو بیوی نے بے ساختہ کہا یہ لکھ دو، ”صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے“، میر انیس نے فوراً یہ مصرع لکھ لیا اور یہی شعر اپنے مرثیے میں شامل کیا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ مرثیے کے اس مطلع کا پہلا مصرع میر انیس کا دوسرا ان کی بیوی کا ہے۔ یہ شعر بہت مشہور ہوا اور ضرب المثل ٹھیرا۔ اور آج بھی میر انیس کا یہ دعائیہ شعر ضرور پڑھا جاتا ہے۔

    اردو کے اس بے مثل شاعر نے 10 دسمبر 1874ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری کو اپنے دورِ عروج میں کئی باکمال اور بہترین فلم ساز، ہدایت کار اور بے مثل اداکار ہی‌ نہیں لاجواب شاعری تخلیق کرنے والے بھی ملے جن میں ایک نام مشیر کاظمی کا ہے وہ اعلیٰ پائے کے ایسے گیت نگار تھے جن کے فلمی گیت اور نغمات پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور آج بھی انھیں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    آج مشیر کاظمی کی برسی ہے۔ وہ 8 دسمبر 1975ء میں‌ وفات پا گئے تھے۔ فلمی شاعر مشیر کاظمی کا تعلق ہندوستان کے مشہور شہر انبالہ سے تھا۔ 1915ء میں پیدا ہونے والے مشیر کاظمی کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ ان کے والد پولیس سروس سے وابستہ تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو ترک کرکے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر شعر و ادب کی طرف مائل ہوگئے۔ مشیر کاظمی نے وہ دور دیکھا جب تقسیمِ ہند اور انگریزوں کے خلاف تحریکیں عروج پر تھیں اور دوسری طرف ادب اور فلم کے شعبوں میں‌ کئی بڑے نام اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے۔ مشیر کاظمی کو بھی انقلابی ترانے، رومانوی شاعری اور فلم کی دنیا اپنی جانب کھینچنے لگی تھی۔ اس وقت کلکتہ، ممبئی اور لاہور میں بڑی شان دار فلمیں تخلیق ہو رہی تھیں۔ مشیر کاظمی ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے تھے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور منتقل ہوگئے اور یہیں فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ بطور شاعر وہ اپنا سفر شروع کرچکے تھے اور لاہور میں‌ انھوں‌ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں بننے والی فلموں کے لیے بطور گیت نگار بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کردیا۔ اس میدان میں کام یابی نے ان کے قدم چومے اور بطور فلمی گیت نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔

    فلم دوپٹہ کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں وہ پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے۔ مشیر کاظمی کے گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا نغمہ نگار بنا دیا۔ وہ چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی نظر آئے۔ بشیرا اپنے وقت کی ایک مشہور فلم تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں دکھایا گیا کہ یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے۔ اس موقع پر معاون اداکار کے طور پر مشیر کاظمی ہیرو کے قریب ہوتے ہیں اور فلم بینوں کو پردے پر بڑے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    مشیر کاظمی نے زندگی میں‌ کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھے۔ پہلی فلم اور گلوکارہ نور جہاں‌ سے ملاقات سے متعلق ایک واقعہ ممتاز صحافی ستار طاہر نے اپنی کتاب ’تعزیت نامے‘ میں لکھا ہے: ’وہ ایک عجیب و غریب منظر تھا جب انہیں (مشیر کاظمی کو) پہلی بار نور جہاں کے سامنے بطور شاعر لے جایا گیا۔ تب ان کا لباس بے حد معمولی اور میلا تھا، شیو بڑھا ہوا تھا اور انہیں ایسے کمرے میں بٹھایا گیا تھا جہاں بہت سارے آئینے لگے ہوئے تھے۔ وہ ان آئینوں میں اپنی خستہ حالی کی تصویر دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ یہ اس شخص کی نور جہاں سے پہلی ملاقات تھی، جس کی آواز میں اپنا گیت سننے کے لیے اس نے ملازمت چھوڑ دی تھی۔ خستہ حالی اور فاقہ کشی کو اپنا لیا تھا۔ نور جہاں نے گیت سنا اور فضلی صاحب سے کہا اس شاعر سے گیت لکھوائیں، میں انہی کے گیت گاؤں گی اور یوں ’دوپٹہ‘ کے گیت نگار کی حیثیت سے مشیر کاظمی کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو پوری ہوگئی۔‘

    ان کا شمار اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا تھا۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، لیکن قومی و ملّی نغمات اور فلمی گیتوں نے مشیر کاظمی کو بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے مشیر کاظمی کی شاعری ایک محبِ وطن اور سچّے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ مشیر کاظمی نے پاکستان اور بھارت کی جنگوں کے دوران روح گرما دینے والے ملّی نغمات لکھے جن کی گونج آج بھی وطن عزیز کی آزاد فضا میں سنائی دیتی ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدا بہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت فلم دوپٹہ میں شامل ہوا اور ریکارڈ مقبولیت حاصل کی۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ مشیر کاظمی کے چند مشہور فلمی گیتوں میں تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے، ہم چلے اس جہاں سے، دل اٹھ گیا یہاں سے، شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دنیا ہے پیارے،

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔