Tag: شاعر برسی

  • بیدل: فارسی ادب کی آبرو اور لازوال شہرت کے حامل شاعر کا تذکرہ

    بیدل: فارسی ادب کی آبرو اور لازوال شہرت کے حامل شاعر کا تذکرہ

    بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔بیدل کی مدح اور ستائش کرنے والوں‌ میں اردو اور فارسی زبان کے کئی بڑے شعراء شامل ہیں جن میں دو نام علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے لیے جاسکتے ہیں۔ فارسی زبان کے عظیم شاعر عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ بھی بڑا مقام و مرتبہ اور لازوال شہرت حاصل ہوئی اور شعرا نے ان کا طرز اپنایا۔

    طرزِ بیدل کی پیروی تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی مگر ان کے انتقال کے بعد شعرائے ہند نے ان کا انداز اپنانے کو اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ ہندوستان کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی اور ان کے کلام کی شرحیں اور شاعری پر مضامین رقم کیے گئے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا فخر اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ محققین کے مطابق ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ 1644ء میں بیدل نے عظیم آباد، پٹنہ میں آنکھ کھولی اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    محققین نے ان کا یومِ وفات 5 دسمبر 1720ء لکھا ہے۔ بیدل نے اس زمانہ میں شہرت پائی جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔ اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا گیا۔

  • اطہر نفیس: اردو شاعری کا ایک معتبر نام

    اطہر نفیس: اردو شاعری کا ایک معتبر نام

    معروف گلوکارہ فریدہ خانم نے 60 کی دہائی میں جب ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے اپنی پہچان کا سفر شروع کیا تو کئی مشہور شعراء کا کلام ان کی آواز میں سنا گیا۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں، گیت بہت پسند کیے گئے، لیکن ایک غزل نے فریدہ خانم کو ملک گیر شہرت اور مقبولیت عطا کی۔ شاعر تھے اطہر نفیس اور اس غزل کا مطلع تھا:

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    آج اردو زبان کے اسی معتبر غزل گو شاعر اور صحافی اطہر نفیس کی برسی ہے۔ وہ 1980ء میں وفات پاگئے تھے۔ اطہر نفیس نے اپنی منفرد شاعری اور لب و لہجے سے ادبی حلقوں اور باذق قارئین میں اپنی شناخت بنائی اور پاکستان کے معروف شعراء میں سے ایک ہیں۔ فریدہ خانم کی مدھر آواز میں اطہر نفیس کی غزل اس قدر مقبول ہوئی کہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ہر پروگرام میں باذوق سامعین اور ناظرین اسے سننے کی فرمائش کرتے تھے۔ گلوکارہ فریدہ خانم جب میڈیا اور نجی محفلوں میں غزل سرا ہوتیں تو ان سے یہی غزل سنانے پر اصرار کیا جاتا تھا۔

    ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی اطہر نفیس کے متعلق لکھتے ہیں ’’اطہر نفیس کی غزل میں نیا ذائقہ اور نیا آہنگ ملتا ہے۔ ان کے لہجے میں نرمی ہے۔ زبان کی سادگی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ ان کی عصری حسیات نے نئے شاعرانہ وجدان کی تشکیل کی ہے۔ احساس کی شکست و ریخت سے ان کو حظ ملتا ہے اور اس کی ادائی ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ عطا کرتی ہے۔ اطہر نفیس بھیڑ میں بھی اکیلے نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی آواز میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ وہ اپنے اظہار کیلئے نئی زمینیں تلاش کرکے لائے۔‘‘

    شاعر اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہ ادبی صفحہ کے نگراں رہے اور اس کام کے ساتھ ان کی مشقِ سخن بھی جاری رہی۔ اطہر نفیس نے شادی نہیں کی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر نے اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب سے ہم عصر تخلیق کاروں کے درمیان اپنی الگ پہچان بنائی۔ وہ اپنے تخلیقی وفور اور دل کش اندازِ‌ بیان کے سبب ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول تھے۔ اطہر نفیس نے اردو غزل کو خیال آفرینی اور اس کے ساتھ ایک خوب صورت، لطیف اور دھیما لہجہ عطا کیا۔ اطہر نفیس کی شاعری کا مجموعہ 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔

    اطہر نفیس کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
    اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

  • سلام مچھلی شہری: ایک مقبول رومانوی شاعر

    سلام مچھلی شہری: ایک مقبول رومانوی شاعر

    اردو ادب میں بحیثیت رومانوی شاعر سلام مچھلی شہری نے اپنا مقام بھی بنایا اور وہ ان شعراء میں سے ایک تھے جن کا کلام بہت مقبول ہوا۔ اس کا سبب سلام مچھلی شہری کا طرزِ سخن ہے۔ نثر نگاری بھی سلام مچھلی شہری کا ایک حوالہ ہے۔

    آج شاذ ہی سلام مچھلی شہری کا ذکر ہوتا ہے اور نئی نسل ان سے ناواقف ہے، لیکن متحدہ ہندوستان میں سلام مچھلی شہری نے جب اپنا ادبی سفر شروع کیا تو نئے طرز کے رومانوی شاعر کے طور پر نوجوانوں میں خاصے مقبول تھے۔ سلام مچھلی شہری ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ شاعری میں نظم ان کا خاص میدان رہا۔ نظم نگاری کے علاوہ انھوں نے نثر میں بھی اپنا زورِ قلم دکھایا اور ڈرامہ و ناول جیسی اصناف میں ان کی تخلیقات منظر عام پر آئیں۔ ریڈیو کی ملازمت کے دوران سلام مچھلی شہری نے کئی منظوم ڈرامے اور اوپیرا لکھے۔ ان کا ایک ناول ’بازو بند کھل کھل جائے‘ کے عنوان شایع ہوا تھا۔

    یکم جولائی 1921ء کو وہ جونپور کے مچھلی شہر میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے مچھلی شہری ان کے نام سے جڑا رہا۔ سلام مچھلی شہری کی تعلیم کا سلسلہ ہائی اسکول سے آگے نہیں‌ بڑھ سکا لیکن کسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے میں‌ ملازمت مل گئی تھی اور اسی وابستگی نے انھیں شعر و ادب کی دنیا میں بحیثیت شاعر اور ادیب نام بنانے کا موقع دیا۔ کتب خانے میں انھوں‌ نے اپنی رسمی تعلیم کی کمی اور مطالعہ کا شوق خوب پورا کیا۔ لائبریری میں سلام مچھلی شہری کو مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنے اور ادب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔

    1943ء میں سلام مچھلی شہری لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسوّدہ نویس کے طور پر کام کرنے لگے۔ بعد میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے ان کا تبادلہ سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی کے ریڈیو اسٹیشن میں بطور پروڈیوسر تقرری ہوگئی۔ ان ملازمتوں کے دوران کئی اہلِ علم ہستیاں، قلم کار اور آرٹسٹوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ نشستوں نے بھی ان کی فکر اور خیال کو پختہ کیا اور سلام مچھلی شہری ایک منفرد شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔ بھارت کے اس مشہور شاعر کو ’پدم شری ایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔ سلام مچھلی شہری کے تین شعری مجموعے ’ میرے نغمے‘ ،’وسعتیں‘، اور’ پائل‘ کے عنوان سے شایع ہوئے۔

    سلام مچھلی شہری نے 19 نومبر 1973ء کو دہلی میں وفات پائی۔ یہاں ہم اس شاعر کا ایک کلام نقل کررہے ہیں۔ یہ ایک نظم ہے جسے مشہور گلوکاروں‌ نے گایا اور یہ اپنے وقت کی ایک مقبول نظم تھی۔

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے
    شباب پر بہار تھی
    فضا بھی خوش گوار تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    کسی نے مجھ کو روک کر
    بڑی ادا سے ٹوک کر
    کہا تھا لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے
    نہ جائیے نہ جائیے

    مجھے مگر خبر نہ تھی
    ماحول پر نظر نہ تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    میں چل پڑا میں چل پڑا
    میں شہر سے پھر آ گیا
    خیال تھا کہ پا گیا
    اسے جو مجھ سے دور تھی
    مگر مری ضرور تھی
    اور اک حسین شام کو
    میں چل پڑا سلام کو
    گلی کا رنگ دیکھ کر
    نئی ترنگ دیکھ کر
    مجھے بڑی خوشی ہوئی
    میں کچھ اسی خوشی میں تھا
    کسی نے جھانک کر کہا
    پرائے گھر سے جائیے
    مری قسم نہ آئیے
    نہ آئیے، نہ آئیے

    وہی حسین شام ہے
    بہار جس کا نام ہے
    چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
    نہ جانے جاؤں گا کدھر
    کوئی نہیں جو ٹوک کر
    کوئی نہیں جو روک کر
    کہے کہ لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے

  • جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

    جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

    جون ایلیا کو اس دور میں بالخصوص نوجوان نسل کا مقبول شاعر تو کہا ہی جاتا ہے، لیکن وہ بطور شاعر اور نثر نگار بھی اپنے منفرد لب و لہجے اور طرزِ بیان کی وجہ سے اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں جون ایلیا اپنے ہی مزاج کے شاعر تھے۔ وہ الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں‌ محدود نہیں رہے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔

    آج جون ایلیا کی برسی ہے جنھیں شاعری میں روایت کا باغی اور بے باک شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اپنے اشعار میں وہ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ تو اُن کو نہیں رہا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں‌ تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،

    حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
    ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

    ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے

    میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
    میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
    اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
    بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے روز یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر اور انشائیہ نگار تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ جون ایلیا زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں، "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔

    جون ایلیا 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اصغر نقوی ان کا نام رکھا گیا لیکن قلمی نام سے شہرت پائی۔ وہ جس گھرانے کے فرد تھے اس میں سب علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال لوگ تھے۔ جون ایلیا کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے۔ ایک بھائی رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر اور صحافی گزرے ہیں۔ جون صاحب کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ وہ اس ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک ہر موضوع پر بات کی جاتی تھی۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں‌ بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید کے عنوان سے شایع ہوا جس کا پیش لفظ اس قدر مقبول ہوا کہ ان کے مداح آج بھی اسے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ جون ایلیا رومان پرور انسان تھے اور ان کی خیالی محبوباؤں سے الفت اور کلفت کا سلسلہ سخن میں‌‌ ڈھلتا رہا۔ جون ایلیا اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں: "میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:
    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    معروف کالم نگار اور مصنفہ زاہدہ حنا ان کی شریکِ سفر رہیں۔ ان کی تین اولادیں ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اس جوڑے کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔ جون ایلیا کے شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں‌ کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔

  • بطور شاعر شہرت اور بحیثیت فرد بدنامی سمیٹنے والے میرا جی کا تذکرہ

    بطور شاعر شہرت اور بحیثیت فرد بدنامی سمیٹنے والے میرا جی کا تذکرہ

    اردو نظم کو جدّت اور بہ لحاظِ ہیئت انفرادیت عطا کرنے والے شاعروں میں میرا جی کا نام بھی شامل ہے۔ میرا جی اپنی شاعری خاص طور پر نظم نگاری کے حوالے سے تو اردو ادب میں زیرِ بحث آتے ہی ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے بعض پہلو ایسے ہیں جو ان کی بدنامی کا باعث بنے۔ میرا جی کے ‘اعمالِ بد’ کو ان کے دور کے کئی ادیبوں اور شعرا نے اپنی تحریروں کا حصّہ بنایا ہے۔ منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے۔ آج میرا جی کی برسی ہے۔

    میرا جی کو مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور روایت سے انحراف نے باغی شاعر مشہور کردیا تھا، مگر ساتھ ہی ان کی فنی عظمت کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے، بالخصوص اردو نظم کو تنوع اور نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والا شاعر کہا جاتا ہے۔ بحیثیت ایک فرد میرا جی کو معاشرے میں آوارہ اور ذہنی عیّاش کے طور پر دیکھا گیا۔ وہ کچھ ایسی قبیح عادات میں مبتلا رہے جن کو یہاں بیان نہیں‌ کیا جاسکتا۔ میرا جی کو جنسی مریض‌ سمجھا گیا اور ان کے ہم عصروں نے اس پر کھل کر لکھا۔ شخصی خاکوں میں میرا جی کی زندگی کے بعض ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں، جو شاید عام لوگوں کے لیے ناقابلِ‌ قبول ہیں۔ 3 نومبر 1949ء کو میرا جی ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    زندگی کی صرف 38 بہاریں دیکھنے والے میرا جی کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ وہ 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں ملازم تھے۔ بسلسلۂ ملازمت ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہا اور میرا جی نے بھی تعلیم مختلف شہروں میں مکمل کی۔ یہ کنبہ لاہور منتقل ہوا تو وہاں‌ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی ثناء اللہ ڈار کی زندگی میں داخل ہوئی۔ انھوں نے اس کے عشق میں گرفتار ہوکر اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق ناکام رہا۔ اس کے بعد میرا جی نے محبّت اور ہوس میں کوئی تمیز نہ کی اور کئی نام نہاد عشق کیے اور رسوائیاں اپنے نام کیں۔ یہ تو ایک طرف، میرا جی نے اپنا حلیہ ایسا بنا لیا تھا کہ نفیس طبیعت پر بڑا گراں گزرتا۔ ادیبوں نے میرا جی پر اپنی تحریروں میں لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔

    علم و ادب کی دنیا سے میرا جی کا تعلق مطالعہ کے شوق کے سبب قائم ہوا تھا۔ میرا جی مغربی ادب کے ذہین اور مشّاق قاری تھے۔ انھوں نے جب اپنی طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری کا آغاز کردیا اور پھر اس مطالعہ اور ادب سے گہرے شغف کی بنیاد پر میرا جی ایک مشہور رسالہ ادبی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انھوں نے ادبی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ ان کے مضامین اور تراجم کو بہت پسند کیا گیا اور اس حوصلہ افزائی نے میرا جی کو طبع زاد تحریروں اور تنقیدی مضامین لکھنے کی طرف راغب کیا اور یوں وہ ادب کی دنیا میں نام و مقام بناتے چلے گئے۔ میرا جی نے قدیم یونانی اور سنسکرت شعرا کے علاوہ بے حد مشکل علامت پسند فرانسیسی شعرا کے بھی کامیابی سے تراجم کیے۔ عمر خیام کی رباعیات کو انھوں نے بڑے سلیقے سے ہندوستانی چولا پہنایا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی برطانیہ سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی تھیں اور اردو ادب بھی نئے رجحانات اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہورہا تھا۔ اسی دور میں میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی اور آگے چل کر جدید نظم کے بانیوں میں ان کا شمار ہوا۔ ظفر سیّد نے بی بی سی پر اپنی ایک تحریر میں‌ میرا جی کے لیے لکھا تھا، وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید میرا جی کے بارے میں لکھتے ہیں، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔ وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی دوران انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔ ممتاز شاعر میرا جی نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ اردو شاعری میں‌ میرا جی کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اردو نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں: ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ شعری مجموعوں میں میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شامل ہیں۔

    اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔ میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    میرا جی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
    زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی

    گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے
    ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی

    انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے
    ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی

    سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ امید پر
    جستجو آئینۂ مد و جزر ہو جائے گی

    درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
    اب دعا اندیشہ یہ ہے کارگر ہو جائے گی

    سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
    ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی

  • تنویر نقوی:‌ سدا بہار اور بے مثال گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    تنویر نقوی:‌ سدا بہار اور بے مثال گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    تنویر نقوی ایک کام یاب فلمی نغمہ نگار اور معروف غزل گو شاعر تھے جنھوں نے فلم انڈسٹری کے لیے کئی سدا بہار نغمات تخلیق کیے۔ تنویر نقوی کو تقسیمِ ہند سے پہلے ہی بحیثیت فلمی شاعر شہرت مل چکی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد تنویر نقوی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔

    ‘آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے…’ یہ وہ نغمہ ہے جو سرحد پار بھی مقبول ہوا اور آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی گیت تنویر نقوی کے قلم کی نوک سے نکلے اور انھیں اپنے وقت کے نام ور موسیقاروں‌ کے فن اور گلوکاروں کی آواز نے لازوال بنا دیا۔ تنویر نقوی یکم نومبر 1972ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل 1946ء میں معروف ہدایت کار محبوب اور موسیقار نوشاد علی کی مشہور نغماتی فلم انمول گھڑی ریلیز ہوئی جس کے بیشتر گیتوں کے شاعر تنویر نقوی تھے۔ اس فلم کا مقبول ترین نغمہ میڈم نور جہاں اور سریندر کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول ہم اوپر نقل کرچکے ہیں۔

    گیت نگار تنویر نقوی کا تعلق لاہور سے تھا۔ وہ 6 فروری 1919ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ فلمی دنیا میں انھیں تنویر نقوی کے نام سے شہرت ملی۔ 15 سال کی عمر میں‌ تنویر نقوی نے شاعری کا آغاز کیا۔ 1938ء میں تنویر نقوی فلم ‘شاعر’ کے لیے بھی گیت لکھ چکے تھے۔ اس زمانے میں بمبئی فلمی صنعت کا مرکز تھا اور تنویر نقوی نے وہاں تقریباً آٹھ سال بحیثیت گیت نگار کام کیا۔

    تنویر نقوی ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی بھی شاعر تھے اور نوا نقوی کے نام سے مشہور تھے۔ تنویر نقوی کا 1940ء میں پہلا شعری مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ قیامِ‌ پاکستان کے بعد تنویر نقوی کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ تھی۔ تنویر نقوی نے 1959ء میں بننے والی فلم ‘کوئل’ کے گیت لکھ کر خوب شہرت پائی۔ یہ گیت تقسیم سے قبل اور پاکستان میں آنکھ کھولنے والی دو نسلوں کے لیے ہمیشہ باعثِ کشش رہے ہیں اور ان گیتوں نے اپنے وقت میں مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کیے۔ ان میں‌ ‘رم جھم رم جھم پڑے پھوار’ ، ‘مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں، تیرے لیے ہیں…. اور ‘دل کا دِیا جلایا میں نے دل کا دیا جلایا….’ شامل ہیں۔ 1960ء میں فلم ‘ایاز’ میں تنویر نقوی کا تحریر کردہ گیت ‘رقص میں ہے سارا جہاں…’ شامل تھا اور یہ بھی اپنے وقت کا مقبول ترین گیت ثابت ہوا۔ بعد کے برسوں میں فلم ‘انار کلی’ کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں… یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے… اور کئی دوسرے نغمات نے دھوم مچا دی۔ تنویر نقوی ایک بہترین شاعر اور باکمال نغمہ نگار تسلیم کیے گئے۔ انھیں فلم اور ادب کی دنیا کے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں تین نگار ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    جنگِ ستمبر (1965ء) کا یہ نغمہ ‘رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو….’ اور شوخی و جذبات سے بھرا ہوا یہ گیت ‘چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے…’ کس نے نہیں‌ سنا۔ یہ بھی تنویر نقوی کے لکھے نغمات ہیں جو لازوال ثابت ہوئے۔

    ایک زمانہ تھا جب فلمی کہانیوں میں ضرورت کے مطابق قوالی اور حمد و نعت بھی شامل کی جاتی تھی۔ تنویر نقوی کا نعتیہ کلام بھی پاکستانی فلموں میں شامل کیا گیا۔ ‘نورِ اسلام’ ایک کام یاب ترین فلم تھی جس میں یہ بے حد خوب صورت نعتیہ کلام بھی شامل تھا: شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ یہ وہ کلام تھا جسے بعد میں اور آج بھی مذہبی مجالس، محفلِ نعت وغیرہ میں پڑھا جاتا ہے۔ گلی گلی سوالی بن کر پھرنے والے باآوازِ بلند یہ نعت پڑھ کر لوگوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ تاہم یہ بھی مشہور ہے کہ یہ نعت نعیم ہاشمی کی تخلیق تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نعیم ہاشمی نے چونکہ اسی فلم میں ایک کردار بھی ادا کیا تھا اس لیے فلم میں اس نعت کا کریڈٹ ان کو نہیں دیا گیا اور فلم کے نغمہ نگار تنویر نقوی تھے، اس لیے یہی سمجھا کیا گیا کہ نعت بھی تنویر نقوی نے لکھی ہوگی۔ فلم ‘نورِ اسلام’ 1957ء میں‌ یکم نومبر ہی کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور یہی تنویر نقوی کی تاریخِ وفات بھی ہے۔

    بحیثیت شاعر تنویر نقوی نے مختلف اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور غزلوں کے علاوہ ان کے قطعات اور حمدیہ و نعتیہ کلام بھی ان کے شعری مجموعوں میں شامل ہے۔

  • صبا اکبر آبادی: اردو زبان کے قادرُالکلام شاعر کا تذکرہ

    صبا اکبر آبادی: اردو زبان کے قادرُالکلام شاعر کا تذکرہ

    صبا صاحب کی ساری عمر محبت کرنے اور بانٹنے میں بسر ہوئی۔ محض آپ کا طرزِ حیات ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصنافِ سخن جن میں آپ نے طبع آزمائی کی گواہی دیتے ہیں کہ صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے لیکن اس کارِ محبت نے آپ کو ناکارہ بنانے کے بجائے ایسا فعال بنا دیا کہ اپنے پرائے سب یکساں اعتماد کے ساتھ آپ کے درِ دل میں داخل ہوتے اور بلا تخصیص فیض پاتے۔

    صبا صاحب اکبر آباد (آگرہ) میں 14 اگست 1908ء کو پیدا ہوئے۔ والد کا نام ڈاکٹر خواجہ علی محمد تھا۔ یہ 1920ء کی بات ہے جب ان کی محض بارہ برس تھی اور ایک مشاعرے میں شمعِ آزادی کے پروانوں کے درمیان خواجہ غیور اکبر آبادی کے نام سے فی البدیہ کلام سنانے کا موقع ملا۔ اُس روز آپ کے حصّے میں ایک نہیں تین اعزاز آئے تھے۔ اوّل نوعمری میں پہلا مشاعرہ پڑھ کر مشاعرہ لوٹنا وہ بھی رئیسُ الاحرار حسرت موہانی کی صدارت میں اور اُن سے داد وصول کرنا۔ دوم مشاعرے کے آخری شاعر جوش ملیح آبادی کے بعد پڑھنا اور سوم آپ کے والد ڈاکٹر خواجہ علی محمد کا آپ کا تخلیقی جوہر پہچان کر شاعری کی تربیت کے لیے آپ کو اخضرؔ اکبر آبادی کی شاگردی میں دینا۔

    اخضرؔ صاحب نے اپنے شاگرد کا تخلص صباؔ رکھ دیا۔ صبا اکبر آبادی نے حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام، رباعی، نظموں اور غزل میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ قادر الکلام شاعر کہلائے۔

    صبا اکبر آبادی کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں ایک عاشقِ صادق کا دل دھڑکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔

    خالقِ ارض و سما کی اوّلین تخلیق تھے
    آخری پیغامِ رب دُنیا میں لائے مصطفیٰ
    مشغلے دونوں بہت اچھے ملے ہیں اے صباؔ
    حمدِ باری کر کے ہوتی ہے ثنائے مصطفیٰ

    صبا اکبر آبادی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ”دستِ دعا“ کا انتساب ”اذانِ بلال“ کے نام ہے۔ گویا ایک عاشق کا دوسرے عاشق کو خراجِ عقیدت۔ صبا صاحب کے لیے نعت محض صنفِ سخن نہ تھی آپ کے دل کی لگی اور وہ طلب تھی جس میں تڑپ ہی تڑپ تھی۔

    رثائی ادب کی تخلیق میں صبا اکبر آبادی کی اصحابِ اہلِ بیت سے حقیقی محبت اور عقیدت کے تمام رنگ نمایاں ہیں۔ 1936ء میں تخلیق کیا جانے والا صباؔ صاحب کا پہلا مرثیہ ”شکستِ یزید“ آپ کے جذبۂ ایمانی کی شدت اور قوت کی دلیل ہی نہیں مرثیہ نگاری کا نقطۂ آغازبھی تھا۔ جوش ؔملیح آبادی نے آپ کے مرثیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”صباؔ کے مرثیے سُن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔ کی روح بول رہی ہے۔“ مرثیوں پر مبنی آپ کے شعری مجموعے ذکر و فکر، سر بکف، خونناب، قرطاسِ الم، شہادت‌ شائع ہو چکے ہیں۔

    رباعی کی صنف پر صبا صاحب کو کمال دسترس تھی۔ آپ نے کئی موضوعات پر رباعیاں تخلیق کیں۔ یہی نہیں اپنی ترجمہ کی صلاحیت کو اپنی رباعیات میں بڑی چابک دستی سے بروئے کار لاتے ہوئے حضرت امیر خسروؔ، حافظؔ شیرازی، خیامؔ اور غالبؔ کی تمام رباعیات کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ تضمین صبا ؔصاحب کی اعلیٰ شعری کاوش اور ”تضمینِ دیوانِ غالب“ ان کے شعری سفر کا بے مثال ادبی کارنامہ ہے جس کا آغاز 1938ء میں ہُوا اور اسی سال اس کی تکمیل ہوئی۔ زمزمۂ پاکستان کے نام سے آپ کی چار قومی و ملّی نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ 1945ء اور دوسرا مجموعہ 1946ء میں شائع ہوا۔ زمزمۂ پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس کا انتساب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام ہے۔ پہلی مرتبہ اردو شاعری کا کوئی مجموعہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور فروخت کے بعد ملنے والی تمام رقم قائدِ اعظم کی موجودگی میں مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے لیاقت علی خان کو پیش کی گئی۔ ڈاکٹر اسلم ؔفرخی تحریر کرتے ہیں کہ ”زمزمۂ پاکستان“ اپنے ادبی حسن، جوش اور ولولے کی وجہ سے بھی اہم ہے اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ سے وابستگی کی بنا پر یہ قومی تاریخ کا جزو بن گئی۔“

    صبا اکبر آبادی کی غزل میں اگر ایک جانب آپ کا طرزِ فکر اپنے پورے شعور کے ساتھ نمایاں ہے تو دوسری جانب احساس کی شدت، الفاظ کی ندرت اور غنائیت کا حسن بھی موجود ہے۔

    چمن میں پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے
    ہمارے زخمِ محبت کی رونمائی ہے

    یہ ایک داغِ محبت کہاں چھپا رکھوں
    تمام عمر کا حاصل ہے کیا کیا جائے

    بس ذرا مہلتِ تخیل میسر آجائے
    کوئی مشکل ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

    صبا صاحب کی غزلوں پر مشتمل تین شعری مجموعے اوراقِ گل، چراغِ بہار اور ثبات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا ادبی سفر محض شاعری تک محدود نہ تھا بلکہ نثری ادب اور صحافت میں بھی انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے خوب خوب کام لیا اور مولانا ابوالفرح کے قلمی نام سے کئی طنزیہ مزاحیہ اور سنجیدہ نوعیت کے مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔ 1991ء میں صبا اکبر آبادی آج ہی کے روز اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

    (تحریر:‌ شائستہ زریں)

  • قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا تذکرہ

    قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا تذکرہ

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا کلام عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے مضامین سے آراستہ ہے۔ ان کی شاعری ندرت و خوش سلیقگی اور موضوعات کی رنگا رنگی کا ایسا نمونہ ہے جس نے امیر مینائی کو ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے جو زبان و بیان پر ان کے عبور کا مظہر ہے۔ ان کا نام امیر احمد تھا، سن 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔ امیر مینائی نے شروع گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں فیض اٹھایا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں ان کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آ لیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کر گئے۔ امیر مینائی طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔ حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔ امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔

  • پابلو نرودا: محبت کی نظمیں، اور  بے بسی کا گیت اس شاعر کی پہچان ہیں

    پابلو نرودا: محبت کی نظمیں، اور بے بسی کا گیت اس شاعر کی پہچان ہیں

    پابلو نرودا لاطینی امریکا کا وہ انقلابی شاعر تھا جس نے دنیا بھر میں ایک انسان دوست اور مساوات کے پرچارک کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس کی شاعری کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اس کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں جن کے ذریعے اس نے امن اور مساوات کا پیغام دیا ہے۔

    ہسپانوی زبان کے شاعر پابلو نرودا نے رومانوی اور کیف آگیں نغمات بھی لکھے جن میں جذبات و احساسات کی فراوانی ہے اور ہر عمر اور طبقۂ عوام کو متاثر کیا۔ 1971ء میں پابلو نرودا کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    پابلو نرودا کا وطن چِلی تھا جہاں اس نے 12 جولائی 1904ء میں آنکھ کھولی اور اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں سیاست و سماج میں تصادم، استحصال، خوں ریزی اور خاص طور پر غریب و محنت کش عوام کو دکھی، وا ماندہ و بدحال ہی دیکھا۔ پابلو نرودا نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور یہ سب اپنی نظموں میں بیان کیا۔ 23 ستمبر 1973ء کو پابلو نرودا کی موت واقع ہوگئی۔ لیکن اسے قتل کہا جاتا ہے۔ اس شاعر کی پراسرار موت سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے اپنے وقت کے ایک آمر جنرل آگسٹو پنوشے کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔ لیکن اسے ثابت نہیں کیا جاسکا۔

    ہندوستان کے ترقی پسند شاعر اور ادیب علی سردار جعفری بھی پابلو نرودا کی شخصیت اور اس کی فکر کے شیدائی رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں:’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حُسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔ چِلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہرشخص اسے جانتا ہے۔

    کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بہ دیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سَر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔

    وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوش بو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوش بو اس کے نغمات میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    پابلو نرودا نے ایک نظریاتی شخصیت اور انقلاب اور رومان کے شاعر کی حیثیت سے دنیا میں نام کمایا، ادب کا نوبل انعام پایا، لیکن اس سفر میں تنگ دستی اور غربت کے ساتھ طرح طرح کی دوسری صعوبتیں اٹھانا پڑیں، روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی جھیلنے کے ساتھ وہ انقلابی نظمیں لکھتا رہا، جو غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کش اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کرتیں اور انھیں‌ اپنے حق کے لیے ڈٹے رہنے پر اکساتی تھیں۔ اس کی ہسپانوی زبان میں شاعری کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔

    پابلو نرودا نے کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ان کے زمانے میں معاشرہ رومانوی شاعری میں بے باکی کے لیے تیّار نہ تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے انھیں شہوت انگیز اور ہیجانی شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن ان کے انسان دوست نظریات اور رومانوی شاعری کے امتزاج نے انھیں دنیا بھر میں مقبولیت دی۔

    نرودا کی شہرۂ آفاق کتاب "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت” میں رومانوی رجحانات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے چند بند کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو امنِ عالم کا ایک شان دار قصیدہ ہے، اور شاعر کے جذبۂ حبُ الوطنی کو بھی سامنے لاتا ہے۔

    مجھے اپنے چھوٹے سے سرد ملک کی سرزمین سے
    اگنے والے پیڑوں کی جڑوں تک سے محبت ہے
    اگر مجھے ہزار بار مرنا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر مروں گا
    اگر مجھے ہزار بار پیدا ہونا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر پیدا ہوں گا
    بلند قامت صنوبروں کے قریب
    وہاں جہاں جنوبی ہوائیں طوفان خیز ہیں
    اور نئی خرید ی ہوئی گھنٹیاں بج رہی ہیں

    اور پھر دیکھیے کہ یہ حبُ الوطنی ساری دنیا کی محبّت کے سمندر کی ایک لہر بن جاتی ہے۔

    کسی کو میرے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے
    ہمیں سارے کرۂ ارض کے بارے میں سوچنا ہے
    آؤ میزوں پر محبّت کے ڈھیر لگا دیں
    میں نہیں چاہتا کہ خون دوبارہ
    روٹیوں کو اور اناج کو اور موسیقی کو شرابور کر دے
    میری خواہش ہے کہ سب میرے ساتھ آئیں
    کان کن، ننھی سی لڑکی
    وکیل، ملاح، گڑیاں بنانے والے
    سب میرے ساتھ آئیں اور ہم مل کر سنیما دیکھیں
    اور سرخ سے سرخ تر شراب پییں
    میں کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آیا ہوں
    میں تو یہاں گانے آیا ہوں
    اور چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ گاؤ

  • پروفیسر اقبال عظیم کا تذکرہ جن کا نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا

    پروفیسر اقبال عظیم کا تذکرہ جن کا نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    یہ پروفیسر اقبال عظیم کے نعتیہ کلام کے اشعار ہیں۔ ان اشعار میں مدحتِ رسول کے ساتھ شاعر نے سوز و گداز، رقت انگیزی اور والہانہ تڑپ کے ساتھ بلاشبہ بڑے ہی سلیقے اور قرینے سے اپنے جذبات کو بیان کیا ہے۔ پروفیسر اقبال عظیم کے اس نعتیہ کلام کو اپنے دور کے مشہور و معروف نعت خوانوں نے پڑھا اور آج بھی یہ نعت اسی وارفتگی اور سرشاری کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے۔

    پروفیسر قبال عظیم 22 ستمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب، محقّق تھے اور شعبۂ تعلیم میں تدریس سے وابستہ تھے۔

    سیّد اقبال عظیم 8 جولائی 1913ء کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔ اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے ہندی اور بنگلہ زبان کے امتحانات بھی پاس کیے اور ملازمت کا آغاز بہ حیثیت مدرس کیا۔ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے جہاں مختلف سرکاری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ڈھاکا میں انھوں نے ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے، لیکن 1970ء میں‌ ان کی بینائی زائل ہوگئی تو کراچی چلے آئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کی تحقیقی کتب میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں۔ کراچی میں قیام کے دوران بھی انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکر و نظر سے نکھارنے اور مالا مال کرنے کی سعی جاری رکھی۔ یہاں بھی وہ ادبی سرگرمیوں‌ میں حصّہ لیتے رہے اور فن و تخلیق میں مصروف رہے۔ اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب کے نام سے شایع ہوئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ اردو زبان کے اس شاعر کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا