Tag: شاعر برسی

  • ماچسؔ لکھنوی: اردو کے ایک مزاحیہ شاعر کا تذکرہ

    ماچسؔ لکھنوی: اردو کے ایک مزاحیہ شاعر کا تذکرہ

    ماچسؔ لکھنوی سے آج شاذ ہی کوئی واقف ہوگا۔ یہ نام اور اس شخصیت کا تذکرہ ہمارے قارئین کی اکثریت کے لیے نیا بھی ہوگا اور انوکھا بھی۔ ماچس لکھنوی ایک مشہور مزاحیہ شاعر گزرے ہیں جن کا اصل نام مرزا محمد اقبال تھا۔ لیکن مزاحیہ ادب میں انھیں ماچسؔ لکھنوی کے قلمی نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔

    ادب تخلیق کرنے والا کوئی بھی فرد اپنے تمام دماغی اوصاف، اور حواس کو برروئے کار لاتا ہے۔ شوخیٔ مزاج اور شگفتہ طبیعت بھی اس میں‌ اہمیت رکھتی ہے اور ہنسی مذاق انسان کی وہ عادت یا خصوصیت ہے جس کی ادب میں بھی ناگزیر حیثیت ہے۔ ایک شاعر کی بات کی جائے تو وہ ہنستے گاتے آگے بڑھنے اور زندگی کی تلخیوں کو قہقہے میں اڑانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔ اس کی شاعری میں مزاح کے ساتھ زندگی کی ناہمواریوں اور انسانوں کے غلط رویوں پر طنز بھی ملتا ہے جس کا مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ ماچس لکھنوی نے زندگی کے تمسخر انگیز پہلوؤں کو اپنی شاعری میں سمویا ہے۔

    ماچس لکھنؤی کو اکثر ایم ایم اقبال کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ وہ 1918ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی اور شاعری پر اردو کے سب سے مشہور تذکرہ نویس مالک رام نے ایک باب باندھا ہے اور اس میں ماچس لکھنوی کا سنہ پیدائش 1913ء لکھا ہے۔ ان کے مطابق وہ اَوَدھ کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے والد میرزا فرخندہ بخت کے پوتے تھے جن کا نام میرزا مہدی حسین تھا۔ ماچس لکھنوی کی عمر ابھی تیرہ چودہ سال کی تھی کہ شاعری کی جانب میلان بڑھنے لگا۔ شاعری میں وہ انور حسین آزردہ لکھنؤی کے ایک شاگرد سے اصلاح لینے لگے اور اُن کی وفات کے بعد آزردہ لکھنؤی جب لکھنؤ آئے تو اُن سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ ماچس لکھنوی پہلے پہل انجمن بہارِ ادب لکھنؤ کے رکن بنے اور ادبی حلقوں میں پہچانے گئے۔ ان کا اندازِ سخن مزاح کی جانب زیادہ رہا اور اُن کی وجہ شہرت بھی مزاح نگاری بنی۔ ماچس کا کوئی مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا۔ کہتے ہیں ان کی یادداشت بہترین تھی۔ ماچس کی نظمیں اودھ پنچ اخبار اور شوکت تھانوی کے اخبار ’’سرپنچ‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ شوکت تھانوی نے ماچس لکھنوی کو ’’ظریفُ الملک‘‘ کا لقب دیا تھا۔

    ماچس کے والد میرزا مہدی حسین 1949ء میں وفات پاگئے تھے۔ مالی حالات ایسے تھے کہ ماچس مدرسہ میں مڈل سے آگے نہ بڑھ سکے۔ کچھ تعلیم گھر پر حاصل کی لیکن یہ سلسلہ اس سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔

    ماچس لکھنؤی کینسر کے مرض کے سبب 26 اگست 1970ء کو وفات پاگئے تھے۔ لکھنؤ ہی میں‌ انھیں سپردِ‌‌ خاک کیا گیا۔ ماچس لکھنوی کا کلام ملاحظہ کیجیے۔

    آرزوئیں ہوں جس قدر اے دل
    سب ہیں بے کار اس سوال کے بعد
    عشق پر آئے گی بہار اب تو
    ان کے والد کے انتقال کے بعد

    ایک نمکین غزل کے تین اشعار دیکھیے

    نظر پر میری اس بت کی نظر یوں چھائی جاتی ہے
    کہ جیسے ٹوکری پر ٹوکری اوندھائی جاتی ہے

    پلٹتی ہے مری آہ رسا یوں ان کے گھر جا کر
    کوئی جادو کی ہانڈی جس طرح پلٹائی جاتی ہے

    حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں
    تو ہفتوں کیا مہینوں کھوپڑی سہلائی جاتی ہے

  • شاذ تمکنت: اردو نظم کا خوب صورت شاعر

    شاذ تمکنت: اردو نظم کا خوب صورت شاعر

    حیدر آباد دکن وہ ریاست تھی جس کے سلطان میر عثمان علی خان نے برصغیر میں اردو کی تعلیم اور علم و ادب کو پروان چڑھانے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور اس زبان کی ترقی اور ادیب و شعراء کے لیے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی۔ اسی مرفّہ الحال ریاست میں شاذ تمکنت نے آنکھ کھولی تھی اور ادب کی دنیا میں بطور شاعر پہچانے گئے۔ آج ان کا نام رفتگاں میں شامل ہے۔ شاذ 1985ء آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔

    شاذ تمکنت کا اصل نام سیّد مصلح الدّین تھا۔ وہ 31 جنوری 1933ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد نظامِ دکن کے ہاں ملازم تھے۔ افتادِ دوراں نے والدین کو زندگی بسر کرنے کی زیادہ مہلت نہ دی۔ شاذ تمکنت نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور کم عمری میں‌ شاعری کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس دور میں‌ ہندوستان میں کئی سیاسی تحریکیں چل رہی تھیں‌ اور معاشرہ بھی طرح‌ طرح‌ کی تبدیلیو‌ں سے گزر رہا تھا جب کہ اردو ادب ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تھا جو بڑی حد تک کم بھی ہو رہا تھا۔ افسانہ و مختصر کہانیوں کا سلسلہ نئے موضوعات کے ساتھ جاری تھا، انقلاب آفریں نغمات لکھے جارہے تھے اور تنقید کے میدان میں مختلف رجحانات کا زور تھا۔ شاذ تمکنت نے اسی ماحول میں روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ بجائے خود ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔

    شاذ کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ملتے ہیں، وہیں ان کا دکھ، زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ شاذ تمکنت نے جب شعر کہنا شروع کیا، ترقی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے عوامی مصنفین کا چولا بدلا تھا۔ شاذ تمکنت بھی اسی سے وابستہ ہوئے لیکن ترقی پسند تحریک کی ادعائیت سے خود کو دور رکھا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کرنے والے شاذ تمکنت نے اپنے دور کے دو بڑے شاعروں جوش اور فراق سے اکتسابِ ہنر کیا اور بہت جلد اپنا طرزِ اظہار الگ کر لیا۔ وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے پیش لفظ میں اپنا نظریۂ فن یوں بیان کرتے ہیں: میں غمِ ذات اور غمِ کائنات کو علاحدہ علاحدہ خانوں میں نہیں بانٹتا بلکہ میری دانست میں غمِ ذات عبارت ہوتا ہے، غمِ کائنات سے۔ ایک فرد کا غم اس کا ا پنا ہوتے ہوئے بھی درپردہ افراد کے دکھ سکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ کائنات کے خارجی موضوعات بھی اس وقت تک کام یاب شعر کا جامہ نہیں پہن پاتے جب تک کہ اس میں شخصیت کا غم ذات کا پُٹ نہ ہو۔ میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ، اوّل اوّل فن کار اپنی تسکین کے لیے، اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ متاعِ ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہلِ دہر کا قیاس کرے۔

    اردو شاعری کی محبوب صنف یعنی غزل اور نظم کے علاوہ شاذ تمکنت نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ غالب اور اقبال کی غزلوں پر تضمین کے علاوہ شاذ تمکنت کے ذخیرۂ کلام میں قطعات، گیت، نعت، اور مناجات بھی شامل ہیں۔

    شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں، لیکن غزل میں بھی ان کی منفرد شناخت ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں کا نمایاں وصف مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزوِ لاینفک ہیں۔ مرحوم کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں۔ آخری مجموعۂ کلام بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا تھا۔ شاذ تمکنت کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
    تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

    اس شاعر کی ایک مناجات "کب تک مرے مولا ” بہت مقبول رہی ہے اور اسے ہندوستان کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ شاذ تمکنت کا ایک گیت ”سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” بھی پاک و ہند کے معروف گلوکاروں کی آواز میں مقبول ہوا تھا۔

  • ناسخ کا تذکرہ جنھیں طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہا گیا

    ناسخ کا تذکرہ جنھیں طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہا گیا

    اردو شاعری کے کلاسیکی دور کے ممتاز شاعر ناسخ کو رجحان ساز بھی کہا جاتا ہے۔ وہ استاد شاعر کہلائے جن کو اصلاحِ زبان کے لیے کاوشوں‌ کے سبب بھی یاد رکھا جائے گا۔ ناسخ دبستانِ لکھنؤ کا ایک اہم اور بڑا نام ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    شیخ امام بخش ناسخ اردو شاعری میں نام و مرتبہ پانے کے علاوہ دبستانِ لکھنؤ کے بانی مشہور ہوئے۔ غزل میں ناسخ سے پہلے لکھنؤ بھی دلّی ہی کا معترف تھا لیکن بعد میں سیاسی اثرات ایسے پڑے کہ لکھنؤ والوں میں، زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی جداگانہ شناخت کی طلب جاگ اٹھی۔ دلّی کی زبان کا شور و غوغا برائے نام رہ گیا اور سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی وجہ سے منظر نامہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں جب ناسخ نے دلّی کا لب و لہجہ اور لفظیات چھوڑ کر شاعری کی تو لکھنؤ میں ان کا چرچا ہونے لگا اور سبھی ان کے اسلوب کو اپنانے لگے۔ ناسخ نے جو بنیاد رکھی تھی، ان کے شاگردوں نے اس پر کام کیا اور اس طرح باقاعدہ دبستانِ لکھنؤ وجود میں آیا۔ یہ اسلوب اور اندازِ بیان اردو شاعری پر چھا گیا۔ نازک خیالی، پُرشکوہ اور بلند آہنگ الفاظ کا استعمال اور داخلیت سے زیادہ خارجیت پر اس دور کے شعراء توجہ دینے لگے۔

    ناسخ نے اپنے زمانے میں نہ اردو صرف و نحو پر کام کیا بلکہ روز مرّہ اور محاورات کی چھان پھٹک کی اور اس کے قاعدے بھی مقرر کیے۔ ناسخ نے اردو شاعری کو سنگلاخ زمینوں اور الفاظ کا اسیر ضرور بنایا، لیکن وہی تھے جن کے طفیل لکھنؤ نے شعر و سخن میں کمال اور زبان و بیان میں‌ ایسا معیار اور بلندی پائی کہ لکھنؤ کی زبان بھی کسوٹی بن گئی۔

    امام بخش ناسخ کا بچپن والد کے سائے سے محروم رہا۔ ناسخ 1772ء میں پیدا ہوئے اور 16 اگست 1838ء کو انتقال کیا۔ فیض آباد کے ناسخ کو والد کی وفات کے بعد لکھنؤ کے ایک تاجر نے گود لیا اور اسی نے تعلیم و تربیت کی۔ مال دار گھرانے میں‌ رہنے کے سبب ان کی اچھی پرورش ہوئی اور اعلیٰ تعلیم پائی۔ بعد میں وہ اسی تاجر کی جائیداد کے وارث بھی بنے۔ یوں ناسخ خوش حال اور فارغ البال تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔

    اس زمانے میں پہلوانی اور کسرت بھی ایک مفید مشغلہ سمجھا جاتا تھا۔ ناسخ خوب تن و توش کے تھے۔ ورزش کا شوق تھا اور شروع ہی سے پھرتیلے تھے۔ خوش حال گھرانے کے فرد تھے تو عمدہ غذا اور خوراک اچھی تھی۔ محمد حسین آزاد کے بقول ناسخ کے تین شوق تھے۔ اوّل کھانا، دوسرا ورزش کرنا اور تیسرا شوق شاعری۔ انھیں حاسد طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہتے تھے۔

    ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کر کے ان کے لئے نئے استعارے وضع کرتے۔ وہ بنیادی طور پر لفظوں کے آدمی تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک معنیٰ ثانوی اہمیت رکھتے تھے۔ یہ کہنا درست ہے کہ ان کا کلام عربی کے ثقیل اور نہایت بھاری الفاظ سے بوجھل ہے۔ اکثر اشعار بے مزہ اور بہت سے شعروں کا مضمون رکیک بھی ہے۔ لیکن بعض کلام میں‌ نزاکتِ خیال اور معنی آفرینی بھی ملتی ہے۔ ناسخ کی علمیت اور زبان دانی کا اعتراف کرتے ہوئے اردو شاعری کے نقّاد یہ بھی کہتے ہیں ناسخ تصویر تو بہت خوب بناتے تھے لیکن وہ اس میں روح پھونکنے سے عاجز رہے۔

  • پروفیسر عنایت علی خان: معروف مزاح گو شاعر

    پروفیسر عنایت علی خان: معروف مزاح گو شاعر

    پروفیسر عنایت علی خان کی وجہِ شہرت ان کی طنز و مزاح‌ پر مبنی شاعری ہے، اور یہ کلام انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری اصلاح اور ذہنی تربیت کرتا ہے۔ وہ ایک شاعر، ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے۔

    پروفیسر صاحب نے اپنے کلام میں اخلاقی اور سماجی موضوعات کو سموتے ہوئے معاشرتی خامیوں اور لوگوں‌ کے مسائل کی نشان دہی کی اور اس کے لیے انھوں‌ نے شگفتہ پیرایۂ اظہار اپنایا۔ ان کا طنز شائستگی اور معیار سے آراستہ ہے۔

    پروفیسر عنایت علی خان 1935ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے شہر ٹونک میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے اور سندھ کے شہر حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور کئی برسوں تک سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے بھی منسلک رہے۔ سندھ یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1961ء میں اوّل پوزیشن کے ساتھ اردو ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں بی ایڈ کیا اور 1963ء میں مغربی پاکستان میں سرکاری ملازمت اختیار کی جس کے تحت پہلی پوسٹنگ خیر پور اور پھر حیدر آباد تبادلہ ہو گیا۔

    کرکٹ کے کھیل سے عنایت علی خان کو بڑا لگاؤ تھا۔ انھوں نے بعد میں کیڈٹ کالج پٹارو میں ملازمت کی تو وہاں‌ اردو پڑھانے کے ساتھ کرکٹ کی کوچنگ بھی کی۔

    پروفیسر عنایت علی خان کو شاعری کا شوق ورثے میں‌ ملا تھا۔ ان کے والد ہدایت علی خان ٹونکی اپنے دور کے مشہور شاعر تھے۔ ان کے نانا، دادا اور چچا جان بھی شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’ازراہِ عنایت، ’عنایتیں کیا کیا‘ اور ’کلیاتِ عنایت‘ شامل ہیں۔ پروفیسر عنایت علی خان نے بچّوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں اور ان کی نظموں کی دو کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ پروفیسر صاحب کی مزاحیہ نظم بول میری مچھلی کے متعدد قطعات زباں زدِ عام ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    پروفیسر عنایت علی خان 26 جولائی 2020ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں اکبر ثانی بھی کہا جاتا تھا، کہ ان کا انداز اکبر الہ آبادی سے ملتا تھا۔ خود عنایت صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میں اور میرے والد بھی اکبر الہ آ بادی سے بے حد متاثر ہیں۔ بلکہ میری شاعری میں اکبر الہ آبادی کا ہی رنگ نظر آتا ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک ذہین اور بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے سماجی مسائل پر اپنی شاعری کے ذریعہ بھرپور طنز کیا ہے، اور اپنی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے ذریعے اپنی قوم کو مسائل اور ان کے حل کرنے کا شعور دیا۔‘‘

    پروفیسر صاحب نے مختلف مدارج کے طلبا کے لیے اِسلامیات، اُردو اور تاریخ کی کئی نصابی کتابیں بھی مرتب کی تھیں۔

  • جاذب قریشی: معروف شاعر، نقاد اور کالم نگار

    جاذب قریشی: معروف شاعر، نقاد اور کالم نگار

    معروف شاعر جاذب قریشی 21 جون 2021ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تدریس و ادبی صحافت سے وابستہ رہے۔ آج جاذب قریشی کی برسی ہے۔

    جاذب قریشی کا آبائی شہر لکھنئو تھا۔ لیکن جاذب صاحب نے کلکتہ میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ 3 اگست 1940ء کو پیدا ہوئے۔ جاذب قریشی کا اصل نام محمد صابر تھا۔ والد کا انتقال ہوا تو اس کنبے کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بھائی کے ساتھ کم عمری میں جاذب صاحب محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انھوں نے لوہے کی ڈھلائی کا کام کیا اور سخت مشقت اور بھٹی کی تپش کو برداشت کرتے ہوئے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ تقسیم سے قبل ہی شاعری کا شوق ہوگیا تھا اور لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مشاعرہ سننے جانے لگے تھے۔ جاذب قریشی قیامِ پاکستان کے بعد لاہور ہجرت کر گئے اور بعد میں کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اور اپنی محنت کی بدولت شعبۂ تدریس اور ادبی صحافت میں جگہ بنائی۔ شادی کی اور اپنے کنبے کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ انھیں فلم سازی کا بھی شوق تھا اور ایک فلم بھی بنائی تھی جو ناکام ہوگئی۔ مشکل وقت دیکھنے والے جاذب قریشی ملک اور بیرونِ ملک مشاعروں میں شرکت کرتے رہے اور کئی ادبی محافل کے منتظم بھی رہے۔ انھو‌ں نے کالم نگاری بھی کی۔تاہم ان کی بنیادی شناخت بطور شاعر ہی قائم رہی۔ ’’شناسائی‘‘، ’’نیند کا ریشم‘‘،’’شیشے کا درخت‘‘،’’عکس شکستہ‘‘، ’’آشوبِ جاں ‘‘،’’عقیدتیں (حمدیں، نعتیں ،منقبت)‘‘، ’’جھرنے (نغمے، گیت)‘‘، ’’اجلی آوازیں (ہائیکو)‘‘ اور ’’لہو کی پوشاک‘‘ اُن کے شعری مجموعے ہیں۔

    جاذب قریشی نے اپنی شاعری کو جدید طرزِ احساس سے آراستہ کیا اور وہ خود اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں ’’تخلیقی اور عملی تجربے اگر رک جائیں تو فرسودگی اور پرانا پن سچے ادب کو اور آسودہ زندگی کو چاٹ جاتا ہے۔‘‘ نئے استعارات، جدید تلازمات اور نامانوس لفظیات کے سبب انھیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سلیم احمد نے اُن کی شاعری کو ’’آئینہ سازی کا عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ یہ آئینہ جاذب کے ہنر کا المیہ بھی ہے اور طربیہ بھی۔‘‘ اسی طرح حسین مجروح کہتے ہیں کہ ’’ہیئت سے حسیت اور اظہار سے موضوع تک، جاذب قریشی کی شاعری نئی لفظیات اور تشکیلات کی شاعری ہے۔ جاذب قریشی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے

    جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں
    پھول رکھ جاتا ہے روشن دان میں

    سنہری دھوپ کا ٹکڑا ہوں لیکن
    ترے سائے میں چلنا چاہتا ہوں

    مرے وجود کے خوشبو نگار صحرا میں
    وہ مل گئے ہیں تو مل کر بچھڑ بھی سکتے ہیں

  • اختر حسین جعفری: پُرشکوہ نظموں کا خالق

    اختر حسین جعفری: پُرشکوہ نظموں کا خالق

    اردو ادب میں یوں تو مختلف اصنافِ سخن کو ہر دور میں‌ موضوعات، اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے شکلیں بدلنے اور تجربات سے گزرنے کا موقع ملا، لیکن بالخصوص اردو نظم نے نئے تجربات کے ساتھ اپنا عروج و زوال دیکھا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن شعراء میں سے ایک ہیں جنھوں نے جدید نظم نگاری میں بڑا نام پایا اور اپنے ہم عصر شعرا میں امتیاز حاصل کیا۔ اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب بھی کہا گیا اور بعض نقادوں نے انھیں بیدل کے بعد ایک بلند پایہ تخلیق کار گردانا ہے۔

    اردو نظم میں عہد بہ عہد مختلف تحریکات و رجحانات کے تحت میں موضوعاتی اور ہیئت کے اعتبار سے جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس کے زیرِ‌ اثر اپنے مطالعہ اور تخلیقی قوّت کے زور پر اختر حسین نے اپنی نظموں کو پُرشکوہ استعاروں اور خاص اسلوب سے اس طرح سجایا کہ وہ اپنے معنی اور مفہوم کی وسعت کے ساتھ مقصدیت سے بھرپور دکھائی دیتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیب اور شاعر لکھتے ہیں، ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’

    3 جون 1992ء کو اختر حسین جعفری یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ لاہور میں‌ زندگی کا سفر تمام کرنے والے اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام حاصل ہوا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ آئینہ خانہ اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ اور غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے کے ساتھ اختر حسین جعفری نظریات اور نئے خیالات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اپنی شاعری میں تازہ فکر، ندرتِ خیال کا اہتمام نہایت خوب صورتی سے کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔

    اردو کے اس ممتاز نظم گو شاعر کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ مجموعۂ کلام ہے جسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2002 میں ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

    احمد ندیم قاسمی اختر حسین جعفری کے فنِ شاعری اور ان کی نظم گوئی کے بڑے معترف رہے ہیں اور فنون وہ شمارہ تھا جس میں اختر حسین جعفری کا کلام باقاعدگی سے شایع ہوا کرتا تھا۔ اختر نے غزلیں بھی کہیں اور خوب کہیں مگر نظم کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ لیا جاتا ہے۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں، ان دنوں میں نے نیا نیا فنون جاری کیا تھا۔ فنون کے پتے پر مجھے ان کی ایک نظم ملی تو اس نظم کے موضوع اور پھر اس کی ڈکشن اور اس میں آباد استعاروں کی ایک دنیا دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ یہ غزل گو اگر اب نظم نگاری کی طرف راغب ہوا ہے تو کس شان سے راغب ہوا ہے۔ اس کے بعد تو فنون کا شاید ہی کوئی شمارہ ایسا ہو جس میں اختر حسین جعفری اپنی کسی نہ کسی نظم کے جمال و جلال کے ساتھ موجود نہ ہوں۔

  • یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    تسلیم، اردو زبان کے ان شعراء میں سے ہیں جن کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے زمانے میں تسلیم نے نہ صرف اپنے کلام کی بدولت نام پایا بلکہ وہ ایک وضع دار، مشرقی روایات کے دلدادہ اور رکھ رکھاؤ والے انسان مشہور تھے جن کی زندگی عسرت اور تنگی میں بسر ہوئی۔

    تسلیم نے لکھنوی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اگرچہ ان کے حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں‌، لیکن سنہ پیدائش 1819ء بتایا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ لکھنؤ میں ادنیٰ سے اعلیٰ تک ہر کوئی باذوق اور ادب کا شائق۔ اس ماحول میں‌ تسلیم بھی تہذیب کا مرقع اور دین دار شخصیت کے طور پر مشہور ہوئے۔ عربی اور فارسی کی کتابیں‌ انھوں‌ نے اپنے والد اور بھائی سے گھر پر پڑھی تھیں۔

    تسلیم کی زندگی بڑی مشکل تھی۔ مالی مسائل اور تکالفی ان کا مقدر بنی رہیں، لیکن افلاس اور تنگ دستی کے باوجود صبر شکر ان کا وظیفہ رہا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ کبھی امیر اللہ تسلیم کو کسی شاگرد نے بیزاری سے بات کرتے اور کسی کو جھڑکتے نہیں‌ دیکھا۔ وہ ہمیشہ مخاطب کی دل جوئی کرتے اور شاگردوں کو وقت اور توجہ دیتے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد تسلیم نے دوسری شادی کی تھی۔ نماز روزے کے پابند تھے اور دینی امور کا بہت خیال رکھتے تھے۔

    احمد حسین ان کا نام رکھا گیا تھا، لیکن امیر اللہ کے نام سے مشہور ہوئے اور شاعری میں تسلیم تخلّص اختیار کیا۔ منگلیسی، فیض آباد کا نواحی علاقہ تھا جہاں وہ پیدا ہوئے۔ تسلیم نے شاعری کے ساتھ فنِ خوش نویسی میں کمال حاصل کیا۔ وہ فنِ‌ خوش نویسی میں‌ استاد مشہور تھے۔ اصغر علی نسیم کے شاگرد ہوگئے جو اپنے دور کے ایک استاد شاعر گزرے ہیں۔ تسلیم کے والد محمد علی شاہ کے عہد میں فوج میں ملازم تھے۔ انھوں نے اپنی پیرانہ سالی میں درخواست کی تھی کہ ان کی جگہ بیٹے احمد حسین یعنی تسلیمؔ کو رکھ لیا جائے اور یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ سو، تسلیم ایک پلٹن میں شامل ہوئے جسے واجد علی شاہ کے عہد میں ایک واقعے کے بعد ختم کر دیا گیا۔ تسلیم فارغ کیے جانے کے بعد شعرائے شاہی کے زمرے میں داخل ہو کر 30 روپیہ ماہوار پانے لگے۔ گزر بسر کا یہ سلسلہ زوالِ سلطنت کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔

    تسلیم نے رام پور کا رخ کیا تاکہ وہاں‌ انھیں کوئی ملازمت مل جائے اور زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں۔ لیکن نامراد لکھنؤ لوٹ آئے۔ یہاں انھوں‌ نے نول کشور کے مطبع میں نوکری کی کوشش کی اور کام یاب ہوئے۔ بعد میں نواب علی خاں نے ریاست کا انتظام سنبھالا تو تسلیم کو رام پور طلب کرلیا جہاں وہ ڈپٹی انسپکٹر، مدارس مقرر ہوئے۔ تسلیم کو ازراہِ قدر دانی آخری وقت تک پینشن ملتی رہی۔

    فنِ شاعری میں‌ ان کے استاد نسیم دہلوی تھے۔ تسلیم کو اپنے استاد سے بہت عقیدت اور لگاؤ رہا اور ان کی بڑی عزّت کرتے تھے۔ ان کے فیوض و برکات کا تذکرہ بھی تسلیم نے بہت شدّت سے کیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ نسیم نے خواب دیکھا کہ وہ کسی عمیق کنویں سے پانی بھر رہے ہیں اور ڈول اس قدر گراں ہے کہ کھینچا نہیں‌ جاتا، تب انھوں نے اپنے شاگرد تسلیم کو پکارا کہ تم جا کر اس کو کھینچ لو۔ تسلیم آگے بڑھے اور ڈول کھینچ لیا۔ اس پر ان کے استاد نسیم دہلوی نے کہا کہ یہ کنواں‌ اس دشوار فن سے تعلق رکھتا ہے۔

    امیر اللہ تسلیم 28 مئی 1911ء کو لکھنؤ میں وفات پاگئے تھے۔ ان کے تین دیوان اور متعدد مثنویاں یادگار ہیں۔ مولانا حسرت موہانی انہی کے ایک مشہور اور قابل شاگرد تھے۔

  • جنوں صفات مجروح جن کے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    جنوں صفات مجروح جن کے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    ترقی پسند ادب کے زمانے میں جب نظم کے مقابلے میں صنفِ غزل کو کمتر خیال کیا جارہا تھا اور اس کے خلاف مہم بھی شروع کردی گئی تھی، تب مجروح سلطان پوری نے غزل لکھی اور اس کی آبرو کو سلامت رکھا۔ آج عمدہ غزل گو اور فلمی گیت نگار مجروح سلطان پوری کی برسی ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں جن شعراء کو بطور نغمہ نگار زیادہ شہرت اور پذیرائی ملی، مجروح سلطان پوری ان میں سے ایک ہیں۔ وہ بھارت کے متوطن تھے اور غزل کے ساتھ انھوں نے نظم اور گیت نگاری میں‌ بڑا نام پایا۔ مجروح سلطان پوری کی غزلیں اور نظمیں زباں زدِ عام ہوئیں جب کہ فلمی نغمات نے مجروح کو لازوال شہرت سے ہمکنار کیا۔ مجروح سلطان پوری 50 اور 60 کی دہائی میں بھارتی فلمی صنعت میں بحیثیت نغمہ نگار چھائے رہے اور کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکا۔

    رفعت سروش کو مجروح کی رفاقت نصیب ہوئی تھی جو ان کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌:” ذہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔ اوائل 1945ء کی کوئی شام۔ اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سیکڑوں علماء، شعراء، دانشور، فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناں اردو بازار سے نکلا اور حسبِ معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیزیہ پہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہر شخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بنچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا یہ ہیں مجروح سلطان پوری۔

    اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعرا کو جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چاہے شکیل ہوں، راز مراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری۔ یا بعد میں شمیم جے پوری۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعراء کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خود نوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنّفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے۔

    مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ انھوں نے اپنی بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی۔”

    1919ء میں نظام آباد ضلع سلطان پور میں پیدا ہونے والے مجروح کا اصل نام اسرار حسین خان تھا۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں ملازم تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجروح نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا اور ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے رہے۔ بعد میں انھوں نے حکمت کو خیرباد کہہ کر شاعری پر توجہ دی

    خلیق انجم نے مجروح کے شخصی خاکے میں ایک جگہ لکھا ہے: مجروح بہت ذہین طالب علم تھے اور طالبِ علمی ہی کے زمانے میں طبّ پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔ جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔ ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔”

    بعد میں مجروح جگر مراد آبادی کے توسط سے مشہور ہدایت کار اے آر کاردار سے ملے اور اے آر کاردار نے ان سے فلمی گیت لکھنے کو کہا۔ لیکن اس وقت مجروح نے انکار کر دیا۔ وہ اسے معیاری اور ارفع کام نہیں سمجھتے تھے۔ جگر مراد آبادی نے انھیں سمجھایا اور پھر کاردار کے ساتھ مجروح موسیقار نوشاد کے پاس پہنچے جنھوں نے اس نوجوان شاعر کا ٹیسٹ لیا۔ مشہور ہے کہ نوشاد نے شاعر مجروح کو ایک طرز دی اور کہا کہ وہ اس پر کچھ لکھ دیں۔ مجروح نے ’جب اس نے گیسو بکھیرے، بادل آیا جھوم کے‘‘لکھ کر دیا جس کے بعد انھیں فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کے نغمات لکھنے کے لیے کہا گیا۔ مجروح موسیقی کا بھی شوق رکھتے تھے اور سیکھنا چاہتے تھے لیکن والد کو یہ ناپسند تھا اور اس لیے ان کا یہ شوق پورا نہ ہوسکا۔

    فلم شاہ جہاں 1946ء میں ریلیز ہوئی اور اس فلم کے نغمات نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس فلم کے ایک گیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب گلوکار کے ایل سہگل نے یہ گیت ’جب دل ہی ٹوٹ گیا، اب جی کر کیا کریں گے‘ سنا تو کہا کہ میری ارتھی اٹھانے کے موقع پر اس گیت کو گایا جائے۔ شاہ جہاں کے بعد مجروح کو فلم ’’مہندی، انداز، اور آرزو‘‘ ملی اور ان کے تحریر کردہ گیتوں نے مقبولیت حاصل کی۔ ان کام یابیوں کے بعد فلم نگری میں مجروح سلطان پوری کی خوب شہرت ہوئی۔

    مجروح ان شعرا میں سے تھے جو بائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن بھی بن گئے تھے۔ 1949ء میں مجروح کو حکومت کے خلاف نظمیں لکھنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے ساتھ مشہور اداکار بلراج ساہنی کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔مجروح سے کہا گیا کہ وہ معافی مانگیں۔ لیکن انکار پر مجروح کو دو سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس دوران ان کے کنبے نے شدید مالی مشکلات کا سامنا کیا۔

    فلم ساز اور ہدایت کار ناصر حسین کی فلموں کے لیے مجروح کے لکھے ہوئے نغمات کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ مجروح کا 60 سالہ فلمی کیریئر ان کی شہرت کے ساتھ کئی ایوارڈ اور فلمی دنیا میں زبردست پذیرائی سے بھرا ہوا ہے۔ 1965ء میں فلم ’دوستی‘ کا نغمہ ’’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘‘ لکھنے پر مجروح سلطان پوری کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔1993ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔ ناصر حسین کی فلموں کے لیے مجروح نے جو گیت لکھے ان میں سے زیادہ تر گیت مقبول ہوئے اور فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست نے رسالہ "چراغ” (بمبئی) میں لکھا ہے: "مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرضِ اصلاح روانہ کی۔ مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔ مجروح نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا۔”

    اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فنِ شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔

    بھارت کے اس مشہور فلمی شاعر کے جن گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے، ان میں چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے، بابو جی دھیرے چلنا، چلو سجنا جہاں تک گھٹا چلے و دیگر شامل ہیں۔

    مجروح سلطان پوری کا یہ زباں زدِ عام شعر آپ نے بھی سنا ہوگا۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    24 مئی 2004ء کو مجروح سلطان پوری اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کے یہ اشعار بھی بہت مشہور ہوئے:

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • سکند علی وجد جن کی شاعری تصویریت اور نغمگی سے معمور ہے!

    سکند علی وجد جن کی شاعری تصویریت اور نغمگی سے معمور ہے!

    جو لوگ وجد صاحب کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ رقص، مصوری اور موسیقی سے ان کو بے پناہ لگاؤ رہا ہے اور یہی وجہ ہے ان کی شاعری اکثر تصویریت اور نغمگی سے معمور نظر آتی ہے۔ وسیع المطالعہ اور فنونِ لطیفہ کے کئی شعبوں کے شناسا وجد نے کئی خوب صورت نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں۔

    سکندر علی ان کا نام اور تخلّص وجد تھا۔ ان کے قریبی دوستوں نے انھیں آتش مزاج بھی لکھا، انا پرست بھی۔ لیکن وہ خوش مزاج اور وضع دار بھی مشہور تھے۔ وجد نفیس شخصیت کے مالک، تہذیب یافتہ اور بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے۔ ان کی آواز بھی سریلی تھی اور گانے کے ساتھ وجد کو اداکاری کا شوق بھی تھا۔ شاعری کے میدان میں سکندر علی وجد کی نظمیں خاص طور پر قارئین میں مقبول ہوئیں۔

    نظم نگار کی حیثیت سے دکن کے دامن میں پوشیدہ تہذیبی خزانے یعنی اجنتا اور ایلورا کے غاروں پر ان کی شاعری کو بہت پسند کیا گیا۔ تاہم وجد کا کلام اسلوب یا کسی خوبی اور لفظیات کے تعلق سے متاثر کن نہیں ہے۔ وجد کو بھی اس بات کا احساس تھا اور ایک موقع پر انھوں نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا، "ہر آرٹ کی طرح شاعری بھی شاعر سے پوری زندگی کا مطالبہ کرتی ہے، جو شاعر اس مطالبے کی تکمیل نہیں کرتا اس کی شاعری تشنہ رہ جاتی ہے، مجھے اکثر اس تشنگی کا احساس ہوا ہے، میں‌ اپنی شاعری کو کوئی ادبی کارنامہ نہیں سمجھتا۔ میں اس کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اس حقیقت کا بھی شدید احساس ہے کہ یہ شاعری وقت کی ضرورتوں، حوصلوں اور آرزوؤں کی پوری ترجمانی نہیں کرتی۔ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے اندازِ فکر، اسلوب، سخن اور زبانِ شعر میں‌ انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔”

    سکند علی وجدؔ نے 1914ء میں اورنگ آباد میں آنکھ کھولی۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد سول سروس کے امتحان میں کام یاب ہو کر سرکاری ملازم ہوگئے، وہ ترقی کر کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے منصب تک پہنچے۔ لہو ترنگ، آفتابِ تازہ، اوراقِ مصور، بیاضِ مریم کے نام سے ان کی شاعری کتابی شکل میں شایع ہوئی۔ وجد 16 جون 1983ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    وجدؔ نے غزلیں بھی کہیں جن کا موضوع حسن و عشق اور قلبی واردات ہے لیکن اصلاً وہ نظم کے شاعر ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی معاملات اور طبقاتی کشمکس کو بہت خوب صورتی سے وجد نے نظموں میں پیش کیا لیکن ان کی نظموں کے موضوعات محدود نہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ وجدؔ کہتے ہیں، ’’میں نے اظہارِ خیال کے لیے کلاسیکی اسلوب منتخب کیا اور فن شعر کے اصولوں کی پابندی کرنے کی بھی امکانی کوشش کی ہے۔ شاعری میں نئے تجربے کرنے کی مجھے فرصت نہیں ملی۔ میری شاعری، میری زندگی، انسان کی عظمت اور ترقی ہندوستان کی تاریخ و سیاست اور یہاں کے فنون لطیفہ سے طاقت اور حسن حاصل کرتی رہی ہے۔‘‘ رقاصہ، نیلی ناگن، آثارِ سحر، خانہ بدوش، معطر لمحے سکندر علی وجد کی دل کش نظمیں ہیں۔

    سکندر علی وجد کی یہ نظم اجنتا کے غاروں کی بہترین عکاسی کرتی ہے:

    بہانہ مل گیا اہل جنوں کو حسن کاری کا

    اثاثہ لوٹ ڈالا شوق میں فصل بہاری کا

    چٹانوں پر بنایا نقش دل کی بے قراری کا

    سکھایا گر اسے جذبات کی آئینہ داری کا

    دل کہسار میں محفوظ اپنی داستاں رکھ دی

    جگر داروں نے بنیاد جہان جاوداں رکھ دی

    یہ تصویریں بظاہر ساکت و خاموش رہتی ہیں

    مگر اہل نظر پوچھیں تو دل کی بات کہتی ہیں

    گلستان اجنتا پر جنوں کا راج ہے گویا

    یہاں جذبات کے اظہار کی معراج ہے گویا

  • حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

    حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

    یہ تذکرہ ہے حسرتؔ موہانی کا جن کی فکر اور فن کی کئی جہات ہیں اور ان کی شخصیت کے بھی کئی رُخ۔ اردو ادب میں وہ ایک شاعر، ادیب اور صحافی ہی نہیں بلکہ مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ حسرتؔ موہانی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 13 مئی 1951ء کو حسرتؔ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    چھوٹا سا قد، لاغر بدن، گندمی رنگت پر چیچک کے داغ، چہرہ پر داڑھی، سر پر کلا بتونی ٹوپی، پرانی وضع کے چار خانے کا انگرکھا، تنگ پاجامہ جس کے پائنچے ٹخنوں سے اُونچے ہوتے تھے، ایک ہاتھ میں چھڑی اور ایک ہاتھ میں پاندان۔ یہ حسرتؔ کا حلیہ تھا جو ادبی محافل اور سیاسی اجتماعات میں نظر آتے تھے۔ حسرتؔ ایک محقّق، نقّاد اور تذکرہ نگار بھی تھے۔

    نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
    مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

    جنوں کا نام خرد پڑ گیا، خرد کا جنوں
    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

    حسرتؔ کے یہ اشعار دیکھیے اور اردو کے ممتاز شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کی حسرت کے کلام پر ایک مضمون سے چند سطور پڑھیے؛ "معاصرین بلکہ ہر دور کے اچھے متغزلین، سب کی شاعری میں وہ چیز موجود ہے جسے ہم رس کہتے ہیں لیکن اردو غزل کی تاریخ میں حسرت سے زیادہ یا حسرت کے برابر رسیلی شاعری ہرگز کہیں اور نہ ملے گی۔ میر سوز اور ان کے ہمنواؤں کے ہاتھوں جس طرح کی اردو غزل نے جنم لیا تھا حسرت نے اسے کنیا سے کامنی بنا دیا۔ یہ کام ایک پیدائشی فن کار (Born Master) کا ہے۔ یہ شاعری قدرِ اوّل سے ذرا اتری ہوئی سہی لیکن یہ کارنامہ قدر اوّل کی چیز ہے۔ حسرت کے کلام میں ایک ایسی صفت ہے جو ان کے معاصرین میں نہیں ہے، یعنی وہ صفت جسے اہلِ لکھنو مزہ کہتے ہیں۔ حسرت کے کلام میں باسی پن شاید پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔”

    ترقّی پسند تحریک کے سرداروں میں شامل سیّد سجّاد ظہیر نے ’’روشنائی‘‘ میں حسرتؔ کا ذکر یوں کیا ہے کہ ’’ہمارے ملک میں اگر کوئی ایسی ہستی تھی، جسے ہر قسم کے تکلّف، بناوٹ، مصنوعی اور رسمی آداب سے شدید نفرت تھی، اور جو اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ اس کی بات کا بُرا مانیں گے یا ناراض ہو جائیں گے، سچّی بات کہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے کبھی نہیں جھجکتی تھی، تو وہ حسرتؔ موہانی کی ہستی تھی۔‘‘

    حسرتؔ کے والد کا نام سیّد ازہر حسن اور والدہ شہر بانو تھیں۔ حسرتؔ کی پیدایش کے سال میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن بیش تر تذکرہ نویسوں‌ نے جنوری 1880ء اور وطن موہان بتایا ہے۔ اُن کا نام سیّد فضل الحسن رکھا گیا۔ خوش حال گھر کے فرد تھے جس کی فضا عمومی طور پر مذہبی تھی اور حسرتؔ بھی ابتدا ہی سے نماز روزہ اور دیگر دینی تعلیمات پر عمل کرنے لگے تھے۔ حسرتؔ کی والدہ اور نانی دونوں ہی فارسی اور اُردو پر نہ صرف قدرت رکھتی تھیں بلکہ شعری و ادبی ذوق بھی اعلیٰ پائے کا تھا۔ چوں کہ ان دو خواتین کی زیرِ تربیت حسرتؔ کا ابتدائی وقت گزرا، لہٰذا اُن میں بھی شعر و ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ طبیعت میں ذہانت اور شوخی بھی بدرجۂ اتم موجود تھی۔ اُس زمانے کے رواج کے عین مطابق حسرتؔ کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ گھر سے شروع ہوا۔ قابل اساتذہ نصاب کے مطابق عربی، فارسی درسیات اور اُردو اسباق کے لیے گھر آ کر تعلیم دیا کرتے۔ ان کی تعلیم اور صحبت کا اثر یہ ہوا کہ حسرتؔ کو نو عمری ہی سے فروعِ دین کا شوق پیدا ہوگیا۔ قرآنِ پاک کی تکمیل کر لی اور پھر فتح پور، ہسوہ کے اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں عربی و فارسی کے علاوہ انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ حسرتؔ مشرقی اور مغربی تعلیم سے بہرہ وَر ہونے لگے۔ مڈل کے امتحان میں حسرتؔ نے اوّل درجے میں کام یابی حاصل کی اور ان کو وظیفہ عطا کیا گیا۔ چوں کہ اُس وقت موہان میں مڈل سے آگے کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول موجود نہ تھا، لہٰذا حسرتؔ کو 1893ء میں میٹرک کی تعلیم کے لیے فتح پور بھیجا گیا۔ فتح پور میں حسرتؔ نے کم و بیش پانچ برس گزارے۔ اس دوران قابل اساتذہ اور ادبی شخصیات سے اُن کا میل جول رہا اور حسرت نے جو شاعری شروع کرچکے تھے، ان کی صحبت سے خوب فیض اٹھایا۔ 1899ء میں حسرتؔ گورنمنٹ ہائی اسکول، فتح پور سے عربی، فارسی، اُردو اور ریاضی میں امتیازی شان کے ساتھ درجۂ اوّل میں کام یاب ہوئے اور ایک بار پھر سرکاری وظیفے کے مستحق قرار پائے۔ حسرتؔ کی کام یابی کی یہ خبر گزٹ میں شایع ہوئی۔ اسی اثناء میں حسرتؔ کی شادی بھی انجام پا گئی۔ بیوی سمجھ دار اور پڑھی لکھی خاتون تھیں اور شادی کے بعد حسرتؔ علی گڑھ چلے گئے جہاں صحبتوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ سیّد سجّاد حیدر یلدرمؔ اور مولانا شوکت علی سے ہر وقت کا ملنا جلنا رہتا۔ 1901ء میں حسرتؔ نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کام یابی حاصل کی اور دو سال بعد ایک ادبی رسالہ، ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ جاری کیا جس میں ان کی اہلیہ نے اُن کا ہاتھ بٹایا اور اسی زمانے میں حسرتؔ جو عملی سیاست میں یک گونہ دل چسپی محسوس کرنے لگے تھے کالج کی سطح پر طلباء سرگرمیاں انجام دینے لگے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کو لے کر مطالبات اور احتجاج میں اتنا آگے چلے گئے کہ کالج انتظامیہ نے ان کو تین بار ہاسٹل سے نکالا۔ ان کی سرگرمیاں انھیں کسی انقلابی تبدیلی کا خواہاں ظاہر کرتی تھیں۔ اسی اثنا میں حسرت نے گریجویشن کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ 1904ء میں حسرتؔ نے پہلی بار کانگریس کے کسی اجلاس میں شرکت کی اور یوں باقاعدہ طور پر ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ان کا سفر شروع ہوا۔ حسرتؔ نے اسی زمانے میں ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے قیام کے باوجود اس جماعت کا ساتھ نہ دیا۔ یہ ان کے نظریاتی اور سیاسی اختلاف کا معاملہ تھا۔ لیکن چند برس بعد ہی حسرتؔ نے کانگریس سے بھی علیحدگی اختیار کر لی۔ ادھر ان کے رسالے میں ایک مضمون میں‌ انگریز حکومت کی حکمتِ عملی پر جارحانہ انداز میں تنقید کے بعد حسرتؔ کو حراست میں لے لیا گیا اور ان پر غدّاری کا مقدّمہ بن گیا۔ حکومت نے کتب خانہ اور پریس ضبط کر لیا۔ مقدّمہ چلا اور حسرت کو دو برس قید اور جرمانہ 500 روپے کیا گیا۔

    1909ء میں حسرتؔ نے ایک بار پھر ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ کا اجراء کرنا چاہا، مگر کوئی پریس رسالہ چھاپنے کی ہمّت نہیں کر پا رہا تھا۔ تب انھوں نے خود اس کام کا آغاز کیا اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر پریس کے سارے کام خود کرنے لگے۔ ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ اپنی روش پر گام زن رہا۔ مگر ایک اور موقع وہ آیا کہ رسالہ پھر عتاب کا شکار ہو گیا۔ حسرتؔ نے ہمّت ہارنے کے بجائے عجب قدم اٹھایا۔ وہ دکان کھول کر بیٹھ گئے جہاں علاوہ سودیشی کپڑوں کے دیگر اشیاء بھی موجود ہوتیں۔

    حسرتؔ کا سیاسی نظریہ بہت واضح تھا کہ انگریزوں سے آزادی کے لیے عملی جدوجہد کی جائے۔ 1913ء ہی میں ’’مسجدِ کانپور‘‘ کا سانحہ رونما ہوگیا جس میں بہت سی جانیں ضایع ہوئیں۔ اسی پر ایک تحریک چلی، اور اس تحریک کے راہ نماؤں میں حسرتؔ بھی شامل تھے۔1916ء میں حکومت نے جوہرؔ اور ابوالکلام آزاد کو حراست میں لیا، تو حسرتؔ میدان میں نکلے، مگر ان کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ برطانوی حکومت حسرتؔ کی شہرت سے خائف بھی تھی اور یہ بھی سمجھتی تھی کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دونوں کا حسرتؔ کو یکساں قدر کی نگاہ سے دیکھنا، خطرے سے کم نہیں۔ بالآخر مئی 1918ء میں حسرتؔ کی سزا کی مدّت پوری ہوئی اور وہ رہا کیے گئے۔ 1919ء میں’’ جلیانوالہ باغ‘‘ کا سانحہ پیش آیا۔ حسرتؔ کا برطانوی حکومت کے خلاف اور انگریزوں سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کا سلسلہ جلسے، جلوس، کانگریس اور مسلم لیگ سے اتفاق اور اختلاف کے ساتھ جاری تھا کہ 1922ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے اور اس کا سبب کانگریس کی خلافت کانفرنس اور مسلم لیگ کے جلسوں میں باغیانہ تقاریر تھیں۔ انھیں قیدِ بامشقّت سنائی گئی۔ دو سال بعد رہائی ملی اور 1925ء میں‌ سال کے آخر میں کانپور میں ’’آل انڈیا کمیونسٹ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، جس کی پشت پر حسرتؔ موجود تھے۔ اب انھوں نے خود کو ’’مسلم اشتراکی‘‘ کہنا شروع کردیا۔ اس سیاسی سفر کے علاوہ 1936ء میں ’’انجمنِ ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو حسرتؔ نے لکھنؤ کی پہلی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1937ء میں حسرتؔ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور پھر خاندان کی ایک بیوہ سے نکاح کرنے کے بعد مغربی ممالک کے دورے پر گئے۔ وہاں برطانوی سیاسی راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں، ہاؤس آف کامنز کے جلسے میں تقریر کی اور وہاں ہندوستانیوں کی آواز بنے رہے۔ یہاں‌ تک کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا اور حسرتؔ نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا۔ 1950ء میں اپنی زندگی کا آخری اور تیرہواں حج ادا کرنے والے حسرت بیماری کے سبب اگلے سال انتقال کرگئے۔

    حسرتؔ کی تصنیفات و تالیفات میں ’’متروکاتِ سُخن‘‘، ’’معائبِ سخن‘‘، ’’محاسنِ سخن‘‘، ’’نوادرِ سخن‘‘،’’نکاتِ سخن‘‘،’’دیوانِ غالبؔ(اردو) مع شرح‘‘، ’’کلّیاتِ حسرتؔ‘‘، ’’قیدِ فرنگ‘‘، ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ اور کئی مضامین شامل ہیں۔