Tag: شاعر برسی

  • کیفی اعظمی: رومان سے انقلاب تک

    کیفی اعظمی: رومان سے انقلاب تک

    ممتاز ترقی پسند شاعر اور فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا میں رومانوی نظمیں کہیں، لیکن جلد ہی ان کی فکر اور نظریات نے انھیں انقلابی ترانوں اور شاعری کی طرف مائل کردیا۔ ہندوستان میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے اس دور میں کیفی اعظمی نے کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کی اور قوم پرستی کے ترانے لکھنے لگے۔ کیفی اعظمی ایک شاعر ہی نہیں اچھے نثر نگار بھی تھے اور ترقی پسند تحریک کا بڑا نام تھے۔

    10 مئی 2002ء میں بھارت میں اپنے گاؤں میں زندگی کا سفر تمام کرنے والے کیفی اعظمی مارکسزم سے متاثر تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی رکن بن کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو انقلابی نظریات کے پرچار کے لیے استعمال کیا ان کی پُراثر اور سوز و گداز سے بھرپور نظمیں ہندوستان بھر میں مشہور ہوئیں۔

    کیفی اعظمی انیس، حالی شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر رہے اور پھر پیٹ کی خاطر فلموں کے لیے گیت لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان کے گیت بہت مقبول ہوئے اور بطور شاعر کیفی اعظمی کو غیر معمولی شہرت ملی۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے شعرا میں سے ہیں جنھوں نے نثر میں بھی خوب رنگ جمایا۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔ وہ ممتاز ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جو زندگی میں مسلسل جدوجہد اور اپنے افکار کی خاطر متحرک رہے۔ غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیقی عمل کو اہمیت دی۔ انھیں رومان پرور شاعر کے طور پر ہی نہیں انسان دوست خیالات رکھنے والا تخلیق کار مانا جاتا ہے۔ عملی طور بھی کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصّہ رہے اور کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن کے علاوہ وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ رہے۔

    کیفی اعظمی کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1918ء کو دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام سیّد اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ کے مدرسہ بھیجا گیا، لیکن وہاں خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف احتجاج پر نام خارج کر دیا گیا۔ بعد میں‌ انھوں نے لکھنؤ اور الہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر کامل اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے اور تب انھیں لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور وہ کانپور چلے گئے جو اس وقت شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں وہ مزدوروں کی تحریک سے وابستہ ہو گئے اور یہیں انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ کیا۔ جب کیفی کمیونسٹ بن گئے تو سجّاد ظہیر کے ساتھ بمبئی چلے گئے جہاں پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ” میں لکھنے لگے۔ 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی اور ان سے شادی ہوگئی۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوئیں اور کارکن گرفتار کیے گئے تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اختیار کی۔

    اس زمانے میں‌ مفلسی نے بھی ان پر مصائب توڑے۔ کیفی نے فلموں کی طرف توجہ کی تو قسمت نے یاوری کی اور فلموں کے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ مکالمے اور منظر نامے بھی لکھے جن کا خوب معاوضہ ملنے لگا۔ انھیں تین فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ کاغذ کے پھول، حقیقت، ہیر رانجھا اور گرم ہوا ان کی اہم فلمیں ہیں۔

    ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

    تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
    کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
    آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
    کیا حال ہے، کیا دکھا رہے ہو
    بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
    یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو
    ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر
    ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
    دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
    تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
    مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
    وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
    اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

    بولی وڈ کی اعزاز یافتہ اور عالمی شہرت کی حامل اداکارہ شبانہ اعظمی اسی شاعرِ بے بدل کی بیٹی ہیں۔ وہ ایک باکمال اداکارہ ہی نہیں بلکہ اپنے والد کی طرح اپنے نظریات اور سیاسی و سماجی افکار و خدمات کی وجہ سے بھارت میں پہچانی جاتی ہیں۔ کیفی اعظمی اپنی بیٹی کو ‘‘منی’’ کہتے تھے۔ شبانہ اعظمی نے اپنے گھر کے ماحول اور اپنی پرورش سے متعلق ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ‘‘میری پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں ہر طرف اشتراکیت اور کارل مارکس کی باتیں ہوتی تھیں۔ والدین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ بچپن ہی سے گھر ادیبوں، شعرا اور دانش وروں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا جس نے میرے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ میں روایتی عورت کے مقابلے میں سماج کو الگ انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ادب اور پرفارمنگ آرٹ میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور پھر میں نے اپنے کیریئر کا آغاز بھی اداکاری سے کیا۔ ابو کے لیے میں ہمیشہ ‘‘منی’’ رہی۔ وہ اسی پیار بھرے نام سے مجھے پکارتے تھے۔ آج بھی مجھے ان کی یاد بہت ستاتی ہے۔ میں نے ہمیشہ انھیں کاغذ قلم کے ساتھ ٹیبل پر جھکا ہوا پایا۔ مجھے کم عمری میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے والد کا کام کیا ہے۔ کچھ شعور آیا تو جانا کہ وہ ایک شاعر ہیں اور فلمی صنعت میں ان کا بہت نام اور مقام ہے۔’’

  • شکیل بدایونی کا تذکرہ جن کے نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں!

    شکیل بدایونی کا تذکرہ جن کے نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں!

    شکیل بدایونی کا انتقال 20 اپریل سنہ 1970 کو ہوا تھا۔ وہ ممبئی میں باندرہ قبرستان میں پیوندِ‌‌ خاک ہوئے، مگر اب ان کی قبر کا کوئی نشان نہیں ملتا۔

    شکیل بدایونی کے فلمی نغمات اور ان کی غزلیں‌ بھارت اور پاکستان ہی نہیں‌ جہاں‌ بھی اردو زبان و شاعری سے شغف رکھنے والے رہتے ہیں، آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں۔ شکیل بدایونی نے فلم’ ‘درد‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس سے قبل وہ مشاعروں‌ میں‌ شرکت کرکے شہرت پاچکے تھے۔

    شکیل بدایونی 3 اگست سنہ 1916 کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ والد ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے۔ شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی اور خاص ماحول میں پروان چڑھے۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد بدایوں کے ایک ہائی اسکول سے تعلیم مکمل کر کے سنہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر سنہ 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے۔

    شکیل بدایونی نے علی گڑھ کے زمانے میں‌ شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ جگر مراد آبادی نے ان کی سرپرستی کی اور اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے اور پھر ممبئی جو اس وقت فلمی دنیا کا مرکز تھا، وہاں شکیل کو فلموں میں گیت لکھنے کا موقع 1946 میں اس وقت ملا جب ان کے ایک دوست نے ان کی ملاقات مشہور فلم پروڈیوسر اے آر کاردار سے کروائی۔ شکیل کو کام مل گیا اور پھر انھوں نے ایک سو بھی زائد فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ آج بھی شکیل بدایونی کے یہ گیت سن کر لوگ جھومنے لگتے ہیں۔ فلم مغل اعظم کا گانا ‘پیار کیا تو ڈرنا کیا، ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی اپنے زمانے کے مقبول ترین گیت تھے۔

    فلمی دنیا میں‌ شکیل بدایونی امنگوں اور پیار بھرے جذبات سے بھرپور شاعری کی وجہ سے بے حد مصروف رہے لیکن انھوں نے غزل گوئی ترک نہ کی۔ ان کا غزلیہ کلام بھی بہت خوب صورت ہے اور ان کے شعری مجموعے نغمۂ فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ان کے کئی اشعار زبان زد عام ہوئے اور بہت سے فلمی گیت اپنے دور میں‌ ہر نوجوان کے لبوں‌ پر گویا مچلتے رہے ہیں۔ ایک شعر دیکھیے:

    میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی
    ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

    شکیل بدایونی کی یہ غزل بہت مقبول ہوئی۔ اسے کئی بڑے گلوکاروں‌ نے گایا ہے۔

    اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
    جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
    یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی
    آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
    جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل
    مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

    شکیل بدایونی نے اپنے وقت کے ممتاز موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ نوشاد اور شکیل بدایونی کے اشتراک سے متعدد سپر ہٹ گیت سامنے آئے جن میں فلم ‘’میلہ‘ کا ’یہ زندگی کے میلے‘، ’سہانی رات ڈھل چکی نجانے تم کب آؤ گے‘ ، ’میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم‘، اڑن کھٹولہ شامل ہیں۔ نوشاد کے بعد شکیل نے موسیقار روی کے لیے گیت لکھے جو بے حد مقبول ہوئے،
    فلم چودھویں کا چاند کے ٹائٹل گیت’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ پر 1961 میں شکیل بدایونی کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔

    شکیل بدایونی کی آپ بیتی ’میری زندگی‘ کے عنوان سے شایع ہوئی تھی جس میں‌ وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں: برخوردار، آج کے مشاعرے میں کون سی غزل پڑھو گے؟ میں(شکیل بدایونی) نے عرض کیا، ایک تازہ غزل لکھی ہے۔ انھوں نے کہا، ’سناؤ تو ذرا۔‘ میں نے غزل کا مطلع پڑھا:

    اندازِ مداوائے جنوں کام نہ آیا
    کوشش تو بہت کی مگر آرام نہ آیا

    حفیظ صاحب نے فرمایا کہ ’عزیزِ من، اگر یہ غزل کسی استاد کو سنا دی جاتی تو کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔‘ میں نے کہا ’حفیظ صاحب، اگر میں اسی غزل پر مشاعرہ نہ الٹ دوں تو نام نہیں۔ چنانچہ شب کو گورنر ہیملٹ کی صدارت میں مشاعرہ ہوا اور میں نے وہی غزل پڑھ کر بے پناہ داد حاصل کی۔‘

    بھارتی فلم انڈسٹری کے اس مقبول نغمہ نگار کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری کے علاوہ بیڈمنٹن کھیلنا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اکثر پتنگ بازی بھی کرتے تھے۔

  • احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

    احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

    احسان دانش کو زندگی کی تلخیوں، مصائب و آلام اور معاش کے لیے سخت دوڑ دھوپ نے جو کچھ سکھایا، وہ ان کی فکر اور تخیّل میں ڈھل کر بطور شاعر ان کی وجہِ شہرت بنا۔ احسان دانش شاعرِ مزدور کہلائے۔ لیکن اردو زبان و ادب میں انھیں ایک ماہرِ لسانیات، نثر نگار اور لغت نویس کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج احسان دانش کا یومِ وفات ہے۔

    احسان دانش نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ انھیں مزدوری اور یومیہ اجرت پر کام کرنا پڑا، کبھی وہ مالی بنے اور کبھی چپڑاسی اور قاصد کی ذمہ داری نبھائی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے انھیں جو بھی کام ملا کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔ انھوں نے محنت سے جی نہ چرایا اور ہر قسم کا کام کرنا قبول کیا لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ احسان دانش 1982ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    اردو کے صاحبِ‌ اسلوب ادیب اور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    "احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔”

    احسان دانش کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ انشا پرداز بھی تھے اور زبان و بیان پر ان کی گرفت بھی خوب تھی۔ انھوں نے لغت کے علاوہ اردو کے مترادفات اور اردو الفاظ سے متعلق کتب تصنیف کیں۔ احسان دانش کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول ہوا اور بالخصوص ان کے انقلاب آفریں نغمات اور اشعار کو تحریر سے تقریر تک موقع کی مناسبت سے برتا گیا۔ انھوں نے عام آدمی اور مزدور کے جذبات کی ترجمانی کے ساتھ فطرت اور رومان پرور خیالات کو بھی اپنے اشعار میں سمویا۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

    احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
    احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

    احسان دانش نے کسی طرح مڈل پاس کرلیا لیکن آگے نہیں‌ پڑھ سکے۔ حالات نے انھیں کم عمری میں کمانے پر مجبور کردیا۔ مشہور ہے کہ اس تنگی کے باوجود وہ دل کے بادشاہ تھے۔ حالات کی سختیوں کے باوجود ان کی طبیعت میں‌ شگفتگی اور شوخی برقرار رہی۔ ان سے متعلق مشہور ایک دل چسپ واقعہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    کسی مشاعرہ کے منتظم نے احسان دانش سے درخواست کی کہ ہم نے شہر میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا ہے، اس میں شریک ہو کر ممنون فرمائیے۔

    احسان نے دریافت کیا، ’’مشاہرہ کیا ہو گا؟‘‘

    منتظم نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ’’آپ اس مشاعرہ میں معاوضہ کے بغیر شرکت فرما کر اس ادنیٰ کو شکر گزاری کا موقع دیں۔‘‘

    احسان دانش اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور خاصا کاروباری انداز اپناتے ہوئے کہا۔

    ’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں بغیر معاوضہ کے آپ کے مشاعرہ میں چلا آتا، لیکن اُس وقت جب میرے شعروں سے میرے بچّوں کا پیٹ بھر سکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کیا آپ کے شکریہ پر زندہ رہ سکے گا؟‘‘

    احسان دانش کے اس جواب نے یقیناً منتظم کو ناراض اور ان سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا، لیکن جو لوگ ان سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ احسان دانش نے ایسا جواب کیوں‌ دیا‌۔

    احسان دانش کا ایک شعر بہت مشہور ہے۔

    یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    قاضی احسان الحق ان کا نام اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے، لیکن بعد میں کاندھلا میں سکونت اختیار کر لی۔ احسان یہیں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ احسان کے والد کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ یوں احسان دانش نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور تعلیم بھی مڈل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ وہ اپنی چپڑاسی کی نوکری چھوڑ کر لاہور چلے آئے اور یہاں محنت مشقت اور مزدوری کرنے لگے۔ ان حالات کے باوجود احسان دانش کو علم حاصل کرنے اور مطالعہ کا شوق تھا اور انھوں نے کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ انھیں کام نمٹانے کے بعد جو وقت بھی ملتا کتب بینی میں صرف کرتے۔ جو بھی شعری صلاحیت ان میں پیدا ہوئی وہ کتب بینی ہی سے ہوئی۔

    شاعرِ‌ مزدور احسان دانش طبقاتی کشمکش سے بیزار تھے۔ انھوں نے مروجہ نظامِ حکومت اور عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی شاعری میں‌ مزدوروں کو متحد ہوجانے کی تلقین، برابری اور بھائی چارگی کا درس بھی ملتا ہے۔ ان کی نظر میں شعر و ادب زندگی کا آئینہ رہا۔ فطرت سے انھیں پیار تھا اور رومان بھی ان کے اشعار میں بہت بے ساختہ ہے۔

    ان کے مجموعہ ہائے کلام اور دیگر کتب میں ابلاغ دانش، تشریح غالب، آواز سے الفاظ تک، اردو مترادفات شامل ہیں جب کہ ان کی خودنوشت بھی جہانِ دانش کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    احسان دانش کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے

    یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
    ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

    لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
    تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

    عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
    یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

    موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
    مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

    زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
    ایک بے جرم سزا ہو جیسے

    احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہے۔ اس کتاب کو نہ صرف پاکستان رائٹرز گلڈ نے آدم جی ادبی انعام کا مستحق قرار دیا بلکہ اس پر حکومت پاکستان نے بھی پانچ ہزار روپے کا انعام عطا کیا۔ حکومتِ پاکستان نے شاعرِ‌ مزدور کو ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز عطا کیے۔

  • ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

    ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

    اردو کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کا وہ طرزِ بیان ہے جس میں شدّتِ جذبات کے ساتھ سوز اور برجستگی نمایاں‌ ہے۔ اس کے ساتھ اردو غزل کو ناصر نے اپنے احساسِ تحیّر سے وہ انفرادیت بخشی جو انھیں‌ آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    یہ ناصر کی غزل کے وہ اشعار ہیں‌ جن میں‌ حسن و عشق کا موضوع اور وہ کسک نمایاں‌ ہے جس کے لیے ناصر پہچانے گئے۔ انھوں نے اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیوں، محرومیوں، سرشاری اور حسرتوں کو بڑی شدّت سے اپنے اشعار میں‌ سمویا۔ روایتی شاعری سے انحراف کیے بغیر ناصر کاظمی نے جدید لب و لہجہ اپنایا، جو عام فہم بھی تھا اور نہایت دل نشیں‌ بھی۔

    ناصر کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ وہ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ آزادی سے قبل وہ ایک بڑے گھر میں‌ نہایت آسودہ زندگی بسر کررہے تھے لیکن تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ انھوں‌ نے چھوٹے سے معمولی گھر میں‌ نوکریاں‌ کرتے ہوئے زندگی گزار دی۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ناصر کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    2 مارچ 1972ء کو ناصر کاظمی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • فراق گورکھپوری: اردو غزل کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    فراق گورکھپوری: اردو غزل کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    فراق کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص انھوں نے فراق اپنایا اور آبائی علاقے کی نسبت فراق گورکھپوری مشہور ہوئے۔ انھیں عہد ساز شاعر اور اردو ادب کا بڑا نقّاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

    بھارتی ادیب، شاعر اور نقّاد ستیہ پال آنند فراق کی علمی قابلیت اور ادبی حیثیت پر لکھتے ہیں، پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف انگلش میں میرے رفقائے کار میں ڈاکٹر مسز نرمل مکرجی بھی تھیں، جو امریکا کی کسی یونیورسٹی سے انگریزی کے ہندوستانی ناول نویس آر کے ناراین پر ڈاکٹریٹ کر کے لوٹی تھیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ الٰہ آباد میں وہ فراق گورکھپوری کی انڈر گریجویٹ کلاس میں تھیں اور ان سے ذاتی طور پر انس رکھتی تھیں۔ میں چونکہ شعبۂ انگریزی کی لٹریری سوسائٹی The Three Hundred کا پروفیسر انچارج تھا، میں نے انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ اب کے جب وہ اپنے والدین سے ملنے الٰہ آباد جائیں تو فراق گورکھپوری صاحب کو راضی کریں کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک توسیعی لیکچر دینے کے لیے تشریف لائیں۔ ہم ٹرین سے فرسٹ کلاس کا کرایہ اور دیگر متعلقہ اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی رہائش کا گیسٹ ہاؤس میں بندوبست ہو گا۔ اور میں ذاتی طور پر ایک چپراسی کو ان کی خدمت کے لیے ہر وقت ان کے پاس حاضر رہنے کا انتظام کر دوں گا، اور ان کے آرام کا خیال رکھنے کے لیے خود بھی موجود رہوں گا۔

    فراق گورکھپوری آئے۔ آڈیٹوریم میں ان کی تقریر نے جیسے ہم سب کو مسحور کر لیا۔ شستہ انگریزی لہجہ، اس پر ہر پانچ چھ جملوں کے بعد اردو سے (موضوع سے متعلق) ایک دو اشعار، اور پھر انگریزی میں گل افشانی۔ یہ تجربہ ہم سب کے لیے نیا تھا، کیونکہ ہم تو کلاس روم میں صرف (اور صرف) انگریزی ہی بولتے تھے۔ ایک گھنٹہ بولنے کے بعد تھک گئے۔ میں چونکہ اسٹیج پر تھا اور مجھے بطور شاعر جانتے تھے، مجھے کہا کہ جب تک وہ تھرموس سے ’’پانی‘‘ پی کر سانس لیں گے، میں کچھ سناؤں۔ میں نے اپنی ایک نظم انگریزی میں اور ایک اردو میں سنائی۔ تین چار گھونٹ ’’پانی‘‘ پینے اور دس پندرہ منٹ تک آرام کرنے کے بعد پھر تازہ دَم ہو گئے۔ ایک بار پھر چالیس پنتالیس منٹوں تک بولے۔ کیا اساتذہ اور کیا طلبہ، سبھی مسحور بیٹھے تھے، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ تب کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بھائی، کوئی کھانا وانا بھی ملے گا کہ نہیں!‘‘ اور تب طلبہ کو بھی خیال آیا کہ انہیں ہوسٹل کے میس میں کھانے کے لیے پہنچنا ہے، جس کا وقت گزر چکا ہے۔

    شام کو میں گیسٹ ہاؤس پہنچا تو انتظار ہی کر رہے تھے۔ میں وہسکی کی ایک بوتل اپنے اسکوٹر کے بیگ میں رکھ کر لایا تھا اور باورچی خانے میں سوڈے کی بوتلیں پہلے ہی لا کر رکھ دی گئی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر راج کمار بھی آ گئے۔ خاموش طبع انسان تھے اور بہت کم پیتے تھے، اس لیے گفتگو کا فرض ہم دونوں نے ہی ادا کیا۔ میں مودبانہ انداز سے ، لیکن کوئی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتا اور پھر ان کے منہ سے گل افشانی شروع ہو جاتی۔ ایک موضوع جو زیرِ بحث آیا اور جس میں مراتب کا خیال رکھے بغیر میں نے کھل کر بحث کی، وہ شعرا کے لیے ایک آفاقی موضوع کے طور پر ’’عشق‘‘ تھا۔ فارسی اور اردو کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور فراق صاحب نے کہا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے، جس میں دنیائے قدیم سے آج تک یہ موضوع اوّل و آخر نہ رہا ہو۔ ’’شعرا کے لیے تو التمش و اولیات سے لے کر آخرت اور عاقبت تک عشق ہی عشق ہے۔‘‘ انہوں نے اردو اور فارسی سے درجنوں مثالیں گنوانی شروع کر دیں تو میں نے ’’عذر مستی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تینوں انگریزی کے اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی سب زبانوں کے قدیم ادب میں’’ عشق ‘‘ کی وہ pre-eminent position نہیں، جس کا دعویٰ آپ فرما رہے ہیں۔ ہومرؔ کا موضوع ہیلنؔ کا اغوا نہیں ہے، حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے، بلکہ دیوتاؤں کے دو الگ الگ فرضی گروپوں ، مسئلہ جبر و قدر کے عمل اور ردِّعمل کی نقاشی ہے۔ دو تمدنوں کے بیچ کا سنگھرش ہے۔ دانتےؔ کا موضوع بھی عشق نہیں ہے (جنس تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ فارسی ادب میں امرد پرستی کے حوالے سے ہے)۔ دانتےؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ چونکہ ’’ بیاترچےؔ ‘‘ جنت میں اسے راہ دکھاتی ہے، اس لیے تانیثی حوالہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے تصور میں آگ کی بھٹّیوں میں ’’پاولوؔ ‘‘ اور ’’فرانچسکاؔ ‘‘ کو حالتِ جماع میں دیکھتا ہے کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی آزاد روی دوزخ کا پیش خیمہ ہے۔

    فراق جیسے حالتِ استغراق میں مبہوت سے بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے۔ تب میں نے کہا کہ شیکسپیئر نے اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے لیکن ان میں صرف تین ایسے ہیں جنہیں کھینچ تان کر عشق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’’انتھونی اینڈ کلیوپیٹرا‘‘، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘، تو یقیناً مرد اور عورت کے عشق کے موضوع پر ہیں، لیکن ’’اوتھیلو‘‘ عشق کے علاوہ رنگ و نسل اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو چودھویں صدی میں ہمیں ’’داستان‘‘ کے زمرے میں چاسرؔ کا طویل بکھان ملتا ہے، جس میں عشق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے زمان وسطیٰ کی تخلیق Beowolf ہے، اس کا بھی عشق سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، تو انگریزی ادب کی شروعات تو عشق کے الوہی یا جنسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ لواطت تو خیر، …..میں کچھ کہتے کہتے رک گیا، کیونکہ فراق چونکے۔ بوتل سے وہسکی انڈیل کر میرا گلاس پوری طرح بھر دیا اور بولے، ’’انگریز سالے تو نا مرد ہیں، لیکن آپ درست کہتے ہیں، فارسی کے حوالے سے جو اردو کی مائی باپ ہے، البتہ اوّل و آخر عشق صحیح ہے کہ نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں، صحیح ہے۔‘‘ خوش ہو گئے۔ فرمایا، ’’کبھی الٰہ آباد آئیں تو غریب خانے پر بھی تشریف لائیں۔

    فراق کی زندگی کا سفر 3 مارچ 1982ء کو تمام ہوا تھا۔ آنجہانی فراق گورکھپوری کے فنِ شاعری اور ان کے کلام پر کئی مضامین سپردِ قلم کیے گئے اور اردو زبان و ادب کے بڑے نقادو‌ں نے فراق کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے رگھو پتی سہائے المروف بہ فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو منشی گورکھ پرشاد کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی شاعر تھے اور عبرت تخلّص کرتے تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے عالم اور ماہرِ قانون بھی تھے۔ فراق کو ان زبانوں کی تعلیم گھر پر ہی دی گئی اور بعد میں فراق نے باقاعدہ مکتب میں‌ داخلہ لیا۔ فراق کو گھر میں علمی و ادبی ماحول ملا تھا جس میں وہ بھی شعر و ادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد فراق نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

    فراق اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور نقّاد کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا۔

  • جان کیٹس: رومانوی شاعر جس نے غمِ دوراں کو اپنے لیے نغمۂ جاں‌ فزا بنا لیا!

    جان کیٹس: رومانوی شاعر جس نے غمِ دوراں کو اپنے لیے نغمۂ جاں‌ فزا بنا لیا!

    جان کیٹس ایک جوانِ رعنا تھا جس نے ابھی بطور شاعر اترانا سیکھا تھا اور اپنی نظموں کو اپنے خوابوں سے سجانا شروع کیا تھا۔ اجل نے اسے مہلت ہی نہیں‌ دی کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا ہوتا دیکھتا اور وہ سب کرتا جس کی آرزو ایک نوجوان کو ہوسکتی ہے۔ جان کیٹس نے 26 سال کی عمر میں یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    جان کیٹس نے 1821ء میں‌ وفات پائی اور موت کے بعد اسے رومانوی شاعر کے طور پر لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا فرد نہیں تھا بلکہ 31 اکتوبر 1795ء کو برطانیہ میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جس کا سربراہ شراب خانے میں ساقی تھا۔ وہ ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ جان کیٹس کی تعلیم کسی اچھے اسکول یا ادارے میں نہیں ہوئی لیکن خراب مالی حالات کے باوجود وہ طب کے مضمون میں سند یافتہ ہوا۔ اُسے برطانیہ کے جس سستے اسکول میں داخلہ ملا تھا، وہاں خوش قسمتی سے جان کلارک جیسا ذہین، قابل اور ادبی ذوق رکھنے والا استاد موجود تھا جس نے کیٹس کو برطانوی زبان میں‌ ادب پاروں کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کی ہر طرح‌ مدد کی اور کلاسیکی ادب کے تراجم سے روشناس کرایا۔ کیٹس کا خاندان غربت کی چکی میں پِس رہا تھا۔ ایک دن اس کا باپ گھوڑے سے گِر کر مر گیا۔ یوں یہ خاندان معمولی آمدنی سے بھی محروم ہوگیا۔ چند ماہ گزرے تھے کہ کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی، مگر اس کا شوہر اور کیٹس کا سوتیلا باپ ایک برا آدمی ثابت ہوا۔ اس کی ماں نے طلاق لے لی اور بچّوں کو لے کر ان کی دادی کے پاس چلی گئی۔ وہاں چند مہینے بعد ہی جان کیٹس کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ کیٹس کو اسکول سے اٹھا لیا گیا اور اس خاندان کے ایک واقف کار سرجن کے پاس مقامی اسپتال میں‌ سرجری کی تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا گیا۔

    نوجوان جان کیٹس نے اس اسپتال میں 1814 سے 1816 تک ادویات اور سرجری کی تعلیم حاصل کی۔ اسی بنیاد پر وہ اس اسپتال میں ایک معمولی نوکری پانے میں‌ کام یاب ہوگیا۔ اسی دور میں‌ کیٹس نے شاعری شروع کی۔ 1816 میں اسے ادویہ سازی اور سرجری کی ایک سند بھی مل گئی۔ وہ اس پیشے میں آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ وہ دادی کے گھر واپس آگیا اور اپنا زیادہ وقت ادبی سرگرمیوں کو دیا۔

    جان کیٹس نے جس دور میں شاعری شروع کی‌، اس وقت دو ادبی رسائل تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اس کے ہم عصر اور برطانیہ کے مقبول شعرا میں‌ شیلے اور بائرن بھی شامل ہیں اور انھیں‌ بھی بے جا تنقید اور ادبی دنیا میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان ناموافق حالات میں لی ہنٹ جو کہ خود بھی ایک اہم شاعر تھا، اس نے ایک رسالہ نکال کر نئے لکھنے والوں کو متعارف کروانے اور ان کو اہمیت دینے کا سلسلہ شروع کیا اور ہنٹ نے کیٹس کی نظمیں اپنے رسالے میں چھاپنی شروع کر دیں، یوں کیٹس کی حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ چھپ کر منظرِعام پر آ گیا۔ اس کا نام تو باذوق برطانوی جاننے لگے، لیکن ان ادبی رسائل نے بے جا تنقید کے ساتھ کیٹس کی شاعرانہ صلاحیت اور کسی بھی امکان کو مسترد کردیا اور لکھا کہ اسے شاعری کی یہ کوششیں‌ ترک کرکے ادویہ فروخت کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ ایک حساس اور زود رنج شاعر کے لیے ناقابل برداشت بات تھی اور وہ موت کے قریب ہوتا چلا گیا۔ ٹی بی اس زمانے میں مہلک اور ناقابلِ علاج مرض تھا۔ کیٹس کا بھائی اس بیماری میں‌ مبتلا تھا اور کیٹس اس کی دیکھ بھال کے دوران جراثیم کا شکار ہوچکا تھا۔ بائرن، لی ہنٹ اور شیلے اس کے ہمدرد اور شاعری کے معترف تھے جنھوں نے کڑی تنقید اور سخت باتوں سے ملول ہونے پر اس کی دل جوئی کی، مگر جب انسان جسمانی طور پر بیمار ہو تو وہ حساس بھی ہوتا ہے اور منفی رویے اور تضادات اسے بری طرح متأثر کرتے ہیں۔ یہی جان کیٹس کے ساتھ ہوا۔

    دوسری طرف وہ اپنی پڑوسی فینی بران کی محبت میں گرفتار تھا اور اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت نے اسے زندہ رکھا۔ کہتے ہیں‌ کہ جان کیٹس کی مشہور نظم برائٹ اسٹار فینی سے ایک ملاقات ہی میں‌ لکھی گئی تھی۔ وہ ایک دوسرے کو خط بھی لکھتے تھے جو انگریزی ادب میں اعلیٰ‌ رومانوی خطوط کے طور پر محفوظ ہیں۔

    کیٹس نے حسن و عشق، جذبے اور تخیل کو اس طرح‌ شاعری میں‌ سمویا کہ بعد میں اسے ایک دبستان قرار دیا گیا۔ اس کی مختصر زندگی میں دکھ درد، مشکل، تنگی اور ادب کے نام نہاد بڑوں کی وہ سب تکلیف دہ باتوں اور فینی کے عشق نے اسے لازوال بنا دیا۔ کیٹس نے عشق کے رنگوں کو اپنی شاعری میں اس خوبی سے برتا کہ وہ عدیم النظیر اور بے مثال ثابت ہوئی۔

    ناقدین کہتے ہیں کہ کیٹس کی زندگی کے درد و داغ، رکاوٹیں اور عشق شاعری میں ڈھل گئے تھے۔ جان کیٹس یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کا ذکر جا بجا اپنی شاعری میں کیا ہے۔

    وہ روم میں‌ قیام پذیر تھا جہاں ایک صبح اس کی طبیعت بگڑ گئی اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس عظیم رومانوی شاعر کی تدفین روم ہی میں کی گئی۔

  • چکبست کا تذکرہ جن کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    چکبست کا تذکرہ جن کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    چکسبت کے کئی اشعار کو اردو زبان میں ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے اور اُن کے فن اور شاعرانہ اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ 1926ء میں آج ہی کے دن پنڈت برج نرائن چکبست وفات پاگئے تھے۔ چکبست شاعری میں غالب سے کافی متاثر تھے اور اپنے ہم عصروں میں انھوں نے علّامہ اقبال کا اثر قبول کیا تھا۔ ان کی شاعری کو وطن پرستی، مذہبی، اور ان کے سیاسی رجحان کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔

    چکبست کی غزل کا یہ شعر بہت مقبول ہوا تھا

    زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
    موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

    چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔

    وہ شاعر ہی نہیں‌ عمدہ نثر نگار بھی تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں‌ لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں‌ نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں‌ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعۂ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔

    مشہور ہے کہ چکبست نے پہلا شعر نو، دس برس کی عمر میں کہا تھا۔ وہ ترقی پسند اور آزاد خیال شخص تھے جس نے انگریزی ادب اور فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا۔ اور اس مطالعہ کے ان کے ذہن اور فکر پر اثرات مرتب ہوئے تھے۔ ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ انھوں نے صرف 35 سال کی عمر میں اردو شعراء کے درمیان صف اوّل میں جگہ حاصل کرلی تھی۔ چکبست صرف 44 سال زندہ رہ سکے۔ وہ ایک مقدمے کے سلسلے میں لکھنؤ سے بریلی گئے تھے اور واپسی پر ریل کے سفر میں ہی ان پر فالج کا حملہ ہوا۔

    چکبست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ اور وطن کی فکر میں گھلے جاتے تھے۔ چکبست کا مشاہدہ بے پناہ تھا، انھوں نے غلامی کے دور دیکھے اور ظلم و ستم جو انگریزوں نے روا رکھا، ان پر چکبست کی دقیق نظر تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں قومیت و وطنیت کا عنصر غالب ہے۔

    یہاں‌ ہم اردو کے اس مشہور شاعر کی ایک غزل آپ کی نذر کررہے ہیں۔

    نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
    سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا

    لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
    یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا

    کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
    وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا

    دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
    یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا

    کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
    شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا

    خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
    یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

  • فراق صاحب کی موت، جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا!

    فراق صاحب کی موت، جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا!

    جو شخص کل جوش کے گزرنے پر پھوٹ کر رو رہا تھا، وہ آج گزر گیا اور اب وہی بات جو اس نے جوش کے اٹھ جانے پر کہی تھی اس کے بارے میں درست ٹھہری ہے۔

    اک ستون اور گرا ایک چراغ اور بجھا

    آگے پیچھے اردو شاعری کے دو ستون گرے، دو چراغ بجھے۔

    ویسے تو جوش اور فراق دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اپنے عہد کے چراغ تھے مگر دونوں کی روشنی میں بہت فرق تھا۔ جوش پر ایک روایت ختم ہو رہی تھی، فراق سے ایک عہد شروع ہو رہا تھا۔ پابند نظم میں جتنا کچھ اظہار ہونا تھا ہو لیا۔ اب وہ آگے نہیں چل سکتی تھی کہ نئی نظم شروع ہو چکی تھی۔ جوش کے ساتھ اس نظم کا سفر تمام ہوا۔ مگر فراق صاحب جہاں سے شروع ہوئے وہاں سے غزل کا نیا سفر شروع ہوا۔ فراق صاحب کو نئی غزل کا باپ کہنا چاہیے۔

    اس صدی کی تیسری دہائی میں ہماری شاعری میں نئی نظم نے اپنا ڈنکا بجایا۔ اس وقت یوں لگتا تھا کہ تخلیقی اظہار کی ساری ذمہ داری نئی نظم نے سنبھال لی ہے، غزل بس مشاعرے کی ضرورتیں پوری کیا کرے گی مگر اسی دہائی میں غزل کے ساتھ ایک واقعہ گزر گیا۔ فراق صاحب غزل گوئی تو پچھلی دہائی سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ مگر اس دہائی میں آ کر ان کی غزل نے ایک عجیب سی کروٹ بدلی۔ اس کروٹ کا اچھے خاصے عرصے تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ مشاعرے جگر صاحب لوٹ رہے تھے۔ اس نقار خانے میں فراق کی دھیمی آواز کہاں سنی جا سکتی تھی ادھر ادبی رسالوں میں بھی بہت شور تھا۔ نظمِ آزاد کا شور انقلابی شاعری کا شور، فراق کی دھیمی آواز یہاں بھی دبی دبی تھی۔ نئی نظم والے اس وقت بہت زور دکھا رہے تھے انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ دھیمی آواز ان کی نئی شاعری کے لیے موقع کی منتظر تھی۔ ادب میں نئے رجحان کے طاقت بننے کا عمل بھی عجب ہوتا ہے۔ اکثر یوں ہوا ہے کہ کوئی نیا رجحان ابھرا اور ایک عرصہ تک اکیلی آواز طاقت پکڑ کر عہد کا رجحان بن گئی۔ فراق صاحب کی غزل میری دہائی میں اور ہمسر دہائی سے نکل کر 1947ء تک مشاعروں اور نئی نظم کے ہنگاموں کے بیچ اکیلی آواز تھی۔ بس 47ء میں جب تقسیم کا واقعہ نما ہوا تو اچانک اس اکیلی آواز کے ہمنوا پیدا ہو گئے۔ ہمنواؤں نے اس آواز کو عہد کی آواز بنا دیا۔

    یہ بھی عجب ہوا کہ فراق صاحب ہندستان میں رہے اور ہمنوا پاکستان میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے ابھرنے کے ساتھ ناصر کاظمی کی غزل ایک نئی آواز بن کر ابھری۔ اردگرد اور آوازیں ابھریں اور اب غزل نے پھر سے اپنے عہد کے ساتھ پیوست ہو کر تخلیقی اظہار کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ لیکن اگر فراق صاحب نے اتنے عرصے تک اس میں اپنی جان کو نہ کھپایا ہوتا تو اس میں یہ توانائی کیسے پیدا ہوتی۔

    اس ایک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹھے

    اور پھر عسکری صاحب نے اعلان کیا کہ ’’اب جو غزلیں لکھی جا رہی ہیں ان میں فراق کا دیا ہوا طرزِ احساس گونجتا ہے۔ فراق کے محاورے سنائی دیتے ہیں، فراق کی آواز لرزتی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے غزل گو شعراء کے یہاں میر اور غالب کا احساس اور محاورہ جا بجا لپک اٹھتا ہے۔ پچھلے تین چار سال میں جو غزل کا احیاء ہوا ہے وہ 75 فیصد فراق کا مرہون منت ہے۔ فراق کی شاعری نے اردو میں ایک ادارے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔‘‘

    فراق صاحب کی غزل کی وہ کروٹ جسے ہم نئی غزل سے عبارت کرتے ہیں عسکری صاحب کی دانست میں 28ء سے شروع ہوتی ہے۔ مگر فراق صاحب تو دوسری دہائی کے آغاز کے ساتھ شروع ہوئے تھے اس عرصہ کو ہم کس کھاتے میں ڈالیں اور اس کی توجیہ کیسے کریں۔

    بات یہ ہے کہ بڑا شاعر پیدا ہوتے ہی بڑا شاعر نہیں بن جاتا یا اگر کسی شاعر کو کسی نئے رجحان کا نقیب بنتا ہے تو شروع ہی سے اسے یہ حیثیت حاصل نہیں ہو جاتی۔ ابتدائی مراحل میں تو بس کچھ پر چھائیاں نظر آتی ہیں۔ اپنے اصل مقام تک پہنچنے کے لیے اسے ریاضت کے ایک پورے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ فراق صاحب کا 38ء تک کا زمانہ شاعری کی ریاضت کا زمانہ ہے۔ یہ ریاضت کس نوعیت کی تھی۔ اس کا اندازہ فراق صاحب کی اکیلی اردو غزل کی روایت سے استفادے پر قانع نہیں تھے۔ مختلف ادبی روایتوں اور مختلف تہذیبی سر چشموں سے اپنے آپ کو سیراب کر رہے تھے ان کا یہ بیان دیکھیے۔

    ’’میری شاعرانہ شخصیت و وجدان کی تخلیق و نشو و نما میں بہت سے اثرات شامل تھے۔ پہلا اثر سنسکرت ادب اور قدیم ہندو تہذیب کے وہ آدرش تھے جن میں مادی کائنات اور مجازی زندگی پر ایک ایسا معصوم اور روشن خیال ایمان ہمیں ملتا ہے جو مذہبی عقائد سے بے نیاز ہو کر اور بے نیاز کر کے شعور میں انتہائی گہرائی پیدا کر دیتا ہے۔

    اس ضمن میں فراق صاحب کا یہ موقف بھی سنتے چلئے کہ اردو شاعری نے عربی اور فارسی سے تو بہت فیض اٹھایا ہے مگر اسے دوسری زبانوں کے ادب اور تہذیبوں میں جو آفاقی عناصر ہیں انہیں بھی اپنے اندر سمو نا چاہیے بالخصوص کالی داس، بھر تری ہری اور تلسی داس سے شناسا ہونا چاہیے۔ خیر اب ان کا دوسرا بیان دیکھیے۔

    ’’میری جستجو یہی رہی کہ شروع سے لے کر اب تک کی اردو غزل میں ان اشعار کو اپنی روحانی اور نفسیاتی غذا بناؤں جن میں روشن خیالی اور شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ قدیم یونانی تہذیب اور دوسری قدیم تہذیبوں میں جو اعلیٰ ترین فکریات مجھے مل سکیں، انہیں بھی میرے شعور اور لہجے نے اپنایا پھر جدید مغربی ادب کے جواہر پاروں نے میری زندگی اور شاعری کو مالا مال کیا۔ ‘‘

    دیکھیے کہ کس طرح ایک شاعر مختلف ادبی روایتوں سے مختلف تہذیبوں سے اپنی تخلیقی روح کے لیے غذا حاصل کر رہا ہے اور اپنے فکر و احساس میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ عمل چھوٹا عمل تو نہیں ہے اس میں وقت تو لگتا ہی تھا اور اتفاق یا اردو شاعری کی روح کا انتظام دیکھیے کہ یہ عمل ٹھیک اس برس جا کر تکمیل کو پہنچتا ہے جب علامہ اقبال اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔

    علامہ اقبال کا حوالہ میں نے یہ سوچ کر دیا کہ اس بیسوی صدی میں ہماری شعری روایت میں بلکہ ہماری ادبی روایت میں وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے کچھ اس طور شاعری میں قدم رکھا کہ مغرب کے فکر و فلسفہ سے بھی پوری طرح سیراب تھے اور مشرق کی بالخصوص اسلام کی فکری روایت میں بھی رچے بسے تھے۔ اس طور پر انہوں نے اردو شاعری کی فکری بنیادوں کو پختہ کیا۔ وہ دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں کہ ایک دوسرا شاعر اسی طور مشرق و مغرب کی عملی، ادبی اور تہذیبی روایات سے فیض پا کر غزل سراہوتا ہے یعنی اقبال کے بعد فراق دوسرے شاعر ہیں جو ایک بڑے دماغ کے ساتھ ایک علمی کمک کے ساتھ اور ایک وسیع قلب و نظر کے ساتھ اردو شاعری کی دنیا میں داخل ہوئے اسی لیے اگر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنے تعزیتی بیان میں فراق صاحب کو اردو ادب کا ہمالیہ پہاڑ کہا ہے تو اس میں ایسا مبالغہ نہیں ہے اور میں نے تو یہاں صرف فراق کی غزل کا ذکر کیا ہے۔ دوسری اصناف میں فراق نے کیا کہا ہے اور اردو تنقید کو اس شخص نے کیا دیا ہے، اس کا تو ذکر آیا ہی نہیں مگر یہ تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس شخص نے گھاٹ گھاٹ علم کا اور ادب کا پانی پیا ہو وہ جب تنقید لکھنے بیٹھا ہو گا تو اس نے کیا کچھ دیا ہو گا۔

    اس پس منظر میں دیکھیے پھر سمجھ میں آتا ہے کہ فراق صاحب کی موت اردو ادب کے لیے کتنا بڑا سانحہ ہے سچ مچ جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا۔

    ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
    شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

    (اردو کے ممتاز فکشن رائٹر، صاحبِ طرز ادیب انتظار حسین کی ایک تحریر)

  • رضی اختر شوقؔ: جدید لہجے کا خوش فکر شاعر

    رضی اختر شوقؔ: جدید لہجے کا خوش فکر شاعر

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

    یہ رضی اختر شوقؔ کا مشہور شعر ہے۔

    اردو زبان کے معروف شاعر رضی اختر شوقؔ کا اصل نام خواجہ رضیُ الحسن انصاری ہے۔ وہ 22 جنوری 1999ء کو کراچی میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ رضی اختر شوق اردوق میں‌ جدید لہجے کے ایسے شاعر تھے جو ہم عصروں میں‌ اپنے سلیقۂ اظہارِ خیال کے سبب ممتاز ہوئے اور دلدادگانِ شعر و ادب میں ان کا کلام بہت پسند کیا گیا۔ رضی اختر شوق نے شاعری میں اپنے تخیل کو کچھ اس سلیقے سے برتا کہ ان کے متعدد اشعار زباں‌ زدِ عام ہوئے۔

    شاعر رضی اختر شوق کا تعلق سہارن پور سے تھا۔ وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ رضی اختر شوق نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن میں مکمل کی۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا اور پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کی زندگی کراچی شہر میں بسر ہوئی اور اسی شہر میں ادبی مشاغل میں مصروف رہے جن میں مشاعرے، تنقیدی نشستیں اور دوسری ادبی تقاریب شامل ہیں۔ رضی اختر شوق نے جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ وہ شاعر ہی نہیں ڈرامہ نویس بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے اسٹوڈیو نمبر نو کے نام سے کئی ڈرامے تحریر کیے جو اپنے زمانے کے اس مقبول تفریحی میڈیم کے ملک بھر میں موجود سامعین کے لیے یادگار ثابت ہوئے۔

    رضی اختر شوق کا شمار ان شعرا میں کیا جاتا ہے جن کا کلام خوب صورت جذبوں اور لطیف احساسات سے آراستہ ہونے کے ساتھ ان کی بلند خیالی کا نمونہ ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں مرے موسم مرے خواب اور جست شامل ہیں۔

    رضی اختر شوق کی ایک غزل دیکھیے۔

    اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
    زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

    خلقتِ شہر یونہی خوش ہے تو پھر یوں ہی سہی
    ان کو پتّھر دے، مجھے ظرفِ پذیرائی دے

    جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
    یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

    تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
    کوئی اتنا بھی نہیں طعنہَ رسوائی دے

    مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
    پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے

    رضی اختر شوق کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • اردو کے ممتاز شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری کا تذکرہ

    حفیظؔ ہوشیار پوری فلسفہ کے طالب علم رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل فلسفیانہ خیالات اور مسائل سے تہی نہیں لیکن بطور شاعر انھوں نے اسے بڑی خوبی سے نبھایا اور ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں بنی۔ ان کے کلام میں فلسفیانہ خیالات قاری کو بیزار نہیں کرتے۔ حفیظؔ ہوشیار پوری کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

    ملکہ پکھراج کی آواز میں حفیظ کی ایک اور غزل بھی پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی باذوق قارئین اور دلدادگانِ غزل و موسیقی نے خوب پڑھی اور بارہا سنی جس کا مطلع ہے:

    بے زبانی زباں نہ ہو جائے
    رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے

    حفیظ ہوشیار پوری کا اوّل الذّکر کلام تو پاکستان کے ہر بڑے گلوکار نے گایا۔ ان میں سب سے پہلا نام تو مہدی حسن کا ہے اور پھر نسیم بیگم، فریدہ خانم، اقبال بانو جیسی گلوکاراؤں نے بھی یہ کلام گایا اور خوب داد سمیٹی۔

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد ریڈیو پر قیامِ پاکستان سے متعلق جو اعلان نشر ہوا تھا، وہ حفیظ ہوشیار پوری کا تحریر کردہ تھا۔

    اردو کے معروف شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری دس، گیارہ برس کی عمر سے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے تھے۔ وہ شاعر ہی نہیں تاریخ گو بھی تھے۔

    حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ وہ 5 جنوری 1912ء کو دیوان پورہ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے، مگر اپنے آبائی وطن ہوشیار پور کی نسبت سے ہوشیار پوری کہلائے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے اور قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کا حصّہ بن کر کام کرتے رہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے ابتدا میں نظمیں بھی لکھیں اور منظوم تراجم بھی کیے مگر ان کی شناخت ان کی غزل گوئی اور ان کی تاریخ گوئی بنی۔ حفیظ ہوشیار پوری کا مجموعہؔ کلام ’’مقامِ غزل‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔

    حفیظ نے جس زمانے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور کا رخ کیا تھا تو یہاں کی علمی فضا میں شعر و ادب کے بڑے بڑے ناموں کی گونج تھی۔ گورنمنٹ کالج کے اساتذہ میں صوفی تبسّم، پطرس بخاری اور پروفیسر ڈکسن نے حفیظؔ کا شعری ذوق نکھارا اور ان کے طالبِ علم ساتھیوں میں فیض، ن۔ م۔ راشد جیسے نام شامل تھے۔ اس کے علاوہ کئی اور نام ہیں جو اردو ادب کی اُس کہکشاں کا حصّہ تھے جس کی چمک دمک اور تابانی سے اردو دنیا خیرہ تھی۔ اس سازگار شعری ماحول میں حفیظؔ کی سب سے پہلی نظم ’’تجدیدِ محبت‘‘ تھی۔ یہ کلام نام وَر شاعر اختر شیرانی کے رسالے ’’خیالستان‘‘ میں 1931ء میں شائع ہوا۔ اور اگلے سال ان کی پہلی غزل ’’نیرنگِ خیال‘‘ کے ایک شمارے کی زینت بنی اور حفیظ نے ادبی حلقوں سے داد و تحسین سمیٹی۔

    معاصرین کی نظر میں حفیظ ایک اچھے شاعر تھے اور انھیں سندِ قبولیت بھی حاصل تھی۔ مگر یہ کہنا غلط نہیں کہ اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کو اس زمانے میں وہ توجہ اور اہمیت نہیں دی گئی جو ان کا حق تھا۔ آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل، ثقیل اور کرخت الفاظ سے گریز کرکے حفیظ نے اپنی غزل کو عام فہم بنایا۔

    ذوالفقار علی بخاری جیسے بڑے ادیب، شاعر اور براڈ کاسٹر نے حفیظ کے سانحہؔ رحلت پر لکھا ’’حفیظؔ جیسا پختہ شاعر مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ کیا نہیں جانتا تھا۔ محقق تھا، عالم تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ بحیثیت انسان واقعی عظیم تھا۔ میرا بہی خواہ تھا۔ دوست تھا اور دوست بھی وفادار۔ اللہ اس کو غریق رحمت کرے آمین۔‘‘

    10 جنوری 1973ء کو حفیظ ہوشیار پوری طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔