Tag: شاعر برسی

  • باقی صدیقی: اردو اور پنجابی زبان کا معروف شاعر

    باقی صدیقی: اردو اور پنجابی زبان کا معروف شاعر

    8 جنوری 1972ء کو اردو کے معروف شاعر باقی صدیقی نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ باقی صدیقی نے اردو اور پنجابی زبانوں میں شاعری کی اور اپنے منفرد کلام سے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔

    باقی صدیقی کا اصل نام محمد افضل تھا۔ وہ راولپنڈی میں 20 دسمبر 1908ء کو پیدا ہوئے۔ علمی زندگی کا آغاز کیا تو طبیعت اور مزاج نے کہیں ٹکنے نہ دیا۔ مدرس اور کلرک رہے، فلم کمپنیوں سے ناتا جوڑا، لیکن جلد بیزار ہوگئے اور بعد میں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوئے۔

    ان کے اشعار سادہ و رواں، انداز شستہ اور لہجہ دھیما تھا جو ان کی پہچان بنا۔ باقی صدیقی کے شعری مجموعوں میں کچّے گھڑے، جم جم، دارو سن، زخمِ بہار، بارِ سفر اور زادِ راہ شامل ہیں۔

    باقی صدیقی کو راولپنڈی کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    تم زمانے کی راہ سے آئے
    ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

  • نگار صہبائی: وہ شاعر جس نے اردو گیت نگاری کو بلندی اور معیار عطا کیا

    نگار صہبائی: وہ شاعر جس نے اردو گیت نگاری کو بلندی اور معیار عطا کیا

    آج ایک ایسے تخلیق کار کا یومِ وفات ہے جس نے اردو شاعری میں گیت نگاری کو اپنے کمالِ فن سے بلندی اور مقبولیت عطا کی۔ یہ نگار صہبائی تھے جنھوں نے گیت نگاری کو سنجیدہ صنف کے طور پر اپنایا اور اسے معیار دیا۔ نگار صہبائی 8 جنوری 1994ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    نگار صہبائی کے حالاتِ زندگی اور ان کی گیت نگاری پر بات کرنے سے پہلے شمیم احمد کے قلم سے گیت کی یہ تعریف پڑھتے چلیں: ’’گیت شاعری کا وہ اسلوب ہے جہاں محبّت اور نغمے کا سنگم پوری لطافت کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ اردو میں گیت، ہندی شاعری کے اثر سے وجود میں آیا اور ایک طرح سے یہ خالص ہندوستانی صنفِ سخن ہے۔ گیت کسی خاص موضوع یا ہیئت کے پابند نہیں ہاں مگر گیت میں محبوب مرد اور عاشق عورت ہوتی ہے۔ نگار صہبائی نے اپنے فلمی گیتوں اور نغمات میں وہ تجربات کیے جو ان سے پہلے اس صنف میں کسی نے نہیں کیے تھے۔

    بقول سلیم احمد اردو گیت کی روایت میں نگار صہبائی پہلا شاعر ہے جس نے اس صنف کو اردو کی سنجیدہ تخلیقی صنف بنایا۔ اس نے اپنا آغاز آرزو کی پیروی سے کیا تھا اور مروجہ اسلوب میں ہلکے پھلکے گیت لکھے تھے جو اس اعتبار سے کامیاب تھے کہ گائے گئے اور پسند کئے گئے لیکن رفتہ رفتہ نگار میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی اور اس کی جذباتی اور روحانی زندگی کے عمیق تر اور پیچیدہ تر تجربات خود بخود اس کے گیتوں میں درآنے لگے۔ وہ گیت کو ایک نئی زبان بولنے کا سبق پڑھا رہا تھا۔ اس زمانے میں نگار کے گیتوں کو سن کر محسوس ہواکہ وہ آہستہ آہستہ کچھ ایسے تجربات کی طرف بڑھ رہا ہے جنہیں جدید اردو شاعری کی روایت میں ابھی کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ سلیم احمد کہتے ہیں کہ نگار کا پہلا مجموعہ’’جیون درپن‘‘ تھا۔ اس مجموعہ میں اس نے ہمیں اپنی سچی جذباتی زندگی کی جھلکیاں دکھائی تھیں لیکن اس کے بعد اچانک اسے درپن پار کے درشن نظر آنے لگے اور مجھے ایسا لگا جیسے وہ روایت کے ایک ایسے رنگ کا آغاز کر رہا ہے جو صرف نگار ہی کر سکتا ہے۔ ادھر نگار صہبائی بھی سلیم احمد کے بڑے مربّی اور قدر دان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ سلیم احمد کی ذہنی اور روحانی تربیت نے مجھے شعر کے ناتے سے مالا مال کیا اور میری شاعری کا رخ گیت کی طرف موڑا۔‘‘

    منفرد اسلوب کے اس گیت نگار کا اصل نام محمد سعید تھا۔ وہ 7 اگست 1926ء کو ناگ پور میں‌ پیدا ہوئے۔ نگار صہبائی نے ابتدائی تعلیم مدراس اور ناگ پورسے حاصل کی۔ 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ انھوں نے یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔

    نگار صہبائی نے قلم تھامنے کے بعد ابتدائی دور میں غزل اور نظم کے ساتھ افسانے بھی لکھے۔ وہ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق و شیدا تھے۔ انھیں‌ مصوّری، موسیقی اور رقص کا شوق بھی رہا۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی، مگر گیت نگاری ان کا خاص میدان تھا۔ نگار صہبائی کے گیتوں کے تین مجموعے جیون درپن، من گاگر اور انت سے آگے شایع ہوئے۔

  • اردو غزل کی تثلیث اور شاد عظیم آبادی

    اردو غزل کی تثلیث اور شاد عظیم آبادی

    اردو شاعری کا ایک بڑا نام شاد عظیم آبادی کا ہے جن کی آج برسی ہے۔ شاد عظیم آبادی اردو کے ایک اہم شاعر ہی نہیں‌، محقق، تاریخ داں اور اعلیٰ پایہ کے نثر نگار بھی تھے۔

    مشہور نقّاد کلیم الدین احمد نے انھیں اردو غزل کی تثلیث میں میرؔ اور غالبؔ کے بعد تیسرے شاعر کے طور پر شامل کیا۔ مجنوں گورکھپوری کے قلم نے انھیں نم آلودگیوں کا شاعر لکھا۔ علّامہ اقبال بھی ان کی سخن گوئی کے معترف تھے۔ شاد نے اردو غزل کو نئی شناخت دی جس کا اعتراف ان کے ہم عصر اور بعد میں آنے والوں نے بھی کیا۔

    اردو کے ممتاز نقّاد، ادیب اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی نے لکھا ہے کہ ”شاد کی اہمیت ادبی بھی ہے اور تاریخی بھی۔ تاریخی اس معنی میں کہ جب غزل کے اوپر حملے ہو رہے تھےاور چاند ماریاں ہو رہی تھیں اس زمانہ میں شاد غزل کے علم کو بلند کئے رہے۔ ادبی بات یہ ہوئی کہ کلاسیکی غزل کے کئی رنگوں کو اختیار کر کے انھیں سچّے اور خالص ادب میں پیش کرنا شاد کا کارنامہ ہے۔”

    شاد کی شاعری میں طرزِ ادا اور اسلوب خوب اور پُر وقار ہے اور ان کے اشعار میں‌ جو شیرینی اور دل کشی ہے اس میں‌ شاد عظیم آبادی نے زندگی اور اس کی ناہمواریوں کو بہت بامعنیٰ‌ اور اثرانگیزی سے بیان کیا ہے۔ شاد کے اشعار میں سوز اور کسک ملتی ہے جس کے ساتھ بصیرت افروزی بھی نمایاں ہے۔ شاد عظیم آبادی کا امتیاز کلاسیکی ہنر کو ایک نئی سطح پر آزماتے ہوئے اپنی بات کہنا ہے۔ وہ روایت شکن نہیں بلکہ اس میں‌ توسیع کرنے والے شاعر تھے جن کی انفرادیت ان کا وہ شعور اور خود آگاہی بھی ہے جس سے وہ شعراء‌ کے درمیان اپنی پہچان بناتے ہیں۔

    شاد عظیم آبادی 1846ء میں عظیم آباد (پٹنہ) کے ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید علی محمد تھا۔ ان کے والد سید تفضل حسین کا شمار پٹنہ کے عمائدین میں ہوتا تھا۔ ان کے گھر کا ماحول مذہبی اور ادبی تھا۔ شاد بچپن سے ہی نہایت ذہین تھے اور دس برس کی عمر میں ہی انھوں نے فارسی زبان و ادب پر خاصی دسترس حاصل کر لی تھی۔ اسی زمانے میں‌ شاعری بھی شروع کردی۔ شاد نے سید الطاف حسین فریاد کی شاگردی اختیار کی۔ بطور شاعر شاد کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے معتبر ادبی رسالہ ’’مخزن‘‘ کے مدیر سر عبد القادر سروری پٹنہ آئے اور ان کی ملاقات شاد سے ہوئی۔ وہ شاد کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے اور ان کا کلام اپنے رسالہ میں شائع کرنے لگے۔

    شاد نے غزل کے علاوہ مرثیے، رباعیاں، قطعات، مخمس اور مسدس بھی لکھے۔ وہ اچھے نثر نگار بھی تھے۔ انھوں نے متعدد ناول لکھے جن میں ان کا تحریر کردہ ’’پیر علی‘‘ پہلی جنگ آزادی کے موضوع پر اردو کا پہلا ناول ہے، اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوا۔ ’’شاد کی کہانی شاد کی زبانی‘‘ ان کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ 1876ء میں پرنس آف ویلز ہندوستان آئے تو انھوں نے شاد سے بہار کی تاریخ لکھنے کی فرمائش کی۔ شاد نے تین جلدوں میں بہار کی تاریخ لکھی۔ ان کی کتاب ’’نوائے وطن‘‘ پر بہار میں خاصا طوفان کھڑا ہوا تھا۔ اس کتاب میں شاد نے عظیم آباد اور بہار کے دوسرے مقامات کے شرفاء کی زبان میں خرابیوں کی نشان دہی کی تھی۔ اس پر بہار کے اخبارات و رسائل میں انھیں‌ کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ شاد سیاسی، ملّی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔ وہ پٹنہ میونسپلٹی کے رکن اور میونسپل کمشنر بھی رہے۔ 1889ء میں انھیں آنریری مجسٹریٹ بھی نامزد کیا گیا۔ شاد نے ایک آسودہ زندگی گزاری اور مال و دولت کے سبب کئی ملازم ان کے ساتھ ہوتے تھے لیکن زندگی کے آخری ایّام میں انگریز کے وظیفہ خوار رہے۔

    شاد عظیم آبادی نے ساری زندگی تصنیف و تالیف میں گزاری۔ لیکن ان کی صرف دس کتابیں شایع ہوسکیں۔ 8 جنوری 1927ء کو شاد کا انتقال ہو گیا تھا۔

  • پروین شاکر: سکوت سے ‘نغمہ سرائی’ تک

    پروین شاکر: سکوت سے ‘نغمہ سرائی’ تک

    اردو کی مقبول ترین شاعرہ پروین شاکر کی موت کے بعد ان کا کلیات ‘‘ماہِ تمام’’ کے نام سے مداحوں تک پہنچا تھا۔ اس سے قبل پروین شاکر کے مجموعہ ہائے کلام ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے نام سے منظرِ‌عام پر آچکے تھے۔

    پروین شاکر نے 26 دسمبر 1994ء کو ایک ٹریفک حادثے میں زندگی ہار دی تھی۔ آج اردو کی اس مقبول شاعرہ کی برسی ہے۔

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں پروین شاکر کو ان کے رومانوی اشعار کی وجہ سے زیادہ مقبولیت ملی، لیکن اردو ادب میں پروین شاکر کو نسائی جذبات کے عصری شعور کے ساتھ اظہار کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔

    ‘‘ماہِ تمام’’ پروین شاکر کا وہ کلّیات تھا جو اس شاعرہ کی الم ناک موت کے بعد سامنے آیا۔ محبّت اور عورت کا دکھ پروین شاکر کی شاعری کا خاص موضوع رہے۔ انھوں نے نسائی جذبات اور عورت کے احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کیا ہے اور غزل کے ساتھ نظم میں‌ بھی خوبی سے پیش کیا ہے۔

    پروین شاکر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران شاعرہ نے اپنی تخلیق اور فکر و نظر کے سبب ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھیں خوب داد ملی اور ان کے شعری مجموعے باذوق قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کا آغاز کیا۔ خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا، لیکن تلخیوں کے باعث ان کا ازدواجی سفر ختم ہوگیا۔

    اس شاعرہ کا اوّلین مجموعۂ کلام 25 سال کی عمر میں‌ خوشبو کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ اس کتاب پر پروین شاکر کو آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ مجموعہ شاعری کا ذوق رکھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہوا۔ پروین شاکر کی برسی کے موقع پر ہر سال ادب دوست حلقے اور ان کے مداح شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شاعرہ کا کلام سنا جاتا ہے۔

    پاکستان اور دنیا بھر میں موجود اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں مقبول پروین شاکر کو اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ یہ اشعار ان کے کتبے پر درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ اردو زبان کے اس ممتاز شاعر کا کلام ایک خواب ناک ماحول کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ منیر نیازی کے طرزِ بیان اور شعری اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    اردو ادب میں منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور ان کی شاعری کسی دبستان کے اثر سے مغلوب نہیں‌ بلکہ وہ اپنی شاعری سے ایک نئے دبستان کی طرح ڈالنے والے ایسے شاعر ہیں جس کی تقلید کرنے کی کوشش ان کے بعد آنے والوں نے کی ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے یہ مشہور اشعار دیکھیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘

  • ناشاد و ناکارہ پھرنے والے مجازؔ کا تذکرہ!

    ناشاد و ناکارہ پھرنے والے مجازؔ کا تذکرہ!

    بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں مجاز اردو شاعری کے افق پر طلوع ہوئے اور نوجوانوں میں ان کا کلام بہت مقبول ہوا۔ اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و الم، اور انقلاب کی دھمک سبھی کچھ ملتا ہے۔ مجاز تھے تو معمولی شکل و صورت کے لیکن ان کی شخصیت بڑی دل نواز تھی اور بالخصوص لڑکیاں‌ ان کی دیوانی تھیں۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کا جنون اور رومان اس سے “آوارہ” اور “رات اور ریل” جیسی نظمیں لکھواتا رہا۔ مجاز کو ان کی نظموں‌ کے طفیل بے پناہ شہرت ملی۔

    اردو کا یہ ممتاز شاعر 19 اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی، ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوا تھا۔ ان کا اصل نام اسرارُالحق اور مجازؔ تخلص تھا۔ تعلیم کے لیے لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اسی شہر سے محبّت نے انھیں مجاز لکھنوی مشہور کردیا۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا اور دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے میگزین ’’آواز‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ کچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا اور پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کے مدیر ہوگئے۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے منسلک ہوئے۔

    مجازؔ انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کے رکن تھے۔ انھوں نے 3 دسمبر 1955ء کو لکھنؤ میں ایک مشاعرہ پڑھا تھا اور دو دن بعد ان کے پرستاروں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ مجاز نے 5 دسمبر 1955ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا تھا۔

    ان کی مشہور زمانہ نظم ’’آوارہ‘‘ کے دو بند پیشِ خدمت ہیں۔

    شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
    جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
    غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
    رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
    میرے سینے پہ مگر رکھی ہوئی شمشیر سی
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    یہ وہ نظم تھی جس نے ہندوستان بھر میں‌ نوجوانوں کو ان کا پرستار بنا دیا۔کالج کے لڑکے اور لڑکیاں‌ مجاز کو گنگناتے۔ ان کی نظمیں یاد کر کے ایک دوسرے کو سناتے۔ مجاز چین سے جی نہ سکے۔ شراب نوشی کی بری عادت کا شکار ہوگئے اور یہی ان کی موت کا سبب بنی۔

    نام ور نقّاد اور شاعر آل احمد سرور نے ان کے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا، اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصّے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے کبھی کوئی ڈولی نہیں بنائی، شہرت کے لیے اس نے کوئی جال نہیں بچھایا، ہم عصروں میں سے ہر ایک سے اسی سطح پر ملتا رہا۔ اس کے دوستوں میں ہر مسلک اور مشرب کے آدمی تھے۔

    نشے کے عالم کی بات دوسری ہے۔ اس عالم میں اکثر لوگ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مجازؔ کی بھی یہی کیفیت ہو گئی تھی، مگر نشے میں ایک دفعہ جو کچھ اس نے کیا میں بھول نہیں سکتا۔

    ہوا یوں کہ ڈاکٹر علیم، احتشام اور میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پٹنے گئے، مجازؔ بھی ساتھ تھے۔ ایک ڈبّے میں صرف تین برتھ خالی تھیں۔ مجازؔ کو دوسرے ڈبّے میں جانا پڑا۔ جلد ہی لوٹ آئے، میں نے پوچھا، کیا ہوا، کہنے لگے، وہاں ایک سردار جی کرپان لیے میرے منتظر تھے۔ چناں چہ میں نے شان دار پسپائی ہی میں نجات سمجھی، فرش پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔

    پٹنے پہنچے تو سب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے، ایک کمرے میں، مَیں اور احتشام تھے۔ برابر کے کمرے میں پنڈت کیفیؔ تھے۔ اس کے بعد کے کمرے میں مجازؔ اور جذبیؔ تھے۔

    رات کو سب سونے لیٹے ہی تھے کہ پنڈت جی کے کمرے سے شور اٹھا ’’ارے دوڑیو، بچائیو۔ یہ مار ڈالتا ہے۔‘‘ ہم لوگ گھبرا کر دوڑے تو دیکھا کہ مجازؔ نشے میں پنڈت جی کے پیر زور زور سے داب رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ بزرگ ہیں۔ آپ کی خدمت میں سعادت ہے۔

    پنڈت جی چیخ رہے تھے کہ ہائے میں مرا، بڑی مشکل سے مجازؔ کو علاحدہ کیا۔ صبح ہوئی تو اب مجازؔ پنڈت جی کے سامنے نہیں آتے۔ آخر پنڈت جی نے گلے سے لگایا اور کہا کہ ’’مجازؔ تم سے اردو شاعری کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے خلوص سے میں بڑا متاثر ہوا مگر خلوص میں تم نے میرا کام ہی تمام کر دیا ہوتا۔ بھائی اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم سب آبدیدہ ہوگئے۔

  • فیاض ہاشمی:‌ گیت نگاری کا بادشاہ

    فیاض ہاشمی:‌ گیت نگاری کا بادشاہ

    فیاض ہاشمی ایک لاجواب نغمہ نگار ہی نہیں، مکالمہ نویس بھی خوب تھے۔ 20 سال کی عمر میں فیاض ہاشمی نے گرامو فون کمپنی آف انڈیا میں ملازم ہوگئے تھے اور وہاں انھیں اپنے وقت کے ممتاز شعراء اور باکمال موسیقاروں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کے درمیان رہ کر فیاض ہاشمی نے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا اور شہرت حاصل کی۔

    شعر گوئی کی صلاحیت اور گرامو فون کمپنی کا تجربہ فیاض ہاشمی کو فلم نگری تک لے گیا اور وہ ایک نغمہ نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ فیاض ہاشمی موسیقی سے گہرا شغف ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے اسرار و رموز سے بھی واقف تھے۔

    فیاض ہاشمی نے نوعمری ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ فلم ’’انتخاب‘‘ کے بعد انھوں نے ’’انوکھی‘‘ کے گیت تحریر کیے تھے جن میں سے ’’گاڑی کو چلانا بابو…‘‘ نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ یہ وہ گیت تھا جس کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ فیاض ہاشمی لاہور میں بننے والی ہر دوسری فلم کے نغمہ نگار ہوتے تھے۔

    تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
    یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے

    معروف گلوکار ایس بی جون کی آواز میں‌ یہ گیت آج بھی مقبول ہے۔ یہی نغمہ اس گلوکار کی شہرت کا سبب بھی بنا۔ اسے فیاض ہاشمی نے لکھا تھا۔ ان کے کئی فلمی نغمات ایسے تھے جن کو اکثر محافل میں گلوکاروں سے فرمائش کرکے سنا جاتا اور لوگ انھیں گنگناتے رہتے۔

    فیاض ہاشمی زرخیز ذہن کے مالک اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ انھوں‌ نے شاعری تک خود کو محدود نہ رکھا بلکہ فلم کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیے اور مکالمہ نویسی کی۔ فلم اولاد، زمانہ کیا کہے گا، نہلے پہ دہلا، انتخاب، پہچان کے اسکرپٹ فیاض ہاشمی نے لکھے۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق 24 فلموں کی کہانیاں اور مکالمے فیاض ہاشمی نے لکھے تھے۔

    فلم’’سہیلی، اولاد، آشیانہ، سہاگن، ہونہار، پیغام، توبہ، سوال، دیور بھابھی‘‘ اپنے وقت کی وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے نغمات فیاض ہاشمی نے تحریر کیے۔ 1968ء میں ان کا لکھا ہوا گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے لیے فیاض ہاشمی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    فیاض ہاشمی 1923ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد محمد حسین ہاشمی بھی تھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا شوق اور شاعری انھیں‌ ورثے میں ملی تھی۔ 29 نومبر 2011ء کو فیاض ہاشمی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی تھیں جب کہ فلمی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ فیاض ہاشمی کی آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔ ان کا پہلا نغمہ طلعت محمود نے 1941ء میں گایا تھا۔ اس کے بعد طلعت محمود ہی کی آواز میں فیاض ہاشمی کے گیت نے گلوکار کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ یہ گیت تھا،

    تصویر تیری دل مرا بہلا نہ سکے گی
    میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی

    طلعت محمود ہی نہیں فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے گیتوں نے متعدد فن کاروں کو شہرتِ دوام بخشا۔ فیاض ہاشمی کی یہ غزل آج بھی مقبول ہے۔

    آج جانے کی ضد نہ کرو
    یونہی پہلو میں بیٹھے رہو

    اس کلام کو حبیب ولی محمد اور بعد میں فریدہ خانم نے گایا اور بہت شہرت پائی۔ یہ کلام اُس زمانے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن پر اکثر سنا جاتا تھا۔

    فیاض ہاشمی نے برطانوی دور میں فلم انڈسٹری میں قدم رکھ دیا تھا، لیکن تقسیم کے بعد وہ پاکستانی فلموں کے مصروف ترین نغمہ نگار رہے۔ ان کے تحریر کردہ مشہور نغمات میں فلم داستان کا قصۂ غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے، فلم دیور بھابھی کا گیت یہ کاغذی پھول جیسے چہرے، فلم سوال کا لٹ الجھی سلجھا رے بالم، فلم زمانہ کیا کہے گا میں شامل رات سلونی آئی بات انوکھی لائی شامل ہیں۔

    ان کے ملّی نغمات بھی بہت مقبول ہوئے جن میں یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران، اے قائد اعظمؒ تیرا احسان ہے احسان، ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے، سورج کرے سلام، چندا کرے سلام شامل ہیں۔

  • بارش کے لیے منظوم دُعا کرنے والے امیر مینائی کا تذکرہ

    بارش کے لیے منظوم دُعا کرنے والے امیر مینائی کا تذکرہ

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی نے متنوع موضوعات پر اپنے کلام اور اشعار کی رنگا رنگی کے سبب ہم عصروں میں امتیاز حاصل کیا۔ کیف و انبساط اور ندرت و خوش سلیقگی امیر مینائی کے فنِ شاعری کی خصوصیت ہے۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے اور زبان و بیان پر عبور رکھتے تھے۔ ان کا نام امیر احمد تھا۔ سنہ 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔

    امیر مینائی کی شاعری عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے ایسے مضامین سے گندھی ہوئی ہے جو انھیں بطور شاعر جداگانہ حیثیت دیتے ہیں۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں اکتساب کیا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں امیر مینائی کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آلیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کرگئے۔

    وہ طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔ حضرت امیر مینائی کا یہ قصہ ڈاکٹر امیر علی نے ہندوستان کے اہم شعرا سے متعلق اپنے تحقیقی مضمون میں رقم کیا ہے۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔

    امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔

  • ن م راشد: اردو نظم کا بڑا شاعر

    ن م راشد: اردو نظم کا بڑا شاعر

    ازل سے فطرتِ آزاد ہی تھی آوارہ
    یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

    ن م راشد نے جہانِ سخن میں شوق کو اپنا راہ نما کیا۔ اگر یہ شاعر کسی کو راہ بَر مان کر اس کا ہاتھ تھام لیتا، کسی کی پیروی کرتا تو شاید اردو نظم کی سیج پر روایت سے انحراف کے ایسے پھول بھی نہ کھلتے جن کی خوش بُو چمن زارِ سخن میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور یہ پھول آج بھی لہک لہک کر انسان دوستی، محبّت، وفا اور خلوص کے ترانے سنا رہے ہیں۔ ن م راشد کی شاعری جذبات کی دل آویز کھنک کے ساتھ انسانوں کے دُکھوں اور مصائب کا ادراک کرواتی ہے۔ ان کی نظمیں فرسودہ نظام کو مسترد کرتی ہیں۔ راشد کے تخیل کی یہ آوارگی، خود آگاہی کا وسیلہ بنی اور اس کے طفیل اردو شاعری متنوع اور غیر روایتی موضوعات پر شان دار نظمیں ملیں۔ راشد کی شاعری نرم اور سادہ نہیں بلکہ کھردرے جذبات کی عکاس ہے۔

    آج اردو کے اس جدّت طراز اور روایت شکن شاعر کا یومِ وفات ہے۔ 9 اکتوبر 1975ء میں‌ ن م راشد نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ والد ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ دادا ایک بڑے معالج تھے اور اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ ن م راشد کے والد بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔ راشد کے والد خود شعر کم کہتے تھے لیکن ان کی بدولت راشد کو اردو فارسی کے بڑے شاعروں کے کلام سے آگاہی ہوئی۔ راشد اسکول کے زمانہ میں انگریزی کے شاعروں سے بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے ملٹن، ورڈسورتھ اور لانگ فیلو کی بعض نظموں کے ترجمے کیے اور اسکول کی ادبی محفلوں میں پڑھ کر انعام کے حقدار بنے۔

    راشد کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق ہو گیا۔ راشد، یکم اگست 1910ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے جن کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ ان کا تعلق ایک خوش حال گھرانے سے تھا۔ راشد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کئی اہم عہدوں‌ پر فائز رہے۔ انھوں نے انگریزی، فلسفہ، تاریخ اور فارسی بھی پڑھی۔ انگریزی میں متعدد مضامین بھی لکھے جو رسائل اور اخبار کی زینت بنے جب کہ شاعری میں جداگانہ شناخت بنائی اور ہم عصروں‌ میں‌ جدید نظم گو شاعر کے طور پر امتیاز حاصل کیا۔

    ادبی تذکروں اور سوانح میں‌ لکھا ہے کہ راشد کا خاصا وقت شیخوپورہ اور ملتان میں گزرا۔ یہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر مختلف ادبی اور تعلیمی رسائل کی ادارت کا بھی موقع ملا۔ وہ کمشنر آفس، ملتان میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ اور اِسی عرصے میں چند ناولوں اور مختلف موضوعات پر کتب کا اردو ترجمہ کیا۔ ملازمت کے سلسلے میں‌ جب ایران میں قیام کا موقع ملا تو راشد نے اہم شعراء کی درجنوں نظموں کا اردو ترجمہ کیا۔ بعد میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے اور ترقی پاکر ڈائریکٹر آف پروگرامز ہوگئے۔

    راشد نے متحدہ ہندوستان کے برطانوی قانون کے مطابق مختلف امتحانات پاس کرنے کے بعد فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اور اس دوران بیرونِ ملک بھی تعینات رہے اور وہاں کی سیاسی، سماجی زندگی اور تہذیب و شعور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ فوج سے رخصت لے کر وہ دوبارہ ریڈیو لکھنؤ سے منسلک ہوگئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد راشد نے ریڈیو پاکستان پشاور سے تعلق جوڑ لیا۔ وہ اقوام متحدہ میں بھی شامل ہوئے اور نیویارک، جکارتہ، کراچی اور تہران میں اقوام متحدہ کے شعبۂ اطلاعات میں خدمات انجام دی تھیں،1961 میں ان کی شادی ہوئی لیکن بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی۔راشد نوجوانی میں خاکسار تحریک سے بہت متاثر تھے اور اِس سے وابستہ بھی رہے۔ وہ اکثر تقاریب میں خاکسار وردی اور ہاتھ میں بیلچہ اٹھائے شریک نظر آتے تھے۔

    آزاد نظم میں ہیئت، تیکنیک کے منفرد اور قابلِ ذکر تجربات نے راشد کو جدید نظم کا معمار ثابت کیا۔ اِن کی شاعری تجریدی اور علامتی تجربات سے مزین ہے جو شاعر کے منفرد اسلوب اور پُراثر طرزِ بیان کے سبب بہت مقبول ہوئی۔

    روایت میں جدیدیت کا رنگ بھرنے والے اس شاعر نے معاشرے اور افراد کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور فکر و نظر کے نئے زاویے دیے۔ انھوں‌ نے نظام اور اپنے معاشرے پر ایسا طنز کیا کہ شاعر کو نامُراد اور جنس نگار تک کہا گیا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ دشنام طرازی بجائے خود فرسودہ اور پست ذہنیت کا نتیجہ تھی۔ البتہ راشد کے بارے میں‌ یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ وہ ایک تیز طرار انسان تھے اور لابنگ کے علاوہ اپنی بعض حرکتوں‌ کی وجہ سے اکثر شخصیات ان سے ناخوش تھے اور دور رہنا پسند کرتی تھیں۔ لیکن دوسری طرف راشد ایک بااصول شخص بھی بتائے جاتے ہیں، مظفر علی سیّد نے اس بارے میں‌ اپنی کتاب میں‌ دل چسپ واقعہ لکھا ہے: "جب میں ایران میں قیام کے دوران اُن سے ملنے گیا تو انہوں نے پوچھا کہ جدید ایرانی شاعروں کے مجموعے آپ نے خرید لیے ہیں؟ میں نے کہا کہ کچھ خرید لیے ہیں اور کچھ کی تلاش ہے۔ کہنے لگے ’میں آپ کو یہاں کی شاعری کے کچھ مجموعے دکھاتا ہے جو اتفاق سے میرے پاس ڈپلیکیٹ ہوگئے ہیں۔ ان میں ایک ایک آپ رکھ لیجیے جو آپ کے پاس موجود نہ ہوں۔ میں آپ سے صرف آدھی قیمت لوں گا۔‘ ذرا کی ذرا میں دم بخود ہو کے رہ گیا لیکن پھر یہ سوچ کے چل پڑا کہ مجھے مزید مجموعے درکار تو ہوں گے ہی اور آدھی قیمت پر کیا برے ہیں۔ ہمارے دانش ور دوست شاید اسے بُرا سمجھیں مگر اِن لوگوں کے عمل میں ایک آدھ نمائشی فیاضی کے بعد جو مفت خورا پن شروع ہوتا ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ راشد جیسے با اصول آدمی دنیا میں بہت کم ہوں گے لیکن اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اصول پسندی کو بڑی سہولت سے نبھا جاتے تھے۔ انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی کہ یہ میرا اصول ہے اور میں اِس سے سرِمُو انحراف نہیں کر سکتا۔‘

    بطور شاعر راشد نے نئے افکار کے حامل، اِرتقا اور جدت سے ہم آہنگ اور باعمل افراد پر مشتمل معاشرہ تشکیل دینے کی بات کی۔ اِن کا زیادہ تر کلام رجائیت اور خوش کن خیالات سے دور ہے، لیکن بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی یہ نظمیں گھٹن اور حبس زدہ ماحول سے نکلنے اور صبحِ نو کی جوت جگاتی ہیں، جس پر ن م راشد کو ابہام کا شاعر کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی گئی۔ راشد کی علامتی شاعری کو محض لفاظی کہا گیا، لیکن ن م راشد نے اپنی شاعری کے ذریعے تشکیک زدہ معاشرے کو نئے رجحانات اور افکار سے آشنا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    اِن کی شاعری میں کسی کہانی کی طرح وہ کردار بھی ملتے ہیں جو معاشرے کے مکر و فریب اور اخلاقی پستی کو عیاں‌ کرتے ہیں۔ یہ کردار ان کی نظم اندھا کباڑی اور حسن کوزہ گر میں دیکھے جاسکتے ہیں:

    "خواب لے لو… خواب‘‘

    صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
    خواب اصلی ہیں کہ نقلی…
    یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے اِن سے بڑھ کر
    خواب داں کوئی نہ ہو!
    مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب
    مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
    اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
    دیکھنا یہ مفت کہتا ہے
    کوئی دھوکا نہ ہو!
    ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
    گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
    یا پگھل جائیں یہ خواب
    بھک سے اڑ جائیں کہیں
    یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
    جی نہیں کس کام کے؟
    ایسے کباڑی کے یہ خواب
    ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!

    ن م راشد ایک داستان گو تھے جنھیں وہ کسی کردار کے ساتھ نظم کے سانچے میں‌ ڈھال کر خوب صورتی پیش کرتے رہے۔ ’حسن کوزہ گر‘ اِن کی ایک شاہکار نظم ہے۔ اِس کا یہ بند دیکھیے:

    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر
    وہی کوزہ گر جس کے کوزے
    تھے ہر کاخ و کو اور ہرشہر و قریہ کی نازش
    تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں اِن اپنے مہجور کوزوں کی جانب
    گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
    معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب
    کہ میں اس گل و لا سے، اِس رنگ و روغن
    سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
    دلوں کے خرابے ہوں روشن!

    یہ نظم ایک ایسے فن کار کا المیہ ہے جو اب کوزہ گری کے فن سے محروم ہوگیا ہے اور دوبارہ اس پر قدرت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے وہ ایک نگاہِ ناز کا طلب گار ہے۔

    کرداروں کے ذریعے تخاطب کے ساتھ راشد "میں” کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ اِس کی مثال اِن کی نظم ‘رقص’، ‘خود کشی’ اور ‘انتقام’ ہیں۔

    راشد کی پہلی نظم انسپکٹر اور مکھیاں تھی جو طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھی گئی تھی۔ مشہور ہے کہ ایک روز انسپکٹر آف اسکولز اس اسکول کا معائنہ کرنے آیا جس میں‌ ن م راشد بھی پڑھتے تھے اور وہاں‌ مکھیاں اُس کے سَر پر بھنبھاتی رہیں۔ راشد کے تخیل نے اِس منظر کو نظم میں سمیٹ لیا۔ نو عمر راشد اس وقت "گلاب” تخلّص کرتے تھے۔ چند برس گزرے تو شعور اور سنجیدگی نے انھیں یہ تخلّص ترک کرنے پر مجبور کردیا، اور اُس وقت کے غیر معروف رسائل میں اصل نام سے ان کا کلام شائع ہوتا رہا۔ بعد میں‌ وہ ادبی دنیا میں‌ ن م راشد مشہور ہوگئے۔

    ن م راشد کا شمار اردو مقبول شعرا میں نہیں کیا جاتا جس کی وجہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا امتزاج ہے جس کو سمجھنا اور جذب کرنا قاری کے لیے سہل نہیں۔ راشد سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں‌ روایتی طرزِ فکر، جذباتیت، جوشِ خطابت اور زورِ تقریر نے بے عملی کو بڑھاوا دیا ہے، اور اِس کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ لیکن ان کی فکر اور آہنگ اُس دور کے قاری اور ناقد دونوں کے لیے اجنبی اور نامانوس تھا، راشد کا لب و لہجہ اور غیر روایتی تیکنیک اُس دور میں جب کہ نظم کا سانچہ بہت سیدھا تھا، ان پر تنقید کی بڑی وجہ تھی۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ جب انیسویں‌ صدی میں خالق اور مخلوق، احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے ادب کا سہارا لیا جارہا تھا تو راشد نے ان مسائل کو ایک مختلف ہیئت اور تکینک کے ساتھ پابند کیا اور بڑی جرأت سے ایسے موضوعات کو بھی نظموں‌ میں‌ پیش کیا جنھیں‌ قبول کرنے میں عام آدمی کے ساتھ مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو بھی بڑا تأمل ہوا۔ مذہب کے بارے میں‌‌ خود راشد کی رائے ایسی تھی کہ اس پر بات نہیں‌ کی جاسکتی۔

    راشد کے دور میں جنگوں اور اُس کے نتیجے میں انسانوں کی بدحالی کے بعد سرمایہ داری کا عفریت بھی لوگوں کو نگلنے کے لیے تیّار تھا۔ بغاوت اور انقلابی امنگوں کے ساتھ ادب میں خدا، اُس کے وجود اور کائنات کے مسائل پر مباحث جنم لے رہے تھے جب کہ انسان پرستی اور انسانوں کے جملہ مسائل کو ادب میں اہمیت دی جانے لگی تھی۔ اِس کا ن م راشد نے گہرا اثر لیا اور اپنی شاعری میں جگہ دی۔

    نظم مکافات کا یہ بند ایک اضطراب، افسوس اور زندگی کی کشمکش کو بیان کر رہا ہے:

    رہی ہے حضرت یزداں سے دوستی میری
    رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا
    گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری
    دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا
    کسی پہ روح نمایاں نہ ہوسکی میری
    رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا
    دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
    وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انہیں
    زبان شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
    کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں
    خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کی
    کبھی کیا نہ جوانی سے بہریاب انہیں
    یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
    کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
    اذیتوں سے بھری ہے ہر ایک بیداری
    مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
    الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی
    فشار ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا
    مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
    پیام مرگ جوانی تھا اجتناب مرا

    راشد کی نظمیں، انسانی نفسیات پر اُن کی گہری نظر اور مشاہدے کی مثال ہیں۔ تیل کی کمپنیوں کا قومی تحویل میں جانا، جمہوریت کی بساط لپیٹے جانا، حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی سازشیں، نسل پرستی کو فروغ دینا، سرمایہ داری، عرب دنیا کی بدحالی اور بے بسی کی جھلک ن م راشد شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کے شعری مجموعے ‘ماورا’، ‘ایران میں اجنبی’، اور ‘لا=انسان’ اُن کی زندگی میں شائع ہوئے، لیکن ایک کتاب بعنوان گمان کا ممکن راشد کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئی تھی۔ ان کے متعدد تنقیدی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوئے تھے لیکن کتابی شکل میں بہم نہیں ہوئے۔

    راشد کے دوسرے شوق گھڑ سواری، شطرنج، کشتی رانی تھے۔ شراب نوشی نے انھیں‌ دل کے عارضہ میں مبتلا کردیا تھا۔ راشد مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔ ن م راشد نے برطانیہ میں‌ وفات پائی، کہتے ہیں‌ کہ راشد ایک وصیت چھوڑ گئے تھے کہ ان کے بے روح‌ جسم کو نذرِ آتش کیا جائے۔

  • نقش لائل پوری: ایک بھولا بسرا نام جس کے فلمی گیت آج بھی سنے جاتے ہیں

    نقش لائل پوری: ایک بھولا بسرا نام جس کے فلمی گیت آج بھی سنے جاتے ہیں

    ایک زمانہ تھا جب ہندوستان اور پاکستان میں فلمی صنعت اپنا عروج دیکھ رہی تھی۔ اس وقت جہاں کئی فن کاروں کو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا تھا، وہیں قابل اور باصلاحیت تخلیق کار بھی نام و مقام بنا رہے تھے۔ اگر اس زمانے کے گیت نگاروں کی بات کی جائے تو ان میں کئی بڑے نام شامل ہیں جن کے گیت بہت سی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔ فلمی نغمہ نگاروں کی اس کہکشاں میں ایک نقش لائل پوری بھی تھے جنھوں‌ نے بولی وڈ کو خوب صورت نغمات دیے۔

    نقش لائل پوری کے لکھے ہوئے بہت سے گیت ہندوستانی فلموں‌ کی کام یابی اور مقبولیت کا سبب بنے۔ وہ غزل کے بھی بہت اچھے شاعر تھے۔ اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ ہر اچھا غزل گو شاعر اچھی فلمی شاعری نہیں کر سکتا، لیکن نقش لائل پوری اور پاکستان میں قتیل شفائی، تنویر نقوی، سیف الدین سیف، حبیب جالب اور منیر نیازی وہ نام ہیں جنھوں نے غزل اور نظم کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی گیت نگاری کی۔

    نقش لائل پوری فلمی صنعت کے ایک ایسے نغمہ نگار ہیں جنھیں بہت جلد فراموش کر دیا گیا اور اکثر جب ہم ہندوستان اور پاکستان کے فلمی گیت نگاروں کا تذکرہ پڑھتے ہیں تو یہ نام کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ نقش لائل پوری 24 فروری 1928 ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئے اور علاقہ کی یہی نسبت اپنے نام سے جوڑے رکھی۔ ان کا اصلی نام جسونت رائے شرما تھا۔ ان کے والد مکینیکل انجینئر تھے اور چاہتے تھے ان کا بیٹا بھی انجینئر بنے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ وہ آٹھ برس کے تھے جب والدہ چل بسیں اور والد نے دوسری شادی کی تو باپ اور بیٹے کے تعلقات خراب ہو گئے۔ نقش لائل پوری لاہور آگئے، لیکن تقسیمِ ہند کے بعد وہ اور ان کا خاندان لکھنؤ ہجرت کر گیا۔ شاعری کا آغاز وہ کرچکے تھے اور اسی زمانے میں جسونت رائے شرما نے اپنا فلمی نام نقش لائل پوری رکھ لیا تھا۔ 1950ء میں گیت نگاری کے ارادے نقش نے ممبئی کا رخ کیا۔ یہاں وہ دی ٹائمز آف انڈیا میں‌ بطور پروف ریڈر کام کرنے لگے جس نے انھیں فلمی صنعت تک رسائی دی۔ اسی زمانے میں انھوں نے شادی کر لی۔ پھر ممبئی میں ان کی ملاقات ہدایت کار جگدیش سیٹھی سے ہوئی جنھوں نے نقش لائل پوری کو اپنی فلم ’’جگّو‘‘ کے نغمات لکھنے کا موقع دیا۔ نقش کے لکھے ہوئے تمام گیت مقبول ہوئے اور خاص طور پر یہ نغمہ ’’اگر تیری آنکھوں سے آنکھیں ملا دوں‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ 1970 ء تک نقش لائل پوری بولی وڈ میں اپنے قدم جمانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے بعد ان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ ایک موقع پر موسیقار جے دیو نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ٹی وی سیریل کے لیے سونگ لکھیں اور اس میں‌ بھی نقش لائل پوری کام یاب ہوئے، انھوں نے پچاس ٹی وی ڈراموں کے گیت تحریر کیے۔ نقش لائل پوری نے ہندی کے علاوہ پنجابی فلموں‌ کے لیے بھی گیت نگاری کی۔

    نقش لائل پوری نے معروف فلم ساز اور ہدایت کار بی آر چوپڑا کی فلم ’’چیتنا‘‘ کے لیے بھی گیت تحریر کیے اور بہت سادہ زبان میں خوب صورت شاعری کی جو بہت پسند کی گئی۔

    فلمی گیت نگار کی حیثیت سے نقش لائل پوری نے چوروں کی بارات، چیتنا، سرکس کوئن، خاندان، درد، دل ناداں، تمہارے لیے، کاغذ کی ناؤ، دل کی راہیں اور کئی فلموں‌ کے لیے بہت خوب صورت شاعری کی۔

    ان کی وجہِ شہرت جو گیت بنے ان میں زیادہ تر ستّر کی دہائی کی فلموں‌ میں‌ شامل تھے۔ رسم الفت کو نبھائیں، الفت میں زمانے کی، پیار کا درد ہے، اور ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والا گیت یہ ملاقات اک بہانہ ہے……..پیار کا سلسلہ پرانا ہے بھی اسی شاعر کی تخلیق ہے۔

    22 جنوری 2017 ء کو نقش لائل پوری چل بسے۔ ممبئی میں اپنے گھر پر وفات پانے والے نقش لائل پوری 88 سال کے تھے۔