Tag: شاعر برسی

  • شاذ تمکنت: اردو شاعری کا ایک معتبر نام

    شاذ تمکنت: اردو شاعری کا ایک معتبر نام

    حیدر آباد دکن وہ ریاست تھی جس کے سلطان میر عثمان علی خان نے برصغیر میں اردو کی تعلیم اور علم و ادب کو پروان چڑھانے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور اس زبان کی ترقی اور ادیب و شعراء کے لیے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی۔ اسی مرفّہ الحال ریاست میں شاذ تمکنت نے اس دنیا کے لوگوں‌ سے اپنا ناتا جوڑا تھا اور پھر حسبِ دستور رفتگاں میں ان کا نام شامل ہوگیا۔ 1985ء میں آج ہی کے روز اردو کے اس ممتاز شاعر کا انتقال ہو گیا تھا۔

    شاذ تمکنت کا اصل نام سیّد مصلح الدّین تھا۔ وہ 31 جنوری 1933ء کو دکن کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نظامِ دکن کے ہاں ملازم تھے۔ افتادِ دوراں نے والدین کو زندگی بسر کرنے کی زیادہ مہلت نہ دی۔ شاذ تمکنت نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور کم عمری میں‌ شاعری کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس دور میں‌ ہندوستان میں کئی سیاسی تحریکیں چل رہی تھیں‌ اور معاشرہ بھی طرح‌ طرح‌ کی تبدیلیو‌ں سے گزر رہا تھا جب کہ اردو ادب ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تھا جو بڑی حد تک کم بھی ہو رہا تھا۔ افسانہ و مختصر کہانیوں کا سلسلہ نئے موضوعات کے ساتھ جاری تھا، انقلاب آفریں شاعری اور تنقید کے میدان میں مختلف رجحانات زور پکڑ رہے تھے۔ ایسے میں‌ شاذ تمکنت نے روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ بجائے خود ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔

    ان کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ملتے ہیں، وہیں ان کا دکھ، زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ شاذ تمکنت نے جب شعر کہنا شروع کیا، ترقی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے عوامی مصنفین کا چولا بدلا تھا۔ شاذ تمکنت بھی اسی سے وابستہ ہوئے لیکن ترقی پسند تحریک کی ادعائیت سے خود کو دور رکھا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کرنے والے شاذ تمکنت نے اپنے دور کے دو بڑے شاعروں جوش اور فراق سے اکتسابِ ہنر کیا اور بہت جلد اپنا طرزِ اظہار الگ کر لیا۔ وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے پیش لفظ میں اپنا نظریۂ فن یوں بیان کرتے ہیں: میں غمِ ذات اور غمِ کائنات کو علاحدہ علاحدہ خانوں میں نہیں بانٹتا بلکہ میری دانست میں غمِ ذات عبارت ہوتا ہے، غمِ کائنات سے۔ ایک فرد کا غم اس کا ا پنا ہوتے ہوئے بھی درپردہ افراد کے دکھ سکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ کائنات کے خارجی موضوعات بھی اس وقت تک کام یاب شعر کا جامہ نہیں پہن پاتے جب تک کہ اس میں شخصیت کا غم ذات کا پُٹ نہ ہو۔ میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ، اوّل اوّل فن کار اپنی تسکین کے لیے، اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ متاعِ ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہلِ دہر کا قیاس کرے۔

    نظم اور غزل کے علاوہ شاذ تمکنت نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے غالب اور اقبال کی غزلوں کی تضمینیں لکھیں۔ یہ تضمینیں اصل غزلوں سے اتنی مربوط اور ہم آہنگ ہیں کہ کہیں پیوند کاری کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ شاذ تمکنت کے ذخیرۂ کلام میں قطعات، گیت، نعت، اور مناجات بھی شامل ہیں۔

    شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں‌، لیکن غزل میں بھی ان کی منفرد شناخت ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں کا نمایاں وصف مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزوِ لاینفک ہیں۔ مرحوم کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں۔ آخری مجموعۂ کلام بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا تھا۔ شاذ تمکنت کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
    تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

    شاعر نے متعدد مناجات بھی لکھی ہیں جن میں‌ سے ایک "کب تک مرے مولا ” کو ہندوستان کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ یہ ان کی مقبول مناجات میں شامل ہے۔ شاذ تمکنت کا ایک گیت ”سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” بھی پاک و ہند کے معروف گلوکاروں کی آواز میں بہت مقبول تھا۔

  • امام بخش ناسخ کا دبستانِ لکھنؤ اور اصلاحِ زبان

    امام بخش ناسخ کا دبستانِ لکھنؤ اور اصلاحِ زبان

    اردو ادب میں لکھنؤ کے ناسخ کو کلاسیکی دور میں اپنی شاعری کے سبب امتیاز بھی حاصل ہے اور وہ رجحان ساز بھی کہلائے۔ اصلاحِ زبان کے لیے ناسخ کو یاد رکھا جائے گا اور دبستانِ لکھنؤ کے لیے بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج استاد امام بخش ناسخ کا یومِ وفات ہے۔

    امام بخش ناسخ نے اپنے زمانے میں نہ اردو صرف و نحو پر کام کیا بلکہ روز مرّہ اور محاورات کی چھان پھٹک کی اور اس کے قاعدے بھی مقرر کیے۔ ناسخ نے اردو شاعری کو سنگلاخ زمینوں اور الفاظ کا اسیر ضرور بنایا، لیکن دبستانِ لکھنؤ بھی انہی کے دَم سے قائم ہوا اور اصلاحِ زبان کے ضمن میں ان کے وضع کردہ کئی اصول اور اہم تبدیلیاں ایسی ہیں کہ لکھنؤ میں ناسخ کی زبان کسوٹی بن گئی۔

    شیخ امام بخش ناسخ اردو شاعری میں ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے۔ ان کو شاعری کے دبستانِ لکھنؤ کا بانی کہا جاتا ہے۔ غزل میں ناسخ سے پہلے لکھنؤ بھی دلّی ہی کا معترف تھا لیکن بعد میں سیاسی اثرات ایسے پڑے کہ لکھنؤ والوں میں، زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی جداگانہ شناخت کی طلب جاگ اٹھی۔ دلّی کا برائے نام راج رہ گیا تھا اور آئے روز بگڑتے ہوئے حالات اور انگریزوں کی وجہ سے منظر نامہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں جب ناسخ نے دلّی کا لب و لہجہ اور لفظیات چھوڑ کر شاعری کی تو لکھنؤ میں ان کا چرچا ہونے لگا اور سبھی ان کے اسلوب کو اپنانے لگے۔ ناسخ نے جو بنیاد رکھی تھی، ان کے شاگردوں نے اس کی عمارت کو بلند کیا اور باقاعدہ دبستانِ لکھنؤ وجود میں آ گیا اور اردو شاعری پر چھا گیا۔ نازک خیالی، پُرشکوہ اور بلند آہنگ الفاظ کا استعمال اور داخلیت سے زیادہ خارجیت پر اس دور کے شعراء زور دینے لگے۔

    امام بخش ناسخ کا بچپن والد کے سائے سے محروم تھا۔ امام بخش ناسخ کا سنہ پیدائش 1772ء ہے اور وفات 16 اگست 1838ء کو ہوئی تھی۔ وہ فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ والد کے بعد ان کو لکھنؤ کے ایک تاجر نے گود لیا اور وہیں پروان چڑھے۔ مال دار گھرانے میں‌ رہنے کے سبب ان کی اچھی پرورش ہوئی اور اعلیٰ تعلیم دلائی گئی۔ بعد میں وہ اسی تاجر کی جائیداد کے وارث بھی بنے۔ یوں ناسخ خوش حال اور فارغ البال تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔ اردو کے اس ممتاز شاعر کا ایک حوالہ پہلوانی بھی ہے۔ ناسخ خوب تن و توش کے تھے۔ ورزش کا شوق تھا۔ بدن کسرتی اور پھرتیلا تھا۔جیسا کہ ہم نے بتایا وہ ایک مال دار گھرانے کے فرد تھے اور ان کے محمد حسین آزاد کے بقول ناسخ کے تین شوق تھے۔ اوّل کھانا، دوسرا ورزش کرنا اور تیسرا شوق شاعری کا تھا۔ انھیں حاسد طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہتے تھے۔

    ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کر کے ان کے لئے نئے استعارے وضع کرتے ہیں، ناسخ لفظوں کے پرستار تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے معنیٰ ثانوی اہمیت رکھتے تھے۔ یہ کہنا درست ہے کہ ان کا کلام عربی کے ثقیل اور نہایت بھاری الفاظ کے علاوہ اکثر بے مزہ اور بہت سے اشعار کا مضمون رکیک بھی ہے۔ لیکن بعض اشعار ایسے ہیں جن میں‌ نزاکتِ خیال اور معنی آفرینی انتہا کی ہے۔ نقّادوں کا خیال ہے کہ ناسخ تصویر تو بہت خوب بناتے تھے لیکن اس میں روح پھونکنے سے عاجز رہے۔

  • یومِ وفات: مرزا غالب بھی شیفتہؔ کی سخن فہمی کے معترف تھے!

    یومِ وفات: مرزا غالب بھی شیفتہؔ کی سخن فہمی کے معترف تھے!

    غالب لکھتے ہیں کہ میں اپنے دیوان میں اس وقت تک شعر شامل نہیں کرتا جب تک شیفتہؔ اسے پسند نہ کر لیں۔

    نواب مصطفیٰ خان متخلص بہ شیفتہؔ کے بارے میں‌ مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ شیفتہؔ سخن فہم اور زبان و بیان پر کمال قدرت رکھتے تھے، لیکن وہ سخن فہمی کا اعلیٰ مذاق ہی نہیں‌ رکھتے تھے بلکہ قادرُالکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ شیفتہ نے نثر بھی خوب لکھی۔ اردو کے ساتھ انھیں فارسی زبان میں بھی کامل دستگاہ تھی۔ مولانا حالیؔ نے اپنے علمی و تحقیقی کارناموں اور شعر و ادب میں اپنی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مقام پایا اور انھوں نے بھی شیفتہؔ ہی کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    1869ء میں شیفتہ نے آج ہی کے دن اس دارِ‌ فانی سے کوچ کیا تھا۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اور متأخرین شعرا میں شیفتہ اُن اصحابِ قلم و قرطاس میں سے ایک ہیں‌ جن کی رائے اہلِ قلم کے نزدیک سند کا درجہ پاتی ہے۔ خود معاصر شخصیات بھی شیفتہ کے مذاقِ سخن اور نکتہ رسی کی معترف اور مداح رہی ہیں۔

    نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا۔

    ان کا سنہ پیدائش 1809ء بتایا جاتا ہے۔ شیفتہ، اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں‌ نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے دواوین کے علاوہ ان کا سفرنامۂ حجاز بھی مشہور ہے جب کہ گلشنِ بے خار وہ کتاب ہے جو کلاسیکی ادب میں مستند اور نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے جس میں‌ شعرا کے تذکرے کے ساتھ شاعری پر تنقیدی رائے شامل ہے۔ فارسی زبان میں شیفتہ کی یہ تنقید دقّتِ نظر کی حامل ہے۔

    یہاں ہم شیفتہ کے سفرنامۂ حجاز کا بھی ذکر کریں گے جس میں اُس افتاد اور مسافروں کے عالمِ بیچارگی میں‌ گزرے وقت کی روداد بھی شامل ہے جب ان کا بحری جہاز تباہ ہو گیا تھا۔ لیکن قدرت یوں مہربان ہوئی کہ وہ سب زندہ بچ گئے۔ شیفتہ 1839ء میں اس بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے۔ بعد میں انھوں نے اس سفر پر فارسی زبان میں ’ترغیب المسالک الی احسن المسالک‘ نامی کتابچہ لکھا جس کا ایک اور نام ’رہَ آورد‘ بھی ہے۔ اسے ہندوستان کے اولین سفر ناموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

    اس کتاب میں ایک طرف جہاں اس دور کے مکؑہ، مدینہ، طائف، جدہ اور یمن کے حالات و واقعات، ثقافت، سیاست اور معاشرت سے آگاہی ہوتی ہے، وہیں بحری جہاز کی تباہی کے بعد شیفتہ اور دیگر مسافروں کے ایک بے آب و گیاہ اور گمنام جزیرے میں پناہ لینے کا واقعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس جزیرے پر بھوک پیاس مٹانے کو کچھ نہ تھا اور طوفانی ہواؤں کے ساتھ انھیں اور دیگر مسافروں کو موت کے منہ میں چلے جانے کا خوف بھی تھا۔ لیکن پھر مسافروں میں سے چند ایک چھوٹی کشتی پر ساحل اور مدد کی تلاش کو نکلے اور کئی روز بعد دو سو کے قریب افراد کو وہاں سے نکال لیا گیا۔

    اردو اور فارسی کے شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • قیوم نظر:‌ ”دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن!‘‘

    قیوم نظر:‌ ”دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن!‘‘

    آج اردو اور پنجابی زبانوں کے معروف شاعر، مترجم اور ڈرامہ نگار قیوم نظر کی برسی ہے۔ 23 جون 1989ء کو قیوم نظر کراچی میں وفات پاگئے۔ حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھنے میں ان کا اہم کردار رہا اور اپنے ہم عصروں کے ساتھ وہ ادبی سرگرمیوں‌ میں مشغول رہے۔

    قیوم نظر 7 مارچ 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ قیوم نظر نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی سے متأثر تھے۔ تاہم روایتی بندشوں کے ساتھ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے اور تازہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں "پون جھکولے”، "قندیل”، "سویدا”، "اردو نثر انیسویں صدی میں”، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت ” شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔

    ان کے ایک رفیق خواجہ محمد ذکریا اپنے اخباری کالم میں‌ لکھتے ہیں، قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے ’بڑوں‘ میں بہت پہلے سے شامل تھے۔ ایک سے زیادہ دفعہ سیکرٹری بھی رہے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد حلقے میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں انتظار حسین، ناصر کاظمی، شہرت بخاری وغیرہ تھے۔ قیوم نظر کا گروپ پہلے سے موجود تھا۔ دونوں گروپوں میں حلقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کشمکش شروع ہوگئی۔ چند سال قیوم نظر کا گروپ غالب رہا، پھر دوسرا گروپ غالب آگیا۔ حلقے نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے رفتہ رفتہ قیوم نظر اور ان کے گروپ کی اہمیت کم ہوتی گئی پھر قیوم نظر کی زندگی میں پے در پے ایسے حادثات ہوئے کہ وہ مجبوراً ادبی محفلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی۔ ان کے عزیز دوست انجم رومانی نے انھیں اس سلسلے میں بڑے خلوص سے ایک غلط مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ آنکھوں کے کسی معالج سے علاج کروانے کی بجائے آپ مجھ سے علاج کرائیں۔ میرے پاس اس کے لیے ایک بہت عمدہ کتاب ہے جس میں آنکھوں کے علاج کے لیے بہت اچھی ’ایکسرسائز‘ بتائی گئی ہیں۔ انھوں نے ایکسرسائز کرائی تو آنکھیں متورم ہوگئیں اور بینائی ایسی خراب ہوئی کہ ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے۔ ماہر آئی سرجنز کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ اب علاج ممکن نہیں۔ وفات تک بینائی کی یہی کیفیت رہی۔

    اس دوران پہلے ان کے بڑے بیٹے کا لندن میں انتقال ہوگیا جو کئی سال پہلے وہاں کا شہری بن چکا تھا۔ اس حادثے کو تو وہ برداشت کرگئے۔ اس کے دو تین برس بعد ان کے چھوٹے بیٹے سلمان بٹ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ اس حادثے نے قیوم نظر کو بالکل دل شکستہ کردیا۔ وہ لاہور سے بھی بیزار ہوگئے۔ وہ اپنی ایک بیٹی کے پاس کراچی میں رہنے لگے اور وہیں 23 جون 1989ء کو وفات پائی۔ اگلے دن تدفین ان کی وصیت کے مطابق لاہور میں ہوئی۔

    قیوم نظر نے اردو ادب کی بہت خدمت کی ہے اور پنجابی ادب میں بھی ان کے کام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے قیام کے فوراً بعد اس تنظیم سے جو لوگ وابستہ ہوئے ان میں قیوم نظر پیش پیش تھے۔ میرا جی سے ان کی بے تکلفی تھی۔ وہ ادب میں نئے نئے تجربات کے امکانات پر غور کرتے تھے، تبادلۂ خیال کرتے تھے اور پھر اپنے اپنے انداز میں معاصر شاعری میں جدّت پیدا کرنے کے لیے لکھنے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں میں مختار صدیقی، یوسف ظفر، حفیظ ہوشیار پوری، ضیاء جالندھری وغیرہ تھے۔

    قیوم نظر نے بی اے کیا اور اے جی آفس میں کلرک بن گئے۔ پاکستان بنا تو ایم اے اردو کیا اور پھر کئی سال محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے، پھر ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر لاہور کے ڈائریکٹر بن گئے۔ آخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ پنجابی میں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یعنی معمولی ملازمتوں سے گز رکر رفتہ رفتہ اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہمیشہ تعلق برقرار رکھا۔ ان کی اولین اور اہم تر حیثیت تو شاعر کی تھی لیکن نثر سے بھی دامن کشاں نہیں رہے۔ تنقید لکھی، خاکہ نگاری کی طرف بھی التفات کیا اور ڈرامے بھی لکھے۔ کئی کتابیں مرتب کیں جن میں ان کی نصابی کتابیں میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔ نصابی کتابوں کو ترتیب دینے میں وہ اپنے رفقاء سے بہت بہتر تھے۔

    شاعری میں جدید انداز کے اچھے شاعر تھے۔ موضوعات کی جدت کے ساتھ ہیئت کے تجربات کرتے رہتے تھے۔ قیوم نظر نے عمر کے آخری ایک دو برسوں میں اپنی کلیات شاعری ’قلب و نظر کے سلسلے‘ کے نام سے ترتیب دی۔ وہ جدید نظمیں تو لکھتے ہی تھے مگر اپنے بعض معاصرین کے برخلاف غزلیں بھی برابر کہتے رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے شاہکار نظمیں تخلیق کیں جن کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں پوری پوری کلاس کو یہ نظمیں یاد ہوتی تھیں جن میں خصوصاً ’بلبل کا بچہ‘ ایسی پُرتاثیر تھی کہ بچوں کے دلوں میں عمر بھر کے لیے بس جاتی تھی۔ قیوم نظر کے گیت ، ترانے اور نعتیں بھی ان کی شاعری کے تنوع کا اچھا اظہار ہیں۔

    وہ لاہور اور امرتسر دونوں شہروں میں جوان ہوئے اس لیے پنجابی تو ان کی اپنی زبان تھی لیکن زندگی بھر اردو اوڑھنا بچھونا رہی۔ اردو تحریر و تقریر میں اظہار پر یکساں قدرت رکھتے تھے لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ بہت سے جدید امریکی اور برطانوی شعراء کی نظموں کے ترجمے کرتے رہتے تھے۔

    مجموعی طور پر بڑے ہنس مکھ، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن تھے۔ انھوں نے بذلہ سنجی سے بہت سے لوگوں کو دشمن بھی بنایا لیکن بہت سے لوگ ان کے محب بھی تھے۔ اگر آخری زندگی میں دل کو پاش پاش کرنے والے صدموں سے دوچار نہ ہوتے تو کہا جاسکتا کہ انھوں نے اچھی زندگی گزاری۔ ان کے مزاج میں اگر لوگوں کو فقرہ بازی سے ناراض کرنے کی عادت نہ ہوتی تو اور زیادہ کامیاب زندگی بسر کرتے مگر انسان کا جو مزاج بن گیا سو بن گیا۔

    یہاں‌ ہم قیوم نظر کے انٹرویو سے چند اقتباسات بھی نقل کرتے ہیں‌ جس سے قیوم نظر کی زبانی انھیں جاننے کا موقع ملے گا، وہ بتاتے ہیں، ’’خود میرا یہ حال تھا کہ میرے والد خواجہ رحیم بخش سرکاری ملازم تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں کا بوجھ بہ حیثیت بڑے بھائی مجھ پر آپڑا تھا۔ میں نے ٹیوشن اور ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں لگا ہوا تھا۔ میں اے جی آفس کی نوکری سے سخت اکتا گیا تھا لیکن اس سے گلو خلاصی بھی ممکن نہ تھی۔ میں سخت پریشان تھا۔ اتفاق سے یونیورسٹی کے مشاعرے میں میری ملاقات گورنر پنجاب عبدالرب نشتر سے ہوگئی۔ اے جی آفس سے میری ناخوشی کا سن کر انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے میرا تبادلہ محکمۂ تعلیم میں کروا دیا۔‘‘

    ’’1956ء میں مجھے یونیسکو کا کریٹیو رائٹر کا فیلو شپ ملا اور اس طرح مجھے فرانس، اٹلی، اسپین، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، روم وغیرہ گھومنے اور وہاں کے تخلیقی فن کاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔‘‘

    ’’شاعری کی ابتدا میں نے کالج ہی کے زمانے سے کر دی تھی۔ میں نے ایک دن اپنے استاد شمسُ العلما تاجور نجیب آبادی صاحب سے پوچھا کہ میں کیا تخلّص رکھوں؟ بولے ’’میں اپنے شاگردوں میں اب مزید کسی باغی کا اضافہ کرنا نہیں چاہتا۔ ن م راشد، اختر شیرانی، کنور مہندر سنگھ اور دیگر کئی نامور شعرا ان کی شاگردی میں رہ چکے تھے۔) میں نے وعدہ کیا کہ میں بغاوت نہیں کروں گا اس پر مشورہ دیا کہ ’’نظر تخلّص کر لو۔‘‘

  • مجاہدِ اردو اور گنگا جمنی تہذیب کے امین گلزار دہلوی کا تذکرہ

    مجاہدِ اردو اور گنگا جمنی تہذیب کے امین گلزار دہلوی کا تذکرہ

    گلزار دہلوی اپنے طرز کے واحد انسان تھے۔ انھیں اردو زبان و تہذیب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ گلزار دہلوی 95 سال کی عمر میں آج ہی کے دن 2020ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    وہ جب تک زندہ رہے، ان کی شخصیت دہلوی تہذیب کا نمونہ اور وہ ہر مذہب، مسلک کے ماننے والوں کے لیے فراخ دل ثابت ہوئے اور رواداری کی مثال بنے رہے۔ ہر طبقۂ فکر کو اتحاد و اتفاق، یگانگت کا درس اور ہر سطح پر رواداری کو فروغ دینے والے گلزار دہلوی کا نام بھی ان کے اسی نظریے کا عکاس ہے۔ وہ اپنا پورا نام ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے۔ ان کی انہی صفات کی بنیاد پر انھیں مجاہدِ اردو، سراجِ اردو، پرستارِ اردو، شاعرِ قوم، گلزارِ خسرو، بلبلِ دلّی کے خطاب اور القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔

    اس ہمہ صفت اور باکمال شاعر نے ہندوستان میں اردو کے سچّے عاشق اور اس زبان کے زبردست حامی کے طور پر مقدمہ لڑتے ہوئے عمر گزار دی۔ انھوں نے بھارت میں اردو کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے اخلاص سے کوششیں جاری رکھیں اور اپنی شاعری سے بھی اردو کی شمع روشن کیے رکھی۔ گویا زبان اور تمام مذاہب کا احترام ان کی ادائے خاص رہی۔ برصغیر میں انھیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے منفرد نمائندے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

    پنڈت آنند موہن زتشی کا قلمی نام گلزار دہلوی تھا۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ سات جولائی سنہ 1926ء کو پیدا ہونے والے گلزار دہلوی مجاہدِ آزادی اور ایک اہم انقلابی شاعر تھے۔ انھوں نے غالباً 1942ء سے شعر و سخن کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تا عمر جاری رہا۔ گلزار دہلوی ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں اردو زبان کے عالمی مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ انھیں متعدد تمغہ جات اور ادبی اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں پاکستان کا نشانِ امتیاز، غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ مختلف اعزازات شامل ہیں۔

    گلزار دہلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھاکہ وہ نوعمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے اور اپنا کلام اپنے والد حضرت زار دہلوی کو دکھایا کرتے تھے جو دہلی کے ایک کالج میں برس ہا برس تک اردو اور فارسی کے استاد رہے تھے۔

    مشہور ہے کہ 1936ء میں جب انجمن ترقیٔ اردو ہند کے لیے کُل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلزار دہلوی ایک شاعر اور ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود سائنس سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اور یہ امر اکثر قارئین کے لیے تعجب خیز ہو کہ وہ ایک سائنسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ انھیں "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر” کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا” نامی اردو رسالہ جاری کیا۔ باوصف اس کے وہ "سائنسی شاعر” مشہور تھے۔

    اردو کے قادرالکلام شاعر جوش ملیح آبادی نے گلزار دہلوی کے متعلق کہا تھا:
    میاں گلزار میرے محترم بزرگ حضرت زار دہلوی کے قابلِ ناز فرزند اور نہایت ہونہار شاعر ہیں۔ ان کی جو روش سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے وہ ان کی اردو سے والہانہ شگفتگی اور مردانہ وار تبلیغ ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی نے گلزار دہلوی کے بارے میں لکھا تھا: پنڈت آنند موہن زتشی گلزار ایک خاندانی و موروثی شاعر ہیں، اہلِ زبان ہیں، دلّی کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر قدرت حاصل ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نعت و منقبت ہر میدان میں انہوں نے دادِ سخن سمیٹی ہے۔ وہ اردو کے مجاہد ہیں، برصغیر ہند و پاک میں ہر جگہ مقبول ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک درد مند اور انصاف پسند دل بھی عطا کیا ہے۔ میں نے انہیں ہر صحبت میں مہذب، نیک انسان، روادار اور عاشقِ رسول پایا ہے۔ اردو پر تو ان کی رباعیاں بے مثال ہیں۔ گلزار صاحب نہ صرف ایک کام یاب اور مقبول غزل گو شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ انسانی قدروں اور اردو کی ہچکولے کھاتی نیا کے محافظ بھی ہیں۔

    گلزار صاحب کے پاکستان کے دورے کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا: گلزار صاحب کراچی کیا آئے گویا بہار آ گئی کہ دلّی کی اردو سراپا ہو کر ان کی صورت میں کراچی کی ادبی محفلوں میں چھا گئی۔ کراچی والے ان کی زبان دانی اور قدرتِ بیان پر حیران بھی تھے اور داد و تحسین بھی کر رہے تھے۔

    گلزار دہلوی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
    دونوں کی رگ و پے میں خون اپنا ہی جاری ہے
    اردو بھی ہماری ہے، ہندی بھی ہماری ہے
    اردو سے مگر غفلت کس واسطے ہے ہمدم
    تہذیب کی ضامن یہ خسرو کی دلاری ہے

    گلزار دہلوی کے پورے وجود سے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی تھی۔ رہن سہن، وضع قطع اور بولی سب کچھ ’بزبانِ دلّی‘ تھا۔ ان کے آبا و اجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلّم اور مصنّف بھی گزرے تھے۔ددھیال و ننھیال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔ والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی المتخلّص بہ زار دہلوی، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ والدہ کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ بھائی بھی شاعر تھے۔ گویا اطراف و جوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔ گلزار دہلوی نے مختلف رنگ و آہنگ کے شعرا سے اکتسابِ ہنر کر کے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے پڑھائی تھیں۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان و بیان کے رموز و نکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاں سائل سے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب و تمدّن کا انجذاب کیا اور پھر ہر صنف میں‌ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔

  • اختر حسین جعفری، جنھیں فکر و نظر کی مکمل آزادی عزیز تھی!

    اختر حسین جعفری، جنھیں فکر و نظر کی مکمل آزادی عزیز تھی!

    ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ احمد ندیم قاسمی کے مضمون سے یہ اقتباس جدید اردو نظم کے بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر اور شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتا ہے۔ اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب بھی کہا گیا اور بعض نقادوں نے انھیں بیدل کے بعد ایک بلند پایہ تخلیق کار گردانا ہے۔

    اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ لاہور میں‌ آخری سانسیں‌ لینے والے اختر اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام حاصل ہوا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ آئینہ خانہ اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ اور غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے کے ساتھ اختر حسین جعفری نظریات اور نئے خیالات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اپنی شاعری میں تازہ فکر، ندرتِ خیال کا اہتمام نہایت خوب صورتی سے کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا، انھوں نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔

    ممتاز نظم گو شاعر اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ مجموعۂ کلام ہے جسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2002 میں ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

  • گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    کسی بھی فلم کی کام یابی میں جان دار اسکرپٹ اور بہترین اداکاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، لیکن شاعری، موسیقی اور گلوکاری ایک فلم کو یادگار بنا دیتے ہیں۔ ریاضُ الرّحمان ساغر ایسے ہی شاعر تھے جن کے تحریر کردہ فلمی گیت ہر خاص و عام آج بھی مقبول ہیں۔

    بطور فلمی گیت نگار ساغر کی اوّلین وجہِ شہرت فلم شریکِ حیات اور سماج تھی۔ ان فلموں کے گیتوں کو شائقینِ سنیما نے بہت پسند کیا تھا۔

    معروف شاعر، کئی مقبول گیتوں کے خالق اور صحافی ریاضُ الرّحمان ساغر طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد یکم جون 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ ریاضُ الرّحمان ساغر کا سنہ پیدائش 1941ء ہے، وہ بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آئے۔ یہاں‌ ساغر نے رہنے بسنے اور روزگار کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کے دوران صحافت کو اپنے لیے موزوں پایا اور اس پیشے میں فلمی شعبہ سے منسلک رہے۔ انھوں نے شوبز رپورٹر اور شوبز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا جو ایک قومی روزنامے میں شایع ہوتا رہا۔

    ایک اندازے کے مطابق معروف شاعر ریاضُ الرّحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے جن میں کئی سدا بہار اور مقبولِ عام نغمات شامل ہیں۔ ساغر کے فلمی گیتوں کو اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا اور شہرت حاصل کی۔ ریاض الرحمان ساغر کی پہلی فلم ہدایت کار اور مصنّف عزیز میرٹھی کی اردو فلم عالیہ (1967) تھی۔ موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں پہلا گیت تھا:

    کہو، وعدہ ہوا، رسمِ وفا ہر دم نبھانے کا۔ یہ ایک دو گانا تھا جسے احمد رشدی اور مالا نے گایا تھا اور یہ اداکار کمال اور شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا۔ ساغر صاحب کا پہلا ہٹ گیت فلم شریکِ حیات (1968) میں شامل تھا جس کے بول تھے، میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے، جو بالکل آپ جیسی ہے… اس گیت کو مسعود رانا نے گایا تھا اور اس کی دھن اے حمید نے بنائی تھی۔ فلم انڈسٹری میں ریاضُ الرّحمان ساغر کو بڑے فلم سازوں نے کام دیا اور ان کی شاعری کو سراہا۔

    پاکستانی فلم ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتا ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے لیے ساغر نے شاعری کی اور یہ گیت مقبول ہوئے۔ ان کا مقبول ترین گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ فلم ’ورثہ‘ کے لیے تھا جسے راحت فتح علی خان نے گایا۔

    معروف شاعر نے پاکستانی گلوکاروں کی فرمائش پر ان کے البموں کے لیے بھی گیت تحریر کیے جن میں ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘، ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ اور پاکستان کی معروف گلوکارہ فریحہ پرویز کے البم میں شامل گیت آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    پاکستان کے اس معروف گیت نگار کو سنسر بورڈ کا رکن بھی بنایا گیا تھا۔ ساغر صاحب نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی اپنے قلم کو آزمایا ہے۔ ان کی سوانح عمری ’وہ کیا دن تھے‘ کے عنوان سے جب کہ دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ شائع ہوئے۔ انھیں‌ فلمی دنیا میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

    وفات کے وقت معروف فلمی گیت نگار کی عمر 72 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • جان کیٹس: غمِ دوراں کو نغمۂ جاں‌ فزا بنانے والا شاعر

    جان کیٹس: غمِ دوراں کو نغمۂ جاں‌ فزا بنانے والا شاعر

    جان کیٹس بیماری سے لڑتا لڑتا زندگی ہار گیا۔ وہ ایک جوانِ رعنا تھا جس کی زندگی نے ابھی اترانا سیکھا تھا اور جس نے ابھی خواب نگر میں‌ قدم رکھے ہی تھے۔ اسے زندگی کے 26 برس اور شاعری کرنے کو چند سال ہی ملے، لیکن 1821ء میں‌ آج ہی کے روز آنکھیں موند لینے والے جان کیٹس کو بعد از مرگ رومانوی شاعر کے طور پر لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    کیٹس نے کسی کھاتے پیتے گھرانے میں آنکھ نہیں کھولی تھی۔ وہ 31 اکتوبر 1795ء کو ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جس کا سربراہ شراب خانے میں ساقیا تھا۔ اس کی ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ جان کیٹس کی تعلیم کسی اچھے اسکول یا ادارے میں نہیں ہوئی لیکن خراب مالی حالات کے باوجود وہ طب کے مضمون میں سند یافتہ ہوا۔ اُسے برطانیہ کے جس سستے اسکول میں داخلہ ملا تھا، وہاں خوش قسمتی سے جان کلارک جیسا ذہین، قابل اور ادبی ذوق رکھنے والا استاد اس کی زندگی میں آیا۔ کلارک نے کیٹس کو برطانوی زبان میں‌ ادب پاروں کا مطالعہ کرنے پر اکسایا اور کلاسیکی ادب کے تراجم سے واقف کرایا۔ کیٹس کا خاندان غربت کی چکی میں پِس رہا تھا اور ایک دن اس کا باپ گھوڑے سے گِر کر مر گیا۔ یوں یہ خاندان معمولی آمدنی سے بھی محروم ہوگیا۔ چند ماہ گزرے تھے کہ کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی، مگر وہ ایک برا آدمی ثابت ہوا۔ اس کی ماں نے اس شخص سے طلاق لے لی اور بچّوں کے ساتھ ان کی دادی کے پاس چلی گئی۔ وہاں بدقسمت بچّوں کو چند مہینے بعد ماں کے سائے سے بھی محروم ہونا پڑا۔

    کیٹس کو اسکول سے اٹھا لیا گیا اور خاندان کے ایک واقف سرجن کے پاس مقامی اسپتال میں‌ سرجری کی تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا گیا۔ کیٹس نے اس دوران 1814 سے 1816 تک ادویات اور سرجری کی تعلیم حاصل کی اور اسے اسپتال میں ایک معمولی نوکری بھی مل گئی۔ اس نے اسپتال میں‌ سرجری کی کلاسیں‌ لینے کے علاوہ جراحی کی تربیت کے دوران شاعری کا آغاز کر دیا۔ 1816 میں اسے ادویہ سازی اور سرجری کی ایک سند بھی مل گئی۔ وہ اس پیشے میں آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ وہ دادی کے گھر واپس آگیا اور اپنا زیادہ وقت ادبی سرگرمیوں کو دیا۔

    جان کیٹس نے جس دور میں شاعری شروع کی‌، اس وقت دو ادبی رسائل تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اس کے ہم عصر اور برطانیہ کے مقبول شعرا میں‌ شیلے اور بائرن بھی شامل ہیں اور انھیں‌ بھی بے جا تنقید اور ادبی دنیا میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان ناموافق حالات میں لی ہنٹ جو کہ خود بھی ایک اہم شاعر تھا، اس نے ایک رسالہ نکال کر نئے لکھنے والوں کو متعارف کروانے اور ان کو اہمیت دینے کا سلسلہ شروع کیا اور ہنٹ نے کیٹس کی نظمیں اپنے رسالے میں چھاپنی شروع کر دیں، یوں کیٹس کی حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ چھپ کر منظرِعام پر آ گیا۔ اس کا نام تو باذوق برطانوی جاننے لگے، لیکن ان ادبی رسائل نے بے جا تنقید کے ساتھ کیٹس کی شاعرانہ صلاحیت اور کسی بھی امکان کو مسترد کردیا اور لکھا کہ اسے شاعری کی یہ کوششیں‌ ترک کرکے ادویہ فروخت کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ ایک حساس اور زود رنج شاعر کے لیے ناقابل برداشت بات تھی اور وہ موت کے قریب ہوتا چلا گیا۔ ٹی بی اس زمانے میں مہلک اور ناقابلِ علاج مرض تھا۔ کیٹس کا بھائی اس بیماری میں‌ مبتلا تھا اور کیٹس اس کی دیکھ بھال کے دوران جراثیم کا شکار ہوچکا تھا۔ بائرن، لی ہنٹ اور شیلے اس کے ہمدرد اور شاعری کے معترف تھے جنھوں نے کڑی تنقید اور سخت باتوں سے ملول ہونے پر اس کی دل جوئی کی، مگر جب انسان جسمانی طور پر بیمار ہو تو وہ حساس بھی ہوتا ہے اور منفی رویے اور تضادات اسے بری طرح متأثر کرتے ہیں۔ یہی جان کیٹس کے ساتھ ہوا۔

    دوسری طرف وہ اپنی پڑوسی فینی بران کی محبت میں گرفتار تھا اور اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت نے اسے زندہ رکھا۔ کہتے ہیں‌ کہ جان کیٹس کی مشہور نظم برائٹ اسٹار فینی سے ایک ملاقات ہی میں‌ لکھی گئی تھی۔ وہ ایک دوسرے کو خط بھی لکھتے تھے جو انگریزی ادب میں اعلیٰ‌ رومانوی خطوط کے طور پر محفوظ ہیں۔

    کیٹس نے حسن و عشق، جذبے اور تخیل کو اس طرح‌ شاعری میں‌ سمویا کہ بعد میں اسے ایک دبستان قرار دیا گیا۔ اس کی مختصر زندگی میں دکھ درد، مشکل، تنگی اور ادب کے نام نہاد بڑوں کی وہ سب تکلیف دہ باتوں اور فینی کے عشق نے اسے لازوال بنا دیا۔ کیٹس نے عشق کے رنگوں کو اپنی شاعری میں اس خوبی سے برتا کہ وہ عدیم النظیر اور بے مثال ثابت ہوئی۔

    ناقدین کہتے ہیں کہ کیٹس کی زندگی کے درد و داغ، رکاوٹیں اور عشق شاعری میں ڈھل گئے تھے۔ جان کیٹس یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کا ذکر جا بجا اپنی شاعری میں کیا ہے۔

    وہ روم میں‌ قیام پذیر تھا جہاں ایک صبح اس کی طبیعت بگڑ گئی اور زندہ نہ رہا۔ اس عظیم رومانوی شاعر کی تدفین روم ہی میں کی گئی۔

  • خمار بارہ بنکوی: معروف غزل گو شاعر جن کا ترنم بہت مشہور ہے

    خمار بارہ بنکوی: معروف غزل گو شاعر جن کا ترنم بہت مشہور ہے

    خمار بارہ بنکوی اردو غزل گو شعرا میں‌ ایک نہایت معتبر نام جس نے اپنی زندگی میں ترنم سے مشاعرہ پڑھنے کی حسین روایت کو زندہ رکھا۔ خمار 1999ء میں‌ آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    اترپردیش کی راجدھانی سے مشرقی کی طرف 23 کلومیٹر دور شہر بارہ بنکی واقع ہے۔ اس کی خاص بولی تو کسی قدر اودھی سے ملتی جلتی ہے لیکن تعلیم یافتہ طبقہ اور شرفاء لکھنؤ کی زبان بولتے تھے۔ شعروادب کی محفلیں اور مشاعرے اور دیگر ادبی سرگرمیاں وہاں ہوتی رہتی تھیں۔ محمد حیدر خاں اسی سرزمین کے باسی تھے اور خمارؔ تخلص تھا۔ اسکول اور کالج میں تعلیم مکمل کر کے محکمۂ پولیس میں ملازمت کرنے والے خمار بارہ بنکوی کو شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا۔ اسی شوق نے انھیں مقامی مشاعروں میں شرکت کا موقع دلوایا اور بعد میں ہندوستان بھر میں باقاعدہ مشاعروں میں مدعو کیے جانے لگے۔ قدرت نے انھیں بے حد دل کش اور پُرسوز آواز عطا کی تھی۔ وہ مشاعروں میں اپنے ترنم کی وجہ سے خوب مقبول تھے۔

    خمار نے اپنے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میں نے جملہ اصنافِ سخن کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنے محسوسات اور واردات کے اظہار کے لیے کلاسیکی غزل ہی کو سب سے زیادہ موزوں اور مناسب پایا۔ چنانچہ غزل کے خدمت گزاروں میں شامل ہوگیا۔ وقت نے کئی کروٹیں بدلیں مگر میں نے غزل کا دامن نہیں چھوڑا۔‘‘

    کہیں شعر و نغمہ بن کے کہیں آنسوؤں میں ڈھل کے
    وہ مجھے ملے تو لیکن ملے صورتیں بدل کے

    یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پائے نازک
    نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

    خمارؔ کی آواز میں ان کا یہ کلام بہت مقبول ہوا۔ ان کی غزلوں کے کچھ پسندیدہ اشعار ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔

    دل کچھ اس طرح دھڑکا تری یاد میں
    میں یہ سمجھا ترا سامنا ہو گیا

    اشک بہہ بہہ کے مرے خاک پہ جب گرنے لگے
    میں نے تجھ کو ترے دامن کو بہت یاد کیا

    آپ کو جاتے نہ دیکھا جائے گا
    شمع کو پہلے بجھاتے جائیے

    غزلوں کے علاوہ انہوں نے منقبت اور سلام بھی کہے ہیں۔

    1945ء میں مشاعرے میں شرکت کی غرض سے خمارؔ، جگرؔ مراد آبادی اور مجروحؔ سلطان پوری کے ساتھ بمبئی گئے تھے جہاں‌ فلم ساز اے آر کاردار نے جب ان کا کلام سنا تو اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں گیت لکھنے کی فرمائش کی۔ خمارؔ نے یہ موقع غنیمت جانا اور یوں فلم نگری سے تعلق قائم ہوا۔ اس فلم میں نوشاد نے موسیقی دی تھی اور کندن لال سہگل نے گیت گائے تھے۔ ان کے یہ گانے مقبول ہوئے۔

    چاہ برباد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھا
    ہم پہ ایسے بھی پڑے گی ہمیں معلوم نہ تھا

    ان کے تحریر کردہ چند اور فلمی گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اردو کی ادبی محفلیں اور مشاعرے تہذیب و شائستگی کا نمونہ تھے اور یہ ایک قومی تفریح کا ذریعہ تھے۔ آل انڈیا ریڈیو اور فلموں کی زبان بھی اردو تھی۔ مشاعروں میں جو سب سے زیادہ مقبول صنف سخن تھی وہ تھی ’’عروس الاصناف‘‘ یعنی غزل۔ اور خمار غزل گوئی نہیں‌ غزل سرائی میں بھی یکتا تھے۔

    خمارؔ نہایت سادگی پسند تھے اور دل چسپ گفتگو کرتے تھے۔ ہر ایک سے انکساری اور تواضع سے پیش آتے تھے۔ ان کے تین مجموعۂ کلام ’’آتش تر‘‘، ’’رقص مئے‘‘، ’’شب تاب‘‘ شائع ہوئے۔

  • اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری کی برسی

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد ریڈیو سے قیامِ پاکستان کا جو اعلان نشر ہوا تھا، وہ کس کا لکھا ہوا تھا۔ یہ حفیظ ہوشیار پوری تھے۔

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تری محفل میں‌ لیکن ہم نہ ہوں گے

    حفیظ ہوشیار پوری کی یہ مشہور غزل مہدی حسن کی آواز میں‌ کئی دہائیوں سے مقبول ہے۔ آج بھی باذوق اور موسیقی کے رسیا اس کلام کو بہت ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ 10 جنوری 1973ء کو اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری انتقال کرگئے تھے۔

    حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ وہ 5 جنوری 1912ء کو دیوان پورہ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے، مگر اپنے آبائی وطن ہوشیار پور کی نسبت سے حفیظ ہوشیار پوری کہلائے۔ تقسیم کے بعد لاہور اور پھر کراچی آگئے تھے

    میٹرک، اسلامیہ ہائی اسکول، ہوشیار پور کیا اور 1933ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں بی اے اور اگلے ہی تعلیمی سال میں ایم کیا، اس کے بعد حفیظ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے تھے۔ یہی نوکری قیامِ پاکستان کے بعد جاری رہی اور وہ ریڈیو پاکستان کے لیے علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو ابتدا میں نظمیں بھی لکھیں اور منظوم تراجم بھی کیے، مگر ان کی شناخت ان کی غزل گوئی اور تاریخ گوئی بنی۔ حفیظ ہوشیار پوری کا مجموعۂ کلام ’’مقام غزل‘‘ کے عنوان سے ان کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔ حفیظؔ دس گیارہ برس کی عمرسے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے تھے اور انھوں نے تاریخ گوئی میں اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔

    حفیظؔ فلسفہ کے طالب علم رہے اور یہی وجہ ہے کہ شاعری میں فلسفیانہ مسائل سے دامن نہیں بچا سکے لیکن ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں۔ ان کے ہاں‌ جو فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اسے بیزار نہیں کرتے۔ حفیظؔ کی غزل اسلوبی لحاظ سے بھی روایتی غزل سے منسلک ہے۔ انھوں نے کلاسیکی انداز سے کبھی صرفِ نظرنہ کیا۔ آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔

    طویل عرصہ علیل رہنے والے حفیظ ہوشیار پوری کو ان کی وفات کے بعد کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کے لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے۔

    سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہوگئے
    بارِ امانتِ غم ہستی اتار کے