Tag: شاعر برسی

  • مقبول فلمی گیتوں اور لازوال قومی نغمے کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    مقبول فلمی گیتوں اور لازوال قومی نغمے کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    مشیر کاظمی ایک اعلیٰ پائے کے گیت نگار تھے جنھوں نے کئی سپر ہٹ گیت پاکستانی فلمی صنعت کو دیے۔ مشیر کاظمی 1975ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پا گئے تھے۔

    وہ 1915ء میں ضلع انبالہ کے ایک علاقے میں‌ پیدا ہوئے۔ انہوں نے فلموں میں نغمہ نگاری کا آغاز فلم دوپٹہ سے کیا جس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔ یہ پہلی اردو فلم تھی جس کے نغمے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں تھے۔ دوپٹہ کے زیادہ تر نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے اور مشیر کاظمی فلمی صنعت میں کام یاب نغمہ نگار بن گئے۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ قومی نغمہ اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو انہی کا لکھا ہواتھا جو آج بھی بے حد مقبول ہے۔

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • مجددِ سخن صبا اکبر آبادی کا تذکرہ

    مجددِ سخن صبا اکبر آبادی کا تذکرہ

    شعروں میں مرا خونِ جگر بول رہا ہے
    الفاظ ہیں خاموش ہنر بول رہا ہے

    اس شعر کے خالق خواجہ محمد امیر المتخلص بہ صبا اکبر آبادی ہیں۔ ان کا مقامِ پیدائش اکبر آباد (آگرہ) اور تاریخِ پیدائش 14 اگست 1908ء ہے۔ والد کا نام ڈاکٹر خواجہ علی محمد تھا۔

    صبا صاحب کی ساری عمر محبت کرنے اور بانٹنے میں بسر ہوئی۔ محض آپ کا طرزِ حیات ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصنافِ سخن جن میں آپ نے طبع آزمائی کی گواہی دیتے ہیں کہ صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے اور یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ

    محبت کے علاوہ ہے ہنر کیا
    کیا ہے اور ہم نے عمر بھر کیا

    لیکن اس کارِ محبت نے آپ کو ناکارہ بنانے کے بجائے ایسا فعال بنا دیا کہ اپنے پرائے سب یکساں اعتماد کے ساتھ آپ کے درِ دل میں داخل ہوتے اور بلا تخصیص فیض پاتے۔ بقول آپ کی والدہ سرفرازی بیگم ”محمد امیر تو مانگنے والوں کو اپنے جسم کے کپڑے تک دینے سے باز نہ آئے گا۔“ گویا صباؔ صاحب کے دل میں موجزن محبت کے جذبات نے اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کو خوب خوب فروغ دیا۔ یہی رویہ آپ نے اپنی شعری تخلیقات میں بھی اختیار کیا اور بے اختیار کیا۔

    1920ء میں محض بارہ برس کی عمر میں مشاعرے میں شمعِ آزادی کے پروانوں کے ساتھ آپ نے خواجہ غیور اکبر آبادی کے نام سے فی البدیہ اپنا کلام سنایا۔ اُس روز آپ کے حصّے میں ایک نہیں تین اعزاز آئے تھے۔ اوّل نوعمری میں پہلا مشاعرہ پڑھ کر مشاعرہ لوٹنا وہ بھی رئیسُ الاحرار حسرت موہانی کی صدارت میں اور اُن سے داد وصول کرنا۔ دوم مشاعرے کے آخری شاعر جوش ملیح آبادی کے بعد پڑھنا اور سوم آپ کے والد ڈاکٹر خواجہ علی محمد کا آپ کا تخلیقی جوہر پہچان کر شاعری کی تربیت کے لیے آپ کو اخضرؔ اکبر آبادی کی شاگردی میں دینا۔

    اخضرؔ صاحب نے اپنے شاگرد کا تخلص صباؔ رکھ دیا۔ صبا اکبر آبادی نے حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام، رباعی، نظموں اور غزل میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ قادر الکلام شاعر کہلائے۔

    صبا اکبر آبادی کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں ایک عاشقِ صادق کا دل دھڑکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔

    خالقِ ارض و سما کی اوّلین تخلیق تھے
    آخری پیغامِ رب دُنیا میں لائے مصطفیٰ
    مشغلے دونوں بہت اچھے ملے ہیں اے صباؔ
    حمدِ باری کر کے ہوتی ہے ثنائے مصطفیٰ

    صبا اکبر آبادی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ”دستِ دعا“ کا انتساب ”اذانِ بلال“ کے نام ہے۔ گویا ایک عاشق کا دوسرے عاشق کو خراجِ عقیدت۔ صبا صاحب کے لیے نعت محض صنفِ سخن نہ تھی آپ کے دل کی لگی اور وہ طلب تھی جس میں تڑپ ہی تڑپ تھی۔

    رثائی ادب کی تخلیق میں صبا اکبر آبادی کی اصحابِ اہلِ بیت سے حقیقی محبت اور عقیدت کے تمام رنگ نمایاں ہیں۔

    1936ء میں تخلیق کیا جانے والا صباؔ صاحب کا پہلا مرثیہ ”شکستِ یزید“ آپ کے جذبۂ ایمانی کی شدت اور قوت کی دلیل ہی نہیں مرثیہ نگاری کا نقطۂ آغازبھی تھا۔ جوش ؔملیح آبادی نے آپ کے مرثیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”صباؔ کے مرثیے سُن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔ کی روح بول رہی ہے۔“ مرثیوں پر مبنی آپ کے شعری مجموعے ذکر و فکر، سر بکف، خونناب، قرطاسِ الم، شہادت‌ شائع ہو چکے ہیں۔

    رباعی کی صنف پر صبا صاحب کو کمال دسترس تھی۔ آپ نے کئی موضوعات پر رباعیاں تخلیق کیں۔ یہی نہیں اپنی ترجمہ کی صلاحیت کو اپنی رباعیات میں بڑی چابک دستی سے بروئے کار لاتے ہوئے حضرت امیر خسروؔ، حافظؔ شیرازی، خیامؔ اور غالبؔ کی تمام رباعیات کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی رقم طراز ہیں، ”اگر غالبؔ بھی اپنی رباعیات کا اُردو ترجمہ کرتے تو بالکل ایسا ہی ترجمہ کرتے جیسا کہ صبا ؔصاحب نے کیا ہے۔“

    تضمین صبا ؔصاحب کی اعلیٰ شعری کاوش اور ”تضمینِ دیوانِ غالب“ ان کے شعری سفر کا بے مثال ادبی کارنامہ ہے جس کا آغاز 1938ء میں ہُوا اور اسی سال اس کی تکمیل ہوئی۔

    زمزمۂ پاکستان کے نام سے آپ کی چار قومی و ملّی نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ 1945ء اور دوسرا مجموعہ 1946ء میں شائع ہوا۔ زمزمۂ پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس کا انتساب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام ہے۔ پہلی مرتبہ اردو شاعری کا کوئی مجموعہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور فروخت کے بعد ملنے والی تمام رقم قائدِ اعظم کی موجودگی میں مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے لیاقت علی خان کو پیش کی گئی۔ ڈاکٹر اسلم ؔفرخی تحریر کرتے ہیں کہ ”زمزمۂ پاکستان“ اپنے ادبی حسن، جوش اور ولولے کی وجہ سے بھی اہم ہے اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ سے وابستگی کی بنا پر یہ قومی تاریخ کا جزو بن گئی۔“

    صبا اکبر آبادی کی غزل میں اگر ایک جانب آپ کا طرزِ فکر اپنے پورے شعور کے ساتھ نمایاں ہے تو دوسری جانب احساس کی شدت، الفاظ کی ندرت اور غنائیت کا حسن بھی موجود ہے۔

    چمن میں پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے
    ہمارے زخمِ محبت کی رونمائی ہے

    یہ ایک داغِ محبت کہاں چھپا رکھوں
    تمام عمر کا حاصل ہے کیا کیا جائے

    بس ذرا مہلتِ تخیل میسر آجائے
    کوئی مشکل ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

    صبا صاحب کی غزلوں پر مشتمل تین شعری مجموعے اوراقِ گل، چراغِ بہار اور ثبات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا ادبی سفر محض شاعری تک محدود نہ تھا بلکہ نثری ادب اور صحافت میں بھی انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے خوب خوب کام لیا اور مولانا ابوالفرح کے قلمی نام سے کئی طنزیہ مزاحیہ اور سنجیدہ نوعیت کے مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔

    29 اکتوبر 1991ء کو صبا اکبر آبادی اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

    (تحریر: شائستہ زریں)

  • اطہر نفیس: معروف شاعر جو خوابوں کا صورت گر تھا

    اطہر نفیس: معروف شاعر جو خوابوں کا صورت گر تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ فریدہ خانم کی آواز نے اپنی پہچان کا سفر 60 کی دہائی میں شروع کیا تھا۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ اس گلوکارہ کی آواز میں اطہر نفیس کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    آج اطہر نفیس کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1980ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ اطہر نفیس کا شمار اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شعرا میں‌ کیا جاتا ہے جن کی یہ غزل ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اکثر نشر کی جاتی تھی اور ہر بار سامعین اس غزل کو سننے کی فرمائش کرتے۔

    اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی اور روزگار کے اس سلسلے کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری رکھی۔ صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔

    اردو کے اس معروف شاعر نے اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب کے باعث ہم عصر شعرا میں الگ پہچان بنائی اور شاعری میں اپنے تخلیقی وفور کے ساتھ دل کش پیرایۂ اظہار کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو غزل کو خیال آفریں موضوعات کے ساتھ دھیما اور نرم لہجہ عطا کیا۔ اطہر نفیس کا مجموعۂ کلام 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔

    اطہر نفیس کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
    اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

    اطہر نفیس کی وہ غزل ملاحظہ کیجیے جسے فریدہ خانم کے بعد دوسرے پاکستانی گلوکاروں نے بھی گایا۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
    وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

    پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
    ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

    اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
    جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

    ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
    بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

  • خیّامُ‌الہند حیدر دہلوی کا تذکرہ

    خیّامُ‌الہند حیدر دہلوی کا تذکرہ

    حیدر دہلوی کو فنِ‌ شاعری پر ان کے عبور اور ان کی سخن گوئی کے سبب خیّامُ‌الہند کہا جاتا ہے۔ وہ اردو شعرا میں استاد شاعر کا درجہ رکھتے تھے۔ آج حیدر دہلوی کا یومِ‌ وفات ہے۔

    حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں‌ شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ وہ تیرہ برس کی عمر سے‌ مشاعروں میں‌ شرکت کرنے لگے اور جلد ہی شعرا کے درمیان پہچان بنانے میں‌ کام یاب ہوگئے۔ ان کا تعلق شعرا کی اس نسل سے تھا جن کی اصلاح اور تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔

    10 نومبر 1958ء کو حیدر دہلوی نے کراچی میں‌ وفات پائی۔ ان کا اصل نام سید جلال الدّین حیدر تھا۔ انھوں نے 17 جنوری 1906ء کو دہلی کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حیدر دہلوی پاکستان آگئے اور یہاں کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ کراچی میں‌ بزم آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور مشاعروں میں حیدر دہلوی نے باذوق سامعین کو متوجہ کیے رکھا۔ اردو ادب اور شعرا سے متعلق کتب میں حیدر دہلوی کی زندگی، ان کی شاعری اور یادگار مشاعروں کا تذکرہ ہے اور بعض ادبی واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو حیدر دہلوی اور ان کے ہم عصر شعرا سے متعلق ہیں۔

    انھوں نے اپنی شاعری بالخصوص خمریات کے موضوع کو اپنے تخیل سے یوں سجایا کہ جہانِ سخن میں‌ خیامُ الہند کہلائے۔ حیدر دہلوی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔ انھیں کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    حیدر دہلوی کا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
    بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

  • زبان و ادب کے معمار اور بچّوں کے محسن مولوی اسماعیل میرٹھی کا تذکرہ

    زبان و ادب کے معمار اور بچّوں کے محسن مولوی اسماعیل میرٹھی کا تذکرہ

    مولوی اسماعیل میرٹھی معمار اور محسن اردو ہیں جنھوں نے ہر ذہن میں اردو کی شمع روشن کی ہے۔

    انھوں نے بچّوں کے لیے عمدہ نظمیں تخلیق کیں اور تعلیم و تربیت کے ساتھ کردار سازی کی کوشش کی ہے۔ ان کی سب سے مشہور نظم ‘گائے’ ہے جس کا یہ شعر آپ کو بھی یاد ہوگا ؎

    ربّ کا شکر ادا کر بھائی
    جس نے ہماری گائے بنائی

    میرٹھی صاحب کے فن اور اس تخلیقی رخ کا تذکرہ کچھ اس قدر ہوا کہ وہ ادبِ اطفال کے لیے ہی مشہور ہوگئے لیکن دیگر اصنافِ‌ ادب میں بھی ان کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ ’’اسماعیل کو صرف بچّوں کا شاعر سمجھنا ایسی ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔‘‘

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ایک شاعر، ادیب اور مضمون نگار تھے۔ اردو کے نصاب اور تدریس کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آج مولوی اسماعیل میرٹھی کا یومِ وفات ہے۔ یکم نومبر 1917ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ میں آنکھ کھولنے والے اسماعیل میرٹھی نے غدر کا زمانہ دیکھا اور مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پستی اور ان میں رائج غلط رسم و رواج اور توہّمات ان کے سامنے تھے، جن سے نجات دلانے کے لیے مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ کی حیثیت سے سرسیّد اور ان کے رفقا کی کوششیں بھی جاری تھیں اور اسماعیل میرٹھی نے بھی ان کا اثر قبول کیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران انھوں‌ نے تخلیقی سفر کا آغاز کردیا اور بالخصوص اس دور کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور میں آگاہی اور شعور پھیلانے کی غرض سے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جس کے بعد فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی۔ فارسی کی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے اسکول میں‌ داخل ہوگئے اور 20 برس کے بھی نہیں تھے کہ محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت مل گئی۔ بعد میں مختلف شہروں میں تدریس سے وابستہ رہے اور 1899ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد میرٹھ میں مقیم رہے۔

    کئی درسی کتابیں لکھنے والے اسماعیل میرٹھی کے زیادہ تر مضامین، نظمیں، حکایات اور کہانیاں طبع زاد ہیں اور بعض فارسی اور انگریزی سے اخد کردہ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آب یاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز اپنایا اور ادب کے ذریعے بچوں کی تعلیم اور اس حوالے سے تدریسی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ مولوی صاحب نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا تھا۔

    پروفیسرحامد حسین قادری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اردو شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو اسماعیل میرٹھی کو جدید نظم اور اس صنف میں ہیئت کے تجربات کے لیے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دراصل غدر کی ناکامی کے بعد سر سیّد کی تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجہ میں باتیں کرنے والے تو بہت سے ادیب اور شاعر سامنے آئے لیکن بچّوں کی ذہنی سطح اور ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ادب تخلیق کرنے والے گنے چنے نام تھے اور اس طرف توجہ نہیں دی جارہی تھی۔ پہلے پہل اردو کے قاعدوں اور ابتدائی کتابوں کی ترتیب کا کام پنجاب میں محمد حسین آزاد نے اور ممالکِ متّحدہ آگرہ و اودھ میں اسمٰعیل میرٹھی نے کیا۔ لیکن بچّوں کا ادب اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رُخ ہے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جدید اردو نظم میں اوّلین ہیئتی تجربات کیے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔

    ان کی شخصیت اور شاعری کثیر جہتی تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصنافِ سخن اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ ” ریزۂ جواہر” کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی ادب سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور خیالات صاف اور پاکیزہ۔ وہ صوفی منش تھے اس لیے ان کی نظموں میں مذہبی رجحانات کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا خاص مقصد خوابیدہ قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے بدلتے ہوئے ملکی حالات سے باخبر رکھنا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ بچّے علم سیکھیں اور ساتھ ہی اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات کو بھی سمجھیں۔

    ان کی قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں حکومتِ وقت نے انھیں "خان صاحب” کا خطاب دیا تھا۔

  • مشہور شاعر استاد قمر جلالوی کا تذکرہ

    مشہور شاعر استاد قمر جلالوی کا تذکرہ

    قمر جلالوی اردو شاعری کی جملہ اصنافِ‌ سخن پر قدرت رکھتے تھے۔ انھیں اردو کے نام ور اور استاد شعرا میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی معاش کے لیے مشقّت اور محنت کے ساتھ سخن گوئی میں تمام ہوئی۔ قمر جلالوی نے 24 اکتوبر 1968ء کو وفات پائی۔

    اردو میں کلاسیکی رنگ میں‌ اپنی غزل گوئی کے لیے مشہور قمر جلالوی کا اصل نام محمد حسین عابدی تھا۔ 1884ء میں انھوں نے قصبہ جلالی ضلع علی گڑھ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی عمر ہی سے شاعری کا شوق ہو گیا تھا۔ کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور نوجوانی ہی میں‌ اصلاح دینے لگے تھے۔ ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد تقسیم کے بعد بھی پاکستان اور بھارت میں‌ موجود تھی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد استاد قمر جلالوی نے ہجرت کرکے کراچی میں رہائش اختیار کی۔ وہ یہاں‌ ادبی حلقوں اور مشاعروں‌ میں اپنے ترنم اور کلاسیکی رنگ میں اپنی شاعری کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ انھیں ہر مشاعرے میں مدعو کیا جاتا تھا۔

    ضلع علی گڑھ میں ان کی بائیسکل کی دکان تھی اور یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھا۔ کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے سائیکل کی دکان کر لی۔

    قمر جلالوی کو سلاستِ کلام نے اپنے دور کا مقبول شاعر بنا دیا تھا۔ طویل بحروں میں‌ بھی انھوں نے روایتی مضامین کو نہایت خوبی سے نبھایا ہے، ان کی شاعری میں دہلی اور لکھنؤ، دونوں دبستانِ شاعری کی چاشنی ملتی ہے۔ استاد قمر جلالوی کے شعری مجموعے اوجِ قمر، رشکِ قمر، غمِ جاوداں اور عقیدتِ جاوداں کے نام سے شایع ہوئے۔

    اردو کے اس مشہور شاعر کو کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی ایک مشہور غزل اور چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں
    بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

    آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گوارہ نہیں
    عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں

    گلستاں کو جب بھی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
    پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

    ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
    وہ یقیناً سنے گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں

    اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹا لیجیے مرا ذوق نظر آزما لیجیے
    آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر یا تو نظریں نہیں یا نظارہ نہیں

    جانے کس کی لگن کس کے دھن میں مگن ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں
    ہم نے آواز پر تم کو آواز دی پھر بھی کہتے ہو ہم نے پکارا نہیں

    اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
    جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

    کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
    نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

    دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
    ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

  • تابش دہلوی کا تذکرہ جو عمدہ شاعر اور خوب صورت نثر نگار بھی تھے

    تابش دہلوی کا تذکرہ جو عمدہ شاعر اور خوب صورت نثر نگار بھی تھے

    2004 میں آج ہی کے دن تابش دہلوی اس دارِ فانی کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ ان کی 93 سال تھی۔ وہ اردو کے مایہ ناز غزل گو شاعر، نثر نگار اور براڈ کاسٹر تھے۔

    مخصوص لب و لہجے کے حامل تابش دہلوی نے 9 نومبر 1911ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں جنم لیا۔ اصل نام ان کا سید مسعود الحسن تھا اور دنیائے ادب میں تابش دہلوی مشہور ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی، اور بعد میں لکھنؤ کے سینٹ فرانسز کانوینٹ اسکول میں داخل کروائے گئے۔ 1919ء میں اُن کے رشتے کے نانا مولوی عنایت اللہ نے انھیں حیدرآباد دکن کے مشہور دارُ الترجمہ میں بلوا لیا۔ وہاں ایک قدیم اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد رام جپسی اسکول نمبر1 سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ دوسری جنگِ عظیم چھڑ جانے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور پھر وہ 1947ء میں پاکستان آگئے جہاں لاہور میں ابتدائی برسوں میں سکونت اختیار کیے رکھی اور پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ 1954ء میں اسلامیہ کالج کراچی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا۔ اسی عرصہ میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ شادی کے بعد ایف اے اور پھر 1958ء میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

    پاکستان ہجرت سے قبل وہ 1932ء میں ٹیلی گراف کے محکمے میں ملازم رہے تھے اور کچھ عرصہ ریڈیو سے بھی منسلک رہے، جہاں خبر خوانی اور ادبی پروگراموں کی میزبانی کی جس نے ان کا شوق شاعری اور ذوقِ ادب نکھارا۔ کراچی میں بھی 1963ء تک وہ ریڈیو پر خبریں پڑھتے رہے۔ ان کی آواز بھاری اور تلفظ و ادائیگی بہت خوب صورت تھی۔ 1963ء میں اسکول براڈ کاسٹ کے شعبے سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوگئے اور 1980ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدے تک پہنچنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    تابش دہلوی کی پہلی نظم یا غزل 1931ء میں دہلی کے مشہور جریدے ’’ساقی‘‘ میں شایع ہوئی تھی۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، مگر غزل کی صنف کے ساتھ نعت گوئی، مرثیہ گوئی میں بھی کمال رکھتے تھے جب کہ دیگر اصنافِ سخن میں ہائیکو، آزاد نظموں کے ساتھ گیت نگاری اور ملّی نغمات بھی تخلیق کیے۔

    انھوں نے حیدر آباد دکن میں قیام کے دوران حضرت فانی بدایونی کے آگے زانوئے تلّمذ تہ کیا تھا اور ’’یاد ایّامِ صحبتِ فانی‘‘ کے عنوان سے کتاب بھی لکھی تھی جو ان کی نثر نگاری کی اوّلین یادگار ہے۔ فکر و فن کے اعتبار سے ان کے کلام میں انفرادیت نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں قدیم اور جدید روّیوں کے اظہارِ خیال سے لے کر ہیئت تک بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کی شاعری جہاں اچھوتی اور منفرد صفات کی حامل نظر آتی ہے، وہیں وہ ایک پختہ کار نثر نگار کے طور پر بھی ’’دید باز دید‘‘ کے وسیلے پہچانے جائیں گے جس میں شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے شامل ہیں۔ اردو کے اس معروف شاعر کے مجموعہ ہائے کلام نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھاؤں کے عنوان سے شایع ہوئے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    بابِ نظارہ مگر کُھلتا ہے

    وہ کراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ایک مشہور شعر کے فراموش کردہ خالق کا تذکرہ

    ایک مشہور شعر کے فراموش کردہ خالق کا تذکرہ

    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

    یہ شعر کتنے ہی مواقع پر کتنی ہی بار پڑھا گیا۔ تحریر سے تقریر تک مشاہیر نے اسے برتا، ہر خاص و عام نے پڑھا اور اپنی ہستی اور دنیا کی بے ثباتی پر گفتگو کو سمیٹنا چاہا تو اسی شعر کا سہارا لیا، لیکن اس زباں زدِ عام اور یادگار شعر کے خالق کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ حیرت الٰہ آبادی کا شعر ہے جو 1892ء میں‌ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ تاہم ان کا درست سنِ وفات کسی کو معلوم نہیں اور جس طرح ان کے حالاتِ زندگی اور فن پر مفصل تحریر نہیں ملتی، اسی طرح اس معاملے میں بھی قیاس سے کام لیا گیا ہے۔

    حیرت الہ آبادی کی وفات کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے، لیکن یہ شعر ان کے نام کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ستم ظریفی کہیے کہ اس شعر کی شہرت اور مقبولیت کا یہ تمام عرصہ ہی شاعر کے احوال و ادبی آثار پر تحقیق اور کسی تفصیلی اور جامع مضمون سے محروم رہا ہے۔

    انیسویں صدی عیسوی کے مشہور ادبی مؤرخین، معروف تذکرہ نگاروں اور محققین نے بھی ان کے حالاتِ‌ زندگی اور فنِ شاعری پر کچھ نہ لکھا اور ناقدوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ جہاں بھی ان کا ذکر کیا گیا، وہ اسی شعر کے ذیل میں آیا ہے اور یہ فقط ان کے نام اور وطن، جائے پیدائش اور وفات تک محدود ہے۔

    دیوانِ حیرت اور کلیاتِ‌ حیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ نام ان کا محمد جان خاں تھا اور حیرت تخلص۔ ان کا وطن الہ آباد تھا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں مرزا اعظم علی اعظم سے تلمذ رہا جو اپنے وقت کے مشہور اور استاد شاعر خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔ حیرت کے دادا جہانگیر خاں فوج میں رسال دار رہے تھے جب کہ ان کے والد کا نام بازید خاں تھا جن کی عرفیت باز خاں تھی۔ حیرت جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، اس میں‌ کوئی شاعر نہیں تھا۔ حیرت الہ آبادی ایک صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    حیرت کی وہ غزل ملاحظہ کیجیے جس میں ان کا مشہور شعر شامل ہے۔

    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

    آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں
    کچھ آپ کی طرح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں

    اک تو شب فراق کے صدمے ہیں جاں گداز
    اندھیر اس پہ یہ ہے کہ ہوتی سحر نہیں

    کیا کہیے اس طرح کے تلون مزاج کو
    وعدے کا ہے یہ حال ادھر ہاں ادھر نہیں

    رکھتے قدم جو وادئ الفت میں بے دھڑک
    حیرتؔ سوا تمہارے کسی کا جگر نہیں

  • خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں…کلیم عثمانی کا تذکرہ

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں…کلیم عثمانی کا تذکرہ

    کلیم عثمانی معروف گیت نگار اور غزل گو شاعر تھے جن کی وجہِ شہرت ان کے ملّی نغمات بھی ہیں۔ وہ 28 اگست 2000 کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

    کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا، ان کا تعلق ضلع سہارن پور، دیو بند سے تھا جہاں وہ 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے اور یوں گھر کے علمی و ادبی ماحول نے کلیم عثمانی کو بھی شاعری کی طرف راغب کیا۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور یہاں لاہور میں سکونت اختیار کی۔

    کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ مشاعروں میں‌ کلیم عثمانی کا ترنم مشہور تھا اور وہ خوب داد سمیٹا کرتے تھے۔ انھوں نے غزل گوئی کے ساتھ جب فلموں کے لیے گیت نگاری شروع کی تو کام یاب رہے۔ فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں وہ فلمیں‌ تھیں جن کے گیتوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور کلیم عثمانی کی فلم انڈسٹری میں مصروفیت بڑھ گئی۔

    آپ نے فلم راز کا یہ نغمہ ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے: میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. یہ اپنے وقت کا ایک مقبول گیت تھا جسے سرحد پار بھی پسند گیا۔ جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین نامی فلموں میں بھی کلیم عثمانی کے تحریر کردہ نغمات کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور بعد میں‌ ریڈیو‌ کے ذریعے یہ گیت ہر زبان پر جاری ہوگئے۔

    1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔

    ملّی نغمات کی بات کی جائے تو کلیم عثمانی کی شاعری نے انھیں ملک بھر میں‌ عوامی سطح پر پہچان دی۔ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” کلیم عثمانی کے وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔

    کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ باذوق قارئین نے ان کی یہ مشہور غزل ضرور سنی ہوگی۔

    رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
    چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
    شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

    پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
    پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

    بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
    میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

  • یادوں کو مہکاتے، سماعتوں‌ میں‌ رس گھولتے نغمات کے خالق تسلیم فاضلی کا تذکرہ

    یادوں کو مہکاتے، سماعتوں‌ میں‌ رس گھولتے نغمات کے خالق تسلیم فاضلی کا تذکرہ

    ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا۔‘‘ یہ گیت آپ نے بھی شاید سنا ہو، جو محبّت بھرے اور بے قرار دل کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ گیت تسلیم فاضلی کی یاد دلاتا ہے جو 1982ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں سے ایک ہیں‌ جنھیں‌ نوجوانی ہی میں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد شہرت اور مقبولیت مل گئی۔ 17 اگست کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرجانے والے اس شاعر نے دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ تسلیم فاضلی اردو کے مشہور شاعر دعا ڈبائیوی کے فرزند تھے۔ یوں ادبی ذوق انھیں‌ ورثے میں ملا اور وہ وقت بھی آیا جب تسلیم فاضلی خود شاعری کرنے لگے اور فلمی دنیا میں‌ اپنی خوب صورت شاعری کی بدولت نام بنایا۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور کئی کام یاب فلموں کے لیے انھوں نے خوب صورت گیت لکھے۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے نغمات تحریر کرنے پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    فلم انڈسٹری میں‌ اپنے زمانۂ عروج میں تسلیم فاضلی نے اس وقت کی معروف اداکارہ اور مقبول ہیروئن نشو سے شادی کی تھی۔

    فلم انڈسٹری کے اس باکمال تخلیق کار نے سادہ اور عام فہم شاعری کی اور ایسے گیت لکھے جو دلوں کو چُھو گئے اور پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی بہت مقبول ہوئے۔ ان کی مشہور غزل فلم زینت میں شامل کی گئی جس کا مطلع یہ ہے۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ وہ گیت ہے جو آج بھی ہماری سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے اور اسے بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اسی گیت نے تسلیم فاضلی پر شہرت کے دَر وا کیے تھے جس کے بعد انھیں بطور شاعر کئی فلموں کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا اور وہ صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے متعدد گیت لازوال ثابت ہوئے جن کے بول ہیں، یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، کہانی محبت کی زندہ رہے گی، ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے، ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا، مجھے دل سے نہ بھلانا، کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی۔

    یہ نغمات فلمی شاعری میں‌ کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور تسلیم فاضلی کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔