Tag: شاعر مشرق

  • علامہ اقبال کی 87 ویں برسی آج عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے

    علامہ اقبال کی 87 ویں برسی آج عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے

    آج شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا یوم وفات ہے، ملک بھر میں آج اقبال کی 87 ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔

    صدر آصف علی زرداری نے علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے افکار، فلسفہ، شاعری ہمارے لیے مشعل راہ ہے، ہمیں پیغام اقبال پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

    صدر مملکت آصف زرداری نے اقبال کے یوم وفات پر پیغام میں کہا ہم ان کی سیاسی، فکری خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، وہ شاعر کے علاوہ مفکر اور مصلح بھی تھے، علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کے زوال کا درد محسوس کیا، اور امت کو بیدار کرنے کے لیے افکار و اشعار کو ذریعہ بنایا۔

    صدر نے کہا اقبال کی شاعری خودی، اجتہاد، عشق حقیقی، حریت فکر جیسے تصورات پر محیط ہے، اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کی نجات فکری و روحانی بیداری میں مضمر ہے، ہمیں سماجی، معاشی اور فکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقبال کی تعلیمات کو مشعل راہ بنانا ہوگا۔

    وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا پیغام

    وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا وہ پاکستان کے نظریاتی معمار اور پہلے مفکر تھے، علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا، اور مسلمانوں کو سیاسی، فکری اور روحانی طور پر متحد کیا۔

    شہباز شریف نے کہا علامہ اقبال کے فلسفہ خودی نے اور شاعری نے تحریک پاکستان کو نظریاتی بنیاد فراہم کی، اور علم، یقین محکم اور خود اعتمادی پر زور دیا جو آج بھی ہماری تمام مشکلات کا حل ہے، علامہ اقبال نے نوجوانوں کو شاہین قرار دیتے ہوئے حصول علم اور اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کی تقلید کی۔

  • علامہ اقبال: کفر کا فتویٰ‌ اور عالمِ‌ عرب میں‌ پذیرائی

    علامہ اقبال: کفر کا فتویٰ‌ اور عالمِ‌ عرب میں‌ پذیرائی

    برصغیر بالخصوص ہندوستان میں علّامہ اقبال بطور شاعر ہی شہرت اور مقبولیت نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک ایسی شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا تھا جس نے تقسیم سے قبل پہلی مرتبہ نوجوان نسل کو درسِ‌ خودی اور اس وقت کے مسلمانوں میں سیاسی اور ملّی شعور اجاگر کرنے کے ساتھ انھیں ان کی گم گشتہ میراث کی جانب متوجہ کیا۔ بطور مفکر اور شاعر اقبال کا فلسفہ، افکار اور اشعار آج بھی دنیا بھر میں موضوعِ بحث بنتے ہیں۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی شاعری پر جہاں مغرب اور یورپ کے اہلِ دانش، علمی و ادبی حلقے بات کرتے ہیں، وہیں اسلامی دنیا میں بھی ان کی نظموں کا شہرہ ہوا۔ اردو اور فارسی زبان میں شاعری کرنے والے اقبال کے اشعار کا عربی میں ترجمہ بھی ہوا اور عرب دنیا کے معروف اہلِ قلم نے ان کے فلسفہ پر بحث کی ہے جب کہ عرب گلوکاروں نے ان کا کلام گایا ہے۔ لیکن یہ بات شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ تقسیمِ ہند سے قبل ان پر کفر کا فتویٰ بھی لگا تھا۔

    یہ بات ہے 15 اکتوبر 1925 کی جب اس دور کے مشہور اخبار ’زمیندار‘ میں ایک سنسنی خیز خبر شائع ہوئی جس کی بنیاد ایک فتویٰ تھا۔ یہ فتویٰ‌ لاہور کی مسجد وزیر خان کے خطیب مولوی دیدار علی الوری کی طرف سے دیا گیا تھا جو اپنے وقت کے مشہور و معروف عالمِ دین اور مفتی تھے۔ دراصل مولوی دیدار کو کسی نے خط لکھا تھا جس میں اقبال کے بعض اشعار میں اپنی دانست میں کفریہ کلمات کی طرف توجہ مبذول کروائی تھی۔ اس پر مولوی صاحب نے فتویٰ دیا تھا۔ لیکن اس وقت کے جید اور بڑے ناموں کے ساتھ عوام نے بھی مولوی دیدار علی کو اس فتویٰ پر مطعون کیا تھا۔ اس بارے میں‌ عبدالمجید سالک نے اپنی کتاب ’ذکرِ اقبال‘ میں لکھا ہے کہ ’اس فتوے پر ملک بھر میں شور مچ گیا۔ مولوی دیدار علی پر ہر طرف سے طعن و ملامت کی بوچھاڑ ہوئی۔ مولانا سلیمان ندوی نے ’زمیندار‘ میں اس جاہلانہ فتوے کی چتھاڑ کر دی۔ ایک گمنام مقالہ نگار نے ایک مدلل مضمون میں اس فتوے کا جواب دیا، یعنی اشعارِ منقولہ کے ایک ایک لفظ پر بحث کر کے ثابت کیا کہ ان سے ہرگز کفر کا شائبہ تک پیدا نہیں ہوتا۔‘

    عبدالمجید سالک مزید لکھتے ہیں کہ ’مولوی دیدار علی کی اس حرکت سے علمائے اسلام کے اجتماعی وقار کو سخت صدمہ پہنچا کیوں کہ مسلمانوں کے تمام طبقات عالم و عام، قدیم، تعلیم یافتہ اور جدید پڑھے ہوئے لوگ علامہ اقبال کو نہایت مخلص مسلمان، عاشقِ رسول، درمندِ ملت، حامیِ دینِ اسلام تسلیم کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہمارے علما کے نزدیک اقبال جیسا مسلمان بھی کافر ہے تو پھر مسلمان کون ہے؟‘

    دوسری طرف اسی دور میں علامہ اقبال کو برصغیر ہی نہیں عالمِ عرب میں بھی پذیرائی مل رہی تھی اور انھیں ایک عظیم اسلامی مفکر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ان کے کلام اور ہر طبقۂ عوام کے لیے اس میں پنہاں پیغام کو عربی زبان میں ڈھالا جانے لگا تھا۔ 1931ء میں علّامہ اقبال فلسطین میں منعقدہ اسلامی کانفرنس میں شرکت سے قبل مصر گئے تو ان کے اعزاز میں ایک تقریب ہوئی جس میں عبدالوہاب عزام نے جو خود ایک بڑے شاعر اور نثر نگار تھے، اقبال سے سب کو متعارف کروایا اور بعد میں ان کے اشعار کا عربی ترجمہ کیا۔ عبد الوہاب عزام نے پیام مشرق، اسرار خودی، ضرب کلیم اور دیگر مجموعہ ہائے کلام کا عربی ترجمہ شائع کروایا۔
    شاعری
    شاعرِ مشرق کی مشہور نظم ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ کا بھی عربی ترجمہ ہوا اور یہ کام مصر کے ایک ادیب اور شاعر صاوی الشعلان نے انجام دیا۔ انھوں نے ’حدیث الرّوح‘ کے نام سے اس کلام کا عربی ترجمہ کیا جسے عرب آج بھی پڑھتے ہیں اور فکر و پیامِ اقبال سے روشناس ہوتے ہیں۔ عرب دنیا میں اقبال کے اس کلام کو بعد میں معروف مصری گلوکارہ ام کلثوم نے بھی اپنی دلنشیں آواز میں ریکارڈ کروایا۔ اقبال کے کلام کا عربی ترجمہ کرنے والوں میں‌ ہندوستان کی معروف علمی و ادبی شخصیت ابوالحسن علی ندوی بھی شامل ہیں جنھوں نے اقبال کے منتخب اشعار کا ترجمہ کیا اور ان کی کتاب دمشق سے شائع ہوئی۔

    (اقبال سے متعلق علمی و تحقیقی مضامین سے ماخوذ)

  • شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کا 146 واں یوم پیدائش

    شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کا 146 واں یوم پیدائش

    آج ملک بھر میں شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کا 146 واں یوم پیدائش عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش کے موقع پر مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد کی گئی، پاک بحریہ کے چاق و چوبند دستے نے اعزازی گارڈز کے فرائض سنبھال لیے۔

    پاکستان نیوی کے اسٹیشن کمانڈر لاہور کموڈور ساجد حسین تقریب کے مہمان خصوصی تھے، گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے مزار اقبال پر حاضری دی، واضح رہے کہ ملک بھر میں آج عام تعطیل ہے۔

    پاک فضائیہ نے علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش کی مناسبت سے شاعر مشرق کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

    اقبال کی شاعری میں فکر و خیال کی گہرائی ملتی ہے، تخلیق ارض پاک انھی کی فکری کاوشوں سے سرانجام پائی ہے، نوجوان نسل کو شاہین کا خطاب دے کر اقبال جہاں اس میں رفعت خیال، جذبہ عمل، وسعت نظری اور جرأت رندانہ پیدا کرنا چاہتے تھے وہاں اس کے جذبۂ تجسس کی بھرپور تکمیل بھی چاہتے تھے۔

    شاہین جو پرندوں کی دنیا کا درویش ہے، اپنی خودی پہنچانتا ہے، تجسس اس کی فطرت اور جھپٹنا اس کی عادت ہے، وہ فضائے بسیط کا واحد حکمران ہے، جو فضاؤں اور بلندیوں سے محبت کرتا ہے۔

    اس سلسلے میں پاک فضائیہ کی جانب سے جاری دستاویزی فلم میں اس عہد کی تجدید کی گئی ہے کہ پاک فضائیہ کا ہر شاہین مادر وطن کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور ضرورت پڑنے پر کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کرے گا۔

  • اقبال کی غزل گوئی

    اقبال کی غزل گوئی

    علّامہ کو شاعرِ مشرق، اور فلسفی شاعر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کی ایک وجہ ان کی وہ نظمیں‌ ہیں‌ جو ہندوستان کے مسلمانوں میں‌ حب الوطنی کے جذبے کو ابھارنے، خاص طور پر نوجوانوں‌ کو اسلامی طرزِ فکر اور مقصدِ حیات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں‌۔ لیکن اقبال نے ابتدا غزل گوئی سے کی تھی۔

    اقبال نے حضرت داغ دہلوی کے رنگ میں بھی غزلیں کہی ہیں جو سہل ممتنع اور اقبال کی سادہ بیانی کا نمونہ ہیں۔ آئیے اقبال کو ایک غزل گو شاعر کے طور پر پڑھتے ہیں۔

    غزل
    ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

    ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
    کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

    یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

    ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
    وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

    ایک اور غزل ملاحظہ کیجیے

    نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
    مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

    تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
    خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

    تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
    مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی

    کھنچے خود بخود جانبِ طور موسیٰ
    کشش تیری اے شوقِ دیدار کیا تھی

    کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا
    فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی

  • جزائرِ ہند کے بے رحم یورپی تاجر

    جزائرِ ہند کے بے رحم یورپی تاجر

    سولھویں صدی کے اخیر میں ہالینڈ کے بہادر جہاز رانوں کو بھی یہ امنگ ہوئی کہ ایک عرصے سے پرتگیز ہند کی تجارت سے مالا مال ہو رہے ہیں، آئو اب ہم بھی وہاں چلیں اور اُس ملک کی تجارت سے ہاتھ رنگیں۔

    یہ دُھن باندھ کر وہ ہند کی طرف آئے اور پچاس برس کے عرصے میں انہوں نے پرتگیزوں سے کئی بستیاں چھین لیں اور یا تو پرتگیز ہند کے ساحلِ بحر پر حکم راں تھے یا اب اہلِ ہالینڈ کا بحری اقتدار سب پر غالب ہو گیا۔

    بنگالے میں جو چنسرا نام کا ایک مقام ہے، وہ ان لوگوں کی حکومت کا صدر تھا۔ مگر اُن کی حکومت کو بہت عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اُن کو ایک ایسی ہم سَر قوم سے آکر مقابلہ پڑا جو اہلِ پرتگال سے کہیں زیادہ زبردست تھی۔ یعنی اب ان کی اہلِ انگلستان سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ کیوں کہ کچھ عرصے سے انگریز بھی ہند میں اپنے قدم جمانے لگے تھے۔

    ولندیز ہی یورپ کی پہلی قوم تھی جو پرتگیزوں کی تجارت میں مخل ہوئی۔ سولھویں صدی میں برگس اینٹ ورپ اور ایم سٹرڈم میں ہندوستان کی پیداوار زیادہ تر جایا کرتی تھی اور جرمن اور انگریز اسے خرید لے جاتے تھے۔ ولندیزوں نے بھی یورپ اور ایشیا کے شمالی کنارے کے برابر برابر ہند کا بحری راستہ دریافت کیا۔

    ولیم بارنٹس تین دفعہ اس کام کے لیے روانہ ہوا مگر آخری بار راستے ہی میں مر گیا۔ پہلا ولندیز جو راس امید کے گرد ہو کر ہندوستان میں آیا، کارنیلس ہوئیمن تھا۔ ہالینڈ کے بہت سے شہروں میں تجارت کی کمپنیاں فوراً ہی بن گئیں اور پھر سب مل کر ایک ہو گئیں۔ 1619ء میں ولندیزوں نے جاوا میں شہر بیٹویا کی بنیاد ڈالی۔ ان کی بڑی تجارت کی کوٹھی امبونا میں تھی۔

    سترھویں صدی میں ولندیزوں کی بحری طاقت دنیا میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ 1623ء میں انہوں نے بہت سے انگریزوں کو قتل کر ڈالا۔ چند ایک ہندوستان سے بھاگ آئے اور ہند میں سلطنتِ انگریزی قائم کرنے کا سبب ہوئے۔ ولیم آف اورمینج کے بادشاہِ انگلستان ہو جانے سے انگریزوں اور ولندیزوں میں لڑائیاں کم ہوئیں۔

    ولندیز کچھ عرصے تک بے خوف و خطر جزائرِ ہند میں حکم راں رہے اور انہوں نے پرتگیزوں کو چُن چُن کر وہاں سے نکالا۔

    ولندیزوں کا عروج کچھ بہت عرصے تک نہیں رہا۔ اُن کے زوال کا باعث اُن کی تجارت ہی ہوئی۔ تجارت زیادہ تر مسالوں ہی کی ہوا کرتی تھی اور وہ بھی بغیر کسی اصول کے، وہ اپنے ہم سَروں پر بڑی بے رحمیاں کیا کرتے تھے اور شائستگی بالکل نہ پھیلاتے تھے۔

    رابرٹ کلابو نے اُن کو بڑا ضعف پہنچایا۔ جب اُس نے چنسرا پر حملہ کیا تو قلعہ کے اندر قید ہونے پر مجبور ہوگئے۔ انگریزوں اور فرانسیسوں کی لڑائی میں انگریزوں نے ولندیزوں کی مشرقی کوٹھیاں چھین لیں۔ زمانہ حال میں ولندیز ہندوستان میں کسی جگہ کے حاکم نہیں ہیں، مگر چنسرا اور ناگ پٹن کے مکانات کی وضع اور ساحل کارومنڈل اور ملیبار کے بندرگاہوں کی چھوٹی چھوٹی نہریں اُن کی یاد کو تازہ کرتی رہتی ہیں۔

    (علامہ اقبال اور لالہ رام پرشاد کی کتاب تاریخِ ہند سے انتخاب)

  • طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    میاں مصطفیٰ باقر کے مرنے کے بعد ان کے اسکول کا رزلٹ آیا۔

    آٹھویں کلاس میں فرسٹ پاس ہوئے تھے۔ ہیضے کی وبا میں ابھی کمی نہیں آئی تھی۔

    بھتیجے ممتاز حیدر تو اللہ کے فضل سے اچھے ہوگئے، لیکن اب بھانجے عثمان حیدر کو کالرا ہوگیا۔ ماموں ممانی نے متوحش ہوکر بار بار اُن کے ناخن دیکھنا شروع کیے۔ فوراً گاڑی بھیج کر جھوائی ٹولے کے نامی طبیب حکیم عبدالوالی کو بلوایا۔

    حکیم صاحب نے کہا حالت تشویش ناک نہیں۔ ان کا نسخہ بندھوایا گیا۔ دوا ماموں ممانی وقت پر خود کھلاتے رہے۔

    اسی ہفتے علامہ اقبال مصطفیٰ باقر کی تعزیت کے لیے لاہور سے تشریف لائے۔ رات کو اس ہوا دار برآمدے میں ان کا پلنگ بچھتا جہاں عثمان حیدر سوتے تھے۔ دن میں دو چار بار عثمان حیدر کے کمرے میں جاکر علامہ ان کی مزاج پرسی کرتے۔

    ڈاکٹر اقبال کو لکھنؤ آئے دو تین روز ہوئے تھے کہ علی محمد خاں راجا محمود آباد نے اُن کی زبردست دعوت کی۔

    وہاں خوب ڈٹ کر شاعرِ مشرق نے لکھنؤ کا مرغّن نوابی ماحضر تناول فرمایا۔ رات کے گیارہ بجے ہلٹن لین واپس آئے۔ کپڑے تبدیل کیے۔ برآمدے میں جاکر اپنے پلنگ پر سو رہے۔

    رات کے ڈھائی بجے جو اُن کے نالہ ہائے نیم شبی کا وقت تھا، افلاک سے جواب آنے کے بجائے پیٹ میں اٹھا زور کا درد۔ شدت کی مروڑ۔ سوئیٹ نے گھبرا کر رونا شروع کردیا۔

    سارا گھر سورہا تھا۔ میزبانوں کو زحمت نہ دینے کے خیال سے چپکے لیٹے رہے۔ نزدیک پلنگ پر نو عمر عثمان حیدر بے خبر سورہے تھے۔ اقبال نے آہستہ سے اٹھ کر غسل خانے کا رخ کیا، وہاں سے تیسری بار لوٹ کر آئے۔

    برآمدے کی لائٹ جلائی۔ عثمان حیدر کے سرہانے میز پر حکیم عبدالوالی کی دوا کا قدّح رکھا تھا۔ آپ اس کی چوگنی خوراک پی گئے۔ پھر لیٹ رہے۔ پھر غسل خانے گئے۔ واپس آکر مزید دو خوراکیں نوشِ جان کیں۔

    کھٹر پٹر سے عثمان حیدر کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے بستر کے کنارے بیٹھے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری اور اپنے ناخنوں کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔

    مصطفیٰ باقر مرحوم کے ناخن نیلے پڑنے کا قصہ انھیں بتایا جا چکا تھا۔

    عثمان حیدر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ادب سے دریافت کیا۔ ”ڈاکٹر صاحب خیریت؟“
    بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ”مجھے بھی کالرا ہوگیا۔ جاکر سجّاد کو جگا دو۔“

    اس وقت پو پھٹ رہی تھی۔ باغ میں چڑیوں نے گنجارنا شروع کردیا تھا۔ بڑی خوش گوار ہوا چل رہی تھی اور بارش کی آمد آمد تھی۔ عثمان حیدر نے تیر کی طرح جاکر دوسرے برآمدے میں ماموں جان کو جگایا۔ اس وقت ڈاکٹر اقبال نیم جاں سے اپنے پلنگ پر لیٹ چکے تھے۔

    ماموں نے فوراً آکر منفردِ روزگار مہمان کی یہ حالت دیکھی۔ حواس باختہ سرپٹ پھاٹک کی طرف بھاگے۔

    لکھنؤ کا انگریز کرنل سول سرجن نزدیک ہی ایبٹ روڈ پر رہتا تھا۔ اس کو جاکر جگایا۔ کرنل بھاگم بھاگ ہلٹن لین پہنچا۔ انجکشن لگایا۔ مریض کی تسلی تشفی کی۔

    آدھ گھنٹے بعد علاّمہ پر غنودگی طاری ہوئی۔ کرنل نے نسخہ لکھا۔ مشتاق بیرہ حضرت گنج سے دوا بنوا کر لایا۔ دو گھنٹے بعد علامہ کو پھر اسہال شروع ہوگیا۔ اس وقت تک ڈرائیور آچکا تھا۔ وہ حکیم عبدالوالی کو لینے جھوائی ٹولہ گیا۔

    حکیم صاحب بوکھلائے ہوئے ہلٹن لین پہنچے۔ کرنل کی شیشی دیکھی۔ پھر نسخہ لکھنے بیٹھے۔

    علامہ نے تکیہ سے سَر اٹھا کر نسخہ ملاحظہ فرمایا۔ بولے، ”حکیم صاحب یہ دوائی تو میں پہلے ہی آدھی بوتل پی چکا ہوں۔“

    حکیم صاحب ہکّا بکّا اقبال کو دیکھنے لگے۔ عثمان حیدر والی بوتل اٹھائی۔ اس میں پوری چھے خوراکیں کم تھیں۔

    شاعر مشرق نے بھولپن سے فرمایا، ”حکیم صاحب بات یہ ہوئی کہ میں نے سوچا یہ لڑکا کم عمر ہے۔ اس کی خوراک سے چار گنا زیادہ مجھے کھانی چاہیے، جبھی فائدہ ہوگا۔“

    حکیم عبدالوالی نے زور دار قہقہہ لگایا۔ ”ڈاکٹر صاحب آپ واقعی فلسفی ہیں۔ خدا نے بڑی خیریت کی۔ اگر دو ایک خوراکیں اور پی ہوتیں، لینے کے دینے پڑجاتے۔“

    شام تک علّامہ کی حالت سنبھل گئی، لیکن ان کی علالت کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ہلٹن لین میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ راجہ صاحب محمود آباد، مشیر حسین قدوائی، جسٹس سمیع اللہ بیگ، سید وزیر حسن صبح شام آکر مزاج پرسی کرتے۔ حکیم عبدالوالی اور کرنل روزانہ آیا کرتے۔

    پانچویں دن راجہ محمود آباد نے فرسٹ کلاس کا درجہ ریزور کروا کے دو ملازموں کے ساتھ علامہ اقبال کو لاہور روانہ کیا۔

    (قرۃ العین حیدر کی کتاب ”کارِ جہاں دراز ہے“ سے انتخاب)

  • بزمِ اقبال میں چند لمحے

    بزمِ اقبال میں چند لمحے

    چراغ حسن حسرت

    میں نے علامہ اقبال کو جلسوں میں بھی دیکھا ہے، پارٹیوں، دعوتوں اور پنجاب کونسل کے اجلاسوں میں بھی، لیکن جب ان کا ذکر آتا ہے تو میرے تصور کے پردے پر سب سے پہلے ان کی جو تمثال ابھرتی ہے وہ ان کی نج کی صحبتوں کی تصویر ہے۔

    شام کا وقت ہے، وہ کوٹھی کے صحن میں چارپائی پر ململ کا کرتا پہنے بیٹھے ہیں۔ چوڑا چکلا سینہ، سرخ و سپید رنگت، زیادہ سوچنے کی وجہ سے آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں۔ چارپائی کے سامنے کرسیاں بچھی ہوئی ہیں، لوگ آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کے لوگ ہیں، شاعر، لیڈر، اخبار نویس اسمبلی کے ممبر، وزیر، پارلیمنٹری سیکرٹری، طالب علم، پروفیسر، مولوی۔ کوئی آدھ گھنٹے سے بیٹھا، کوئی گھنٹا بھر، لیکن بعض نیاز مند ایسے ہیں جو گھنٹوں بیٹھیں گے۔ اور خاصی رات گئے گھر جائیں گے۔

    حقہ کا دور چل رہا ہے۔ علمی ادبی اور سیاسی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال سب کی باتیں سنتے ہیں اور بیچ میں ایک آدھ فقرہ کہہ دیتے ہیں۔ جو خود اس موضوع پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب اندر چلا آ رہا ہے۔ اردو میں باتیں کرتے کرتے پنجابی کی طرف جھک پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی انگریزی کا ایک آدھ فقرہ زبان پر آجاتا ہے، لیکن بات میں الجھاؤ بالکل نہیں۔ جو کہتے ہیں دل میں اتر جاتا ہے۔

    میں نے کبھی ان کی صحبتوں میں اپنے آپ کو ان کے بہت قریب پایا ہے، لیکن مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا ہے کہ مجھ سے دور ہیں۔ بہت دور شاذ و نادر ہی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے کہ جو انہیں ہم دنیا والوں کے قریب لے آتا ہے۔

    ان کی گفتگو علم و حکمت اور فلسفہ و سیاست کے متعلق ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ لطیفے اور پھبتیاں بھی کہتے تھے۔ میں نے انہیں موسیقی اور پتنگ بازی کے متعلق بھی باتیں کرتے سنا ہے۔ ان کے ہاں آنے والوں میں صرف اہلِ علم ہی نہیں تھے ایسے لوگ بھی تھے جنہیں علم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

  • علامہ اقبال اس ستارے کی مانند ہیں جس کی روشنی تیزترہورہی ہے‘ شہبازشریف

    علامہ اقبال اس ستارے کی مانند ہیں جس کی روشنی تیزترہورہی ہے‘ شہبازشریف

    لاہور : قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملکی ترقی، خوشحالی، بہتری کے لیے علامہ اقبال کے پیغام کواپنانا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے یوم اقبال کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ شاعر مشرق ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے یوم ولادت کو خوشی اور برکت کا دن سمجھتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال اس ستارے کی مانند ہیں جس کی روشنی تیزتر ہو رہی ہے، ملکی ترقی، خوشحالی، بہتری کے لیے علامہ اقبال کے پیغام کو اپنانا ہوگا۔

    مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ قائداعظم اوراقبال کی فکرسے ہٹ کرملک چلانے کا ہرتجربہ ناکام ہوا۔

    واضح رہے کہ ملک بھر میں آج مفکر پاکستان اور شاعر مشرق ڈاکٹرمحمد علامہ اقبال کا 141 واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔

    مزاراقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پُروقار تقریب

    یوم اقبال کے موقع پرملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تقاریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جس میں شاعرمشرق کے کلام اور ان کی شخصیت پرگفتگو کی جاتی ہے۔

    ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938 کو انتقال کرگئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پرقوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

  • آج کا دن ہمیں علامہ اقبال کےارشادات پرعمل کرنے کی یاد دلاتا ہے‘ صدرپاکستان

    آج کا دن ہمیں علامہ اقبال کےارشادات پرعمل کرنے کی یاد دلاتا ہے‘ صدرپاکستان

    اسلام آباد : یوم اقبال کے موقع پر صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے اپنے پیغام میں کہا کہ منزل کے حصول کے لیے اقبال کے تصور کوحقیقت میں بدلتے ہوئے سخت محنت کریں۔

    تفصیلات کے مطابق صدر پاکستان ڈاکٹرعارف علوی نے یوم اقبال کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ آج کا دن ہمیں علامہ اقبال کے ارشادات پرعمل کرنے کی یاد دلاتا ہے۔

    ڈاکٹرعارف علوی نے کہا کہ آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے مفکراسلام کے فرمودات پرکتناعمل کیا۔

    انہوں نے کہا کہ مسلمانانِ برصغیرکے لیے الگ وطن کا تصور پیش کرنے پر علامہ اقبال کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، علامہ اقبال کے فرمودات اسلام کا حقیقی پیغام سمجھنے میں مددگارہیں۔

    صدرمملکت نے کہا کہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے
    حصول کے لیے’’خودی‘‘ کو بیدار کیا۔

    ڈاکٹرعارف علوی نے کہا کہ آج پاکستان کوکثیرالجہتی چیلنجرکا سامنا ہے، مذہبی انتہا پسندوں نے اسلام کی اصل روح اورپیغام کومسخ کیا۔

    صدرِ پاکستان نے مزید کہا کہ اقبال کے خواب کوحقیقت میں بدلنے کے لیے اپنی کاوشوں کو بروئے کار لائیں، منزل کے حصول کے لیے اقبال کے تصورکوحقیقت میں بدلتے ہوئے سخت محنت کریں۔

  • شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی79ویں برسی

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی79ویں برسی

    شاعر مشرق، حکیم الامت، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 79ویں برسی آج ملک بھرمیں عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے،والدین نےآپ کا نام محمد اقبال رکھا۔

    انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔

    علامہ اقبال ایف اے کرنےکے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔

    شاعر مشرق 1905 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی، یہاں سے آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔


    ایران کی ایک شاہراہ ’شاعرِمشرق‘ کے نام سے منسوب ہے


    علامہ اقبال  شعروشاعری  کے ساتھ ساتھ وکالت بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا جبکہ 1922 میں برطانوی حکومت کی طرف سے ان کوسَر کا خطاب ملا۔

    شاعرمشرق آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔

    علامہ اقبال کا سنہ 1930  کا الہٰ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے،اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

    پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938 کو علامہ انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

    .علامہ اقبال کی اردو، انگریزی اور فارسی زبان میں تصانیف میسرہیں


    نثر

    علم الاقتصاد

    فارسی شاعری

    اسرار خودی
    رموز بے خودی
    پیام مشرق
    زبور عجم
    جاوید نامہ
    پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقأ
    ارمغان حجاز


    اردو شاعری

    بانگ درا
    بال جبریل
    ضرب کلیم

    انگریزی تصانیف

    فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
    اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو