Tag: شاعر وفات

  • اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب کہا گیا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام ملا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔

    ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ یہ احمد ندیم قاسمی کے الفاظ ہیں جو جدید اردو نظم کے اس بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر و شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے لاہور شہر میں‌ زندگی کے آخری ایام گزارے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعہ آئینہ خانہ کو اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے ساتھ غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے والے اختر حسین جعفری نے اپنی شاعری میں تازہ فکر اور ندرتِ خیال کا اہتمام کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جا بجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے اختر حسین کی ابتدائی تعلیم ان کے ضلع کی درس گاہ سے مکمل ہوئی اور وظیفے کا امتحان پاس کرکے وہ گجرات آگئے۔ یہاں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور عملی زندگی کا آغاز سرکاری ملازمت سے ہوا۔ اسی ملازمت میں ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔

    اختر حسین جعفری نے اپنے تخلیقی سفر میں اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کروایا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ ممتاز نظم گو شاعر شمار کیے گئے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ کے علاوہ جہاں دریا اترتا ہے بھی بہت مقبول ہوا۔ آئینہ خانہ کی اشاعت پر اسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 2002 میں اس شاعر کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

  • جان کیٹس: نوجوانی میں موت سے ہم آغوش ہونے والا عظیم رومانوی شاعر

    جان کیٹس: نوجوانی میں موت سے ہم آغوش ہونے والا عظیم رومانوی شاعر

    بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار جانے والے جان کیٹس کو اس کی موت کے بعد بطور رومانوی شاعر لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ جان کیٹس ایسا جوانِ رعنا تھا جس کی زندگی نے ابھی اترانا سیکھا ہی تھا اور جو اپنے خوابوں کو شاعری میں جگہ دے رہا تھا۔ وہ 26 برس زندہ رہ سکا۔ جان کیٹس آج ہی کے روز 1821ء میں‌ چل بسا تھا۔

    لندن کے ایک علاقہ میں جان کیٹس نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ 31 اکتوبر 1795ء کو پیدا ہونے والے کیٹس کا باپ مقامی شراب خانے میں ساقیا تھا۔ وہ ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ جان کیٹس نے خراب مالی حالات کے باوجود طب کے مضمون میں سند حاصل کی۔ اُسے برطانیہ کے جس سستے اسکول میں داخلہ ملا تھا، وہاں خوش قسمتی سے جان کلارک جیسا ذہین، قابل اور ادبی ذوق رکھنے والا استاد اس کی زندگی میں آیا۔ کلارک نے کیٹس کو برطانوی زبان میں‌ ادب پاروں کا مطالعہ کرنے پر اکسایا اور کلاسیکی ادب کے تراجم سے واقف کرایا۔ ایک روز غربت زدہ کنبے کا سربراہ یعنی کیٹس کا باپ گھوڑے سے گِر کر ہلاک ہوگیا۔ یوں اس گھر کے افراد معمولی آمدنی سے بھی محروم ہوگئے۔ چند ماہ بعد کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی، مگر دوسرا شوہر ایک برا آدمی ثابت ہوا۔ جان کیٹس کی ماں نے اس سے طلاق لے لی اور بچّوں کے ساتھ ان کی دادی کے پاس چلی گئی۔ وہاں چند ماہ گزرے تھے کہ بچّے اپنی ماں کے سائے سے بھی محروم ہوگئے۔ اس کے بعد کیٹس کو اسکول سے اٹھا لیا گیا۔ اسے خاندان کے ایک شناسا سرجن کے پاس مقامی اسپتال میں‌ ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے جانا پڑا۔ کیٹس نے 1814 سے 1816 تک وہاں‌ ادویات اور سرجری کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ پھر ایک اسپتال میں معمولی نوکری مل گئی۔ اس نے اسپتال میں‌ سرجری کی کلاسیں‌ لینا شروع کردیا اور اسی عرصہ میں شاعری بھی کرنے لگا۔ اس کی لگن اور طلبِ علم کی شدید خواہش نے 1816 میں اسے ادویہ سازی اور سرجری میں سند یافتہ بنا دیا۔ جان کیٹس اس پیشے میں اب آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ وہ دادی کے گھر میں اپنا زیادہ وقت شاعری کرتے ہوئے گزارنے لگا۔

    جان کیٹس نے جس دور میں شاعری شروع کی‌، اس وقت دو ادبی رسائل تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اس کے ہم عصر اور برطانیہ کے مقبول شعرا میں‌ شیلے اور بائرن بھی شامل ہیں اور انھیں‌ بھی بے جا تنقید اور ادبی دنیا میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان ناموافق حالات میں اس وقت کے ایک اہم شاعر لی ہنٹ نے ایک رسالہ نکالا اور نئے لکھنے والوں کو اس میں جگہ دی۔ جان کیٹس کی نظمیں بھی ہنٹ کے رسالے میں شایع ہوئیں اور جلد ہی جان کیٹس کی نظموں کا پہلا مجموعہ بھی منظرِعام پر آ گیا۔ برطانیہ میں ادب کے قارئین جان کیٹس کو پہچاننے لگے، لیکن مستحکم ادبی حلقوں اور ان کے رسائل میں دوسروں کے ساتھ کیٹس پر بھی بے جا تنقید شروع کردی گئی اور یہ تک لکھا گیا کہ جان کیٹس کو شاعری ترک کر کے ادویہ سازی پر توجہ دینا چاہیے۔ جان کیسٹس جیسے حساس اور زود رنج شاعر کے لیے یہ تنقید ناقابل برداشت تھی۔ جان کیٹس بدقسمتی سے ٹی بی جیسے مرض کا شکار ہوچکا تھا جو اس دور میں‌ ناقابل علاج اور مہلک مرض تھا۔ دراصل جان کیٹس کو یہ مرض اپنے ٹی بی کا شکار بھائی سے منتقل ہوا تھا۔ وہ تنقید کے ساتھ ٹی بی کی شدت بھی سہہ رہا تھا۔ اگرچہ بائرن، لی ہنٹ اور شیلے وہ شاعر اور ادیب تھے جنھیں جان کیٹس سے ہمدردی بھی تھی اور وہ اس کی شاعری کے معترف بھی تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی اور ساتھ جان کیٹس کو ضرور نصیب تھا، مگر ٹی بی نے اسے مزید حساس بنا دیا تھا اور وہ خود پر کڑی تنقید برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔

    بات صرف یہی نہیں‌ تھی بلکہ جان کیٹس عشق کا روگ بھی لگا بیٹھا تھا۔ یہ لڑکی اس کی پڑوسی فینی بران تھی۔ کہتے ہیں کہ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت اور دیکھ بھال نے ہی جان کیٹس کو بہت سہارا دے رکھا تھا ورنہ بیماری اسے تیزی سے موت کی طرف لے جارہی تھی۔ جان کیٹس نے اپنی مشہور نظم برائٹ اسٹار اسی لڑکی فینی سے ایک ملاقات کے دوران لکھی تھی۔ ان میں پیامات کا تبادلہ بھی ہوتا تھا اور یہ خطوط بعد میں بے مثال رومانوی خطوط کے طور پر محفوظ کر لیے گئے۔

    نوجوان شاعر جان کیٹس نے اپنی نظموں‌ میں‌ حسن و عشق اور جذبات کو اپنے تخیل میں اس طرح‌ سمویا کہ بعد میں اس کی شاعری کو ایک دبستان قرار دیا گیا۔ مختصر زندگی میں غربت اور جسمانی تکلیف کے ساتھ نام نہاد ادبی نقادوں کی دل آزار باتوں اور عشق نے جان کیٹس کو ایک بے مثال شاعر بنا دیا۔ کیٹس کی شاعری لازوال ثابت ہوئی۔ انگریزی ادب کے ناقدین کہتے ہیں کہ کیٹس کی زندگی کے رنج و غم، اس پر بے جا تنقید اور فینی کی محبت نے ہی اسے بطور شاعر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جان کیٹس یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کرداروں کا ذکر جا بجا اس کی شاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

    اٹلی کے مشہور شہر روم میں‌ قیام کے دوران ٹی بی کے مرض کی شدت کے سبب جان کیٹس کی موت واقع ہوگئی۔ اس عظیم انگریز رومانوی شاعر کی تدفین بھی روم ہی میں کی گئی۔

  • ظہیر کاشمیری: ممتاز ترقی پسند شاعر، صحافی اور نقاد کا تذکرہ

    ظہیر کاشمیری: ممتاز ترقی پسند شاعر، صحافی اور نقاد کا تذکرہ

    اردو ادب میں ظہیر کاشمیری کا نام زندہ رکھنے کے لیے ان کا ایک ہی شعر کافی ہے جو اکثر انقلابی اور احتجاجی جلسوں میں پڑھا جاتا ہے۔

    ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
    ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

    یہ شعر تقریر سے تحریر تک ہر مشہور شخصیت نے برتا اور آج بھی سیاسی و عوامی جلسوں‌ کے دوران پنڈال میں گونجتا ہے۔ یہ شعر حق اور سچ کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کا جوش و ولولہ بڑھاتا ہے۔ ظہیر کاشمیری ایک ممتاز ترقی پسند شاعر، صحافی اور نقاد تھے۔

    ان کا اصل نام غلام دستگیر اور تخلّص ظہیر تھا۔ 1919ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے غلام دستگیر کا آبائی وطن کشمیر تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انگریزی میں ایم اے کیا۔ شعر گوئی کا سلسلہ گیارہ برس کی عمر سے جاری تھا۔ بعد میں ڈرامہ اور مضمون نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل ظہیر کاشمیری لاہور آگئے جہاں ابتدائی دور میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مشہور رسالہ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔ اس کے علاوہ روزنامہ مساوات میں بھی کام کیا۔

    ظہیر کاشمیری ترقی پسند ادب سے وابستہ رہے اور شاعر و ادیب کی حیثیت سے اردو دنیا میں ممتاز ہوئے۔ ان کی تصانیف ’عظمتِ آدم‘، ’تغزل‘، ’چراغِ آخرِ شب‘، ’رقصِ جنوں‘، ادب کے مادّی نظریے‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ ظہیر کاشمیری کو بعد از مرگ حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    فلمی دنیا میں ظہیر کاشمیری نے نغمہ نگار، مصنف اور ہدایت کار کے طور پر بھی کام کیا۔ انھوں نے ایک فلم تین پھول (1961) کے نام سے بنائی تھی اور یہ بے وفائی کے موضوع پر بننے والی ایک منفرد فلم تھی۔ لیکن ناکام ثابت ہوئی، اس کی کہانی، مکالمے اور منظرنامہ بھی ظہیر کاشمیری کا لکھا ہوا تھا۔

    12 دسمبر 1994ء کو ظہیر کاشمیری انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شاذ تمکنت: اردو نظم کا خوب صورت شاعر

    شاذ تمکنت: اردو نظم کا خوب صورت شاعر

    حیدر آباد دکن وہ ریاست تھی جس کے سلطان میر عثمان علی خان نے برصغیر میں اردو کی تعلیم اور علم و ادب کو پروان چڑھانے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور اس زبان کی ترقی اور ادیب و شعراء کے لیے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی۔ اسی مرفّہ الحال ریاست میں شاذ تمکنت نے آنکھ کھولی تھی اور ادب کی دنیا میں بطور شاعر پہچانے گئے۔ آج ان کا نام رفتگاں میں شامل ہے۔ شاذ 1985ء آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔

    شاذ تمکنت کا اصل نام سیّد مصلح الدّین تھا۔ وہ 31 جنوری 1933ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد نظامِ دکن کے ہاں ملازم تھے۔ افتادِ دوراں نے والدین کو زندگی بسر کرنے کی زیادہ مہلت نہ دی۔ شاذ تمکنت نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور کم عمری میں‌ شاعری کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس دور میں‌ ہندوستان میں کئی سیاسی تحریکیں چل رہی تھیں‌ اور معاشرہ بھی طرح‌ طرح‌ کی تبدیلیو‌ں سے گزر رہا تھا جب کہ اردو ادب ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تھا جو بڑی حد تک کم بھی ہو رہا تھا۔ افسانہ و مختصر کہانیوں کا سلسلہ نئے موضوعات کے ساتھ جاری تھا، انقلاب آفریں نغمات لکھے جارہے تھے اور تنقید کے میدان میں مختلف رجحانات کا زور تھا۔ شاذ تمکنت نے اسی ماحول میں روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ بجائے خود ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔

    شاذ کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ملتے ہیں، وہیں ان کا دکھ، زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ شاذ تمکنت نے جب شعر کہنا شروع کیا، ترقی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے عوامی مصنفین کا چولا بدلا تھا۔ شاذ تمکنت بھی اسی سے وابستہ ہوئے لیکن ترقی پسند تحریک کی ادعائیت سے خود کو دور رکھا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کرنے والے شاذ تمکنت نے اپنے دور کے دو بڑے شاعروں جوش اور فراق سے اکتسابِ ہنر کیا اور بہت جلد اپنا طرزِ اظہار الگ کر لیا۔ وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے پیش لفظ میں اپنا نظریۂ فن یوں بیان کرتے ہیں: میں غمِ ذات اور غمِ کائنات کو علاحدہ علاحدہ خانوں میں نہیں بانٹتا بلکہ میری دانست میں غمِ ذات عبارت ہوتا ہے، غمِ کائنات سے۔ ایک فرد کا غم اس کا ا پنا ہوتے ہوئے بھی درپردہ افراد کے دکھ سکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ کائنات کے خارجی موضوعات بھی اس وقت تک کام یاب شعر کا جامہ نہیں پہن پاتے جب تک کہ اس میں شخصیت کا غم ذات کا پُٹ نہ ہو۔ میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ، اوّل اوّل فن کار اپنی تسکین کے لیے، اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ متاعِ ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہلِ دہر کا قیاس کرے۔

    اردو شاعری کی محبوب صنف یعنی غزل اور نظم کے علاوہ شاذ تمکنت نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ غالب اور اقبال کی غزلوں پر تضمین کے علاوہ شاذ تمکنت کے ذخیرۂ کلام میں قطعات، گیت، نعت، اور مناجات بھی شامل ہیں۔

    شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں، لیکن غزل میں بھی ان کی منفرد شناخت ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں کا نمایاں وصف مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزوِ لاینفک ہیں۔ مرحوم کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں۔ آخری مجموعۂ کلام بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا تھا۔ شاذ تمکنت کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
    تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

    اس شاعر کی ایک مناجات "کب تک مرے مولا ” بہت مقبول رہی ہے اور اسے ہندوستان کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ شاذ تمکنت کا ایک گیت ”سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” بھی پاک و ہند کے معروف گلوکاروں کی آواز میں مقبول ہوا تھا۔

  • "جہانِ آرزو” کے خالق آرزو لکھنوی کا تذکرہ

    "جہانِ آرزو” کے خالق آرزو لکھنوی کا تذکرہ

    اردو شاعری میں‌ غزل جیسی مقبول صنف کو ابتداً وارداتِ قلبی، وفورِ شوق اور کیفیات سے سجانے کے ساتھ داخلیت کو اہمیت دی جاتی تھی، اور استاد شعرا اپنے کلام کو تشبیہات و استعارات، رعایتِ لفظی اور معنی آفرینی سے انفرادیت عطا کرتے تھے۔ آرزو لکھنوی نے اسی دور میں خوش گوئی اور نازک خیالی سے غزل کو بڑا وقار بخشا۔

    نوعمری میں آرزو لکھنوی نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے کے فرد تھے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی شاعری تھا۔ شہر لکھنؤ‌ کی وہ خاص فضا جس میں بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوتے اور زبان و ادب کے بلند قامت نام ان کا حصّہ بنتے، اور اس پر آرزو کے گھر کا ادبی ماحول۔ سیّد انوار حسین نے شاعری شروع کی تو خود کو آرزو لکھنوی کہلوانا پسند کیا۔ یہی اردو شاعری میں ان کی پہچان اور شناخت بنا۔ تقسیم کے بعد آرزو پاکستان ہجرت کرکے آگئے تھے اور یہاں 16 اپریل 1951 کو ان کا انتقال ہوا۔

    آرزو لکھنوی نے غزل کہی اور خوب کہی۔ اس کے ساتھ انھوں نے فلمی گیت نگاری بھی کی۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ لیکن ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔ آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز تھا اور آرزو لکھنؤ نے وہاں قیام کے دوران فلموں کے لیے کام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • نظرؔ لکھنوی: ایک ادیب اور شاعر کا تذکرہ

    نظرؔ لکھنوی: ایک ادیب اور شاعر کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے نظرؔ لکھنوی کا جو ادب کی دنیا میں اپنی نثر نگاری اور شاعری کی بدولت مشہور ہوئے اور کئی رسائل کے مدیر رہے۔ آج نظرؔ کا نام اور اردو ادب میں‌ ان کے مقام کا ذکر شاذ ہی ہوتا ہے۔ ان کا ایک شعر دیکھیے۔

    دیکھنا ہے کس میں اچھی شکل آتی ہے نظرؔ
    اس نے رکھا ہے مرے دل کے برابر آئینہ

    منشی نوبت رائے اردو ادب اور صحافت کی دنیا میں اپنے تخلّص نظرؔ لکھنوی سے پہچانے گئے۔ لکھنؤ میں ان کی پیدائش 1866ء میں ہوئی اور تاریخِ وفات 10 اپریل 1923ء ہے۔ ادیب اور شاعر نظر لکھنوی کا تعلق ایک کایستھ خاندان سے تھا۔ یہ خاندان لکھنؤ کے نوابوں کے زمانے سے ہی برسرِ اقتدار تھا۔ نظر نے اوائلِ عمر میں ہی فارسی اور اُردو کی تکمیل کرلی تھی۔ بعد ازاں انگریزی زبان میں بھی دسترس حاصل کی۔ نظر میں ادبی صلاحیتیں بدرجۂ اُتم موجود تھیں، اِسی سبب سے 1904ء میں خداداد ذہانت و قابلیت کو دیکھتے ہوئے منشی دیا نرائن نگم (ایڈیٹر رسالہ ’’زمانہ‘‘ کانپور) نے اپنے مقبولِ عام رسالہ ’’زمانہ‘‘ کا نائب مدیر بنا کر اپنے پاس کانپور بلا لیا، مگر جلد ہی 1910ء میں آپ رسالہ ’’ادیب‘‘ کے مدیرہو کر انڈین پریس، الہٰ آباد چلے گئے۔ الہٰ آباد بھی دو سال سے زیادہ قیام نہ کیا اور 1912ء میں کانپور واپس آ کر دوبارہ سالہ ’’زمانہ‘‘ سے منسلک ہوئے۔ آزادؔ کے اجرا میں آپ نے منشی دیانرائن نگم کا بہت ہاتھ بٹایا، پھر حامد علی خاں بیرسٹر ایٹ لا کی وساطت سے نول کشور پریس میں چلے گئے۔ یہاں پہلے تو ’’تفریح‘‘ کے مدیر رہے اور بعد میں ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیر ہو گئے۔ آخری دور میں نظر ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ بعض اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی عمر کا آخری حصہ زیادہ پُر آشوب تھا جس میں ان کو پے در پے صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ اپنی بیٹی اور پھر نواسی کے انتقال کے بعد نظر لکھنوی دل برداشتہ ہو گئے اور ’’ اودھ اخبار‘‘ سے قطع تعلق ہو گئے۔

    نظر نے ایک ایسی فضاء میں آنکھ کھولی تھی جب انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں لکھنؤ میں ہر طرف شعر و شاعری اور بڑے بڑے ناموں کی سخن گوئی کا چرچا تھا۔ نظر کی طبیعت میں شعر و شاعری کا ذوق پیدا ہوا تو مظہر لکھنوی کے شاگرد ہو گئے اور لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ منشی دیانرائن نگم نے کہا ہے کہ: ’’ فطرت سے انھوں نے علم و اَدب کے لیے نہایت موزوں طبیعت پائی تھی، قدرت نے انھیں نہایت شستہ و سلیم ذوقِ سخن عطاء کیا تھا۔ بچپن میں اُن کو بہت اچھی صحبت ملی تھی جس سے طبیعت میں رفعتِ مزاج میں تہذیب‘ متانت و سنجیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اُن کا ذہن بھی بلا کا تھا جس بات کو اور لوگ مہینوں میں حاصل کرتے، اُس پر وہ چند دِنوں کی محنت میں حاوی ہوجاتے تھے۔ اُن کا معیارِ خیال بہت اونچا، اُن کا مطمح نظر بلند اور رفیع تھا۔ اُن کی پسند مشکل ہوتی تھی‘‘۔

    نظر نے لکھنؤ ہی میں زندگی کے آخری ایّام بسر کیے اور وہیں انتقال ہوا۔

  • صہباؔ اختر: ‘میں ابر تھا چھایا رہا!’

    صہباؔ اختر: ‘میں ابر تھا چھایا رہا!’

    ادب اور شاعری سے شغف رکھنے والی نئی نسل اور نوجوان شعراء میں‌ بھی بہت کم ایسے ہوں گے جنھیں صہباؔ اختر کے اشعار یاد ہوں‌ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اکثر نے ان کا نام تک نہ سنا ہو، لیکن یہ کچھ ایسا تعجب خیز بھی نہیں۔ وقت کی گردش اور زمانے کی رفتار میں‌ کئی نام سامنے نہیں رہے، لیکن اردو ادب میں ان کا مقام اور حیثیت برقرار ہے۔ صہبا اختر انہی میں‌ سے ایک ہیں۔ صہبا اختر کے مشاعرہ پڑھنے کے انداز میں جو طنطنہ رعب اور گھن گرج تھی۔ وہ انہی سے مخصوص ہے۔ ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی اس لحن میں غزل یا نظم نہیں پڑھ سکا۔ آج اردو کے ممتاز شاعر صہبا اختر کا یومِ وفات ہے۔

    صہبا صاحب نے اپنے زمانے میں اردو غزل اور نظم گوئی میں بڑا نام پیدا کیا۔ ان کی بیشتر نظمیں وطن سے ان کی محبت اور اس مٹی سے پیار کا والہانہ اظہار ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ان مسائل کو بھی شاعری میں خوب صورتی اور شدت سے بیان کرتے ہیں‌ کہ جو ان کی نظر میں وطن کی صبحِ درخشاں کو تیرگی اور تاریکی کا شکار کرسکتے ہیں۔ ان کا لحن اور جذبہ ان کی شاعری میں دو آتشہ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔

    صہباؔ اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور صہبا اختر کم عمری میں شعر کہنے لگے۔ انھوں نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا، علی گڑھ سے بی اے کی سند لی اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمۂ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    صہبا اختر نے غزل کے علاوہ حمد و نعت، مرثیہ گوئی، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور گیت نگاری کے ساتھ ان کی ملّی شاعری نے انھیں بڑی شہرت دی۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ بعد از مرگ صہبا صاحب کے لیے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا تھا۔

    احمد ندیم قاسمی نے اپنے مضمون میں‌ صہباؔ صاحب کے بارے میں‌ لکھا تھا:’’صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے۔ بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں۔ یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘

    صہبا صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے آپ میں گم رہنے والے، نہایت کم گو تھے اور دوسرو‌ں کے متعلق یا اپنے ہم عصر شعراء کی عیب جوئی یا کسی پر نکتہ چینی کبھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک مشاعرے اور صہبا صاحب کا یہ تذکرہ پڑھیے: ’’غالباً 1955ء کا ذکر ہے، نواب شاہ میں ایک بڑے مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ کراچی سے شرکت کرنے والوں میں ایک چھیل چھبیلا جوان العمر شاعر بھی تھا۔ گھنے گھنے، گھنگریالے سیاہ اور چمکتے دمکتے بال، گول مٹول سا بھرا بھرا چہرہ، خمار آلود شربتی آنکھیں، ستواں ناک، متناسب لب اور دل کش قد و قامت کے ساتھ ساتھ تنومند جسم پر ململ کا کڑھا ہوا کرتا اور صاف و شفاف لٹھے کا ڈھیلا پاجامہ۔ یہ تھی صہبا اختر کی سج دھج، جنھوں نے اپنی باری آنے پر بڑی لمبی بحر کی غزل چھیڑی اور وہ بھی منجھے ہوئے ترنم سے۔ حاضرین منتظر ہیں کہ ذرا کہیں رکیں تو داد و تحسین سے نوازے جائیں۔ اُدھر بھائی صہبا اختر کی محویت کا یہ عالم کہ جیسے ایک ہی سانس میں پوری غزل سنا ڈالیں گے۔ مسئلہ پوری غزل کا نہیں بلکہ مطلع ہی ایسی بحرِ طویل کو تسخیر کر رہا تھا کہ سانس لینے کی فرصت کسے تھی۔ بہرکیف غزل خوب جمی اور داد بھی بہت ملی۔

    یہاں‌ صہبا اختر کی ایک غزل ہم قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    صہبا اختر ایک عرصہ تک ریڈیو پاکستان کے لیے بھی پابندی سے لکھتے رہے۔ ان کے تحریر کردہ فلمی گیت بہت مقبول ہوئے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا شامل ہیں۔

    19 فروری 1996ء کو صہبا اختر انتقال کرگئے تھے۔ انھیں کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • چکبست کا تذکرہ جن کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    چکبست کا تذکرہ جن کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    چکسبت کے کئی اشعار کو اردو زبان میں ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے اور اُن کے فن اور شاعرانہ اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ 1926ء میں آج ہی کے دن پنڈت برج نرائن چکبست وفات پاگئے تھے۔ چکبست شاعری میں غالب سے کافی متاثر تھے اور اپنے ہم عصروں میں انھوں نے علّامہ اقبال کا اثر قبول کیا تھا۔ ان کی شاعری کو وطن پرستی، مذہبی، اور ان کے سیاسی رجحان کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔

    چکبست کی غزل کا یہ شعر بہت مقبول ہوا تھا

    زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
    موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

    چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔

    وہ شاعر ہی نہیں‌ عمدہ نثر نگار بھی تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں‌ لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں‌ نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں‌ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعۂ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔

    مشہور ہے کہ چکبست نے پہلا شعر نو، دس برس کی عمر میں کہا تھا۔ وہ ترقی پسند اور آزاد خیال شخص تھے جس نے انگریزی ادب اور فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا۔ اور اس مطالعہ کے ان کے ذہن اور فکر پر اثرات مرتب ہوئے تھے۔ ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ انھوں نے صرف 35 سال کی عمر میں اردو شعراء کے درمیان صف اوّل میں جگہ حاصل کرلی تھی۔ چکبست صرف 44 سال زندہ رہ سکے۔ وہ ایک مقدمے کے سلسلے میں لکھنؤ سے بریلی گئے تھے اور واپسی پر ریل کے سفر میں ہی ان پر فالج کا حملہ ہوا۔

    چکبست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ اور وطن کی فکر میں گھلے جاتے تھے۔ چکبست کا مشاہدہ بے پناہ تھا، انھوں نے غلامی کے دور دیکھے اور ظلم و ستم جو انگریزوں نے روا رکھا، ان پر چکبست کی دقیق نظر تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں قومیت و وطنیت کا عنصر غالب ہے۔

    یہاں‌ ہم اردو کے اس مشہور شاعر کی ایک غزل آپ کی نذر کررہے ہیں۔

    نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
    سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا

    لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
    یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا

    کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
    وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا

    دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
    یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا

    کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
    شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا

    خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
    یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

  • سیّد محمد جعفری: مزاحیہ شاعری کا ایک معروف نام

    سیّد محمد جعفری: مزاحیہ شاعری کا ایک معروف نام

    اردو مزاح گو شعراء میں سیّد محمد جعفری چند صاحبِ اسلوب اور فنی اعتبار سے بلند شاعری کے حامل ہیں۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، لیکن ان مزاحیہ شاعری بھی ماند پڑنے والی نہیں جس کا ایک سبب یہ ہے کہ سیّد محمد جعفری نے جن طبقات اور مسائل کو موضوع بنایا، وہ آج بھی ہمارے سماج کا حصّہ ہیں۔

    آج سیّد محمد جعفری کی برسی ہے۔ وہ 7 جنوری 1976ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ 27 دسمبر 1905ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے بھرت پور کے ایک ذی علم گھرانے میں سید محمد جعفری پیدا ہوئے۔ والد بسلسلہ ملازمت لاہور آئے اور یہیں‌ سیّد محمد جعفری کا بچپن گزرا۔ اسی شہر میں ان کی تعلیم و تربیت کے مراحل طے ہوئے۔ میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اور کیمیا کے مضمون میں‌ بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے (فارسی) اور ایم او اے (ماسٹر آف اورینٹل) اورینٹل کالج لاہور سے پاس کیا۔ میو اسکول آف آرٹس لاہور سے مصوّری اور سنگ تراشی کی تعلیم حاصل کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سیّد محمد جعفری کو مرکزی محکمۂ اطلاعات میں اہم منصب پر فائز کردیا گیا۔ اسی دوران ایران میں بحیثیت پریس اور کلچرل اتاشی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ اس سے قبل برطانوی ہند کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارے پریس انفامیشن ڈیپارٹمنٹ، دہلی سے وابستگی کے بعد کراچی، لاہور، تہران اور ایران میں خدمات انجام دے چکے تھے۔

    سیّد محمد جعفری نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر لگ بھگ 900 نظمیں تحریر کیں۔ ان کے یہاں کلاسیکی شاعری کی تمام التزامات نظر آتے ہیں، خصوصاً غالب اور اقبال کے جن مصرعوں کی تضمین کی ہے اس کی اردو شاعری میں مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس ممتاز مزاح گو شاعر کے کلام کی سب سے بڑی خوبی نکتہ سنجی ہے اور یہ شاعری شادابی اور شگفتگی کا آئینہ ہے۔ انھوں‌ نے تضمین اور تحریف کے ساتھ مختلف موضوعات کو اپنی مزاحیہ شاعری میں سمیٹا ہے۔

    سیّد محمد جعفری کی وفات کے بعد ان کی شاعری کے دو مجموعے شوخیٔ تحریر، تیر نیم کش اور بعد میں کلیات شائع ہوئی۔ امتحان کے عنوان سے ان کی ایک مزاحیہ نظم یہاں ہم نمونۂ کلام کے طور پر نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    "امتحان”
    امتحاں سر پر ہے لڑکے لڑکیاں ہیں اور کتاب
    ڈیٹ شیٹ آئی تو گویا آ گیا یوم الحساب

    صرف اک کاغذ کے پرزے سے ہوا یہ انقلاب
    خود بہ خود ہر اک شرارت کا ہوا ہے سد باب

    پہلے تھیں وہ شوخیاں جو آفت جاں ہو گئیں
    ”لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں”

    وقت رٹنے کے لیے کم رہ گیا زیادہ ہے کام
    سال بھر جن کو نہ دیکھا وہ خلاصے نیک نام

    سامنے رکھے ہیں ان کو جھک کے کرتے ہیں سلام
    ان کی پوجا ہی میں سارا وقت ہوتا ہے تمام

    ٹیلی ویژن بھی نہیں غائب ہوئے ہیں سارے کھیل
    ڈال کر کولہو میں بچوں کو نکالو ان کا تیل

    آج کل بھولے ہوئے ہیں سب الیکشن اور ڈیبیٹ
    پریکٹیکل کی کاپیوں کے آج کل بھرتے ہیں پیٹ

    حاضری اب کون بولے کون اب آئے گا لیٹ
    کالج اور اسکول ہیں سنسان خالی ان کے گیٹ

    بند ہے کمرے کے اندر گردش لیل و نہار
    کیا خبر آئی خزاں کب کب گئی فصل بہار

    امتحاں کا بھوت ہے یا ہے قیامت کا سماں
    امی اور ابا سے چھپ کر رو رہی ہیں لڑکیاں

    کہتے ہیں لڑکے کیا کرتے تھے جو اٹکھیلیاں
    ”یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں”

    اب ہرن کی طرح سے بھولے ہوئے ہیں چوکڑی
    اس قدر رٹنا پڑا ہے جل اٹھی ہے کھوپڑی

    حال پر بچوں کے ہیں بے حد پریشاں والدین
    ساتھ میں اولاد کے ان کا اڑا جاتا ہے چین

    گرچہ ہے تعلیم اور رٹنے میں بعد المشرقین
    سوچتے ہیں وہ کہ اچھا ذہن ہے خالق کی دین

    کیا خبر تھی اس طرح جی کا زیاں ہو جائے گا
    ”یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہو جائے گا”

    رات بھر جاگیں گے وہ جو سال بھر سوتے رہے
    کاٹنے جاتے ہیں گندم گرچہ جو بوتے رہے

    کیا توقع ان سے رکھیں فیل جو ہوتے رہے
    نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے

    نقش فریادی ہے ان کی شوخی تحریر کا
    معرکہ ہوتا ہے اب تدبیر کا تقدیر کا

    جو سوال امپارٹینٹ آتا ہے ہر اک باب میں
    غور سے دیکھا ہے اس کو دن دہاڑے خواب میں

    ہو گیا ہوں اس لیے بد نام میں اصحاب میں
    آؤٹ کر ڈالا ہے پیپر عالم اسباب میں

  • لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ اردو زبان کے اس ممتاز شاعر کا کلام ایک خواب ناک ماحول کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ منیر نیازی کے طرزِ بیان اور شعری اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    اردو ادب میں منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور ان کی شاعری کسی دبستان کے اثر سے مغلوب نہیں‌ بلکہ وہ اپنی شاعری سے ایک نئے دبستان کی طرح ڈالنے والے ایسے شاعر ہیں جس کی تقلید کرنے کی کوشش ان کے بعد آنے والوں نے کی ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے یہ مشہور اشعار دیکھیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘