Tag: شاعر وفات

  • سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    بطور شاعر مشیر کاظمی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی لازوال گیت تخلیق کیے، جنھیں پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور آج بھی ان کے فلمی گیت بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    مشیر کاظمی اعلیٰ پائے کے گیت نگار تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ 1975ء میں‌ وفات پانے والے مشیر کاظمی کا تعلق انبالہ سے تھا۔ وہ 1915ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ والد پولیس سروس میں تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑ دیا، پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور آ گئے جہاں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لاجواب گیت تخلیق کیے۔

    فلمی دنیا میں بطور نغمہ نگار مشیر کاظمی کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ دوپٹہ کے زیادہ تر نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا اور کام یاب نغمہ نگار بنا دیا۔ مشیر کاظمی نے چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی کام کیا۔ایک ایسی ہی مشہور فلم بشیرا تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی اور اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، اس موقع پر معاون اداکار مشیر کاظمی کے ساتھ ہیرو کے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا فلم بینوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدابہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت ان کی پہلی کام یاب ترین فلم دوپٹہ میں شامل ہوا جو 1952 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ ملّی نغمات اور افواجِ پاکستان سے یکجہتی کے لیے کی گئی مشیر کاظمی کی شاعری ان کے جذبۂ حب الوطنی کی مثال ہے۔

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • عبدالقادر بیدل: فارسی زبان کا عظیم شاعر

    عبدالقادر بیدل: فارسی زبان کا عظیم شاعر

    فارسی زبان کے عظیم شاعر عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ بڑا مقام و مرتبہ اور لازوال شہرت حاصل ہوئی۔ بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔

    طرزِ بیدل کی پیروی تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی مگر ان کی وفات کے بعد شعراء‌ نے ان کا انداز اپنانے کو اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ہندوستان اور مغلیہ سلطنت کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا امتیاز اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ 1644ء میں بیدل نے عظیم آباد، پٹنہ میں آنکھ کھولی اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔

    5 دسمبر 1720ء کو بیدل یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    بیدل کا زمانہ وہ تھا جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔

    اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔

    فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل نے اپنے فارسی کلام سے ایسا قصرِ طلسمِ معانی تخلیق کیا کہ ان کی نظم و نثر عدیم النظیر اور گراں قدر سرمایۂ ادب قرار پائی۔ ان کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

  • "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت!” پابلو نرودا کی یاد دلاتا رہے گا

    "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت!” پابلو نرودا کی یاد دلاتا رہے گا

    لاطینی امریکا میں پابلو نرودا کو ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے ہی پہچان نہیں ملی بلکہ وہ اس خطّے اور دنیا بھر میں انسانیت اور مساوات کے پرچارک کے طور پر مشہور ہیں۔ پابلو نرودا کی شاعری کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں‌۔

    ہسپانوی زبان کے اس شاعر نے دنیا کو رومان پرور اور کیف آگیں نغمات ہی نہیں‌ دیے بلکہ اپنی نظموں کے ذریعے امن اور برابری کا درس بھی عام کیا۔ 1971ء میں پابلو نرودا کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    پابلو نرودا کا وطن چِلی تھا جہاں اس نے 12 جولائی 1904ء کو آنکھ کھولی اور 1973ء میں 23 ستمبر کو ابدی نیند سو رہا۔ نوبیل انعام یافتہ پابلو نرودا کی موت آج بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ کہا گیا کہ انھیں آمر جنرل آگسٹو پنوشے کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔ لیکن یہ اب تک ثابت نہیں ہوسکا۔

    ہندوستان کے ترقی پسند شاعر اور ادیب علی سردار جعفری بھی پابلو نرودا کی شخصیت اور اس کی فکر کے شیدائی رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں: ’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حُسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔ چِلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہرشخص اسے جانتا ہے۔

    کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بہ دیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سَر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔

    وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوش بو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوش بو اس کے نغمات میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    پابلو نرودا نے ایک نظریاتی شخصیت اور انقلاب اور رومان کے شاعر کی حیثیت سے دنیا میں نام کمایا، ادب کا نوبل انعام پایا، لیکن اس سفر میں تنگ دستی اور غربت کے ساتھ طرح طرح کی دوسری صعوبتیں اٹھانا پڑیں، روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی جھیلنے کے ساتھ وہ انقلابی نظمیں لکھتا رہا، جو غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کش اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کرتیں اور انھیں‌ اپنے حق کے لیے ڈٹے رہنے پر اکساتی تھیں۔ اس کی ہسپانوی زبان میں شاعری کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔

    پابلو نرودا نے کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ان کے زمانے میں معاشرہ رومانوی شاعری میں بے باکی کے لیے تیّار نہ تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے انھیں شہوت انگیز اور ہیجانی شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن ان کے انسان دوست نظریات اور رومانوی شاعری کے امتزاج نے انھیں دنیا بھر میں مقبولیت دی۔

    نرودا کی شہرۂ آفاق کتاب "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت” میں رومانوی رجحانات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے چند بند کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو امنِ عالم کا ایک شان دار قصیدہ ہے، اور شاعر کے جذبۂ حبُ الوطنی کو بھی سامنے لاتا ہے۔

    مجھے اپنے چھوٹے سے سرد ملک کی سرزمین سے
    اگنے والے پیڑوں کی جڑوں تک سے محبت ہے
    اگر مجھے ہزار بار مرنا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر مروں گا
    اگر مجھے ہزار بار پیدا ہونا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر پیدا ہوں گا
    بلند قامت صنوبروں کے قریب
    وہاں جہاں جنوبی ہوائیں طوفان خیز ہیں
    اور نئی خرید ی ہوئی گھنٹیاں بج رہی ہیں

    اور پھر دیکھیے کہ یہ حبُ الوطنی ساری دنیا کی محبّت کے سمندر کی ایک لہر بن جاتی ہے۔

    کسی کو میرے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے
    ہمیں سارے کرۂ ارض کے بارے میں سوچنا ہے
    آؤ میزوں پر محبّت کے ڈھیر لگا دیں
    میں نہیں چاہتا کہ خون دوبارہ
    روٹیوں کو اور اناج کو اور موسیقی کو شرابور کر دے
    میری خواہش ہے کہ سب میرے ساتھ آئیں
    کان کن، ننھی سی لڑکی
    وکیل، ملاح، گڑیاں بنانے والے
    سب میرے ساتھ آئیں اور ہم مل کر سنیما دیکھیں
    اور سرخ سے سرخ تر شراب پییں
    میں کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آیا ہوں
    میں تو یہاں گانے آیا ہوں
    اور چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ گاؤ

  • امیر اللہ تسلیم:‌ بامروّت اور وضع دار شاعر

    امیر اللہ تسلیم:‌ بامروّت اور وضع دار شاعر

    تسلیم اردو زبان کے وہ شاعر تھے جنھوں نے زندگی کا بیشتر حصّہ تنگ دستی اور حصولِ معاش کی فکر میں‌ گزارنے کے باوجود اخلاق و مروّت، وضع داری کا بڑا خیال رکھا۔ وہ مشرقی روایات کے دلدادہ اور رکھ رکھاؤ والے انسان تھے جن کے متعدد اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے۔ آج تسلیم کا یومِ‌ وفات ہے۔

    تسلیم نے لکھنوی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اگرچہ ان کے حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں‌، لیکن سنہ پیدائش 1819ء بتایا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ لکھنؤ میں ادنیٰ سے اعلیٰ تک ہر کوئی باذوق اور ادب کا شائق۔ اس ماحول میں‌ تسلیم بھی تہذیب کا مرقع اور دین دار شخصیت کے طور پر مشہور ہوئے۔ عربی اور فارسی کی کتابیں‌ انھوں‌ نے اپنے والد اور بھائی سے گھر پر پڑھی تھیں۔

    تسلیم نے باوضع زندگی بسر کی اور قدیم رکھ رکھاؤ کو ہر حال میں‌ اپنائے رکھا، افلاس اور تنگ دستی کے باوجود صبر شکر ان کا وظیفہ رہا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ کبھی امیر اللہ تسلیم کو کسی شاگرد نے بیزاری سے بات کرتے اور کسی کو جھڑکتے نہیں‌ دیکھا۔ وہ ہمیشہ مخاطب کی دل جوئی کرتے اور شاگردوں کو وقت اور توجہ دیتے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد تسلیم نے دوسری شادی کی تھی۔ نماز روزے کے پابند تھے اور دینی امور کا بہت خیال رکھتے تھے۔

    احمد حسین ان کا نام رکھا گیا تھا، لیکن امیر اللہ کے نام سے مشہور ہوئے اور شاعری میں تسلیم تخلّص اختیار کیا۔ منگلیسی، فیض آباد کا نواحی علاقہ تھا جہاں وہ پیدا ہوئے۔ تسلیم نے شاعری کے ساتھ فنِ خوش نویسی میں کمال حاصل کیا۔ وہ فنِ‌ خوش نویسی میں‌ استاد مشہور تھے۔ اصغر علی نسیم کے شاگرد ہوگئے جو اپنے دور کے ایک استاد شاعر گزرے ہیں۔ تسلیم کے والد محمد علی شاہ کے عہد میں فوج میں ملازم تھے۔ انھوں نے اپنی پیرانہ سالی میں درخواست کی تھی کہ ان کی جگہ بیٹے احمد حسین یعنی تسلیمؔ کو رکھ لیا جائے اور یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ سو، تسلیم ایک پلٹن میں شامل ہوئے جسے واجد علی شاہ کے عہد میں ایک واقعے کے بعد ختم کر دیا گیا۔ تسلیم فارغ کیے جانے کے بعد شعرائے شاہی کے زمرے میں داخل ہو کر 30 روپیہ ماہوار پانے لگے۔ گزر بسر کا یہ سلسلہ زوالِ سلطنت کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔

    تسلیم نے رام پور کا رخ کیا تاکہ وہاں‌ انھیں کوئی ملازمت مل جائے اور زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں۔ لیکن نامراد لکھنؤ لوٹ آئے۔ یہاں انھوں‌ نے نول کشور کے مطبع میں نوکری کی کوشش کی اور کام یاب ہوئے۔ بعد میں نواب علی خاں نے ریاست کا انتظام سنبھالا تو تسلیم کو رام پور طلب کرلیا جہاں وہ ڈپٹی انسپکٹر، مدارس مقرر ہوئے۔ تسلیم کو ازراہِ قدر دانی آخری وقت تک پینشن ملتی رہی۔

    فنِ شاعری میں‌ ان کے استاد نسیم دہلوی تھے۔ تسلیم کو اپنے استاد سے بہت عقیدت اور لگاؤ رہا اور ان کی بڑی عزّت کرتے تھے۔ ان کے فیوض و برکات کا تذکرہ بھی تسلیم نے بہت شدّت سے کیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ نسیم نے خواب دیکھا کہ وہ کسی عمیق کنویں سے پانی بھر رہے ہیں اور ڈول اس قدر گراں ہے کہ کھینچا نہیں‌ جاتا، تب انھوں نے اپنے شاگرد تسلیم کو پکارا کہ تم جا کر اس کو کھینچ لو۔ تسلیم آگے بڑھے اور ڈول کھینچ لیا۔ اس پر ان کے استاد نسیم دہلوی نے کہا کہ یہ کنواں‌ اس دشوار فن سے تعلق رکھتا ہے۔

    مابعد کلاسیکی شاعر اور ضربُ المثل اشعار کے خالق امیر اللہ تسلیم نے 28 مئی 1911ء کو لکھنؤ میں وفات پائی۔ انھوں نے تین دیوان اور متعدد مثنویاں یادگار چھوڑیں۔ مولانا حسرت موہانی انہی کے ایک مشہور اور قابل شاگرد تھے۔

  • اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

    اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

    ہندوستان کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شاعر، اور مقبول فلمی نغمات کے خالق مجروح سلطان پوری 24 مئی 2000ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    رفعت سروش کو مجروح کی رفاقت نصیب ہوئی تھی جو ان کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌، ذہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔ اوائل 1945ء کی کوئی شام۔ اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سیکڑوں علماء، شعراء، دانشور، فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناں اردو بازار سے نکلا اور حسبِ معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیزیہ پہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہر شخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بنچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا یہ ہیں مجروح سلطان پوری۔

    اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعرا کو جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چاہے شکیل ہوں، راز مراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری۔ یا بعد میں شمیم جے پوری۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعراء کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خود نوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنّفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے۔

    مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ انھوں نے اپنی بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی۔

    مجروح سلطان پوری اُن خوش نصیب شعراء میں سے ہیں جنھوں نے کم سے کم کہا، اور زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ جب فلمی دنیا کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے تو اس چیختی چنگھاڑتی دنیا میں” طوطئ مجروح” کی ضرورت کم ہونے لگی اور انھوں نے پھر ادبی دنیا کی طرف سبقت کی۔ وہ واپس آئے اپنی ایک نظم "قلم گوید کے” ساتھ مگراب زمانہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ مجروح نے اپنے پرانے سرمایۂ غزل میں بہت کم اضافہ کیا اور ان کی شہرت کا ضامن دراصل ان کا نوجوانی کا کلام ہی ہے۔ بہرحال چند سال پیشتر انھیں غالب ایوارڈ اور پھر اردو کا سب سے بڑا انعام "اقبال سمان” بھی پیش کیا گیا اور وہ آخر دم تک شہرت کی بلند ترین چوٹیوں پر متمکن رہے۔ ان کی اس شہرت میں سیاسی جوڑ توڑ اور کتر بیونت کا کوئی دخل نہیں۔ وہ ایک کھرے انسان اور کھرے شاعر تھے۔ کینہ پروری، بغض و حسد، غیبت اور اس طرح کی دوسری خباثتوں سے ان کا ذہن پاک تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور آخر وقت تک کام کرتے رہے۔

    رفعت سروش کے قلم سے نکلی یادوں کا سلسلہ یہاں تھامتے ہوئے اب ہم اس شاعر کے کلام کی خصوصیات اور اُس انفرادیت کی بات کرتے ہیں جس نے مجروح سلطان پوری کو نام و مقام دیا۔ وہ بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے میں غزل کی کلاسیکی روایت میں سیاسی رمزیت پیدا کرنے والے ایسے شاعر تھے جس نے ثابت کیا کہ صنفِ غزل میں اپنے تغزّل کو قربان کیے بغیر بھی ہر طرح کے مضامین، جذبات و احساسات اور تصورات کو مؤثر اور دل نشیں پیرائے میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مجروح کا دور ادب میں‌ ترقی پسندی کے عروج کا تھا اور وہ وقت تھا جب نظم کے مقابلہ میں غزل کو کم تَر درجہ دیا جاتا تھا۔ اس ماحول میں مجروح نے غزل کی آبرو کو سلامت رکھا۔ انھوں نے اس صنفِ‌ سخن کو اس کی تمام نزاکت، حسن اور بانکپن کے ساتھ برتا اور اسے تازگی عطا کی۔ وہ اس دور کے ایسے شاعر تھے جس نے اپنا مجموعۂ کلام بھی ’’غزل‘‘ کے نام سے شایع کروایا۔

    مجروح سلطان پوری 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسرار حسن خان تھا۔ ان کے والد پولیس میں ملازم تھے اور مجروح اُن کی اکلوتی اولاد تھے جنھیں تحریکِ خلافت کے زیرِ اثر انگریزی تعلیم نہیں دلائی گئی اور مدرسہ میں داخل کروائے گئے۔ وہاں انھوں نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ لیکن مدرسہ کے سخت ماحول نے انھیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مجروح نے 1933ء میں لکھنؤ کے طبّیہ کالج میں داخلہ لیا اور حکمت کی سند حاصل کی۔ وہ معاش کی خاطر ٹانڈہ میں مطب قائم کر کے بیٹھے لیکن کام یاب نہیں ہوئے۔ اسی زمانہ میں ان کو ایک لڑکی سے عشق ہو گیا اور جب یہ دل لگی اور دل داری راز نہ رہی تو مجروح رسوائی کے ڈر سے ٹانڈہ چھوڑ کر واپس سلطان پور آئے گئے۔ کالج میں تعلیم کے دوران وہ موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور میوزک کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا، لیکن والد کو خبر ہوئی تو انھوں نے اس سے روک دیا۔ یوں مجروح موسیقی کا شوق پورا نہیں کرسکے۔ 1935 ء میں مجروح سلطان پوری نے شاعری شروع کی۔ پہلی مرتبہ سلطان پور کے ایک مشاعرہ میں انھوں نے غزل پر داد سمیٹی۔ مجروح ان شعراء میں سے تھے جن کا ترنم غضب کا تھا۔ مشاعروں میں شرکت اور اپنے ترنم کی وجہ سے شہرت پانے والے مجروح کو بعد میں جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسی ہستیوں کی صحبت نصیب ہوئی اور مجروح کی فکر اور ان کے فن کو نکھارنے میں‌ ان کا بڑا ہاتھ رہا۔

    مجروح سلطان پوری نے فلمی دنیا کے لیے کئی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں‌ فلم انڈسٹری میں کام ملتا رہا۔ مجروح لگ بھگ پچاس سال فلمی دنیا سے جڑے رہے اور 300 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔

    جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں‌ کہ مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مشفق خواجہ کے الفاظ ہیں‌ کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت ایک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصّہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور معروف گیت نگار کے کئی اشعار آج بھی باذوق لوگوں کو یاد ہوں گے۔ ان کا زبان زدِ عام شعر ہے:

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    مجروح کی غزل کے چند شعر دیکھیے

    شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
    کبھی اک چراغ جلا دیا، کبھی اک چراغ بجھا دیا

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں، بات ہے زمانے کی

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

    ممبئی میں وفات پانے والے مجروح سلطان پوری کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • سرور بارہ بنکوی: جنھیں مشرقی پاکستان کے فن کار اپنا استاد مانتے تھے

    سرور بارہ بنکوی: جنھیں مشرقی پاکستان کے فن کار اپنا استاد مانتے تھے

    تقسیمِ ہند کے بعد سرور بارہ بنکوی نے بالخصوص مشرقی پاکستان کی فلمی صنعت میں اپنی نغمہ نگاری کی بدولت خوب شہرت حاصل کی۔ ان کا شمار فلم انڈسٹری کے نام ور نغمہ نگاروں میں‌ ہوتا تھا۔ وہ ایک خوب رُو اور انتہائی شائستہ انسان تھے اور ادبی حلقوں میں‌ انھیں ایک عمدہ غزل گو شاعر کے طور بھی پہچانا جاتا تھا۔

    سعیدُ الرّحمٰن ان کا اصل نام اور تخلّص سُرور تھا جب کہ آبائی علاقے بارہ بنکی کی نسبت وہ سُرور بارہ بنکوی مشہور ہوئے۔ فلمی دنیا میں لازوال گیتوں کے اس خالق نے فلمی مکالمے بھی لکھے اور تین فلموں کی ہدایت کاری بھی کی جو ناکام ثابت ہوئیں۔ سرور کی وجہِ شہرت ان کی شاعری ہے۔ کئی مقبول گیتوں کے علاوہ سرور کو ایک عمدہ غزل گو شاعر کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔

    سابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی پہلی اردو فلم تو جاگو ہوا سویرا (1959) تھی لیکن پہلی کمرشل کے طور پر اردو زبان میں‌ بننے والی فلم چندا کا نام لیا جاتا ہے جو 1962 میں‌ ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایت کار احتشام، شبنم، رحمان اور روبن گھوش کی بھی یہ پہلی اردو فلم تھی۔ سرور بارہ بنکوی نے اپنی اس پہلی فلم کے جملہ گیتوں کے علاوہ مکالمے بھی لکھے تھے۔ مشرقی پاکستان کی فلمی صنعت کا تذکرہ ہو اور سرور بارہ بنکوی کا نام نہ آئے یہ ممکن نہیں۔ سرور صاحب ڈھاکہ میں بے حد مقبول تھے۔ بنگلہ دیش کی فلمی صنعت کے لوگ سرور بارہ بنکوی کے احسان مند بھی تھے اور ان سے بہت محبت بھی کرتے تھے۔ اس زمانے میں وہاں اردو فلموں کے لیے سرور صاحب نے بہت کام کیا۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھی سرور بارہ بنکوی ڈھاکہ جاتے تو ان کے ساتھ بہت گرم جوشی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں فن کاروں کو سرور بارہ بنکوی نے اردو بولنا اور لکھنا سکھایا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ دل سے ان کی عزّت کرتے تھے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور ہدایت کار کی مغربی پاکستان میں بطور نغمہ نگار پہلی فلم انجمن (1970) تھی۔ اس کے دو برس بعد فلم احساس میں رونا لیلیٰ کی آواز میں‌ ان کا گیت "ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے۔” نے سرحد پار بھی مقبولیت حاصل کی، اسی طرح‌ 1977 میں‌ فلم آئینہ میں مہدی حسن کی آواز میں مشہور گیت "کبھی میں سوچتا ہوں، کچھ نہ کچھ کہوں” نے بھی دھوم مچائی اور فلم نہیں ابھی نہیں جو کہ 1980 میں ریلیز ہوئی ایک گیت "سماں، وہ خواب سا سماں” بھی بہت مقبول ہوا جسے اخلاق احمد نے گایا تھا، یہ بھی سرور بارہ بنکوی کا تحریر کردہ تھا۔

    اس معروف فلمی نغمہ نگار نے تین فلمیں آخری سٹیشن (1965)، تم میرے ہو (1968) اور آشنا (1970) کے نام سے بنائی تھیں‌ لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم کام یاب نہیں ہوئی تھی۔

    سرور بارہ بنکوی کی بطور نغمہ نگار دو درجن کے قریب فلمیں ہیں جن میں ملن 1964 کی وہ فلم تھی جس کا سپر ہٹ گیت تھا: تم سلامت رہو، مسکراؤ ہنسو، میں تمہارے لیے گیت گاتا رہوں۔ یہ دل کش گیت بشیر احمد نے گایا تھا۔

    سرور بارہ بنکوی کی غزل کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
    آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

    بھارت کے صوبہ اترپردیش کے گاؤں بارہ بنکی میں 1919 کو پیدا ہونے والے اس شاعر کی زندگی کا بیشتر حصّہ ڈھاکہ میں گزرا اور وہیں 3 اپریل 1980 کو ان کا انتقال ہوا۔ سرور بارہ بنکوی وہاں ایک فلم بنانے کے سلسلے میں‌ گئے ہوئے تھے جہاں انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ جاں بَر نہ ہوسکے۔ ان کا جسدِ خاکی کراچی لایا گیا اور سوسائٹی کے قبرستان میں‌ تدفین کی گئی۔ سرور صاحب ایک خوش لباس اور خوش گفتار شخص مشہور تھے۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ اپنی تینوں‌ فلموں پر خاصا سرمایہ لگا چکے تھے، لیکن وہ فلاپ ہوگئیں‌ اور سرور بارہ بنکوی کو مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ سخت دباؤ میں تھے اور انہی دنوں پڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سرور نے پہلے کراچی میں قیام کیا اور پھر ڈھاکا چلے گئے تھے۔ وہاں ان کے فلمی سفر کا آغاز فلم تنہا کے لیے مکالمہ نویسی سے ہوا اور پھر وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے نغمہ نگاری کرنے لگے اور کام یاب رہے۔ ان کے گیت آ ج بھی سننے والوں پہ سحر طاری کر دیتے ہیں جس میں ’’تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘‘،’’ ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے‘‘، اور ’’ کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں‘‘ جیسے فلمی گیت شامل ہیں۔

    سروربارہ بنکوی کے دو شعری مجموعے سنگِ آفتاب اور سوزِ گیتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔

  • اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    ’’میں نے پیار کیا‘‘ 1998ء میں‌ ہندی سنیما کی زینت بنی تھی۔ سلمان خان اور بھاگیا شری کی اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور فلم کے لیے اسد بھوپالی کے تخلیق کردہ دو گیتوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘ وہ گیت ہیں‌ جو آج بھی ایک نسل کو ان کی نوجوانی کے دنوں‌ کی یاد دلاتے ہیں۔ آج ان گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    وہ 10 جولائی 1921ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا تو اسد بھوپالی کے نام سے پہچان بنائی۔

    نوجوانی میں انھوں نے ممبئی جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ 28 برس کے اسد بھوپالی ممبئی پہنچے تو یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو اپنی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل گیا۔

    یہ 1949ء کا ذکر ہے جب فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادران کو کسی نے اسد بھوپالی سے ملوا دیا اور یوں ممبئی آنے والے اس نوجوان کو پہلی مرتبہ فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع مل گیا۔ اس فلم کے دونوں ہی گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے اور یوں اسد بھوپالی کی کام یابیوں کا بھی آغاز ہوگیا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے بھی انھیں دو گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے گیت لکھے۔ یہ فلم اور اس کے گیت دونوں سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اسد بھوپالی نے اس فلم کے چھے گیت تحریر کیے تھے۔ 1949ء سے اپنی زندگی کے آخری برس تک اسد بھوپالی نے کم و بیش 400 فلمی گیت تخلیق کیے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔

  • اردو زبان کے مقبول شاعر محسن بھوپالی کی برسی

    اردو زبان کے مقبول شاعر محسن بھوپالی کی برسی

    محسن بھوپالی نے اردو میں‌ رائج اصنافِ سخن کو ندرتِ خیال کے ساتھ اپنے اسلوب ہی سے نہیں سجایا بلکہ اسے ایک نئی صنف نظمانے بھی دی جسے ان کے ہم عصر شعرا اور نقّادوں نے بھی سراہا۔ وہ اردو کے مقبول شاعر تھے۔

    آج محسن بھوپالی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ وہ 1932ء میں بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    تعلیم کے ساتھ ان کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کا کلام مختلف ادبی جریدوں اور اخبارات میں‌ شایع ہونے لگا۔ کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں محسن بھوپالی نے شرکت کی اور اپنے کلام پر خوب داد پائی۔ انھوں نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    محسن بھوپالی کا یہ قطعہ ان کی پہچان بن گیا تھا۔

    تلقین صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    ان کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہوا۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو کے اس مقبول شاعر کو کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر منیر نیازی کی برسی

    اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر منیر نیازی کی برسی

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کی اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں شاعری نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ وہ اپنے دور کے سب سے جدا اور منفرد شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ آج منیر نیازی کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 2006ء ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    منیر نیازی 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے قصبہ خان پور کے اک پشتون گھرانے میں پپدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب ان کے والد وفات پاگئے۔ منیر نیازی کی پرورش ان کی والدہ اور چچاؤں نے کی۔ ان کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ یوں منیر نیازی بھی مطالعہ کے عادی ہوگئے اور بعد میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے لیے شاعری شروع کردی۔ منیر نیازی نے ابتدا میں چند کہانیاں اور افسانے بھی لکھے تھے، لیکن یہ سلسلہ شعروسخن میں ان کے شوق کے آگے ماند پڑ گیا۔

    منیر نے ابتدائی تعلیم ساہیوال میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے، لیکن یہ ملازمت ان کے ادبی ذوق کی تسکین کے راستے میں رکاوٹ تھی، سو انھوں نے نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

    لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کرنے والے منیر نے تقسیمِ ہند کے بعد خاندان کے ساتھ پاکستان میں رہنا پسند کیا۔ یہاں انھوں نے کاروبار شروع کیا، لیکن خسارے جھیلنا پڑے اور پھر لاہور میں مجید امجد کے ساتھ ادبی پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا۔ منیر نیازی نے مختلف اخبار اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں انھوں نے فلمی گیت نگاری کی اور ان کے تحریر کردہ کئی نغمے بہت مشہور ہوئے۔ ان میں ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، ’’جس نے مرے دل کو درد دیا‘‘ اور ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘، ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ شامل ہیں۔

    منیر نیازی نے اردو ادب کو 13 شعری مجموعے دیے جن میں تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعتِ سیار شامل ہیں جب کہ پنجابی زبان میں ان کے تین شعری مجموعے شایع ہوئے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ اردو کے صاحبِ اسلوب اور اپنی لفظیات میں بے مثل منیر نیازی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تُو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
    یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں

    ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
    کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں

    جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
    کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

    جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
    غم سے پتّھر ہو گیا، لیکن کبھی رویا نہیں

  • یومِ وفات: ممتاز شاعر ثاقب لکھنوی کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے

    یومِ وفات: ممتاز شاعر ثاقب لکھنوی کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے

    یہ دو اشعار اردو ادب کے طالب علموں اور باذوق قارئین کے حافظے میں ضرور محفوظ ہوں گے جنھیں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے اور اپنی تحریر یا تقریر کو پُرتاثیر بنانے کے لیے مشاہیر اور خواص سبھی نے موقع کی مناسبت سے برتا۔

    زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
    ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

    باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
    جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے

    ان اشعار کے خالق ثاقب لکھنوی ہیں۔ آگرہ میں 1869ء میں پیدا ہونے والے ثاقب لکھنوی کے متعدد اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 1949ء میں وفات پائی۔

    ان کے والد نے آگرہ چھوڑ کر لکھنؤ کا رُخ کیا تھا اور اسی شہر کی نسبت ثاقبؔ کے نام سے جڑی رہی۔ ان کا اصل نام مرزا ذاکر حسین قزلباش تھا۔ ابتدائی تعلیم اس دور کے رواج کے مطابق ہوئی اور انھوں نے عربی، فارسی اور اردو کی استعداد حاصل کرنے کے بعد آگرہ کے کالج سے انگریزی میں انٹرنس پاس کیا۔ وہیں ان کی ملاقات صفیؔ لکھنوی اور ذکیؔ مرادآبادی سے ہوئی جو ادیب اور انشا پرداز تھے۔ ثاقب لکھنوی موزوں طبع اور شاعری کی طرف مائل تھے اور ان کی صحبت نے میں ان کے جوہر خوب کھلے۔

    آگرہ میں تعلیم مکمل کرکے جب لکھنؤ آئے تو ان کی ملاقات راجہ محمود آباد محمد امیر حسن خاں بہادر سے ہوئی جو علم و فنون کے بڑے قدر دان تھے انھوں نے ثاقبؔ لکھنوی کو ریاست میں‌ ادب اور اس سے متعلق سرگرمیوں کے فروغ کی ذمہ داری سونپ دی اور ماہانہ وظیفہ جاری کردیا۔ لیکن خوش حالی نصیب نہ ہوئی۔ کاروبار کیا مگر اس میں بھی خسارہ ہوا۔ آخر 1906ء میں کلکتہ چلے گئے۔ وہاں سفیرِ ایران نے ان کی قابلیت سے متاثر ہو کر اپنا معتمدِ خاص مقرر کرلیا۔ اتفاق سے دو برس بعد 1908ء میں راجہ محمود آباد نے انھیں پھر دعوت دے کر بلوا لیا اور یہ واپس لکھنؤ آگئے اور وہیں عمر گزار دی۔

    وہ ایک ایسے کشمکش کے دور میں پیدا ہوئے تھے جو سیاسی، تہذیبی اور سماجی اعتبار سے انقلابات دیکھ رہا تھا۔ قدیم اقدار ٹوٹ رہی تھیں اور دہلی و لکھنؤ کی ادبی رونقیں ماند پڑچکی تھیں۔ یہ سیاسی اور سماجی حالات اور زندگی کے مسائل نے ان کی شاعری میں سوز و گداز پیدا کردیا تھا۔ وہ زندگی کے رنج و غم اور تلخ حقائق کو اپنے اشعار میں باندھتے چلے گئے اور ان کی شاعری میں کلاسیکی اور جدید دور کی خوب صورتی بہم ہو گئی۔

    ثاقبؔ لکھنوی کے کلام کو ان کے احساس کی شدّت، تخیل کی بلندی اور زبان کی نرمی و لطافت نے نمایاں کردیا۔ زندگی کی 80 بہاریں دیکھنے والے اس شاعر نے ایک دیوان یادگار چھوڑا۔

    ثاقب لکھنوی کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
    زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے