Tag: شاعر وفات

  • اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
    جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا

    یہ شعر اکثر اثنائے گفتگو، تقریر اور تحریر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے سنایا اور لکھا جاتا ہے۔ اس شعر کے خالق محشر بدایونی ہیں جن کا آج یومِ وفات ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی نے 9 نومبر 1994ء دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔

    4 مئی 1922ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بدایوں میں آنکھ کھولنے والے محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ شعر و سخن کی دنیا میں محشرؔ تخلّص کیا اور بدایوں کی نسبت کو اپنے اس تخلّص سے جوڑ کر محشر بدایونی کہلائے۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم بدایوں سے مکمل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ علم و ادب سے وابستگی اور شعری سفر کا آغاز وہ بہت پہلے کرچکے تھے اور یہاں اپنے فن و شوق کو جاری رکھنے اور معاش کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔

    اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کا جریدہ آہنگ شایع ہوا کرتا تھا۔ محشر بدایونی نے اس جریدے کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں مدیر بنائے گئے۔ انھوں نے کراچی کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کیا تو جلد ہی شہر کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنے کلام کے سبب پہچان بنالی۔

    محشر بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی کتابوں میں شہرِ نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصلِ فردا، حرفِ ثنا اور شاعر نامہ، سائنس نامہ شامل ہیں۔

    انھوں نے کراچی میں‌ وفات پائی اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

    محشر بدایونی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے

    کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
    ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے

  • ساحر لدھیانوی جسے تاج محل سے نفرت تھی!

    ساحر لدھیانوی جسے تاج محل سے نفرت تھی!

    ہندوستان کے مغل شہنشاہ شاہ جہان کی اپنی محبوب ملکہ سے بے پناہ محبّت اور شہرہ آفاق عمارت تاج محل کی تعمیر جہاں اس دور کی ایک یادگار اور عجوبہ ہے، وہیں ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی کی وہ نظم بھی پاک و ہند میں‌ مشہور ہے، جس کے ہر شعر میں محبّت کی اس یادگار سے نفرت اور بیزاری جھلک رہی ہے۔

    آج اسی ساحر لدھیانوی کی برسی ہے۔ اس مشہور شاعر کی نظمیں اثرانگیز اور دلوں میں اتر جانے والی ہیں۔ ان کے باغیانہ افکار نے ایک عہد کو متاثر کیا۔ ان کی شاعری میں احتجاج اور محبت کے رنگ بہم ہوتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ دراصل ان کے جذبات اور احساسات کا وہ مجموعہ تھا جس میں دردمندی، محرومی، بیزاری، غصہ، نفرت، محبت، کیف و مستی، انا، ضد، شکوے شکایات سبھی کچھ تھا۔ وہ اپنے زمانے میں نوجوانوں میں مقبول اور ہر طبقے کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے کچلے ہوئے طبقوں سے ہمدردی کے جذبات ملتے ہیں، ان کی شاعری اپنے عشقیہ مزاج کے باوجود ایک گہرے سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔

    ساحر لدھیانوی 25 اکتوبر 1980ء کو بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے تھے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔

    ہندوستان کی فلمی شاعری کے معیار کو بلند کرنے اور فلمی نغموں میں ادبی حسن پیدا کرنے کے حوالے سے بھی ان کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ انھیں بہترین گیت نگار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    ساحر مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ 1939ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ لیکن آگے نہ پڑھ سکے اور کالج سے نکال دیا گیا۔ یہی وہ دن تھے جب وہ اشتراکی نظریے سے متاثر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ ناکام عشق کے احساس غم نے ان کی شاعری کو چمکا دیا اور ان کے لفظوں میں ایک نئی تاثیر ڈال دی۔

    شاعری تو اسکول کے زمانے ہی میں‌ شروع کردی تھی، لیکن بعد میں لاہور کی ادبی فضا اور صحبتوں نے ان کی ادبی شخصیت اور شاعری کو بھی چمکایا۔ وہ کئی ادبی پرچوں کے مدیر رہے اور فلم انڈسٹری کے لیے لازوال گیت تخلیق کیے۔ 1950ء میں ساحر نے بمبئی میں مستقل رہائش اختیار کرلی تھی اور اپنا فلمی سفر جاری رکھا۔

    وہ ایک رومان پرور شاعر تھے جن کے عشق کی داستانیں سبھی کی زبان پر تھیں اور عشق میں‌ ناکامی نے انھیں‌ سخت مایوس اور تلخ بنا دیا تھا۔ انھوں نے تاج محل کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی وہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

    تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
    میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

    بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
    ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
    اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
    میری محبوب پسِ پردہ تشہیر وفا
    تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
    مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
    اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

    ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
    کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
    لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
    کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
    یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
    مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
    سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
    جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
    میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی

    جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
    ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
    آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
    یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
    یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
    اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
    ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
    میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

  • یومِ وفات: شعری مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات احسن مارہروی کی شاہ کار تصنیف ہے

    یومِ وفات: شعری مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات احسن مارہروی کی شاہ کار تصنیف ہے

    آج اردو زبان کے مشہور شاعر اور متعدد نثری کتب کے مصنّف احسن مارہروی کا یومِ وفات ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ میں 1940ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام سید علی احسن تھا، عرفیت شاہ میاں جب کہ شعر گوئی کا آغاز کیا تو احسن تخلّص اختیار کیا۔ مارہرہ ضلع ایٹہ میں 9 نومبر 1876ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد 1895ء میں استاد داغ دہلوی کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔ 1921ء میں علی گڑھ میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوئے اور بعد میں پروفیسر ہوگئے۔

    داغ کی شاگری اختیار کرنے بعد انھوں نے ماہنامہ گلدستہ ریاضِ سخن جاری کیا۔ 1898ء میں مارہرہ سے حیدر آباد دکن چلے گئے۔ 1904ء میں اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے شہر لاہور آئے اور لالہ سری رام کے تذکرے کا مسوّدہ لکھا۔ بعد ازاں استاد داغ کی یاد میں رسالہ فصیحُ الملک جاری کیا۔

    انھوں نے شاعری کے مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات یادگار چھوڑا۔ نمونہ منثورات احسن مارہروی کی ایک شاہ کار کتاب ہے جس میں اردو کی ابتدا، نثر کے وہ تمام نمونے جن کا ریاست اور دفاتر سے تعلق ہے اور ایک زبان کو وقیع بنا سکتے ہیں، شامل ہیں۔ اردو زبان کی شعبہ وار تاریخی ترقی کے نقطۂ نظر سے ان کے یہ مضامین اور دستاویزی نمونے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1930ء میں شائع بھی ہوئے جن میں ریاستی دفاتر سے متعلق احکام و ہدایات اور کارگزاریوں اور اسی نوع کے نامے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ فاضل مرتّب نے دفتری اردو میں ہونے والی لسانی تبدیلیوں کو بیان کرتے ہوئے دفتری نظام کے ارتقا کا مفصّل جائزہ بھی لیا ہے۔

    ان کی کتب ’’جلوۂ داغ‘‘ (استاد داغ کی زندگی) ’’انشائے داغ‘‘(مکتوباتِ استاد داغ)، ’’تاریخ نثر اردو‘‘، اور تحفہ احسن‘‘، ’’احسن الانتخاب‘‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    احسن مارہروی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کیا ضرورت بے ضرورت دیکھنا
    تم نہ آئینے کی صورت دیکھنا

    پھر گئیں بیمارِ غم کو دیکھ کر
    اپنی آنکھوں کی مروت دیکھنا

    ہم کہاں، اے دل کہاں دیدارِ یار
    ہو گیا تیری بدولت دیکھنا

    ہے وہ جب دل میں تو کیسی جستجو
    ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا

    سامنے تعریف پیچھے گالیاں
    ان کی منہ دیکھی محبت دیکھنا

    اور کچھ تم کو نہ آئے گا نظر
    دل میں رہ کر دل کی حسرت دیکھنا

    صبح اٹھ کر دیکھنا احسنؔ کا منہ
    ایسے ویسوں کی نہ صورت دیکھنا

  • ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    آج فقیر منش ساغر صدیقی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اردو زبان کا یہ شاعر تلخیٔ ایّام اور زمانے کی ستم ظریفی کا شکار رہا۔ اسی لیے رنج و غم، درد و الم، ناامیدی، حسرت و یاس اور دوراں کا فریب ساغر صدیقی کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔ ساغر نے 19 جولائی 1974ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔

    ساغر صدیقی کے تفصیلی اور مستند حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں۔ انھوں نے 1928ء میں انبالہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا خاندانی نام محمد اختر تھا۔ غربت ان کے گھر پر گویا راج کرتی تھی۔ ان حالات میں باقاعدہ تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا۔ اپنے محلّے کے ایک بزرگ سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ نوعمری میں امرتسر چلے گئے اور وہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے، انھوں نے کنگھیاں بنانے کا فن سیکھا اور اسی عرصے میں‌ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا۔

    1944ء میں امرتسر میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں کسی نے ساغر کو بھی پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا، روانی تھی اور وہ مشاعرے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی اوّلین مشاعرے نے انھیں‌ مشہور کردیا تھا۔ وہ لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدہ موعو کیے جانے لگے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں لطیف انور گورداسپوری کی صحبت میں‌ رہے اور بہت فیض پایا۔ ساغر کو ان کی شاعری اور مشاعروں میں‌ شرکت کے سبب کچھ آمدنی ہونے لگی تھی۔ ان کا کلام ہر بڑے روزنامے، ادبی جریدوں اور رسالوں میں شایع ہونے لگا۔ اسی مقبولیت کے زمانے میں‌ ساغر کو کچھ ایسے لوگ ملے جن کی خراب صحبت نے انھیں نشّے کی لت میں‌ مبتلا کردیا۔ انھوں نے بھنگ، شراب، افیون اور چرس وغیرہ کا استعمال شروع کردیا اور مستی و بے حالی کے عالم میں‌ جہاں جگہ مل جاتی پڑ جاتے۔ مشقِ سخن تو جاری رہی، لیکن ساغر کا حلیہ، ان کی صحّت بگڑتی چلی گئی اور وہ اپنی جسمانی صفائی اور ہر بات سے بے پروا فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے لگے۔

    اس زمانے میں بھی لوگ انھیں کچھ ہوش میں پاتے تو مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی، لیکن وقت کے ساتھ ساغر اس سے بھی گئے۔ انھیں اکثر داتا دربار کے اطراف اور احاطے میں‌ دیکھا جانے لگا تھا اور وہیں‌ قریب ہی فٹ پاتھ پر ان کے شب و روز بسر ہورہے تھے۔

    کہتے ہیں ساغر نشّے کے لیے رقم دینے والوں کے لیے کلام لکھ کر دینے لگے تھے جو وہ اپنے نام سے شایع کرواتے تھے۔ ساغر صدیقی نے ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور ان کا کلام مقبول ہوا۔

    اس حالت کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ امرتسر اور لاہور میں مشہور ہوچکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بھی خاصی حد تک مجموعوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔ ان کی تصانیف میں ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، شبِ آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوحِ جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘ شامل ہیں۔

    ساغر فالج کا شکار ہوئے تو ان کا ایک ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گیا۔ ان کا جسم سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا اور ایک روز فٹ پاتھ پر ہی ساغر نے دَم توڑ دیا۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ساغر صدیقی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

    بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

    اب کہاں ایسی طبیعت والے
    چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
    ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

  • ملّی نغمے ‘دل دل پاکستان’ کے خالق نثار ناسک کی برسی

    ملّی نغمے ‘دل دل پاکستان’ کے خالق نثار ناسک کی برسی

    آج "دل دل پاکستان” جیسے مقبول ترین ملّی نغمے کے خالق نثار ناسک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 3 جولائی 2019ء کو انتقال کرگئے تھے۔ نثار ناسک نے اردو اور پنجابی زبان میں شاعری کی۔

    سن 1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والے نثار ناسک کی وجہِ شہرت ”دل دل پاکستان“ تھا جسے جنید جمشید نے گایا تھا۔ اس نغمے نے جنید جمشید کو راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    نثار ناسک کی دو کتابیں ”چھوٹی سمت کا مسافر“ اور ”دل دل پاکستان“ بھی شائع ہوچکی ہیں۔ انھیں پی ٹی وی کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا جب کہ ادبی خدمات کے اعتراف میں‌ انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا۔

    نثار ناسک کے ملّی نغمے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ بھی کہا گیا ہے۔

  • یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    کلاسیکی موسیقی میں استاد کا مرتبہ پانے والے علی اکبر خان کا شمار ان فن کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے مغرب کو مشرقی موسیقی سے آشنا کیا۔ 18 جون 2009ء کو اس نام وَر اور باکمال فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

    علی اکبر خان نے 1922ء میں بنگال کے شہر کومیلا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد علاءُ الدّین بھی فنِ‌ موسیقی میں استاد مشہور تھے اور انہی کے زیرِ سایہ علی اکبر خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بنیادی رموز سیکھے۔ بعدازاں تربیت کے لیے ‘سنیہ میہار گھرانے ’ سے وابستہ ہوگئے۔

    علی اکبر خان 22 سال کے ہوئے تو ریاست جودھ پور میں دربار سے بحیثیت موسیقار وابستہ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ بھارت میں رہے، لیکن 1967ء میں امریکا منتقل ہوگئے اور ریاست کیلی فورنیا میں سکونت اختیار کرلی، بعد میں انھوں نے برکلے میں علی اکبر کالج آف میوزک قائم کیا، جس میں اُن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔

    سرود کے علاوہ استاد علی اکبر خان ستار، طبلہ اور ڈرم بھی مہارت اور خوبی سے بجاتے تھے۔ سرود کی تعلیم انھوں نے اپنے والد سے اور طبلے کی تربیت اپنے چچا فقیر آفتاب الدّین سے لی تھی۔

    کہتے ہیں ‘سُر بہار’ پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی ہی نہ تھا۔ استاد علی اکبر خان نے بھارت سمیت دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    1989ء میں انھیں بھارت کا دوسرا بڑا شہری اعزاز عطا کیا گیا، جب کہ 1997ء میں انھیں امریکا میں روایتی فنون کے لیے معروف ‘ہیریٹیج فیلوشپ’ دی گئی۔ ان کی اہمیت اور اپنے فن کے سبب عالمی سطح پر پذیرائی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں 5 مرتبہ گریمی ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں وفات پانے والے استاد علی اکبر خان کو برصغیر ہی نہیں‌ بلکہ دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔

  • معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    18 جون 1998ء کو معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی وفات پاگئے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان کے اُن تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جن کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آجانے کے باوجود ان کا نام اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا بھارتی فلم انڈسٹری میں تذکرہ ہوتا رہا۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا جیسے مقبول گیت دیے تھے۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر 25 مئی 1977ء کو انتقال کرگئے تھے۔ جعفر طاہر کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کو روایتی دائرے سے نکال کر تازگی بخشی اور اس صنفِ سخن کو تخلیق کے نئے آہنگ کے ساتھ وسعت عطا کی۔

    29 مارچ 1917ء کو جھنگ میں پیدا ہونے والے جعفر طاہر نے وہیں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کیے اور پھر برّی فوج سے منسلک ہوگئے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے وابستہ ہوئے اور اپنی وفات تک یہ تعلق برقرار رکھا۔

    جعفر طاہر کے شعری مجموعے ہفت کشور، ہفت آسمان اور سلسبیل کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ ہفت کشور وہ شعری مجموعہ ہے جس پر 1962ء میں طاہر جعفر نے آدم جی ادبی انعام حاصل کیا تھا۔

    جعفر طاہر کی غزلوں کے موضوعات اور ان کا اسلوب بھی اپنی انفرادیت کے سبب انھیں تخلیقی وفور سے مالا مال اور ثروت مند ظاہر کرتا ہے۔ جعفر طاہر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یہ تمنا تھی کہ ہم اتنے سخنور ہوتے
    اک غزل کہتے تو آباد کئی گھر ہوتے

    دوریاں اتنی دلوں میں تو نہ ہوتیں یا رب
    پھیل جاتے یہ جزیرے تو سمندر ہوتے

    اپنے ہاتھوں پہ مقدر کے نوشتے بھی پڑھ
    نہ سہی معنیٰ ذرا لفظ تو بہتر ہوتے

    ہم اگر دل نہ جلاتے تو نہ جلتے یہ چراغ
    ہم نہ روتے جو لہو آئنے میں پتھر ہوتے

    ہم اگر جام بکف رقص نہ کرتے رہتے
    تیری راہوں میں ستارے نہ گُلِ تر ہوتے

    صورتیں یوں تو نہ یاروں کی رلاتی رہتیں
    اے غمِ مرگ یہ صدمے تو نہ دل پر ہوتے

    ہم رہے گرچہ تہی دست ہی جعفر طاہرؔ
    بس میں یہ بات بھی کب تھی کہ ابو ذر ہوتے

    راولپنڈی میں وفات پانے والے اردو کے اس ممتاز شاعر کو جھنگ میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • شوق قدوائی کا تذکرہ جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور تھے

    شوق قدوائی کا تذکرہ جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور تھے

    شوق قدوائی اردو کے معروف شاعر تھے جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا انتقال 27 اپریل 1925ء کو ہوا تھا۔ شوق قدوائی کا اصل نام شیخ احمد علی قدوائی تھا اور شوق تخلّص۔ وہ اپنی ملازمت اور سرکاری منصب کی وجہ سے منشی احمد علی کے نام سے بھی مشہور تھے۔

    شوق قدوائی ضلع لکھنؤ کے قصبہ جگور میں 1852ء میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق اور رائج زبانیں‌ سیکھیں‌۔ وہ فارسی اور عربی جانتے تھے اور انگریزی بھی پڑھی تھی۔

    شوق قدوائی نے مظفر علی اسیر کی شاگردی اختیار کی جو رشتے میں ان کے دادا تھے۔ کچھ مدّت فیض آباد میں تحصیل دار کے فرائض انجام دیے۔ بعد میں ملازمت ترک کرکے صحافت شروع کی۔ انھوں نے لکھنؤ سے اخبار ’’آزاد‘‘ جاری کیا۔ شوق نے ریاست بھوپال میں بھی مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی تھیں اور وہیں سے پنشن بھی پاتے تھے۔

    آخر عمر میں رام پور چلے گئے تھے جہاں کتب خانہ سرکاری سے وابستہ رہے۔ انھوں نے غزل کے علاوہ مثنویاں لکھیں‌ اور انھیں شایع کروایا۔ شوق قدوائی کا دیوان ’’فیضانِ شوق‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انھوں نے گونڈہ میں وفات پائی۔

  • شاعر، ادیب اور مترجم تاج سعید کا یومِ وفات

    شاعر، ادیب اور مترجم تاج سعید کا یومِ وفات

    23 اپریل 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر، مصنّف اور صحافی تاج سعید کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تاج سعید کا اصل نام تاج محمد تھا۔ وہ 16 ستمبر 1933ء کو پشاور میں‌ پیدا ہوئے۔ علم و ادب سے وابستگی کے دوران جہاں‌ انھوں نے غزل اور نظم جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ہم عصروں میں ممتاز ہوئے، وہیں پشتو ادب اور دیگر موضوعات پر علمی اور ادبی کام بھی کتابی شکل میں‌ پیش کیا۔

    تاج سعید کے شعری مجموعوں میں سوچ سمندر، رتوں کی صلیب، لیکھ اور شہرِ ہفت رنگ اور ان کی مرتب کردہ نثری کتب میں کرشن نگر، جہانِ فراق، پشتو ادب کی مختصر تاریخ، بنجارے کے خواب، احمد فراز: فن اور شخصیت، خوش حال شناسی، شکیل بدایونی: فن و شخصیت اور پشتو کے اردو تراجم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انھوں‌ نے علاقائی ادب سے متعدد تخلیقات کا اردو ترجمہ کیا تھا۔

    تاج سعید اردو کے کئی اہم جریدوں کے مدیراعلیٰ رہے۔ ان میں ’’قند‘‘ مردان، ’’ارژنگ‘‘ پشاور اور ’’جریدہ‘‘ پشاور شامل ہیں۔

    تاج سعید کی اہلیہ زیتون بانو بھی اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    اردو کے اس ادیب اور شاعر کو وفات کے بعد پشاور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔