Tag: شاعر وفات

  • منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقّاد اور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار جدید لب و لہجے اور جداگانہ اسلوب کے حامل شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    عزیز حامد مدنی 15 جون 1922ء کو رائے پور (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم، ادیب اور مصنف کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔

    عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔ علم و ادب کے شائق و شیدا عزیز حامد مدنی نے تخلیقی ادب میں شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور تنقید کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

    انھیں اردو کا جدید اور منفرد اسلوب کا حامل شاعر مانا جاتا ہے جن کے موضوعات میں تنوع اور انفرادیت تھی۔ عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے عزیز حامد مدنی کو لیاقت آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

  • معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات

    معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات

    آج اردو کے معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات ہے۔ 16 اپریل 1951ء کو کراچی میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والے اس شاعر نے اپنے دور میں روایت سے ہٹ کر اپنے کلام کو نہ صرف رعایتِ لفظی، تشبیہات اور خوب صورت استعاروں سجایا بلکہ ‌نکتہ آفرینی کے سبب اپنے عہد کے منفرد اور مقبول شاعر کہلائے۔

    اردو کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا علم و ادب اور شاعری تھا۔

    آرزو نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ غزل ان کی محبوب صنفِ سخن تھی جس کے ساتھ ساتھ انھوں نے فلموں کے لیے گیت نگاری کا سلسلہ بھی شروع کردیا، بعد میں نثر میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور ریڈیو کے لیے چند ڈرامے جب کہ فلموں کے مکالمے بھی لکھے، لیکن ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزلیں ہیں۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • مقبولِ عام نعتیہ کلام کے خالق منوّر بدایونی کی برسی

    مقبولِ عام نعتیہ کلام کے خالق منوّر بدایونی کی برسی

    اردو زبان کے معروف شاعر حضرت منور بدایونی 6 اپریل 1984ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا حمدیہ و نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا اور آج بھی مذہبی اور روحانی محافل میں مشہور نعت خواں ان کا کلام پڑھتے ہیں۔

    منوّر بدایونی کا اصل نام ثقلین احمد تھا۔ وہ 2 دسمبر1908ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت اپنے نام میں بدایونی کا اضافہ کیا۔ ان کے شعری مجموعے منوّر نعتیں، منوّر غزلیں، منوّر نغمات اور منوّر قطعات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کے نعتیہ کلام کی کلیات بھی شایع ہوئی۔

    منوّر بدایونی کی غزلیں، قطعات اور نغمات بھی مشہور ہیں۔ محشر بدایونی ان کے چھوٹے بھائی تھے جن کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    منور بدایونی نے عنفوانِ شباب میں غزلیں بھی خوب کہیں، لیکن بعد میں طبیعت حمد و نعت، سلام و منقبت کی طرف مائل ہو گئی۔ منوّر بدایونی وہ خوش نصیب شاعر ہیں جن کا نعتیہ کلام بہت ذوق و شوق سے پڑھا گیا اور ان کے اشعار زباں زدِ عام ہوئے۔

    پیشِ‌ نظر شعر نے منور بدایونی کا نام گویا ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔

    نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں، نہ کوئی قریب کی بات ہے
    جسے چاہے اس کو نواز دے، یہ درِ حبیب کی بات ہے
    جسے چاہا در پہ بلالیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا
    یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے

    کراچی میں وفات پاجانے والے منوّر بدایونی عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مشہور شاعر افتخار امام صدیقی انتقال کرگئے

    مشہور شاعر افتخار امام صدیقی انتقال کرگئے

    نئی دہلی: بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر افتخار امام صدیقی ممبئی میں انتقال کرگئے۔

    اطلاعات کے مطابق کئی برس سے علیل افتخار امام صدیقی نے آج صبح ممبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ انھیں پاک و ہند میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں ترنم اور مخصوص انداز کے سبب بہت پسند کیا جاتا تھا، 2002 ء میں ایک حادثے میں اپاہج ہوجانے والے افتخار امام صدیقی نے ضعیف العمری اور معذوری کے باوجود علم و ادب سے تعلق برقرار رکھا اور آخر وقت تک ماہ نامہ ‘شاعر’ کا اجرا بھی یقینی بناتے رہے۔

    افتخار امام صدیقی کے دادا سیماب اکبر آبادی بھی اپنے وقت کے نام وَر اور استاد شاعر تھے۔ انھوں نے 1930ء میں ماہ نامہ شاعر کا اجرا کیا تھا جسے بعد میں افتخار امام صدیقی نے جاری رکھا اور علالت کے باوجود یہ ماہ نامہ پابندی سے شایع ہوتا رہا۔

    افتخار امام صدیقی کا شمار بھی بھارت کے نام ور شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا کلام مشہور گلوکاروں نے گایا، وہ غزلوں کے علاوہ اپنے حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے بھی مشہور تھے، 19 نومبر 1947ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے افتخار امام صدیقی کے والد کا نام اعجاز صدیقی تھا جو سیماب اکبر آبادی کے بیٹے تھے۔ ان کی تدفین بعد نمازِ ظہر ناریل واڑی قبرستان رے روڈ، ممبئی میں کی گئی۔

    افتخار امام صدیقی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے
    برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں

    وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
    مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں

    پھر اس کے بعد تعلق میں فاصلے ہوں گے
    مجھے سنبھال کے رکھنا بچھڑ نہ جاؤں میں

  • سدا بہار فلمی گیتوں اور قومی نغمات کے خالق مسرور انور کی برسی

    سدا بہار فلمی گیتوں اور قومی نغمات کے خالق مسرور انور کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف شاعر مسرور انور یکم اپریل 1996ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ فلمی گیتوں کے علاوہ مسرور انور کئی لازوال اور یادگار قومی نغمات کے بھی خالق ہیں۔

    مسرور انور کا اصل نام انور علی تھا۔ 6 جنوری 1944ء کو شملہ میں پیدا ہونے والے انور علی نے قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ یہاں سے میٹرک کے بعد انھوں نے پی آئی اے میں ملازمت اختیار کرلی، لیکن ادبی رجحان اور شاعری کا شوق انھیں ریڈیو پاکستان لے آیا جہاں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    ریڈیو پاکستان پر معروف اداکار اور صداکار ابراہیم نفیس کے توسط سے انھیں فلم ساز اور ہدایت کار اقبال شہزاد سے ملاقات کا موقع ملا جنھوں نے مسرور انور کو فلم بنجارن کے نغمات لکھنے کی پیش کش کی۔ یہ فلم کام یاب رہی اور مسرور انور کا فلمی شاعر کی حیثیت سے سفر شروع ہوا، بعد میں انھوں نے فلم شرارت اور بدنام کے گیت لکھے۔ فلم انڈسٹری میں‌ ان سے ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان اور دوراہا جیسی فلموں کے نغمات لکھوائے گئے جنھوں نے مسرور انور کو بھی شہرت دی۔ ان کام یابیوں کے بعد وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں نثار بزمی کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں ان کے لکھے ہوئے گیتوں نے سرحد پار بھی مقبولیت حاصل کی۔

    مسرور انور نے شاعری کے ساتھ متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے اور چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ ایسی ہی فلم سوغات ہے جو پاکستان کی شاہ کار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

    سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے، اپنی جاں نذر کروں، وطن کی مٹّی گواہ رہنا، جگ جگ جیے مرا پیارا وطن اور ہم سب لہریں، کنارا پاکستان مسرور انور ہی کے تخلیق کردہ قومی نغمات ہیں۔ انھیں سات نگار ایوارڈز ملے جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    30 مارچ 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ مشہور ماہ نامہ افکار کے مدیر تھے۔

    لکھنؤ ان کا آبائی وطن تھا۔ تاہم صہبا لکھنوی نے بھوپال میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ بعد میں لکھنؤ اور بمبئی کے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی۔ 25 دسمبر 1919ء کو پیدا ہونے والے صہبا لکھنوی کا اصل نام سیّد شرافت علی تھا۔

    انھوں نے 1945ء میں ماہ نامہ افکار کا اجرا بھوپال سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں 1951ء میں دوبارہ ماہ نامہ افکار جاری کیا۔ افکار کے ساتھ ان کی یہ وابستگی وفات تک جاری رہی۔ انھوں نے یہ ماہ نامہ 57 برس تک بغیر کسی تعطل کے شایع کیا۔

    صہبا لکھنوی کے شعری مجموعے ماہ پارے اور زیرِ آسماں کے نام اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کی نثری کتب میں میرے خوابوں کی سرزمین (سفرنامہ مشرقی پاکستان)، اقبال اور بھوپال، مجاز ایک آہنگ، ارمغان مجنوں، رئیس امروہوی، فن و شخصیت اور منٹو ایک کتاب شامل ہیں۔

    صہبا لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کتنے دیپ بجھتے ہیں، کتنے دیپ جلتے ہیں
    عزمِ زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں

    کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
    منزلیں نہیں یارو، راستے بدلتے ہیں

    موج موج طوفاں ہے، موج موج ساحل ہے
    کتنے ڈوب جاتے ہیں، کتنے بچ نکلتے ہیں

    اک بہار آتی ہے، اک بہار جاتی ہے
    غنچے مسکراتے ہیں، پھول ہاتھ ملتے ہیں

  • مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

    مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

    22 مارچ 1982ء کو اردو کے نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسانیات احسان دانش وفات پاگئے تھے۔ زندگی کی تلخیوں اور سختیوں کو جھیلتے، کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے احسان دانش نے شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ نام و مرتبہ پایا جو بہت کم شعرا کو نصیب ہوتا ہے۔

    قاضی احسان الحق نام اور احسان تخلص تھا۔ وہ 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش میں لاہور آگئے تھے اور یہیں عمر تمام کی۔ انھوں نے ہر قسم کی نوکری اور وہ کام کیا جس سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوسکے۔ وہ کسی دفتر میں چپڑاسی رہے، اور کہیں‌ مالی کا کام سنبھالا تو کبھی بوجھ ڈھو کر اجرت پائی۔ اسی محنت اور مشقّت کے ساتھ شاعری کا سفر بھی جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ مزدور شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    احسان دانش شاعری کی ہر صنف پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی کئی غزلیں، نظمیں مشہور ہیں جو ان کے کمالِ فن اور تخلیقی شعور کا نتیجہ ہیں۔ احسان دانش کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔

    لسانیات کا موضوع بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور زبان و بیان پر ان کے عبور کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں علمی اور ادبی خدمات انجام دینے پر ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں

    آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
    عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

    احسان دانش کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
    اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے

  • معروف شاعرہ شہناز نُور دنیا سے رخصت ہوگئیں

    معروف شاعرہ شہناز نُور دنیا سے رخصت ہوگئیں

    معروف شاعرہ شہناز نُور کراچی میں انتقال کرگئیں۔ شہناز نور نے اپنی خوب صورت شاعری سے جہانِ سخن میں نام و مقام بنایا اور اپنے دل کش ترنم کے سبب بھی ادبی حلقوں اور باذوق سامعین میں مقبولیت حاصل کی۔

    14 مارچ 2021ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والی شہناز نور 10 نومبر 1947ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ شہناز نور نے سکھر میں قیام کے دوران تعلیم مکمل حاصل کی۔ ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والی شہناز نور کو بھی ابتدائی عمر ہی سے شاعری کا شوق ہوگیا تھا۔ انھوں نے پہلا شعر 13 برس کی عمر میں کہا تھا۔ یہ مشقِ سخن جاری رہی اور شہناز نور کی پہلی غزل رسالہ ’’کلیم‘‘ میں 1974ء میں شائع ہوئی۔

    شہناز نور نے اپنا کلام شعری مجموعے ’’نشاطِ ہجر‘‘ میں یکجا کیا تھا۔ ان کا یہ مجموعہ 2004ء میں منظرِعام پر آیا۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل نقل کررہے ہیں‌ جس کا مطلع بہت مشہور ہوا۔

    کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
    میں بجھ رہی ہوں روا داریاں نبھاتے ہوئے

    کسی کو میرے دکھوں کی خبر بھی کیسے ہو
    کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے

    عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے
    کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے

    کہاں تک اور میں سمٹوں کہ عمر بیت گئی
    دل و نظر کے تقاضوں سے منہ چھپاتے ہوئے

    نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی ہوں نورؔ
    بدن کی خاک سے دیوار و در بناتے ہوئے

  • معروف شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق عبدالحمید عدم کی برسی

    معروف شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق عبدالحمید عدم کی برسی

    اردو کے ممتاز اور مقبولِ عام شاعر عبدالحمید عدم 10 مارچ 1981ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ عدم کو قادرُ الکلام اور زود گو شاعر مانا جاتا ہے۔ وہ شاعری کی مختلف اصناف پر عبور رکھتے تھے، لیکن غزل گوئی ان کی پہچان بنی۔

    10 اپریل 1910ء کو تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے عبدالحمید عدم کو سہلِ ممتنع کا شاعر کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے سادہ اور رواں بحروں کا انتخاب کیا۔ ان کی شاعری کے مضامین رومان پرور اور داخلی جذبات و کیفیات پر مبنی ہیں۔

    عدم کے کلام کے مختلف مجموعے شائع ہوئے جن میں نقشِ دوام، زلفِ پریشاں، خرابات، قصرِ شیریں، رم آہو، نگار خانہ، صنم کدہ، قول و قرار، زیرِ لب، شہرِ خوباں، گلنار، جنسِ گراں، ساز و صدف، آبِ رواں، سر و سمن شامل ہیں۔

    عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی کی آواز میں عبدالحمید عدم کا یہ کلام آپ نے بھی سنا ہو گا ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، یہ تیری نظر کا قصور ہے….‘‘ اس کے علاوہ عدم کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کی غزلیں فلم کے لیے ریکارڈ کی گئیں۔

    اردو زبان کے اس مقبولِ عام شاعر کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    اے عدم احتیاط لوگوں سے
    لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

  • معروف شاعر یوسف ظفر کی برسی

    معروف شاعر یوسف ظفر کی برسی

    اردو زبان کے ممتاز شاعر یوسف ظفر مشہور ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں شامل ہیں جن کا آج یومِ وفات ہے۔

    یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہونے یوسف ظفر نے 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اردو زبان و ادب کے فروغ اور اپنے تخلیقی کاموں کی بدولت نام و مقام پانے والے یوسف ظفر کا تذکرہ آج بہت کم ہی ہوتا ہے، اور بالخصوص نئی نسل ان سے واقف نہیں ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ یوسف ظفر معروف ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ایک تھے۔

    یوسف ظفر یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہوئے۔ 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ پندرہ سال کے تھے جب والد اور اسی روز بڑی بہن کی اچانک وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ پڑی تھی۔ یوسف ظفر معاش کے لیے مشکلات کے سائے تلے جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ ان کا شعری سفر اور ادبی سرگرمیاں بھی ان کے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ غمِ دوراں سے ان کے فرار کا بہانہ بنی رہیں۔ 1939ء میں یوسف ظفر نے مشہور شاعر میرا جی کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے جہاں ادبی جریدے کی ادارت سنبھالی وہیں ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ ہوئے۔ وہ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں نوائے ساز، عشق پیماں، حریمِ وطن، صدا بہ صحرا، زہر خند اور زنداں شامل ہیں جب کہ ان کی سوانح عمری بھی شایع ہوچکی ہے۔

    یوسف ظفر نے نثر بھی لکھی اور اس حوالے سے ان کی یہودیت موضوع پر لکھی گئی کتاب بہت وقیع مانی جاتی ہے۔

    یوسف ظفر 7 مارچ 1972ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے اور وہیں ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ یوسف ظفر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    جو حروف لکھ گیا تھا مری آرزو کا بچپن
    انھیں دھو سکے نہ دل سے مری زندگی کے ساون

    وہ جو دن بکھر چکے ہیں وہ جو خواب مر چکے ہیں
    میں انہی کا ہوں مجاور مرا دل انہی کا مدفن

    یہی ایک آرزو تھی کہ مجھے کوئی پکارے
    سو پکارتی ہے اب تک مجھے اپنے دل کی دھڑکن

    کوئی ٹوٹتا ستارہ مجھے کاش پھر صدا دے
    کہ یہ کوہ و دشت و صحرا ہیں سکوتِ شب سے روشن

    تری منزلِ وفا میں ہُوا خود سے آشنا میں
    تری یاد کا کرم ہے کہ یہی ہے دوست دشمن

    ترے روبرو ہوں لیکن نہیں روشناس تجھ سے
    تجھے دیکھنے نہ دے گی ترے دیکھنے کی الجھن

    ظفرؔ آج دل کا عالم ہے عجب میں کس سے پوچھوں
    وہ صبا کدھر سے آئی جو کھلا گئی یہ گلشن