Tag: شاعر کا انتقال

  • یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    آج مفتی صدراُلدّین آزردہ کا یومِ‌ وفات ہے جو ہندوستان کے ایک جیّد عالم، شاعر اور دلّی کے اہم منصب دار تھے۔

    آزردہ کا نام محمد صدراُلدّین تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1789ء اور وطن دہلی ہے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے جیّد علما سے دین اور اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی اور مفتی کی حیثیت سے انگریز دور میں صدرُالصّدور کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے دہلی اور مضافات میں شرعی امور کے مطابق عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کیے۔ مشہور ہے کہ تحریر و تقریر کی فضیلت اور متانت کے ساتھ وہ مروّت، اخلاق اور احسان کی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ ان کے درِ‌ دولت پر عالم و فاضل شخصیات ہی نہیں ادیب اور شعرا بھی محفل سجاتے۔

    آزردہ مرزا غالب کے گہرے دوست تھے۔ اس زمانے کے سبھی تذکرہ نویسوں نے ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا ہے اور ان کی دینی اور علمی قابلیت کے ساتھ شاعری کو سراہا ہے۔

    مفتی آزردہ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی میں بھی شعر کہتے تھے اور شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ وہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ 1857ء کی جنگ میں انھوں نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس پر انگریزوں نے گرفتار کیا اور املاک ضبط کر لی۔ تاہم حاضر دماغی اور ایک چال کے سبب جلد بری ہوگئے۔

    آزردہ کا کوئی دیوان دست یاب نہ ہونے کے باوجود مختلف تذکروں میں ان کے جو اشعار ملتے ہیں، وہ ان کی شاعرانہ حیثیت و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام میں فالج کا حملہ ہوا اور 1868ء میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہو گیا۔

  • اختر حسین جعفری: تشبیہ اور تلمیح کے خورشید سے آراستہ نظموں کے خالق کی برسی

    اختر حسین جعفری: تشبیہ اور تلمیح کے خورشید سے آراستہ نظموں کے خالق کی برسی

    اردو کے جدید نظم نگاروں میں‌ ایک معتبر اور ممتاز نام اختر حسین جعفری کا ہے جو 3 جون 1992ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے اہم شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    اختر حسین جعفری ان معدودے چند شعرا میں سے تھے جنھیں بحیثیت نظم گو جو شہرت اور پذیرائی ملی، انھوں نے خود کو اس کا حق دار بھی ثابت کیا اور اپنی منفرد تخلیقات سے اردو ادب کو مالا مال کیا۔

    وہ 15 اگست 1932ء کو ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔ اختر حسین جعفری نے شاعری کا آغاز کیا تو غزل اور نظم دونوں اصنافِ‌ سخن میں طبع آزمائی کی اور بعد کے برسوں‌ میں نظم گو شاعر کے طور پر مشہور ہوئے۔ اختر کو ایک اہم شاعر کا درجہ حاصل ہے جنھوں نے اردو شاعری اور بالخصوص نظم کو نئی جہات سے روشناس کیا۔

    ان کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ شعری مجموعہ تھا جس میں شامل تخلیقات کو نقّادوں نے حسین لسانی پیکروں سے آراستہ اور جدید شاعری کا سرمایۂ افتخار قرار دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے اختر حسین جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2002ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا جب کہ کتاب آئینہ خانہ پر انھیں آدم جی ادبی انعام بھی دیا گیا۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    سب خیال اس کے لیے ہیں سب سوال اس کے لیے
    رکھ دیا ہم نے حسابِ ماہ و سال اس کے لیے

    اس کی خوشبو کے تعاقب میں نکلا آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    شاخِ تنہائی سے پھر نکلی بہارِ فصلِ ذات
    اپنی صورت پر ہوئے ہم پھر بحال اس کے لیے

    وصل کے بدلے میں کیا داغِ ستارہ مانگنا
    اس شبِ بے خانماں سے کر سوال اس کے لیے

    لاہور میں‌ وفات پانے والے اختر حسین جعفری شادمان کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    مجروح سلطان پوری کا شمار اردو کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جو 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    مجروح سلطان پوری کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی نام اسرار حسن خان تھا اور مجروح تخلّص۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد محکمہ پولیس میں‌ ملازم تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ انگریزوں اور ان کی زبان سے نفرت کا دور تھا۔ والد نے انھیں‌ بھی کسی اسکول میں بھیجنے اور انگریزی کی تعلیم دینے کے بجائے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا جہاں مجروح نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ تاہم مدرسے کے ماحول میں خود کو نہ ڈھال سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں لکھنؤ کے ایک کالج سے حکمت میں سند حاصل کی اور مطب کرلیا، لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ اسی زمانے میں مجروح موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور پھر 1935 ء میں شاعری شروع کردی۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بھی مشہور تھا۔

    مجروح کو جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دیگر شعرا نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، جگر صاحب انھیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے تھے جہاں‌ اپنے کلام کی بدولت مجروح سلطان پوری نے اپنی منفرد پہچان بنائی، ممبئی کے ایک مشاعرے میں ایک نام وَر فلم ڈائریکٹر نے ان کا کلام سنا تو فلموں کے لیے گیت لکھنے پر آمادہ کر لیا اور ان کا یہ سفر نہایت کام یاب رہا۔

    مجروح نے کئی برس ہندوستان کی فلم نگری کے لیے گیت تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے سپر ہت گیت "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1993ء میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” بھی ان کے نام ہوا۔

    جگن ناتھ آزاد کے مطابق مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔

    ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول تھا، مجروح کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے اور تقریر سے تحریر تک یہ اشعار موضوع کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے چند مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ

    جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ

    18 مئی 2008 کو اردو کے ممتاز شاعر عبید اللہ علیم نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ وہ اپنے وقت کے مقبول شعرا میں سے ایک تھے جنھیں‌ مشاعروں میں بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔

    عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا۔ علیم نے یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایم اے کرنے کے ساتھ علمی و ادبی حلقوں میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی، ان کا کلام پاکستان کے معروف گلوکاروں نے گایا۔

    عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں کو بہت پذیرائی ملی اور شعروسخن کی دنیا میں یہ مجموعہ ان کی شناخت بنا۔ اس کے علاوہ ان کا کلام ویران سرائے کا دیا، نگار صبح کی امید کے نام سے بھی کتابی شکل میں شایع ہوا۔ علیم کے ان مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل کلیات بھی ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے

    عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
    اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

  • شاعر، ادیب اور مترجم تاج سعید کا یومِ وفات

    شاعر، ادیب اور مترجم تاج سعید کا یومِ وفات

    23 اپریل 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر، مصنّف اور صحافی تاج سعید کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تاج سعید کا اصل نام تاج محمد تھا۔ وہ 16 ستمبر 1933ء کو پشاور میں‌ پیدا ہوئے۔ علم و ادب سے وابستگی کے دوران جہاں‌ انھوں نے غزل اور نظم جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ہم عصروں میں ممتاز ہوئے، وہیں پشتو ادب اور دیگر موضوعات پر علمی اور ادبی کام بھی کتابی شکل میں‌ پیش کیا۔

    تاج سعید کے شعری مجموعوں میں سوچ سمندر، رتوں کی صلیب، لیکھ اور شہرِ ہفت رنگ اور ان کی مرتب کردہ نثری کتب میں کرشن نگر، جہانِ فراق، پشتو ادب کی مختصر تاریخ، بنجارے کے خواب، احمد فراز: فن اور شخصیت، خوش حال شناسی، شکیل بدایونی: فن و شخصیت اور پشتو کے اردو تراجم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انھوں‌ نے علاقائی ادب سے متعدد تخلیقات کا اردو ترجمہ کیا تھا۔

    تاج سعید اردو کے کئی اہم جریدوں کے مدیراعلیٰ رہے۔ ان میں ’’قند‘‘ مردان، ’’ارژنگ‘‘ پشاور اور ’’جریدہ‘‘ پشاور شامل ہیں۔

    تاج سعید کی اہلیہ زیتون بانو بھی اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    اردو کے اس ادیب اور شاعر کو وفات کے بعد پشاور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔