Tag: شاعر کی برسی

  • خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور “یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔ حبُ الوطنی کے جذبات، عزم و ہمّت، دلیری اور شجاعت کے احساس کے ساتھ کلیم عثمانی کی یہ شاعری زبان و ادب میں ان کے فن اور مقام کا تعیّن بھی کرتی ہے۔

    جذبۂ حب الوطنی سے سرشار کلیم عثمانی کے کئی قومی اور ملّی نغمات ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوئے اور انہی نغمات کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور نغمہ نگار نے 28 اگست 2000ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ 28 فروری 1928ء کو ضلع سہارن پور، دیو بند میں‌ پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھو‌ں نے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔

    شعر و سخن کی دنیا میں‌ کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ انھوں نے فلم نگری کے لیے گیت نگاری کا آغاز کیا تو بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔

    آپ نے فلم راز کا یہ گیت ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے:
    میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا، یہ اپنے وقت کا مقبول ترین گیت تھا جسے کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں انھوں نے جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین نامی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور خوب شہرت پائی۔

    1973ء میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول ترین گیت “تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔

    مرحوم لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    قمر جمیل اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کرانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھیں‌ نثری نظم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے معروف نقّاد، ادیب، شاعر اور مدیر تھے جن کی آج برسی ہے۔

    قمر جمیل نے حیدرآباد دکن میں 10 مئی 1927ء کو آنکھ کھولی۔ وہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ شروع ہی سے مطالعہ اور ادب کا شوق تھا جس نے انھیں خود بھی لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں‌ میں ادبی دنیا میں انھوں نے اپنی شناخت اور الگ پہچان بنائی۔

    وہ طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ قمر جمیل نے نثری نظم کی تحریک کا کراچی سے آغاز کیا تو ادیب اور شاعر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی اس تحریک نے تخلیق کے میدان میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا۔

    قمر جمیل کی زندگی میں ان کے دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب شائع ہوئے جب کہ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ جدید ادب کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا تھا۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی ادب سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ عالمی ادب کا مطالعہ اور نئے افکار و رجحانات پر ان کی گہری نظر تھی۔

    دریافت کے نام سے قمر جمیل نے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔

    27 اگست سن 2000ء کو کراچی میں وفات پانے والے قمر جمیل کو عزیز آباد کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک پتھر جو دستِ یار میں ہے
    پھول بننے کے انتظار میں ہے

  • یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    ریاض خیرآبادی کو خیّامِ ہند کہا جاتا ہے۔ وہ 28 جولائی 1934ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کہتے ہیں انھوں نے نہایت سادہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی، لیکن ان کے کلام میں شراب و شباب، رندی و سَرشاری کے مضامین کی کثرت ہے اور اسی لیے وہ شاعرِ خمریات بھی مشہور ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ریاض احمد تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو ریاض تخلّص اپنایا اور اپنے آبائی علاقے کی نسبت اس میں خیر آبادی کا اضافہ کیا۔ ادبی تذکروں میں ان کا سن و جائے پیدائش 1855ء اور خیر آباد لکھا ہے۔

    ریاض خیرآبادی نے اسیر لکھنوی سے اصلاح لی اور ان کی وفات کے بعد امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ شعر و ادب کے ساتھ لگاؤ اور تصنیف کا شوق ایسا تھا کہ شاعری کے ساتھ متعدد اخبار و رسائل کا اجرا کیا جن میں ریاضُ الاخبار، صلحِ کل، گلکدۂ ریاض، فتنہ، پیامِ یار شامل ہیں۔ انھوں نے چند انگریزی ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    ریاض خیر آبادی آخر عمر میں خانہ نشین ہو گئے اور 82 سال کی عمر میں وفات پائی۔

    ان کا دیوان "دیوانِ ریاض” کے نام سے شائع ہوا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
    ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا

    مے خانے میں کیوں یادِ خدا ہوتی ہے اکثر
    مسجد میں تو ذکرِ مے و مینا نہیں ہوتا

    دھوکے سے پلا دی تھی اسے بھی کوئی دو گھونٹ
    پہلے سے بہت نرم ہے واعظ کی زباں اب

  • یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    اردو زبان کے نام وَر شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے 1869ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اس کے بعد آنے والے شعرا میں شیفتہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی حصّہ ڈالا۔

    1809ء میں پیدا ہونے والے شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے شعری مجموعوں‌ کے علاوہ ان کی کتاب گلشنِ بے خار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے جو دراصل کلاسیکی ادب کے کئی نام وروں کا تذکرہ اور کلام پر فارسی میں تنقید ہے۔

    1839ء میں شیفتہ نے حج کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے، اور حج و زیارت کے موقع پر انھیں جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا، اسے اپنے سفرنامے میں‌ محفوظ کیا ہے۔

    شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور مصنّف خاطر غزنوی کی برسی

    اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور مصنّف خاطر غزنوی کی برسی

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    یہ شعر آپ نے بھی پڑھا اور سنا ہو گا۔ اس کے خالق کا نام خاطر غزنوی ہے جن کی آج برسی ہے۔ وہ اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف تھے۔ خاطر غزنوی 7 جولائی 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ انھوں نے 25 نومبر 1925ء کو پشاور کے ایک گھرانے میں جنم لیا۔ ریڈیو پاکستان، پشاور سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے خاطر غزنوی نے اردو کے علاوہ ہندکو زبان میں لکھنا شروع کیا اور پہچان بناتے چلے گئے۔ انھوں نے چینی زبان سیکھی اور اس کی تعلیم بھی دی، پشاور کی جامعہ سے اردو زبان میں ایم اے کے بعد انھوں نے باقاعدہ تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ اس عرصے میں وہ ادبی جرائد سے بھی منسلک رہے اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

    خاطر غزنوی 1984ء میں اکادمی ادبیات پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثر پر مشتمل کتابوں میں زندگی کے لیے، پھول اور پتّھر، چٹانیں اور رومان، سرحد کے رومان، پشتو متلونہ، دستار نامہ، پٹھان اور جذباتِ لطیف، خوش حال نامہ اور چین نامہ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے نظمیں بھی لکھیں جب کہ ہندکو اور پشتو ادب سے متعلق متعدد کتب کے مصنّف اور مؤلف بھی تھے۔ ان کی یہ کتب لوک کہانیوں، قصّوں اور مقامی ادب، اصناف اور تخلیق کاروں کا احاطہ کرتے ہوئے ان موضوعات پر سند و حوالہ ہیں۔ یہ ان کا علمی و تحقیقی کام تھا جس کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    خاطر غزنوی پشاور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک ایک کرکے لوگ نکل آئے دھوپ میں
    جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں

  • یومِ وفات: معروف شاعر اور ڈراما نگار قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے بانیوں میں سے تھے

    یومِ وفات: معروف شاعر اور ڈراما نگار قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے بانیوں میں سے تھے

    اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر، نقّاد، مترجم اور ڈرامہ نگار قیوم نظر 23 جون 1989ء کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔ ان کا شمار اردو ادب کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے حلقۂ اربابِ ذوق جیسی تنظیم کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

    قیوم نظر 7 مارچ 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ تدریس کے پیشے سے منسلک رہنے والے قیوم نظر گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ اردو اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ پنجابی میں طلبا کو نصابی تعلیم اور ان کی فکری راہ نمائی کا کام انجام دیتے رہے۔

    قیوم نظر کی شاعری میں اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا اثر نظر‌ آتا ہے۔ انھوں نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی سے متاثر تھے۔ تاہم روایتی بندشوں کے ساتھ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے اور تازہ ہیں۔

    قیوم نظر کی تصانیف میں "پون جھکولے”، "قندیل”، "سویدا”، "اردو نثر انیسویں صدی میں”، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت ” شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔

    قیوم نظر کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ

    جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ

    18 مئی 2008 کو اردو کے ممتاز شاعر عبید اللہ علیم نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ وہ اپنے وقت کے مقبول شعرا میں سے ایک تھے جنھیں‌ مشاعروں میں بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔

    عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا۔ علیم نے یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایم اے کرنے کے ساتھ علمی و ادبی حلقوں میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی، ان کا کلام پاکستان کے معروف گلوکاروں نے گایا۔

    عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں کو بہت پذیرائی ملی اور شعروسخن کی دنیا میں یہ مجموعہ ان کی شناخت بنا۔ اس کے علاوہ ان کا کلام ویران سرائے کا دیا، نگار صبح کی امید کے نام سے بھی کتابی شکل میں شایع ہوا۔ علیم کے ان مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل کلیات بھی ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے

    عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
    اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

  • انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    کیفی اعظمی ہندوستان کے نام وَر اور مقبول قوم پرست شاعر تھے جو 10 مئی 2002ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ کیفی اعظمی نے اپنی انقلابی نظموں اور آزادی کی امنگ و ترنگ سے بھرے ترانوں سے ہندوستان کے عوام میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور ترقی پسند مصنفّین میں اپنے نظریات اور تخلیقات کے سبب ممتاز ہوئے۔

    انھوں نے ملکی اور غیر ملکی سیاسی واقعات پر پُراثر نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری میں عوام کے سکھ دکھ اور ان کی زندگی نمایاں ہوتی ہے۔ طبقاتی تصادم اور سماجی استحصال ان کی شاعری کا موضوع رہا۔ وہ انیس، حالی، شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر تھے۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے قلم کاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔

    کیفی اعظمی 1918ء میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید اطہر حسین رضوی تھا۔ انھوں نے عربی اور فارسی کی اسناد حاصل کیں اور مطالعے سے اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ کیفی اعظمی نے کم عمری میں‌ شاعری شروع کردی تھی، ابتدائی دور میں انھوں نے رومانوی نظمیں لکھیں، لیکن بعد میں ان کی شاعری پر انقلابی فکر غالب ہوگئی۔

    مطالعے کے شوق نے انھیں مارکسزم، کمیونزم اور دیگر نظریات کی طرف متوجہ کیا اور اپنے وقت کے مشہور اور نام ور ترقی پسند مصنّفین کا ساتھ نصیب ہوا تو وہ کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی کارکن بن گئے۔ اب ان پر مزدوروں اور عوام کی حالت بدلنے اور سماج کی فرسودہ و کہنہ روایات کو ختم کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی جس کا اظہار قلم کے ذریعے کرنے لگے۔ کیفی اعظمی ممبئی منتقل ہوئے تو 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ وہ ترقی پسند مصنفّین کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔

    اس زمانے میں عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصّہ اور آزادی کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور ایسے میں‌ جن ترقی پسند قلم کاروں کو مقبولیت مل رہی تھی، ان میں کیفی اعظمی بھی شامل تھے۔ ترقی پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے فلمی گیت لکھے اور نام بنایا۔ اسی دوران مکالمے اور منظر نویسی کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ فلمی دنیا میں مصروف ہوگئے۔ کیفی اعظمی نے فلم نگری کے کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔
    کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شاعری میں ممتاز اور غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری اور خاص طور پر نظمیں فکر و فن کے معیار کے اعتبار سے اردو شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

  • زمزمۂ حیات اور غزال و غزل کے شاعر سراج الدّین ظفر کا تذکرہ

    زمزمۂ حیات اور غزال و غزل کے شاعر سراج الدّین ظفر کا تذکرہ

    6 مئی 1972ء کو اردو کے معروف شاعر سراج الدّین ظفر وفات پاگئے تھے۔ وہ دنیائے ادب میں اپنے منفرد لب و لہجے اور اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

    جہلم میں‌ پیدا ہونے والے سراج الدّین ظفر کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ والدہ بیگم زینب عبدالقادر اردو کی مشہور مصنفہ تھیں جب کہ نانا فقیر محمد جہلمی سراج الاخبار کے مدیر تھے اور ان کی کتاب حدائقُ الحنیفہ ایک بلند پایہ تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔

    سراج الدین ظفر نے شاعری تخلیق کرنے کے ساتھ افسانے بھی لکھے۔ انھیں منفرد لب و لہجے کا شاعر کہا جاتا ہے۔ نئی زمینیں اور ادق قافیے ان کے کلام کی خوب صورتی اور ان کے فن کی انفرادیت کا ثبوت ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے زمزمہ حیات اور غزال و غزل منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ غزال و غزل وہ مجموعہ تھا جس کے لیے 1968ء میں انھیں آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ سراج الدین ظفر کی شاعری میں حسن و شباب اور رندی و سرمستی کے موضوعات ملتے ہیں۔

    ان کی ایک غزل کے چند اشعار دیکھیے۔

    موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
    شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں

    اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں
    پیچ، اے زلف سیہ فام ابھی باقی ہیں

    اک سبو اور کہ لوحِ دل مے نوشاں پر
    کچھ نقوشِ سحر و شام ابھی باقی ہیں

    ٹھہر اے بادِ سحر، اس گلِ نورستہ کے نام
    اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں

    اٹھو اے شب کے غزالو کہ سحر سے پہلے
    چند لمحاتِ خوش انجام ابھی باقی ہیں

    اردو زبان کے اس نام ور شاعر کی ابدی آرام گاہ کراچی میں ہے۔

  • منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقّاد اور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار جدید لب و لہجے اور جداگانہ اسلوب کے حامل شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    عزیز حامد مدنی 15 جون 1922ء کو رائے پور (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم، ادیب اور مصنف کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔

    عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔ علم و ادب کے شائق و شیدا عزیز حامد مدنی نے تخلیقی ادب میں شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور تنقید کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

    انھیں اردو کا جدید اور منفرد اسلوب کا حامل شاعر مانا جاتا ہے جن کے موضوعات میں تنوع اور انفرادیت تھی۔ عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے عزیز حامد مدنی کو لیاقت آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے