Tag: شاعر کی برسی

  • فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    اردو اور پشتو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے فارغ بخاری ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ وہ 11 نومبر 1917ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بیش بہا کام کیا۔ وہ رضا ہمدانی کے ساتھ علمی، تحقیقی اور ادبی کام کرتے رہے اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔

    فارغ بخاری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

    دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
    راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے

    سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے
    منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے

    شبِ فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا
    اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے

  • آج اردو کے معروف شاعر اور ادیب خالد احمد کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے

    آج اردو کے معروف شاعر اور ادیب خالد احمد کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے

    آج اردو کے معروف شاعر خالد احمد کی آٹھویں برسی ہے۔ وہ 19 مارچ 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ خالد احمد کا شمار اردو کے اُن شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کو نئے رجحانات سے آشنا کیا۔

    خالد احمد نے 5 جون 1944ء کو لکھنؤ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئے اور 1957ء میں مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور سے میٹرک کیا، دیال سنگھ کالج سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور فزکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد واپڈا میں انفارمیشن افسر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور اسی محکمے سے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔

    انھوں نے روزنامہ امروز اور بعد میں نوائے وقت کے لیے کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ادبی جریدے فنون سے وابستہ ہوئے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت ان کی خوب صورت شاعری ہے۔

    خالد احمد کے بھائی توصیف احمد خان نے بھی صحافت، بہنوں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے اردو‌ افسانہ اور ناول نگاری میں نام پیدا کیا۔ خالد احمد بیاض کے نام سے کئی برس تک ایک ماہ نامہ بھی شایع کرتے رہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    میرے ناقد میں کوٸی موم کا پتلا تو نہیں
    کوٸی کس طور مرے قد سے گھٹا دے مجھ کو

    کاش کوٸی ہمیں یہ بتلا دے
    کس کے سینے سے لگ کے رونا ہے

    سبھی آنکھیں مری آنکھوں کی طرح خالی تھیں
    کیا کہوں، کون یہاں جاننے والا تھا مرا

    وہ گلی ہم سے چھوٹتی ہی نہیں
    کیا کریں آس ٹوٹتی ہی نہیں

    حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات پر خالد احمد کو تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • پنجابی زبان کے معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار ایف ڈی شرف کی برسی

    پنجابی زبان کے معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار ایف ڈی شرف کی برسی

    آج پنجابی زبان کے معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار ایف ڈی شرف کی برسی ہے۔ وہ 14 مارچ 1955ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا پورا نام فیروز الدین شرف تھا، لیکن ادب کی دنیا اور فلم نگری میں ایف ڈی شرف کے نام سے مشہور ہوئے۔

    ایف ڈی شرف 1898ء میں تولا ننگل، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں‌ پر تھی اور ہندوستان کے دوسرے مسلمانوں کی طرح نوجوان فیروز الدّین شرف بھی اس تحریک میں فعال رہے۔ بعد میں‌ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن بنے۔

    ایف ڈی شرف نے اپنے زمانے کے پنجابی زبان کے مشہور شاعر استاد محمد رمضان ہمدم کی شاگردی اختیار کی اور مشقِ سخن جاری رکھی۔ "تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے” وہ فلمی گیت ہے جو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوا۔ ان کے دیگر فلمی گیت بھی لازوال ثابت ہوئے اور ایف ڈی شرف نے ہندوستان بھر میں‌ شہرت حاصل کی۔

    ایف ڈی شرف نے‌ ہیر سیال، سسی پنوں، چوہدری، مندری، چن وے، پتن، دُلا بھٹی، بلو اور بلبل جیسی فلموں‌ کے لیے نغمات لکھے۔ ان کا مدفن لاہور میں‌ ہے۔

  • نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر اور مستند نام آغا شاعر قزلباش دہلوی کا ہے جنھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن ،صاحبِ کمال اور زبان داں کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ 11 مارچ 1940ء کو یہ نادرِ روزگار شخصیت اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    آغا صاحب کے سیکڑوں شاگرد تھے جب کہ علّامہ اقبال جیسی ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن زبان و بیان پر عبور اور اپنی خوش گوئی کے سبب نہ صرف عوام اور خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کے ہم عصر اور استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی ان کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔

    وہ 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا اور ان کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شایع ہوا۔ ان کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزہ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

  • ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی: ناصر کاظمی کی برسی

    ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی: ناصر کاظمی کی برسی

    2 مارچ 1972ء کو نام وَر شاعر ناصر کاظمی جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ناصر کاظمی کا شمار اردو کے صاحبِ اسلوب شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے تخیل کے ساتھ غزل کے اشعار کو وہ لب و لہجہ اور آہنگ بخشا جس کی تازگی آج بھی قائم ہے۔

    ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925ء کو انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اوراقِ نو، ہمایوں اور خیال کی مجلسِ ادارت میں شامل رہے جب کہ ریڈیو پاکستان سے اپنی وابستگی وفات تک برقرار رکھی۔

    برگِ نے اردو کے اس شاعر کا وہ مجموعہ کلام تھا جس نے انھیں‌ اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا اور باذوق حلقے نے انھیں سندِ مقبولیت بخشی۔ یہ 1954ء میں شایع ہونے والا ناصر کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ تھا۔

    بعد کے برسوں میں‌ ناصر کاظمی کا شمار اردو غزل کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوا۔ ان کے دیگر شعری مجموعے پہلی بارش، نشاطِ خواب اور سُر کی چھایا شایع ہوئے جب کہ نثری مضامین کا مجموعہ خشک چشمے کے کنارے ناصر کاظمی کی وفات کے بعد سامنے آیا۔ ناصر نے اردو کے چند بڑے شعرا کے کلام کو بھی مرتب کیا جن میں میر، نظیر، ولی اور انشا شامل ہیں۔

    ناصر کاظمی کا کلام اپنے زمانے کے معروف گلوکاروں نے گایا جن میں غلام علی، عابدہ پروین اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی ایک مشہور غزل ہم یہاں آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
    اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی

    شور برپا ہے خانۂ دل میں
    کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

    بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
    جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

    تُو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
    ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

    یاد کے بے نشاں جزیروں سے
    تیری آواز آ رہی ہے ابھی

    شہر کی بے چراغ گلیوں میں
    زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

    سو گئے لوگ اس حویلی کے
    ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

    وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
    غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

    ناصر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • صاحبُ السیف والقلم خوش حال خان خٹک کا یومِ وفات

    صاحبُ السیف والقلم خوش حال خان خٹک کا یومِ وفات

    پشتو ادب کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے خوش حال خان خٹک کی تلوار زنی اور سامانِ حرب میں مہارت بھی مشہور ہے۔ انھیں ایک جنگجو اور آزادی کے متوالے کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ پانچ صدی قبل 25 فروری 1689ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے، لیکن اپنی شاعری اور جذبہ حریّت کے سبب آج بھی انھیں یاد کیا جاتا ہے۔

    خوش حال خان خٹک نے پشتو ادب میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا۔ خطاطی ان کا ایک حوالہ ہے، سُر اور ساز سے انھیں لگاؤ تھا اور تلوار کے دستے پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ اسی سبب وہ صاحبُ السّیف والقلم بھی کہلائے۔

    خوش حال خان خٹک 1613ء میں پشاور کے نزدیک ایک گائوں اکوڑہ میں پیدا ہوئے۔ اوائلِ عمری میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے۔ مغل دور میں شاہ جہاں نے ان کا حقِ سرداری قبول کیا، مگر اورنگزیب نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو خوش حال خان خٹک نے اس کے خلاف علمِ حرّیت بلند کیا جس کے بعد وہ گرفتار کیے گئے اور قید کاٹی۔

    رہائی کے بعد انھوں نے جھڑپوں اور لڑائیوں کے دوران مغل فوج کو متعدد بار شکست سے دوچار کیا۔ اس پر اورنگزیب خود ان کی سرکوبی کے لیے آیا اور اس موقع پر انھیں شکست ہوئی۔

    خوش حال خان خٹک نے تقریباً چالیس ہزار اشعار یادگار چھوڑے جن میں تغزل سے بڑھ کر واقعاتی رنگ غالب ہے۔ بیش تَر کلام رجزیہ ہیں۔ ان کے اشعار میں جوش و ولولہ، آزادی کا موضوع اور مغلوں کی مخالفت پڑھنے کو ملتی ہے۔ خوش حال خان خٹک پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات نے بہت کچھ لکھا اور ان کی شاعری اور فکر و نظریہ پر تحقیق کے بعد کئی کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ پشتو کے اس مشہور شاعر کا مدفن اکوڑہ خٹک میں ہے۔

  • جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    آج جہانِ سخن میں ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات ہے جو زود گو اور ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے والے ان شعرا میں‌ سے ہیں‌ جنھوں‌ نے غزل کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر نہایت خوب صورت نظمیں کہیں اور ادب میں بڑا نام پیدا کیا۔

    صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور وہ شعروسخن کی طرف مائل ہوئے۔

    صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمہ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    صہبا اختر نے حمد و نعت کے علاوہ غزل، نظم، قطعہ، گیت، ملی نغمے، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ انھیں پاکستانی ادب کے معماروں‌ میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کے لیے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    صہبا اختر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    اس نام وَر شاعر کو کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف شاعر اور کالم نگار شبنم رومانی کی برسی

    معروف شاعر اور کالم نگار شبنم رومانی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب شبنم رومانی 17 فروری 2009ء کو وفات پاگئے تھے آج ان کی برسی منائی جارہی ہے

    30 دسمبر 1928ء کو شاہ جہاں پور میں پیدا ہونے والے شبنم رومانی کا اصل نام مرزا عظیم بیگ چغتائی تھا۔ شبنم ان کا تخلص تھا۔ بریلی کالج سے بی کام کا امتحان پاس کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔ یہاں تخلیقی سفر اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ کالم نگاری کا سلسلہ بھی شروع کیا۔

    طویل عرصے تک روزنامہ مشرق میں ہائیڈ پارک کے نام سے ان کے ادبی کالم شایع ہوتے رہے تھے اور اسی نام سے کالموں کا مجموعہ بھی منظرِ عام پر آیا۔ شبنم رومانی نے 1989ء میں ادبی جریدہ اقدار جاری کیا جو ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔

    شبنم رومانی کے شعری مجموعے مثنوی سیرِ کراچی، جزیرہ، حرفِ نسبت، تہمت اور دوسرا ہمالا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ شبنم رومانی کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے

    غزل
    میرے پیار کا قصّہ تو ہر بستی میں مشہور ہے چاند
    تُو کس دھن میں غلطاں پیچاں کس نشے میں چور ہے چاند

    تیری خندہ پیشانی میں کب تک فرق نہ آئے گا
    تُو صدیوں سے اہلِ زمیں کی خدمت پر مامور ہے چاند

    اہلِ نظر ہنس ہنس کر تجھ کو ماہِ کامل کہتے ہیں!
    تیرے دل کا داغ تجھی پر طنز ہے اور بھرپور ہے چاند

    تیرے رُخ پر زردی چھائی میں اب تک مایوس نہیں
    تیری منزل پاس آ پہنچی میری منزل دور ہے چاند

    کوئی نہیں ہم رازِ تمنّا کوئی نہیں دم سازِ سفر
    راہِ وفا میں تنہا تنہا چلنے پر مجبور ہے چاند

    تیری تابش سے روشن ہیں گُل بھی اور ویرانے بھی
    کیا تُو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند

  • دلِ احباب میں گھر رکھنے والے چکبست لکھنوی کا یومِ وفات

    دلِ احباب میں گھر رکھنے والے چکبست لکھنوی کا یومِ وفات

    12 فروری 1926ء کو اردو کے مشہور شاعر پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے متعدد اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔

    وہ شاعری ہی نہیں‌ نثر پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں‌ لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں‌ نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں‌ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعہ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔

    چکبست کا یہ شعر بھی مشہور ہوا۔

    زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
    موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا

    یہاں‌ ہم چکبست کی ایک غزل آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
    سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا

    لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
    یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا

    کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
    وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا

    دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
    یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا

    کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
    شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا

    خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
    یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

  • تارے کو مہتاب کرنے والے جمال احسانی کی برسی

    تارے کو مہتاب کرنے والے جمال احسانی کی برسی

    آج اردو زبان کے ممتاز غزل گو شاعر جمال احسانی کی برسی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا، انھوں نے تخلّص جمال اختیار کیا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا خاندان پانی پت کا تھا۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں شاعری کا آغاز کرنے والے جمال احسانی بہت جلد اہم غزل گو شعرا میں شمار ہونے لگے تھے۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے