Tag: شاعر

  • شاعری کے عالمی دن پر اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    شاعری کے عالمی دن پر اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    آج دنیا بھر میں شاعری کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہماری قومی زبان اردو نے میر تقی میر، غالب، اقبال، داغ، فیض ، فراز اور جون ایسے مایہ ناز شاعر پیدا کیے ہیں جن کے افکار سے ساری دنیا متاثر ہے۔

    شاعری کے عالمی دن پر آپ کے ذوق کو مہمیز کرنے کے لیے یہاں پر اردو کے وہ ایک سو مشہور ترین اشعار دیے جا رہے ہیں جو بہت مشہور اور زبان زد عام ہوئے، اور لوگوں نے بے حد پسند کیے۔

    1.  لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

    علامہ اقبال

    2.  بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
    تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

    مرزا غالب

    3. قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

    مولانا محمد علی جوہر

    4. نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے
    پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

    میر تقی میر

    5. خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
    خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

    علامہ اقبال

    6. دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
    تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

    کلیم عاجز

    7. قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
    خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

    میاں داد خان سیاح

    8. رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
    تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

    ابراہیم ذوق

    9. کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    مرزا غالب

    10. خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی

    11. چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
    عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

    فدوی عظیم آبادی

    12. پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
    مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

    علامہ اقبال

    13. تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
    کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

    علامہ اقبال

    14. مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
    وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

    برق لکھنوی

    15. فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
    بس ہو چکی نماز، مصلّہ اٹھایئے

    حیدر علی آتش

    16. آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
    میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا

    حیدر علی آتش

    17. مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
    مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے

    حیدر علی آتش

    18. امید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت
    کہ اس کافر کی ’ہاں‘ بھی اب ’نہیں‘ معلوم ہوتی ہے

    چراغ حسن حسرت

    19. داور حشر میرا نامہء اعمال نہ دیکھ
    اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

    محمد دین تاثیر

    20. اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
    یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

    فراق گورکھپوری

    21. ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
    اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

    عزیز الحسن مجذوب

    22. وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
    پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

    مہاراج بہادر برق

    23. چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
    چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے

    یگانہ چنگیزی

    24. دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا
    وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا

    عزیز لکھنوی

    25. اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
    بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا

    عزیز لکھنوی

    26. دینا وہ اس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
    منہ پھیر کر اُدھر کو، اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ

    نظام رام پوری

    27. یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
    یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے

    اکبر الہٰ آبادی

    28. بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
    اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
    پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

    اکبر الہٰ آبادی

    29. آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
    تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

    گمنام

    30. اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
    گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

    علامہ اقبال

    31. توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جایئے
    بندہ پرور جایئے، اچھا، خفا ہو جایئے

    حسرت موہانی

    32. تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
    مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

    مضطر خیر آبادی

    33. دیکھ آؤ مریض فرقت کو
    رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے

    حسن بریلوی

    34. خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں
    مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

    اکبر الہٰ آبادی

    35. دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
    جب تک شراب آئے کئی دور ہوگئے

    شاد عظیم آبادی

    36. ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
    راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

    الطاف حسین حالی

    37. سب لوگ جدھر وہ ہیں، ادھر دیکھ رہے ہیں
    ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

    داغ دہلوی

    38. دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
    ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

    داغ دہلوی

    39. گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد
    ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں

    امیر مینائی

    40. فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
    بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    41. ذرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے
    بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے

    علامہ اقبال

    42. ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ
    پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لایئے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    43. وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
    میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    44. لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار
    خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

    میر انیس

    45. شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
    زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے

    مومن خان مومن

    46. الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
    لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

    مومن خان مومن

    47. اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا
    کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا

    محمد رضا برق

    48. کوچہء عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
    خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے

    وزیر علی صبا

    49. دم و در اپنے پاس کہاں
    چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں

    مرزا غالب

    50. گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
    کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی

    مرزا غالب

    51. جانتا ہوں ثواب طاعتِ و زہد
    پر طبیعت ادھر نہیں آتی

    مرزا غالب

    52. غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
    ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

    مرزا غالب

    53. بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
    کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

    مرزا غالب

    54. اسی لیے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں
    اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

    خواجہ وزیر

    55. زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
    کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایماں بہہ گیا

    محمد ابراہیم ذوق

    56. ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
    مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

    اکبر الہٰ آبادی

    57. فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
    اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کیا کرے

    محمد رفیع سودا

    58. یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
    یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

    علامہ اقبال

    59. تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

    علامہ اقبال

    60. یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
    جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے

    شاد عظیم آبادی

    61. حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    مخدوم محی الدین

    62. اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
    سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

    میر تقی میر

    63. اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

    اقبال

    64. آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

    مرزاغالب

    65. اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض احمد فیض

    66. دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

    ناصر کاظمی

    67. نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیئے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی

    68. اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
    پھر ملیں گے اگر خدا لایا

    میر تقی میر

    69. شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
    عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے

    میر تقی میر

    70. بہت کچھ ہے کرو میر بس
    کہ اللہ بس اور باقی ہوس

    میر تقی میر

    71. بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
    تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

    مادھو رام جوہر

    72. عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
    دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

    بہادر شاہ ظفر

    73. بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
    جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے

    میر تقی میر

    74. ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
    آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

    میر تقی میر

    75. سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    میر تقی میر

    76. نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
    جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

    علامہ اقبال

    77. کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
    ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجیئے حضور
    ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

    ساغر صدیقی

    78. زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
    سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

    علامہ اقبال

    79. دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
    رات کٹتی نظر نہیں آتی

    سید محمد اثر

    80. تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
    اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

    میر تقی میر

    81. میرے سنگ مزار پر فرہاد
    رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد

    میر تقی میر

    82. ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ
    کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

    قائم چاند پوری

    83. زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ساغر صدیقی

    84. ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا
    یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

    نظیر اکبر آبادی

    85. پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے
    جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے

    نظیر اکبر آبادی

    86. دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
    بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں

    اکبر الہٰ آبادی

    87. کہوں کس سے قصہ درد و غم، کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے
    جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
    مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر، ترا حال اکبرِ نوحہ گر
    تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے

    اکبر الہٰ آبادی

    88. نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی
    کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی

    اکبر الہٰ آبادی

    89. مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
    ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں

    امیر مینائی

    90. اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
    الفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے

    ماہر القادری

    91. کہہ تو دیا، الفت میں ہم جان کے دھوکہ کھائیں گے
    حضرت ناصح! خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟

    ماہر القادری

    92. اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر
    مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہء نو بہار بن کر
    یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
    وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر

    ساغر صدیقی

    93. آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    ساغر صدیقی

    94. محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم
    کچھ گفتگو تو کھل کے کریں گے خدا کے ساتھ

    عبدالحمید عدم

    95. عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
    ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے

    حفیظ میرٹھی

    96. صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
    نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی

    گستاخ رام پوری

    97. چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
    اے شبِ ہجر تیرا کالا منہ
    بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
    آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ

    مومن خان مومن

    98. سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

    احمد فراز

    99. مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
    وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

    افتخار عارف

    100. اے خدا جو کہیں نہیں موجود
    کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں

    جون ایلیا

    101. بس یہی قیمتی شے تھی سو ضروری سمجھا
    جلتے گھر سے تیری تصویر اٹھا کر لے آئے

    ریحان اعظمی

    نوٹ: اگر آپ اس فہرست میں آپ اپنی پسند کے کسی شعر کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے کمنٹ میں شعر اور شاعر کا نام لکھیئے۔

  • مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 135 واں یوم پیدائش ہے۔ خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    art-1

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی۔ بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیے ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کرپاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس مخلوق کی کمر میں مہرے نہیں، وہ سیپی کے اندر مہرہ دار مخلوق سے زیادہ پر امن زندگی بسر کرتی ہے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    گزرنے والا کل آج کی یاد ہے، آنے والا کل آج کا خواب ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    محبت، وصل، فراق اور زمانے کی ناانصافیوں کو بیک وقت اپنی شاعری میں سمونے والے خوبصورت لب و لہجے کے ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج 33 برس بیت گئے۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہونے والے فیض کی شاعری وقت کی قید سے آزاد ہے اور آج بھی زندہ و جاوید لگتی ہے۔

    جب ہم معاشرے میں ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد دیکھتے ہیں تو ہمیں بے اختیار فیض کے اشعار اور ان کے مصائب یاد آتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم ان کی رومانوی شاعری پڑھتے ہیں تو اس میں محبوب سے والہانہ و غائبانہ محبت اور رقیب سے ہمدردی کے منفرد اسلوب ملتے ہیں جو بلاشبہ کسی اور کی رومانوی شاعری میں موجود نہیں۔

    انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔

    فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سر بلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔

    فیض کی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور رہی۔ اپنے وطن میں انہیں پابند سلاسل بھی کیا گیا جہاں سے انہوں نے ایسی شاعری کی جس میں ہتھکڑیوں اور سلاخوں کی کھنکھاہٹ اور محبوب سے ہجر کا غم ایک ساتھ نظر آتا ہے۔

    یہ خوں کی مہک ہے کہ لب یار کی خوشبو
    کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو

    گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
    کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

    ان کی رومانوی شاعری میں دیگر شاعروں کی طرح غرور اور خود پسندی کی جگہ انکسار نظر آتا ہے۔

    گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
    دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات

    اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
    اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ

    ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
    کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

    جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
    ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

    یہی عجز اور انکسار اس وقت بھی نظر آتا ہے جب وہ رشک سے اپنے رقیب سے مخاطب ہوتے ہیں۔

    آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
    جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

    جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
    دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

    تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
    زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے

    تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
    تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

    انہوں نے برطانوی نژاد خاتون ایلس سے شادی کی تھی۔ ایک بار معروف مصنف حمید اختر نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے شوہر کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار ضرور ہوتی ہوں گی‘، تو ایلس نے جواب دیا، ’حمید! فیض شاعر ہیں، شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا‘؟

    فیض نے جب معاشرے کی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف قلم اٹھایا، تو اس وقت ان کا لہجہ بہت مختلف تھا۔

    مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

    تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
    یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض کے مجموعہ کلام میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر شامل ہیں جبکہ سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات کا مجموعہ ہے۔

    فیض نے نثر میں بھی میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی یادگار کتابیں تحریر کیں۔

    انہیں کئی بین الاقوامی اعزازت سے بھی نواز گیا جس میں لینن پرائز سرفہرست ہے۔

    خوبصورت و دھیمے لہجے کا یہ شاعر 20 نومبر سنہ 1984 کو دنیا سے ناطہ توڑ گیا جس کے بعد انہیں لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں پیوند خاک کردیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بارش میں بھیگنے کے حیران کن فوائد

    بارش میں بھیگنے کے حیران کن فوائد

    ملک بھر میں بارشوں کا موسم عروج پر ہے اور پاکستان کے مختلف شہروں میں موسلا دھار برساتیں جاری ہیں۔ بارش کا موسم شاعروں، مصوروں اور تخلیق کاروں سمیت عام افراد کو بھی پسند ہوتا ہے اور ہر شخص اس موسم سے لطف اندوز ہونا پسند کرتا ہے۔

    بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں بارش نا پسند ہوتی ہے۔ وہ بارش میں اپنے تمام منصوبے مؤخر کردیتے ہیں اور گھر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح وہ بارش میں بھیگنے کے خوبصورت لمحے ضائع کردیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بارش میں بھیگنا نقصان کا سبب نہیں بنتا بلکہ اس کے برعکس اس کے کچھ فائدے ہیں۔ آج ہم آپ کو بارش میں بھیگنے کے نہایت منفرد فائدے بتا رہے ہیں جن سے آپ پہلے واقف نہیں ہوں گے۔

    صاف ہوا سے لطف اندوز ہوں

    بارش کے بعد جہاں تمام چیزیں دھل کر نکھری نکھری محسوس ہوتی ہیں وہیں ہوا بھی نہایت صاف ستھری اور آلودگی سے پاک ہوجاتی ہے۔ اس ہوا میں چہل قدمی کرنا اور اس میں سانس لینا نہایت فرحت بخش احساس ہوتا ہے۔

    نم ہوا جلد کے لیے مفید

    کیا آپ جانتے ہیں بارشوں میں چلنے والی نم اور ٹھنڈی ہوائیں آپ کی جلد کے لیے نہایت مفید ہیں؟ ماہرین کے مطابق یہ ہوا جلد کے اندر موجود مضر مادوں میں کمی کر کے اسے تازگی بخشتی ہے اور جلد نکھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

    بارش کی خوشبو دماغ کو پرسکون کرنے کا سبب

    بارشوں میں مٹی سے آنے والی سوندھی سوندھی خوشبو دل و دماغ پر حیران کن اثرات مرتب کرتی ہے اور آپ تمام دباؤ اورپریشانیوں سے آزاد ہو کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بارشوں میں مٹی کی سوندھی خوشبو کیوں آتی ہے؟

    موٹاپے میں کمی کا سبب

    انٹرنیشنل جرنل آف اسپورٹس میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سرد اور نم موسم میں چہل قدمی کرنا عام موسم میں چہل قدمی کرنے کے مقابلے میں زیادہ وزن میں کمی کرتا ہے۔

    اس موسم میں جسم سے اضافی چربی کا تیزی سے اخراج ہوتا ہے اور یوں بارش کا موسم آپ کے وزن میں کمی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ڈپریشن سے نجات

    بارش میں بھیگنے سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ بارش کی خوشبو اور اس کی آواز نہایت ہی پرسکون ہوتی ہے اور آپ کی توجہ منفی چیزوں سے ہٹا کر مثبت چیزوں کی طرف مبذول کردیتی ہے۔

    تخلیقی صلاحیت میں اضافہ

    بارش میں تمام مصروفیات زندگی ماند پڑجاتی ہیں۔ سڑکیں خالی اور صاف ستھری ہوجاتی ہیں، نکھرے نکھرے دھلے دھلائے درخت، خاموشی، یہ سب آپ کے اندر نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔

    بارش میں آپ چیزوں کو عام دنوں سے ہٹ کر ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ یہ آپ کے اندر دبی ہوئی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے اور ان میں اضافہ کرتی ہے۔ بارش کے موسم میں، مصوروں، شاعروں اور دیگر تخلیق کاروں کو مہمیز ملتی ہے۔

    پرسکون کیفیت

    بارش میں بھیگنا آپ کو پرسکون کردیتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا اور بارش کے قطرے آپ کو پرسکون کرتے ہیں اور آپ کی پریشانیوں کو وقتی طور پر ختم کردیتے ہیں۔

    تو اب جب آپ کے شہر میں بارش ہو تو سب کچھ بھول کر بارش میں ضرور بھیگیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بارش میں بھیگنے کے فوائد سے آگاہ ہیں؟

    بارش میں بھیگنے کے فوائد سے آگاہ ہیں؟

    ملک بھر میں سردیوں کی بارش کا آغاز ہوچکا ہے۔ بارش کا موسم شاعروں، مصوروں اور تخلیق کاروں سمیت عام افراد کو بھی پسند ہوتا ہے اور ہر شخص اس موسم سے لطف اندوز ہونا پسند کرتا ہے۔

    بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں بارش نا پسند ہوتی ہے۔ وہ بارش میں اپنے تمام منصوبے مؤخر کردیتے ہیں اور گھر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح وہ بارش میں بھیگنے کے خوبصورت لمحے ضائع کردیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بارش میں بھیگنا نقصان کا سبب نہیں بنتا بلکہ اس کے برعکس اس کے کچھ فائدے ہیں۔ آیئے آپ بھی وہ فائدے جانیں تاکہ بارشوں کے اس موسم میں آپ بھی یہ فوائد حاصل کرسکیں۔

    :ڈپریشن سے نجات

    rain-3

    بارش میں بھیگنے سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ بارش کی خوشبو اور اس کی آواز نہایت ہی پرسکون ہوتی ہے اور آپ کی توجہ منفی چیزوں سے ہٹا کر مثبت چیزوں کی طرف مبذول کردیتی ہے۔

    :تخلیقی صلاحیت میں اضافہ

    rain-2

    بارش میں تمام مصروفیات زندگی ماند پڑجاتی ہیں۔ سڑکیں خالی اور صاف ستھری ہوجاتی ہیں، نکھرے نکھرے دھلے دھلائے درخت، خاموشی، یہ سب آپ کے اندر نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔

    بارش میں آپ چیزوں کو عام دنوں سے ہٹ کر ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ یہ آپ کے اندر دبی ہوئی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے اور ان میں اضافہ کرتی ہے۔ بارش کے موسم میں، مصوروں، شاعروں اور دیگر تخلیق کاروں کو مہمیز ملتی ہے۔

    :پرسکون کیفیت

    بارش میں بھیگنا آپ کو پرسکون کردیتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا اور بارش کے قطرے آپ کو پرسکون کرتے ہیں اور آپ کی پریشانیوں کو وقتی طور پر ختم کردیتے ہیں۔

    تو اب جب آپ کے شہر میں بارش ہو تو سردی تو ضرور لگے گی، مگر چند لمحوں کے لیے بارش میں بھیگنے میں کوئی حرج نہیں۔

  • محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

    محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

    منفرد انداز اور شان بے نیازی کے مالک اردو اور پنجابی کے صف اول کے شاعر منیر نیازی کی آج دسویں برسی ہے۔

    منیر نیازی 9 اپریل سنہ 1928 کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ دیال سنگھ کالج میں تعلیم سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک وہ لاہور میں رہے۔

    جنگل سے منسلک علامات کو خوبصورت شاعری کا حصہ بنانے والے منیر نیازی اپنی مختصر نظموں میں ایسی کاٹ دکھاتے گویا نشتر آبدار فضا میں لہرا رہا ہو۔

    منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا۔ انہوں نے کبھی خود کو حکومت وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔

    ان کی شخصیت کا ایک حصہ شان بے نیازی ان کی شاعری کا اہم جزو ہے۔

    زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
    دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
    کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
    جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

    منیر نیازی نے اردو اور پنجابی زبان میں شاعر کی۔ ان کے اردو میں 13 اور پنجابی میں 3 اور انگریزی میں 2 شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    منیر نیازی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ادیب اور صحافی بھی تھے۔

    انہیں ہمیشہ اپنے معاشرے سے شکوہ رہا۔ ایک محفل میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’ایک زمانے میں نقادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں‘۔

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 26 دسمبر سنہ 2006 کو وہ لاہور میں وفات پاگئے۔ انہیں لاہور کے قبرستان ماڈل ٹاؤن کے بلاک میں پیوند خاک کیا گیا۔

    ستارے جو دمکتے ہیں
    کسی کی چشم حیراں میں
    ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
    جمال ابر و باراں میں
    یہ نا آباد وقتوں میں
    دل ناشاد میں ہوگی
    محبت اب نہیں ہوگی
    یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
    گزر جائیں گے جب یہ دن
    پھر ان کی یاد میں ہوگی

  • دنیا کی خوبصورت ترین آخری آرام گاہیں

    دنیا کی خوبصورت ترین آخری آرام گاہیں

    موت اور شہر خموشاں (قبرستان) دو ایسے الفاظ ہیں جن کی تشریح ہر شخص اپنے انداز سے کرتا ہے۔

    کوئی موت کو زندگی کا خاتمہ سمجھتا ہے، کسی کو موت ایک نئی زندگی کا دروازہ لگتی ہے، کسی کو موت ایک پرسکون شے معلوم ہوتی ہے جس میں نہ کوئی غم ہوگا، نہ کوئی مصیبت، اور نہ ہی دنیا کے جھمیلے، بقول شاعر۔۔

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

    لیکن ایک بات طے ہے، دنیا کی اکثریت مرنا نہیں چاہتی اور زندگی کی رنگینیوں سے سدا لطف اندوز ہونا چاہتی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں۔

    یہی تصور قبرستان کا ہے۔ ادب میں شہر خموشاں کو اداسی اور دکھ کے سائے میں لپٹا ایسا مقام دکھایا جاتا ہے جہاں کسی نہ کسی صورت رومانویت بہر حال محسوس ہوتی ہے۔

    بدقسمتی سے پاکستان میں موجود زیادہ تر قبرستان خوف و دہشت کا مقام اور دگرگوں حالت میں نظر آتے ہیں۔ ملک میں سرگرم کفن چور، مردے چور، جادو ٹونے والے افراد، نشیئوں اور لواحقین کی غفلت اور بے حسی نے قبرستانوں کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ وہاں جا کر رومانویت تو خاک محسوس ہوگی، البتہ رات کے وقت خوف سے موت ضرور واقع ہوسکتی ہے۔

    لیکن مغربی ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں لوگ مرنے کے بعد بھی اپنے پیاروں کو یاد رکھتے ہیں اور باقاعدگی سے ان کی قبر پر جاتے ہیں۔ وہاں قبرستانوں کی دیکھ بھال بھی حکومتوں کی ایسی ہی ترجیح ہے جیسے زندہ انسانوں کی دیکھ بھال۔

    دنیا میں بعض آخری آرام گاہیں ایسی ہیں جو فن تعمیر اور آرٹ کا نمونہ ہیں۔ یہ یا تو تاریخی لحاظ سے نہایت اہم اور قدیم ہیں یا پھر انہیں نہایت خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ قبرستان کم اور سیاحتی مقام زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔

    آج ہم نے دنیا بھر سے ایسے ہی کچھ قبرستانوں کی تصاویر جمع کی ہیں جنہیں دیکھ کر آپ بے اختیار وہاں جانا چاہیں گے۔

    :زینٹرل فریڈ ہوف قبرستان ۔ آسٹریا

    4

    آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں واقع اس قبرستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ویانا آئے اور اس قبرستان کو نہ دیکھا تو آپ کے ویانا آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

    3

    یہاں پر معروف موسیقار بیتھووین ابدی نیند سو رہا ہے جس کی سمفنی (موسیقی کی ایک قسم) دنیا بھر میں محبت کرنے والوں کے دل کے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے۔

    :لا ریکولیٹا قبرستان ۔ ارجنٹائن

    1

    سنہ 1822 میں تعمیر کیے گئے اس قبرستان کو سیاحتی اہمیت حاصل ہے اور اپنے پیاروں کی قبروں پر آنے والوں کے علاوہ یہاں سیاح بھی خاصی تعداد میں آتے ہیں۔

    2

    اس قبرستان میں ارجنٹائن کی مختلف معروف شخصیات دفن ہیں۔ قبرستان کے اندر خوبصورت پگڈنڈیاں، مجسمے اور ترتیب سے قبریں موجود ہیں۔

    :سمٹرل ویسل ۔ رومانیہ

    10

    رومانیہ کے اس قبرستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تمام قبروں کے کتبے نیلے رنگ کے ہیں۔

    11

    ہر کتبے پر ایک نظم لکھی گئی ہے جو اس کے اندر دفن شخصیت کو بیان کرتی ہے۔

    :کی ویسٹ قبرستان ۔ فلوریڈا

    7

    امریکی ساحلی ریاست فلوریڈا میں ویسے تو صرف 30 ہزار افراد آباد ہیں مگر یہاں واقع خوبصورت قبرستان میں 1 لاکھ سے زائد افراد دفن ہیں۔

    21

    اس قبرستان میں معروف ادیب و شاعر اور دیگر شخصیات دفن ہیں جن کے کتبوں پر ان کے اپنے ہی آخری الفاظ لکھے گئے ہیں۔ جیسے ایک کتبے پر لکھا ہے، ’میں نے تم سے کہا تھا کہ میں بیمار ہوں‘۔ ایک کتبے پر رقم ہے، ’میں اپنی آنکھوں کو آرام دے رہا ہوں‘۔

    :آکلینڈ قبرستان ۔ جارجیا

    5

    6

    سنہ 1850 میں قائم کیے جانے والے اس قبرستان میں وکٹورین، یونانی، اور مصری طرز کا فن تعمیر استعمال کیا گیا ہے۔

    :میلان یادگاری قبرستان ۔ اٹلی

    19

    چوٹی کے اطالوی ماہر تعمیرات کی جانب سے تعمیر کردہ اس قبرستان میں صرف اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہی دفن ہیں۔

    18

    مرنے والوں کے پیاروں نے ان کی یاد میں روتے ہوئے فرشتے، گلے ملتی روحوں اور مذہبی مناظر کو سنگ تراشی کی صورت میں نصب کروایا ہے جس نے اس قبرستان کو ایک میوزیم کی شکل دے دی ہے۔

    :اوکونوئن قبرستان ۔ جاپان

    17

    ایک مقامی بدھ رہنما کے نام سے منسوب کیے جانے والے اس قبرستان میں 2 لاکھ سے زائد افراد دفن ہیں۔

    16

    یہاں دفن افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے، کہ ’یہ موت سے ہمکنار نہیں ہوئے بلکہ یہ ابدیت کا انتظار کرنے والی روحیں ہیں‘۔

    :سمٹری ڈی پیری لیشز ۔ پیرس

    13

    دنیا کے خوبصورت ترین شہر پیرس کا یہ قبرستان خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے اور یہ یہاں آنے والوں پر ایک خوف بھرا سحر طاری کردیتا ہے۔

    12

    پیرس کو ویسے بھی فن و ثقافت کا شہر کہا جاتا ہے جہاں سے دنیا بھر کے فن و ادب کو عروج ملا۔ کئی شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے اسی شہر بے مثال میں مرنا پسند کیا۔ ان میں سے اکثر معروف افراد اسی قبرستان میں دفن ہیں۔

    :ساؤتھ پارک اسٹریٹ قبرستان ۔ کلکتہ

    15

    سنہ 1767 میں بھارتی شہر کلکتہ میں قائم کیے گئے اس قبرستان کو اگر باغ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ یہاں دفن بھارت کی نمایاں عیسائی شخصیات کی قبروں کو مندر کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے جس کے لیے مرنے والوں کے لواحقین نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ دراصل بھارتیوں کا ان غیر ہندو شخصیات سے اظہار عقیدت ہے۔

    14

    اٹھارویں صدی کے وسط میں اس قبرستان کو بند کر کے اسے قومی ثقافتی ورثے کی حیثیت دے دی گئی۔

    :ہائی گیٹ قبرستان ۔ لندن

    8

    لندن کے اس قبرستان کو ایک تاریخی و ثقافتی مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں مشہور فلاسفی کارل مارکس بھی دفن ہے۔

    9

    قبرستان میں قبروں پر خوبصورت لکڑی سے آرائش کی گئی ہے جبکہ پورا قبرستان ایک نباتاتی گارڈن معلوم ہوتا ہے۔

  • ماہِ آزادی پر نامور شاعر و ادیب انور شعور کے خیالات

    ماہِ آزادی پر نامور شاعر و ادیب انور شعور کے خیالات

    َ

    انور شعور نامور شاعر ہیں ، آپ کئی اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہے ہیں، آپ کی اب تک تین تصانیف شائع ہوچکی جن میں ’’اندوختہ، مشق سخن، می رقصم‘‘ شامل ہیں۔ کم تعلیمی یافتہ ہونے کے باوجود آپ نے مطالعے پر زور دیا اور معاشرے میں اپنی جگہ بنائی۔ ماضی میں آپ ریڈیو پاکستان پر بچوں کے کئی پروگرام کرچکے ہیں اور سب رنگ ڈائجسٹ سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ دیگر نامور شاعروں کے ساتھ آپ کے بہت گہرے مراسم رہے ہیں۔ آپ اردو کے فروغ کے لیے مختلف انجمنوں اور اداروں سے وابستہ رہے اور آپ کا کلام مختلف ’’فنون‘‘ دیگر رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔ آپ کے مشہور اشعار میں سے ایک شعر درج ذیل ہے۔


    ’’اچھا خاصہ بیٹھے بیٹھے گُم ہوجاتا ہوں،

     اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں‘‘


    آپ نے ہر موضوع پر شعر لکھے ہیں اور آج نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ یومِ اگست کے حوالے سے ہم نے انور شعور سے رابطہ کیا اور اس حوالے سے اُن کا تفصیلی انٹرویو لیا جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

    ANWER POST 1

    سوال :  تحریک پاکستان کے حوالے سے کیا باتیں یاد ہیں؟

    جواب : تقسیم کے 68سال کیسے گزرے یہ تو نہیں معلوم ہاں مگر افسوس یہ ہے کہ ہم جس پاکستان کے لیے ہجرت کر کے آئے تھے وہ پاکستان دو لخت ہوگیا۔ بمبئی میں تحریک آزادی زور و شور سے جاری تھی، جناح صاحب نے اپنا سیاسی تدبراستعمال کیا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو  نیا ویژن دیا۔ جس کی بدولت ہندوستان کے مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد نے بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان کا رُخ کیا۔

    سوال : پاکستان  پہنچنے کے بعد کن حالات سے گزرے؟

    جواب : وطن پہنچنے اور یہاں بسر ہونے کے بعد ہر خاندان کی لازاوال قربانیوں کی اپنی داستاں ہے تاہم اُس وقت کے دارلحکومت کراچی پہنچنے تک ہمارا خاندان کن مراحل سے گزرا یہ بہت لمبی اور کٹھن داستان ہے، بس یوں سمجھو کہ جو بیٹھے بیٹھے پانی کا حکم دیتا تھا اُس کو یہاں آکر روٹی حاصل کرنے کےلیے تک و دو کرنی پڑی بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس اجنبی شہر میں اجنیبت کا بہت احساس تھا، بہن بھائیوں کے بچھڑنے کے غم نے تو کئی سال تک جینے کی آس تک چھین لی تھی۔

    سوال : پاکستان آنے کے بعد ایسا کون سا واقعہ ہے، جو آج تک آپ کے ذہن پر نقش ہو؟

    جواب : ہم تو اُس وقت بہت چھوٹے تھے اس بات کا غم تو ہمارے والدین کو بہت تھا یہی وجہ ہے کہ وہ وقت سے پہلے بوڑھے ہوئے اور دوبارہ اپنے آبائی گھر کو دیکھنے اور دیگر رشتے داروں کی حسرت لیے دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، پاکستان آنے کے بعد سب سے پہلا واقعہ مجھے جناح صاحب کا جنازہ یاد ہے جس میں لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا تھا اس سے قبل اتنے لوگ کسی جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں نہیں دیکھے تھے۔

    سوال : پاکستان آنے کے بعد کہاں منتقل ہوئے اور یہاں زندگی کی ابتداء کیسے کی؟

    جواب : ہمارے مستقبل اور ایمان کو بچانے کی خاطر ہمارے والدین نے اس خطے کا رخ کیا مگر افسوس صورتحال تبدیل نہیں ہوئی بلکہ وہی ہے جو تقسیم سے قبل سنتے آئے تھے۔ بمبئی سے ہمارے اہل خانہ پرانا اردو کالج بوہرہ پیر منتقل ہوئے جہاں روڈ بہت چوڑے چوڑے تھے اور ریڈیو اسٹیشن سے آگے بہت کم آبادی تھی کچھ عرصہ اس علاقے میں رہائش اختیار کی، اس کے بعد ہمارے والد نے ناظم آباد میں گھر لیا۔ اس علاقے میں مجھے تعلیم کے حصول کے لیے حسینی ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا وہ الگ بات ہے کہ تعلیم میں عدم دلچسپی کے باعث تعلیم صرف 5ویں کلاس تک حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے گھر سے بھاگ گیا۔

    ANWER POST 3

    اس دوران مجھے نعت خوانی کا جنون سوار ہوگیا تو گھر والوں نے اس یقین دہانی کے ساتھ گھر واپس بلایا کہ وہ دوبارہ اسکول میں داخل نہیں کروائیں گے اور آئندہ میں تعلیم کے حصول کے لیے مدرسے جاؤں گا۔ مدرسے جانے کے بعد مجھے شاعری کا شوق سوار ہوا اور پھر شعراء اکرام و ادبی لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران مجھے ایک استاد ملے جنہوں نے میرے ذوقِ شاعری کو دیکھتے ہوئے کئی تصانیف عنایت کی بعد ازاں مطالعہ کرتے کرتے ملک کی کئی بڑی ہستیوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل رہا۔

    سوال : کسی سرکاری ادارے میں ملازمت کی؟

    جواب : سرکاری ملازمت تو اچھی تعلیم سے میسر آتی ہے تاہم میں بچوں کے رسائل کو بڑے ذوق سے پڑتا رہا اور آہستہ آہستہ کر کے ریڈیو پاکستان کے پروگراموں میں اپنی جگہ بنائی اور اپنے آپ صلاحیتیوں کو وہی سے منوانا شروع کیا۔

    سوال :  سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے جو باتیں کی جاتی ہیں اُن میں کتنی صداقت ہے؟

    جواب : اس حوالے سے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 11 دسمبر 1971 کو اچانک اُس وقت کے صدر یحیٰ خان کی تقریر نشر ہوئی جس میں انہوں نے للکارتے ہوئے پیغام دیا کہ ’’ہم ہر جگہ لڑیں گے ، دفتروں، چوکوں، بستیوں ، آبادیوں وغیرہ وغیرہ میں جنگ کریں گے ‘‘۔ اس اعلان کے نشر ہونے کے بعد میں نے اسٹیشن میں بیٹھے تمام افراد کو روتے ہوئے دیکھا کیونکہ لوگ سمجھ گئے تھے کہ وطن دو لخت ہوگیا ہے ‘‘۔

     سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری افواج نے وہاں کی عورتوں کے ساتھ عصمت دری کی ، نوجوانوں پر مظالم کیے ،بچوں کو قتل کیا۔ یہ سب غلط اور پروپیگنڈا ہے وہاں جو کچھ بھی ہوا وہ ردعمل تھا ہاں مگر یہ بتاؤ ہماری فوج وہاں ظلم کیوں کرتی کہ جب ’’بنگالہ دیش کی افواج نے ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار کیے ہوئے تھے اور ایسے ہی کئی ہزاروں فوجی ہتھیار ڈال چکے تھے‘‘۔

    سوال : آپ کے خیال میں سانحہ سقوط ڈھاکہ کیوں پیش آیا؟

    جواب : پاکستان دو لخت نہ ہوتا مگر یہ ایک سازش کے تحت کیا گیا، بنگلہ دیش میں ڈیوٹی پر مامور پاکستانی فوجیوں کو علم نہیں تھا کہ بنگلہ دیش آزاد ہورہا ہے انہوں نے اپنے سنیئرز کے احکامات مانتے ہوئے ہتھیار ڈالے اور یحیٰ خان نے بھی ایک موقع پر یہی کہا کہ ہم نے فتح حاصل کرلی ہے اور پاکستان دولخت نہیں ہوا ۔ بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ ہی ہے تاہم صورتحال سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ واقعی ہم ٹوٹ چکے ہیں‘‘۔

    سوال : مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی زندگی کے بارے میں کچھ یاد ہے؟

    جواب : جناح کے بعد اگر ملک میں کوئی قومی لیڈر کے طور پر سامنا آیا تو وہ اُن کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں تاریخ گواہ ہے کہ اُن کے ساتھ ہم نے بہت غلط رویہ اختیار کیا اور دھاندلی کے ذریعے اُن کا سیاسی قتل کیا، شاید یہ کسی تسلسل کا سلسلہ تھا۔

    ANWER POST 3

    بعد ازاں ملکی معاملات کو جاگیر دار وڈیروں کے حوالے کردیا گیا اور قوم مختلف ٹولوں قومیتوں، فرقوں کے نام پر بٹ گئی، ان جاگیر داروں نے ہمارے ملک کے ساتھ بہت غلط کیا اور سازش کے تحت اقتدار پر آج تک قابض ہیں۔

    سوال : آپ مشاعروں وغیرہ کے سلسلے میں اکثر  بھارت جاتے ہیں، بھارت میں مسلمان (اقلیتوں) کے حالات کیسے ہیں؟

    جواب : حیران کُن بات یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان ہندو حکومت کو برا نہیں کہتے وہاں کے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ ’’بھارت میں نوکریاں، تعلیمی اداروں میں داخلوں سمیت ہر چیز میرٹ پر ہوتی ہے۔ رواں سال ریختہ کی جانب سے منعقد کردہ مشاعرے میں شرکت کرنے کے بعد میں نے وہاں کے ایک طالب علم سے سوال کیا کہ ’’کیا تمھارے ساتھ ہندو حکومت کا رویہ صیح ہے تو اُس سے ایک لمحہ ٹھرے بغیر جواب دیا کہ ہمارے ملک میں میرٹ کا نظام ہے اگر میں میرٹ پر پورا اتروں گا تو میں ہر چیز حاصل کرسکتا ہوں‘‘۔

    ANWER POST 4

    ہاں مگر بھارت میں ذات پات کا بہت تفرقہ ہے مگر ہم اُس ملک کو تنقید کا نشانہ اس لیے نہیں بناسکتے کیونکہ ہمارے ملک کے جاگیردار طبقے نے رعایا اور اپنے درمیان اُس سے بھی خطرناک فرق رکھا ہوا ہے، ہمارا ملک اسلامی ہے تاہم اسلامی اصولوں کے حساب سے تمام زمین اللہ کی ہے مگر ہمارے اسلامی ملک میں اس اصول کو بالائے طاق رکھ دیا گیا اسی وجہ سے پوری قوم مخمصے کا شکار ہے۔

     سوال : پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟

    جواب : مجھے امید ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ پاکستان ترقی کرے گا آج کے نوجوانوں تک جو باتیں نہیں پہنچی اُس کے ذمہ دار ہماری نسل ہے، میری نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اپنے حصے کا کام کریں آہستہ آہستہ پورا ملک صیح ہوجائے گا اور یہ زمین ہمیں تسلیم کر لے گی۔

    سوال : ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں ملکی ترقی میں کیسے کردار ادا کرنا چاہیے؟

    جواب : آزادی کے بعد سے آج تک یہ تعین نہیں کیا گیا کہ بطور پاکستانی ہمیں اس ملک کی خدمت کے لیے کیا کرنا ہے کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے مگر آپ نوجوان اپنے حصے کا کام کرتے جاؤں تاکہ ملک مستحکم رہے۔

    سوال : جشن آزادی کے موقع پر نوجوانوں کے نام کوئی پیغام؟

    تمام نوجوانوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم آزاد ہیں ہاں مگر ایک بات یاد رکھیں آزادی میں بھی کچھ پابندیاں ہیں جس سے آپ کی ثقافت کا معلوم ہوتا ہے بس ہر موقع پر اُس کا خیال ضرور رکھیں۔

    انٹرویو کے اختتام پر انور شعور نے اپنے دو اشعار سنائے جو آپ کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں۔


    قائد نے چند سال میں حاصل یہ گھر کیا

    اسلامیانِ ہند کی شب کو سحر کیا

    لیکن سوال یہ ہے کہ ! اے رہ روانِ قوم

    ستر برس میں آپ نے کتنا سفر کیا


  • ‘رومی تمہارا نہیں ہے’

    ‘رومی تمہارا نہیں ہے’

    کابل: افغانستان نے ایران اور ترکی کی جانب سے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کو اپنا قومی ورثہ قرار دینے کی درخواست پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے افغان ورثہ قرار دینے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تہران اور انقرہ رومی کی تخلیقات کو مربوط کر رہے ہیں جس کے بعد اسے اقوام متحدہ کے کتابچے ’عالمی یادیں‘ میں اپنے مشترکہ ثقافتی ورثے کی حیثیت سے جمع کروائیں گے۔

    rumi-3

    اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے 1997 میں اس کتابچے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کتابچے کا مقصد خاص طور پر جنگ زدہ اور شورش زدہ ممالک کے ادبی ورثے کو جمع اور محفوظ کرنا ہے۔

    اس سلسلے میں رومی کو ’اپنا‘ ثقافتی ورثہ قرار دینے کی ترک اور ایرانی کوششوں کو افغانستان نے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

    رومی بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان ثقافت و نشریات کی وزارت کے مطابق رومی ان کا فخر ہے۔

    ترجمان وزارت ہارون حکلیمی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’یونیسکو نے کبھی بھی ہم سے اس بارے میں رائے نہیں مانگی۔ لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اپنا دعویٰ ثابت کردیں گے‘۔

    rumi-4

    رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی تخلیقات کو 23 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    رومی کی زندگی پر ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنائی جارہی ہے جس میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کر رہے ہیں۔

    بلخ کے گورنر جنرل عطا محمد نور نے اقوام متحدہ میں افغان نمائندے کو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانے اور اس پر احتجاج کرنے کو کہا ہے۔

    ان کا کہنا ہے، ’رومی کو صرف 2 ممالک تک محدود کرنا ناانصافی ہے۔ رومی ایک عالمی مفکر ہے اور دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں‘۔

    rumi-1
    رومی کی آرام گاہ

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔

    منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔

    یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    rumi-2

    افغانیوں کے مطابق رومی نے جہاں اپنے بچپن کا کچھ حصہ گزارا وہ گھر اب بھی بلخ میں موجود ہے۔

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔

    رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔

  • مشہور صوفی شاعر رومی کی زندگی پر فلم

    مشہور صوفی شاعر رومی کی زندگی پر فلم

    ہالی وڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’گلیڈی ایٹر‘ کے مصنف ڈیوڈ فرنزونی تیرہویں صدی کے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کی زندگی پر فلم بنانے جارہے ہیں۔

    ڈیوڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ جو فلم بنانے جا رہے ہیں وہ مغربی سنیما میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کردے گی۔ ’رومی ایک ایسا شاعر ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور معاشروں پر اثرانداز ہوا۔ ایسے عظیم افراد کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ کھوجنے کی ضرورت ہے‘۔

    جلال الدین رومی

    ڈیوڈ نے گزشتہ ہفتے ہی ترکی کا دورہ بھی کیا ہے جہاں وہ رومی کی تعلیمات کے ماہرین سے ملے اور وہاں انہوں نے رومی کے مزار کا دورہ بھی کیا۔

    رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ڈیوڈ کے مطابق نئی نسل رومی کی شاعری اور الفاظ کی تو دلداہ ہے لیکن ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی اور ان کا فلم بنانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ رومی کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔

    ڈیوڈ کے مطابق ان کے سامنے اصل چیلنج رومی کی زندگی کو ایک تسلسل کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ رومی کی زندگی کے کئی اوراق اندھیرے میں ہیں اور تاریخ ان کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ اسی طرح رومی کی زندگی کے ایک کردار حضرت شمس تبریزی اچانک ہی ان کی زندگی میں آئے اور اسی طرح اچانک غائب ہوگئے۔

    فلم میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کو دیا جارہا ہے۔ حال ہی میں آسکر ایوارڈ جیتنے والے لیونارڈو رومی کا کردار ادا کریں گے جبکہ شمس تبریزی کا کردار رابرٹ ڈاؤننگ جونیئر ادا کریں گے۔ فلم کی کاسٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    rumi-2

    rumi-3

    فلم کی شوٹنگ اگلے سال سے شروع کردی جائے گی۔

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ منگولوں کے حملے کے دوران انہوں نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔ یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    شمس تبریزی اور رومی کا ساتھ 2 برس رہا۔ اس کے بعد شمس تبریزی پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں قتل کردیا گیا تاہم ان کی موت کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں۔ ان کا مزار ایران کے شہر خوی میں ہے جسے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔

    rumi-6
    شمس تبریزی کی آرام گاہ
    rumi-4
    رومی کے مزار پر ہونے والا رقص

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔