Tag: شاعر

  • اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو شاعری میں کلاسک کی حیثیت رکھنے والے اس شعر کے خالق حسرت موہانی کی آج 66 ویں برسی ہے۔

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    قیام پاکستان سے قبل جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار، انگریزوں کی غلامی کا دور اور اس کے بعد تحریک پاکستان کا غلغلہ اٹھا تو اردو شاعری حسن و عشق کے قصوں کو چھوڑ کر قید و بند، انقلاب، آزادی اور زنجیروں جیسے موضوعات سے مزین ہوگئی۔ غزل میں بھی انہی موضوعات نے جگہ بنالی تو یہ حسرت موہانی ہی تھے جنہوں نے اردو غزل کا ارتقا کیا۔

    البتہ اس وقت کے بدلتے ہوئے رجحانات سے وہ بھی نہ محفوط رہ سکے اور ان کی شاعری میں بھی سیاست در آئی۔ وہ خود بھی سیاست میں رہے۔ پہلے کانگریس کے ساتھ تھے پھر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

    حسرت موہانی ایک صحافی بھی تھے۔ 1903 میں انہوں نے علی گڑھ سے ایک رسالہ اردو معلیٰ بھی جاری کیا۔ 1907 میں ایک حکومت مخالف مضمون شائع ہونے پر انہیں جیل بھی بھیجا گیا۔

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

    ان کا یہ مشہور زمانہ شعر اسی دور کی یادگار ہے۔

    علامہ شبلی نعمانی نے ایک بار ان کے لیے کہا تھا۔ ’تم آدمی ہو یا جن؟ پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔‘ حسرت موہانی سے زیادہ متنوع شاعر اردو شاعری میں شاید ہی کوئی اور ہو۔

    حسرت کی شاعری سادہ زبان میں عشق و حسن کا بہترین مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کو ہر دور میں پسند کیا جاتا ہے۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے بہترین غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔

    بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
    ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

    اردو غزل کو نئی زندگی بخشنے والا یہ شاعر 13 مئی 1951 کو لکھنؤ میں انتقال کر گیا۔

  • منفرد لب و لہجے کے شاعر منیر نیا زی کو بچھڑے نو برس بیت گئے

    منفرد لب و لہجے کے شاعر منیر نیا زی کو بچھڑے نو برس بیت گئے

    کراچی: منیر نیازی 9 اپریل 1923ءکو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔

    میں تو منیر آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
    یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں

    انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔

    ملنا تھا اس سے ایک بار پھر کہیں منیر
    ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا

    منیر نیازی کو ہمیشہ معاشرے کی ناروائی کا قلق رہا اوت ایک محفل میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا کہ ایک زمانے میں نقادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔

    میں منیر آزردگی میں اپنی یکتائی سے ہوں
    ایسے تنہا وقت میں ہمدم مرا ہوتا کوئی

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔26 دسمبر 2006ءکواردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی لاہور میں وفات پاگئے ۔ وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹاﺅن،کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔

    چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
    ایک ایسی زندگی، جو اس طرح مشکل نہ ہو

  • غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    ناصر کاظمی کے مداح   آج  ان کی برسی  منا رہے ہیں

    کراچی: ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا ۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اس طرح کے کئی لازوال شعر ان کی تخلیق ہیں۔ ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔

    ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔ پہلا مجموعہ "برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ۔ دوسرے دو مجموعے "دیوان” اور "پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

  • منفرداسلوب اور تشبیہات واستعارات شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 7 برس بیت گئے

    منفرداسلوب اور تشبیہات واستعارات شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 7 برس بیت گئے

    منیر نیازی 9 اپریل 1923ءکو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔

    انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔26 دسمبر 2006ءکواردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی لاہور میں وفات پاگئے ۔ وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹاﺅن،کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔