Tag: شام پر حملے

  • اسرائیل شام پر حملے کیوں کر رہا ہے؟ شام کی 80 فی صد فوجی صلاحیت تباہ کرنے کا دعویٰ

    اسرائیل شام پر حملے کیوں کر رہا ہے؟ شام کی 80 فی صد فوجی صلاحیت تباہ کرنے کا دعویٰ

    دمشق: اسرائیل نے خطے کو آگ میں جھونک دیا ہے، گزشتہ دو روز میں صہیونی فورسز نے شام پر 480 حملے کر دیے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے بمبار طیاروں نے گزشتہ رات شام کی بندرگاہوں کو نشانہ بنایا، جہاں بحریہ کے 15 بحری جہاز لنگر انداز تھے۔

    اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران شام پر چار سو اسّی حملے کیے ہیں، جس میں کئی شہروں میں 15 بحری جہاز، طیارہ شکن بیٹریاں اور ہتھیاروں کی تیاری کے مقامات کو تباہ کر دیا گیا۔

    اسرائیل نے شام پر برسوں سے جاری اپنے حملوں کو جواز بنا کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایرانی فوجی اہداف کو ختم کر رہا ہے، تاہم ایران نے کہا ہے کہ اس کی کوئی بھی فوج فی الحال شام میں نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیلی جیٹ اور جنگی جہاز شام پر بمباری کر رہے ہیں، انھوں نے گزشتہ دو دنوں میں دمشق، حمص، طرطوس، لطاکیہ اور پالمیرا کے شہروں میں 480 اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں میں کم از کم 2 عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

    اس دوران لطاکیہ اور البیدا کی بندرگاہوں پر بھی بمباری کی گئی، جب کہ تیاس ایئربیس کے ساتھ ساتھ دمشق اور قمشلی ایئرپورٹس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج کا تخمینہ ہے کہ اس نے شام کی 80 فی صد فوجی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے، یہ اسرائیل کی جانب سے شام میں تاریخ کی سب سے بڑی جارحانہ کارروائیوں میں سے ایک ہے۔

    اسرائیلی فوج اور ایک سیرین وار مانیٹر نے کہا کہ اسرائیل نے جن اہداف کو نشانہ بنایا ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں: فضائی دفاعی نظام، راڈار، میزائل لانچر اور فائرنگ کی پوزیشنیں۔ لڑاکا طیارے، فوجی ہیلی کاپٹر اور متعدد ایئر بیسز پر ہینگرز۔ کم از کم 15 بحری جہاز جن میں بحری جہاز اور میزائل کشتیاں شامل ہیں۔ ہتھیاروں کے ڈپو، پروڈکشن سائٹس اور مختلف قسم کے میزائل۔ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام سے منسلک سائنسی تحقیقی مراکز۔

    نیتن یاہو نے شام کے نئے حکمرانوں کو دھمکی دیدی

    ادھر شامی اپوزیشن کے جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کرد فورسز سے شمال مشرقی شہر دیر الزور چھین لیا ہے، حیات تحریر الشام کے رہنما احمد الشارع، جسے الجولانی بھی کہا جاتا ہے، نے شام کی تعمیر نو کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ شامی 14 سال کی جنگ کے بعد اب ’تھک چکے‘ ہیں۔

    شام کے نگراں وزیر اعظم محمد البشیر کا کہنا ہے کہ شامیوں کو ’استحکام اور سکون‘ کی ضرورت ہے، اور وہ عوامی خدمات اور اداروں کو بحال کرنے کے لیے بشار الاسد کی حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ فضائی حملوں کے ساتھ اسرائیلی فورسز شام میں زمینی کارروائی کا دائرہ کار بھی بڑھاتی جا رہی ہے، صہیونی فوج نے گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بنائے گئے جنگ سے مبرا علاقے بفرزون پر قبضہ کر لیا ہے، اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوژارک نے اسرائیلی قبضے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے بفرزون میں تین مقامات پر اپنی فوجیں تعینات کی ہیں، قطر کے دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ صورت حال ناقابل قبول ہے کہ اسرائیل اس وقت حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔

  • شام کے اندر خوں آشام ’مغربی تکون‘ کے حملے نئے نہیں!

    شام کے اندر خوں آشام ’مغربی تکون‘ کے حملے نئے نہیں!

    سات سال ہوچکے ہیں‌، اس بات کو کہ شامیوں‌ کی زندگی ایک خوں آشام درندے کے پنجوں میں‌ پھڑ پھڑا رہی ہے۔ یہ بات کہنے کو بہت آسان ہے لیکن بھیانک سچ ہے کہ شام کے اندر انسانی زندگی کی ارزانی اس قدر بڑھ چکی ہے جس قدر کوئی شخص آسانی سے سانس لیتا ہے۔ 2011 سے شام کی زمین پر موت مسلسل گر رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مطابق شام پر مسلط کردہ جنگ میں اب تک چار لاکھ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ شام کی ایک آزاد ریسرچ تنظیم کے مطابق 2016 میں یہ تعداد پانچ لاکھ ہوچکی تھی۔

    عالمی میڈیا ہمیں بتاتا ہے کہ شام میں خانہ جنگی چل رہی ہے۔ یہ یورپی میڈیا کا بدترین دھوکا ہے جس نے دنیا کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف روس اور بشار الاسد حکومت مل کر رہائشی علاقوں پر بمباری کررہے ہیں، دوسری طرف مقامی داعش لوگوں کو آرٹلری سے نشانہ بنارہی ہے، اغوا کر رہی ہے، اور تیسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں جو فضائی حملے کرکے ہزاروں شامیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ یہ بدقسمت شامیوں پر ایک مسلط کردہ تباہی ہے جس نے ایک عظیم انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک اس تباہ کن جنگ میں 61 لاکھ شامی بے گھر پھر رہے ہیں اور 48 لاکھ دوسروں ممالک کی طرف ہجرت کرکے پناہ حاصل کرنے کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ جن علاقوں کا محاصرہ کیا گیا ہے ان میں دس لاکھ سے زائد انسان زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار ہیں۔ ان سات برسوں میں سوا لاکھ شامی یا تو قید کیے جاچکے ہیں یا لاپتا ہوچکے ہیں۔

    شام کے اس افسوس ناک پس منظر میں روس، امریکا اور اتحادیوں کا کردار بہت نمایاں اور ظلم کی حدوں کو پار کرچکا ہے، بالخصوص امریکا، برطانیہ اور فرانس کا تکون ایک ایسے جھوٹ کے پیچھے چل رہا ہے جس کے بارے میں دنیا بھی جان چکی ہے لیکن وہ خاموش ہے۔ جب برطانیہ کی خاتون وزیر اعظم تھیریسا میری مے نے شام کے سلسلے میں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے برطانوی افواج کو امریکہ اور فرانس کے ساتھ شامی کیمیائی ہتھیاروں کے اڈوں پر فضائی حملوں میں شامل ہونے کا حکم دیا تھا تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب برطانیہ اس بدقسمت خطے کے لیے اپنی بے رحمانہ پالیسی کا اظہار کر رہا تھا۔

    یہ ایک ایسا عمل تھا جس کے بارے میں وزیر اعظم کو یقین تھا کہ اگر اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی تو یہ کوشش ناکام ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب انھیں برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کی طرف سے غضب ناک ردعمل کا سامنا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جب عالمی طاقتیں تزویراتی حوالے سے فیصلے کرتی ہیں تو عارضی طور پر جمہوری اداروں کو ٹشو پیپر کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہیں۔

    شام کی جنگ اپنی خوفناک صورت میں جاری رہے گی، برطانوی وزیر خارجہ

    سوال یہ ہے کہ بد قسمت ملک شام میں اس مغربی تکون کے تباہ کن حملوں کا مقصد کیا تھا؟ کیا انھیں امید تھی کہ بشارالاسد اپنا رویہ تبدیل کردے گا؟ یقیناً ایسا کچھ نہیں تھا۔ مغرب کے سر پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جو خوف جنون بن کر سوار ہے وہ ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار نہیں بلکہ بیرل بم اور گولیاں لوگوں کی اموات اور معذوریوں کا سبب بن رہی ہیں۔

    مغربی تکون کے حالیہ حملوں کے بارے میں اگر یہ سوال کیا جائے کہ ان سے شام کی صورت حال میں کیا تبدیلی آئے گی تو جواب صرف ایک ہی ہوگا، یعنی کوئی تبدیلی نہیں۔ یہ شاطر امریکا کی حکمت عملی رہی ہے کہ الفاظ اور عمل کے درمیان واضح امتیاز کو گڈ مڈ کرکے سازشی تھیوریوں کو سر ابھارنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ گزشتہ ایک برس میں بشار حکومت نے مبینہ طور پر کئی کلورین گیس حملے کیے ہیں لیکن امریکا نے ان پر کوئی رد عمل نہیں دکھایا۔ یہ ایک حیران کن امر ہے کہ پینٹاگان نے ہمیشہ بہت احتیاط سے کام لیا ہے کہ شام میں روسیوں کا کوئی جانی نقصان نہ ہو، لیکن اسے شامی باشندوں کی بے پناہ اموات پر کوئی فکر نہیں ہے۔

    امریکا کے پاس حملوں کے لیے بے شمار اہداف ہیں لیکن وہ مخصوص اہداف کو نشانہ بناکر خاص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی دیکھیں کہ امریکا اور روس کی طرف سے زبردست پروپیگنڈا جاری ہے اور دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ روس کہتا ہے کہ کیمیائی حملے امریکی ایجنٹ کرتے ہیں اور امریکا الزام لگاتا ہے کہ سابقہ روسی جاسوس اور اس کی بیٹی کو روس نے برطانوی سرزمین پر مارا اور اس نے حالیہ امریکی انتخابات میں مداخلت کی ہے۔ بریگزٹ سے لے کر یوکرین تک روس کے خلاف الزامات کی ایک طویل فہرست ہے۔

    آج شام پر حملے کے لیے برطانیہ اور فرانس ایک ایسے امریکی صدر کی پکار پر ان کی طرف دوڑ کر گئے ہیں جو عورتوں کے حوالے سے بدنام ہے، ماضی میں بھی یہ ایک ایسے ہی امریکی صدر کی آواز پر اتحادی بنے تھے جب عراق میں صدر صدام حسین کو تخت سے اتارنا تھا۔ یہ ایک شیطانی چکر ہے جو ایک عرصے سے جاری ہے۔ امریکا بین الاقوامی سلامتی کی دہائی دیتا ہے اور مفروضہ خطرات سے ڈراتا ہے، اور پھر کہتا ہے کہ ان خطرات سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ یورپی حکومتیں اپنی پارلیمنٹس کو یا تو بائی پاس کرکے یا دھوکا دے کر امریکا کے ساتھ اتحاد کرلیتی ہیں۔ تباہی و بربادی کے بہت سارے برس گزر گئے اور اس مخصوص خطے میں انسانی جانیں ارزاں ہی نظر آرہی ہیں۔