Tag: شام

  • شام کی صورت حال بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے، دوحہ فورم

    شام کی صورت حال بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے، دوحہ فورم

    دوحہ: قطر میں منعقدہ دوحہ فورم نے کہا ہے کہ شام کی صورت حال بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قطر، سعودی عرب، اردن، مصر اور روس نے دوحہ فورم کے ذریعے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کی موجودہ صورت حال علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔

    اعلامیے میں شام میں شہریوں کی حفاظت کے لیے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس کسی دہشت گرد گروہ کو شام کا کنٹرول نہیں سنبھالنے دے گا، باغی گروپوں کی جانب سے کی جانے والی حالیہ عسکری آپریشن کی منصوبہ بندی طویل عرصے پہلے کی گئی۔

    انھوں نے ان کارروائیوں کو طاقت کے توازن میں خلل ڈالنے اور زمینی صورت حال کو بدلنے کی کوشش قرار دیا، لاوروف نے باغیوں کی پیش قدمی کے خلاف روس کی مخالفت کا اعادہ بھی کیا۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل شام میں صورت حال خرابی کے ذمہ دار ہیں۔

    شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار ختم، ملک چھوڑ کر فرار

    واضح رہے کہ اپوزیشن کے باغی گروہوں نے شام کے دارالحکومت دمشق پر بھی قبضہ جما لیا ہے، اور صدر بشار الاسد ایک طیارے میں ملک چھوڑ کر کسی نا معلوم مقام کی طرف فرار ہو گئے ہیں، جب کہ وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے اعلان کیا کہ وہ دمشق میں اپنی جگہ چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔

    شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار ختم ہو گیا ہے، وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں، شامی وزیر اعظم نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائیں، انھوں نے کہا حکومت اپوزیشن کی طرف ’اپنا ہاتھ پھیلانے‘ اور اپنی ذمہ داریاں عبوری حکومت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔

  • مستقبل میں ملک ’’شام‘‘ کیسا ہوگا؟ اہم تجزیہ

    مستقبل میں ملک ’’شام‘‘ کیسا ہوگا؟ اہم تجزیہ

    شام میں باغی گروپوں کی مسلسل بڑھتی پیش قدمی کے بعد صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں مصری دانشور نے شام کے مستقبل کی متوقع منظر کشی کی ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق شام میں باغی مسلح گروپوں کی مسلسل بڑھتی پیش قدمی کے بعد صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ باغی گروپوں نے حلب، حمات اور حمص کے بعد اب دارالحکومت دمشق کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کر دیا ہے۔

    شام سے متعلق تمام خبریں 

    اس صورتحال میں مصر کے عسکری تجزیہ کار کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے مشیر میجر جنرل اسٹاف ہیثم حسین نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے مستقبل میں شام کے متوقع تین منظر ناموں کی پیشگوئی کی ہے۔

    مصر کے عسکری تجزیہ کار نے کہا ہے کہ پہلا منظر نامہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ حزب اختلاف دمشق پر پیش قدمی کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ’ایس ڈی ایف‘ کا مقابلہ کرنے، اسے شکست دینے اورشام کو اسلامک اسٹیٹ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

    دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ شامی حکومت ان گروہوں کو شکست دینے اور 2016 کے منظر نامے میں واپس آجائے گا۔

    جب کہ تیسرا منظر نامہ شام کو تین چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر رہا ہے (دمشق میں ایک مرکزی حکومت ہوگی۔ حلب میں ایک اسلامی حکومت اور باقی علاقوں پر ایک کرد حکومت قائم ہوسکتی ہے۔

    شام میں جاری حالیہ شورش کے دوران اب تک 800 سے زائد افراد جاں بحق اور تین لاکھ شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ باغی مسلح گروپ کے بڑھتے غلبے کے بعد شامی صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں جب کہ شامی وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے ملک میں ہی رہنے کا اعلان کرتے ہوئے کہ اہے کہ وہ بشار الاسد کے فرار کے باوجود دمشق میں اپنی جگہ نہیں چھوڑیں گے۔

    https://urdu.arynews.tv/bashar-al-assad-syria-pm-mohammed-ghazi-jalali/

  • دمشق میں اپنی جگہ نہیں چھوڑوں گا، شامی وزیر اعظم کا بشار الاسد کے فرار کے بعد اعلان

    دمشق میں اپنی جگہ نہیں چھوڑوں گا، شامی وزیر اعظم کا بشار الاسد کے فرار کے بعد اعلان

    دمشق: بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد شامی وزیر اعظم نے ملک میں ہی رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شامی وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے بشار الاسد کے فرار کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ دمشق میں اپنی جگہ نہیں چھوڑیں گے۔

    محمد غازی الجلالی نے کہا سب لوگوں کو مل کر ملک کی بحالی کے لیے سوچنا ہوگا، ملک کی بہتری کے لیے ہم اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں، امید ہے حکومت مخالف فورسز کسی شہری کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔

    شامی وزیر اعظم نے مظاہرین سے اپیل کی کہ سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائیں، انھوں نے کہا حکومت اپوزیشن کی طرف ’اپنا ہاتھ پھیلانے‘ اور اپنی ذمہ داریاں عبوری حکومت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔

    جلیلی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ’’میں اپنے گھر میں ہوں اور میں نے ملک نہیں چھوڑا، اور یہ اس ملک سے میرا تعلق ہونے کی وجہ سے ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ وہ صبح کام جاری رکھنے کے لیے اپنے دفتر جائیں گے، اور شہریوں سے عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیل ہے۔

    شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار ختم، ملک چھوڑ کر فرار

    واضح رہے کہ شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار ختم ہو گیا ہے، وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے، شامی فوجی افسران نے روئٹرز سے گفتگو میں بتایا کہ بشار الاسد ایک طیارے پر فرار ہوئے، مظاہرین نے بشار الاسد کے والد کا مجسمہ گرا دیا، اور حکومت مخالف فورسز دارالحکومت دمشق پہنچ گئیں، دمشق کی مرکزی شاہراہ پر عوام جشن منانے نکل آئے، اور ہوائی فائرنگ اور آزادی کے نعرے لگائے۔

  • شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار ختم، ملک چھوڑ کر فرار

    شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار ختم، ملک چھوڑ کر فرار

    دمشق: شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار ختم ہو گیا، وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شامی صدر بشار الاسد دمشق سے بھاگ نکلے، برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسد طیارے میں سوار ہو کر نامعلوم مقام پر روانہ ہوئے۔

    شامی فوجی افسران نے روئٹرز سے گفتگو میں بتایا کہ اسد طیارے پر فرار ہوئے، مظاہرین نے بشار الاسد کے والد کا مجسمہ گرا دیا، اور حکومت مخالف فورسز دارالحکومت دمشق پہنچ گئیں، دمشق کی مرکزی شاہراہ پر عوام جشن منانے نکل آئے، اور ہوائی فائرنگ اور آزادی کے نعرے لگائے۔

    حکومت مخالف فورسز نے دمشق کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، دمشق شہر میں حکومت مخالف فورسز کا شامی فوج سے سامنا نہیں ہوا، دمشق میں شامی فوج کہیں بھی تعینات نہیں تھی، امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شامی فوج کی اکثریت ملک چھوڑ کر عراق بھاگ گئی ہے۔

    حکومت مخالف فورسز نے دمشق کی سب سے بڑی جیل سے قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا ہے، اپوزیشن کا کہنا ہے بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد شام کا تاریکی دور ختم ہو گیا۔

    گزشتہ ایک ہفتے سے حکومت مخالف فورسز اور شامی فوج کے درمیان لڑائی جاری تھی، حکومت مخالف فورسز کی پیش قدمی کے بعد شامی فوج مختلف علاقوں پیچھے ہٹ گئی، ایک ہفتے کے دوران حکومت مخالف فورسز نے شام کے متعدد شہروں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، واضح رہے کہ شام 2011 سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔

    سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے رامی عبدالرحمٰن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اسد نے اتوار کو دمشق سے ایک پرواز لی۔ ایران میں سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی کہ بشار الاسد نے دارالحکومت چھوڑ دیا ہے، ایرانی ٹی وی نے قطر کے الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کا حوالہ دیا۔ اے پی نے لکھا ’’ایسا لگتا ہے کہ شامی حکومت اتوار کے اوائل میں باغیوں کے حملے کے بعد گر گئی ہے، اور یوں اسد خاندان کی 50 سالہ حکمرانی کا ایک حیران کن اختتام ہو گیا ہے۔‘‘

  • 40 سال قبل لاپتا ہونے والا لبنانی شامی باغیوں کی فتح کے بعد حماۃ کی جیل سے برآمد

    40 سال قبل لاپتا ہونے والا لبنانی شامی باغیوں کی فتح کے بعد حماۃ کی جیل سے برآمد

    حماۃ: 40 سال قبل لاپتا ہونے والا ایک لبنانی شامی باغیوں کی فتح کے بعد حماۃ شہر کی جیل سے برآمد ہوا۔

    الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز شام کے شہر حماۃ پر جب باغیوں نے کنٹرول حاصل کیا تو انھوں نے شہر کے جیل کے دروازے کھول دیے اور قیدیوں کو رہا کر دیا، جس کے بعد بڑے رقت آمیز مناظر دیکھے گئے، الجزیرہ نے ایک ویڈیو بھی شیئر کی ہے۔

    دوسری طرف شامی سوشل میڈیا پر سینٹرل جیل سے رہا ہونے والے قیدیوں کی فہرست بھی زیر گردش ہے، جس میں لبنانی خانہ جنگی کے دوران شامی افواج کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد غائب ہونے والا ایک لبنانی بھی شامل ہے۔

    رپورٹس کے مطابق اس جیل میں زیادہ تر قیدی وہ تھے جنھیں بشار حکومت نے باغی سمجھ کر بغیر مقدمات قید کر رکھا تھا، جہاں وہ کئی دہائیوں سے قید تھے اور ان کے رشتہ دار انھیں تلاش کر رہے تھے یا انھیں مردہ سمجھ لیا تھا۔

    ایک ایسی تصویر بھی سامنے آئی جو شمالی لبنان کے شہر عکار کے ایک 60 سالہ شخص کی تھی، جو تقریباً 40 سال قبل لاپتا ہو گیا تھا، حماۃ کی جیل سے نکلنے والے اس شخص کی تصویر چند گھنٹوں کے دوران جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔

    بشار الاسد کہاں ہیں؟ استعفے کے اعلان کی ویڈیو اے آئی کی مدد سے بنائی گئی؟

    ان کے کچھ پڑوسیوں اور جاننے والوں نے جب تصویر دیکھی تو کہا کہ وہ علی حسن العلی سے بہت مشابہت رکھتا ہے، علی کو شامی فوج نے چالیس سال قبل گرفتار کیا تھا، تاہم ابھی تک اس شخص کی درست شناخت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اب بھی لگ بھگ 622 لاپتا لبنانی ایسے ہیں جن کے اہل خانہ کو یقین ہے کہ وہ شام کی جیلوں میں قید ہیں اور ان کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

  • بشار الاسد کہاں ہیں؟ استعفے کے اعلان کی ویڈیو اے آئی کی مدد سے بنائی گئی؟

    بشار الاسد کہاں ہیں؟ استعفے کے اعلان کی ویڈیو اے آئی کی مدد سے بنائی گئی؟

    دمشق: خانہ جنگی کے شکار شام کی حکومت نے صدر بشار الاسد کے اقتدار چھوڑنے سے متعلق ایک ویڈیو کی صداقت کی تردید کر دی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شامی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ صدر بشار الاسد دارالحکومت دمشق میں موجود ہیں اور وہیں سے فوجی اور سیاسی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

    بشار الاسد کے بارے میں افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ وہ ایران فرار ہو گئے ہیں، تاہم سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں، جمعرات کو شام کی وزارت اطلاعات نے بشار الاسد کے اقتدار چھوڑنے سے متعلق ایک ویڈیو کی صداقت کی بھی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ من گھڑت ہے۔

    ایکس پر ایک پوسٹ میں شامی وزارت اطلاعات نے عوام سے اپیل کی کہ وہ دہشت گرد تنظیموں سے ہوشیار رہیں، جنھوں نے اے آئی کی مدد سے بشار الاسد کے استعفے کے اعلان کی ویڈیو بنائی۔

    شامی اپوزیشن کے مسلح گروپوں کا عراقی وزیراعظم کو دوٹوک پیغام

    یہ ویڈیو شام کے چوتھے بڑے شہر حماۃ کے ھیہ تحریر الشام اور مسلح دھڑوں کے ہاتھوں شہر پر قبضے کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی تھی، شامی فوج کی پسپائی کے بعد ھیہ تحریر الشام نے حماۃ شہر پر مکمل کنٹرول کا اعلان کر دیا ہے، یہ ادلب اور حلب کے بعد اپوزیشن کے قبضے میں جانے والا تیسرا بڑا شہر بن گیا ہے۔

    آبزرویٹری کے مطابق شام کی حالیہ خانہ جنگی میں اب تک 800 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

  • ھیئہ تحریر الشام کے سربراہ الجولانی حلب کے قلعہ میں منظر عام پر آ گئے

    ھیئہ تحریر الشام کے سربراہ الجولانی حلب کے قلعہ میں منظر عام پر آ گئے

    شام میں حلب کے قلعے پر باغیوں کے قبضے کے بعد ھیئہ تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی قلعہ میں منظر عام پر آ گئے۔

    بدھ کو ٹیلی گرام ایپلی کیشن پر اپوزیشن کے دھڑوں کے اکاؤنٹ پر شیئر ہونے والی فوٹیج کے مطابق ابو محمد الجولانی نے حلب کے قلعے کا دورہ کیا ہے۔

    ابو محمد الجولانی عوامی سطح پر شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے، سامنے آنے والی تصاویر میں وہ شہر کے تاریخی قلعے کے سامنے سیڑھیوں پر کھڑے دکھائی دیے، ایک اور منظر میں انھوں نے اپنے اطراف موجود چاہنے والوں کو سلام کیا۔

    الجولانی نے حلب کے قلعے کا دورہ بدھ کے روز کیا تھا، خیال رہے کہ 2011 میں تنازع شروع ہونے کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے، جب حلب شہر حکومتی فورسز کے کنٹرول سے نکل گیا ہے۔

    سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی تصاویر اور ویڈیوز میں ابو محمد الجولانی حلب کے قلعے سے نکلتے ہوئے اپنے حامیوں، مسلح افراد اور عام شہریوں میں گھرے ہوئے نظر آئے۔ یاد رہے ابو محمد الجولانی کے قتل کی افواہ پھیلی ہوئی تھی، کیوں کہ روسی اور شامی طیاروں نے حلب میں تنظیم کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ کیا تھا۔

    شام میں جنگجوؤں نے حماۃ شہر کو بھی گھیر لیا

    ابو محمد الجولانی کے کئی نام ہیں، ان کا پہلا نام احمد حسین الشرع اور دوسرا نام اسامہ العبسی الواحدی ہے، انھوں نے اپنے جنگی کیریئر کا آغاز عراق میں کیا تھا، بعد میں وہ القاعدہ تنظیم میں ایک اہم شخصیت بن گئے، وہ امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے، گزشتہ ایک دہائی سے ھیئہ تحریر الشام کی قیادت کرتے ہوئے انھوں نے خود کو ان دیگر مسلح دھڑوں سے الگ کر لیا ہے جن کی توجہ بین الاقوامی کارروائیوں پر مرکوز ہے، اور اس کی بجائے وہ شام میں ایک ’اسلامی جمہوریہ‘ بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔

  • شام میں جنگجوؤں نے حماۃ شہر کو بھی گھیر لیا

    شام میں جنگجوؤں نے حماۃ شہر کو بھی گھیر لیا

    دمشق: شام کے مسلح دھڑوں نے کہا ہے کہ ان کے جنگجو حماۃ شہر کے مغربی اور مشرقی مضافات میں پہنچ گئی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق شام میں جنگجوؤں نے حماۃ شہر کو تین اطراف سے گھیر لیا ہے، مسلح دھڑوں نے ایک بیان میں کہا کہ شہر حماۃ ان کا اگلا ہدف ہے۔ مسلح دھڑوں نے حماۃ شہر کے مضافات میں السماقیات، کفر راع، معرشحور، معردس اور فورسز کا ہیڈ کوارٹر سمجھے جانے والے بکتر بند اسکول پر قبضہ کر لیا ہے۔

    شامی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حماۃ گورنری میں ایک جوابی حملے میں مسلح دھڑوں کو باہر نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ ھیئہ تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑے شامی فوج کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد حماۃ شہر کے قریب کوہ زین العابدین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے۔

    شامی فوج کے بیان کے مطابق اس نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب کے بعد فضائی حملوں کے ساتھ جوابی کارروائی میں مسلح دھڑوں کو حماۃ شہر سے 10 کلومیٹر دور تک ہٹنے پر مجبور کیا، نیز، شامی فوج شمالی حماۃ کے دیہی علاقوں میں مسلح دھڑوں کے ٹھکانوں پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔

    شام پر فوجی کنٹرول، 5 اہم کھلاڑی کون سے ہیں؟

    شامی ریڈیو اور ٹی وی کے مطابق روسی فضائیہ کی مدد سے شامی فضائیہ کے حملوں میں اس ہفتے شام میں 1,600 سے زیادہ جنگجو ہلاک ہوئے ہیں، بدھ کے روز حماۃ میں کم از کم 300 عسکریت پسند مارے گئے، مسلح دھڑوں کے ٹھکانوں اور ان کی نقل و حرکت کے مقامات کو نشانہ بنانے کی وجہ سے کئی مقامات پر مسلح دھڑوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

    سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام میں مسلح دھڑوں کے حملوں کے آٹھویں روز تک اموات کی تعداد بڑھ کر 704 ہو گئی ہے، مرنے والوں میں 110 عام شہری، ’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور اس کے اتحادی دھڑوں کے 361 عسکریت پسند، حکومتی فورسز کے 233 ارکان اور ان کے وفادار جنگجو شامل ہیں۔

  • شام پر فوجی کنٹرول، 5 اہم کھلاڑی کون سے ہیں؟

    شام پر فوجی کنٹرول، 5 اہم کھلاڑی کون سے ہیں؟

    بشار الاسد کی حکومت نے اتحادیوں کی مدد سے مخالف مسلح گروپس کو شکست دے کر ملک میں امن قائم کر دیا تھا لیکن ھیۃ تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑوں نے ایک اچانک حملے کے بعد حلب پر قبضہ جمایا اور شامی حکومت ہی نہیں بلکہ اس کے اتحادیوں اور پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

    2011 میں بھی شامی خانہ جنگی کے دوران شام کا بیش تر حصہ اسد رجیم کے کنٹرول سے باہر ہو گیا تھا، اب جس کی یاد 27 نومبر کے حملے سے ایک بار پھر تازہ ہو گئی ہے، کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ شکست خوردہ گروپ دوبارہ پوری قوت سے حملہ آور ہوں گے۔

    شام میں پانچ ایسی عسکری قوتیں لڑ رہی ہیں جن میں سے زیادہ تر کو بین الاقوامی یا علاقائی حمایت حاصل ہے۔

    ھیۃ تحریر الشام

    یہ ماضی میں ’النصرہ فرنٹ‘ کہلاتی تھی، القاعدہ کا حصہ رہ چکی ہے، اس کے اتحادی دھڑوں نے ادلب گورنری کے تقریباً نصف، حلب، حماۃ اور لاذقیہ گورنریوں کا تقریبا 3 ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ چھین لیا ہے۔ اس کے ساتھ کئی چھوٹے دھڑے اور جہادی گروپ شامل ہیں، جن میں ’ترکستان اسلامک پارٹی‘ بھی شامل ہے جس میں ایغور جنگجو ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 50 لاکھ لوگ ان دھڑوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر دوسری گورنریوں سے بے گھر ہوئے ہیں۔

    حکومتی افواج

    خانہ جنگی کے پہلے سالوں کے دوران حکومتی فورسز نے ملک کے زیادہ تر علاقے کو مخالف دھڑوں، کرد جنگجوؤں اور پھر ISIS کے ہاتھوں کھو دیا تھا، لیکن ستمبر 2015 میں روسی مداخلت، ایرانی فوجی مدد اور لبنانی حزب اللہ نے بتدریج زمینی طاقت کے توازن کو ان کے حق میں موڑنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    حکومتی افواج دمشق اور اس کے دیہی علاقوں کے علاوہ جنوب میں سویدا، درعا اور قنیطرہ، حمص، حماۃ، طرطوس اور لطاکیہ کے بڑے حصے پر کنٹرول رکھتی ہیں، حلب گورنری کے کچھ حصے، جنوبی رقہ کے دیہی علاقے اور دیر الزور گورنری کے نصف حصے پر بھی شامی حکومتی فوج کا کنٹرول ہے۔

    کرد جنگجو

    2015 میں ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ کا قیام عمل میں آیا تھا، اس کی ریڑھ کی ہڈی کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس ہیں، جن میں عرب اور شامی عیسائی دھڑے شامل ہیں۔ یہ شامی فوج کے بعد زمین پر قبضہ کرنے والی دوسری بڑی فوجی قوت ہے جو ملک کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر قابض ہے، جہاں تقریباً تیس لاکھ لوگ رہتے ہیں، جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ کرد ہیں۔ ان علاقوں میں بتدریج کرد جنگجوؤں کے ساتھ امریکی فوج بھی تعینات ہے۔

    اس کا کنٹرول رقہ گورنری کی اکثریت پر بھی ہے، رقہ شہر برسوں سے داعش کا گڑھ رہا لیکن اب ایس ڈی ایف کے قبضے میں ہے۔ کرد جنگجو الحسکہ گورنری کے ساتھ ساتھ دیر الزور گورنری کے نصف حصے پر بھی کنٹرول کرتے ہیں، اور شام کے سب سے نمایاں آئل فیلڈز اس کے کنٹرول میں ہیں۔

    ترکیہ کے وفادار گروپ

    2016 کے بعد سے ترکیہ نے اپنے وفادار شامی دھڑوں ’’سیرین نیشنل آرمی‘‘ کے ساتھ مل کر شمالی شام میں کئی فوجی کارروائیاں کیں، خاص طور پر کرد جنگجوؤں کو اپنی سرحدوں سے دور دھکیلنے کے لیےانھیں نشانہ بنایا۔ ترک نواز دھڑوں میں سلطان مراد دھڑا، الحمزہ اور سلیمان شاہ دھڑے شامل ہیں۔

    ترک افواج اور ان کے وفادار دھڑے حلب کے شمال مشرقی دیہی علاقے جرابلس سے اس کے مغربی دیہی علاقوں میں عفرین تک پھیلی سرحدی پٹی کو کنٹرول کرتے ہیں، جو الباب اور عزاز جیسے بڑے شہروں سے گزرتی ہے۔ وہ سرحدی شہروں راس العین اور تل ابیض کے درمیان 120 کلومیٹر طویل ایک علیحدہ سرحدی علاقے کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔

    داعش

    2014 میں شام اور عراق میں بڑے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے بعد شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کو دونوں ممالک میں پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ 2019 میں اس کے زیرکنٹرول تمام علاقے اس سے چھین لیے گئے، تب سے اب تک تنظیم کے چار رہنما مارے جا چکے ہیں، لیکن اس کے چھپے ہوئے ارکان اب بھی موجود ہیں۔ اس کے جنگجو اب بھی دیر الزور گورنری میں سرگرم ہیں۔

  • شام میں چند دنوں میں 50 ہزار افراد بے گھر ہو گئے، اقوام متحدہ

    شام میں چند دنوں میں 50 ہزار افراد بے گھر ہو گئے، اقوام متحدہ

    اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شام میں چند روز قبل ہونے والی کشیدگی کے باعث 50 ہزار افراد بے گھر اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

    مشرق وسطیٰ پہلے ہی جنگی تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے میں شام میں چند روز قبل شروع ہونے والی کشیدگی نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔

    اس حوالے سے اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شمال مغربی شام میں چند روز قبل ہونے والی کشیدگی کے نتیجے میں تقریباً 50 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور وہ محفوظ مقامات پر نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال علاقے میں ہونے والی کشیدگی کے انسانی زندگیوں پر خطرات اور اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور ’اوچا‘ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 30 نومبر تک 48,500 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے دفتر رابطہ دفتر برائے انسانی امور کے مطابق 26 نومبر سے یکم دسمبر تک شمال مغربی شام میں 12 بچوں اور سات خواتین سمیت کم از کم 44 شہری مارے گئے۔

    دوسری جانب یورپی یونین نے پیر کو شام میں "تمام فریقین سے کشیدگی کو کم کرنے” کا مطالبہ کیا۔ کشیدگی کے جلو میں روسی اور شامی جنگی طیاروں نے ملک کے شمال میں مسلح دھڑوں کی طرف سے کیے گئے اچانک حملے کے بعد فضائی حملے کیے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ھیۃ تحریر الشام جسے پہلے النصرہ فرنٹ کہا جاتا تھا نے دوسرے مسلح دھڑوں کے ساتھ مل کر حلب پر اچانک حملہ کردیا تھا۔ تنظیم کے جنگجوؤں نے ڈرامائی انداز میں پورے شہر کا کنٹرول سنھبالنے کے بعد ادلب اور حماۃ کے مختلف شہروں کا کنٹرول بھی سنھبال لیا تھا۔

    https://urdu.arynews.tv/rebels-seize-bashar-al-assads-residence/