Tag: شان الحق حقی

  • شان الحق حقی:‌ ایک ہمہ جہت شخصیت

    شان الحق حقی:‌ ایک ہمہ جہت شخصیت

    شان الحق حقّی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنی شعری اور نثری تخلیقات کے علاوہ تراجم، اصطلاحات، تدوین و تالیف، تحقیق اور تنقید پر مبنی ایک بڑا سرمایہ دیا ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر ماہرِ لسانیات، شاعر اور مصنّف کی آج برسی ہے۔

    شان الحق لسانیات، لغات اور وضعِ اصطلاحات کے حوالے سے سند کا درجہ رکھتے تھے۔ اپنے طویل علمی و فنی سفر میں‌ انھوں نے بڑوں کے لیے ہی نہیں بچّوں کے لیے بھی خوب کام کیا اور نظم و نثر میں ان کے لیے ایک خزانہ چھوڑ گئے۔ اردو زبان کے مسائل، معیاری زبان کی ترویج، اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

    اردو زبان کی اس ممتاز شخصیت کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 15 ستمبر 1917ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم دہلی ہی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد شان الحق حقی ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔ یہاں شعبۂ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر اسلم اظہر(مرحوم) لکھتے ہیں کہ ’’حقّی صاحب نے کمال پسندی (perfectionism) کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمال کیا ہے۔ وہ ایک کمال پسند یعنی perfectionist تھے۔ چاہے وہ اشتہار سازی کا پیشہ ہو، لغت نویسی ہو، تراجم، تحقیقی یا تنقیدی مضامین، افسانے، شاعری، بچّوں کا ادب یا مزاحیہ ادب، وہ اپنی بہترین تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لاکر ہمیشہ بہترین شکل میں پیش کرتے تھے۔‘‘

    شان الحق حقی کو انجمن ترقیِ اردو پاکستان نے ان کی ادبی خدمات پر 1991ء میں ”نشانِ سپاس“ پیش کیا۔ قبل ازیں، حکومتِ پاکستان کی جانب سے 1968ء میں انھیں تمغۂ قائدِاعظم اور 1985ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا تھا، جب کہ اسلام آباد میں ایک سڑک بھی ان سے منسوب ہے۔

    شان الحق حقّی شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کی تیرہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے اور اُردو کے مایہ ناز ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پڑ نواسے تھے۔ انھیں شروع ہی سے علم و ادب سے لگاؤ ہوگیا تھا اور زبان و بیان کے مسائل خاص طور پر ان کی توجہ حاصل کرلیتے تھے جس میں غور و فکر اور عمیق مطالعہ سے وہ ایک ماہرِ لسانیات اور محقق کے طور پر سامنے آئے۔ شان الحق حقی مختلف رسائل و جرائد کے مدیر رہے۔ پاکستان میں محکمۂ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی میں ملازمت کے دوران انھوں نے بڑا اہم کام کیا۔ ترقیِ اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ کثیر اللسان محقق تھے۔ شان الحق حقی عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔

    ان کی تصانیف میں تارِ پیراہن (منظومات)، نکتہ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، اور انجان راہی شامل ہیں۔ ان کی تیار کردہ لغات کے علاوہ مختلف تراجم پر مبنی کتب اور اردو زبان و بیان پر مضامین بھی بہت اہم ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 60 سے زائد ہے۔ شان الحق حقی نے شاعری سے لے کر صحافت تک خوب کام کیا اور نام و مقام بنایا۔ انھوں نے بچّوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں لکھیں جب کہ افسانہ نگاری بھی کی۔ شان الحق حقی کی کتابیں ملکی لائبریریوں سمیت لائبریری آف کانگریس اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو لائبریری میں بھی موجود ہیں۔ شان الحق حقی کینیڈا منتقل ہوگئے تھے جہاں 11 اکتوبر 2005ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا۔

    شان الحق حقی کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے۔

    تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
    ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے

  • شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اردو زبان و ادب میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات کے علاوہ انھیں تدوین و تالیف، تراجم، تنقید اور ان کے تحقیقی کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    لسانیات اور اصطلاحات کے میدان میں ان کی وقیع و مستند کاوشوں نے انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ آج شان الحق حقّی کا یومِ وفات ہے۔

    اردو زبان کی اس ممتاز شخصیت کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1917ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم دہلی ہی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

    شان الحق حقّی کے علم و ادب ذوق و شوق نے انھیں لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں میں وہ مختلف رسائل و جرائد کے مدیر رہے، پاکستان میں محکمہ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی میں ملازمت کے دوران انھوں نے بڑا اہم کام کیا۔ ترقی اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ کثیراللسان محقق تھے۔

    اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری بھی مرتّب کی تھی۔

    تارِ پیراہن (منظومات)، نکتہ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، اور انجان راہی آپ کی اہم کاوشیں ہیں۔ وہ ایک ایسے ادیب اور شاعر تھے جس نے متنوع اور ہمہ گیر تخلیقی کام کیا۔

    1958ء میں اردو لغت بورڈ کے قیام کے بعد آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری کی طرز پر اردو کی ایک جامع لغت مرتب کرنے کا اہم کام ہونا تھا۔ اس میں تاریخی اصولوں پر اردو کے تمام الفاظ کو جمع کیا جانا تھا۔ بابائے اردو بورڈ کے پہلے چیف ایڈیٹر تھے اور ان کے سیکریٹری حقی صاحب تھے۔ انھوں نے کتابیں اور دیگر مواد جمع کرنے سے لے کر اسٹاف کی بھرتی تک تمام امور خوش اسلوبی، دل جمعی اور محنت سے سرانجام دیے۔ تاہم بعض اختلافات کی وجہ سے لغت کی تیّاری سے قبل ہی بورڈ کو خیرآباد کہہ دیا۔ وہ اردو لغت بورڈ سے کم و بیش 17 سال منسلک رہے۔

    ان کی تیارکردہ کتاب فرہنگِ تلفظ اپنی مثال آپ ہے۔ تراجم اورشاعری سے لے کر صحافت تک ہر جگہ ان کی تحریروں میں اردو کی چاشنی اور الفاظ کا تنوع دکھائی دیتا ہے۔

    بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں لکھنے کے ساتھ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کے علمی مضامین الگ ہیں جب کہ کتابوں کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔

    شان الحق حقی کی کتابیں دنیا کی بیشتر اہم لائبریریوں سمیت لائبریری آف کانگریس اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو لائبریری میں بھی موجود ہیں۔

    بعد میں وہ وہ کینیڈا منتقل ہوگئے تھے جہاں 11 اکتوبر 2005ء کو جگر کے عارضے کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

    شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔ ان کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع تھا۔

    تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
    ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے

  • ‘انگریزی بہت کچھ ہے، مگر سب کچھ نہیں’

    ‘انگریزی بہت کچھ ہے، مگر سب کچھ نہیں’

    زبان کسی بھی ملک کی ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے جسے زندہ رکھنے کا مطلب اپنی ثقافت کو زندہ رکھنا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ زبان کو نسل در نسل منتقل کیا جاتا رہے۔ خواہ یہ زبان قومی سطح کی ہو، مقامی اور علاقائی ہو۔ اس کے ساتھ اجتماعی ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری ہے کہ ہم میں‌ سے ایک طبقہ ایسا ہو جو مختلف اہم اور دنیا بھر میں رابطے کا ذریعہ بننے والی زبانیں سیکھے اور ان کے علمی و ادبی سرمائے کو مقامی زبان میں منتقل کرے۔ پیشِ نظر پارہ اسی مسئلے کی جانب ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں اب تک زبانوں کی تحصیل کی طرف خاطر خواہ دھیان نہیں دیا گیا۔ ہم نہ روسی سیکھنا چاہتے ہیں، نہ چینی، نہ جاپانی، اور دعویٰ یہ رکھتے ہیں کہ ہم ہر زبان بول سکتے ہیں اور ہمارے ہاں مصوّتے اور مصمّتے سب زبانوں سے زیادہ ہیں۔

    عربی و فارسی پہلے خاصی مقبول زبانیں تھیں، اب اسکولوں اور کالجوں میں ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بھی گھٹتی جارہی ہے۔ کوئی قوم جو علمی ترقی کی مدعی یا متمنی ہو کلاسکی زبانوں مثلاً لاطینی، یونانی، سنسکرت، عربی سے بے تعلق نہیں رہ سکتی، نہ جدید ترقی یافتہ زبانوں کو پسِ پشت ڈال سکتی ہے، جیسے کہ جرمن، فرانسیسی، روسی، اطالوی، ڈچ وغیرہ۔

    ہماری زبان دانی لے دے کر انگریزی تک رہ گئی ہے۔ انگریزی بہت کچھ ہے، مگر سب کچھ نہیں۔ حد یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں الاّ ماشاءَ اللہ اپنی قومی و علاقائی زبانوں کی تعلیم کا بھی نہ تو انتظام ہے، نہ شاید اس کے طلب گار۔

    مختلف ممالک کے ساتھ جو ثقافتی معاہدے یا مشترک ثقافتی ادارے ہیں، ان سے بھی کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ یہ ہماری کم ذوقی کی دلیل ہے۔”

    ( اردو زبان کے ممتاز ماہرِ لسانیات، محقق، نقّاد اور مترجم شان الحق حقّی کے مضمون ‘زبان اور تعلیمِ زبان’ سے اقتباس۔ یہ مضمون 1966ء میں لکھا گیا تھا۔)

  • بے پروا، بد دل اور گستاخ شاگرد!‌

    بے پروا، بد دل اور گستاخ شاگرد!‌

    شان الحق حقّی اردو زبان و ادب کا روشن حوالہ ہیں‌ جنھوں‌ نے اپنی تخلیقات اور علم و ادب کے لیے اپنی خدمات سے بڑا نام و مقام بنایا۔

    ہر حساس طبع، تعلیم یافتہ اور ذی شعور پاکستانی کی طرح ان کی نظر میں بھی اجتماعی ترقّی و خوش حالی کا واحد ذریعہ تعلیم کا فروغ اور خواندہ معاشرہ رہا ہے اور اس حوالے سے ناکامی اور بعض خرابیوں پر نہ صرف حکومت بلکہ اساتذہ کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کئی اہم اور قابلِ غور پہلوؤں پر بات کی ہے۔

    ممتاز شاعر، ادیب، ماہرِ لسانیات، محقّق، نقّاد اور مترجم شان الحق حقّی نے مارچ 1967ء میں ‘اردو نامہ’ کے افتتاحیہ پر نظامِ تعلیم اور اساتذہ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کچھ کیوں کیا تھا:

    "ہمارا غریب ملک استادوں کو گزارے بھر تنخواہ نہیں دے سکتا، مگر ان کی عزّت اور مرتبے کو ضرور بحال کر سکتا ہے۔ انسان کو زندگی میں قوّت کی ہوس ہوتی ہے جس کے عام مترادف دولت و اقتدار ہیں۔

    یہ اگر نہ ہوں تو محبّت ہی سے ان کی تلافی ہوسکتی ہے۔ استاد کی عزّت وہ تعلیم ہے جو ہمارے بچّے بنیادی عقائد و آداب کے ساتھ اپنے گھر ہی سے سیکھ سکتے ہیں۔ اس کو ہمارے معاشرے کے بنیادی اصول میں داخل ہونا چاہیے، پھر یہ ممکن ہو جائے گا کہ اساتذہ بھی اپنے مرتبے کی شرم رکھیں۔”

    "فی الوقت اس طبقے کے بعض بعض افراد زبوں حالی سے زیادہ جس قسم کی زبوں کاریوں میں مبتلا ہیں ان کو دیکھتے ہوئے علم کا مستقبل اس ملک میں تاریک دکھائی دیتا ہے۔ جو استاد طالبِ علموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکیں، جو اس اختیار کو جو انھیں طلبہ کی قسمت پر حاصل ہے رشوت خور اہل کاروں یا اقربا پرور عہدے داروں کی طرح برتیں، جو اپنے علم سے زیادہ اپنی متاع کی نمائش کریں جس میں ان کا شاگردوں سے چوٹ کھا جانا لازمی ہے، وہ اپنے منصب کی عزّت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں۔”

    "ان پر دنیوی و سیاسی دباؤ کیونکر نہ پڑیں گے۔ ان کے کردار میں جان نہ ہو گی تو ان کی آواز میں کیا جان ہو گی، اور ان کے وہی شاگرد جو ان کے لیے ذریعۂ قوّت ہو سکتے تھے، وہ ان سے بے پروا، بد دل اور گستاخ کیوں نہ ہوں گے۔”

  • اعلیٰ بی اور ہاسٹل کی لڑکیاں

    اعلیٰ بی اور ہاسٹل کی لڑکیاں

    آج، دورِ جدید میں جہاں صرف لڑکوں ہی نہیں‌، لڑکیوں کے لیے بھی اعلیٰ مدارج تک حصولِ تعلیم کو ضروری سمجھا جانے لگا ہے، اور ان کا گھروں سے باہر کمانے کے لیے جانا، سرکاری و نجی اداروں میں‌ ملازمت، حتٰی کہ تجارتی مراکز میں دکان لے کر بوتیک، بیوٹی پارلر چلانا یا اسی قسم کی کاروباری سرگرمیاں انجام دینا بھی عام ہو گیا ہے، بالکل اسی طرح لڑکیاں کالجوں اور جامعات میں سائنس و فنون کے مضامین کے علاوہ تیکنیکی مہارت کے ان شعبوں میں‌ بھی زیرِ تعلیم ہیں‌ جن میں‌ کل تک صرف لڑکے ہی داخلہ لیتے تھے۔

    دنیا بدل گئی ہے، اور ہمارا معاشرہ چند دہائیوں کے دوران بڑی تبدیلیوں سے گزرا ہے اور گزر رہا ہے، لیکن جہاں آج کی عورت خاصی حد تک اپنے معاملات میں آزاد اور خودمختار ہوئی ہے، وہیں‌ چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں‌، ان کی تربیت اور کردار سازی بہت اہم ہے اور اسے نظرانداز نہیں‌ کیا جاتا۔

    کہتے ہیں ایک اچّھی، خوش گوار اور باعزّت زندگی، اچھی تعلیم وتربیت ہی کی مرہونِ منت ہے۔ آج بھی لڑکی جب بیاہ کر دوسرے گھر جاتی ہے تو جہاں اس کی تعلیم، اور دوسری اوصاف کو دیکھا جاتا ہے، وہیں‌ کل کی طرح آج بھی اس کا رکھ رکھاؤ، قرینہ سلیقہ، اندازِ گفتگو اسے دل جیتنے میں مدد دیتا ہے۔ اس تناظر میں‌ پیشِ نظر سطور سے آپ جان سکیں‌ گے کہ دہائیوں‌ پہلے تعلیمی ادارے کس طرح لڑکیوں‌ کو اعلیٰ‌ تعلیم سے بہرہ مند کرنے کے ساتھ ان کی تربیت اور کردار سازی پر زور دیتے تھے۔

    "انٹر تک ہم وحیدیہ ہوسٹل میں رہتے تھے جس کی عمارت ایک نیم دائرے کی شکل میں تھی۔ اِدھر اُدھر کمرے کے بیچ میں ایک بڑا سا ڈائننگ ہال، جس کی دیواروں پر اور متفرق تصاویر کے ساتھ پاپا میاں اور اعلیٰ بی کی تصویریں بڑے بڑے فریموں میں آویزاں تھیں۔ یہ بانیِ کالج شیخ عبداللہ اور ان کی بیگم وحید جہاں کی تصویریں تھیں۔

    کالج کی لڑکیاں بھی انھیں اسی نام سے پکارتی تھیں جس نام سے ان کے بچّے پکارتے ہوں گے۔ وحیدیہ ہوسٹل کا سنگِ بنیاد بھی ان ہی خاتون نے رکھا ہوگا بلکہ اسکول اور کالج کی بنیاد ہی ان نیک دل میاں بیوی نے ڈالی تھی اور اس پاکیزہ مقصد کے لیے شانہ بہ شانہ سعی و عمل میں گرفتار بے غرضانہ زندگی بسر کی تھی۔

    ان روشن دل خاتون کی ہلکی سی مسکراہٹ، دل کی طرح آنکھیں بھی غیر معمولی روشن آنکھیں تھیں، لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ اور دونوں کے چہرے کی پاکیزگی اور معصومیت آج بھی میری آنکھوں میں ہے۔

    سُنا ہے جب یہ ڈولی میں بیٹھ کر لڑکیوں بچّیوں کو اسکول تک لانے کے لیے ان کے گھروں تک جاتی تھیں تو قدامت پسند لوگ راستے میں ان کی ڈولی پر ڈنڈے برساتے تھے۔ بعد میں سنا ہے کہ ڈولی کی جگہ بیل گاڑی نے لے لی تھی۔

    ان کی وسیع و عریض کوٹھی "عبداللہ لاج” چند قدم کے فاصلے پر تھی، مگر کئی لاوارث لڑکیاں جو ہوسٹل میں مقیم تھیں وہ شب و روز ان ہی کے زیرِ سایہ رہتی تھیں۔ یہ ان کے لیے کھانا پکواتیں اور ان کے ساتھ ہی کھاتی تھیں۔ ان کے لباس، نہانے دھونے، کنگھی چوٹی کی فکر رکھتیں اور ان کو زندگی بسر کرنے کے گُر سکھاتیں۔

    زندگی کا جو سانچا وہ مقرّر کر گئی تھیں، وہاں کی لڑکیوں کی تربیت اسی ڈھب پر ہوتی رہی۔ اب کا حال خدا جانے مگر یہاں پاکستان میں اکثر نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ "علی گڑھ کی پڑھی ہوئی لڑکیاں سب ایک جیسی کیوں ہوتی ہیں! وہی ایک سا سلجھا ہوا انداز، قدیم و جدید کا ایک مناسب امتزاج، ہوش مند مگر اتنی سادہ کہ انداز سے بالکل گھریلو لگتی ہیں۔”

    سچ کہا بالکل درزی کی سوئی، موٹے مہین سے یکساں گزرنے والی۔ یہ اعلیٰ بی کی تربیت تھی جو نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہی۔ چناں چہ وہاں کی تربیت یافتہ لڑکیوں کا قرینہ ایک سا ہی رہا۔”

    (سلمیٰ شان الحق حقی کی کتاب ‘شہیدانِ وفا کا خوں بہا کیا’ سے اقتباس)