Tag: شاکر علی

  • جب شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے!

    جب شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے!

    ایک دور تھا جب اردو ادب کے افق پر کئی ستارے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے اور ان ادیبوں اور شاعروں کے درمیان ناصر کاظمی نمایاں تھے اور اپنی شاعری کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ ان مشاہیرِ ادب کی آپس میں اور اس دور کے دوسرے بڑے بڑے فن کاروں سے گہری رفاقت اور دوستی بھی تھی۔ اور ان میں جذباتی وابستگی اور گہرا یارانہ تھا۔ اس وابستگی کا اظہار مختلف مواقع پر کسی نہ کسی شکل میں یہ شخصیات کرتی رہی ہیں جنھیں ہم آپ بیتیوں اور شخصی خاکوں‌ پر مشتمل کتابوں میں پڑھتے رہے ہیں۔

    مشاہیرِ ادب کی تحریریں اور دل چسپ واقعات پڑھنے کے لیے کلک کریں

    یہ اردو کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی اور عالمی شہرت یافتہ پاکستانی مصور شاکر علی سے متعلق ایک ایسا ہی واقعہ ہے۔ اسے اردو کے ممتاز فکشن نگار اور مقبول کالم نویس انتظار حسین نے رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ناصر کاظمی کی ”برگِ نے“ شائع ہونے لگی تو ناصر نے شاکر صاحب سے گزارش کی کہ آپ میری کتاب کا سرورق بنائیے۔ شاکر صاحب نے سرورق بنایا۔ ناصر نے بہت پسند کیا۔ ہم سب نے پسند کیا مگر جب حنیف رامے تک یہ خبر پہنچی تو وہ مچل گیا کہ ناصر کی کتاب کا سرورق بنانے کا حق اگر کسی کو ہے تو مجھے ہے۔

    اسے سمجھایا گیا، ناصر نے بھی بہت سمجھایا کہ وہ تو میرے کہنے پر شاکر صاحب نے بنایا تھا اور میں تو ناشر کو (کارواں پبلشرز) یہ سرورق حوالے کر چکا ہوں، مگر حنیف اپنی ہٹ پر قائم رہا۔ اس نے کارواں کے حمید صاحب کے پاس جا کر ناصر کے ساتھ اپنے حقِ رفاقت کو جتایا اور انہیں قائل کرنے میں کام یاب رہا۔ سو ”برگِ نے“ حنیف رامے کے سرورق کے ساتھ شائع ہوئی۔

    لیجیے یہ ایک اور پیچ پڑ گیا۔ شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے۔ میں نے ناصر کی طرف سے بہت صفائیاں پیش کیں، مگر شاکر صاحب کے دل میں جو ایک گرہ پڑ گئی تھی وہ نہیں گئی، بس دب گئی۔ اصل میں یہ جو حنیف رامے کا بات بات میں مچل جانا تھا اس نے میرے اور ناصر کے لیے بہت الجھنیں پیدا کیں۔

    ناصر دوستوں کے معاملہ میں مرنجاں مرنج۔ احمد مشتاق سے بھی آخر دوستی رکھنی تھی اور شیخ صاحب اور حنیف رامے کی بھی دل شکنی منظور نہیں تھی۔ اور ناصر کی رضا میں میری رضا، مگر شاکر صاحب بھی تو دوست تھے بلکہ دوستوں سے بڑھ کر دوست۔ اور ان کی مصوری کی خوشبو تو اب پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی۔

    جب ناصر کی ”برگِ نے“ کے سر ورق کا قصّہ نیا پرانا ہو گیا اور شاکر صاحب کی طبیعت بھی بحال ہو گئی تو ایک خواہش نے میرے اندر سر اٹھایا۔ میرا مجموعہ ”شہرِ افسوس“ اشاعت کا منتظر تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا سرورق شاکر صاحب سے بنوایا جائے۔ شاکر صاحب نے فوراً ہی ہامی بھر لی، مگر فوراً ہی بیمار بھی پڑ گئے اور ایسے بیمار پڑے کہ طبیعت سنبھلنے ہی میں نہیں آرہی تھی۔ ادھر ناشر کا سخت تقاضا کہ سرورق کہاں ہے۔ آخر کو میں نے اسپتال جا کر شاکر صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کو سرورق کی ذمہ داری سے آزاد کیا۔ طبیعت پر بوجھ مت لیں اور اچھے ہو جائیں اور واقعی اس کے تیسرے ہی دن ان کی طبیعت بحال ہو گئی اور اسپتال سے گھر منتقل ہو گئے۔

    ہاں جب اس مجموعہ کی افتتاحی تقریب ہونے لگی تو جیسے شاکر صاحب سرورق والا چڑھا قرض یہاں اتارنا چاہتے تھے۔ تقریب کی صدارت پر اس اعلان کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ ان کہانیوں کے بارے میں انہیں ایک نکتہ سوجھا ہے، وہ بیان کریں گے۔ اسٹیج پر سہیل احمد خان ان کے برابر میں بیٹھے تھے۔ بعد میں بتایا کہ سامنے رکھے کورے کاغذوں پر وہ بہت تیزی سے دوسروں کی سنتے ہوئے کچھ لکھتے چلے جا رہے تھے مگر جب صدارتی کلمات کی باری آئی تو جانے کیا ہوا کہ چند فقرے اس رنگ سے ادا کیے کہ گونگا خود سمجھے یا گونگے کی ماں سمجھے۔ پھر سٹپٹا کر چپ ہو گئے۔

    ارے وہ تو اسٹیج تھا اور سامنے مائیک جو پوری تقریر کا مطالبہ کر رہا تھا، مگر شاکر صاحب تو دوستوں کے بیچ بیٹھ کر بھی گفتگو اس طرح کرتے تھے کہ آدھا فقرہ بول کر چپ ہو گئے اور سمجھ لیا کہ فقرہ یار خود مکمل کر لیں گے اور مفہوم سمجھ لیں گے۔ ایک روز موڈ میں تھے۔ بولے ” انتظار حسین، تمہیں پتہ ہے، ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔“

    میں نے ہنس کر کہا کہ ”جب ہی۔“ چکرا کر بولے ”جب ہی کیا۔“ تب میں نے اپنے ”جب ہی“ کی وضاحت کی اور کہا کہ ”مولانا محمد علی قیامت کے مقرر تھے۔ ان کی گرمیِ تقریر کو تو تحریکِ خلافت بھی زیادہ دنوں تک نہیں سہار سکی۔ جلدی ہی ڈھے گئی۔ اب پتہ چلا کہ ان کے خاندان کے حصے میں جتنی قوتِ گویائی آئی تھی وہ بھی سب انہوں نے اپنی خطابت میں سمیٹ لی تھی۔ آپ کی قوّتِ گویائی بھی اُدھر ہی سمٹ گئی۔“

  • شاکر علی: جدت کے باوصف روایت کو نبھانے والے پاکستانی مصوّر کا تذکرہ

    شاکر علی: جدت کے باوصف روایت کو نبھانے والے پاکستانی مصوّر کا تذکرہ

    شاکر علی وہ ممتاز پاکستانی مصوّر تھے جنھیں تجریدی آرٹ کا بانی کہا جاتا ہے۔ روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ شاکر علی کے فن پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جدت کے باوصف روایت کو نبھانے میں پاکستانی مصوروں کے درمیان اپنی انفرادیت کو منوایا ہے۔ شاکر علی نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل بھی رہے اور فنِ‌ خطاطی میں بھی اپنے ذوق و تخلیق کا اظہار کیا۔ آج اس مصور کی برسی منائی جارہی ہے۔

    لاہور میں شاکر علی کی رفاقت اپنے زمانے کے کئی مشاہیر اور اہلِ علم و فن سے رہی جنھوں نے اس مصور کے فن کو سراہا اور ان کی شخصیت کے کئی دل چسپ پہلوؤں کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کیا جن میں سے چند پارے آپ یہاں‌ پڑھ سکیں‌ گے۔ شاکر علی کا انتقال 27 جنوری 1975ء کو ہوا تھا۔

    آرٹ میں دل چسپی اور فنِ‌ مصوری کا شوق شاکر علی کو شروع ہی سے تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1937ء میں نئی دہلی کے ایک اسٹوڈیو میں کام کرنے لگے۔ مصوری کی باقاعدہ تعلیم انھوں نے 1938ء میں ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لے کر حاصل کی۔ یہ سلسلہ 7 سال تک جاری رہا اور میورل ڈیکوریشن میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ لینے کے بعد مزید تعلیم کے لیے 1948ء میں لندن چلے گئے۔ لندن میں شاکر علی نے رسیلیڈ اسکول آف آرٹ یونیورسٹی کالج سے فائن آرٹس میں ڈپلومہ کیا۔

    شاکر علی کا آبائی وطن رام پور تھا۔ وہ 6 مارچ 1914ء کو پیدا ہوئے۔ کم عمر تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا، اور شاکر علی جو کہ حساس طبیعت کے مالک تھے، نہایت رنجیدہ رہنے لگے، اسی صدمے نے شاید انھیں خاموش طبع بنا دیا تھا۔ لیکن بعد میں برش اور پینٹ کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار خوب کیا۔

    1949ء میں شاکر علی نے فرانس کا رُخ کیا اور فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ ایک سال کام کیا۔ پھر 1951ء میں پاکستان آئے اور لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ شاکر علی کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1956ء میں شعبہ فائن آرٹ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحت ہوئی۔ 1957ء میں آرٹس کونسل کراچی اور لاہور میں بھی ان کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی۔ پاکستان کے علاوہ ان کے فن پارے امریکا، برازیل، ایران، اٹلی اور انگلستان میں بھی آرٹ گیلریز میں نمائش کے لیے رکھے گئے۔

    شاکر علی کے تجریدی آرٹ کی خاص بات ان کا منفرد زاویۂ فکر ہے۔ وہ التامیرا کے غار دیکھ چکے تھے اور قدیم دور کی شاہکار تصاویر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ انھوں نے فطرت کی رنگینیوں، چاند ستاروں، چڑیوں اور پھولوں وغیرہ میں ایسے خوب صورت رنگ بھرے کہ انہیں دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

    معروف محقق، نقاد اور مترجم مظفر علی سید ان کے دوستوں میں سے تھے اور ان کا خاکہ بھی لکھا ہے، جس میں وہ رقم طراز ہیں، شاکر کی چند ایک تصویریں دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ جعلی تجرید پسند نہیں ہے، نہ اینٹی کلاسیکل۔ اس کے یہاں ایک کلاسیکی طمانیت ایک جد ید شکستگی سے سر بہ گریبان نظر آتی ہے۔ یوں اس دور کی تصویروں میں تناؤ کی کیفیت بہت تھی جیسے دو برابر کی قوتیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں۔ عسکری صاحب نے ٦۰ء تک کی تصویریں دیکھ کر تضادات کے تصادم کی طرف توجہ دلائی تھی۔ تقریباً اسی برس صفدر میر نے لکھا تھا کہ شاکر کے نقوش تجریدی صورت میں بھی با معنی ڈرامائی کیفیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ ’’میں نے ایسا کوئی فن کار نہیں دیکھا جس سے اس کے معاصرین نے اتنی ٹوٹ کر محبت کی ہو جیسی شاکر علی کو لاہور کے مصوروں اور قلم کاروں سے ملی۔‘‘

    تاہم یہ محبت فوراً کے فوراً ہی نہیں مل گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں على امام جب بھی لاہور آتے تو اپنے دوست معین نجمی سے مل کر شاکر کے ساتھ شدید بحث کرتے اور تجرید، مکعبیت اور سر رئیلزم کو بیک وقت رد کرنے کی کوشش۔ کراچی میں صادقین کی بھی ان دنوں یہی کیفیت تھی۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح تاثریت کی روشنی تو دریافت کر چکے تھے لیکن اس سے زیادہ جاننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے علی امام سے پوچھا کہ شاکر سے آپ کیسے ملے؟ انہوں نے کہا کہ بڑے بھیا یعنی رضا نے پیرس سے لکھا تھا کہ شاکر لاہور میں ہے، اس سے ملتے رہا کرو۔ پھر ایک دن شاکر علی نے زچ ہو کر علی امام سے کہا کہ تم تجرید وغیرہ کو جانے دو، یہ بتاؤ کہ تمہیں تاثریت کے بعد سیزان بھی نظر آیا کہ نہیں؟ خود علی امام نے شاکر کی موت کے بعد لکھا ہے کہ اس ایک بات نے اس کے پورے رویے کو بدل کر رکھ دیا۔ تقریباً ایسی ہی کیفیت آہستہ آہستہ صادقین کے یہاں بھی نظر آئی۔ اگرچہ بعد میں صادقین شاکر علی سے خاصا مختلف ہو جاتے ہیں۔

    مظفر علی سیّد مزید لکھتے ہیں، جیسا کہ انتظار حسین نے لکھا ہے شاکر علی عسکری صاحب کی طرح بہت کم گفتگو کرتے تھے اور فن کے بارے میں دانشورانہ بحث میں تو بالکل کوئی حصہ نہیں لیتے تھے۔ یقیناً یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن جس طرح عسکری صاحب مجلسی کم سخنی کے باوجود پڑھاتے بھی تھے، اسی طرح شاکر علی تھوڑے سے لفظوں میں بہت کچھ سمجھا جاتے تھے۔ میرے ساتھ تو لگتا ہے انہوں نے خاصی شفقت برتی اور فرانسیسی سیکھنے میں میری رغبت دیکھ کر جد ید مصوری کے فن پر اپنے استاد آندرے لوت کی فرنچ کتاب بھی مجھے عنایت کر دی۔ مصوری کے مطالعے اور تفہیم کے لیے انہوں نے مجھ پر جو محنت کی اور جو وقت صرف کیا وہ میرے خیال میں خود یورپ جا کر بھی شاید ہی کہیں سے ملتا تو ملتا۔ انہوں نے مصوری کے علاوہ ادب میں اعلیٰ تعلیم کی تحصیل پر بھی بہت زور دیا۔،،

    خاکے کے یہ پارے ہمیں ممتاز پاکستانی مصور شاکر علی کے فن و شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ شاکر علی ایسے فن کار تھے جنھیں زندگی میں کینوس کے سوا کچھ بھی شاید عزیز نہ رہا ہوگا۔ انھوں نے اپنے گھر کو بھی تخلیقی ذوق اور شوقِ اختراع کا نمونہ بنا دیا تھا۔ یہ گارڈن ٹاؤن میں ان کا وہ مکان تھا جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ دراصل شاکر علی نے اس گھر میں جلی ہوئی اینٹیں استعمال کی تھیں اور اسے آرٹ کا نمونہ بنا دیا تھا۔ ایسی اینٹیں عام لوگ تو پھینک دیا کرتے تھے۔ مگر افسوس کہ اس گھر کو تعمیر کرنے کے بعد شاکر علی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے۔ حکومت نے بعد میں اس گھر کو ’شاکر علی میوزیم‘ کا درجہ دے دیا۔

    شاکر علی فنِ خطّاطی میں جدّت اور خوش رنگ تجربات کرنے والے پاکستانی مصوّروں میں‌ سے بھی ایک ہیں۔ انھوں نے قرآنی آیات کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارا اور بہت متاثر کن کام کیا۔ شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو جس طرح کینوس پر اتارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس سے متاثر ہو کر پاکستان کے دیگر مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، نے بھی اپنی کاوش کی اور اس فن کو ترقی دی۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کے فن اور خدمات کے اعتراف میں انھیں‌ 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ 1971ء میں وہ ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے اور بعد میں‌ شاکر علی یادگاری ٹکٹ کا اجرا کیا گیا۔ مصور شاکر علی لاہور میں گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستان کے ممتاز مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    شاکر علی پاکستان کے ممتاز مصوّر اور تجریدی آرٹ کے بانی تھے جن کی آج برسی ہے۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل بھی رہے۔ 27 جنوری 1975ء کو شاکر علی اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ فنِ خطّاطی بھی ان کی وجہِ شہرت ہے۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ فنِ مصوری میں دل چسپی کے سبب 1937ء میں نئی دہلی کے ایک اسٹوڈیو میں کام کرنے لگے۔ مصوری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھوں نے 1938ء میں ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لیا۔ 7 سال تک اس ادارے میں زیرِ تعلیم رہے اور میورل ڈیکوریشن میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ حاصل کیا۔ مزید تعلیم کے لیے وہ 1948ء میں لندن چلے گئے، جہاں انھوں نے ر سیلیڈ اسکول آف آرٹ یونیورسٹی کالج سے فائن آرٹس میں ڈپلومہ حاصل کیا۔

    6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہونے والے شاکر علی نے کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ بھی کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں شاکر علی پاکستان آئے اور لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں انھیں اس کالج کا پرنسپل مقرر کردیا گیا۔ شاکر علی کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1956ء میں شعبہ فائن آرٹ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحت ہوئی۔ 1957ء میں آرٹس کونسل کراچی اور لاہور میں بھی ان کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی۔ پاکستان کے علاوہ ان کے فن پارے امریکا، برازیل، ایران، اٹلی اور انگلستان میں بھی آرٹ گیلریز میں نمائش کے لیے رکھے گئے۔

    شاکر علی کے تجریدی آرٹ کی خاص بات ان کا منفرد زاویۂ فکر ہے۔ وہ التامیرا کے غار دیکھ چکے تھے اور قدیم دور کی شاہکار تصاویر سے متاثر تھے۔ شاکر علی نے فطرت کی رنگینیوں، چاند ستاروں، چڑیوں اور پھولوں وغیرہ میں ایسے خوب صورت رنگ بھرے کہ انہیں دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

    شاکر علی کا گھر بھی ان کے تخلیقی ذوق اور شوقِ اختراع کا نمونہ تھا۔ لیکن وہ اس گھر کی تعمیر کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے تھے۔ گارڈن ٹاؤن میں ان کا مکان لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ دراصل شاکر علی نے اس گھر میں جلی ہوئی اینٹوں کا استعمال کیا تھا اور اسے آرٹ کا نمونہ بنا دیا تھا۔ ان کی موت کے بعد حکومت نے اس گھر کو ’شاکر علی میوزیم‘ کا درجہ دے دیا۔

    عالمِ اسلام میں فنِ خطّاطی میں جدّت اور خوش رنگ تجربات کرنے والے پاکستانی مصوّروں میں‌ شاکر علی بھی مشہور ہیں۔ انھوں نے قرآنی آیات کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارا اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو جس طرح کینوس پر اتارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، نے بھی اپنی کاوش کی اور اس فن کو ترقی دی۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کے فن اور خدمات کے اعتراف میں انھیں‌ 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ 1971ء میں وہ ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے اور بعد میں‌ شاکر علی یادگاری ٹکٹ کا بھی اجرا کیا گیا۔ وفات کے بعد پاکستان کے اس نام ور مصوّر کو لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    شاکر علی پاکستان کے ممتاز مصوّر تھے جو 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ انھیں پاکستان میں تجریدی مصوّری کا بانی کہا جاتا ہے۔ شاکر علی خطّاطی کے فن میں جدّت اور اپنے تجربات کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شاکر علی کا وطن رام پور تھا جہاں انھوں نے 6 مارچ 1914ء کو آنکھ کھولی۔ مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی اور بعد میں برطانیہ سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ وہ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے زیرِ تربیت بھی رہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں پاکستان آنے کے بعد شاکر علی لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل تک 1973ء اسی عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    پاکستان کے اس نام ور مصور اور خطّاط کی رفاقت میں گزرے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک جگہ ڈاکٹر محمد اجمل لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے یاد ہے کہ شاکر علی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1949ء میں لندن میں ہوئی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مقبول احمد اور مسعود کے توسط سے ہوئی تھی، لیکن بہت جلدی واسطے پیچھے رہ گئے اور بلاواسطہ ہم دوست بن گئے۔

    شاکر علی کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی معصومیت اور بے تکلفی تھی، جو صرف غالباً صحیح اور فطری فن کاروں میں ہوتی ہے۔ جب وہ سلیڈ اسکول میں پڑھتے تھے تو اکثر مجھے اپنے کمرے میں لے جاتے کہ میں ان کی نئی تصویر دیکھوں۔ جب وہ مجھے تصویر دکھاتے تو ان کے چہرے پر خوشی کی ایک سرخ موج دوڑ جاتی اور آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی۔ بعض اوقات میں تعریف کے ساتھ کوئی تنقیدی فقرہ بھی کہہ دیتا تو وہ کہتے ”یار کہتے تو تم ٹھیک ہو لیکن یہ مجھے اسی طرح اچھی لگتی ہے۔“

    ان سے پوچھتے کہ فن کیا ہوتا ہے؟ فن کار کیا ہوتا ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا اور وہ کوئی جواب نہ دیتے یا یہ کہہ دیتے، ”یار مجھے نہیں معلوم۔“

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ 1971ء میں انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

    شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    ناصر کاظمی کی ”برگِ نے“ شائع ہونے لگی تو ناصر نے شاکر صاحب سے گزارش کی کہ آپ میری کتاب کا سرورق بنائیے۔

    شاکر صاحب نے سرورق بنایا۔ ناصر نے بہت پسند کیا۔ ہم سب نے پسند کیا مگر جب حنیف رامے تک یہ خبر پہنچی تو وہ مچل گیا کہ ناصر کی کتاب کا سرورق بنانے کا حق اگر کسی کو ہے تو مجھے ہے۔

    اسے سمجھایا گیا، ناصر نے بھی بہت سمجھایا کہ وہ تو میرے کہنے پر شاکر صاحب نے بنایا تھا اور میں تو ناشر کو (کارواں پبلشرز) یہ سرورق حوالے کر چکا ہوں، مگر حنیف اپنی ہٹ پر قائم رہا۔ اس نے کارواں کے حمید صاحب کے پاس جا کر ناصر کے ساتھ اپنے حقِ رفاقت کو جتایا اور انہیں قائل کرنے میں کام یاب رہا۔ سو ”برگِ نے“ حنیف رامے کے سر ورق کے ساتھ شائع ہوئی۔

    لیجیے یہ ایک اور پیچ پڑ گیا۔ شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے۔ میں نے ناصر کی طرف سے بہت صفائیاں پیش کیں، مگر شاکر صاحب کے دل میں جو ایک گرہ پڑ گئی تھی وہ نہیں گئی، بس دب گئی۔

    اصل میں یہ جو حنیف رامے کا بات بات میں مچل جانا تھا اس نے میرے اور ناصر کے لیے بہت الجھنیں پیدا کیں۔ شیخ صاحب کے وہ مسائل نہیں تھے جو ہمارے تھے۔ انہیں تو اس حلقۂ دوستاں سے غرض ہی نہیں تھی جس میں ہم اٹھتے بیٹھتے چلے آئے تھے اور اس اٹھنے بیٹھنے میں ہم نے محبت کے رشتے قائم کیے تھے مگر شیخ صاحب اپنے ملنے والے سے پوری وفا مانگتے تھے اور پوری وفا سے نوازتے تھے۔ وفا بلا شرکت غیرے۔ بس اس ایک وجہ سے ان کا حلقۂ ارادت پھیلنے سے پہلے ہی سکڑ گیا۔

    ہمارے دوستوں میں سب سے سرکش مخلوق احمد مشتاق کو جانیے۔ اس نے تو پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیا۔ پہلے ہی مرحلہ میں شیخ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مظفر کو اس انکارِ اطاعت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شیخ صاحب کی خطائیں شیخ صاحب کے ساتھ، مظفر کی خطائیں مظفر کے ساتھ۔ احمد مشتاق کے یہاں یاروں کی کسی خطا کے لیے معافی کا خانہ نہیں تھا۔ مگر صحیح تولتا تھا۔ ترازو اس کے ہاتھ میں تھی۔ سو ہر یار کی خطاؤں کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی دیکھا گیا۔ ادھر شیخ صاحب کی ترازو میں یاروں کی خوبیوں کا پلّہ ہمیشہ بھاری رہا۔ اور حنیف کی مصوّری کو انہوں نے کیا خوب تولا کہ پلّہ اس کا گراں ہوتا ہی چلا گیا۔

    ناصر دوستوں کے معاملہ میں مرنجاں مرنج۔ احمد مشتاق سے بھی آخر دوستی رکھنی تھی اور شیخ صاحب اور حنیف رامے کی بھی دل شکنی منظور نہیں تھی۔ اور ناصر کی رضا میں میری رضا، مگر شاکر صاحب بھی تو دوست تھے بلکہ دوستوں سے بڑھ کر دوست۔ اور ان کی مصوری کی خوشبو تو اب پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی۔

    جب ناصر کی ”برگِ نے“ کے سر ورق کا قصّہ نیا پرانا ہو گیا اور شاکر صاحب کی طبیعت بھی بحال ہو گئی تو ایک خواہش نے میرے اندر سر اٹھایا۔ میرا مجموعہ ”شہرِ افسوس“ اشاعت کا منتظر تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا سر ورق شاکر صاحب سے بنوایا جائے۔ شاکر صاحب نے فوراً ہی ہامی بھر لی، مگر فوراً ہی بیمار بھی پڑ گئے اور ایسے بیمار پڑے کہ طبیعت سنبھلنے ہی میں نہیں آرہی تھی۔

    ادھر ناشر کا سخت تقاضا کہ سرورق کہاں ہے۔ آخر کو میں نے اسپتال جا کر شاکر صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کو سر ورق کی ذمہ داری سے آزاد کیا۔ طبیعت پر بوجھ مت لیں اور اچھے ہو جائیں اور واقعی اس کے تیسرے ہی دن ان کی طبیعت بحال ہو گئی اور اسپتال سے گھر منتقل ہو گئے۔

    ہاں جب اس مجموعہ کی افتتاحی تقریب ہونے لگی تو جیسے شاکر صاحب سر ورق والا چڑھا قرض یہاں اتارنا چاہتے تھے۔ تقریب کی صدارت پر اس اعلان کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ ان کہانیوں کے بارے میں انہیں ایک نکتہ سوجھا ہے، وہ بیان کریں گے۔

    اسٹیج پر سہیل احمد خان ان کے برابر میں بیٹھے تھے۔ بعد میں بتایا کہ سامنے رکھے کورے کاغذوں پر وہ بہت تیزی سے دوسروں کی سنتے ہوئے کچھ لکھتے چلے جا رہے تھے مگر جب صدارتی کلمات کی باری آئی تو جانے کیا ہوا کہ چند فقرے اس رنگ سے ادا کیے کہ گونگا خود سمجھے یا گونگے کی ماں سمجھے۔ پھر سٹپٹا کر چپ ہو گئے۔

    ارے وہ تو اسٹیج تھا اور سامنے مائیک جو پوری تقریر کا مطالبہ کر رہا تھا، مگر شاکر صاحب تو دوستوں کے بیچ بیٹھ کر بھی گفتگو اس طرح کرتے تھے کہ آدھا فقرہ بول کر چپ ہو گئے اور سمجھ لیا کہ فقرہ یار خود مکمل کر لیں گے اور مفہوم سمجھ لیں گے۔ ایک روز موڈ میں تھے۔ بولے ” انتظار حسین، تمہیں پتہ ہے، ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔“

    میں نے ہنس کر کہا کہ ”جب ہی۔“ چکرا کر بولے ”جب ہی کیا۔“

    تب میں نے اپنے ”جب ہی“ کی وضاحت کی اور کہا کہ ”مولانا محمد علی قیامت کے مقرر تھے۔ ان کی گرمیٔ تقریر کو تو تحریکِ خلافت بھی زیادہ دنوں تک نہیں سہار سکی۔ جلدی ہی ڈھے گئی۔ اب پتہ چلا کہ ان کے خاندان کے حصے میں جتنی قوتِ گویائی آئی تھی وہ بھی سب انہوں نے اپنی خطابت میں سمیٹ لی تھی۔ آپ کی قوّتِ گویائی بھی اُدھر ہی سمٹ گئی۔“

    مگر ایک دوست نے کیا خوب کہا کہ شاکر صاحب خود نہیں بولتے، ان کی تصویر بولتی ہے۔ میں نے کہا ’مگر وہ بھی تجریدی زبان بولتی ہے جسے سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔“

    (از قلم انتظار حسین)