Tag: شاہان اودھ

  • درندوں اور چوپایوں کو لڑانے کی روایت اور لکھنؤ

    درندوں اور چوپایوں کو لڑانے کی روایت اور لکھنؤ

    جانوروں اور چوپایوں کی لڑائی کی روایت بہت قدیم ہے۔ رومیوں میں یہ ذوق پایا جاتا تھا۔

    اہلِ یورپ کے زیرِ اثر ہندوستان میں اس کا آغاز لکھنؤ سے ہوا۔ لکھنؤ نے اس سلسلے کو استحکام بخشا اور کچھ ایسی نئی چیزوں کا اضافہ کیا جو لکھنؤ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ درندوں اور چوپایوں میں شیر، چیتے، تیندوے، گینڈے، ہاتھی، اونٹ، گھوڑے، مینڈھے اور بارہ سنگھے جیسے جانوروں کو لکھنؤ دربار میں کبھی تو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی مخالف جنس سے۔

    مولانا عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں: ’’درندوں کے لڑانے کا مذاق قدیم ہندوستان میں کہیں یا کبھی نہیں سنا گیا تھا۔ یہ اصلی مذاق پرانے رومیوں کا تھا جہاں انسان اور درندے کبھی باہم اور کبھی ایک دوسرے سے لڑائے جاتے تھے۔ مسیحیت کے عروج پاتے ہی وہاں بھی یہ مذاق چھوٹ گیا تھا مگر اب تک اسپین میں اور بعض دیگر ممالک ِ یورپ میں وحشی سانڈ باہم اور کبھی کبھی انسانوں سے لڑائے جاتے ہیں۔ لکھنؤ میں غازی الدین حیدر بادشاہ کو غالباً ان کے یورپین دوستوں نے درندوں کی لڑائی دیکھنے کا شوق دلایا، بادشاہ فوراً آمادہ ہو گئے۔‘‘

    یہ سلسلہ غازی الدّین حیدر کے عہد (1814-1827) تک بڑی شان و شوکت سے جاری رہا۔ بادشاہ نے اس خوب صورت مشغلے کے لیے موتی محل کے پاس دو نئی کوٹھیاں تعمیر کرائیں، ایک مبارک منزل، دوسری شاہ منزل۔ ٹھیک اسی کے بالمقابل دریا کے دوسرے کنارے پر ایک وسیع و عریض سبزہ زار خطے کو منظم کیا گیا تھا، اس میں جانوروں کے الگ الگ کٹہرے تیار کرائے گئے تھے اور اسی میں جانوروں کے لڑنے کا میدان بھی ہموار کیا گیا تھا۔ شاہ منزل سے بادشاہ جانوروں کی خوں ریز لڑائیوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔

    آج کے تناظر میں میدان اور کوٹھیوں کے مجموعے کو اس زمانے کا اسٹیڈیم کہہ سکتے ہیں اور ایک طرح سے اس میدان کو چڑیا گھر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ آج یہی میدان نشاط گنج کہلاتا ہے۔ (مقتبس: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار)

    جانوروں اور چوپایوں کی لڑائیاں تین طرح سے ہوتی تھیں۔ اوّل تو ہم جنس جانوروں کو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی غیر جنس کو ایک دوسرے سے لڑایا جاتا اور کبھی درندوں ہی میں شیر کو تیندوے اور چیتے سے بھی لڑا دیا جاتا۔ اسی طرح کبھی ہاتھی کو ہاتھی سے، مینڈھے کو مینڈھے اور کبھی گھوڑے کو بھنسے اور ہاتھی کو گینڈے سے بھی بھڑا دیا جاتا۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ آزمائشوں سے بے چارے شیر کو گزرنا پڑتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاہانِ اودھ نے اپنی ذمہ داری جنگل کے بادشاہ کے کاندھے ڈال دی تھی۔ اس لیے شیر کو کبھی شیر سے، کبھی چیتے، تیندوے، ہاتھی اور کبھی گینڈے اور گھوڑے سے لڑایا جاتا، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اوّل الذّکر چاروں سے شکست کھانے کے ساتھ ساتھ گھوڑے سے بھی ہار جاتا۔

    جنگل کے اس بادشاہ کی شکست خوردگی کا عالم بھی وہی تھا جو لکھنؤ کے شاہوں کا تھا۔

    (محمد اظہار انصاری کے تحقیقی مضمون سے چند پارے)

  • سعادت علی خاں کے دربار کا آنکھوں دیکھا حال

    سعادت علی خاں کے دربار کا آنکھوں دیکھا حال

    نواب سعادت علی خاں قبل طلوعِ آفتاب کے دربار سواری کا فرماتے تھے، عرب اور جنگل کے تال میل سے خانہ زاد گھوڑے تھے۔ محل سے بوچہ پر سوار ہوکر برآمد ہوئے اور گھوڑے پر سوار ہوئے۔ اس وقت آپ لباس انگریزی، ولایتی ڈاب زیرِ کمر کیے ہوئے اور سیاہ مغلی ٹوپے دیے ہوتے تھے۔

    پہلے سلام مرشد زادوں کا ہوتا تھا، اس کے بعد امرائے خاص کا۔ دو گھڑی میں ہوا خوری سے فراغت کرکے ہاتھی پر مع جلوس سوار ہوتے تھے۔ سواری مع جلوس مع ڈنکا و نشان ہوتی تھی۔ امرائے دولت ہاتھیوں پر سوار ہمراہ ہوتے تھے۔

    خاص بردار چنور لیے ہوئے، چوب دار سواری کے داہنے بائیں ساتھ ہوتے تھے۔ مرزا کریم بیگ، محمد غلامی سوار انگریزی پوشاک میں آگے آگے ہوتے تھے۔ بیس سوار اور بیس پیدل روزانہ اہتمام سواری کرتے تھے اور کُل اہتمام نواب انتظامُ الدّولہ مظفر علی خاں کے سپرد تھا۔ نواب اشرفُ الدّولہ رمضان علی خاں، مرزا اشرف علی بھی ہمراہ ہوتے تھے۔

    روزانہ پہرہ چوکی پر بائیس سوار آدمی مختلف فرقے کے ملازم تھے، ان میں دو سوار بھی تھے۔

    دربار سواری کی بھی شان تھی۔ امرا درِ دولت سے رخصت ہوجاتے تھے۔ نو بجے صبح کو چائے پانی ہوتا تھا۔ کرسی نشین امرا، مقربانِ خاص، صمصام الدولہ مرزا ہجّو، مرزا محمد تقی خاں ہوس پہلو میں، مکلوڈ صاحب، ڈاکٹر لا صاحب خاص کرسی کی پشت پر بیٹھتے تھے۔ میر انشاء اللہ خاں، میر ابوالقاسم خاں، سراج الدّولہ، معززین، خواجہ سرا باریابِ سلام ہوتے تھے۔

    سلام کا قاعدہ یہ تھا کہ مِردھا پہلے عرض خدمت کرتا تھا۔ پھر عرض بیگی اپنے سامنے پیش کرکے ادب قاعدے سے سلام کراتا تھا۔ اس میں بہت دیر موقع محل دیکھنے میں ہوجاتی تھی۔ ایک دربار وقت خاصے کے ہوتا تھا، جس میں مقربانِ خاص، اردلی و نواب جلال الدّولہ، مہدی علی خاں، رُکن الدّولہ، نواب محمد حسن خاں شریکِ خاصہ ہوتے تھے۔ اس کے بعد حضور محل میں تشریف لے جاتے تھے۔

    بارہ بجے برآمد ہوتے، کچہری فرماتے تھے۔ کاغذات ملاحظہ ہوتے تھے۔ نواب نصیر الدّولہ تمام رپورٹیں ایک بند لفافے میں رکھ کر پیش کرتے تھے۔ نواب شمس الدّولہ بھی کاغذات بند لفافے میں پیش کرتے تھے اور آپ علاحدہ کمرے میں حاضر رہتے تھے۔ اِسی طرح نواب منتظمُ الدّولہ مہدی علی خاں، وزیر راجا دیا کرشن رائے رتن چند صاحب، اخبار رائے رام اخبار نویس، خفیہ منشی رونق علی، منشی دانش علی اپنے اپنے لفافے میز پر رکھ کر علاحدہ کمرے میں بیٹھتے تھے۔ استفسار کے لیے بلائے جاتے تھے۔

    جنابِ عالی لفافے ملاحظہ فرماکر ضروری کاغذات پر دستخط فرماتے تھے اور جو ناقابلِ داخلِ دفتر ہوتے تھے وہ طشتِ آب میں ڈال دیے جاتے تھے، اِن کا ایک ایک حرف دھو ڈالا جاتا تھا۔ جس کاغذ پر مہرِ خاص کرنا ہوتی تھی، ظفر الدّولہ سامنے حضور کے مہر کرتے تھے۔ جو کاغذ باقی رہ جاتے تھے، رات کو ملاحظہ فرماتے تھے۔ پرچہ اخبار ہر وقت گزر سکتا تھا۔ بعد دستخط تمام کاغذ ہر دفتر میں بھجوادیے جاتے تھے۔ اُسی روز تمام احکام جاری ہوتے تھے۔

    وقت شام دو اسپہ گاڑی پر سوار ہوکر ہوا خوری کو نکلتے تھے۔ جلوس سواری میں راجا بختاور سنگھ کا رسالہ تُرک سواران ہمراہ ہوتا تھا۔ کبھی تامدان پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ اکثر گنج میں جاکر نرخ غلّہ کا دریافت کرتے تھے کہ رعایا کو گرانیِ غلّہ سے تکلیف نہ ہو۔ بقّال اس خوف سے اناج مہنگا نہیں کرسکتے تھے۔ اُس وقت دو پیسے سیر آٹا بکتا تھا۔

    (خواجہ عبدالرؤوف عشرتؔ لکھنوی کے مضمون لکھنؤ کا عہد شاہی سے لیا گیا)