Tag: شاہان مغلیہ

  • گلبدن بیگم کا تذکرہ جنھیں شہنشاہِ ہند جلال الدّین اکبر نے قبر میں اتارا تھا

    گلبدن بیگم کا تذکرہ جنھیں شہنشاہِ ہند جلال الدّین اکبر نے قبر میں اتارا تھا

    برطانیہ کے عجائب خانہ میں مغلیہ دور کی ایک کتاب کا قلمی نسخہ آج بھی محفوظ ہے جس کے سرورق پر عنوان درج ہے، ‘ہمایوں نامہ۔ تصنیف گلبدن بیگم بنتِ بابر بادشاہ۔’

    گلبدن بیگم ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھنے والے ظہیر الدّین محمد بابر کی بیٹی تھی۔ شاہ زادی گلبدن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں‌ ہم بہت کم جانتے ہیں‌، لیکن ’ہمایوں نامہ‘ اسی کی تصنیف ہے اور اسی کتاب نے شاہ زادی کو تاریخ میں زندہ رکھا ہے۔

    1523ء میں گلبدن بیگم نے کابل میں شہنشاہ ظہیر الدّین محمد بابر کے ہاں‌ آنکھ کھولی تھی۔ اس کی ماں کا نام دلدار بیگم تھا۔ اس تیموری اور چنگیزی خاندان کی مادری زبان ترکی تھی۔ گلبدن کی پیدائش کے وقت کابل پر بابر کی حکم رانی کو 19 سال ہوچکے تھے اور وہاں‌ کی زبان فارسی تھی۔ یہی زبان ہندوستان میں‌ بھی پروان چڑھ چکی تھی جس کا اظہار گلبدن بیگم نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ گلبدن کا ابتدائی بچپن کابل میں گزرا تھا۔ وہ پانچ چھے برس کی تھی جب والد کے ساتھ ہندوستان آئی۔ یہاں دو ڈھائی سال کے بعد بابر کا انتقال ہوگیا اور گلبدن بیگم نے ہمایوں بادشاہ کے زیرِ نگرانی جو اس کے بھائی تھے، تربیت پائی۔ وہ سولہ سال کی تھی جب اس کی شادی ہو گئی، مگر مؤرخین کا قلم اس بارے میں خاموش ہے جب کہ خود گلبدن نے اس کا تذکرہ اشارتاً کیا ہے۔

    ہمایوں نامہ میں گلبدن بیگم نے ذکر کیا ہے کہ جب ان کی عمر دو سال تھی تو انھیں ماہم بيگم کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ ماہم بیگم نے اپنے بیٹے ہمایوں اور دیگر بچّوں کے ساتھ ان کی بھی پرورش اور تربیت کی تھی۔ انہی کی سرپرستی میں‌ گلبدن بیگم نے دربار اور شاہی محل کے اطوار و آداب سیکھے۔

    چند تاریخی کتب میں آیا ہے کہ وہ 50 سال کی عمر میں طوافِ بیتُ اللہ کو گئی اور تین سال سے زائد عرصہ وہاں قیام رہا۔ مغل شاہ زادی نے آج ہی کے دن آگرہ میں‌ 80 سال کی عمر میں انتقال کیا، 1603ء میں وفات پانے والی گلبدن بیگم کا احوالِ زیست اور اس سے متعلق واقعات بھی کہیں‌ مذکور نہیں‌۔ حیرت انگیز طور پر شاہ زادی نے اپنی تصنیف میں بھی اپنے بارے میں بہت کم لکھا ہے، اور کسی بھی موقع پر تفصیل سے حالات یا کوئی واقعہ رقم نہیں‌ کیا، لیکن کتاب کے مطالعے سے حرم اور مغل سلطنت میں اس کی اہمیت کا اندازہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔

    ہمایوں نامہ تاریخی اہمیت کی حامل ایسی کتاب ہے جس کی حیثیت اس کی مصنّف کے تعلق سے بھی بڑھ جاتی ہے کہتے ہیں یہ کتاب گلبدن بیگم نے اپنے بھتیجے اکبر بادشاہ کی فرمائش پر لکھی تھی۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بادشاہ اکبر اپنی پھوپھی کے جنازے کے ساتھ قبرستان گئے اور انھیں قبر میں اتارا تھا۔ مؤرخین کے مطابق وہ نہایت فیاض اور درد مند عورت تھی۔ صدقہ خیرات کثرت سے کیا کرتی تھی۔

    اپنی مشہور تصنیف کے بارے میں گلبدن بیگم نے لکھا ہے کہ اکثر واقعات اپنی یادداشت کی مدد سے اس کتاب میں لکھے ہیں، اور کچھ دوسروں کی زبانی سن کر لکھے ہیں۔

    گلبدن بانو کی یہ تصنیف بتاتی ہے کہ وہ صاف گو بھی تھی۔ اس نے اپنے بھائی اور بادشاہ ہمایوں کی لغزشوں کو نہیں چھپایا اور نہ ہی اس کتاب میں شاہی خاندان اور اپنے دوسرے بھائیوں کی کوتاہیوں کو چھپانے کی کوئی کوشش کی ہے۔

    ہمایوں نامہ کی بنیاد پر مؤرخین اس بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں‌ کہ گلبدن بانو وہ شہزادی تھی جس نے مغل حرم سے منسلک عیش و نشاط کے تصور کو بدلا اور بعد میں جب ان کے بھتیجے اکبر بادشاہ کی مذہب سے دوری اور ہندوستان کے مسلمانوں‌ میں اس سے متعلق بدگمانی عام ہورہی تھی تو اسے بھی دور کرنے کی کوشش کی۔

  • اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی سے متعلق انگریز مصنّفین کی بے سَر و پا باتیں

    اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی سے متعلق انگریز مصنّفین کی بے سَر و پا باتیں

    بمبئی کے سفرمیں ایک عزیز دوست نے جو انگریزی تصنیفات پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں انڈین میگزین اینڈ ریویو کا ایک آرٹیکل دکھلایا جو زیبُ النسا کی سوانح عمری کے متعلق تھا۔

    مجھ کو افسوس ہوا کہ ایک ایسے معزز پرچہ کا سرمایۂ معلومات تمام تر بازاری قصّے تھے جس میں سے ایک شرم ناک قصّہ عاقل خان رازی کا بھی ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بازاری اہلِ قلم نے زیب النسا کے جو حالات تجارتی غرض سے قلم بند کیے، وہ بالکل بے سروپا ہیں۔

    اس بنا پر خیال ہوا کہ زیبُ النسا کے متعلق صحیح معلومات یکجا کر دیے جائیں، جس سے یہ فائدہ ہوگا کہ غلط معلومات کی اصلاح ہو جائے گی۔

    زیبُ النسا کی ولادت
    زیبُ النسا اورنگ زیب (مغل بادشاہ) کی سب سے پہلی اولاد تھی۔ زیب النسا شادی کے دوسرے سال شوال ۱۰۴۸ہجری (1638ء) میں پیدا ہوئی۔ حسبِ دستور سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم دی۔ تمام تاریخیں اور تذکرے متفق اللفظ ہیں کہ زیب النسا نے عربی اور فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل تھی۔

    زیب النسا نے شادی نہیں کی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سلاطینِ تیموریہ لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرتے تھے۔ اس غلط روایت کو یورپین مصنّفوں نے بہت شہرت دی ہے اور اس سے ان کو شاہی بیگمات کی بدنامی پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے، لیکن یہ قصہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔ خود عالمگیر کی دو بیٹیاں زبدۃُ النسا بیگم اور مہرالنسا بیگم سپہر شکوہ اور ایزد بخش (پسرِ شہزادہ مراد) سے بیاہی تھیں۔ چناں چہ مآثرِعالمگیری میں دونوں شادیوں کی تاریخیں اور مختصر حالات لکھے ہیں اور خاتمہ کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

    عالمگیر زیبُ النسا کی نہایت عزّت کرتا تھا۔ جب وہ کہیں باہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لیے شہزادوں کو بھیجتا تھا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔

    زیب النساء نے ۱۱۱۰ ہجری (1698 یا 1702ء) میں دلّی میں انتقال کیا۔ عالمگیر اس زمانے میں دکن کی فتوحات میں مصروف تھا۔ یہ خبر سن کر سخت غم زدہ ہوا۔ حکم صادر ہوا کہ اس کے ایصالِ ثواب کے لیے زکوٰۃ و خیرات دیں۔ اور مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں۔ خانی خان نسخہ مطبوعہ کلکتہ میں زیب النسا کا نام اور اس کے واقعات ۱۱۲۲ ہجری (1710ء) تک آتے ہیں، لیکن یہ صریح غلطی ہے۔ کاتبوں نے غلطی سے زینتُ النسا کو زیبُ النساء سے بدل دیا ہے۔

    کمالاتِ علمی اور عام اخلاق و عادات
    تمام مؤرخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیبُ النسا علومِ عربیہ اور فارسی زبان دانی میں کمال رکھتی تھی۔ نستعلیق، نسخ اور شکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھی۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی۔ اور دیوانِ مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔ اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہوگیا۔

    علم پروری
    زیبُ النسا نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہلِ فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ زیب النسا نے تصنیف و تالیف کا جو محکمہ قائم کیا تھا اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانے کا ہونا بھی ضروری تھا۔ جس سے مصنفین فائدہ اٹھا سکیں۔ چنانچہ بیگم موصوف نے ایک نہایت عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا۔

    اخلاق و عادات
    زیب النسا اگرچہ درویشانہ اور منصفانہ مذاق رکھتی تھی، تاہم شاہجہاں کی پوتی تھی۔ اس لیے نفاست پسندی اور امارت کے سامان بھی لازمی تھے۔ عنایت اللہ خاں جو امرائے عالمگیری میں مقربِ خاص تھا، زیب النسا کا میر خانساماں تھا۔ کشمیر میں جا بجا خوشگوار اورخوش منظر چشمے ہیں۔ ان میں سے ایک چشمہ جس کا نام احول تھا، زیب النسا کی جاگیر میں تھا۔ زیب النسا نے اس کے متصل ایک نہایت پُر تکلف باغ اور شاہانہ عمارتیں تیار کرائی تھیں۔

    زیبُ النسا کے متعلق جھوٹے قصّے
    زیبُ النسا کے متعلق متعدد جھوٹے قصّے مشہور ہوگئے ہیں جن کو یورپین مصنفوں نے اور زیادہ آب و رنگ دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ زیب النسا اور عاقل خاں سے عاشقی اور معشوقی کا تعلق تھا اور زیب النسا اس کو چوری چھپے سے محل میں بلایا کرتی تھی۔ ایک دن عالمگیر محل میں موجود تھا کہ اس کو پتہ لگا کہ عاقل خاں محل میں ہے اور حمام کی دیگ میں چھپا دیا گیا ہے۔ عالمگیر نے انجان بن کر اسی دیگ میں پانی گرم کرنے کا حکم دیا۔ عاقل خاں نے اخفائے راز کے لحاظ سے دَم نہ مارا اور جل کر رہ گیا۔

    (اردو کے نام وَر سیرت نگار، مؤرخ، عالمِ دین اور نقّاد شبلی نعمانی کے ایک مضمون سے تالیف کردہ پارے)