Tag: شاہجہان

  • روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    مغل شہنشاہ شاہ جہان اور ملکہ ممتاز محل کی صاحب زادی روشن آرا بیگم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دین دار خاتون تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے رفاہِ عامّہ کے کئی کام کروائے جن کا ذکر اب صرف تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے۔

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے بھائی اور ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی لاڈلی تھیں۔ وہ انھیں بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    روشن آرا بیگم 11 ستمبر 1671ء کو وفات پاگئی تھیں۔ 1617ء میں‌ پیدا ہونے والی روشن آرا بیگم کی ماں مغل بادشاہ کی چہیتی بیوی ملکہ ارجمند بانو (ممتاز محل) تھیں۔ روشن آرا کے حقیقی بہن بھائیوں میں دارا شکوہ، اورنگزیب عالم گیر اور جہاں آرا مشہور ہیں۔

    روشن آرا بیگم کی تعلیم و تربیت اسی طرح ہوئی جیسا کہ اس دور کے رواج کے مطابق ایک شاہزادی کے لیے اہتمام کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جملہ علوم و فنون اور تدبیر و سیاست سیکھی، لیکن اس شہزادی کو فنِ کتابت میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کی خداداد صلاحیت اور مشق نے انھیں کتابت میں ایسا باکمال کیا کہ ان کا خط دیکھنے والے داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے تھے۔

    شہزادی روشن آرا کو سب بھائیوں میں اورنگزیب عالم گیر سے زیادہ محبّت تھی۔ وہ اورنگزیب کی خیرخواہ تھیں۔ جب شہزادی کے بھائیوں دارا شکوہ، مراد، شجاع اور اورنگزیب میں تخت نشینی پر تنازع پیدا ہوا تو روشن آرا نے اورنگزیب کا ساتھ دیا۔

    مشہور ہے کہ وہ شہنشاہ کے دربار میں اورنگزیب کے خلاف ہونے والی باتیں بھائی تک پہنچاتی تھیں اور اسے ہر قسم کی سازشوں سے آگاہ کر دیا کرتی تھیں۔

    ہندوستان میں تاج و تخت سے جڑے واقعات، محلّاتی سازشوں کے تذکروں اور اس دور کے شاہی مؤرخین کے قلم سے لکھی گئی تاریخ میں مبالغہ آرائی ہی نہیں، من گھڑت اور بے بنیاد قصّے کہانیاں اور جھوٹ کی آمیزش سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جاہ و جلال اور اختیار کی خواہش اور ہوسِ زر کے لیے خونی رشتوں کو بھی قربان کردیا گیا۔ اسی شہزادی کے باپ اور بھائیوں کو قید کے ساتھ دردناک موت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا جس میں اورنگزیب کا ہاتھ تھا۔

    اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ روشن آرا بیگم نے تخت نشینی کے معاملے میں اورنگزیب کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی خیر خواہی اور بیدار مغزی نے اورنگزیب کو فائدہ پہنچایا اور وہ تخت و تاج حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کام یابی میں اگرچہ اورنگزیب کی تدبیر و سیاست اور عزم و ہمّت کو سب سے زیادہ دخل تھا، لیکن اس کی بہن شہزادی روشن آرا بیگم نے ہر موقع پر اس کی مدد اور راہ نمائی کرتے ہوئے کسی بھی نقصان سے بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر اپنی بہن اور شہزادی روشن آرا بیگم کو بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ ایک بڑی جاگیر کی مالک تھیں جب کہ شاہی وظیفہ بھی پاتی تھیں۔ مؤرخین کے مطابق شہزادی کی دولت کا پیش تر حصّہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد میں صرف ہوتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم رفاہِ عامہ کے سلسلے میں اپنا حصّہ ڈالتی رہتی تھیًں۔ انھوں نے کئی کام کروائے جن سے رعایا کو فائدہ پہنچا، لیکن آج ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں‌ رہا۔

  • یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    دارا شکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا بڑا بیٹا تھا۔

    مؤرخین نے اسے طبعاً صلح جُو، غم گسار، صوفیا کا ارادت مند لکھا ہے۔ وہ فارسی، عربی اور سنسکرت کا عالم اور متعدد کتب کا مصنّف تھا۔

    شہزادہ دارا شکوہ کی نظر میں تمام مذاہب قابلِ احترام تھے۔ وہ جہاں مسلمان علما اور صوفیائے کرام کی مجالس میں شریک رہتا، وہیں ہندو، سکھ اور بدھ مت کے پیروکاروں سے بھی علمی و مذہبی موضوعات پر اظہارِ خیال کرتا تھا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں اسے ایک بدنصیب شہزادے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جسے 1659ء میں آج ہی کے دن قتل کردیا گیا تھا۔

    دارا شکوہ شاہ جہاں کے بعد تخت کا وارث تھا، لیکن شہنشاہ کے چھوٹے بیٹے اورنگزیب نے اسے معزول کرکے قید کر لیا اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔

    ہندوستان کے مشہور شہر اجمیر میں 1615ء میں‌ آنکھ کھولنے والا دارا شکوہ شاہ جہاں کا لاڈلا تھا۔ وہ بڑا ہوا تو ایک مفکّر، شاعر اور فنونِ لطیفہ کا شیدائی نکلا، لیکن سلطنت کے انتظام اور خاص طور پر فوجی امور میں اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔

    مؤرخین نے دارا شکوہ کی شادی کو مغل دور کی مہنگی ترین تقریب لکھا ہے۔ اس شہزادے کا نکاح نادرہ بانو کے ساتھ ہوا۔ 1633ء میں شاہی خاندان میں ہونے والی شادی کی یہ تقریب کئی روز جاری رہی تھی۔

    محمد صالح کمبوہ لاہوری شاہ جہاں کے دربار سے منسلک ایک مؤرخ تھے۔ انھوں نے ’شاہ جہاں نامہ‘ جیسی کتاب لکھی جو بہت مشہور ہے۔

    وہ دارا شکوہ کی گرفتاری اور قتل کے بارے میں لکھتے ہیں، ’شہزادہ کو جب گرفتار کر کے دلّی لایا گیا تو اس کے جسمِ نازنین پر میلا کچیلا لباس تھا۔ یہاں سے اسے نہایت سرگردانی اور برگشتہ بختی کی حالت میں ہاتھی پر سوار کر کے خضر آباد پہنچایا گیا۔ کچھ عرصے ایک تنگ و تاریک گوشے میں رہا اور تھوڑے ہی دنوں بعد اس کے قتل کا حکم صادر ہوا۔‘

    قتل کے بعد اس کی لاش کو کہاں دفنایا گیا، اس بارے میں بتانا کچھ مشکل ہے، کیوں کہ کوشش کی گئی تھی کہ کسی کو اس کی قبر کا علم نہ ہوسکے۔

    دارا شکوہ کی قبر کہاں ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں اس وقت کے ایک مؤرخ محمد کاظم ابن محمد امین منشی نے اپنی مشہور کتاب ’عالمگیر نامہ‘ میں لکھا ہے، ’دارا شکوہ کو ہمایوں کے مقبرے میں اس گنبد کے نیچے دفنا دیا گیا جہاں شہنشاہ اکبر کے بیٹے دانیال اور مراد دفن ہیں۔‘

    کسی شہزادے کا موت کے بعد یوں بے نام و نشان ہو جانا تعجب کی بات نہیں کیوں کہ تاریخ کے اوراق میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب شاہی خاندان میں مخالف کو مرنے کے بعد اس طرح ٹھکانے لگایا گیا ہو کہ کوئی اس کی قبر تک نہ پہنچ سکے۔

    مؤرخین کے مطابق اس بدنصیب شہزادے کا سر قلم کردیا گیا تھا۔ شاہ جہاں کے عہد کے مؤرخین کی تحریر اور بعض دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارا شکوہ کا دھڑ دلّی میں ہمایوں کے مقبرے میں کسی جگہ پیوندِ‌ خاک بنا، لیکن اس کا سَر تاج محل کے صحن میں کہیں دفن ہے۔

    رباعیات کے علاوہ دارا شکوہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں سفینۃُ الاولیا، سکینۃُ الاولیاء اور حسناتُ العارفین مشہور ہیں۔