Tag: شاہد احمد دہلوی

  • ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!“

    ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!“

    شاہد احمد دہلوی کے قلم سے کتنے ہی واقعات اور تذکرے نکلے اور بطور حوالہ و یادگار آج بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی تحریریں متحدہ ہندوستان کی اُس دلّی کی یاد تازہ کرتی ہیں جو مسلم دور کی تہذیب و ثقافت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ دلّی کے شاہد صاحب بٹوارے کے بعد وہاں گئے تو اسے بہت مختلف پایا۔ مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر دوستیاں اور میل جول ہونے لگا تھا۔ روشن خیال اور بلند فکر لوگ دلّی سے چلے گئے تھے یا پھر تنگ دل اور بغض و عناد سے بھرے ہوئے ہندوؤں کے ڈر سے خاموش تھے اور ایک مشترکہ کلچر کو تباہ و برباد ہوتا دیکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی کو اردو کا صاحب طرز ادیب، مترجم اور ماہرِ موسیقی کہا جاتا ہے جن کی یہ تحریر موجودہ دور کے بھارت کی عکاسی کرتی ہے جو آج اپنی سیکولر شناخت کھو چکا ہے اور مودی کی پھیلائی ہوئی نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ وہاں بالخصوص مسلمانوں کو ریاستی سرپرستی میں اپنی املاک اور عبادت گاہوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے اور جھوٹے الزامات کے بعد یا مکان اور مسجد وغیرہ کو غیر قانونی تعمیر کہہ کر مسمار کیا جا رہا ہے اور یہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کی بے دخلی کا ایک عمل ہے۔ شاہد احمد دہلوی بتاتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد بھی کراچی میں ہندوؤں کی جائیداد، ان کا مال و دولت محفوظ رہا بلکہ مسلمان ان کی جائیدادوں‌ پر قبضہ نہیں کرسکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ایک دوست کی وساطت سے دلّی کا ایک چکر لگانے کا موقع ملا۔ اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ دلّی کی ساری مسجدیں خالی کرا لی گئی ہیں، لیکن دیکھا یہ کہ آدھی سے زیادہ اب بھی آباد ہیں۔ پولیس انھیں آکر نکال جاتی ہے اور تالا توڑ کر یہ پھر آباد ہو جاتے ہیں، جو مسجدیں شہید کر دی گئیں، وہاں ان کے اب آثار بھی باقی نہیں ہیں۔ ’چرخے والان‘ کی سرخ پتھر کی مسجد کا اب کوئی نشان باقی نہیں۔ ایک صاحب نے وہاں گھر یا مندر تعمیر کرانا شروع کر دیا تھا، مگر حکومت نے تعمیر رکوا دی۔ ’پہاڑ گنج‘ اور ’سبزی منڈی‘ میں سب مسجدیں آباد ہیں۔ ان کے نل اور بجلی کے سلسلے کاٹ دیے گئے ہیں، لیکن مکین اب بھی انھیں نہیں چھوڑتے… چھوڑیں تو جائیں کہاں…؟ مسلمانوں کے جتنے مکان تھے، ان پر قبضے پہلے کیے جا چکے تھے، جو بچے ہوئے تھے، ان پر ’کسٹوڈین‘ کا قبضہ ہوگیا، پھر مسلمانوں نے خود پیشگی کرائے اور پگڑیاں لے کر ’شرنارتھیوں‘ کو آباد کر دیا کہ ’کسٹوڈین‘ کی گھتی میں جائیداد نہ پڑ جائے۔ دلّی میں امن کی خبریں سن کر اکثر دلّی والے پاکستان سے واپس آرہے تھے، لیکن ان کے رہنے کے لیے مکان نہیں تھے، جو ان کے ذاتی مکان تھے وہ یا تو ’شرنارتھیوں‘ کو الاٹ ہو چکے تھے یا شرنارتھیوں سے کچھ لے کر خود مسلمانوں نے انھیں بسا دیا تھا۔ ان کے خالی ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی اور حکومت نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ مکان واپس نہیں دلائے جا سکتے۔ واپس آنے والے مسلمان مارے مارے پھر رہے تھے، جو صاحبِ جائیداد تھے، وہ چاہتے تھے کہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالیں، تو حکومت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔ نہ بیچنے کی اور نہ تبادلے کی۔ اس بات میں حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ اب تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ انکم ٹیکس والوں سے واجبات سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے آؤ تو جائیداد بک سکتی ہے، لیکن ان کے باوجود ’کسٹوڈین‘ کی طرف سے اجازت نہیں ملتی۔”

    "اس کے برخلاف کراچی میں ہندوؤں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار خوب پگڑیاں لے لے کر بڑے بڑے منافعوں پر بچیں اور گھر کی ایک ایک چیز پورے داموں پر فروخت کی۔ حد یہ کہ جھاڑو تک بیچی اور آرام سے پاکستان کو اور جناح کو کوستے اور گالیاں دیتے ہوئے بمبئی روانہ ہوگئے۔ کراچی میں مجال ہے کسی کی کہ کسی گھر پر قبضہ تو کرلے، اسی وقت پولیس آکر ہتھکڑی لگا دیتی ہے۔ دلّی میں مسلمانوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر ’شرنارتھی‘ بس جاتے ہیں اور جو تھانہ پولیس کرو تو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان غریبوں کو یہاں رہنے دو، خوشی سے نہیں تو ناخوشی سے رہنے دو گے۔ زندہ چلے جاؤ، ورنہ کوئی مار مور دے گا۔“

    (تصنیف ’دلّی کی بپتا‘ سے ماخوذ)

  • "من موہنی” جس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا!

    "من موہنی” جس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا!

    اردو کے صاحب طرزِ طرز ادیب، ماہرِ موسیقی، مترجم اور رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی اردو زبان کے ایک آشفتہ و فریفتہ اور ادب کے شیدائی تھے۔ دلّی کے یہ باکمال ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے۔ کئی مضامین اور شخصی خاکے ان کے دل آویز طرزِ‌ نگارش اور نثرِ لطیف کی یادگار ہیں۔

    یہ انہی شاہد احمد دہلوی کے ایک مکتوب سے ماخوذ پارہ ہے جو اردو زبان سے ان کی محبّت کی خوب صورت مثال تو ہے ہی، مگر اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ یہ ایک ہم عصر شخصیت سے زبان کے معاملہ پر شاہد احمد دہلوی کا اختلاف ہے جس میں ان کی تلخ و ترش باتوں پر اردو زبان کی مٹھاس غالب آگئی ہے۔ مشہور ادبی رسالہ ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل نے اپنے اداریہ میں اردو زبان کے ایک نہایت اہم مسئلے پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ شاہد دہلوی نے اُس اداریہ کے جواب میں انھیں خط میں لکھا:

    جی ہاں، اردو بڑی اچھی اور بڑی پیاری زبان ہے اور بڑی نرالی زبان ہے۔ کیوں کہ اردو بولنے والے مردوں کی زبان اور ہے، اور عورتوں کی زبان اور بھی…. اپنی جگہ پر ترقی یافتہ ہے۔ اور اتنی وسیع کہ مولانا سید احمد، صاحب فرہنگ آصفیہ، عورتوں کے محاوروں کی ایک جامع لغات ’’لغات النساء‘‘ کے نام سے لکھ گئے ہیں۔

    دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی ہو کہ اس میں مردوں اور عورتوں کی زبانیں الگ الگ ہوں۔ عورتوں کی زبان میں اگر شاعری دیکھنی ہو تو ریختیاں ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے مضامین شاید ثقہ طبیعتوں پر ناگوار گزریں تو گزریں، زبان کا چٹخارہ یقیناً مزہ دے جائے گا۔

    دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی طرح اردو بھی مقامی بولیوں اور دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا تو خمیر ہی زبانوں اور بولیوں کے آمیز ے سے اٹھا ہے۔ چھوت چھات کی یہ نہ تو پہلے کبھی قائل تھی اور نہ اب ہے۔ زندہ زبانیں چھوت چھات کو نہیں مانتیں اور نہ اچھوت رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کا تال میل سب سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اردو ہرجائی بھی ہے، حریص بھی ہے، جس کی جو چیز پسند آتی ہے لے کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، کبھی پرائی چیز کو جوں کا تو رہنے دیتی ہے اور کبھی اس کی شکل ہی بدل ڈالتی ہے۔ یہ عادت بھی اس نے اپنی ترقی پذیر بہنوں سے سیکھی ہے۔ جبھی تو من موہنی بن گئی اور اس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا تھا۔

    بھلا جس نے عوام میں جنم لیا ہو، سرکاروں، درباروں میں قدم رکھا ہو، بادشاہوں کی منہ چڑھی رہی ہو، اس کی بڑھوتری کیسے رک سکتی تھی؟ ککڑی کی بیل کی طرح بڑھتی ہی چلی گئی اور ہندوستان کی سرحدوں کو پھلانگ کر دوسرے براعظموں پر بھی چولائی کی طرح پھیلنے لگی۔ اب دنیا میں آپ جہاں چاہے چلے جائیں، اردو بولنے والے آپ کو مل ہی جائیں گے۔ اور صاحب، غضب کی ڈھیٹ زبان ہے، بڑی سخت جان، ہمسایہ ملک میں اردو کو نہ صرف اچھوت بنایا جارہا ہے، بلکہ اسے قتل کرنے کے سامان کیے جا رہے ہیں، مگر یہ ہے کہ ڈٹی ہوئی ہے اور برابر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ عجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سَر نکل آتے ہیں۔ اردو کسی کے مارے نہیں مر سکتی۔ یہ تو یونہی نئے نئے میدان مارتی چلی جائے گی۔”

  • جب منٹو نے ناشر کی جیب سے دَس روپے نکالے!

    جب منٹو نے ناشر کی جیب سے دَس روپے نکالے!

    منٹوؔ کو شراب پینے کی لت خدا جانے کب سے تھی۔ جب تک وہ دلّی رہے ان کی شراب بڑھنے نہیں پائی تھی۔ بمبئی جانے کے بعد انھوں نے پیسہ بھی خوب کمایا اور شراب بھی خوب پی۔

    جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آ گئے۔ یہاں فلموں کا کام نہیں تھا۔ اس لیے انھیں قلم کا سہارا لینا پڑا۔ ہمارے ادب جیسی بنجر زمین سے روزی پیدا کرنا منٹو ؔ ہی کا کام تھا۔ صحت پہلے کون سی اچھی تھی۔ رہی سہی شراب نے غارت کر دی۔ کئی دفعہ مرتے مرتے بچے۔ روٹی ملے یا نہ ملے بیس روپے روز شراب کے لیے ملنے چاہیے۔ اس کے لیے اچھا بُرا کچھ روزانہ دو ایک افسانے لکھنا ان کا معمول ہو گیا تھا۔ انھیں لے کر وہ کسی ناشر کے پاس پہونچ جاتے۔ ناشروں نے پہلے ضرورت سے انھیں خریدا۔ پھر بے ضرورت پھر اُپرانے اور منہ چھپانے لگے۔ دور سے دیکھتے کہ منٹو آ رہا ہے تو دکان سے ٹل جاتے۔ منٹو کی اب بالکل وہی حالت ہو گئی تھی جو آخر میں اختر شیرانی اور میرا جی کی۔ بے تکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے۔

    اگست 1954 میں کئی سال بعد لاہور گیا تھا۔ لاہور کے ادیب، شاعر، ایڈیٹر اور پبلشر ایک بڑی پارٹی میں جمع تھے کہ غیر متوقع طور پر منٹو بھی وہاں آگئے۔ اور سیدھے میرے پاس چلے آئے۔ ان کی حالت غیر تھی۔ میں نے کہا آپ تو بہت بیمار ہیں۔ آپ کیوں آئے؟ میں سے اٹھ کر خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔ بولے ہاں بیمار تو ہوں مگر جب یہ سنا کہ آپ یہاں آ رہے ہیں تو جی نہ مانا۔

    اتنے میں ایک شامت کا مارا پبلشر ادھر آ نکلا۔ منٹو نے آواز دی، "اوئے ادھر آ۔” وہ رکتا جھجکتا آگیا۔

    "کیا ہے تیری جیب میں نکال۔” اس نے جیب میں سے پانچ روپے نکال کر پیش کیے مگر منٹو پانچ روپے کب قبول کرنے والے تھے۔ "حرام زادے دس روپے تو دے۔” یہ کہہ کر اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور دس روپے کا نوٹ نکال کر پھر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ پبلشر نے بھی سوچا کہ چلو سستے چھوٹے۔ وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ منٹو پندرہ بیس منٹ تک بیٹھے باتیں کرتے رہے مگر ان کی بے چینی بڑھ گئی اور عذر کر کے رخصت ہوگئے۔ مجھ سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

    پانچ مہینے بعد اخبارات سے معلوم ہوا کہ منٹو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے پھر چپکے سے شراب پی لی تھی۔ خون ڈالتے ڈالتے مر گئے۔

    (گنجینۂ گوہر از قلم شاہد احمد دہلوی سے اقتباس)

  • جنگِ ستمبر: کراچی میں لالو کھیت کا ہوائی اڈّہ اور تین ہٹی کا پُل

    جنگِ ستمبر: کراچی میں لالو کھیت کا ہوائی اڈّہ اور تین ہٹی کا پُل

    1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ میں سرحدوں پر لڑنے والے فوجی جوانوں اور عام پاکستانیوں نے دلیری، شجاعت اور ایثار کی تاریخ رقم کی۔ جنگِ ستمبر میں‌ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے کئی گنا زیادہ فوج اور بھاری اسلحہ رکھنے والے دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو کے نام وَر انشا پرداز اور ممتاز ادیب شاہد احمد دہلوی ہجرت کرکے یہاں آگئے تھے۔ انھوں نے جنگِ ستمبر کا آنکھوں دیکھا احوال اور مادرِ‌ گیتی کے دفاع کے لیے جان قربان کر دینے کے جذبے سے سرشار قوم کے چیدہ چیدہ اور مستند واقعات کو تحریری شکل دی۔ بھارت کے اس جنگ میں‌ برتری اور فتح کے کھوکھلے دعوؤں اور پروپیگنڈے پر مبنی ایک قصّہ شاہد احمد دہلوی نے کچھ یوں بیان کیا ہے:

    "1965ء میں کئی گنا زیادہ فوج اور بھاری اسلحے کے زعم میں پاکستان کی سرحدوں کو روند کر قابض ہونے کا خواب دیکھنے والے بھارت کو جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے دنیا اور اپنے عوام کے سامنے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔ اس حوالے سے یہ واقعہ تاریخ کا حصّہ ہے۔”

    "6 ستمبر سے 23 ستمبر تک ہوائی حملوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں بلیک آؤٹ رہا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کسی قسم کی زحمت نہ کرنا پڑی۔ پبلک کو خود اپنی ذمہ داری کا اتنا احساس تھا کہ رات کے وقت کسی ایک گھر سے بھی روشنی کی کرن تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔”

    "محلّے والے ٹولیاں بنا کر گشت کرتے تھے تاکہ محلّے کی بھی حفاظت رہے۔ کراچی پر کئی رات بھارت کے طیّارے آئے اور اپنی دانست میں بم بھی گراتے رہے مگر معلوم ہوا کہ یا تو بم چلے نہیں یا سمندر میں گرتے رہے۔ دو چار شل البتہ آبادی پر گرے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر بھارت نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ لالو کھیت کا ہوائی اڈّہ اور تین ہٹی کا پل برباد کر دیا گیا۔ حالاں کہ لالو کھیت میں کوئی ہوائی اڈّہ نہیں ہے اور ایک برساتی نالے پر تین ہٹّی کی پلیا ہے۔”

    "بھارت کے محکمہ اطلاعات نے ایک فرضی فلم بھی کراچی کی تباہی کی بنا لی جس میں دکھایا ہے کہ جہاں پہلے کراچی آباد تھا اب وہاں سمندر موجیں مار رہا ہے۔ بھارت کے پروپیگنڈے کا اصول یہ ہے کہ بمرگش بگیر تابہ تپ راضی شود۔”

    "اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ اسے گھٹاتے گھٹاتے بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جائے۔”

  • ‘پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا!’

    ‘پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا!’

    دلّی کے غریبوں میں بھی یہ بات تھی کہ وہ کسی نہ کسی ہنر میں یکتا ہونا چاہتے تھے، چنانچہ جو ہنر یا فن انہیں پسند آتا اسے اس فن کے استاد سے باقاعدہ سیکھتے تھے۔

    استاد اپنے شاگردوں سے پیسہ کوڑی نہیں لیتے تھے۔ اس لیے بڑے بے نیاز ہوتے تھے۔ شاگرد خدمت کر کے استاد کے دل میں گھر کر لیتا تھا اور کسی بات سے خوش ہوکر استاد شاگرد کو دوچار گُر بتا دیا کرتا تھا۔

    دراصل خدمت لینے میں یہ گُر پوشیدہ تھا کہ استاد شاگرد کی خو بُو سے اچھی طرح واقف ہو جاتا تھا۔ استاد کو اندازہ ہو جاتا کہ شاگرد اس فن کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ اطاعت و فرماں برداری کرتا ہے یا نہیں۔ جو کچھ ہم کہیں گے اسے مانےگا یا نہیں؟ اگر ہم نے بتایا اور اس نے نہ کیا تو ہماری بات نیچی ہوگی اور شاگرد کا کچا پن ہماری بدنامی کا باعث ہوگا، لہٰذا خوب کَس لیتے تھے۔ کوڑی پھیرا بازار کا کراتے، برتن منجھواتے، گھر کی جھاڑو دلواتے، ہاتھ پاؤں دبواتے۔ جو اِن ناگواریوں کو گوارا کر لیتا، اسے اس کے ظرف کے مطابق اپنا فن یا ہنر سکھا دیتے۔ نااہل کو کبھی کوئی استاد کچھ نہ دیتا تھا۔ اناڑی کے ہاتھ میں تلوار دینا بندر کے ہاتھ میں استرا دینا ان کے نزدیک گناہ تھا۔

    معمولی سی بات ہے پنجہ لڑانا، مگر دلّی میں اس کے بھی استاد تھے۔ پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا اور اس کی بھی کچھ رکاوٹیں تھیں جنہیں استاد سے سیکھا جاتا تھا۔ دلّی کے میر پنجہ کش کا نام بہت مشہور ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ پنجہ لڑانے والوں کا خط خراب ہو جاتا ہے، مگر میر پنجہ کش نہ صرف پنجہ کشی کے استاد تھے بلکہ اپنے زمانے کے اعلیٰ درجہ کے خوش نویس بھی تھے۔ ان کی لکھی ہوئی وصلیاں دیکھ کر آج بھی آنکھوں میں نور آتا ہے۔ اٹھارہ سال پہلے تک دلّی میں بعض نامی پنجہ کش تھے جو اپنے شاگردوں کو زور کراتے اور پنجے کے داؤ پیچ بتاتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دبلا پتلا سا نوجوان ہے جو ایک قوی ہیکل دیہاتی سے پنجہ پھنسائے بیٹھا ہے۔ دیہاتی کا چہرہ زور لگا لگا کر سرخ ہوا جا رہا ہے مگر نوجوان کا ہاتھ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس نے کچھ اس انداز سے انگلیاں چڑھا رکھی ہیں کہ دیہاتی کی ساری طاقت بیکار ثابت ہو رہی ہے۔

    جب دیہاتی کام یاب نہیں ہوتا تو کہتا ہے، ’’نہیں جی، یوں نہیں میری انگلی اتر گئی تھی۔‘‘ پھر خوب انگلیاں جما کر کہتا ہے، ’’ہاں اب لو۔‘‘ مگر اب کے بھی اس کی پیش نہیں جاتی۔ کہتا ہے، ’’میاں جی اب تم موڑو۔‘‘ نوجوان اس کا پنجہ ایسے پھیر دیتا ہے جیسے موم کا ہو۔ دیہاتی حیران ہوکر کہتا ہے، ’’ٹھیرو میاں جی، مجھے اپنی انگلیاں تو جما لینے دو۔‘‘

    ’’لے بھئی چودھری، تو بھی کیا یاد کرے گا خوب گانٹھ لے۔ اچھا اب ہوشیار ہو جاؤ۔‘‘ اور پھر چودھری کا پنجہ نہیں رکتا اور پھرتا چلا جاتا ہے۔ دراصل ہنر اور فن میں گاؤ زوری نہیں چلتی۔ جبھی تو رستمِ زماں گاما پہلوان اپنے سے دوگنے پہلوانوں کو مار کر لیا کرتا تھا۔

    (اردو کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، ماہرِ موسیقی اور مدیرِ مشہور رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی کے مضمون دلّی کے حوصلہ مند غریب سے اقتباس)

  • جب دلّی کے ایک غلیل باز حج کو گئے!

    جب دلّی کے ایک غلیل باز حج کو گئے!

    کھیل کا میدان ہو یا اکھاڑا پُھرتی اور جسمانی طاقت کا مظاہرہ یا زور آزمائی آج بھی مختلف شکلوں‌ میں‌ دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن ایک زمانے میں یہ سب فن جیسا درجہ رکھتا تھا اور اس کے ماہر داد و تحسین بٹورتے تھے۔ ایک ڈیڑھ صدی پہلے کے ہندوستان کی بات کریں‌ تو مختلف گھریلو ساختہ اور سادہ ہتھیار شغل اور تفریح‌ کے لیے ہی نہیں‌، جان و مال کی حفاظت اور کسی موقع پر اپنا دفاع کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔

    اردو کے ممتاز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے یہ اقتباسات اُسی زمانے کے ماہر بنّوٹیوں اور غلیل بازوں‌ سے متعلق ہیں، یہ باتیں اور واقعات دل چسپ بھی ہیں‌ اور ہمارے لیے کسی حد تک حیران کُن بھی۔

    ہندوستان کے ماہر بِنَّوٹ باز سے متعلق دل چسپ قصّہ یہاں‌ پڑھیے

    لکڑی یا بِنَّوٹ کا فن بھی ایک ایسا ہی فن ہے جس کا جاننے والا قوی سے قوی حریف کو نیچا دکھا سکتا ہے۔ یہ دراصل ’’بن اوٹ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی کوئی روک نہیں ہے۔ استاد گھنٹوں اس کے پینتروں کی مشق کراتے ہیں۔ بِنَّوٹیوں میں مچھلی کی سڑپ ہونی چاہیے۔ اگر چستی پھرتی نہیں ہو گی، مار کھا جائے گا۔ لدھڑ آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا فن ہے کہ اس پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر یہ فن سَر تا پا عمل ہے، اس لیے کسی استاد سے سیکھے بغیر نہیں آتا۔

    دلّی کے 1947ء کے فسادات میں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ جب ہندو لٹھ بندوں نے کسی محلّے پر حملہ کیا تو چند مسلمان لونڈے لکڑیاں لے کر باہر نکلے اور کائی سی پھٹتی چلی گئی، لٹھ دھرے کے دھرے رہ گئے اور ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے بھری ہو گیا۔ اپنی آنکھوں تو نہیں دیکھا، ہاں کان گنہگار ہیں کہ ایسے ایسے بھی بنوٹیے ہو گزرے ہیں جو تلواریے سے تلوار چھین لیتے تھے اور اس کی گٹھری بنا کر ڈال دیتے تھے۔ البتہ یہ کمال ہم نے ضرور دیکھا ہے کہ چارپائی کے نیچے کبوتر چھوڑ دیجیے، کیا مجال جو بنّوٹیا اسے نکل جانے دے۔ یہی کیفیت بانک، پٹہ، گتکہ، چھری اور علمی مد کے ہنر مندوں کی تھی۔ بجلی سی چمکی اور حریف ختم۔

    تیر اندازی کے تو ہم نے قصے ہی سنے ہیں البتہ بعض بڈھوں کی غلیل بازی دیکھی ہے۔ وہ غلیل، یہ آج کل کی دو شاخہ وائی کی شکل کی غلیل نہیں ہوتی تھی۔ یہ کوئی دو ہاتھ لمبے لچک دار بانس کو چھیل کر بنائی جاتی تھی۔ اس کے دونوں سروں کے درمیان دہرا تانت کھینچ کر باندھا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل کمان جیسی ہو جاتی تھی۔ دہرے تانت کے بیچوں بیچ دو انگل چوڑا کپڑا غُلّہ رکھنے کے لیے ہوتا تھا۔ جب غلیل استعمال میں نہ ہوتی تو اس کا چلہ اتار دیا جاتا تھا تاکہ بانس کے جھکاؤ کا زور قائم رہے۔ غُلّے خاص طور سے چکنی مٹی کے بنائے جاتے تھے۔ اگر زیادہ مضبوط درکار ہوتے تو چکنی مٹی میں روئی ملالی جاتی تھی اور گیلے غلوں کو دھوپ میں سکھا لیا جاتا تھا۔ دلّی میں غلیل کا سچا نشانہ لگانے والے آخر وقت تک باقی تھے۔ چور کے پاؤں کی ہڈی غُلّے سے توڑ دیتے تھے۔

    جس زمانے میں مکّہ سے مدینہ اونٹوں پر جایا کرتے تھے، تو دلّی کے ایک غلیل باز بھی حج کو گئے تھے۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ بعض دفعہ بدو لوگ قافلے کو لوٹ لیتے ہیں۔ یہ صاحب اپنے ساتھ غلیل بھی لیتے گئے تھے۔ سوئے اتفاق سے ان کے قافلہ پر بدوؤں نے حملہ کر دیا۔ بڑے میاں نے اپنی غلیل کچھ فاصلے پر پھینک دی اور سب کے ساتھ کجاوے میں اتر آئے۔ جب بدو قافلے کو لوٹ کر گٹھریاں باندھنے میں مصروف ہوئے، تو بڑے میاں نے لٹیروں کے سردار کی پیشانی پر ایسا تاک کر غُلّہ (مٹّی کی خاص گولیاں جسے غلیل میں رکھ کر چلاتے ہیں) مارا کہ وہ چِلّا کر گر پڑا۔ اب جو بھی چونک کر دیکھتا کہ یہ کیا معاملہ ہے اس کی کن پٹی پر غلہ لگتا اور وہ ڈھیر ہو جاتا۔

    جب کئی جوان لوٹ گئے تو بڑے میاں نے للکار کر کہا، ’’خیریت چاہتے ہو تو مال چھوڑ دو اور اپنے آدمیوں کو اٹھا کر لے جاؤ، ورنہ تم میں سے ایک بھی بچ کر نہیں جا سکے گا۔‘‘ بدؤں نے کچھ توقف کیا تو انہوں نے اتنی دیر میں دو ایک کو اور لٹا دیا۔ لہٰذا لٹیروں نے جلدی جلدی اپنے زخمیوں کو اٹھایا اور وہاں سے چمپت ہو گئے۔

    دلّی میں ایسے بھی غلیل کے نشانہ باز کبھی تھے جو ایک غُلّہ ہوا میں اوپر مارتے اور جب وہ غُلّہ واپس آنے لگتا تو دوسرا غلہ اس پر مارتے اور دونوں غُلّے ٹوٹ کر ہوا میں بکھر جاتے۔

  • ‘‘چراغ حسن حسرت’’  سے ‘‘منٹو’’ کی ٹکر

    ‘‘چراغ حسن حسرت’’ سے ‘‘منٹو’’ کی ٹکر

    اردو زبان میں سوانح اور آپ بیتیاں، شخصی خاکے اور ادبی تذکرے مشاہیر اور علم و ادب کی معروف ہستیوں کے درمیان نوک جھونک، چھیڑ چھاڑ، طعن و تشنیع، رنجش و مخالفت پر مبنی دل چسپ، بذلہ سنج، کچھ تکلیف دہ اور بعض ناخوش گوار واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ سعادت حسن منٹو سے کون واقف نہیں‌…. وہ نہایت حساس شخصیت کے مالک اور تند خُو ہی نہیں‌ انا پرست بھی تھے۔ جس سے یارانہ ہوگیا، ہوگیا، اور جس سے نہ بَنی، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مشکل۔ اگر منٹو کی کسی وجہ سے کسی کو ناپسند کرتے تو پھر خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

    اس پس منظر کے ساتھ یہ اقتباس پڑھیے جو آپ کو اپنے وقت کے چند بڑے ادیبوں‌ کے مابین نوک جھونک سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے گا۔ اسے اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی نے منٹو پر اپنے مضمون میں‌ رقم کیا ہے۔

    ایک دفعہ احمد شاہ بخاری نے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا۔ ‘‘دیکھو منٹو میں تمہیں اپنے بیٹے کے برابر سمجھتا ہوں۔’’

    منٹو نے جھلّا کر کہا: ‘‘میں آپ کو اپنا باپ نہیں سمجھتا!’’

    مزہ تو اس وقت آیا جب چراغ حسن حسرت سے منٹو کی ٹکر ہوئی۔ واقعہ دلّی ریڈیو کا ہے جہاں اتفاق سے سبھی موجود تھے اور چائے کا دَور چل رہا تھا۔ حسرت اپنی علمیت کا رعب سب پر گانٹھتے تھے۔ ذکر تھا سومرسٹ ماہم کا جو منٹو کا محبوب افسانہ نگار تھا اور مولانا جھٹ بات کاٹ کر اپنی عربی فارسی کو بیچ میں لے آئے اور لگے اپنے چڑاؤنے انداز میں کہنے، ‘‘مقاماتِ حریری میں لکھا ۔۔۔ آپ نے تو کیا پڑھی ہوگی، عربی میں ہے یہ کتاب۔’’ دیوانِ حماسہ اگر آپ نے پڑھا ہوتا۔۔۔ مگر عربی آپ کو کہاں آتی ہے اور حسرت نے تابڑ توڑ کئی عربی فارسی کتابوں کے نام گنوا دیے۔

    منٹو خاموش بیٹھا بیچ و تاب کھاتا رہا۔ بولا تو صرف اتنا بولا۔ ‘‘مولانا ہم نے عربی فارسی اتنی نہیں پڑھی تو کیا ہے؟ ہم نے اور بہت کچھ پڑھا ہے۔’’

    بات شاید کچھ بڑھ جاتی مگر کرشن چندر وغیرہ نے بیچ میں پڑ کر موضوع ہی بدل دیا۔ اگلے دن جب پھر سب جمع ہوئے تو حسرت کے آتے ہی بھونچال سا آ گیا۔ منٹو کا جوابی حملہ شروع ہو گیا، ‘‘کیوں مولانا’’ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے؟ مگر آپ نے کیا پڑھی ہو گی، وہ تو انگریزی میں ہے اور فلاں کتاب؟ شاید آپ نے اس جدید ترین مصنّف کا نام بھی نہیں سنا ہوگا اور منٹو نے جتنے نام کتابوں کے لیے ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس کا نام مشہور ہو۔ منٹو نے کوئی پچاس نام ایک ہی سانس میں گنوا دیے اور مولانا سے کہلوا لیا کہ ان میں سے ایک بھی کتاب نہیں پڑھی۔ ہم چشموں اور ہم نشینوں میں یوں سبکی ہوتے دیکھ کر مولانا کو پسینے آگئے۔

    منٹو نے کہا ‘‘مولانا اگر آپ نے عربی فارسی پڑھی ہے تو ہم نے انگریزی پڑھی ہے۔ آپ میں کوئی سُرخاب کا پَر لگا ہوا نہیں ہے۔ آئندہ ہم پر رعب جمانے کی کوشش نہ کیجیے۔’’

    مولانا کے جانے کے بعد کسی نے پوچھا ‘‘یار تُو نے یہ اتنے سارے نام کہاں سے یاد کر لیے؟’’

    منٹو نے مسکراکر کہا: ‘‘کل شام یہاں سے اٹھ کر سیدھا انگریزی کتب فروش جینا کے ہاں گیا تھا۔ جدید ترین مطبوعات کی فہرست اس سے لے کر میں نے رٹ ڈالی۔’’

  • ادیبوں کے جھگڑے…

    ادیبوں کے جھگڑے…

    اردو ادب کا ایک موضوع معاصرانہ چشمک بھی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور کوئی بھی زمانہ رہا ہو، اس میں اہلِ قلم اور بڑے بڑے ادیب رشک و حسد میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

    کئی عالی دماغ اور بلند حوصلہ ایسی ادبی ہستیاں جو اپنے پڑھنے والوں میں مقبول رہی ہیں، وہ بھی باہمی چپقلش اور جھگڑوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش میں انتہائی پست اور اکثر سوقیانہ پن کا شکار ہوگئے۔ تاہم بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے ہم عصروں سے چھیڑ چھاڑ اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں ایک حد قائم رکھی۔ یہاں‌ ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور منفرد خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "منٹو بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے، مجھے احمق سمجھ رہا ہے۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا۔”

    "اس کام کے لیے اوپندر ناتھ اشکؔ بنا تھا۔ بڑی گٹھل طبیعت کا آدمی تھا۔ منٹو مہینے میں تیس چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا، اور اشکؔ صرف دو ڈرامے لکھتا تھا، اور وہ بھی رو رو کر۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں۔”

    شاہد احمد دہلوی آگے لکھتے ہیں۔

    "منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا۔ اشکؔ اس وقت تو روکھا ہو جاتا تھا، لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا، اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔”

    "شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں۔ اور شیخی کرکری کرنے میں اُسے لطف آتا تھا۔ ن م راشد سے میں نے کہا۔ ’’یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی آخر اس میں کیا بات ہے؟‘‘

    راشد نے (rhyme) اور (rythym) پر ایک مختصر لیکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘ مجھے سنانی شروع کی اور کہا، ’’دیکھیے! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے۔‘‘ میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا، منٹو بھلا کب تاب لا سکتے تھے۔ چٹخ کر بولے کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، کتھا کلی، کتھک، منی پوری؟…. فراڈ کہیں کا۔‘‘ بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔”

  • دلّی جو ’ڈائن ماں‘ بن گئی!

    دلّی جو ’ڈائن ماں‘ بن گئی!

    ”دلّی کا دلّی والوں سے جدا ہونا گوشت سے ناخن کا جدا ہونا ہے، مہینوں اس جدائی کے صدمے سے طبیعت نڈھال رہی۔

    کتنی پیاری ہوگئی دلّی اس فراق کے بعد…! دلّی کے ایک ایک ذرّے کی یاد ستارہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ پر لگ جائیں تو اُڑ کر دلّی پہنچیں۔ لیکن ساری راہیں مسدود تھیں اور جو دلّی ہم چھوڑ کر آئے تھے، وہ اس درجے وحشت ناک تھی کہ اس کے تصوّر ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس کے باوجود ایک دل فریب کشش تھی کہ خوف و ہراس کو محو کیے دیتی تھی، جیسے کسی ماں نے اپنے بچے کو مارا ہو اور بچّہ سہم کر دور ہوگیا ہو، لیکن تسکین کے لیے ماں ہی کی مامتا بھری آغوش میں دبک جانا چاہتا ہو اور دلّی جو اب ہمارے لیے ایک ’ڈائن ماں‘ بن گئی تھی وہ ’ڈائن‘ ہوتے ہوئے بھی ہماری ماں تو بہرحال تھی ہی۔

    اس کی خونی کچلیاں اب دکھائی نہ دیتی تھیں، لبوں پر سے خون کا لاکھا صاف ہو چکا تھا۔ مامتا کے مارے دلّی والے برباد ہو کر بھی ماں کی گود میں جانا چاہتے تھے۔ ڈائن کی گود میں، ماں کی گود میں…

    میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائی دلّی ہی میں تھے، ان کے خط آنے لگے تھے کہ اب امن ہو گیا ہے اور فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں بیوی بچوں کے بندھنوں سے مجبور تھا۔ دلّی جانے کا جب بھی ارادہ کیا، انھوں نے ملتوی کرا دیا کہ ابھی اور ٹھیرو۔ اس عرصے میں میرے ایک قریبی عزیز اور ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست دو مرتبہ دلّی جاکر اپنے بہت کچھ معاملات طے کر آئے تھے۔ یہ صاحب بہت پکّے مسلمان تھے۔ حج کر آئے تھے، دو انگشت داڑھی بھی رکھتے تھے۔ ان سے بار بار کہا کہ یہ موقع ایسا نہیں ہے آپ دلّی میں رہیں اور صورت شکل اور لباس سے یہ بھی ظاہر ہو کہ آپ مسلمان ہیں۔ اللہ کوئی بری گھڑی نہ لائے، احتیاط کرنا تو ہر انسان کا فرض ہے، مگر وہ توکّل کے بندے تھے۔ انھوں نے اپنی وضع قطع نہیں بدلی۔ داڑھی اور جناح کیپ پہنے رہے اور کئی کئی دن دلّی میں رہ کر لاہور واپس آئے۔ آخری بار محرم کے شروع میں دلّی گئے۔

    میرے بڑے بھائی ان دنوں اپنی کوٹھی، موٹر اور بندوقیں بچانے دلّی گئے ہوئے تھے۔ یہ صاحب انھیں کہیں چلتے پھرتے مل گئے۔ عشرہ کا دن تھا اور یہ صاحب روزے سے تھے۔ بھائی نے مذاقاً کہا ”میاں سلطان اس جھالر کو اب تو اتار دو۔“ مگر وہ ہنس کر بولے ”مرنا ہے تو بغیر اس کے بھی کوئی مار دے گا۔“ تیسرے پہر صدر بازار میں بم پھٹا۔ مسلمانوں کی باقی ماندہ دکانیں ٹوٹی گئیں اور ستّر، اسی آدمیوں کے چُھرا گھونپا گیا۔

    تین دن بعد معلوم ہوا کہ سلطان اشرف کا منشی اسپتال میں پڑا ہوا ہے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ اس نے پولیس میں اطلاع دی ہے کہ قطب روڈ پر سلطان اشرف اپنے دفتر میں مارے گئے۔ ان کی لاش وہیں کمرے میں پڑی ہے۔ ان کی بہن اور قریبی عزیز ’چوڑی والاں‘ میں رہتے تھے انھیں اطلاع کرا دو۔ جب گھر میں یہ منحوس خبر پہنچی ہے، تو صف ماتم بچھ گئی۔ بڑی بہن پچھاڑیں کھا رہی تھی اور بوڑھی ماں پاگلوں کی طرح ایک ایک کی شکل دیکھ رہی تھی۔ اس کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور گویائی کے ساتھ ادراک بھی سَلَب ہوگیا تھا۔ منشی کا بیان ہے کہ جب بم پھٹا اور ہنگامہ ہوا تو سلطان اشرف نے جلدی جلدی اپنا دفتر بند کیا اور زینے سے اتر کر بازار میں آنا چاہتے تھے کہ چند مسلح غنڈوں نے انھیں دیکھ لیا اور ”یہ رہا مسلمان“ کہہ کر ان کی طرف جھپٹے۔

    سلطان اور منشی الٹے پیروں زینے پر چڑھنے لگے۔ قاتلوں نے ان کا پیچھا کیا، نہتے آدمی بھلا تلوار اور برچھوں کا کیا مقابلہ کرتے۔ منشی تو گھبرا کر برآمدے میں سے بازار میں کود پڑا اور پھر اسے خبر نہیں کہ کیا ہوا۔ تین دن بعد پولیس کا آدمی اطلاع دے گیا کہ سلطان اشرف کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے۔ اگر لاش لینا چاہتے ہو تو باؤلی سے لے آؤ۔

    رشتے کے دو بھائیوں نے ہمت کر کے سبزی منڈی کا رخ کیا اور گویا جان سے بیزار ہو کر مردہ گھر پہنچے۔ وہاں کچھ سکھ دکھائی دیے۔ ہمّت کر کے ان سے لاش کے بارے میں دریافت کیا۔ سکھوں نے پوچھا ”وہ تمھارا کون تھا؟“ انھوں نے بتایا ”بھائی۔“ سکھوں نے کہا ”لاش اندر ہو گی، جا کر اندر پہچان لو۔“ یہ تو بے تاب تھے ہی ان کے اشاروں کنایوں کی پروا کیے بغیر اندر گھس گئے، سلطان کی لاش میز پر کٹی پھٹی پڑی تھی۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں زخم نہ ہو، ہاتھوں سے معلوم ہوتا تھا جب تک دم رہا قاتلوں کے وار روکتا رہا اور جتنے زخم تھے، سب آگے کے رخ تھے اور پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ سلطان مرتے مرگیا، مگر اس نے اپنی پیٹھ نہیں دکھائی۔

    بھائیوں نے جو یہ منظر دیکھا، تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ باہر سے قہقہوں کی آواز آ رہی تھی۔ جب رو دھو کر دل کا غبار نکل گیا، تو انھیں فکر ہوئی کہ لاش کو گھر کیسے لے کر جائیں؟ باہر جھانکا تو تیور بگڑے ہوئے دکھائی دیے۔ حیران پریشان کھڑے ہوئے تھے کہ ایک انگریز کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے ان سے پوچھا ”تم کیوں رو رہے ہو؟“ انھوں نے مختصراً ساری کیفیت سنائی۔ اس بھلے آدمی نے انھیں تسلّی، دلاسا دیا اور بولا ”میں ادھر سے گزر رہا تھا، تمھاری چیخیں سن کر چلا آیا۔ گھبراؤ مت سب انتظام ہو جائے گا۔“ اور واقعی سب انتظام ہوگیا کہ ایمبولنس آگئی اور وہ انگریز انھیں اور لاش کو گھر تک پہنچا گیا۔

    سلطان اشرف کی ناگہانی موت نے لاہور میں ان کے بیوی بچّوں کو زندہ درگور کر دیا۔ مرحوم کے دم سے بارہ، پندرہ سو روپے ماہوار کی آمدنی تھی، وہ یک لخت بند ہوگئی اور پس ماندگان پردیس میں بالکل بے آسرا رہ گئے۔ عزیز انہیں دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ یہ بے چارے بھی بالآخر مرحوم کا چہلم کر کے دلّی چلے گئے۔

    (’دلّی کی بپتا‘ از شاہد احمد دہلوی سے انتخاب)

  • جب جوان شہزادوں‌ کے بُریدہ سَر بادشاہ کے سامنے لائے گئے!

    جب جوان شہزادوں‌ کے بُریدہ سَر بادشاہ کے سامنے لائے گئے!

    زمانہ چپکے چپکے کروٹ بدل رہا تھا۔ مشرق پر مغرب کی یلغار شروع ہوچکی تھی۔ تہذیبِ فرنگ کی آندھی چڑھتی چلی آرہی تھی اور مشرقی تہذیب کے چراغ جھلملا رہے تھے۔ یہ دلّی کی آخری بہار تھی جس کی گھات میں خزاں لگی ہوئی تھی۔

    بہادر شاہ کی حیثیت شاہ شطرنج سے زیادہ نہیں تھی۔ تیموری دبدبہ لال قلعہ میں محصور ہو چکا تھا۔ ملک ملکہ کا تھا، حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔

    بہادر شاہ کو اپنی بے بسی کا شدت سے احساس تھا مگر وہ اس کا کوئی تدارک نہیں کر سکتے تھے اور تو اور خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف تھے۔ گھر کے بھیدی لنکا ڈھا رہے تھے۔ ان کی چہیتی بیگم زینت محل مرزا جواں بخت کو ولی عہد بنوانا چاہتی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے فرنگیوں سے ساز باز کر رکھا تھا۔ بادشاہ کے سمدھی مرزا الہٰی بخش انگریزوں سے جا ملے تھے۔ شاہی طبیب حکیم احسن اللہ خاں انگریزوں کے گماشتے تھے۔

    جب 57ء میں غدر پڑا، جو دراصل پہلی جنگِ آزادی تھی جو انگریزوں سے لڑی گئی، تو دیسی فوجیں چاروں طرف سے سمٹ کر دلّی آنے لگیں اور زبردستی بوڑھے بادشاہ کو اپنا فرماں روا بنا کر فرنگیوں سے لڑنے لگیں، مگر اندر خانے تو دیمک لگی ہوئی تھی۔ ولی عہد بہادر اپنی چلا رہے تھے۔ انہیں اپنی بادشاہی کے خواب نظر آ رہے تھے۔ جنرل بخت خان پہلے تو جی توڑ کر لڑا۔ مگر جب اس نے یہ دیکھا کہ صاحب عالم اس کی چلنے نہیں دیتے تو اپنے آدمیوں کو لے کر روپوش ہو گیا۔

    اقتدار کی خواہش اور محلّات کی ریشہ دوانیاں آخری مغل بادشاہ کو لے ڈوبیں۔ جب انگریزوں کی فوجیں دلّی پر چڑھ آئیں اور شہر کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو بادشاہ لال قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے میں چلے گئے۔ دلّی کو انگریزوں نے فتح کر لیا۔ رعایا تباہ ہو گئی۔ دربدر خاک بسر۔ جس کے جہاں سینگ سمائے نکل گیا۔ دلّی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ ہڈسن اپنی فوج کا دستہ لے کر ہمایوں کے مقبرے پہنچا۔ اس کے پہنچنے سے کچھ ہی دیر پہلے جنرل بخت خان نے مقبرے میں آکر بادشاہ کو بتایا کہ دلّی ختم ہو گئی۔ بہتر ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ہم کسی اور مقام کو اپنا گڑھ بنا کر انگریزوں سے لڑیں گے۔ بادشاہ اس کے ساتھ چلنے پر رضامند بھی ہو گئے مگر انگریزوں کے ہوا خواہوں نے انہیں پھر ہشکا دیا۔ یہ کہہ کر کہ اس پوربیے کا کیا اعتبار؟ یہ آپ کی آڑ میں خود بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ بادشاہ پھر ڈِھسل گئے۔

    انہیں باور کرایا گیا کہ انگریز آپ کی پنشن جاری رکھیں گے اور آپ کی جو نذر بند کر دی گئی ہے اسے بھی کھول دیں گے، اور آپ آرام سے لال قلعہ میں رہیں گے۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ بادشاہ نے بخت خان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ جنرل بخت خان نے بہت سمجھایا کہ یہ مشورہ نمک حراموں کا ہے۔ ان کا یا فرنگیوں کا کیا اعتبار؟ مگر بادشاہ دو دلے ہو کر رہ گئے اور ہڈسن کا دستہ جب مقبرے میں داخل ہو گیا تو جنرل بخت خاں بادشاہ کو آخری سلام کر کے مقبرے میں سے جمنا کے رخ اتر گیا۔ اس کا پھر کوئی پتہ نہیں چلا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

    ہڈسن نے آکر بادشاہ سے باتیں ملائیں۔ بادشاہ نے قلعہ میں واپس چلنے کے لیے چند شرائط پیش کیں۔ اپنی اور اپنے لواحقین کی جاں بخشی چاہی۔ پنشن کا جاری رہنا اور نذر کا کھلنا چاہا۔ ہڈسن نے سارے مطالبات مان لیے۔�

    بادشاہ کو ہوا دار میں سوار کرایا اور چھے شہزادوں کو فینس میں۔ جب دلّی کے خونی دروازے پر پہنچے تو ہڈسن نے رک کر شہزادوں کو حکم دیا کہ فینس میں سے باہر نکل آؤ۔ شاہزادوں نے حکم کی تعمیل کی۔ ہڈسن نے ان پر اپنا طمنچہ تانا۔ شہزادوں نے کہا، ’’آپ نے تو ہمیں جان کی امان دی ہے۔‘‘ زبردست مارے بھی اور رونے نہ دے۔ ایک ایک کر کے ہڈسن نے چھیئوں شہزادوں کو گولی کا نشانہ بنایا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب شہزادے خاک و خون میں تڑپ رہے تھے تو ہڈسن نے ان کا چلّو چلّو بھر خون پیا اور کہا، ’’آج میں نے انگریزوں کے مارنے کا بدلہ ان سے لے لیا۔‘‘

    شہزادوں کے سَر کاٹ لیے گئے اور ان کی لاشیں خونی دروازے پر لٹکا دی گئیں۔ بادشاہ کو لال قلعہ میں قید کر دیا گیا۔ جب بادشاہ نے دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ’’مجھ سے میری پنشن بحال رکھنے اور نذر کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔‘‘ تو ہڈسن نے کہا، ’’ہم تمہاری نذر بھی کھولے گا۔‘‘ یہ کہہ کر شہزادوں کے کٹے ہوئے سَر ایک طشت میں رکھ کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیے۔

    بوڑھے بادشاہ کے دل پر چھے جوان بیٹوں کے سَر دیکھ کر کیا گزری ہو گی؟ اس کا اندازہ صاحبِ اولاد کر سکتے ہیں، اور شہزادوں کی بے گور و کفن لاشیں خونی دروازے پر لٹکی سڑتی رہیں۔ بادشاہ زادیاں دلّی کی ویران گلی کوچوں میں بھٹکتی پھریں۔ کوئی انہیں امان دینے پر تیار نہ تھا۔ کون اپنی جان جوکھم میں ڈالتا؟ کوتوالی چبوترے پر پھانسیاں گڑ گئیں اور چن چن کر مسلمانوں کو دار پر چڑھایا گیا اور اس کا بھی خاص اہتمام کیا گیا کہ پھانسی دینے والا بھنگی ہی ہو۔

    دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں ہُو کا عالم ہو گیا۔ ویرانوں میں کتّے لوٹنے لگے۔ وہ بازار جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور تھالی پھینکو تو سَروں ہی سروں پر جاتی تھی، مسمار کر دیے گئے۔ امیر امراء کی حویلیاں ڈھا دی گئیں اور دفینوں کی تلاش میں دلّی پر گدھوں کے ہل پھروا دیے گئے۔ بادشاہ پر لال قلعہ میں مقدمہ چلا گیا اور انہیں قید کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ لال حویلی کی کوکھ جل گئی۔ قلعہ میں گوری فوج رہنے لگی۔ جامع مسجد میں گھوڑے باندھے جانے لگے۔

    بہادر شاہ ایک فقیر منش بادشاہ تھے، پیری مریدی بھی کرتے تھے، جو ان کا مرید ہوتا اس کا کچھ نہ کچھ وظیفہ مقرر ہو جاتا۔ یوں تو ان کے سیکڑوں مرید تھے جو چیلے کہلاتے تھے۔ دلّی میں ایک محلہ انہی چیلوں کی رہائش کی وجہ سے چیلوں کا کوچہ کہلاتا ہے۔ شعر و شاعری تو گویا، ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ کلام الملوک ملوک الکلام، ان سے زیادہ کسی اور پر یہ مقولہ سچا نہیں اترتا۔ کلام میں سوز و گداز ہے، ان کا کلام ان کی سیرت کا آئینہ ہے، مایوسیوں نے ان کا دل گداز کر دیا تھا۔ فرماتے ہیں،

    یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
    یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

    (اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمد دہلوی کے قلم سے دلّی کے اجڑنے اور آخری مغل بادشاہ کی بربادی کی درد انگیز روداد)