Tag: شاہد احمد دہلوی کا یوم وفات

  • صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مدیر، محقّق اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1966 کو وفات پاگئے تھے۔ وہ معروف ناول نگار، شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور شاعر و ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو ایک باوقار جریدہ ‘ساقی’ دیا اور اس کے ذریعے علم و ادب، فنون و ثقافت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ترقّی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ دہلی ان کا وطن تھا اور یہی نسبت ان کے نام سے منسلک رہی، قیامِ پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی انشا پرداز اور باکمال نثار تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور مصنّف کے منفرد اسلوب اور طرزِ‌ نگارش کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کرنے کے علاوہ واقعات اور تذکروں کو کتابی شکل دی۔ دلّی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں موسیقی کے متعدد پروگرام پیش کیے۔

    ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر، بزمِ خوش نفساں، بزمِ شاہد اور طاقِ نسیاں کے نام سے شائع ہوئے تھے جب کہ موسیقی کے موضوع پر ان کے لاتعداد مضامین کو بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    اللہ بخشے میر ناصر علی دلّی کے ان وضع دار شرفا میں سے تھے جن پر دلّی کو فخر تھا۔ عجب شان کے بزرگ تھے۔

    ‘‘بزرگ’’ میں نے انہیں اس لیے کہا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں بزرگ ہی دیکھا۔ سوکھ کر چمرغ ہوگئے تھے۔ خش خشی ڈاڑھی پہلے تل چاولی تھی، پھر سفید ہوگئی تھی۔ کتری ہوئی لبیں، پوپلا منہ، دہانہ پھیلا ہوا، بے قرار آنکھیں، ماتھا کھلا ہوا، بلکہ گدّی تک ماتھا ہی چلا گیا تھا۔

    جوانی میں سرو قد ہوں گے، بڑھاپے میں کمان کی طرح جھک گئے تھے۔ چلتے تھے تو پیچھے دونوں ہاتھ باندھ لیتے تھے۔ مستانہ وار جھوم کے چلتے تھے۔ مزاج شاہانہ، وضع قلندرانہ۔ ٹخنوں تک لمبا کرتا۔ گرمیوں میں موٹی ململ یا گاڑھے کا، اور جاڑوں میں فلالین یا وائلہ کا۔ اس میں چار جیبیں لگی ہوتی تھیں جنہیں میر صاحب کہتے تھے۔ ‘‘یہ میرے چار نوکر ہیں۔’’ گلے میں ٹپکا یا گلو بند، سر پر کبھی کپڑے کی پچخ گول ٹوپی اور کبھی صافہ۔

    گھر میں رَدی کا کنٹوپ بھی پہنتے تھے اور اس کے پاکھے الٹ کر کھڑے کر لیتے، جب چُغہ پہنتے تو عمامہ سر پر ہوتا۔ اک بَرا پاجامہ، ازار بند میں کنجیوں کا گچھا۔ پاؤں میں نری کی سلیم شاہی، کسی صاحب بہادر سے ملنے جاتے تو انگریزی جوتا پاؤں میں اڑا لیتے۔

    آپ سمجھے بھی یہ میر ناصر علی کون ہیں؟ یہ وہی میر ناصر علی ہیں جو اپنی جوانی میں بوڑھے سرسیّد سے الجھتے سُلجھتے رہتے تھے۔ جنہیں سرسید ازراہِ شفقت ‘‘ناصحِ مُشفق’’ لکھتے تھے۔ ‘‘تہذیبُ الاخلاق’’ کے تجدد پسند رُجحانات پر انتقاد اور سر سیّد سے سخن گسترانہ شوخیاں کرنے کے لیےآگرہ سے انہوں نے ‘‘تیرہویں صدی’’ نکالا، اور نیچریوں کے خلاف اِس دھڑلّے سے مضامین لکھے کہ ان کی دھوم مچ گئی۔

    صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اندازِ تحریر پر بہت سوں کو رشک آیا۔ بعض نے کوشش کرکے نقل اتارنی چاہی تو وہ فقرے بھی نہ لکھے گئے اور خون تھوکنے لگے۔ اردو میں انشائیہ لطیف کے موجد میر صاحب ہی تھے۔ ان کا اندازِ بیان انہی کے ساتھ ختم ہوگیا۔

    غضب کی علمیت تھی ان میں۔ انگریزی، فارسی اور اردو کی شاید ہی کوئی معروف کتاب ایسی ہو جس کا مطالعہ میر صاحب نے نہ کیا ہو۔ کتاب اس طرح پڑھتے تھے کہ اس کے خاص خاص فقروں اور پاروں پر سُرخ پنسل سے نشان لگاتے جاتے تھے اور کبھی کبھی حاشیے پر کچھ لکھ بھی دیا کرتے تھے۔ ہزاروں لاکھوں شعر فارسی اور اردو کے یاد تھے، حافظہ آخر تک اچھا رہا۔ انگریزی اچھی بولتے تھے اور اس سے اچھی لکھتے تھے۔ ساٹھ پینسٹھ سال انہوں نے انشا پردازی کی داد دی۔

    نمک کے محکمے میں ادنٰی ملازم بھرتی ہوئے تھے، اعلیٰ عہدے سے پنشن لی۔ حکومت کی نظروں میں بھی معزز ٹھہرے ‘‘خان بہادر’’ کا خطاب ملا، دلّی میں آنریری مجسٹریٹ رہے، اور پاٹودی میں نو سال چیف منسٹر۔

    (صاحبِ طرز ادیب شاہد احمد دہلوی نے علم و ادب میں‌ ممتاز میر ناصر علی دہلوی کا یہ خاکہ کاغذ پر اتارا تھا جس سے ہم نے چند پارے یہاں‌ نقل کیے ہیں)