Tag: شاہد احمد دہلوی کی تحریریں

  • جب دلّی کے ایک غلیل باز حج کو گئے!

    جب دلّی کے ایک غلیل باز حج کو گئے!

    کھیل کا میدان ہو یا اکھاڑا پُھرتی اور جسمانی طاقت کا مظاہرہ یا زور آزمائی آج بھی مختلف شکلوں‌ میں‌ دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن ایک زمانے میں یہ سب فن جیسا درجہ رکھتا تھا اور اس کے ماہر داد و تحسین بٹورتے تھے۔ ایک ڈیڑھ صدی پہلے کے ہندوستان کی بات کریں‌ تو مختلف گھریلو ساختہ اور سادہ ہتھیار شغل اور تفریح‌ کے لیے ہی نہیں‌، جان و مال کی حفاظت اور کسی موقع پر اپنا دفاع کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔

    اردو کے ممتاز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے یہ اقتباسات اُسی زمانے کے ماہر بنّوٹیوں اور غلیل بازوں‌ سے متعلق ہیں، یہ باتیں اور واقعات دل چسپ بھی ہیں‌ اور ہمارے لیے کسی حد تک حیران کُن بھی۔

    ہندوستان کے ماہر بِنَّوٹ باز سے متعلق دل چسپ قصّہ یہاں‌ پڑھیے

    لکڑی یا بِنَّوٹ کا فن بھی ایک ایسا ہی فن ہے جس کا جاننے والا قوی سے قوی حریف کو نیچا دکھا سکتا ہے۔ یہ دراصل ’’بن اوٹ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی کوئی روک نہیں ہے۔ استاد گھنٹوں اس کے پینتروں کی مشق کراتے ہیں۔ بِنَّوٹیوں میں مچھلی کی سڑپ ہونی چاہیے۔ اگر چستی پھرتی نہیں ہو گی، مار کھا جائے گا۔ لدھڑ آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا فن ہے کہ اس پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر یہ فن سَر تا پا عمل ہے، اس لیے کسی استاد سے سیکھے بغیر نہیں آتا۔

    دلّی کے 1947ء کے فسادات میں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ جب ہندو لٹھ بندوں نے کسی محلّے پر حملہ کیا تو چند مسلمان لونڈے لکڑیاں لے کر باہر نکلے اور کائی سی پھٹتی چلی گئی، لٹھ دھرے کے دھرے رہ گئے اور ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے بھری ہو گیا۔ اپنی آنکھوں تو نہیں دیکھا، ہاں کان گنہگار ہیں کہ ایسے ایسے بھی بنوٹیے ہو گزرے ہیں جو تلواریے سے تلوار چھین لیتے تھے اور اس کی گٹھری بنا کر ڈال دیتے تھے۔ البتہ یہ کمال ہم نے ضرور دیکھا ہے کہ چارپائی کے نیچے کبوتر چھوڑ دیجیے، کیا مجال جو بنّوٹیا اسے نکل جانے دے۔ یہی کیفیت بانک، پٹہ، گتکہ، چھری اور علمی مد کے ہنر مندوں کی تھی۔ بجلی سی چمکی اور حریف ختم۔

    تیر اندازی کے تو ہم نے قصے ہی سنے ہیں البتہ بعض بڈھوں کی غلیل بازی دیکھی ہے۔ وہ غلیل، یہ آج کل کی دو شاخہ وائی کی شکل کی غلیل نہیں ہوتی تھی۔ یہ کوئی دو ہاتھ لمبے لچک دار بانس کو چھیل کر بنائی جاتی تھی۔ اس کے دونوں سروں کے درمیان دہرا تانت کھینچ کر باندھا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل کمان جیسی ہو جاتی تھی۔ دہرے تانت کے بیچوں بیچ دو انگل چوڑا کپڑا غُلّہ رکھنے کے لیے ہوتا تھا۔ جب غلیل استعمال میں نہ ہوتی تو اس کا چلہ اتار دیا جاتا تھا تاکہ بانس کے جھکاؤ کا زور قائم رہے۔ غُلّے خاص طور سے چکنی مٹی کے بنائے جاتے تھے۔ اگر زیادہ مضبوط درکار ہوتے تو چکنی مٹی میں روئی ملالی جاتی تھی اور گیلے غلوں کو دھوپ میں سکھا لیا جاتا تھا۔ دلّی میں غلیل کا سچا نشانہ لگانے والے آخر وقت تک باقی تھے۔ چور کے پاؤں کی ہڈی غُلّے سے توڑ دیتے تھے۔

    جس زمانے میں مکّہ سے مدینہ اونٹوں پر جایا کرتے تھے، تو دلّی کے ایک غلیل باز بھی حج کو گئے تھے۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ بعض دفعہ بدو لوگ قافلے کو لوٹ لیتے ہیں۔ یہ صاحب اپنے ساتھ غلیل بھی لیتے گئے تھے۔ سوئے اتفاق سے ان کے قافلہ پر بدوؤں نے حملہ کر دیا۔ بڑے میاں نے اپنی غلیل کچھ فاصلے پر پھینک دی اور سب کے ساتھ کجاوے میں اتر آئے۔ جب بدو قافلے کو لوٹ کر گٹھریاں باندھنے میں مصروف ہوئے، تو بڑے میاں نے لٹیروں کے سردار کی پیشانی پر ایسا تاک کر غُلّہ (مٹّی کی خاص گولیاں جسے غلیل میں رکھ کر چلاتے ہیں) مارا کہ وہ چِلّا کر گر پڑا۔ اب جو بھی چونک کر دیکھتا کہ یہ کیا معاملہ ہے اس کی کن پٹی پر غلہ لگتا اور وہ ڈھیر ہو جاتا۔

    جب کئی جوان لوٹ گئے تو بڑے میاں نے للکار کر کہا، ’’خیریت چاہتے ہو تو مال چھوڑ دو اور اپنے آدمیوں کو اٹھا کر لے جاؤ، ورنہ تم میں سے ایک بھی بچ کر نہیں جا سکے گا۔‘‘ بدؤں نے کچھ توقف کیا تو انہوں نے اتنی دیر میں دو ایک کو اور لٹا دیا۔ لہٰذا لٹیروں نے جلدی جلدی اپنے زخمیوں کو اٹھایا اور وہاں سے چمپت ہو گئے۔

    دلّی میں ایسے بھی غلیل کے نشانہ باز کبھی تھے جو ایک غُلّہ ہوا میں اوپر مارتے اور جب وہ غُلّہ واپس آنے لگتا تو دوسرا غلہ اس پر مارتے اور دونوں غُلّے ٹوٹ کر ہوا میں بکھر جاتے۔

  • ادیبوں کے جھگڑے…

    ادیبوں کے جھگڑے…

    اردو ادب کا ایک موضوع معاصرانہ چشمک بھی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور کوئی بھی زمانہ رہا ہو، اس میں اہلِ قلم اور بڑے بڑے ادیب رشک و حسد میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

    کئی عالی دماغ اور بلند حوصلہ ایسی ادبی ہستیاں جو اپنے پڑھنے والوں میں مقبول رہی ہیں، وہ بھی باہمی چپقلش اور جھگڑوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش میں انتہائی پست اور اکثر سوقیانہ پن کا شکار ہوگئے۔ تاہم بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے ہم عصروں سے چھیڑ چھاڑ اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں ایک حد قائم رکھی۔ یہاں‌ ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور منفرد خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "منٹو بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے، مجھے احمق سمجھ رہا ہے۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا۔”

    "اس کام کے لیے اوپندر ناتھ اشکؔ بنا تھا۔ بڑی گٹھل طبیعت کا آدمی تھا۔ منٹو مہینے میں تیس چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا، اور اشکؔ صرف دو ڈرامے لکھتا تھا، اور وہ بھی رو رو کر۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں۔”

    شاہد احمد دہلوی آگے لکھتے ہیں۔

    "منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا۔ اشکؔ اس وقت تو روکھا ہو جاتا تھا، لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا، اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔”

    "شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں۔ اور شیخی کرکری کرنے میں اُسے لطف آتا تھا۔ ن م راشد سے میں نے کہا۔ ’’یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی آخر اس میں کیا بات ہے؟‘‘

    راشد نے (rhyme) اور (rythym) پر ایک مختصر لیکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘ مجھے سنانی شروع کی اور کہا، ’’دیکھیے! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے۔‘‘ میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا، منٹو بھلا کب تاب لا سکتے تھے۔ چٹخ کر بولے کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، کتھا کلی، کتھک، منی پوری؟…. فراڈ کہیں کا۔‘‘ بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔”

  • کیا ہم اپنا دامن کانٹوں سے بچا سکیں گے؟

    کیا ہم اپنا دامن کانٹوں سے بچا سکیں گے؟

    شاہد احمد دہلوی دہلی سے ادبی پرچہ ساقی نکالا کرتے تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب ادیب اور کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کرکے کراچی آگئے اور یہاں علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے کراچی سے ساقی کا اجراء بھی کیا۔ اس کا پہلا شمارہ نکالا تو اداریہ لکھتے ہوئے اس وقت کے سیاسی حالات اور انتشار کو بھی ضبطِ تحریر میں لائے۔

    بانی پاکستان اس وقت تک رحلت فرما چکے تھے اور ان کی لازوال قیادت اور اسلامیانِ ہند کے لیے ان کی سیاسی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے شاہد احمد دہلوی نے ایسی تلخ باتیں لکھیں جنھیں پڑھ کر لگتا ہے کہ اداریہ گویا آج کے حالات پر لکھا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    رنگِ خوں اشک میں گہرا نظر آتا ہے مجھے
    آج دامن پہ کلیجا نظر آتا ہے مجھے​

    آخر وہ وقت آہی گیا جسے کروڑوں مسلمانوں کی دعائیں بھی نہ روک سکیں اور قائدِ اعظم ہم سے رخصت ہوگئے۔ اناللہِ وانا الیہ راجعون۔ اب وہ وہاں ہیں جہاں ہماری آرزوئیں رہتی ہیں۔ قائدِ اعظم کی موت درحقیقت زندگی پر عظیم الشّان فتح ہے، بالکل اسی طرح جس طرح خوابوں کے دیوانے نے حقائق کے فرزانوں پر جیتے جی ایسی شاندار فتح پائی کہ اس کی مثال تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا۔ایک مردہ قوم کو زندہ کر دیا اور ان کے لیے ایک نیا ملک بنا دیا۔

    ایسا نیا ملک جو نہ صرف دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں سب سے بڑا ہے بلکہ ہر اعتبار سے اتنا توانا بھی ہے کہ اسلامیانِ عالم اسے اپنا ملجا و ماوا سمجھیں۔ قائدِ اعظم اپنی زندگی کا مقصد پورا کر کے ہم سے رخصت ہوئے۔ رونا اس کا ہے کہ وہ ہم سے ایسے وقت میں جدا ہوئے جب کہ ہمیں اُن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ مسلمانوں پر چاروں طرف سے یلغار ہورہی ہے اور ہمارا سالار ہم سے بچھڑگیا۔ کچھ تسکین صرف اس خیال سے ہوتی ہے کہ اُن کی بتائی ہوئی راہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور اُن کی ہدایات ہمارے دلوں میں محفوظ ہیں لیکن کیا ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق بھی ہوگی؟ اُن کے جاتے ہی گلابی خوابوں نے خار زاروں کا روپ دھار لیا ہے۔ کیا ہم اپنا دامن ان کانٹوں سے بچا سکیں گے؟خود غرضی، نفس پروری، تن آسانی، ناانصافی، تعصب، بے ایمانی اور سب سے زیادہ خطرناک وہ مہلک عنصر جو ہمیں میں سے ہے اور ہمارے ہی خلاف کام کررہا ہے! کیا ہم اِن سب کا کام یابی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں گے؟ یقیناً، بشرطے کہ ہم قائدِ اعظم کے ارشادات کی تعمیل کریں۔

    قائدِ اعظم نے ایک مضحکہ خیز تصور کو ایک زندہ حقیقت بنا دیا۔ یہ ہمارا وہ بیش قیمت ورثہ ہے جسے ہم نے اپنی جان، اپنا مال ، اپنی عزت ، اپنی آبرو، اپنا سب کچھ دے کر حاصل کیا ہے۔ یہ بہارِ تازہ یونہی نہیں آگئی ہے۔ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی جانیں اس کے لیے خزاں کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ یہ شفق کے گلاب خود بخود نہیں کِھل گئے ہیں، اِن میں سُرخیٔ خونِ شہیداں بھی شامل ہے، اور وہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹا دیا، آج اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہیں۔ در بدر اور خاک برسر ہیں۔ ہم چشموں میں ذلیل و خوار ہیں۔ اُن کے لیے سر چھپانے تک کو جگہ نہیں۔ اُن کے تن ننگے اور اُن کے پیٹ خالی ہیں۔ اور وہ نڈھال آنکھوں سے ایک ایک کا منہ تکتے ہیں۔ اور قہر بار نظروں سے اُن کی آنکھیں چار ہوتی ہیں۔ وہ ’’مہاجر‘‘ ہیں جو ’’انصار‘‘ کے رحم و کرم کے محتاج ہو گئے ہیں۔ کیا وہ صرف مہاجر ہیں؟ تو پھر مجاہد کون ہے؟ قائدِ اعظم کی زندگی کے آخری لمحے بھی انہی کی فکر میں گزرے۔ کیا عجب کہ انصار کا طرزِ تپاک اب بھی اس روح عظیم کی خلش کا باعث ہو؟ یہ ہوش میں آنے کا وقت ہے۔ اگر قائدِ اعظم کی موت بھی تمہیں نہیں چونکا سکتی تو اپنی موت کے خیر مقدم کے لیے خود بھی تیار ہو جاؤ۔ یوں زندگی نہیں ہوسکتی کہ تمہارے محل قہقہے لگاتے رہیں اور اور دوسروں کی جھونپڑیوں کو رونے کی بھی اجازت نہو۔ اتنی پستی اور اتنی بلندی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور اگر قدرت کے اس ابتدائی قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو تاریخ کے اوراق میں اُن قوموں کے انجام دیکھو جو خدا کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے بھٹک گئیں۔ اور جناح کی اِس للکار کو نہ بھولو:

    ’’پاکستان جیسی نوزائیدہ ریاست کی ترقی، نہیں بلکہ اس کی بقا کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہاں کے شہریوں میں خواہ وہ کسی علاقے کے ہوں یگانگت اور یکجہتی ہونی چاہیے۔

    پاکستان تو مسلمان قوم کے اتحاد کی تجسیم ہے اور اسے ایسا ہی رہنا چاہیے۔ آپ کو سچے مسلمانوں کی طرح اس اتحاد کا دل و جان سے تحفظ کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہ سوچنا شروع کردیں کہ ہم اولاً پنجابی، سندھی، بنگالی وغیرہ ہیں اور ہم مسلمان، پاکستانی اتفاقی طور پر ہوگئے ہیں تو پھر پاکستان کا شیرازہ بکھرجانا لازمی ہے۔‘‘

    (اداریہ از شاہد احمد دہلوی، رسالہ ساقی، کراچی شمارہ اوّل، اکتوبر 1948)

  • دلّی کا ایک بگڑا رئیس اور موتی بھانڈ

    شاہی اور شہر آبادی کا تو ذکر ہی کیا، اب سے چالیس پچاس سال پہلے تک دلّی میں ایک سے ایک منچلا رئیس تھا۔ ریاست تو خیر باپ دادا کے ساتھ 1857ء میں ختم ہو گئی تھی مگر فرنگی سرکار سے جو گزارا انہیں ملتا تھا، اس میں بھی ان کے ٹھاٹ باٹ دیکھنے کے لائق تھے۔

    انہیں میں سے ایک بگڑے دل رئیس تھے جو اپنی شاہ خرچیوں کی وجہ سے نواب صاحب کہلانے لگے تھے۔ انہیں نت نئی سوجھتی تھی۔ قمری مہینے کی چودھویں رات کو ان کے ہاں شبِ ماہ منائی جاتی تھیں۔ کبھی بیت بازی ہوتی تھی، کبھی مشاعرہ ہوتا، کبھی تاش، پچیسی اور شطرنج کی بازیاں ہوتیں۔ کبھی میر باقر علی داستان گو طلسم ہوشربا کی داستان سناتے۔ کبھی گانے بجانے کی محفل ہوتی اور کبھی ناچ نرت کی سبھا جمتی۔ رات کو کھانا سب نواب صاحب کے ہاں کھاتے۔

    نواب صاحب کھانے کے شوقین تھے۔ ایک آدھ چیز خود بھی پکاتے تھے اور دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے تھے۔ دیوان خانے میں کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کھلی چھت پر سب آگئے۔ دری چاندی کا فرش ہے۔ چاروں طرف گاؤ تکیے لگے ہوئے ہیں۔ مہمان ان کے سہارے ہو بیٹھے، حقے اور پیچوان لگ گئے۔ خمیرے کی لپٹیں آنے لگیں۔ گلاب پاش سے گلاب چھڑکا گیا، موتیا کے گجرے کنٹھے گلوں میں ڈالے گئے۔ چنگیروں میں چنبیلی کے پھول اور عطر میں بھیگی ہوئی روئی رکھی ہے۔ چاندی کے خاص دانوں میں لال قند کی صافیوں میں دیسی پان کی گلوریاں رکھی ہیں۔ چوگھڑا الائچیاں، زردہ اور قوام علیحدہ رکھا ہے۔ پان کھائے گئے، حقے کے کش لگائے گئے۔ آپس میں بولیاں ٹھولیاں ہوئیں، آوازے توازے کسے گئے، ضلع جگت اور پھبتی بازی ہوئی۔ اتنے میں چاند نے کھیت کیا، چاند کے چڑھنے تک یونہی خوش گپیاں اور نوک جھونک ہوتی رہی۔

    جب چاندنی خوب پھیل گئی تو نواب صاحب نے میر کلو کی طرف دیکھا۔ یہ میر کلو دیوان خانے کے مختارِ کل تھے۔ تمام انتظامات میر کلو ہی کیا کرتے تھے۔ نواب صاحب نے کہا، ’’کیوں صاحب کیا دیر دار ہے؟‘‘ میر کلو نے کہا، ’’حضور، حکم کا انتظار ہے۔‘‘ وہ بولے، ’’تو شروع کرو۔‘‘

    پہلو کے کمرے سے سبز رنگ کی پشواز پہنے ایک اجلے رنگ کی حسین عورت خراماں خراماں آ کر سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ محفل پر اس نے ایک نظر ڈالی اور پھر نہایت ادب سے مجرا عرض کیا۔ اوہو! یہ تو موتی بھانڈ ہے۔ پیچھے دو سارنگی والے، ایک طبلہ نواز اور ایک مجرے والا، اجلی پوشاکیں پہنے آ کھڑے ہوئے۔ طبلے پر تھاپ پڑی، سارنگیوں پر لہرا شروع ہوا، طبلہ نواز نے پیش کار لگایا، موتی بھانڈ نے گت بھری تو یہ معلوم ہوا کہ اندر کے اکھاڑے کی پری اتر آئی۔ تین سلاموں پر چکر دار گت ختم ہوئی تو سب کے منہ سے ایک زبان ہو کر نکلا، ’’سبحان اللہ!‘‘

    موتی بھانڈ نے تسلیمات عرض کی۔ کوئی ایک گھنٹے تک کتھک ناچ کے مشکل توڑے سنائے، پھر لَے کی تقسیم ایک سے سولہ تک دکھائی، آخر میں تتکار کا کمال دکھایا۔ سب نے دل کھول کر داد دی۔ واقعی میں موتی بھانڈ نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا تھا اور جب اس نے مور کا ناچ دکھایا تو اس کے تھرکنے پر محفل لوٹ گئی۔ نواب صاحب نے ناچ ختم ہونے پر اسے بلایا اور کہا، ’’موتی تم پر یہ فن ختم ہے۔ مور کا ناچ سبھی ناچتے ہیں مگر جس سلسلے سے تم ناچتے ہو یہ اور کسی کے بس کی بات نہیں۔ بالخصوص ناچتے ناچتے جب مور اپنے پیروں کو دیکھتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو جس خوبی اور سچائی سے تم ادا کرتے ہو بس یہ تمہارا ہی حصہ ہے۔‘‘

    نواب صاحب نے یہ کہہ کر ایک اشرفی اور چند روپے انعام دیے۔ موتی بھانڈ نے انعام لے کر مؤدبانہ تین سلام کیے اور ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’حضور کی ذرہ نوازی اور فن کی قدردانی ہے کہ اس غلام کو یوں سراہتے ہیں۔ ورنہ میں کیا میری بساط کیا؟ من آنم کہ من دانم۔‘‘

    یہ شائستگی اور علم مجلسی دلّی کے فن کاروں میں اب سے نصف صدی پہلے تک موجود تھا۔ جب فن کار اور فن کی ناقدری ہونے لگی تو فن کار کا وقار اور فن کا اعزاز جاتا رہا۔ موتی کے بعد دلّی میں نوری اور کلن جیسے بھانڈ رہ گئے تھے جو بھنڈیلوں اور نقالوں کے سہارے زندہ تھے اور کمینوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

    جس زمانے میں گانے بجانے کو عیب نہیں، ہنر سمجھا جاتا تھا، دلّی کے شرفا اسے فن کی حیثیت سے سیکھتے تھے۔ دلّی میں اچھے استادوں کی کمی نہیں تھی۔ کوئی ستارہ سیکھتا، کوئی طبلہ، کسی کو گانے کا شوق ہوتا تو راگ راگنیاں سیکھتا اور کسب و ریاض سے اس علم و فن میں اتنی مہارت حاصل کر لیتا کہ پیشہ ور بھی اس کا لوہا ماننے لگتے۔

    (بھانڈ اور طوائفیں سے انتخاب، از قلم شاہد احمد دہلوی)

  • دلّی جو ’ڈائن ماں‘ بن گئی!

    دلّی جو ’ڈائن ماں‘ بن گئی!

    ”دلّی کا دلّی والوں سے جدا ہونا گوشت سے ناخن کا جدا ہونا ہے، مہینوں اس جدائی کے صدمے سے طبیعت نڈھال رہی۔

    کتنی پیاری ہوگئی دلّی اس فراق کے بعد…! دلّی کے ایک ایک ذرّے کی یاد ستارہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ پر لگ جائیں تو اُڑ کر دلّی پہنچیں۔ لیکن ساری راہیں مسدود تھیں اور جو دلّی ہم چھوڑ کر آئے تھے، وہ اس درجے وحشت ناک تھی کہ اس کے تصوّر ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس کے باوجود ایک دل فریب کشش تھی کہ خوف و ہراس کو محو کیے دیتی تھی، جیسے کسی ماں نے اپنے بچے کو مارا ہو اور بچّہ سہم کر دور ہوگیا ہو، لیکن تسکین کے لیے ماں ہی کی مامتا بھری آغوش میں دبک جانا چاہتا ہو اور دلّی جو اب ہمارے لیے ایک ’ڈائن ماں‘ بن گئی تھی وہ ’ڈائن‘ ہوتے ہوئے بھی ہماری ماں تو بہرحال تھی ہی۔

    اس کی خونی کچلیاں اب دکھائی نہ دیتی تھیں، لبوں پر سے خون کا لاکھا صاف ہو چکا تھا۔ مامتا کے مارے دلّی والے برباد ہو کر بھی ماں کی گود میں جانا چاہتے تھے۔ ڈائن کی گود میں، ماں کی گود میں…

    میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائی دلّی ہی میں تھے، ان کے خط آنے لگے تھے کہ اب امن ہو گیا ہے اور فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں بیوی بچوں کے بندھنوں سے مجبور تھا۔ دلّی جانے کا جب بھی ارادہ کیا، انھوں نے ملتوی کرا دیا کہ ابھی اور ٹھیرو۔ اس عرصے میں میرے ایک قریبی عزیز اور ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست دو مرتبہ دلّی جاکر اپنے بہت کچھ معاملات طے کر آئے تھے۔ یہ صاحب بہت پکّے مسلمان تھے۔ حج کر آئے تھے، دو انگشت داڑھی بھی رکھتے تھے۔ ان سے بار بار کہا کہ یہ موقع ایسا نہیں ہے آپ دلّی میں رہیں اور صورت شکل اور لباس سے یہ بھی ظاہر ہو کہ آپ مسلمان ہیں۔ اللہ کوئی بری گھڑی نہ لائے، احتیاط کرنا تو ہر انسان کا فرض ہے، مگر وہ توکّل کے بندے تھے۔ انھوں نے اپنی وضع قطع نہیں بدلی۔ داڑھی اور جناح کیپ پہنے رہے اور کئی کئی دن دلّی میں رہ کر لاہور واپس آئے۔ آخری بار محرم کے شروع میں دلّی گئے۔

    میرے بڑے بھائی ان دنوں اپنی کوٹھی، موٹر اور بندوقیں بچانے دلّی گئے ہوئے تھے۔ یہ صاحب انھیں کہیں چلتے پھرتے مل گئے۔ عشرہ کا دن تھا اور یہ صاحب روزے سے تھے۔ بھائی نے مذاقاً کہا ”میاں سلطان اس جھالر کو اب تو اتار دو۔“ مگر وہ ہنس کر بولے ”مرنا ہے تو بغیر اس کے بھی کوئی مار دے گا۔“ تیسرے پہر صدر بازار میں بم پھٹا۔ مسلمانوں کی باقی ماندہ دکانیں ٹوٹی گئیں اور ستّر، اسی آدمیوں کے چُھرا گھونپا گیا۔

    تین دن بعد معلوم ہوا کہ سلطان اشرف کا منشی اسپتال میں پڑا ہوا ہے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ اس نے پولیس میں اطلاع دی ہے کہ قطب روڈ پر سلطان اشرف اپنے دفتر میں مارے گئے۔ ان کی لاش وہیں کمرے میں پڑی ہے۔ ان کی بہن اور قریبی عزیز ’چوڑی والاں‘ میں رہتے تھے انھیں اطلاع کرا دو۔ جب گھر میں یہ منحوس خبر پہنچی ہے، تو صف ماتم بچھ گئی۔ بڑی بہن پچھاڑیں کھا رہی تھی اور بوڑھی ماں پاگلوں کی طرح ایک ایک کی شکل دیکھ رہی تھی۔ اس کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور گویائی کے ساتھ ادراک بھی سَلَب ہوگیا تھا۔ منشی کا بیان ہے کہ جب بم پھٹا اور ہنگامہ ہوا تو سلطان اشرف نے جلدی جلدی اپنا دفتر بند کیا اور زینے سے اتر کر بازار میں آنا چاہتے تھے کہ چند مسلح غنڈوں نے انھیں دیکھ لیا اور ”یہ رہا مسلمان“ کہہ کر ان کی طرف جھپٹے۔

    سلطان اور منشی الٹے پیروں زینے پر چڑھنے لگے۔ قاتلوں نے ان کا پیچھا کیا، نہتے آدمی بھلا تلوار اور برچھوں کا کیا مقابلہ کرتے۔ منشی تو گھبرا کر برآمدے میں سے بازار میں کود پڑا اور پھر اسے خبر نہیں کہ کیا ہوا۔ تین دن بعد پولیس کا آدمی اطلاع دے گیا کہ سلطان اشرف کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے۔ اگر لاش لینا چاہتے ہو تو باؤلی سے لے آؤ۔

    رشتے کے دو بھائیوں نے ہمت کر کے سبزی منڈی کا رخ کیا اور گویا جان سے بیزار ہو کر مردہ گھر پہنچے۔ وہاں کچھ سکھ دکھائی دیے۔ ہمّت کر کے ان سے لاش کے بارے میں دریافت کیا۔ سکھوں نے پوچھا ”وہ تمھارا کون تھا؟“ انھوں نے بتایا ”بھائی۔“ سکھوں نے کہا ”لاش اندر ہو گی، جا کر اندر پہچان لو۔“ یہ تو بے تاب تھے ہی ان کے اشاروں کنایوں کی پروا کیے بغیر اندر گھس گئے، سلطان کی لاش میز پر کٹی پھٹی پڑی تھی۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں زخم نہ ہو، ہاتھوں سے معلوم ہوتا تھا جب تک دم رہا قاتلوں کے وار روکتا رہا اور جتنے زخم تھے، سب آگے کے رخ تھے اور پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ سلطان مرتے مرگیا، مگر اس نے اپنی پیٹھ نہیں دکھائی۔

    بھائیوں نے جو یہ منظر دیکھا، تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ باہر سے قہقہوں کی آواز آ رہی تھی۔ جب رو دھو کر دل کا غبار نکل گیا، تو انھیں فکر ہوئی کہ لاش کو گھر کیسے لے کر جائیں؟ باہر جھانکا تو تیور بگڑے ہوئے دکھائی دیے۔ حیران پریشان کھڑے ہوئے تھے کہ ایک انگریز کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے ان سے پوچھا ”تم کیوں رو رہے ہو؟“ انھوں نے مختصراً ساری کیفیت سنائی۔ اس بھلے آدمی نے انھیں تسلّی، دلاسا دیا اور بولا ”میں ادھر سے گزر رہا تھا، تمھاری چیخیں سن کر چلا آیا۔ گھبراؤ مت سب انتظام ہو جائے گا۔“ اور واقعی سب انتظام ہوگیا کہ ایمبولنس آگئی اور وہ انگریز انھیں اور لاش کو گھر تک پہنچا گیا۔

    سلطان اشرف کی ناگہانی موت نے لاہور میں ان کے بیوی بچّوں کو زندہ درگور کر دیا۔ مرحوم کے دم سے بارہ، پندرہ سو روپے ماہوار کی آمدنی تھی، وہ یک لخت بند ہوگئی اور پس ماندگان پردیس میں بالکل بے آسرا رہ گئے۔ عزیز انہیں دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ یہ بے چارے بھی بالآخر مرحوم کا چہلم کر کے دلّی چلے گئے۔

    (’دلّی کی بپتا‘ از شاہد احمد دہلوی سے انتخاب)

  • جنگِ ستمبر اور غیبی جھٹکا

    جنگِ ستمبر اور غیبی جھٹکا

    17 روزہ پاک بھارت جنگ پر مؤرخین کے علاوہ اس زمانے کے بڑے ادیبوں اور مضمون نگاروں‌ نے بھی اپنے قلم کو تحریک دی اور آنکھوں دیکھا احوال رقم کیا۔ اہلِ قلم نے 1965ء کی اس جنگ کے کئی واقعات بیان کیے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح مختلف محاذوں پر عوام اپنے فوجی بھائیوں کے شانہ بہ شانہ دشمن افواج سے لڑنے کے لیے پہنچے تھے اور ان کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔

    یہ ایک ایسی ہی مختصر، مگر پُراثر تحریر ہے جو نام وَر ادیب شاہد احمد دہلوی کے ایک طویل مضمون کا حصّہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "پاکستان سے چھے گنی فوجی طاقت اور چار گنی آبادی کے زعم میں بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر یہ حق اور باطل کی لڑائی تھی۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تھی۔

    نتیجہ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا نے بھی۔ پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسا غیبی جھٹکا تھا جس نے اہلِ وطن کو متفق و متحد کر دیا اور پوری قوم میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

    لاہور والوں نے تو کمال ہی کر دیا کہ دشمن کے ٹینک اور فوجیں شہر سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر آگئیں تھیں اور ہماری فوجیں ان کے پرخچے اڑا رہی تھیں کہ شہر کے جیالے جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر دشمن کو مارنے گھر سے نکل پڑے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں اور عورتیں بھی چل پڑیں اور سب کے سب دم کے دم میں شالیمار پہنچ گئے۔

    ہماری فوجوں کے پچھلے دستوں نے انھیں روکا۔ ورنہ حیدرآباد کے رضا کاروں کی طرح یہ سب بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے اور دشمن کو للکارتے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہمارے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پہلے تجھے ہماری لاشوں پر گزرنا پڑے گا، مگر اس کی نوبت نہ آئی۔

    ہماری فوجوں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کے واپس کیا کہ آپ شہر کا انتظام کیجیے، یہاں ہمیں دشمن سے نمٹنے دیجیے۔ آپ پر آنچ اس وقت آئے گی جب ہم نہ ہوں گے۔ اس پر بھی جوشیلے نوجوانوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور محاذ پر رسد بھیجنے میں‌ فوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔”

  • گالیوں کا پٹارا

    گالیوں کا پٹارا

    نواب تاباںؔ بھی شاعر تھے، اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔

    حکیم اجمل خاں کے ہاں شرفائے دہلی کا جمگھٹا رہتا تھا۔ حکیم صاحب بھی طرفہ خوبیوں کے آدمی تھے، یہ جتنے بڑے طبیب تھے اتنے ہی بڑے شاعر بھی تھے۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباںؔ کی تعریفِ غائبانہ بہت کچھ سن چکے تھے، ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔

    حکیم صاحب نے سوچا کہ نواب صاحب کو اگر یہاں بلایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا برا مان جائیں، لہٰذا ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا، عزت سے بٹھایا، خاطر تواضع کی۔

    شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مدمغ آدمی تھے۔ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباںؔ نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے، ’’ ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر غزل کا اگلا شعر سنایا۔

    مولانا نے اوپری دل سے کہا، ’’ سبحان اللہ! اچھا شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘ بس پھر تاباںؔ آئیں تو جائیں کہاں؟ بولے، ’’ابے لنگڑے! میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تُو نے ایک منٹ میں اسے سمجھ لیا؟ بیٹا، یہ شعرُ العجم نباشد!‘‘ اس کے بعد ان کا گالیوں کا پٹارا کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہو گیا۔ ویسے اپنی روز مرّہ کی زندگی میں تاباںؔ بڑے زندہ دل آدمی تھے اور دوستوں کو کھلا پلا کر خوش ہوتے تھے۔ شطرنج کی انہیں دھت تھی اور چال بھی اچھی تھی۔ بڑے بڑے کھلاڑی ان کے ہاں آتے رہتے تھے۔

    (اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے اقتباس)