Tag: شاہد احمد دہلوی

  • نجانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا، ایک کماتا، دَس کھاتے!

    نجانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا، ایک کماتا، دَس کھاتے!

    مرزا غالب نے کہا ہے، شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے۔ یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہُوا۔ آخری وقت کچھ اس طرح کا دھواں اٹھا کہ ساری محفل سیاہ پوش ہو گئی۔

    یوں تو اورنگ زیب کے بعد ہی اس عظیم الشّان مغلیہ سلطنت میں انحطاط کے آثار پیدا ہو چکے تھے لیکن ان کے بعد تو وہ افراتفری اور بیر اکھیری پھیلی کہ بادشاہ صرف نام کے بادشاہ رہ گئے۔ محمد شاہ رنگیلے ’’پیا‘‘ کہلائے۔ ان کے عہد میں در و دیوار سے نغمے برستے اور شعر و شاعری کے اکھاڑے جمتے۔ نعمت خاں سدا رنگ انہی کے دربار کا بین کار اور کلاونت تھا جس نے دھرپد کے مقابلے میں خیال کی گائیکی کو فروغ دیا۔ آج تک گویے اس کے نام پر کان پکڑتے ہیں، ولیؔ اپنا دیوان لے کر انہی کے زمانے میں دلّی آئے تھے اور ان ہی کے دربار میں انہوں نے اپنے طالع چمکائے تھے۔

    گھر گھر شعر اور موسیقی کا چرچا تھا۔ بادشاہ کو دوم ڈھاڑیوں نے باور کرا دیا تھا کہ آدمی تیر تلوار کا مارا بھی مرتا ہے اور تان تلوار کا بھی۔ لہٰذا ایک فوج گویوں کی بھی تیار کر لی گئی تھی۔ ان رنگ رلیوں میں تلواریں لہو چاٹنا بھول گئیں اور نیاموں میں پڑے پڑے سو گئیں۔ نادر شاہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور قہر و غضب کی آندھی بن کر دلّی کی طرف جھپٹا۔ پرچہ لگا کہ نادر شاہ دلی کے قریب آ پہنچا۔ گویوں کی فوج مقابلے کے لیے بھیج دی گئی۔ نادر شاہ کے جانگلو محمد شاہی فوجیوں کی بغلوں میں بڑے بڑے طنبورے دیکھ کر پہلے تو ڈرے کہ خدا جانے یہ کیا ہتھیار ہے مگر جب جاسوسوں نے بھانڈا پھوڑا کہ یہ ہتھیار نہیں، ایک ساز ہے، تو دَم کے دَم میں انہوں نے محمد شاہی فوج کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ کر ڈال دیا۔ نادر شاہ نے دھڑی دھڑی کر کے دلّی کو لوٹا اور دلّی کھک ہو گئی۔ قتلِ عام کیا تو ایسا کہ گھوڑوں کے سم خون میں ڈوب گئے۔ آخر وزیر با تدبیر بوڑھے نظامُ الملک کو نادری جلال فرو کرنے کے لیے نادر شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا پڑا کہ

    کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغِ ناز کشی
    مگر تو زندہ کنی خلق را و باز کشی

    نادر شاہ لوٹ لاٹ کابل چلا گیا، اور اپنے ساتھ شاہجہانی تخت طاؤس بھی لے گیا۔ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں روہیلے نے نکالیں۔ بادشاہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی اندھے ہو گئے۔ ان کے درباریوں نے انہیں یقین دلایا کہ حضور والا بیٹھے بیٹھے ایک دم سے غائب ہو جایا کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں دلّی سے مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایلو! بادشاہ سلامت بھی یہ سمجھنے لگے کہ واقعی میں مجھ میں یہ کرامت سما گئی ہے۔ پیری مریدی کرنے لگے اور مریدوں کے وظائف مقرر ہونے لگے۔ حکومت تباہ اور خزانے ویران ہو گئے۔ مثل مشہور ہوئی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم۔‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی۔ سودا نے اپنے شہر آشوب میں ان کے زمانے کا خاکہ اڑایا۔

    اکبر شاہ ثانی جاٹوں کے حملے سے ایسے ناچار ہوئے کہ انگریزوں کے وظیفہ خوار ہو گئے۔ یہی لیل ونہار تھے کہ بہادر شاہ عالم وجود میں آئے۔ بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمر تخت و تاج کی راہ تکتے بیت گئی۔ اکبر شاہ ثانی کی ایک بیگم تھیں ممتاز محل۔ ان بیگم کے ایک چہیتے بیٹے تھے مرزا جہانگیر۔ بادشاہ بھی انہیں بہت چاہتے تھے اور انہی کو ولی عہد مقرر کرنا چاہتے تھے مگر مرزا جہانگیر اپنی بے ہودہ حرکتوں سے باز نہ آتے۔ انگریز حاکم اعلیٰ سیٹن کو لولو کہہ دیا۔ اس کی پاداش میں مرزا نظر بند کر کے الہ آباد بھیج دیے گئے۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔

    ہاں تو بہادر شاہ ہی ولی عہد رہے اور ایک نہ دو، پورے باسٹھ سال تک ولی عہد رہے۔ جب کسی بادشاہ کا انتقال ہو جاتا تھا تو اس کے مرنے کی خبر مشہور نہیں کرتے تھے، یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ ’’گھی کا کپا لنڈھ گیا۔‘‘ خاموشی کے ساتھ میت کو نہلا دھلا کفنا کر قلعہ کے طلاقی دروازے سے جنازہ دفن کرنے بھیج دیا جاتا۔ نوبت نقارے الٹے کر دیے جاتے اور چولہوں پر سے کڑہائیاں اتار دی جاتیں۔ اکبر شاہ ثانی کے وقت تک یہ رسم چلی آتی تھی کہ بادشاہ کے جنازے کو تخت کے آگے لا کے رکھتے تھے۔ دوسرا بادشاہ جو کوئی ہوتا تھا، مردے کے منہ پر پاؤں رکھ کر تخت پر بیٹھتا تھا۔ دوسرے بادشاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی شادیانے بجنے لگتے۔ سلامی کی توپیں چلنے لگتیں۔ تب کہیں سب کو معلوم ہوتا کہ بادشاہ مر گیا اور دوسرا بادشاہ تخت پر بیٹھ گیا۔

    باسٹھ سال کی عمر میں بہادر شاہ کو تخت نصیب ہوا تو مغلوں کا جلال رخصت ہو رہا تھا اور آفتابِ اقبال لبِ بام آ چکا تھا۔ بہادر شاہ کہنے کو تو بادشاہ تھے، لیکن بالکل بے دست و پا تھے۔ فرنگی سرکار کے نمک خوار تھے۔ انہیں اس شرط پر ایک لاکھ روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا کہ ان کے بعد دلّی کی شاہی ختم ہو جائے گی اور دلّی بھی انگریزی عمل داری میں شامل ہو جائے گی۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا اور اگر شہر والوں میں سے کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بادشاہ اپنی مجبوری ظاہر کر دیتے اور کہتے، ’’بھئی انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘

    لیکن اس بے بسی کے باوجود دلّی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ شہر کی بیشتر آبادی لال قلعہ کے متوسلین پر مشتمل تھی۔ شہزادوں اور سلاطین زادوں کے علاوہ امیر امراء اور رؤسا کا خدم و حشم کیا کم تھا؟ دلّی میں، لٹتے لٹتے بھی الغاروں دولت بھری پڑی تھی۔ ڈیوڑھیوں پر ہاتھی جھولتے، تخت رواں، ہوا دار، پالکی، نالکی، تام جھام، ہر حویلی میں موجود۔ لاؤ لشکر کا کیا ٹھکانہ! چوب دار، عصا بردار، پیادے، مردھے، کہار، لونڈیاں، باندیاں، ودّائیں، چھوچھوئیں، مغلانیاں، ترکنیں، حبشنیں، جسولنیاں، قلماقنیاں، خواجہ سرا، دربان، پاسبان، ہر امیر کے ہاں آخور کی بھرتی کی طرح بھرے پڑے تھے۔

    سستا سمے، کاروبار خوب چمکے ہوئے، نہ جانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا تھا۔ ایک کماتا اور دس کھاتے۔ اجلے پوشوں تک کے خرچ اجلے تھے۔ رعایا خوش حال اور فارغ البال تھی۔ رہن سہن، ادب آداب، نشست و برخاست، بول چال، رسم و رواج، تیج تہوار، میلے ٹھیلے، سیر تماشے، ان سب میں کچھ ایسا سلیقہ اور قرینہ تھا کہ دلّی کی تہذیب ایک مثالی نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ یہاں کے ہیروں کی چمک دمک تو آنکھوں میں کبھی کبھی ہی جاتی تھی، باہر سے جو بھی کھڑ آتی یا انگھڑ جواہر پارے آتے، یہاں ان کی تراش خراش کچھ اس انداز سے ہوتی اور اس پر ایسی جلا چڑھتی کہ اس کی چھوٹ سے آنکھیں خیرہ ہونے لگتیں۔ یہاں آکر گونگوں کو زبان مل جاتی، جن کی منقار زیر پَر ہوتی وہ ہزار داستاں بن جاتے، جو پر شکستہ ہوتے وہ فلک الافلاک پر، پَر مارنے لگتے۔ علوم و فنون کے چشمے اس سرزمین سے پھوٹتے اور حکمت و دانش یہاں کی فضا میں گھلتی رہتی۔ غرض ہندوستان کا دلّی ایک عجیب پُرکیف مقام تھا جو بہت کچھ برباد ہو جانے پر بھی جنّت بنا ہوا تھا۔

    (ماخذ: دلّی جو ایک شہر تھا، از شاہد احمد دہلوی)

  • جنگِ ستمبر اور غیبی جھٹکا

    جنگِ ستمبر اور غیبی جھٹکا

    17 روزہ پاک بھارت جنگ پر مؤرخین کے علاوہ اس زمانے کے بڑے ادیبوں اور مضمون نگاروں‌ نے بھی اپنے قلم کو تحریک دی اور آنکھوں دیکھا احوال رقم کیا۔ اہلِ قلم نے 1965ء کی اس جنگ کے کئی واقعات بیان کیے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح مختلف محاذوں پر عوام اپنے فوجی بھائیوں کے شانہ بہ شانہ دشمن افواج سے لڑنے کے لیے پہنچے تھے اور ان کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔

    یہ ایک ایسی ہی مختصر، مگر پُراثر تحریر ہے جو نام وَر ادیب شاہد احمد دہلوی کے ایک طویل مضمون کا حصّہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "پاکستان سے چھے گنی فوجی طاقت اور چار گنی آبادی کے زعم میں بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر یہ حق اور باطل کی لڑائی تھی۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تھی۔

    نتیجہ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا نے بھی۔ پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسا غیبی جھٹکا تھا جس نے اہلِ وطن کو متفق و متحد کر دیا اور پوری قوم میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

    لاہور والوں نے تو کمال ہی کر دیا کہ دشمن کے ٹینک اور فوجیں شہر سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر آگئیں تھیں اور ہماری فوجیں ان کے پرخچے اڑا رہی تھیں کہ شہر کے جیالے جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر دشمن کو مارنے گھر سے نکل پڑے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں اور عورتیں بھی چل پڑیں اور سب کے سب دم کے دم میں شالیمار پہنچ گئے۔

    ہماری فوجوں کے پچھلے دستوں نے انھیں روکا۔ ورنہ حیدرآباد کے رضا کاروں کی طرح یہ سب بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے اور دشمن کو للکارتے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہمارے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پہلے تجھے ہماری لاشوں پر گزرنا پڑے گا، مگر اس کی نوبت نہ آئی۔

    ہماری فوجوں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کے واپس کیا کہ آپ شہر کا انتظام کیجیے، یہاں ہمیں دشمن سے نمٹنے دیجیے۔ آپ پر آنچ اس وقت آئے گی جب ہم نہ ہوں گے۔ اس پر بھی جوشیلے نوجوانوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور محاذ پر رسد بھیجنے میں‌ فوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔”

  • 1965ء: جب ہر لڑکی اور عورت کے ہاتھ میں سلائیاں اور اُون نظر آنے لگا

    1965ء: جب ہر لڑکی اور عورت کے ہاتھ میں سلائیاں اور اُون نظر آنے لگا

    ملک کی سرحد کے اُس پار دشمن کی فوج اگر مستعد نظر آئے، اس کے جوان چاق و چوبند اور جدید اسلحے سے لیس ہوں تو یہ ان کی پیشہ ورانہ تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ان کے نظم و ضبط کی علامت بھی ہوتا ہے، مگر جب وہ عددی برتری کے گھمنڈ اور ہتھیاروں کے غرور میں اُس سپاہ کو للکار بیٹھے جو فقط شہادت کو مطلوب و مقصودِ مومن سمجھتی ہو تو بدترین شکست اس کا مقدر بنتی ہے۔

    پاکستان کی جانب سے جنگِ ستمبر میں ایسی کئی مثالیں دنیا کے سامنے آئیں جب کہ عوام نے اگلے مورچوں‌ پر اپنی افواج اور اندرونِ ملک شہروں، قصبوں اور دیہات میں اداروں اور انتظامیہ کا مختلف معاملات میں خوب ہاتھ بٹایا۔ خاص طور پر خواتین نے۔ یہاں ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب شاہد احمد دہلوی کی ایک تحریر آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ 65ء کی جنگ میں پاکستانی عورتوں نے کس جوش و جذبے سے اپنا کردار ادا کیا۔

    وہ لکھتے ہیں: "پاکستانی خواتین جنگ کے زمانے میں اس قدر چاق و چوبند ہوگئیں کہ رفاہِ عام کے کاموں کے علاوہ انھوں نے شہری دفاع کی ٹریننگ لی، فوری امداد کی تربیت حاصل کی۔

    رائفل اور پستول چلانے کی مشق کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنی سیکھی۔ نرسنگ کے لیے اسپتالوں میں جانے لگیں۔ ہر لڑکی اور عورت کے ہاتھ میں سلائیاں اور اُون نظر آنے لگا۔ فوجی بھائیوں کے لیے انھوں نے کئی کئی سوئیٹر اور موزے بُنے۔

    اُن کے لیے چندہ جمع کیا۔ تحفے اکٹھے کر کے بھیجے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ پاکستانی خواتین مردوں کے دوش بہ دوش کام کرنے لگیں۔

    انھوں نے اپنا بناؤ سنگھار چھوڑ دیا۔ آرائش کی چیزیں خریدنی چھوڑ دیں اور جو بچت اس طرح ہوئی اسے دفاعی فنڈ میں دے دیا۔ مینا بازار سجائے گئے اور زنانہ مشاعرے کیے گئے۔ زنانہ کالجوں میں ڈرامے کیے گئے اور ان کی آمدنی کشمیر کے مہاجروں کے لیے بھیجی گئی۔”

  • شاہد احمد دہلوی: منفرد اسلوب کے حامل ادیب کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی: منفرد اسلوب کے حامل ادیب کا تذکرہ

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمدد ہلوی نے 27 مئی 1967ء کو زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ایک خاکہ نگار، تذکرہ نویس، مدیر، مترجم اور ماہرِ موسیقی تھے۔

    ان کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس نے اردو ادب کو اپنی نگارشات کی صورت میں مالا مال کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی نام وَر ادیب اور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے، معروف ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی مشہور ادبی مجلّہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر تھے۔ موسیقی سے انھیں عشق تھا اور لکھنا پڑھنا ان کا بہترین مشغلہ۔ دہلی کی بامحاورہ زبان اور اس کا چٹخارہ ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ ان کی دو کتابیں ’’دہلی کی بپتا‘‘ اور ’’اجڑا دیار‘‘ ان کے اسلوب کی انفرادیت اور قلم کی رنگارنگی کی مثال ہیں۔ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘ 1962ء میں شایع ہوا اور ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ اور ’’طاقِ نسیاں‘‘ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئے۔ ’’دِلّی جو ایک شہر تھا‘‘ اور ’’چند ادبی شخصیتیں‘‘ ان کی دو اہم کتابیں ہیں اور کئی تراجم ان کی زبان دانی اور قابلیت کا نمونہ ہیں۔

    شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ’’ساقی‘‘ 1930ء میں دہلی سے جاری کیا تھا اور 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں دوبارہ اسی پرچے کا آغاز کیا۔ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی تو شاہد احمد دہلوی کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک میں شامل رہے اور خوب کام کیا۔

    انھوں نے انگریزی کی متعدد کتب اردو زبان میں منتقل کیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق کتب اور مضامین بھی شامل ہیں جو ہر لحاظ سے اہم ہیں۔ دہلی گھرانے کے مشہور استاد، استاد چاند خان سے شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں آئے تو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے، جہاں وہ ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کیے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین رقم کیے جن کا مجموعہ’’ مضامینِ موسیقی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔

    شاہد احمد دہلوی زبان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ خصوصاً دلّی کی ٹکسالی زبان پر۔ شاید اس معاملے میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ ان کا منفرد اسلوب اور ٹکسالی زبان کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ حکومت پاکستان نے شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • گالیوں کا پٹارا

    گالیوں کا پٹارا

    نواب تاباںؔ بھی شاعر تھے، اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔

    حکیم اجمل خاں کے ہاں شرفائے دہلی کا جمگھٹا رہتا تھا۔ حکیم صاحب بھی طرفہ خوبیوں کے آدمی تھے، یہ جتنے بڑے طبیب تھے اتنے ہی بڑے شاعر بھی تھے۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباںؔ کی تعریفِ غائبانہ بہت کچھ سن چکے تھے، ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔

    حکیم صاحب نے سوچا کہ نواب صاحب کو اگر یہاں بلایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا برا مان جائیں، لہٰذا ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا، عزت سے بٹھایا، خاطر تواضع کی۔

    شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مدمغ آدمی تھے۔ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباںؔ نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے، ’’ ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر غزل کا اگلا شعر سنایا۔

    مولانا نے اوپری دل سے کہا، ’’ سبحان اللہ! اچھا شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘ بس پھر تاباںؔ آئیں تو جائیں کہاں؟ بولے، ’’ابے لنگڑے! میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تُو نے ایک منٹ میں اسے سمجھ لیا؟ بیٹا، یہ شعرُ العجم نباشد!‘‘ اس کے بعد ان کا گالیوں کا پٹارا کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہو گیا۔ ویسے اپنی روز مرّہ کی زندگی میں تاباںؔ بڑے زندہ دل آدمی تھے اور دوستوں کو کھلا پلا کر خوش ہوتے تھے۔ شطرنج کی انہیں دھت تھی اور چال بھی اچھی تھی۔ بڑے بڑے کھلاڑی ان کے ہاں آتے رہتے تھے۔

    (اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے اقتباس)

  • درزی اور فارسی ضربُ المثل (دل چسپ قصّہ)

    درزی اور فارسی ضربُ المثل (دل چسپ قصّہ)

    ایں ہم برسرِ عَلم، فارسی کی ضرب المثل ہے۔ معلوم نہیں ایران میں بنی یا ہندوستان میں، مگر بولتے اردو میں بھی ہیں۔ ’’ترجمہ اس کا ہے، یہ بھی جھنڈے پر سہی۔

    مطلب یہ کہ جہاں سو ہیں وہاں سوا سو سہی۔ جہاں ہزاروں گناہوں کی پوٹ سَر پر ہو، ایک گناہ اور سہی۔ قصّہ اس مثل کا یوں ہے کہ کہیں کی مسجد میں کوئی عالم وعظ فرما رہے اور نیکی و بدی دوزخ کا نقشہ دکھا رہے تھے۔

    اسی ذیل میں امانت و خیانت، ایمان داری و بے ایمانی کا ذکر آگیا۔ مولوی صاحب نے بڑی بڑی موشگافیاں کیں۔ خوب خوب دادِ تحقیق دی۔ چوری کی ایک ایک کر کے ساری صورتیں بیان کیں۔ ہر ہر پیشہ اور ہنر والوں کے کرتوتوں کو گنوایا، ان کی کھلی ڈھکی چوریوں کو کھول کھول کر دکھایا۔ یونہی ہوتے ہوتے کہیں درزیوں کا ذکر آگیا۔ جناب نے ان کے خوب لتے لیے۔ ایسے بخیے ادھیڑے کہ کوئی ٹانکا لگا نہ رہنے دیا۔ گاہکوں کی بے اعتباری اور اس کے نتائج دنیا کے بے ثباتی، آخرت میں خرابی کو پھیلا پھیلا کر دکھایا۔

    عقبیٰ کے عذاب، قیامت کے حساب کتاب سے ڈرایا اور یہاں تک فرمایا کہ یہ درزی چھوٹی بڑی چوریاں جتنی کرتے ہیں دنیا میں اگر چھپ بھی جائیں قیامت کے دن سب ’الم نشرح‘ ہو کر رہیں گی۔ یہ لوگ جب اﷲ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں گے۔ ایک بڑا سا عَلم ہر ایک درزی کے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر عمر بھر کے چرائے ہوئے کپڑے، حتیٰ کہ ذرا ذرا سی کترنیں بھی، لٹکتے ہوں گے۔ ساری خدائی ان کی چوری کا یہ تماشا دیکھے گی اور درزیوں کی بڑی رسوائی ہوگی۔ جزا و سزا کا وقت آئے گا تو وہی سوئیاں، قینچیاں جن سے چوری کا کپڑا کاٹا اور سی سلا کر خود پہنا، بیچا یا اہل و عیال کو پہنایا تھا عذاب و ایذا کا آلہ بن جائیں گے۔

    اتفاق سے اس مجلسِ وعظ میں کسی طرف کوئی درزی بھی بیٹھا تھا اور ممکن ہے کہ جناب مولوی صاحب نے اسی کو دیکھ دیکھ کر اپنی تقریر کا یہ پرداز ڈالا ہو۔ اس نے جو یہ چبھتی ہوئی حق لگتی ہوئی باتیں سنیں دل ہی دل میں بہت کٹا اور اسی وقت توبہ کی کہ چوری کے پاس نہ جاؤں گا اور بہت دنوں تک وہ اپنے اس عہد پر قائم بھی رہا۔ گاڑھا گزی، ململ لٹّھا، نینونین سُکھ معمولی کپڑوں کا کیا ذکر ہے اچھے اچھے ریشمی کپڑے، مخمل، اطلس، کام دانی، گل بدن کے تھان کے تھان اس کی دکان پر آتے، مگر کتر بیونت کے وقت کبھی اس کو ان میں سے کچھ کتر لینے کا خیال بھی نہ آتا۔

    اتفاق کی بات ایک دن ایک گاہک آیا اور ایک بڑھیا سا تھان کپڑے کا لایا۔ دولھا کا جوڑا بننا تھا۔ وہ ناپ تول دے کر اپنی راہ گیا۔ استاد تھان لے کر بیٹھے الٹ پلٹ کر دیکھا، جی للچایا۔ منہ میں پانی بھر آیا۔ رال ٹپکنے لگی۔ دل نے کہا۔ اس میں تو کچھ بچانا ہی چاہیے۔ ایمان پکارا، خبردار، کیا کرتا ہے، توبہ نہیں کر چکا ہے؟

    استاد نے تھان اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا۔ مگر کپڑا سی کر دینا تھا جلدی، اس لیے پھر اٹھایا اور پھر وہی کش مکش شروع ہوئی، آخر پرانی عادت، نئی توبہ پر غالب آئی اور استاد نے کپڑا بچا لینے کا ڈھپ نکال کر فرمایا ایں ہم برسرِ عَلم۔ جہاں ہزاروں ٹکڑے کپڑے کے قیامت کے دن علم پر ہوں گے ایک یہ بھی سہی۔

    یہ حکایت خدا جانے سچی ہے یا جھوٹی مگر یہ بالکل سچ ہے کہ عادت خاص کر بُری عادت موقع پاکر یونہی عود کرتی ہے اور یہ مثل ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔

    (1938ء کے ’ساقی‘ سے انتخاب جس کے مدیر صاحبِ اسلوب ادیب شاہد احمد دہلوی تھے)

  • جنگِ ستمبر: جب پاکستانی خواتین نے رائفل اور پستول چلانا سیکھا

    جنگِ ستمبر: جب پاکستانی خواتین نے رائفل اور پستول چلانا سیکھا

    پاکستانی خواتین جنگ کے زمانے میں اس قدر چاق و چوبند ہوگئیں کہ رفاہِ عام کے کاموں کے علاوہ انھوں نے شہری دفاع کی ٹریننگ لی، فوری امداد کی تربیت حاصل کی۔

    رائفل اور پستول چلانے کی مشق کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنی سیکھی۔ نرسنگ کے لیے اسپتالوں میں جانے لگیں۔ ہر لڑکی اور عورت کے ہاتھ میں سلائیاں اور اُون نظر آنے لگا۔ فوجی بھائیوں کے لیے انھوں نے کئی کئی سوئیٹر اور موزے بُنے۔

    اُن کے لیے چندہ جمع کیا۔ تحفے اکٹھے کر کے بھیجے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ پاکستانی خواتین مردوں کے دوش بہ دوش کام کرنے لگیں۔

    انھوں نے اپنا بناؤ سنگھار چھوڑ دیا۔ آرائش کی چیزیں خریدنی چھوڑ دیں اور جو بچت اس طرح ہوئی اسے دفاعی فنڈ میں دے دیا۔ مینا بازار سجائے گئے اور زنانہ مشاعرے کیے گئے۔ زنانہ کالجوں میں ڈرامے کیے گئے اور ان کی آمدنی کشمیر کے مہاجروں کے لیے بھیجی گئی۔

    (نام ور ادیب شاہد احمد دہلوی کے جنگِ ستمبر کے تذکرے پر مبنی تحریر سے انتخاب)

  • جنگِ ستمبر: کراچی کا لالو کھیت، تین ہٹّی کی پُلیا اور بھارت کا جھوٹ

    جنگِ ستمبر: کراچی کا لالو کھیت، تین ہٹّی کی پُلیا اور بھارت کا جھوٹ

    6 ستمبر سے 23 ستمبر تک ہوائی حملوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں بلیک آؤٹ رہا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کسی قسم کی زحمت نہ کرنا پڑی۔ پبلک کو خود اپنی ذمہ داری کا اتنا احساس تھا کہ رات کے وقت کسی ایک گھر سے بھی روشنی کی کرن تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔

    محلّے والے ٹولیاں بنا کر گشت کرتے تھے تاکہ محلّے کی بھی حفاظت رہے۔ کراچی پر کئی رات بھارت کے طیّارے آئے اور اپنی دانست میں بم بھی گراتے رہے مگر معلوم ہوا کہ یا تو بم چلے نہیں یا سمندر میں گرتے رہے۔ دو چار شل البتہ آبادی پر گرے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر بھارت نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ لالو کھیت کا ہوائی اڈہ اور تین ہٹی کا پل برباد کر دیا گیا۔ حالاں کہ لالو کھیت میں کوئی ہوائی اڈّہ نہیں ہے اور ایک برساتی نالے پر تین ہٹّی کی پلیا ہے۔

    بھارت کے محکمہ اطلاعات نے ایک فرضی فلم بھی کراچی کی تباہی کی بنا لی جس میں دکھایا ہے کہ جہاں پہلے کراچی آباد تھا اب وہاں سمندر موجیں مار رہا ہے۔ بھارت کے پروپیگنڈے کا اصول یہ ہے کہ بمرگش بگیر تابہ تپ راضی شود۔

    اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ اسے گھٹاتے گھٹاتے بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جائے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، انشا پرداز اور سوانح و تذکرہ نگار شاہد احمد دہلوی مرحوم کے قلم سے، یہ واقعات انھوں نے 1966ء میں بھارت کی جنگ میں شکست کے ایک سال بعد رقم کیے تھے)

  • زبان آزادی نہیں‌ پابندی چاہتی ہے!

    زبان آزادی نہیں‌ پابندی چاہتی ہے!

    ہر شخص کو اپنی زبان پیاری ہوتی ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کو اور بھی زیادہ۔ کیوں کہ زبان کا بنانا سنوارنا اور اسے ترقّی دینا انہیں کا کام ہوتا ہے۔

    اسے سیکھنے اور سلیقے سے برتنے کے لیے انہیں سیکڑوں معیاری کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ پھر انہیں مشق و مزاولت کے ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں۔ اس پر بھی برسوں کے بعد ان کی نثر یا نظم میں چٹخارہ پیدا ہوتا ہے۔

    امیرؔ اک مصرعۂ تربت کہیں صورت دکھاتا ہے
    بدن میں خشک جب ہوتا ہے شاعر کے لہو برسوں

    زبان کا معاملہ آزادی کا نہیں پابندی کا ہے۔ ادیبوں کا ایک ایک لفظ زبان و بیان کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے کیوں کہ ادیب سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نفیس اور قابلِ تقلید نثر لکھے لگا۔ ہر ادیب کی امکانی کوشش یہی ہونی چاہیے۔ تو اس کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا کہ وہ بے عیب نثر لکھتا ہے، یا اس سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے سامنے رہ نمائی اور تقلید کے لیے اسلاف کے اعلیٰ نمونے ہیں۔

    دلّی اور لکھنؤ کے نمونے بڑی حد تک مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ کنگز انگلش کے بعد آکسفورڈ اور کیمبرج کی انگریزی مثالی تصور کی جاتی ہے۔ اب دلّی اور لکھنؤ مرکز نہیں رہے تو لاہور اور کراچی مرکز بن گئے ہیں اور لاہور تو ایک صدی سے اردو کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کراچی قیامِ پاکستان کے بعد بن رہا ہے، کیوں کہ دلّی اور لکھنؤ کی بیشتر آبادی کراچی میں منتقل ہو گئی ہے اور اب اس 22 لاکھ آبادی کے شہر میں اردو کے مقتدر ادارے بھی قائم ہو چکے ہیں۔

    (اردو کے حال اور مستقبل سے متعلق صاحب اسلوب ادیب، تذکرہ و خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے خیالات، جن کا اظہار انھوں نے اپنے ایک ہم عصر کو لکھے گئے خط میں‌ کیا تھا)

  • صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مدیر، محقّق اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1966 کو وفات پاگئے تھے۔ وہ معروف ناول نگار، شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور شاعر و ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو ایک باوقار جریدہ ‘ساقی’ دیا اور اس کے ذریعے علم و ادب، فنون و ثقافت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ترقّی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ دہلی ان کا وطن تھا اور یہی نسبت ان کے نام سے منسلک رہی، قیامِ پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی انشا پرداز اور باکمال نثار تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور مصنّف کے منفرد اسلوب اور طرزِ‌ نگارش کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کرنے کے علاوہ واقعات اور تذکروں کو کتابی شکل دی۔ دلّی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں موسیقی کے متعدد پروگرام پیش کیے۔

    ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر، بزمِ خوش نفساں، بزمِ شاہد اور طاقِ نسیاں کے نام سے شائع ہوئے تھے جب کہ موسیقی کے موضوع پر ان کے لاتعداد مضامین کو بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔