Tag: شاہد احمد دہلوی

  • یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    اللہ بخشے میر ناصر علی دلّی کے ان وضع دار شرفا میں سے تھے جن پر دلّی کو فخر تھا۔ عجب شان کے بزرگ تھے۔

    ‘‘بزرگ’’ میں نے انہیں اس لیے کہا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں بزرگ ہی دیکھا۔ سوکھ کر چمرغ ہوگئے تھے۔ خش خشی ڈاڑھی پہلے تل چاولی تھی، پھر سفید ہوگئی تھی۔ کتری ہوئی لبیں، پوپلا منہ، دہانہ پھیلا ہوا، بے قرار آنکھیں، ماتھا کھلا ہوا، بلکہ گدّی تک ماتھا ہی چلا گیا تھا۔

    جوانی میں سرو قد ہوں گے، بڑھاپے میں کمان کی طرح جھک گئے تھے۔ چلتے تھے تو پیچھے دونوں ہاتھ باندھ لیتے تھے۔ مستانہ وار جھوم کے چلتے تھے۔ مزاج شاہانہ، وضع قلندرانہ۔ ٹخنوں تک لمبا کرتا۔ گرمیوں میں موٹی ململ یا گاڑھے کا، اور جاڑوں میں فلالین یا وائلہ کا۔ اس میں چار جیبیں لگی ہوتی تھیں جنہیں میر صاحب کہتے تھے۔ ‘‘یہ میرے چار نوکر ہیں۔’’ گلے میں ٹپکا یا گلو بند، سر پر کبھی کپڑے کی پچخ گول ٹوپی اور کبھی صافہ۔

    گھر میں رَدی کا کنٹوپ بھی پہنتے تھے اور اس کے پاکھے الٹ کر کھڑے کر لیتے، جب چُغہ پہنتے تو عمامہ سر پر ہوتا۔ اک بَرا پاجامہ، ازار بند میں کنجیوں کا گچھا۔ پاؤں میں نری کی سلیم شاہی، کسی صاحب بہادر سے ملنے جاتے تو انگریزی جوتا پاؤں میں اڑا لیتے۔

    آپ سمجھے بھی یہ میر ناصر علی کون ہیں؟ یہ وہی میر ناصر علی ہیں جو اپنی جوانی میں بوڑھے سرسیّد سے الجھتے سُلجھتے رہتے تھے۔ جنہیں سرسید ازراہِ شفقت ‘‘ناصحِ مُشفق’’ لکھتے تھے۔ ‘‘تہذیبُ الاخلاق’’ کے تجدد پسند رُجحانات پر انتقاد اور سر سیّد سے سخن گسترانہ شوخیاں کرنے کے لیےآگرہ سے انہوں نے ‘‘تیرہویں صدی’’ نکالا، اور نیچریوں کے خلاف اِس دھڑلّے سے مضامین لکھے کہ ان کی دھوم مچ گئی۔

    صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اندازِ تحریر پر بہت سوں کو رشک آیا۔ بعض نے کوشش کرکے نقل اتارنی چاہی تو وہ فقرے بھی نہ لکھے گئے اور خون تھوکنے لگے۔ اردو میں انشائیہ لطیف کے موجد میر صاحب ہی تھے۔ ان کا اندازِ بیان انہی کے ساتھ ختم ہوگیا۔

    غضب کی علمیت تھی ان میں۔ انگریزی، فارسی اور اردو کی شاید ہی کوئی معروف کتاب ایسی ہو جس کا مطالعہ میر صاحب نے نہ کیا ہو۔ کتاب اس طرح پڑھتے تھے کہ اس کے خاص خاص فقروں اور پاروں پر سُرخ پنسل سے نشان لگاتے جاتے تھے اور کبھی کبھی حاشیے پر کچھ لکھ بھی دیا کرتے تھے۔ ہزاروں لاکھوں شعر فارسی اور اردو کے یاد تھے، حافظہ آخر تک اچھا رہا۔ انگریزی اچھی بولتے تھے اور اس سے اچھی لکھتے تھے۔ ساٹھ پینسٹھ سال انہوں نے انشا پردازی کی داد دی۔

    نمک کے محکمے میں ادنٰی ملازم بھرتی ہوئے تھے، اعلیٰ عہدے سے پنشن لی۔ حکومت کی نظروں میں بھی معزز ٹھہرے ‘‘خان بہادر’’ کا خطاب ملا، دلّی میں آنریری مجسٹریٹ رہے، اور پاٹودی میں نو سال چیف منسٹر۔

    (صاحبِ طرز ادیب شاہد احمد دہلوی نے علم و ادب میں‌ ممتاز میر ناصر علی دہلوی کا یہ خاکہ کاغذ پر اتارا تھا جس سے ہم نے چند پارے یہاں‌ نقل کیے ہیں)

  • بات بات پر اڑنے اور لڑنے والا ادیب

    بات بات پر اڑنے اور لڑنے والا ادیب

    منٹو کی باتیں بڑی دل چسپ ہوتی تھیں۔ انھیں ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ میں ہی سب سے اچھا لکھنے والا ہوں، اس لیے وہ اپنے آگے کسی کو گردانتے نہ تھے۔

    ذرا کسی نے دُون کی لی اور منٹو نے اڑ لگایا، خرابیِ صحّت کی وجہ سے منٹو کی طبیعت کچھ چڑچڑی ہو گئی تھی۔ مزاج میں سہار بالکل نہیں رہی تھی۔ بات بات پر اڑنے اور لڑنے لگتے تھے جو لوگ ان کے مزاج کو سمجھ گئے تھے، وہ ان سے بات کرنے میں احتیاط برتا کرتے تھے۔

    اُن کا مرض بقول ان کے کسی ڈاکٹر سے تشخیص نہ ہو سکا۔ کوئی کہتا دق ہے، کوئی کہتا معدے کی خرابی ہے، کوئی کہتا جگر کا فعل کم ہو گیا ہے، اور ایک ستم ظریف نے کہا کہ تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اور انتٹریاں بڑی ہیں، مگر منٹو ان سب بیماریوں سے بے پروا ہو کر ساری بد پرہیزیاں کرتا رہا۔

    منٹو کی زبان پر ’’فراڈ‘‘ کا لفظ بہت چڑھا ہوا تھا۔ میرا جی کے ہاتھ میں دو لوہے کے گولے رہتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا، ان کا مصرف کیا ہے؟ منٹو نے کہا، فراڈ ہے۔ میرا جی نے سیویوں کے مزعفر میں سالن ڈال کر کھانا شروع کر دیا۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ منٹو نے کہا ’’فراڈ‘‘۔ اوپندر ناتھ اشکؔ نے کوئی چیز لکھی، منٹو نے کہا فراڈ ہے۔ اُس نے کچھ چیں چیں کی تو کہا ’’تُو خود ایک فراڈ ہے۔‘‘

    ("سعادت حسن منٹو کی یاد میں” از شاہد احمد دہلوی)

  • عریاںؔ، ناکارہؔ اور آوارہؔ!

    عریاںؔ، ناکارہؔ اور آوارہؔ!

    1932 میں مجھے اپنے منجھلے بھائی مبشّر احمد اور دوسرے عزیزوں سے ملنے حیدرآباد (دکن) جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے جن ادیبوں اور شاعروں سے حیدرآباد میں ملنا تھا ان کی فہرست خاصی طویل تھی۔

    منجھو صاحب پولیس کے آدمی! انہیں تمام سلسلوں کی خبر تھی۔ فہرست دیکھ کر بولے ’’فرحت اللہ بیگ سے تمہیں سید وزیر حسین ملوائیں گے۔ فانی، جوش اور علی اختر سے کرنل اشرف الحق۔

    مولوی عنایت اللہ سے تابش۔ میں بھی ساتھ چلا چلوں گا۔ تمکین کاظمی تو یہ سامنے ادارہ علمیہ میں روز شام کو آتا ہے۔ اور یہ ناکارہؔ اور آوارہؔ اور کون کون ہے، انہیں تھانے میں یہیں کیوں نہ بلوا لیا جائے؟‘‘

    میں نے کہا۔ ’’مناسب نہیں ہو گا۔ پہلے میں ایک ایک بار سب کے یہاں ہو آؤں۔ بولے ’’تو پھر یہ کرتے ہیں کہ تھانے میں نہیں کھانے پر سب کو بلا لیتے ہیں۔‘‘

    میں نے کہا۔ ’’اسے بھی بعد کے لیے اُٹھا رکھو۔‘‘ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ کرنل اشرف الحق باہر ہی سے آوازیں دیتے در آئے۔

    ’’شاہد کہاں ہے، شاہد کہاں ہے؟‘‘ میں دوڑ کر ان سے لپٹ گیا۔ اس وقت عمر میں مجھ سے دگنے تھے۔ میرے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ چودہ سال ولایت میں رہ کر ایڈنبرا سے ڈاکٹری کی سند لے کر آئے تھے اور قلعہ گولکنڈہ میں افواجِ باقاعدہ کے ڈاکٹر تھے۔

    اللہ اُن کی روح کو شرمائے ہر وقت اتنی پیتے تھے کہ مرنے لگتے تھے۔ وہ شراب کو کیا چھوڑتے شراب انہیں چھوڑ دیتی تھی۔ اچھے ہونے کے بعد مہینوں نہیں پیتے تھے، پھر کوئی دوست ہشکا دیتا اور سلسلہ پھر جاری ہو جاتا، مگر اتنی پینے پر بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی بہکتے یا مدہوش ہوتے نہیں دیکھا۔

    وہ اس قدر عجیب و غریب کردار کے آدمی تھے کہ اُن پر ایک علیحدہ مضمون لکھنے کی ضرورت ہے۔ مختصراً یہ سمجھیے کہ منجملہ اور صفات کے شعر کہنے کا بھی خاص ملکہ رکھتے تھے، مگر ہزل تو کیا نرا کُھرا فحش۔ عریاںؔ تخلص تھا۔

    شعر و شاعری کی وجہ سے حیدرآباد کے تمام شاعروں سے تعلق تھا۔ اور سب کا دَم بھی ان سے نکلتا تھا کیوں کہ ذرا سی بات پر فحش ہجو لکھ دیا کرتے تھے، اور ستم بالائے ستم یہ کہ خود جا کر اسے سنا بھی دیتے تھے۔

    خیر تو ڈاکٹر صاحب سے یہ طے ہو گیا کہ جوشؔ صاحب سے مجھے وہ اگلے دن ملوا دیں گے ۔ دوسرے دن صبح دس بجے ڈاکٹر صاحب آئے اور مجھے دارالترجمہ لے گئے۔ سب سے پہلے ابوالخیر مودودی سے ملوایا جو ابوالاعلٰی مودودی کے بڑے بھائی تھے۔ دھان پان سے نرم و نازک آدمی تھے، مگر ان کے لفظ لفظ میں علمیت ٹپکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ خوش اخلاقی سے کھانے پر مدعو کیا۔

    مولانا عمادی سے ملوایا۔ انھوں نے بھی دعوت کی پیشکش کی۔ جوشؔ صاحب سے ملوایا، گرم جوشی سے ملے۔ دعوت کا دن مقرر کر لیا۔

    (اردو زبان کے صاحب طرز ادیب شاہد احمد دہلوی کے قلم سے)

  • شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، محقق اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ان کا تعلق دہلی سے تھا۔

    آج شاہد احمد دہلوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے جو علم و ادب کی دنیا کے بڑے نام ہیں۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو کا باوقار جریدہ ساقی جاری کیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور ادبی دنیا میں متحرک رہے۔

    وہ باکمال نثر نگار اور انشا پرداز تھے۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکوں کے علاوہ مختلف تذکروں اور واقعات کو بھی ادبی پیرائے میں‌ ڈھالا اور کتابی شکل دی۔ دلی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔

    ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی اور ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران موسیقی کے پروگرام پیش کرتے رہے۔

    27 مئی 1966 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا!

    دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا!

    دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا۔ جب جی چاہا منہ اٹھایا اور چل پڑے۔ کھانے دانے سے فارغ ہو کر رات کو فرنٹیر میل میں سوار ہوئے اور سو گئے۔

    آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور پر کھڑی ہے۔ سال میں کئی کئی پھیرے لاہور کے ہوجاتے تھے۔ لاہور ادیبوں کی منڈی تھا۔

    سر سید نے انھیں زندہ دلانِ پنجاب کہا اور واقعی یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس خطے میں زندگی ابلتی ہے اور گنگناتی گاتی پھرتی ہے۔ کتنا خلوص تھا یہاں کے لوگوں میں اور کتنی محبت۔ ٹوٹ کر ملتے، ہاتھوں ہاتھ لیتے اور سر آنکھوں پر بٹھاتے۔

    ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ ان میں تیر میر نہیں آئی تھی۔

    ادیب اور شاعر نرے ادیب اور شاعر ہی تھے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ آرٹسٹ کا مذہب تو آرٹ ہی ہوتا ہے۔ اب کی مجھے خبر نہیں، یہ کوئی سترہ اٹھارہ سال ادھر کی باتیں۔ اب تو زمین آسمان ہی بدل گئے تو بھلا ادب و شعر کی قدریں کیوں نہ بدلی ہوں گی؟ خیر، کچھ ہو گا۔ یہ وقت اس بحث میں پڑنے کا نہیں۔

    ہاں تو اچھے وقت تھے، اچھے لوگ تھے۔ ان سے مل کر جی خوش ہوتا تھا، ایک بار ملے، دوبارہ ملنے کی ہوس۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بعض کے ساتھ برسوں یک جائی رہی اور جی نہیں بھرا۔ بلکہ ان سے بے ملے چین نہیں پڑتا تھا۔

    بے غرض ملتے، جی کھول کر ملتے۔ اجلی طبیعتیں تھیں۔ بعض دفعہ بڑی ناگوار باتیں بھی ہو جاتیں، مگر کیا مجال جو آنکھ پر ذرا بھی میل آجائے۔ تم نے ہمیں کہہ لیا، ہم نے تمھیں کہہ لیا، ایلو، دل صاف ہو گئے۔ اچھے لوگوں میں یہی ہوتا ہے۔ زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ جب تک بندھن بندھا ہوا ہے، بندھا ہوا ہے، جب ٹوٹا ساری تیلیاں بکھر گئیں۔ جو دم گزر جائے غنیمت ہے۔ اب وہ دن جب بھی یاد آتے ہیں تو دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ یہی کیا کم عذاب تھا کہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، اب سناؤنی سننے کو کہاں سے پتھر کا دل لاؤں۔

    بڈھے مرے، انھیں تو مرنا ہی تھا۔ میر ناصر علی مرے، ناصر نذیر فراق مرے، میر باقر علی داستان گو مرے، علامہ راشد الخیری مرے، مولانا عنایت اللہ مرے، کس کس کو گناؤں۔ ایک ہو تو بتاؤں۔

    شاہد احمد دہلوی کی باتیں اور یادیں، ان کی کتاب گنجینہ گوہر سے انتخاب

  • شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم "ساقی” کا جاپان نمبر، سن 2019 میں

    شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم "ساقی” کا جاپان نمبر، سن 2019 میں

    ایک ایسی نایاب کتاب، جو 81 برس قبل بڑے اہتمام سے، تحقیق کے بعد شایع کی گئی، اور پھر وقت کے طوفانوں میں‌ گم ہوئی، اگر اچانک آپ کے سامنے آ جائے، سن 2019 میں، تو مسرت اور حیرت کے احساسات بیک وقت آپ کو اپنے حصار میں لے لیں گے۔

    کچھ یہی معاملہ 1936 میں‌ شایع ہونے والے ممتاز ادبی جریدے ساقی کے جاپان نمبر کا ہے، جسے ایک دیوانے کی کھوج نے فیس بک اور ٹویٹر کے اس دور میں‌ ہمارے سامنے پھر پیش کر دیا.

    81 برس قبل منصہ شہود پر آنے والے ساقی کے جاپان نمبر کی اشاعت ایک معنوں میں اس کلاسیک کی بازیافت ہے، مگر بہت سے افراد کے لیے یہ دریافت ہی ہے کہ اکثریت اس سے لاعلم تھی۔

    ہاں، چند نے اس کا نام سنا تھا، چند نے اسے پڑھا تھا، یہ نمبر چند کتب خانوں میں بھی ضرور موجود ہوگا، مگر شاید اپنی اہمیت کے پیش نظر اسے ان کتب خانوں کے تاریک گوشوں ہی میں محفوظ خیال کیا گیا، اسی لیے یہ بہت محدود ہوگیا۔

    البتہ اب یہ ہمارے سامنے آگیا ہے، اور یہ ممکن ہوا، جاپان قونصل خانے، ادبی تنظیم ’’پاکستان جاپان ادبی فارم‘‘ اور خرم سہیل کے وسیلے۔

    سن 1936 میں ساقی کے جاپان نمبر میں شایع ہونے والے اشتہارات

    اپنے صحافتی سفر کا انٹرویو نگاری سے آغاز کرنے والے خرم سہیل نے خود کو کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رکھا، کالم لکھے، انتظامی امور، ریڈیو، ڈیجیٹل میڈیا کا تجربہ کیا، اپنے خیالات و نظریات کی وجہ سے کچھ متنازع بھی ٹھہرے، مگر اپنے ارادے، استقامت اور لگن کے وسیلے وہ ایک کے بعد ایک دل لبھانے والی کتابیں ہمارے سامنے لاتے رہے۔ جہاں ان کے ہم عصر اپنی تخلیقات ناشر تک لے جانے کی بابت سوچتے رہے، انھوں نے ناشر کو خود تک پہنچنے کے لیے قائل کر لیا۔ ساقی کا جاپانی نمبر بھی ایسی ہی کوشش ہے۔

    خرم سہیل

    جسے مکمل طور پر، قدیم ہجے کے ساتھ، اس زمانے میں شایع ہونے والے اشتہارات سے سجا کر پورے اہتمام سے پیش کیا گیا ہے۔

    جب ہم اس بیش قیمت نمبر کو دیکھتے ہیں، تو ہمارے دل شاہد احمد دہلوی اور ان کے ساتھیوں کے لیے احترام سے بھر جاتے ہیں۔ اس زمانے میں جب یوٹیوب نہیں تھا، وکی پیڈیا اور گوگل نہیں تھا، جاپان سے متعلق معلومات کا حصول سہل نہیں تھا، ان کی ٹیم نے انتھک محنت کی۔

    اس کتاب کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں شاہد احمد دہلوی کو خراج تحسین پیش کرنے کی خواہش ہمکنے لگتی ہے، ساتھ ہی یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ آج پھر ایک جاپان نمبر نکالا جائے، جو دوسری جنگ عظیم، سرد جنگ اور 9/11 جیسے تاریخ بدل دینے والے واقعات پر جاپانی ادیبوں‌ کا نقطہ نگاہ، ردعمل اور تخلیقات ہم تک پہنچائے کہ ان ہی واقعات نے دنیا بھر کے ادب کو وہ رنگ دیا، وہ رخ دیا، جس نے ہمیں گروہدہ بنایا۔

    آج پھر ایک جاپان نمبر نکالنے کا خیال ناممکن تو نہیں، مگر مشکل ضرور ہے. یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے ارادے، استقامت اور لگن سے، کیوں‌ کہ یہ تین جادوئی عناصر ہی خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں.

    اور ان ہی عناصر کے طفیل شاہد احمد دہلوی کا 81 سال قدیم جاپان نمبر، سن 2019 میں ہمارے سامنے آجاتا ہے.