Tag: شاہکار ناول

  • کار حادثہ جو موت کا فلسفہ بیان کرنے والے البیر کامیو کی موت کا سبب بنا

    کار حادثہ جو موت کا فلسفہ بیان کرنے والے البیر کامیو کی موت کا سبب بنا

    البیر کامیو الجزائر کا ایک مشہور و معروف فلسفی اور ناول نگار تھا جسے وجودیت کا پرچارک اور انفرادی آزادی کا پُرجوش حمایتی کہا جاتا ہے۔ اسے 1957ء میں ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔

    البیر کامیو فرانس میں ایک کار حادثے میں‌ زندگی سے محروم ہو گیا تھا۔ یہ 1960ء کی بات ہے۔

    اس کا وطن فرانس کی نو آبادی تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران اس کے والد مارے گئے تھے جن کے بعد اس کی ماں کو محنت مزدوری اور گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنا پڑا۔

    کامیو نے اپنے تخلیقی سفر میں‌ ہمیں‌ ’’دی پلیگ‘‘ (The Plague)،’’دی فال‘‘ (The Fall) اور’’دی آئوٹ سائیڈر‘‘ (Outsider) جیسے ناول دیے جو متعدد زبانوں‌ میں ترجمہ ہوئے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ ان ناولوں‌ میں‌ کامیو نے انفرادی آزادی کی حمایت میں دلائل اور یہ منطق بھی پیش کی کہ اس آزادی کے بغیر انسان جن سماجی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس جاتا ہے اس کے نتیجے میں زندگی مطلقاً لایعنیت اور بے معنونیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

    البیر کامیو اپنے نظریات اور مخصوص فلسفیانہ طرزِ نگارش کے سبب ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوا جس کے ناول دی فال کو معروف افسانہ نگار، مترجم اور اسکالر محمد عمر میمن نے زوال کے نام سے اردو میں‌ منتقل کیا۔ اس ناول سے ایک اقتباس باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    "کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ صرف موت ہمارے احساسات کو بیدار کرتی ہے؟ ہم ان دوستوں سے کتنا پیار کرتے ہیں جو ابھی ابھی ہم سے جدا ہوئے ہوں؟ ہم اپنے اساتذہ کی کتنی مدح سرائی کرتے ہیں جن کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور جن کے دہن اب خاک سے پُر ہیں؟

    سب کچھ ہو چکنے کے بعد ہمارا جذبۂ تحسین ابھرتا ہے۔ وہ تحسین جس کے لیے وہ لوگ شاید عمر بھر متوقع اور ترستے رہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ہم مُردوں کے معاملے میں کیوں زیادہ انصاف پسند اور فیاض واقع ہوئے ہیں؟ وجہ بالکل سادہ ہے۔ مُردوں کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں، اور ہم بااطمینانِ خاطر، جب چاہے، کاک ٹیل پارٹی اور کسی حسین، کم سِن داشتہ کے درمیان، اوقاتِ فرصت میں، انھیں اسناد تقسیم کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    اگر وہ ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور کرسکتے تو انھیں یاد رکھنے پر مجبور کرتے، اور یہ ممکن نہ ہوتا، کیوں کہ ہمارا حافظہ کم زور ہے۔ نہیں، ہم اپنے دوستوں میں صرف انھیں سے محبت کرتے ہیں جو تازہ تازہ داغِ مفارقت دے گئے ہوں، ہم ان کی درد ناک موت سے، اپنے جذبات سے، اور چوں کہ یہ جذبات ہمارے ہوتے ہیں، اس لیے خود سے محبّت کرتے ہیں!”

  • میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    18 جون 1936ء کو دنیا سے رخصت ہوجانے والے نام ور روسی ادیب اور شاعر میکسم گورکی کو "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی اور یہ ناول شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔

    روسی ادب میں ناول ماں کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے جس نے الیکسی میکسیمووچ پیشکوف المعروف میکسم گورکی کو اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا۔ اس نے 28 مارچ 1868ء کو روس میں جنم لیا، والد کا سایہ کم عمری میں‌ سر سے اٹھ گیا، گورکی نے چھوٹے موٹے کام کیے، اور غربت و افلاس دیکھا، ایک مہربان نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سکھا دیا اور پھر وہ علم و ادب کی جانب مائل ہوا۔ آج اسے ایک انقلابی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو توانا اور تازہ فکر شاعر، باکمال ناول نگار، ڈراما نویس اور مستند صحافی بھی تھا۔ اس کے ناول اور مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔

    میکسم گورکی کا ناول “ماں” 1906ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ بیٹا انقلابی فکر کا حامل ہے اور گرفتاری کے بعد ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے، وہ ان پڑھ اور سادہ عورت ہے جو بیٹے کو جیل کے دوران خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ اس ناول کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ جب کہ گورکی کو پانچ مرتبہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    روس کے اس ادیبِ اعظم نے اپنی آپ بیتی بھی رقم کی جس کا مطالعہ گورکی کے نظریات سے اور اس کے دور میں روس کے حالات سے واقف ہونے کا موقع دیتا ہے، اس آپ بیتی میں کئی اہم سیاسی اور سماجی اور دل چسپ نوعیت کے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔