Tag: شاہی محل

  • شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    ہندوستان پر سیکڑوں سال تک حکومت کرنے والے سلاطین جہاں رزم و بزم میں یکتائے روزگار تھے، اُسی طرح ان کی بیگمات اور شہزادیاں بھی منفردُ المثال تھیں۔

    جس طرح یہ سلاطین اور شہزادے فاتح اور کشور کشا نیز علم دوست اور ادب نواز تھے، اُسی طرح شاہی محلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فنِ حرب و ضرب میں ماہر اور علم و ادب کی دلدادہ تھیں۔

    ملک کی پہلی خاتون حکم راں رضیہ سلطانہ سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل اور اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی ملکہ حضرت محل تک کی داستانِ حرب و ضرب اور واقعاتِ علم پروری تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔

    ہندوستان کے شاہی محلات ہر دور میں فکر و فن اور علم و ادب کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں اہلِ علم کی قدر افزائی ہوتی رہی ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے دور کے نام ور دانش ور اور حکماء و علماء شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ فنِ حرب اور شہسواری نہ صرف شہزادوں کو سکھائے جاتے تھے بلکہ شہزادیوں کو بھی ان فنون میں یکتائے روزگار بنایاجاتا تھا۔ حالاں کہ خواتین کو جنگوں میں حصہ لینے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، مگر علمی محفلوں میں ان کی شرکت خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ایسے ماحول میں تربیت پانے والی خواتین یکتائے روزگار ہوا کرتی تھیں اور پسِ پردہ رہ کربھی اپنے دور کی سیاست پر اثرانداز ہوا کرتی تھیں۔

    رضیہ سلطانہ ہندوستانی تاریخ کی تنہا خاتون حکم راں تھی۔ اس کے بعد یہ موقع کسی شہزادی کو نصیب نہیں ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ ایسے واقعات سے بھی خالی نہیں کہ خواتین نے ہندوستان کی سیاست پر اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پر حکومت کی۔ اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاند بی بی اور ملکہ حضرت محل جیسی کئی شاہی بیگمات کے نام آتے ہیں۔

    محلاتی سازشوں میں بھی شاہی بیگمات پیش پیش رہا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کو مسندِ شاہی تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کیا کرتی تھیں۔ کئی بار ان بیگمات کے ناخنِ تدبیر ہی سیاسی گتھیوں کو سلجھایا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ جلال الدّین محمد اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے اکبر کی ذی فہم ملکہ سلیمہ سلطانہ بیگم سامنے آئی اور اسی کی سمجھ داری نے سلیم کو مصالحت پر مجبور کیا۔

    ہندوستان کی شاہی بیگمات چونکہ پردے میں رہتی تھیں اور انہیں میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، لہٰذا ان کی بیشتر توجہ علم وادب کی طرف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اچھی شاعرات اورنثر نگار ثابت ہوئیں۔ ان بیگمات میں کئی اچھی ادیبہ، اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں تو کئی مؤرخ اور عالمہ تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم، جاناں بیگم، ملکہ نور جہاں، ملکہ ممتاز محل، جہاں آرا بیگم، زیب النساء بیگم، اور زینت النساء بیگم کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    شاہی خواتین کو علم و ادب کے ساتھ ساتھ فنِ مصوّری، خطاطی اور عمارت سازی کا بھی شوق تھا اور انھوں نے اس میدان میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے باپ شمسُ الدّین التمش کے مقبرے کو تعمیر کرایا۔ آج اس مقبرے کا بیشتر حصہ منہدم ہو چکا ہے مگر جو کچھ باقی ہے وہ رضیہ کے ذوق کی بلندی کا پتہ دینے کے لیے کافی ہے۔ بادشاہ ہمایوں کی بیوہ حاجی بیگم نے اپنے شوہر کی قبر پر جو عمارت تعمیر کرائی وہ تاج محل کی تعمیر کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔

    اسی طرح نور جہاں نے اعتماد الدّولہ کا عظیم الشّان مقبرہ تعمیر کروا کے اپنے ذوقِ عمارت سازی سے دنیا کو آگاہ کیا۔ دلّی کی معروف فتح پوری مسجد کی تعمیر، شاہ جہاں کی ایک ملکہ نے کرائی تو دریا گنج کی گٹھا مسجد ایک شہزادی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندوستان کی شاہی خواتین کے کارنامے بھی بے شمار ہیں، مگر انہیں سامنے لانے کی کوشش بہت کم ہوئی ہے۔

    رضیہ سلطان، ملک کی اوّلین خاتون حکم راں تھی، جس نے ملک پر شان دار حکم رانی کی مگر اسے صرف اس لیے تخت سے ہٹنا پڑا کہ وہ مرد نہیں تھی۔ جس زمانے میں بھارت میں خواتین کو ’’ستی‘‘ ہونا پڑتا تھا اس دور میں رضیہ سلطان نے حکم رانی کی۔ وہ حکم رانی کی اہل بھی تھی مگر مردوں کے اقتدار والے سماج نے صرف اس لیے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔ اس نے مقبرہ التمش کی تعمیر بھی کرائی۔ باحوصلہ شاہی بیگمات میں ایک نام حاجی بیگم کا ہے جو، بادشاہ ہمایوں کی بیوی تھی اور مشکل حالات میں اپنے شوہر کا سہارا بنی رہی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس نے اپنے کم عمر بیٹے اکبر کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس نے مقبرہ ہمایوں کی تعمیر کرایا۔ جو بعد میں تاج محل کے لیے ماڈل ثابت ہوا۔ اکبر کو بہت کم عمری میں حکومت مل گئی تھی جو اس کے اتالیق کے ذریعے چلتی تھی مگر اس حکومت میں حاجی بیگم کی مرضی بھی شامل رہتی تھی اور ہندوستان کے سیاہ و سپید میں اس کے اختیارات بھی شامل رہتے تھے۔

    شاہ جہاں کی بیگمات ہی نہیں بلکہ اس کی بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی اور دین دار تھیں۔ جہاں آرا بیگم، شاہ جہاں کی بیٹی تھی اور ادیبہ و شاعرہ تھی۔ اس نے اجمیر میں کئی تعمیرات کرائیں۔ مغل شہزادیوں میں ایک نام زینتُ النّساء کا بھی ہے جس نے دریا گنج کی گٹھا مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہیں شہزادی کی قبر بھی ہے۔ مغل شہزادی روشن آراء نے روشن آرا باغ کی تعمیر کرائی، اس شہزادی کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے۔ اورنگ آبادی بیگم، بادشاہ اورنگ زیب کی بیوی تھی، اس نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں۔ اسی طرح بیگم اکبر آبادی نے اکبر آبادی مسجد کی تعمیر کرائی اور فخرُالنّساء خانم نے فخرُ المساجد بنوایا۔ تعمیرات کا شوق رکھنے والی بیگمات میں ایک تھی ماہم اتکہ، جو بادشاہ اکبر کی رضاعی ماں تھی۔ بادشاہ اس کا بے حد احترام کرتا تھا، اس نے مسجد خیرُالمنازل تعمیر کرائی تھی جو پرانا قلعہ کے سامنے واقع ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود آباد ہے۔ یہاں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تعمیرکیا گیا تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔

    امراء کی بیگمات بھی علم و فن اور مصوری، خطاطی و آرکٹکچر کا شوق رکھتی تھیں جن میں ایک نام نواب قدسیہ زمانی کا ہے۔ انھوں نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں جن میں درگاہ شاہ مرداں اور کچھ دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ یہ علم و ادب کا شوق رکھتی تھیں اور نیک کاموں میں اپنی دولت خرچ کرتی تھیں۔ عہد مغل اور اس سے قبل کی سلطنت میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی تھی جو علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتی تھیں اور اپنی دولت بھی اس کے لیے خرچ کرتی تھیں۔ ان بیگمات اور شہزادیوں میں چند نام یہ ہیں، گلبدن بیگم، گل رخ بیگم، سلیم سلطان بیگم، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء بیگم، حمیدہ بانو، گیتی آرا، سعیدہ بانو، مبارکہ وغیرہ۔

    (محقّق و مصنّف: غوث سیوانی)

  • کیا ایڈولف فریڈرک کی موت زیادہ کھانا کھانے سے ہوئی تھی؟

    کیا ایڈولف فریڈرک کی موت زیادہ کھانا کھانے سے ہوئی تھی؟

    ایک زمانہ تھا جب شاہانِ وقت کا دستر خوان قسم قسم کے پکوان اور عمدہ غذاؤں سے سجا ہوتا تھا۔ بادشاہ اور متعلقین کے سامنے ایک ہی وقت میں‌ کئی کھانے چُنے جاتے جنھیں‌ ماہر طباخ تیّار کرتے تھے۔ میرِ مطبخ یہ خوش ذائقہ اور لذیذ پکوان بادشاہ کی فرمائش اور پسند کے مطابق اپنی نگرانی میں‌ تیّار کرواتا تھا۔

    بادشاہوں کی حفاظت کے لیے جہاں ہر وقت پہرے دار ان کے ساتھ رہتے، وہیں کھانا پکانے کے مراحل کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ بادشاہ کے نہایت قریبی اور بااعتماد رفقا دسترخوان تک پہنچنے سے پہلے شاہی ملازمین کو ہر ڈش چکھنے کو کہتے اور پھر کچھ کھانا جانوروں کے آگے ڈالتے۔ اس آزمائش سے یہ جاننا مقصود ہوتا کہ کھانا زہر آلود تو نہیں‌ ہے۔ 12 فروری 1717ء کو معمول کے مطابق ایسا ہی انتظام سوئیڈن کے بادشاہ ایڈولف فریڈرک کے لیے بھی کیا گیا تھا۔

    قابلِ بھروسا باورچیوں کا تیّار کردہ کھانا آزمائش کے بعد بادشاہ کے لیے میز پر چُنا گیا تھا، جس نے بادشاہ کو اس کی زندگی سے محروم کردیا۔

    ایڈولف فریڈرک نے 1710ء میں‌ سوئیڈن کا تخت سنبھالا، اسے ایک کم زور حکم راں‌ کہا جاتا ہے، لیکن وہ بہترین شوہر، اپنی اولاد سے بے حد پیار کرنے اور ان کا خیال رکھنے والا باپ ہی شاہی ملازمین سے اچھا برتاؤ کرنے کے لیے بھی مشہور تھا۔ وہ مہمان نواز اور عوام دوست بادشاہ تھا جس کی ناگہانی موت سے خاص طور پر اس کے رفقا اور شاہی خدمت گاروں کو دلی رنج اور صدمہ پہنچا۔

    اس روز میز پر انواع و اقسام کے کھانے موجود تھے۔ بادشاہ نے جھینگا، مچھلی کی مختلف ڈشیں، مقامی اچار اور جرمنی کی ایک خاص نمکین ڈش کے علاوہ بھنا ہوا گوشت کھایا اور اس کی پسندیدہ میٹھی ڈش جسے مقامی طور پر مختلف طرح سے بنایا جاتا ہے، جو ایک قسم کی پیسٹری ہوتی ہے۔ اس دن بادشاہ نے خلافِ معمول گنجائش سے کچھ زیادہ کھا لیا تھا، اچانک اس کی طبیعت بگڑ گئی اور بسیار خوری اس کی موت کا سبب بن گئی۔

  • بکنگھم پیلس کے حوالے سے نیا انکشاف

    بکنگھم پیلس کے حوالے سے نیا انکشاف

    لندن: بکنگھم پیلس کے نسل پرست ہونے سے متعلق نئے انکشافات سامنے آ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی شاہی محل بکنگھم پیلس کے نسل پرست ہونے پر ایک بار پھر سے بحث شروع ہوگئی ہے، کچھ ایسے دستاویز سامنے آئے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1960 تک رنگ اور نسل کی بنیاد پر آفس جاب کے لیے اقلیتوں اور غیر ملکیوں پر پابندی عائد تھی۔

    دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ پیلس میں انتظامی امور کے لیے گندمی یا کالے رنگ کے ملکی اور غیر ملکی افراد کی خدمات نہیں لی جاتی تھیں، گارڈین نے ان دستاویزات کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ نسلی اقلیتوں کے افراد کا ملکہ الربتھ دوم کے لیے کام کرنا ممنوع قرار دیا گیا تھا، اور برطانیہ کے ان قوانین سے مستثنیٰ حاصل تھا جو نسل اور جنس کی تفریق کو روکتے ہیں۔

    برطانوی قومی آرکائیوز میں موجود دستاویزات کے مطابق گارڈین نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ ملکہ الزبتھ دوم کے چیف فنانشل منیجر نے 1968 میں سول حکام کو آگاہ کیا کہ شاہی گھرانے کے لیے کلرک کے کام پر رنگ دار تارکین وطن یا غیر ملکیوں کو تعینات نہیں کیا جاتا تھا۔

    تاہم ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ یہ روایت 1990 کی دہائی میں ختم ہوگئی تھی کیوں کہ پھر نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ملازمت دی جانے لگی تھی، خیال رہے کہ یہ انکشاف شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کے بکنگھم پیلس پر نسل پرستی کے الزامات کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔

    انھوں نے میزبان اوپرا وِنفرے کے ساتھ اپنے تہلکہ خیز انٹرویو میں کہا تھا کہ شاہی محل میں ان کے بیٹے آرچی کی پیدائش کے وقت سب سے زیادہ باتیں اس کے رنگ کے بارے میں ہوتی تھیں۔

    رپورٹس کے مطابق مذکورہ دستاویزات اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح بکنگھم پیلس نے متنازع شقوں پر مذاکرات کیے، کہ ملکہ برطانیہ کو نسل اور جنس کی تفریق روکنے والے قوانین سے استثنیٰ دیا جائے۔

  • دولما باغچہ محل: سلطنتِ عثمانیہ کی ایک خوب صورت یادگار

    دولما باغچہ محل: سلطنتِ عثمانیہ کی ایک خوب صورت یادگار

    ترکی کا شہر استنبول تاریخِ عالم میں حکم راںی کے مختلف ادوار اور طاقت و اختیار کے مرکز کے طور پر ہی نہیں‌، تہذیب و تمدّن اور فنون کی وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم و تاریخی آثار اور یادگاروں کے لیے بھی مشہور ہے۔

    سیروسیّاحت کے لیے مشہور اس شہر میں‌ کئی قدیم اور تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں جو اپنے دور کے طرزِ تعمیر کا شاہ کار ہیں۔ ان عمارات میں‌ کئی محلّات اور قلعے بھی شامل ہیں جو اس زمانے کے صناع اور کاری گروں کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ انہی میں ایک دولما باغچہ محل یا دولمہ باغچہ سرائے بھی شامل ہے جو 1853ء سے 1922ء تک سلطنتِ عثمانیہ کا انتظامی مرکز رہا ہے۔ یہ محل استنبول کے یورپی حصّے میں آبنائے باسفورس کے کنارے پر واقع ہے۔

    دولما باغچہ کو استنبول کا پہلا یورپی طرز کا محل کہا جاتا ہے جسے سلطان عبد المجید اوّل کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس محل کی تعمیر کا سلسلہ 1842ء میں شروع ہوا تھا، اور 1853ء میں یہ کام مکمل کیا گیا جس پر 35 ٹن سونے کی مالیت کے برابر رقم خرچ ہوئی۔صرف محل کی چھت کی سجاوٹ میں 14 ٹن سونا استعمال ہوا۔

    اس محل کے مرکزی ہال میں ایک بڑا فانوس نصب کیا گیا ہے جو برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا نے تحفتاً پیش کیا تھا۔ اس فانوس میں 750 چراغ ہیں۔ کرسٹل کا یہ فانوس 4 اعشاریہ 5 ٹن وزنی ہے۔ محل کے مختلف حصّوں میں بھی متعدد فانوس موجود ہیں‌ جو اس کا حُسن اور خوب صورتی بڑھاتے ہیں۔

    دولما باغچہ دراصل باسفورس کی ایک خلیج اور کھاڑی تھی جسے پُر کرکے شاہی باغ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس محل کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کی تعمیر ایک کھاڑی کو پُر کرکے ممکن بنائی گئی۔ دولما کا معنٰی "پُر کیا گیا” اور باغچہ سے مراد ایک چھوٹا باغ ہے جسے ہم "باغیچہ” کہتے ہیں۔

    دولما باغچہ محل کو بعد میں‌ ایک عجائب گھر کا درجہ دے دیا گیا۔ جدید ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک نے اسی محل میں اپنی زندگی کے آخری ایّام بسر کیے تھے۔

    اس محل کو ماہرینِ تعمیر غرابت امیرا بلیان اور ان کے صاحبزادے نگوگایوس بلیان نے تعمیر کیا جو آرمینیائی ترک تھے۔ اس محل کے تین بڑے حصّے ہیں جن میں اس دور کے رسم و رواج اور شاہی تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور ایک حصّہ مردوں کی رہائش گاہ، دوسرا دربار کے لیے مخصوص تھا جب کہ تیسرا سلطان کے اہلِ خانہ کی قیام گاہوں پر مشتمل ہے۔ دولما باغچہ 45 ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں 285 کمرے اور 46 درباری ہال ہیں۔

  • شہزادی ڈیانا کی برسی پر بیٹوں کا والدہ کو خراج عقیدت

    شہزادی ڈیانا کی برسی پر بیٹوں کا والدہ کو خراج عقیدت

    لندن: آنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا کو اس دنیا سے گزرے آج 23 برس ہوگئے۔ برطانوی شاہی محل کی جانب سے شہزادی کے مجسمے کی تنصیب کا اعلان کیا گیا ہے جو اگلے برس تک مکمل ہوجائے گا۔

    شہزادی ڈیانا یکم جولائی 1961 کو برطانوی گاؤں سینڈرینگھم میں پیدا ہوئی۔ ڈیانا بلاواسطہ طور پر برطانیہ کے شاہی خاندان کا ہی حصہ تھی۔ 1981 میں لیڈی ڈیانا کی شادی ولی عہد شہزادہ چارلس سے ہوئی۔

    لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کے ازدواجی تعلقات میں کچھ عرصہ بعد ہی سرد مہری آگئی جس کے بعد لیڈی ڈیانا نے اپنے آپ کو فلاحی کاموں کے لیے وقف کردیا۔ 1996 میں دونوں کی علیحدگی ہوگئی۔

    طلاق کے بعد لیڈی ڈیانا نے اپنی زندگی اسی گھر میں گزاری جہاں اس نے پرنس چارلس کے ساتھ شادی کا پہلا سال گزارا تھا۔ یہ گھر ڈیانا کی موت تک اس کا ٹھکانہ رہا۔

    طلاق کے بعد ڈیانا کا تعلق مشہور اسٹور چین ’ہیرڈز‘ کے مالک دودی الفائد سے بھی رہا۔ 31 اگست 1997 کو لیڈی ڈیانا اور الفائد پیرس میں کار کے سفر کے دوران جان لیوا حادثے کا شکار ہوئے اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن لیڈی ڈیانا اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئی۔

    ڈیانا حقیقی معنوں میں ایک شہزادی تھی۔ اس نے ساری زندگی ایک وقار اور تمکنت کے ساتھ گزاری۔ اس کے اندر ایک عام لڑکی تھی جو فطرت اور محبت سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ شاہی محل کی اونچی دیواروں میں قید تھی۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار اس نے کہا تھا، ’میں اس ملک کی ملکہ بننے کے بجائے دلوں کی ملکہ بننا پسند کروں گی‘۔

    ڈیانا کی 23 ویں برسی سے دو روز قبل ان کے بیٹوں شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری کی جانب سے شاہی محل میں والدہ کے مجسمے کی تنصیب کا اعلان کیا گیا ہے۔

    شہزادوں کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق لیڈی ڈیانا کا مجسمہ شاہی محل میں موجود اس باغ میں نصب کیا جائے گا جو اپنی زندگی میں شہزادی کو بہت پسند تھا۔

    شہزادہ ولیم اور ہیری نے مجسمہ بنانے کے لیے برطانیہ کے مایہ ناز مجسمہ ساز این رینک براڈلے کا انتخاب کیا ہے جنہوں نے ملکہ برطانیہ سمیت شاہی خاندان کے دیگر افراد کے مجسموں پر بھی کام کیا ہے۔

    اس مجسمے کی تنصیب کا اعلان سنہ 2017 میں شہزادی کی 20 ویں برسی کے موقع پر کیا گیا تھا تاہم یہ تاخیر کا شکار ہوگیا، اب یہ اگلے برس تک مکمل ہوجائے گا اور جولائی 2021 میں شہزادی ڈیانا کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر اس کی رونمائی کی جائے گی۔

  • شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن میں دوریاں بڑھنے لگیں؟

    شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن میں دوریاں بڑھنے لگیں؟

    لندن: برطانوی شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن میں دوریاں بڑھنے لگیں، جس کی وجہ بنیں کیٹ مڈلٹن کی دوست جن سے تعلقات کی ‌افواہ گردش کررہی ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں شہزادہ ولیم نے اہلیہ کی دوست روز ہینبری سے مراسم بڑھائے یہ بات شہزادہ کے ہاں تیسرے بچے شہزادہ لوئس کی پیدائش سے ایک ماہ پہلے کی ہے۔

    کیٹ مڈلٹن نے جب شوہر سے ان افواہوں کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق روز ہینبری ایک سابق ماڈل ہیں اور بڑے ٹی وی اداکار کی اہلیہ ہیں، دونوں کا گھر بھی ولیمز اور کیٹ کے گھر کے قریب واقع ہے۔

    مزید پڑھیں: کیٹ مڈلٹن ملکہ برطانیہ کے نقش قدم پر چلنے لگیں

    اس واقعے کے بعد سے شہزادی اپنی دوست روز ہینبری سے تعلقات ختم کردئیے ہیں، دوسری جانب شاہی خاندان کے وکیلوں کی جانب سے ان خبروں کو جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔

    شہزادہ ولیم کی جانب سے اس طرح کے اقدام کے بعد سے ہیری نے بھائی اور بھابی سے آؤٹنگ کے دوران دوری اختیار کرلی ہے۔

    گرجا گھر سے جب کیٹ مڈلٹن ، شہزادہ ولیم، شہزادہ ہیری اور میگھن مرکل واپس آرہے تھے کہ ہیری نے دونوں سے دوسری جانب جاکر دوری اختیار کررکھی تھی۔

    خیال رہے کہ پرنس ہیری اور میگھن مرکل کے یہاں آنے والے چند روز میں ننھے مہمان کی آمد متوقع ہے جس کو لے کر برطانوی میڈیا میں پیش گوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔

  • سعودی سیکورٹی فورسز نےشاہی محل کےقریب مشتبہ ڈرون مارگرایا

    سعودی سیکورٹی فورسز نےشاہی محل کےقریب مشتبہ ڈرون مارگرایا

    ریاض: سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سیکورٹی فورسز نے شاہی محل کے قریب اڑنے والے مشتبہ ڈرون کو مارگرایا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شاہی محل کے قریب بلا اجازت اڑنے والے مشتبہ ڈرون کو سیکورٹی فورسز نے مار گرایا۔

    ریاض پولیس کے ترجمان کے مطابق شب سات بجکر پچاس منٹ پرریاض میں خزامہ کے قریب بغیر کسی اجازت کے سیکورٹی پوائنٹ پر ڈرون کواڑتے ہوئے دیکھا گیا۔

    ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ سیکورٹی اہلکاروں نے خود کو دیے جانے والے احکامات اور ہدایات کے مطابق اپنا فرض ادا کیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سعودی افسر نے بتایا کہ اس واقعے کے وقت شاہ سلمان اپنے محل میں نہیں بلکہ دیریا میں واقع اپنے فارم میں تھے۔


    سعودی عرب میں چیک پوسٹ پرفائرنگ‘ 4 اہلکار جاں بحق

    خیال رہے کہ دوروز قبل سعودی عرب کے صوبہ عسیر میں چیک پوسٹ پرفائرنگ کے نتیجے میں 4 سیکورٹی اہلکار جاں بحق جبکہ 4 زخمی ہوگئے تھے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دہشت گردی کے خلاف 40 اسلامی ممالک کے اتحادی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت تک دہشت گردوں کا پیچھا کریں گے جب تک ان کا دنیا سے صفایا نہیں ہوجاتا۔


    سعودی عرب میں شاہی محل کے باہرفائرنگ‘ 2 رائل گارڈز جاں بحق

    واضح رہے کہ گزشتہ سال 8 اکتوبرکو جدہ میں شاہی محل کے گیٹ پرحملے میں رائل گارڈز کے 2 اہلکار جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے تھے جبکہ جوابی کارروائی میں حملہ آور بھی مارا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شہزادی ڈیانا کی یاد میں خوبصورت باغ قائم

    شہزادی ڈیانا کی یاد میں خوبصورت باغ قائم

    لندن: برطانوی شاہی محل کنگسٹن پیلس میں آنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا کی یاد میں خوبصورت باغ قائم کردیا گیا۔

    شاہی محل میں 6 باغبانوں کی ٹیم کی سرپرستی میں تیار کیے گئے اس باغ میں شہزادی ڈیانا کے پسندیدہ پھول لگائے گئے ہیں۔

    موسم سرما سے شروع کیے جانے والے اس باغ کی تیاری کا کام اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور باغ میں خوش نما، خوبصورت، لہلہاتے پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

    یہ باغ محل کے اس حصے میں قائم کیا گیا ہے جہاں اس وقت شہزادہ ولیم اپنی اہلیہ کیٹ مڈلٹن اور دو بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔

    اس حصے میں شہزادی ڈیانا اس وقت تک رہائش پذیر رہیں جب تک انہوں نے اپنے شوہر ولی عہد شہزادہ چارلس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ نہ کرلیا۔ بعد ازاں وہ اپنے آبائی گھر میں واپس چلی گئی تھیں۔

    باغ کا نام سفید باغ یعنی وائٹ گارڈن رکھا گیا ہے۔ باغ میں زیادہ تر سفید رنگ کے پھول لگائے گئے ہیں۔

    شاہی محل کے امور باغبانی کے سربراہ شان ہارکن کا کہنا ہے کہ سفید رنگ ڈیانا کی سادگی، وقار اور خوبصورتی کو ظاہر کرتا ہے۔

    شہزادی ڈیانا کے دونوں بیٹے شہزادہ ولیم اور ہیری بہت جلد یہاں اپنی والدہ کا مجسمہ نصب کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

    یاد رہے کہ لیڈی ڈیانا سنہ 1977 میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں لیکن دونوں کے تعلقات ابتدا سے ہی سرد مہری کا شکار تھے۔ سنہ 1992 میں دونوں نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    سنہ 1997 میں دنیا بھر کے افراد کی دلوں کی دھڑکن لیڈی ڈیانا صرف 36 سال کی عمر میں ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: شہزادی ڈیانا کے زندگی کے بارے میں خیالات