کراچی: ماہ رمضان میں بھی بجلی کمپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہے، شہرقائد کے کئی علاقوں میں بجلی 34 گھنٹے سے بند ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی بلاک 2،3 گرین ٹاؤن اور دیگرعلاقوں میں 34 گھنٹے سے بجلی بند ہے، متاثرہ علاقوں میں گزشتہ رات 2 بجے سے بجلی کی فراہمی معطل ہے، علاقہ مکینوں نے سحری کے بعد افطار بھی بجلی کے بغیر کیا۔
کیبل فالٹ دور کرنے، بجلی بحالی کی ڈیڈ لائن کے باوجود بحالی نہ ہوسکی، کےالیکٹرک حکام نے پہلے پیر کے روز نماز عصر پھر مغرب میں بجلی بحالی کا کہا تھا۔
گزشتہ روز سے بجلی بندش کے باعث مکینوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، مساجد میں بھی پانی کی قلت ہوگئی ہے جبکہ تراویح اور نماز کی ادائیگی میں بھی لوگوں کو مشکلات درپیش ہیں۔
پاکستان کی معروف اداکارہ صرحا اصغر نے دعویٰ کیا کہ انہیں عاصم نامی شخص نے ان کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق واقعہ یکم اگست کو پیش آیا جس اداکارہ کسی گھریلو کام سے مارکیٹ گئی تھیں، رپورٹ کے مطابق واقعہ کی ایف آئی آر ان کے شوہر کی مدعیت میں شاہ فیصل تھانے میں درج کرائی گئی ہے۔
پولیس کے دیے گئے بیان میں اداکارہ نے کہا کہ بازار سے واپس آتے ہوئے ایک آوارہ شخص میرے پیچھے لگ گیا اور آوازیں کسنے لگا۔
اداکارہ نے بیان میں کہا کہ عاصم نامی شخص نے ان کا گھر تک پیچھا کیا اور دروازے تک آپہنچا، ملزم نے میرے ساتھ دست درازی کی کوشش کی اس دوران میرے کپڑے پھٹ گئے۔
اداکارہ نے دیے گئے بیان میں کہا کہ میں نے گھر کی گھنٹی بجا کر شوہر کو بلایا، اس دوران ملزم اور میرے شوہر کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی جس کے بعد اہل محلہ کی مدد سے ملزم کو پکڑ کر تھانے لے گئے۔
ریاض : شاہ فیصل کی جانب سے 83 سال قبل پہنی گئی "دقلہ” ایک بار پھر مقبول ہوگئی ، اس پوشاک کے ساتھ سعودی فرماں روا کی ایک تصویر بھی محفوظ ہے۔
تفصیلات کے مطابق ریاض میں گھوڑوں کی ریس کے بین الاقوامی مقابلہ "سعودی کپ” میں شہزادہ بندر بن خالد الفیصل "الدقلہ” زیب تن کرنے کے سبب لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
اس ڈیزائن کی دقلہ شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے 1939ء میں پہنی تھی اور اس پوشاک کے ساتھ سعودی فرماں روا کی ایک تصویر بھی محفوظ ہے۔
سعودی ڈیزائنر ایمن راغبی نے عرب میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دقلہ سرکاری اور پر مسرت مواقع پر پہنی جاتی ہے، جس میں شادی کی تقریبات اور عید کے تہوار وغیرہ شامل ہیں۔
ایمن راغبی نے بتایا کہ یہ لباس جب جزیرہ عرب میں آیا تو اس کی لمبائی گھٹنے تک تھی لیکن پھر مقامی رواج اور شدید سردی کے باعث اس کی لمبائی ٹخنوں تک کردی گئی تھی۔
سعودی ڈیزائنر نے دقلہ کی تیاری کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا دقلہ کی تیاری میں عموما Jacquard اور Shanton سلک کے کپڑے کا استعمال کیا جاتا ہے اور موقع کی مناسبت اور دقلہ پر پہننے والے کی خواہش کے مطابق کڑھائی بھی کی جاتی ہے۔
خیال رہے دقلہ سعودی عرب میں مردوں کا معروف لباس ہے اور اس کو نت نئے ڈیزائنوں کے ساتھ پیش کیے جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ریاض: سعودی عرب کے شہر حقل میں ہوائی جہاز کے لیے پہلی بار رن وے ایک مریضہ کے لیے بنایا گیا تھا جس کے لیے سابق سعودی فرمانروا شاہ فیصل نے خصوصی اجازت دی تھی۔
سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں پہلی مرتبہ فضائی ایمبولینس کے لیے تبوک ریجن کی کمشنری حقل میں ہنگامی رن وے بنایا گیا تھا، شاہ فیصل نے پہلی بار سعودی عرب میں فضائی ایمبولینس کے ذریعے مریضہ کو لانے کی اجازت دی تھی۔
سعودی مورخ عبد اللہ العمرانی نے ایک مقامی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سنہ 1960 کی دہائی میں ایک مریضہ کو جو تپ دق میں مبتلا تھی حقل لایا گیا تھا۔
اس وقت حقل پولی کلینک کے ڈاکٹر محمد جلال الدین احمد نے کہا تھا کہ خاتون کی حالت نازک ہے اور اسے گاڑی کے بجائے ایمبولینس سے منتقل کیا جائے، اس زمانے میں سینے کے امراض کا قریبی ترین اسپیشلسٹ اسپتال طائف میں تھا۔
ڈاکٹر محمد جلال کو جدہ سے پیغام دیا گیا کہ بیمار خاتون کو ہوائی جہاز سے منتقل کرنے کا اسے اختیار نہیں، اس کا فیصلہ علاقے کے گورنر ہی کر سکتے ہیں جو اس وقت شاہ فیصل بن عبدالعزیز تھے۔
شاہ فیصل نے خاتون کی بیماری کی اطلاع ملتے ہی اسے فضائی ایمبولینس کے ذریعے حقل سے طائف منتقل کرنے کا حکم جاری کردیا، فضائی ایمبولینس کا سہارا اس لیے لیا گیا کیونکہ اس وقت تک حقل میں طیاروں کے اترنے کے لیے رن وے نہیں تھا۔
نازک صورتحال کے پیش نظر فوجیوں اور حقل کے باشندوں نے مل کر فضائی ایمبولینس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر رن وے کا انتظام کیا اور اس طرح بیمار خاتون کو سینے کے امراض کے طائف اسپتال پہنچا دیا گیا۔
پاکستان اور سعوی عرب کے درمیان طویل عرصے سے برادرانہ مراسم قائم ہیں ، ملت اسلامیہ کے رشتے میں جڑے پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔
سعودی عرب کا شماران چند ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی ہے بلکہ پاک بھارت جنگوں میں پاکستان کی باقاعدہ مدد بھی کی ہے۔
[bs-quote quote=”پاکستان اور سعودی عرب ابتدا سے برادرانہ تعلقات کے رشتے میں بندھے ہیں” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]
سعودی عرب کے مقبول ترین بادشاہ ، شاہ فیصل کے دور میں پاک سعودی تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔
اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل کالونی کہلاتی ہے اور اسی کی نسبت سے کراچی کے ایک ٹاؤن کا نام شاہ فیصل ٹاؤن ہے۔
سنہ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا، جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔
شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب میں پاکستان کی مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا، جبکہ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب میں بھی سعودی عرب کی جانب سے خطیر امداد بھجوائی گئی۔1971 ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔
سعودی عرب کی بھرپور حمایت اور کوشش سے پاکستان نے سنہ 1974 میں او آئی سی کے دوسرے اجلاس کی لاہور میں میزبانی کی۔
سویت یونین نے جب افغانستان میں جنگ چھیڑی تو پناہ گزینوں کا سیلاب پاکستان میں امڈ آیا۔ سعودی عرب نے ان پناہ گزینوں کی معاونت کے لیے بھرپور مالی امداد فراہم کی۔
جب پاکستان نے نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت ساری مغربی دنیا پاکستان کی مخالف ہوگئی تھی لیکن سعودی عرب سفارتی میدان میں پاکستان کے
ساتھ کھڑا رہا، اور ساتھ ہی ساتھ مالی امداد بھی جاری رکھی۔ ایک سال تک 50 ہزار بیرل یومیہ تیل موخر ادائیگی کی بنیاد پر دیا گیا۔
پاکستان کے لیے ترسیلات کے اعتبار سے سعودی عرب سب سے بڑا ملک ہے۔ سال 2017-18 میں پاکستانیوں نے 4.8 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجی تھیں ، جو کہ کل ترسیلاتِ زرکا 29 فیصد حصہ ہے۔
اس وقت پاکستان میں سعودی عرب کی 25 کمپنیاں پاکستان میں کام کررہی ہیں۔ دوسری جانب 350 پاکستانی سرمایہ کار سعودی جنرل انویسٹمنٹ اتھارٹی کے ساتھ رجسٹر ہیں۔
[bs-quote quote=”ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد پر پاکستان کے ساتھ 20 ارب کے معاہدے متوقع ہیں” style=”style-7″ align=”right”][/bs-quote]
اس وقت 1680 پاکستانی فوجی سعودی عرب میں شاہی افواج کو تربیت فراہم کررہے ہیں جبکہ 1460 فوجی سعودی عرب کی جانب سےاجازت کےمنتطر ہیں۔ دریں اثناء سعودی عرب کے 77 ملٹری کیڈٹ ، پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ٹریننگ لے رہے ہیں۔
سعودی حکومت کے پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت سے بے مثال تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب گئے تو وہا ں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس موقع پرسعودی حکومت نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو تین ارب ڈالر ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کے لیے دیے۔ دوسری جانب تین سال تک ہر سال تین ارب ڈالر مالیت کا تیل موخرادائیگی پر فراہم کرنےکا وعدہ بھی کیا ہے۔
سعودی ولی عہد اس ہفتے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں اور ولی عہد کا منصف سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ اس موقع پر اسلام آباد میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد کے اس دورے پر سعودی اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف بھی اسلا م آباد موجود ہیں۔
سعودی عرب نے پاکستان کو دیامر بھاشا، مہمند ڈیم منصوبوں کے لئے فنڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے، دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 37 کروڑ 50 لاکھ سعودی ریال فراہم کئے جائیں گے جبکہ مہمند ڈیم کیلئے 30 کروڑ ریال ملیں گے، سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان میں ایم او یو پر دستخط ہوں گے۔
سعودی ولی عہد کے دورے میں بجلی کے 5 منصوبوں کیلئے ایک ارب 20کروڑ 75 لاکھ ریال کے ایم او یو پر دستخط ہوں گے، سعودی عرب کی جانب سے جامشورو پاور پراجیکٹ کیلئے 15 کروڑ 37 لاکھ ریال، جاگران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 13 کروڑ 12 لاکھ ریال اور شونتر منصوبے کیلئے 24 کروڑ 75 لاکھ ریال فراہم کئے جائیں گے۔
محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے شہر گوادر میں آئل ریفائنری سمیت مجموعی طور پر بیس ارب کے معاہدے متوقع ہیں۔