Tag: شاہ لطیف

  • کراچی : بریف کیس سے ملنے والی لاش کس کی تھی؟ 72 گھنٹے کے اندر معمہ حل

    کراچی : بریف کیس سے ملنے والی لاش کس کی تھی؟ 72 گھنٹے کے اندر معمہ حل

    کراچی : شاہ لطیف میں بریف کیس سے ملنے والی لاش کا معمہ 72 گھنٹے کے اندر حل کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں شاہ لطیف کے علاقے سے جمعہ کے روز بریف کیس سے مرد کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔

    جس کے بعد 72 گھنٹے کے اندر شاہ لطیف پولیس نے اندھے قتل کا معمہ حل کرتے ہوئے قتل میں ملوث خاتون کو آشنا سمیت گرفتارلیا ہے۔

    گرفتارملزمان سے آلہ قتل ہتھوڑا اور واردات میں استعمال دستانہ بھی برآمد ہوا۔

    پولیس حکام نے بتایا کہ انتہائی پیچیدہ کیس تھا، گرفتار ملزم مولا بخش چانڈیو اور ملزمہ علیزہ نے اہم انکشافات کیے ہیں۔

    جس میں بتایا گیا کہ علیزہ نے اپنے محبوب سیکیورٹی گارڈ مولابخش سے اپنے پرانے محبوب بس کنڈکٹر عاشق کو قتل کروایا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ چار مہینے پہلے رانی پور کی بس میں کنڈیکٹر آصف کی علیزہ سے دوستی ہوئی تھی، علیزہ سے ملنے کے لیے کنڈیکٹر آصف دو سے تین مرتبہ آیا تھا، قتل میں ملوث علیزہ کا شوہر بھی سیکیورٹی گارڈ جو قاتل مولا بخش چانڈیو کے ساتھ ڈیوٹی کرتا تھا۔

    حکام نے بتایا کہ ایک ماہ پہلے مولا بخش علیزہ کے شوہر سے ملنے گھر آیا تو اس کی دوستی علیزہ سے ہوگئی تھی، اسی دوران مولا بخش کو آصف سے دوستی کا بھی پتہ چلا تو اس کو برا لگا کہ اصف اس سے کیوں ملتا ہے، جس کے بعد سفاک قاتل نے علیزہ سے فون کر کے آصف کو بلوایا۔

    آصف مٹھائی اور پھول لے کر خوشی خوشی ملنے آگیا، اسی دوران کمرے میں چھپے مولا بخش چانڈیو نے آصف کے سر پر داستانہ پہن کر ہتھوڑے مارے جبکہ علیزہ نے اپنا دوپٹہ اتار کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور آصف کا گلا دوپٹے سے گھوٹنے میں مدد کی، قتل کے بعد آصف کی جانب سے لائی گئی مٹھائی میں سے علیزہ نے برفی کھائی جبکہ باقی مٹھائی مولابخش چانڈیو لے گئے جو اس کے بچوں نے کھائی۔

    لاش ٹھکانے لگانے کے لیے 300 روپے میں رکشہ لیا گیا اور سیکٹر 21 میں لاش کو جنگل کے قریب پھینکا گیا۔

    پولیس نے ٹیکنیکل طریقہ کار سے انتہائی پیچیدہ اندھے قتل کا مقدمہ 72 گھنٹے میں حل کیا تاہم مزید کارروائی جاری ہے۔

  • کراچی سے ایک اور شہری ہنی ٹریپ کا شکار ہو گیا، تاوان کی ویڈیو بھیجی گئی

    کراچی سے ایک اور شہری ہنی ٹریپ کا شکار ہو گیا، تاوان کی ویڈیو بھیجی گئی

    کراچی: شہر قائد سے ایک اور شہری ہنی ٹریپ کا شکار ہو گیا ہے، جس کی رہائی کے لیے تاوان کی ویڈیو بھی اہل خانہ کو بھیجی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ لطیف کے رہائشی اللہ یار کو کشمور میں ہنی ٹریپ کیا گیا ہے، مغوی کے بھائی کی مدعیت میں تھانہ شاہ لطیف میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔

    مغوی کے بھائی نے رپورٹ لکھوائی کہ ان کا بھائی 18 دسمبر سے لاپتا ہے، اب ڈاکوؤں نے ویڈیو جاری کی ہے اور بھائی کی رہائی کے لیے 50 لاکھ روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل بھی کراچی کے 3 نوجوان کچے کے ڈاکؤوں کے جھانسے میں آ کر ہنی ٹریپ کا شکار ہو گئے تھے، اغوا ہونے والے نوجوانوں کی زنجیروں میں بندھی ویڈیو بھی اہل خانہ کو بھیجی گئی تھی، ان میں 2 آپس میں کزن تھے، اغوا کا مقدمہ کراچی کے تھانہ رضویہ سوسائٹی میں درج کیا گیا ہے۔

    کراچی سے اغوا تین نوجوانوں کی زنجیروں سے بندھی ویڈیو اہلخانہ کو موصول

    ہنی ٹریپ کے شکار ان نوجوانوں کی بازیابی کے سلسلے میں تاحال پولیس کی جانب سے پیش رفت کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی ہے، مغوی نوجوان وحید آباد گلبہار کے رہائشی ہیں، اور آن لائن صوفہ کارپٹ کلیننگ کا کام کرتے تھے، جن کی رہائی کے عوض ڈاکو 20 لاکھ روپے فی کس تاوان مانگ رہے ہیں۔

    ہنی ٹریپ ہونے والے تینوں نوجوان 2 جنوری کی شب کراچی سے بس کے ذریعے گھوٹکی روانہ ہوئے تھے۔

  • 31 دسمبر کو شاہ لطیف میں قتل ہونیوالی خاتون کی شناخت ہوگئی

    31 دسمبر کو شاہ لطیف میں قتل ہونیوالی خاتون کی شناخت ہوگئی

    کراچی: سال 2024 کے آخری دن 31 دسمبر کو شاہ لطیف میں فائرنگ سے قتل ہونیوالی خاتون کی شناخت ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق 31 دسمبر کو مقتولہ کو نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کیا اور فرار ہوگئے تھے، پولیس حکام نے اس واقعے سے متعلق کہا تھا کہ مقتولہ کے پاس سے 16ہزار روپے کی رقم برآمد ہوئی تھی۔

     لیکن کوئی شناختی دستاویزات اور موبائل فون نہیں ملا اور جس مقام پر قتل ہوا اس کے اطراف کوئی سی سی ٹی وی کیمرا موجود نہیں تھا۔

    تاہم اب پولیس کا کہنا ہے کہ قتل ہونیوالی خاتون کی شناخت ذکیہ کے نام سے ہوئی ہے جبکہ اس کے قتل میں شوہر کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

    کراچی : 19 سالہ لڑکی کو قتل کرنے والے کون تھے؟ پولیس نے اہم فیصلہ کرلیا

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خاتون کا دوسرا شوہر میانداد واقعے کے بعد سے فرار ہے، دوسرے شوہر نے خاتون کی گمشدگی یا ہلاکت پر پولیس کو اب تک آگاہ بھی نہیں کیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون نے بھاگ کر دوسری شادی کی تھی، دوسرے شوہر نے مقتولہ کو بچوں کیساتھ شکارپور چلنے کا کہا تھا لیکن ذکیہ نے اپنے دوسرے شوہر کو شکار پور جانے سے انکار کردیا تھا۔

    پولیس نے مزید کہا کہ مقتولہ کے دوسرے شوہر نے خاتون کو قتل کیا اور فرار ہوگیا، پولیس نے ملزم کی تلاش شروع کردی ہے اور خاتون کی لاش شکارپور روانہ کردی۔

  • افغان ڈاکو قسمت خان کے بیان پر پولیس اہلکار اویس تنولی معطل (ملزمان کے ٹک ٹاک ویڈیوز)

    افغان ڈاکو قسمت خان کے بیان پر پولیس اہلکار اویس تنولی معطل (ملزمان کے ٹک ٹاک ویڈیوز)

    کراچی: شہر قائد کے علاقے شاہ لطیف سے گرفتار افغان ڈکیت گروہ کے رکن قسمت خان کے بیان کے بعد پولیس حکام نے ایکشن لیتے ہوئے اہلکار اویس تنولی کو معطل کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شاہ لطیف پولیس نے سیکٹر 22 میں ’گپ شپ ہوٹل‘ سے تین ملزمان فضل، قسمت خان اور اعظم حسین کو خفیہ اطلاع پر گرفتار کر کے ان کے قبضے سے 2 پستول، 5 موبائل فونز اور موٹر سائیکل برآمد کی تھی۔ ملزمان ہوٹل پر کھانا کھانے کے لیے پہنچے تھے کہ پولیس بھی پہنچ گئی، جنھیں دیکھ کر ملزمان نے فرار ہونے کی کوشش کی۔

    دوران تفتیش ملزمان نے اہم انکشاف کیے اور بتایا کہ وہ افغان باشندے ہیں اور افغان ڈکیت گروہ بنا رکھا ہے، جو کراچی پولیس کے لیے نفرت رکھتے ہیں، اور پاکستان مخالف ٹک ٹاک بناتے ہیں۔ مرکزی ملزم قسمت خان نے بتایا کہ اس کا تعلق افغان علاقے غزنی کٹاواز سے ہے، اس نے انکشاف کیا کہ ’’اس نے ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے لیے کلاشنکوف اویس نامی پولیس اہلکار سے لی تھی، اویس عوامی کالونی تھانے میں تعینات ہے۔‘‘

    اس بیان کے بعد ایس ایس پی کورنگی نے پولیس اہلکار اویس تنولی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے معطل کر دیا، اور اس کے خلاف انکوائری کا بھی حکم دے دیا، پولیس حکام کے مطابق اہلکار اویس تنولی عوامی کالونی تھانے کی چوکی پر تعینات ہے، اور بھینس کالونی چوکی پر ڈیوٹی دیتا ہے، ملزم نے اویس کے سرکاری کلاشنکوف سے ٹک ٹاک بنائی تھی۔

    پولیس حکام کے مطابق شاہ لطیف سے گرفتار ڈکیت کئی سالوں سے کراچی میں رہائش پذیر ہیں، فضل کا تعلق افغان صوبے پکتیا سے ہے، جب کہ اعظم حسین کے مطابق وہ مانسہرہ کا رہائشی ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق ملزمان کراچی شہر سمیت اندرون سندھ میں ہونے والی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیں، ملزمان نے حافظ سوئٹس پر 37 لاکھ کی ڈکیتی کی تھی، جس میں ان کا ایک ساتھی اعظم گرفتار بھی ہوا تھا، ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی کے مطابق ملزمان کے موبائل فون سے اشتعال انگیز مواد برآمد ہوا ہے، جس سے پتا چلا ہے کہ ملزمان کراچی پولیس کے لیے شدید نفرت رکھتے ہیں۔

    ایک ویڈیو میں افغان ڈاکو اپنے ہی ساتھی کو پولیس یونیفارم پہنا کر بدترین تشدد کرتے ہوئے ٹک ٹاک بنا رہے ہیں، دوسری ویڈیو میں افغان ڈاکو قسمت خان پاکستان مخالف باتیں کر رہا ہے، تیسری ویڈیو میں ملزمان ہتھکڑی اور پستول لے کر ناچ رہے ہیں، چوتھی ویڈیو میں قسمت خان کلاشنکوف کے ہمراہ ٹک ٹاک بنا رہا ہے۔

    گرفتار ملزم کی ڈیفنس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، ویڈیو میں ملزم کو سڑک پر گاڑیاں روک کر لوٹ مار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ملزمان کی گرفتاری کی ویڈیو بھی سامنے آ گئی ہے، جس میں پولیس اہلکار ہوٹل پہنچنے والے ڈاکوؤں کو گرفتار کر کے پولیس موبائل میں بٹھا رہے ہیں۔

  • کراچی: شاہ لطیف میں شہری کی فائرنگ سے 2 ڈاکو ہلاک

    کراچی: شاہ لطیف میں شہری کی فائرنگ سے 2 ڈاکو ہلاک

    کراچی: شہر قائد کے علاقے شاہ لطیف میں شہری کی فائرنگ سے 2 ڈاکو ہلاک ہوگئے، جائے وقوعہ سے 2 پستول قبضے میں لے لیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ لطیف میں ڈکیتی کے لیے گھر میں داخل ہونے والے دونوں ڈاکو شہری کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔

    ایس ایس پی ملیر کا کہنا ہے کہ دونوں ڈاکو ڈکیتی کے لیے شہری کے گھرمیں داخل ہوئے تھے، فائرنگ کر نے والا شہری پیشے سے ایڈووکیٹ ہے۔

    ایس ایس پی کے مطابق ہلاک ڈاکوخمیسو، شہزور کا تعلق شکارپور سے تھا، جائے وقوعہ سے 2 پستول قبضے میں لے لیے گئے، پولیس نے شہری کی پستول بھی تحویل میں لے لی۔

    کراچی میں پولیس مقابلہ، اہلکار شہید، 2 ڈاکو ہلاک

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے کراچی میں ناظم آباد کےعلاقےعیدگاہ میں موٹرسائیکل لفٹرزسے مقابلےمیں اہلکارذیشان شہید جبکہ دو ڈاکو موقع پر ہی مارے گئے تھے۔

    ایس ایس پی کے مطابق ہلاک ملزمان خضدار کے رہائشی تھے، اسلحہ برآمد ہوا، ملزمان کا گروہ 6 افراد پر مشتمل ہے۔

    کراچی، رینجرز کی مختلف علاقوں میں کارروائیاں، 16 ملزمان گرفتار

    واضح رہے کہ 19 ستمبر کو رینجرز نے کراچی کے مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے 16 ملزمان کو گرفتار کرکے اسلحہ اور منشیات برآمد کی تھی۔

  • شاہ لطیف میں پولیس مقابلہ، ایک ڈاکو گرفتار، دوسرا فرار، بیکری میں  ایک ماہ میں دوسری ڈکیتی

    شاہ لطیف میں پولیس مقابلہ، ایک ڈاکو گرفتار، دوسرا فرار، بیکری میں ایک ماہ میں دوسری ڈکیتی

    کراچی : شاہ لطیف میں پولیس اور ڈاکوؤں میں فائرنگ کے تبادلہ کے بعد ایک ڈاکو گرفتار کرلیا گیا، ملزم کا ساتھی فرار ہوگیا، جبکہ یونیورسٹی روڈ پر بیکری میں ایک ماہ میں دوسری ڈکیتی کا واقعہ پیش آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ لطیف میں پولیس نے سو سے زائد وارداتوں میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا جبکہ اس کا ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا جس کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں ۔

    پولیس نے گرفتار ملزم سے اسلحہ برآمد کرکے ملزمان کیخلاف پولیس پر فائرنگ و دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ اس حوالے سے ایس ایس پی ملیر کا کہنا ہے کہ ملزم مے سو سےزائد ڈکیتی وارداتوں کا اعتراف کرلیا ہے۔
    دوسری جانب یونیورسٹی روڈ پر بیکری میں ایک ماہ میں دوسری ڈکیتی کا واقعہ پیش آیا ہے، واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج اے آر وائی نیوز کو حاصل ہوگئی ہے۔

    فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈاکو موٹرسائیکل پر پہنچے، ایک بیکری کے اندر داخل ہوا، ڈاکو اطمینان سے بیکری کے کیش کاؤنٹر سے رقم نکالتا رہا، واردات کے بعد دونوں ڈاکو باآسانی فرار ہوگئے، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دونوں ملزمان کے چہرے واضح ہیں۔

  • راگ لطیفی ۔ محبت کا فیض آج بھی جاری ہے

    راگ لطیفی ۔ محبت کا فیض آج بھی جاری ہے

    شام کا وقت تھا، بھٹ شاہ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کی درگاہ زائرین سے بھری ہوئی تھی۔ لوگ اپنی اپنی منتیں اور دعائیں لیے درگاہ کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے عقائد کے مطابق محو عبادت تھے۔ کوئی سائیں لطیف کی ضریح کی جالیوں سے سر ٹکائے اپنی ناتمام حسرتوں کے پورا ہونے کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ کوئی حجرے کے باہر سر جھکائے، ہاتھ پھیلائے کسی معجزے کے انتظار میں تھا۔ ایسے میں شاہ لطیف کے طنبورے کی تان اور شاہ کا سر ہوا کی دوش پر لہرا رہا تھا۔ کوئی عورت ان عورتوں کی انتظار اور حسرت اپنے گیت میں بیان کر رہی تھی جن کے ملاح شوہر انہیں چھوڑ کر لمبے سفر پر جاچکے تھے، اور اب ان عورتوں کے پاس صرف واپسی کا انتظار تھا اور جدائی کا دکھ جو انہیں ادھ موا کیے ہوئے تھا۔

    یہ آواز شاہ لطیف کی درگاہ کے سامنے نو تعمیر شدہ ریزورٹ سے ابھر رہی تھی جہاں ایک طویل عرصے بعد چند خواتین شاہ کا کلام گا کر اور ان کا ایجاد کردہ طنبورہ بجا کر حاضرین کو انگشت بدنداں کیے ہوئے تھیں۔


    سُر کا مطلب ہے ’میٹھی شے‘۔ سُروں کے مجموعے کو راگ کہتے ہیں جس میں سُر بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ شاہ لطیف اپنے راگوں میں محبت کی لازوال داستانوں کے کردار سوہنی، سسی، مومل، رانو، سورٹھ، نوری، لیلیٰ اور مارئی (ماروی) کو ’سورمی‘ قرار دیتے ہیں جس نے اپنی جرات اور ہمت کی بے مثال داستان رقم کی ہو۔


    شاہ کا کلام گانے والی ان 4 نو عمر خواتین میں سے 3 تو صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک تائیوان سے آئی تھی جس کا نام پی لنگ ہنگ تھا۔

    لوک روایات کے مطابق راگ لطیفی گانے والی پہلی عورت مائی جیواں تھی۔ مائی جیواں اب سے ڈیڑھ سو سال قبل گجرات کے علاقے بھوج کے ایک راگی نہال فقیر کی بیوی ہوا کرتی تھی۔ نہال فقیر خود بھی شاہ لطیف کے درگاہ کا راگی تھا اور لطیفی راگ گایا کرتا تھا۔

    مائی جیواں بیٹے کی پیدائش کی منت لے کر شاہ لطیف کی درگاہ پر آئی اور اس نے منت مانگی کہ بیٹا ہونے کے بعد وہ 7 جمعوں تک درگاہ پر آ کر راگ گایا کرے گی۔ خدا نے اسے بیٹے سے نوازا جس کے بعد وہ راگ لطیفی سیکھ کر اپنی منت کے مطابق 7 جمعوں تک درگاہ پر راگ گاتی رہی

    اس کے ڈیڑھ سو سال بعد شاہ کا کلام ایک بار پھر خواتین کی آواز میں فضا میں گونج رہا تھا۔


    تائیوان سے بھٹ شاہ تک

    شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری نے صرف مقامی افراد کو ہی نہیں، بلکہ مذہب، علاقے اور خطے سے قطع نظر ہر شخص کو متاثر کیا تھا جس کا ثبوت تائیوان سے آنے والی طالب علم پی لنگ ہانگ تھیں جو لطیفی راگ پر تھیسس لکھ رہی ہیں۔

    پی لنگ ہانگ تائیوان نیشنل یونیورسٹی سے ثقافتی موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ سنہ 2012 میں انہوں نے لاہور میں ہونے والے صوفی فیسٹیول میں شرکت کی۔ یہیں ان کا پہلا تعارف لطیفی راگ سے ہوا۔ بعد ازاں 2014 میں انہوں نے بھٹ شاہ کا دورہ کیا اور درگاہ پر پہلی بار شاہ کا راگ سنا۔ اس کے بعد اپنے ریسرچ پروجیکٹ کے دوران بھی لطیفی راگ بار بار ان کی نظر سے گزرا۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جتنا زیادہ میں شاہ لطیف کی شاعری پڑھتی گئی، اتنی ہی زیادہ اس کی خوبصورتی اور معنویت مجھ پر وا ہوتی گئی‘۔ بالآخر انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع راگ لطیفی چنا جس کے لیے وہ پاکستان آگئیں۔ یہاں وہ راگ لطیفی سیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک دستاویزی صورت میں محفوظ کر رہی ہیں جس میں درگاہ کے فقیروں اور دیگر متعلقہ افراد کے انٹرویو شامل ہیں۔

    ہانگ بتاتی ہیں کہ وہ سیاحت کی بے حد شوقین ہیں اور کئی ممالک کی سیاحت کرچکی ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اپنے پروجیکٹ کے لیے وہ کافی عرصے سے صوبہ سندھ میں مقیم ہیں جو ان کے لیے مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار تجربہ بھی ہے۔

    ہانگ کو سندھ کے لوگوں کی مہمان نوازی نے بے حد متاثر کیا۔ انہیں یہاں کا خاندانی نظام بھی بہت بھایا جس میں لوگ دن کا کچھ حصہ اہل خانہ اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ضرور گزارتے ہیں۔


    شاہ کی سورمیوں سے متاثر باپ

    راگ لطیفی گانے والی ان لڑکیوں کے استاد منٹھار فقیر ہیں جو شاہ لطیف کی درگاہ کے راگی ہیں۔ شاہ کا کلام سیکھنے والی غلام سکینہ اور صابرہ انہی کی بیٹیاں ہیں۔

    منٹھار فقیر کی بیٹیوں کا راگ سیکھنا نہ صرف ان نوعمر لڑکیوں کا شوق تھا بلکہ یہ خود منٹھار فقیر کا بھی خواب تھا جس کی تکمیل انہوں نے اپنی بیٹیوں کو یہ خوبصورت راگ سکھا کر کی۔ وہ اپنی برادری میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کے شوق کو اس قدر اہمیت دی اور اس کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیا۔

    شاہ لطیف کی شاعری میں 7 عورتوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں شاہ لطیف ’سورمیاں‘ کہتے ہیں۔ سورما یا سورمی ایسی شخصیت ہے جو غیر معمولی ہو اور ایسے کارنامے انجام دے جو کوئی عام انسان نہیں دے سکتا۔ یہ سورمیاں محبت کی لازوال داستانوں کے کردار سوہنی، سسی، مومل، رانو، سورٹھ، نوری، لیلیٰ اور مارئی (ماروی) ہیں۔

    شاہ لطیف نے اپنے کچھ سروں کے نام بھی ان سورمیوں کے نام پر رکھے ہیں جن میں وہ ان عظیم عورتوں کی خوبیاں اور حیران کن کارنامہ سناتے ہیں۔ جیسے سوہنی مہینوال کی سوہنی آدھی رات کو دریا پار کر کے اپنے محبوب سے ملنے جایا کرتی تھی، تو اس کی کہانی بیان کرتے سر کا نام بھی سوہنی ہے جبکہ اسے گایا بھی آدھی رات کے بعد جاتا ہے۔

    استاد منٹھار فقیر کہتے ہیں کہ جس طرح سائیں لطیف نے 7 عورتوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی، اسی طرح وہ بھی اپنی زندگی میں 7 عورتوں کو راگ لطیفی سکھانا چاہتے ہیں۔ ’اب تک 4 کو سکھا چکا ہوں، مزید 3 کو سکھانا چاہتا ہوں‘۔

    منٹھار فقیر کا ماننا ہے کہ اب سے کئی صدیاں قبل مائی جیواں نے اپنی منت پوری کرنے کے لیے شاہ کا راگ گایا۔ ’پر تائیوان سے آنے والی یہ بچی شاہ کی موسیقی کی محبت میں اپنا وطن چھوڑ کر یہاں آئی ہے اور اجنبی دیس میں اس صوفی کا کلام سیکھ رہی ہے جس کی موسیقی نے تمام مذاہب کے لوگوں کو محبت کی زنجیر میں باند رکھا ہے‘۔


    لطیفی راگ سیکھنے والی بتول کا کہنا ہے کہ اس کے مضامین میں تاریخ کا مضمون بھی شامل ہے جس میں اس نے مائی جیواں کے بارے میں پڑھا۔ اسے شاہ لطیف کی شاعری بھی بہت پسند تھی اور اس کی معنویت اور گہرائی کو سمجھنے کے لیے اس نے لطیفی راگ سیکھنے کا فیصلہ کیا۔

    کسی خاتون کا درگاہ پر بیٹھ کر راگ گانا ایک غیر معمولی شے تھی جس پر ان خواتین کو مثبت اور منفی دونوں تاثرات ملے۔ کچھ افراد نے ان کے شوق پر ناگواری کا اظہار کیا، جبکہ کچھ نے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ ’جب آپ کسی چیز کے لیے جنونی ہوجاتے ہیں تو پھر آپ کے لیے تعریف یا تنقید بے معنی ہوجاتی ہے۔ آپ صرف اپنا جنون پورا کرنا چاہتے ہیں‘۔

    شاہ لطیف کی درگاہ کے سامنے قائم مدن فقیر ریزورٹ میں میوزک اسکول بھی قائم کیا گیا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ اسے جامشورو کی مہران یونیورسٹی سے منسلک کردیا جائے تاکہ موسیقی کے شائق اسے سیکھ کر باقاعدہ ڈگری بھی حاصل کرسکیں۔

    شاہ کا راگ سیکھنے والی بتول، غلام سکینہ، صابرہ اور تائیوان کی طالب علم پی لنگ ہانگ اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ سندھ کے صوفیائے کرام کا پیغام محبت کا عالمی پیغام ہے اور اگر اس کی معنویت کو سمجھا جائے تو دنیا سے نفرت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔