Tag: شاہ نصیر

  • شاہ نصیرؔ: کلاسیکی دور کا ممتاز شاعر

    شاہ نصیرؔ: کلاسیکی دور کا ممتاز شاعر

    اردو کے کلاسیکی شعراء میں شاہ نصیرؔ نے اپنے جوہرِ سخن اور طبعِ رواں کے سبب بڑا نام پایا۔ شاہ نصیر نے سنگلاخ زمینوں اور مشکل قوافی میں شعر کہے، لیکن ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول ہوا۔ شاہ نصیر زبان و بیان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔

    آج شاہ نصیر کا یومِ وفات ہے۔ 1837ء میں شاہ نصیر نے حیدر آباد دکن میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

    کہتے ہیں‌، شاہ نصیر کی آواز پاٹ دار تھی۔ مشاعروں میں وہ سامعین سے خوب داد پاتے تھے۔ شاہ نصیر جب تک دہلی میں رہے وہاں کی ادبی مجلسوں اور مشاعروں کی جان رہے اور ہر طرف ان کی شعر گوئی کا چرچا ہوتا تھا۔ شاہ نصیر بڑے طباع اور زود گو تھے۔ ان کا شمار جلد ہی اُستاد شعراء میں ہونے لگا تھا۔

    شاہ نصیر کا سنہ پیدائش معلوم نہیں ہوسکا اور ان کے وطن یا جائے پیدائش پر بھی تذکرہ نگاروں میں اختلاف ہے، تاہم اکثریت کا خیال ہے کہ شاہ نصیر دہلی کے رہنے والے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے تذکرے میں‌ لکھا ہے کہ شاہ نصیر کا نام محمد نصیر الدّین تھا اور عرفیت میاں کلّو۔ انھوں نے لکھا ہے کہ رنگت کے سیاہ تھے، اسی لیے ’’میاں کلّو‘‘ کہلائے۔

    کہتے ہیں‌ کہ شاہ نصیر کے والد شاہ غریب (شاہ غریب اللہ) ایک خوش طینت و نیک سیرت بزرگ تھے۔ شہر کے رئیس اور دیگر لوگ ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ دنیا سے دور اور گوشۂ عافیت میں رہے۔ ان کی وفات شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے عہد میں ہوئی۔ ان کے بیٹے شاہ نصیر نے دہلی میں بطور شاعر خوب شہرت پائی۔

    تذکرہ نویس لکھتے ہیں‌ کہ شاہ نصیر زبان و بیان کے ماہر تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نامانوس اور مشکل قوافی کے ساتھ لمبی ردیفوں میں غزلیں کہی ہیں۔ اس کے باوجود ان کی شاعری مقبول ہوئی اور ان کے اسلوب کو دل نشیں کہا جاتا ہے۔ شاہ نصیر کی غزلوں میں تشبیہ اور استعارے سے خوب چاشنی پیدا ہوگئی ہے۔

    شاہ نصیر کے بارے میں تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ جن سنگلاخ زمینوں میں یہ دو غزلے کہتے دوسروں کو غزل پوری کرنا مشکل ہوتی۔ نصیرؔ ایک زبردست شاعر تھے۔ مشکل ردیف قافیے میں بغیر تشبیہ و استعارے کے بات نہیں بنتی، لیکن نصیرؔ کا تخیّل اور تصوّر اس میں بہت آگے تھا۔ ان کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
    وہ کان دھر کے سنے کیا پیام عاشق کا

    قصورِ شیخ ہے فردوس و حور کی خواہش
    تری گلی میں ہے پیارے مقام عاشق کا

    غرورِ حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
    کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

    وفورِ عشق کو عاشق ہی جانتا ہے نصیرؔ
    ہر اک سمجھ نہیں سکتا کلام عاشق کا

  • کلاسیکی دور کے مشہور مگر مشکل گو شاعر شاہ نصیر

    کلاسیکی دور کے مشہور مگر مشکل گو شاعر شاہ نصیر

    شاہ نصیرؔ نے اپنے جوہرِ سخن، طبیعت کی روانی اور مشق و کمال کے سبب خوب شہرت اور اردو کے کلاسیکی دور کے شعرا میں نام و مقام پایا۔ سنگلاخ زمینوں اور مشکل قوافی کے باوجود ان کا کلام خاص و عام میں مقبول ہوا۔ آج شاہ نصیر کا یومِ وفات ہے۔

    کہتے ہیں‌، شاہ نصیر کی آواز پاٹ دار تھی جو مشاعروں میں جان ڈال دیتی تھی۔ وہ دہلی میں رہے اور وہاں ادبی محافل اور مشاعروں میں‌ ان کا بہت چرچا تھا۔ وہ جلد ہی اپنی طباعی اور زود گوئی کے سبب درجۂ اُستادی پر فائز ہوگئے۔

    شاہ نصیر کا سنِ پیدائش کسی کو معلوم نہیں اور ان کے وطن پر بھی تذکرہ نگاروں نے اختلاف کیا ہے، تاہم اکثر کے نزدیک وہ دہلی کے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے تذکرے میں‌ لکھا ہے کہ شاہ نصیر کا نام محمد نصیر الدّین تھا اور عرفیت میاں کلّو۔ انھوں نے لکھا ہے کہ رنگت کے سیاہ فام تھے، اسی لیے ’’میاں کلّو‘‘ کہلائے۔

    ان کے والد شاہ غریب (شاہ غریب اللہ) ایک خوش طینت و نیک سیرت بزرگ تھے۔ شہر کے رئیس و امیر سب ان کا ادب کرتے تھے، مگر وہ گوشۂ عافیت میں بیٹھے، اپنے معتقد مریدوں کو ہدایت کرتے رہے، یہاں تک کہ مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے عہد میں وفات پائی۔

    انہی کے بعد بیٹے شاہ نصیر نے شاعری میں بڑا نام پیدا کیا اور وہ ایسے شاعر تھے جو دہلی کے مشاعروں میں‌ ضرور دعوت پاتے۔ کلاسیکی دور کے اس شاعر نے 23 نومبر 1837ء کو حیدر آباد دکن میں انتقال کیا اور وہیں دفن ہوئے۔ شاہ نصیر کو نہایت مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنا پسند تھا، لیکن وہ زبان و بیان کے ماہر بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ نامانوس اور مشکل قوافی کے ساتھ لمبی لمبی ردیفوں میں غزلیں کہنے کے باوجود ان کی زبان نکھری ہوئی اور انداز دل نشیں ہے۔ ان کی غزلوں میں تشبیہ اور استعارے کا لطف موجود ہے۔

    اردو کے تذکرہ نگاروں اور نقّادوں‌ کے مطابق جن سنگلاخ زمینوں میں یہ دو غزلے کہتے دوسروں کو غزل پوری کرنا مشکل ہوتی۔ نصیرؔ ایک زبردست شاعر تھے۔ مشکل ردیف قافیے میں بغیر تشبیہ و استعارے کے بات نہیں بنتی، نصیرؔ کا تخیّل و تصوّر اس میں منجھا ہوا تھا۔ ان کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
    وہ کان دھر کے سنے کیا پیام عاشق کا

    قصورِ شیخ ہے فردوس و حور کی خواہش
    تری گلی میں ہے پیارے مقام عاشق کا

    غرورِ حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
    کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

    وفورِ عشق کو عاشق ہی جانتا ہے نصیرؔ
    ہر اک سمجھ نہیں سکتا کلام عاشق کا

  • وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وحید الدین وحید کا تعلق الہٰ آباد سے تھا۔ ان کا شمار اپنے دور کے نام ور اور استاد شعرا میں‌ ہوتا ہے۔

    ان سے شاعری میں اصلاح لینے والوں میں اکبرؔ الہٰ آبادی نے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کے علاوہ بھی ہندوستان کے متعدد شعرا ان سے اصلاح‌ لیتے تھے۔

    کہتے ہیں ایک روز ان کے گھر کو آگ لگی تو انھوں نے باہر نکلنے کے بجائے اپنے کلام کو سمیٹنے کی کوشش کی اور اس دوران دَم گھٹ جانے سے انتقال کر گئے۔

    وحید الہ آبادی اردو کے واحد شاعر ہیں جو اپنا تخلیقی سرمایہ بچاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کے یہ دو اشعار دیکھیے۔

    میں نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا
    دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو

    سب کی ہے اس عہد میں مٹی خراب
    ذلتیں باقی ہیں توقیریں گئیں

    وحید الہ آبادی نے اپنے تخلیقی جوہر اور شاعرانہ صلاحیتوں کے باعث اس دور میں سب کی توجہ حاصل کی اور شناخت بنائی جب ہندوستان میں استاد شعرا میں‌ شاہ نصیر، آتش، ذوق اور داغ جیسی شخصیات کا نام لیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ خود وحید الہ آبادی نے مرزا حیدر علی آتش اور بعد میں بشیرعلی بشیر سے مشورۂ سخن کیا۔