Tag: شباب کیرانوی

  • شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کا بڑا نام

    شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کا بڑا نام

    شباب کیرانوی کو ایک عہد ساز شخصیت کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستانی فلمی صنعت اور سنیما کی ترقّی و ترویج میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ شباب کیرانوی کے تذکرے کے بغیر پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ ادھوری ہے۔

    شباب کیرانوی ایک فلم ساز، ہدایت کار، ادیب، کہانی نویس اور شاعر بھی تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 5 نومبر 1982ء کو شباب کیرانوی وفات پاگئے تھے۔

    1925ء میں شباب کیرانوی نے کیرانہ، ضلع مظفر نگر (اُترپردیش، انڈیا) میں ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر میں آنکھ کھولی۔ والدین نے ان کا نام نذیر احمد رکھا۔ اسکول میں دورانِ تعلیم نذیر احمد کو شاعری کا شوق ہوگیا۔ وہ شعر کہنے لگے اور تخلّص ’’شباب‘‘ رکھ لیا اور بعد میں اپنی جائے پیدائش کی مناسبت سے شباب کیرانوی مشہور ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ بسا اور یہاں بھی شباب صاحب کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا۔ انھوں نے اپنے وقت کے معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے آگے زانوئے تلمذ طے کرلیا اور باقاعدہ شاعری کرنے لگے۔ اسی زمانہ میں شباب کیرانوی نے شاعری کے ساتھ ساتھ فلم سازی اور کہانی لکھنے میں بھی دل چسپی لینا شروع کردی۔ لاہور اس وقت فلمی مرکز تھا اور شباب نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کر کے 1955ء میں فلم ’’جلن‘‘ سے بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی اور مکالمہ نویس اپنا سفر شروع کر دیا۔ یہی بہ طور فلمی شاعر شباب کیرانوی کی اوّلین فلم بھی تھی۔

    ’’جلن‘‘ کے بعد شباب کیرانوی نے متعدد فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی، جن میں زیادہ تر اُن کی اپنی پروڈکشن کے بینر تلے بنائی گئی تھیں۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی بعد میں‌ شایع ہوئے۔ 1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پر کام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    شباب کیرانوی نے فلمی صنعت میں کئی باصلاحیت فن کار بھی متعارف کروائے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاتے ہیں۔ لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ وہ اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ مدفون ہیں۔

  • شباب کیرانوی: فلمی دنیا کی ایک باکمال شخصیت

    شباب کیرانوی: فلمی دنیا کی ایک باکمال شخصیت

    شباب کیرانوی ایک عہد ساز شخصیت تھے، جن کے تذکرے کے بغیر پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ پاکستانی فلموں کی ترقّی اور ترویج میں شباب کیرانوی کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

    معروف فلم ساز، ہدایت کار، ادیب، کہانی نویس اور شاعر شباب کیرانوی 5 نومبر 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کیرانہ انڈیا کے مشہور ضلع مظفرنگر (اُترپردیش ) کا ایک معروف قصبہ ہے جہاں شباب کیرانوی نے ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر میں آنکھ کھولی۔ والدین نے ان کا نام نذیر احمد رکھا۔ اسکول میں دورانِ تعلیم نذیر احمد کو شاعری کا شوق ہوگیا۔ وہ شعر کہنے لگے اور تخلّص ’’شباب‘‘ رکھ لیا اور بعد کے برسوں میں اپنی جائے پیدائش کی مناسبت سے شباب کیرانوی مشہور ہوگئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ بسا اور یہاں بھی شباب صاحب کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا انھوں نے اپنے وقت کے معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے آگے زانوئے تلمذ طے کرلیا اور باقاعدہ لکھنے لگے۔ شاعری کے ساتھ وہ فلم سازی اور کہانی لکھنے میں بھی دل چسپی لینے لگے تھے۔ لاہور اس وقت فلمی مرکز تھا اور شباب نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کرکے 1955ء میں فلم ’’جلن‘‘ سے بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی اور مکالمہ نویس اپنا سفر شروع کردیا۔ یہی بہ طور فلمی شاعر شباب کیرانوی کی اوّلین فلم بھی تھی۔ ’’جلن‘‘ کے بعد شباب کیرانوی نے متعدد فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی، جن میں زیادہ تر اُن کی اپنی پروڈکشن کے بینر تلے بنائی گئی تھیں۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی بعد میں‌ شایع ہوئے۔

    1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پر کام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز دیے گئے۔

    انھوں نے فلمی صنعت میں کئی باصلاحیت فن کار بھی متعارف کروائے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاتے ہیں۔

    لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ شباب کیرانوی کو وفات کے بعد اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کی ایک عہد ساز شخصیت

    شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کی ایک عہد ساز شخصیت

    شباب کیرانوی کو عہد ساز شخصیت کہا جاتا ہے۔ پاکستانی فلموں کی ترقّی و ترویج میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

    فلم سازی اور ہدایت کاری کے شعبے میں ممتاز شباب کیرانوی ایک ادیب، کہانی نویس اور شاعر کی حیثیت سے بھی قابلِ ذکر اور نمایاں ہوئے۔ 5 نومبر 1982ء کو شباب کیرانوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کیرانہ انڈیا کے مشہور ضلع مظفر نگر (اُترپردیش ) کا معروف قصبہ ہے جہاں‌ 1925ء میں نذیر احمد نے ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر آنکھ کھولی۔ بعد میں‌ انھیں ہندوستان بھر میں شباب کیرانوی کے نام سے جانا گیا۔

    شباب کیرانوی نے پندرہ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور اسکول بھی جاتے رہے۔ دورانِ تعلیم انھیں شاعری کا شوق ہوگیا اور اپنا تخلّص ’’شباب‘‘ رکھا اور اپنے شہر کی نسبت کیرانوی کا اضافہ کرلیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد خاندان کے دیگر افراد سمیت ہجرت کر کے لاہور آگئے اور یہاں معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے شاگرد ہوئے۔

    شباب کیرانوی نے فلم ’’جلن‘‘ سے اپنا فلمی سفر شروع کیا اور اس حوالے سے اپنے فن و تخلیق کی صلاحیتوں کا اظہار بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی و مکالمہ نویس کیا۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت ان کی کام یاب ترین فلموں میں شامل ہوگئیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں نے بھی کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے بھی موج شباب اور بازار صدا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    شباب کیرانوی کی بدولت فلمی صنعت کو کئی باصلاحیت اور باکمال فن کار ملے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    پاکستان میں‌ فلمی صنعت کے عروج کے دنوں میں لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ وفات کے بعد انھیں اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • شباب کیرانوی: فلمی صنعت کی تاریخ ساز شخصیت کی برسی

    شباب کیرانوی: فلمی صنعت کی تاریخ ساز شخصیت کی برسی

    شباب کیرانوی پاکستان کی فلمی صنعت کا ممتاز ترین نام ہے۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، لیکن کہانی نویسی اور شاعری میں بھی معروف ہوئے۔ وہ 5 نومبر 1982ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج شباب کیرانوی کی برسی ہے۔

    شباب کیرانوی کا شمار ایسی شخصیات میں‌ کیا جاتا ہے جنھوں نے پاکستانی فلموں کی ترقّی و ترویج میں نہایت اہم اور قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔

    اس کہانی نویس، نغمہ نگار، ہدایت کار اور فلم ساز نے ہر شعبے میں خود کو ثابت کیا اور نام و مقام بنایا۔

    1925ء میں کیرانہ میں پیدا ہونے والے شباب کیرانوی کا اصل نام نذیر احمد تھا۔ انھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل جن دو فلموں سے اپنے سفر کا آغاز کیا، وہ مکمل نہ ہوسکیں۔ 1955ء میں بطور فلم ساز انھوں‌ نے جلن کے نام سے فلم بنائی، جس کے ہدایت کار اے حمید تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور متعدد فلمی گیتوں‌ کے خالق بھی جو بے حد مقبول ہوئے۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی شایع ہوئے۔

    1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پرکام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز دیے گئے۔

    شباب کیرانوی کی بدولت فلمی صنعت کو کئی باصلاحیت فن کار ملے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    لاہور میں‌ شباب کیرانوی کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا اور وفات کے بعد انھیں اسی کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔