Tag: شبلی نعمانی

  • آزاد اور شبلی کی پہلی ملاقات کا دل چسپ قصّہ

    آزاد اور شبلی کی پہلی ملاقات کا دل چسپ قصّہ

    یہ ہندوستان کے اُن دو نابغانِ عصر اور اصحابِ علم و ادب کا تذکرہ ہے جن کی عمروں‌ میں‌ بڑا تفاوت تھا، مگر جب باہم تعلق استوار ہوا اور ملاقات ہوئی تو اس بندھن میں عقیدت و ارادت کے پھول کھلے اور شفقت کی خوش بُو گھلتی گئی، ان کا یہ تعلق احترام کے ساتھ دوستانہ بے تکلفّی تک بھی پہنچا۔

    بات ہو رہی ہے مولانا ابوالکلام آزاد اور علّامہ شبلی نعمانی کی جو برطانوی دور کے عوام بالخصوص مسلمانانِ ہند کے بڑے خیر خواہ اور مصلحِ قوم گزرے ہیں۔ شبلی 1914ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے جب کہ آزاد نے 1958ء میں دارِ فانی سے کوچ کیا۔ ان نادرِ روزگار شخصیات کے درمیان خط کتابت کا آغاز اور اوّلین ملاقات سے متعلق ہم ظفر احمد صدیقی کے ایک تحقیقی مضمون سے چند اقتباسات نقل کر رہے ہیں جس سے ان دونوں‌ شخصیات کے علمی مرتبہ اور اوصاف کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مولانا ابو الکلام آزاد بلاشبہ نابغۂ روزگار تھے۔ ان کی غیر معمولی ذہانت و ذکاوت، مسحور کن خطابت، بے مثال انشا پردازی، اس کے ساتھ ہی دانش وری اور سیاسی بصیرت کو اب مسلّمات کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی وسعتِ مطالعہ، قوتِ حافظہ اور جامعیت بھی عجیب و غریب تھی۔ اسلامیات، شعر و ادب، تاریخ و جغرافیہ اور طب جیسے متنوع اور مختلف الجہات علوم و فنون سے وہ نہ صرف واقف تھے، بلکہ ان کی جزئیات بھی اکثر و بیشتر انھیں مستحضر رہتی تھیں۔ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر انھیں کامل عبور تھا۔ انگریزی کتابوں کے مطالعے میں بھی انھیں کوئی زحمت محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    انھوں نے علّامہ (شبلی نعمانی) کے نام پہلا خط 1901ء میں لکھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ دوسری جانب علامہ شبلی اس وقت اپنی عمر کی 44 ویں منزل میں تھے۔ ان کی تصانیف میں مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم، المامون، سیرةُ‌ النّعمان، رسائلِ شبلی اور الفاروق منظرِ عام پر آچکی تھیں۔ اس لحاظ سے وہ ملک کے طول و عرض میں ہر طرف مشہور ہوچکے تھے اور قیامِ علی گڑھ کا دور ختم کر کے ناظم سر رشتۂ علوم و فنون کی حیثیت سے ریاست حیدرآباد سے وابستہ اور شہر حیدرآباد میں مقیم تھے۔ اِدھر مولانا آزاد کا یہ حال تھاکہ باوجود کم سنی وہ نصابی و درسی تعلیم سے گزر کر اب علوم جدیدہ کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں پہلے انھوں نے انگریزی، عربی اور فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد ان کی خواہش ہوئی کہ عربی میں ترجمہ شدہ علومِ جدیدہ کی کتابوں سے استفادہ کریں۔ غالباً وہ علامہ شبلی کی تصانیف سے واقف تھے۔ اس لیے انھیں خیال آیا کہ اس سلسلے میں علاّمہ ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ’’آزاد کی کہانی‘‘ میں فرماتے ہیں،

    اب مصر و شام کی کتابوں کا شوق ہوا۔ مولانا شبلی کو ایک خط لکھا اور ان سے دریافت کیا کہ علومِ جدیدہ کے عربی تراجم کون کون ہیں اور کہاں کہاں ملیں گے؟ انھوں نے دو سطروں میں یہ جواب دیا کہ مصر و بیروت سے خط کتابت کیجیے۔

    جنوری 1903ء میں علّامہ شبلی انجمن ترقی اردو کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے۔ اسی سال کے آخر میں مولانا آزاد نے کلکتہ سے ’’لسان الصّدق‘‘ جاری کیا۔ یہ علمی و ادبی رسالہ تھا۔ یہ علّامہ شبلی سے مولانا آزاد کے غائبانہ تعارف اور قربت کا ذریعہ بنا۔ کیونکہ مولانا اس میں انجمن سے متعلق خبریں، رپورٹیں اور اس کی کار گزاریوں کی تفصیلات وغیرہ شائع کرتے رہتے تھے، جو علّامہ شبلی انھیں وقتاً فوقتاً بھیجتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا کی دل چسپی اور مستعدی کو دیکھ کر علّامہ نے کچھ دنوں بعد انھیں انجمن کے ارکان انتظامیہ میں شامل کرلیا اور لسانُ الصّدق کو ایک طرح انجمن کا ترجمان بنا لیا۔ اس پورے عرصے میں ان دونوں شخصیتوں کے درمیان مراسلت کا سلسلہ تو جاری رہا، لیکن ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔

    مولانا آزاد کی علّامہ شبلی سے پہلی ملاقات غالباً 1904ء کے اواخر یا 1905ء کے اوائل میں بمبئی میں ہوئی۔ اب مولانا سولہ سال کے تھے اور علامہ کی عمر 47 سال تھی۔ اس دوران ان کی تصانیف میں الغزالی، علم الکلام، الکلام اور سوانح مولانا روم بھی شائع ہوچکی تھیں۔ اس پہلی ملاقات میں جو لطیفہ پیش آیا، اس کا بیان مولانا آزاد کی زبانی ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں،

    مولانا شبلی سے میں 1904ء میں سب سے پہلے بمبئی میں ملا۔ جب میں نے اپنا نام ظاہر کیا تو اس کے بعد آدھا گھنٹے تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور چلتے وقت انھوں نے مجھ سے کہا تو ابوالکلام آپ کے والد ہیں؟ میں نے کہا نہیں میں خود ہوں!

    علّامہ شبلی کے لیے دراصل باعث ِ استعجاب یہ تھا کہ یہ کم سن لڑکا ’لسان الصّدق‘ جیسے علمی و ادبی رسالے کا مدیر کیوں کر ہو سکتا ہے؟ علّامہ ان دنوں دو تین ہفتے تک بمبئی میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران مولانا کی ان سے بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں میں علّامہ ان سے حد درجہ متاثر ہوئے۔ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں، جب چند دنوں میں گفتگو و صحبت سے انھیں میرے علمی شوق کا خوب اندازہ ہوگیا تو وہ بڑی محبت کرنے لگے۔ بار بار کہتے کہ مجھے ایک ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے۔ تم اگر کسی طرح حیدرآباد آسکو تو ’’النّدوہ‘‘ اپنے متعلق کر لو اور وہاں مزید مطالعہ و ترقی کا بھی موقع ملے گا۔

    اسی سلسلے میں مزید فرماتے ہیں، سب سے زیادہ مولانا شبلی پر میرے شوقِ مطالعہ اور وسعتِ مطالعہ کا اثر پڑا۔ اس وقت تک میرا مطالعہ اتنا وسیع ہوچکا تھا کہ عربی کی تمام نئی مطبوعات اور نئی تصنیفات تقریباً میری نظر سے گزر چکی تھیں اور بہتیر کتابیں ایسی بھی تھیں کہ مولانا ان کے شائق تھے اور انھیں معلوم نہ تھا کہ چھپ گئی ہیں، مثلاً محصل امام رازی۔

    انہی ملاقاتوں کے دوران فنِ مناظرہ سے متعلق ایک صاحب کی کج بحثی کا جواب دیتے ہوئے مولانا آزاد نے جب ایک مدلّل تقریر کی تو اسے سن کر علّامہ(شبلی نعمانی) نے فرمایا، تمہارا ذہن عجائبِ روزگار میں سے ہے۔ تمھیں تو کسی علمی نمائش گاہ میں بہ طورایک عجوبے کے پیش کرنا چاہیے۔

  • ’’اگر دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا!‘‘

    ’’اگر دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا!‘‘

    ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر واقع قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) دنیا کے اہم اور عظیم ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا جس کی ثقافتی اور جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر فرانس کے مشہور حکم ران نپولین نے کہا تھا: ’’اگر پوری دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا۔‘‘

    یہاں ہم قسطنطنیہ کے مختصر حالات کے عنوان سے علّامہ شبلی نعمانی کے سفر نامے سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ علّامہ شبلی نعمانی 1914ء میں وفات پاگئے تھے۔ یہ سفرنامہ ایک صدی پہلے رقم کیا گیا تھا۔

    کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی شہر قسطنطنیہ کے برابر خوش منظر نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ منظر کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش نما ہونا خیال میں بھی نہیں آتا۔ اسی لحاظ سے اس کی بندر گاہ کو انگریزی میں گولڈن ہارن یعنی سنہری سینگ کہتے ہیں۔ کہیں کہیں عین دریا کے کنارے پر عمارتوں کا سلسلہ ہے اور دور تک چلا گیا ہے۔ عمارتوں کے آگے جو زمین ہے۔ وہ نہایت ہموار اور صاف ہے۔ اس کی سطح سمندر کی سطح کے بالکل برابر ہے۔ اور وہاں عجیب خوش نما منظر پیدا ہو گیا ہے۔

    شہر کی وسعتِ تمدن کا اس اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خاص استنبول میں پانچ سو جامع مسجدیں، ایک سو اکہتّر حمام، تین سو چونیتیس سرائیں، ایک سو چونسٹھ مدارس، قدیم پانچ سو مدارس، جدید بارہ کالج، پینتالیس کتب خانے، تین سو پانچ خانقاہیں، اڑتالیس چھاپے خانے ہیں۔ کاروبار اور کثرتِ آمدورفت کی یہ کیفیت ہے کہ متعدد ٹراموے گاڑیاں، بارہ دخانی جہاز، زمین کے اندر کی ریل، معمولی ریلیں، جو ہر آدھ گھٹنے کے بعد چھوٹتی ہیں، ہر وقت چلتی رہتی ہیں۔ اور باوجود اس کے سڑکوں پر پیادہ پا چلنے والوں کا اس قدر ہجوم رہتا ہے کہ ہر وقت میلہ سا معلوم ہوتا ہے۔

    غلطہ اور استنبول کے درمیان جو پل ہے، اس پر سے گزرنے کا محصول فی شخص ایک پیسہ ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔

    قہوہ خانے نہایت کثرت سے ہیں۔ میرے تخمینہ میں چار پانچ ہزار سے کم نہ ہوں گے۔ بعض بعض نہایت عظیم الشان ہیں جن کی عمارتیں شاہی محل معلوم ہوتی ہیں۔ قہوہ خانوں میں ہمیشہ ہر قسم کے شربت اور چائے قہوہ وغیرہ مہیا رہتا ہے۔ اکثر قہوہ خانے دریا کے ساحل پر اور بعض عین دریا میں ہیں جن کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ قہوہ خانوں میں روزانہ اخبارات بھی موجود رہتے ہیں۔ لوگ قہوہ پیتے جاتے ہیں اور اخبارات دیکھے جاتے ہیں۔ قسطنطنیہ بلکہ ان تمام ممالک میں قہوہ خانے ضروریات زندگی میں محسوب ہیں۔ میرے عرب احباب جب مجھ سے سنتے تھے کہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں تو تعجب سے کہتے تھے: "وہاں لوگ جی کیونکر بہلاتے ہیں۔” ان ملکوں میں دوستوں کے ملنے جلنے اور گرمی صحبت کے موقعے یہی قہوہ خانے ہیں۔

    افسوس ہے کہ ہندوستانیوں کو ان باتوں کا ذوق نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ اس قسم کی عام صحبتیں زندگی کی دل چسپی لے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ اور طبیعت کی شگفتگی پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔ دوستانہ مجلسیں ہمارے ہاں بھی ہیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دوست کے مکان پر دو چار احباب کبھی کبھی مل بیٹھتے ہیں لیکن اس طریقہ میں دو بڑے نقص ہیں۔ اوّل تو تفریح کے جلسے پُرفضا مقامات میں ہونے چاہییں کہ تازہ اور لطیف ہوا کی وجہ سے صحتِ بدنی کو فائدہ پہنچے۔دوسرے سخت خرابی یہ ہے کہ یہ جلسے پرائیوٹ جلسے ہوتے ہیں اس لیے ان میں غیبت، شکایت اور اسی قسم کی لغویات کے سوا اور کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ بخلاف قہوہ خانوں کے جہاں مجمعِ عام کی وجہ سے اس قسم کی باتوں کا موقع نہیں مل سکتا۔ قسطنطنیہ اور مصر میں، مَیں ہمیشہ شام کے وقت دوستوں کے قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن میں نے سوائے کبھی اس قسم کے تذکرے نہیں سنے۔ تفریح اور بذلہ سنجی کے سوا وہاں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہو سکتا تھا۔

    قسطنطنیہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی کو یورپین اور ایشیائی تمدن کی تصویر ایک مرقع میں دیکھنی ہو تو یہاں دیکھ سکتا ہے۔ کتب فروشوں کی دکانوں کی سیر کرو تو ایک طرف نہایت وسیع دکان ہے۔ سنگِ رخام کا فرش ہے۔ شیشہ کی نہایت خوبصورت الماریاں ہیں۔ کتابیں جس قدر ہیں مجلّد اور جلدیں بھی معمولی نہیں بلکہ عموماً مطلا و مُذَہَّب۔ مالکِ دکان میز کرسی لگائے بیٹھا ہے۔ دو تین کم سن، خوش لباس لڑکے اِدھر اُدھر کام میں لگے ہیں۔ تم نے دکان میں قدم رکھا۔ ایک لڑنے نے کرسی لا کر سامنے رکھ دی۔ اور کتابوں کی فہرست حوالہ کی۔ قیمت فہرست میں مذکور ہے۔ اس میں کمی بیشی کا احتمال نہیں۔

    دوسری طرف سڑک کے کنارے چبوتروں پر کتابوں کا بے قاعدہ ڈھیر لگا ہے۔زمین کا فرز اور وہ بھی اس قدر مختصر کہ تین چار آدمی سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ قیمت چکانے میں گھنٹوں کا عرصہ درکار ہے۔

    اسی طرح پیشہ و صنعت کی دکانیں دونوں نمونہ کی موجود ہیں۔ عام صفائی اور زیب و زینت کا بھی یہی حال ہے۔ غلطہ کو دیکھو تو یورپ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ دکانیں بلند اور آراستہ۔ سڑکیں وسیع اور ہموار۔ کیچڑ اور نجاست کا کہیں نام نہیں۔ بخلاف اس کے استنبول میں جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اکثر سڑکیں ناصاف اور بعض بعض جگہ اس قدر ناہموار کہ چلنا مشکل۔

    اس شہر میں آ کر ایک سیاح کے دل میں غالباً جو خیال سب سے پہلے آتا ہو گا۔ وہ یہ ہو گا کہ اس عظیم الشان دارالسلطنت کے دو حصّوں میں اس قدر اختلافِ حالت کیوں ہے؟ چنانچہ میرے دل میں سب سے پہلے یہی خیال آیا۔ میں نے اس کے متعلق کچھ بحث و تفتیش کی۔ باشندوں کے اختلافِ حالت کا سبب تو میں نے آسانی سے معلوم کر لیا۔ یعنی مسلمانوں کا افلاس اور دوسری قوموں کا تموّل۔ لیکن سڑکوں اور گزر گاہوں کی ناہمواری و غلاظت کا بظاہر یہ سبب قرار نہیں پا سکتا تھا۔ اس لیے میں نے ایک معزز ترکی افسر یعنی حسین حسیب آفندی پولیس کمشنر سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری میونسپلٹی کے ٹیکس بہت کم ہیں۔ بہت سی چیزیں محصول سے معاف ہیں۔ لیکن غلطہ میں یورپین سوداگر خود اپنی خواہش سے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے میونسپلٹی اس رقموں کو فیاضی سے صرف کرسکتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ وہی غلطہ ہے۔ جس کی نسبت ابنِ بطوطہ نے نجاست اور میلے پن کی سخت شکایت کی ہے۔ یا اب ان کو صفائی و پاکیزگی کا یہ اہتمام ہے کہ اس کے لیے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صفائی اور خوش سلیقگی آج کل یورپ کا خمیر بن گیا ہے۔ یہاں کی عمارتیں ہندوستان کی عمارتوں سے بالکل جدا وضع کی ہیں۔ مکانات عموماً منزلہ، چو منزلہ ہیں۔ صحن مطلق نہیں ہوتا۔ عمارتیں تمام لکڑی کی ہیں۔ بڑے بڑے امرا اور پاشاؤں کے محل بھی لکڑی ہی کے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ یہاں اکثر آگ لگتی ہے۔ کوئی مہینہ بلکہ ہفتہ خالی نہیں جاتا۔ کہ دو چار گھر آگ سے جل کر تباہ نہ ہوں۔ اور کبھی کبھی تو محلّے کے محلّے جل کر خاکِ سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آگ بجھانے کے لیے سلطنت کی طرف سے نہایت اہتمام ہے۔ کئی سو آدمی خاص اس کام پر مقرر ہیں۔ ایک نہایت بلند منارہ بنا ہوا جس پر چند ملازم ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ جس وقت کہیں آگ لگتی دیکھیں، فوراً خبر کریں۔ اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے منارے جا بجا بنے ہوئے ہیں۔ جس وقت کہیں آگ لگتی ہے فوراً توپیں سر ہوتی ہیں اور شہر کے ہر حصّے کے آگ بجھانے والے ملازم تمام آلات کے ساتھ موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ بے تحاشہ دوڑتے جائیں۔ یہاں تک اگر کوئی راہ چلتا ان کی جھپٹ میں آ کر پس جائے تو کچھ الزام نہیں۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ پتھر کی عمارتیں کیوں نہیں بنتیں۔ معلوم ہوا کہ سردی کے موسم میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور تندرستی کو نقصان پہنچتا ہے۔

    آب و ہوا یہاں کی نہایت عمدہ ہے۔ جاڑوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور کبھی کبھی برف بھی گرتی ہے۔ گرمیوں کا موسم جس کا مجھ کو خود تجربہ ہوا، اس قدر خوش گوار ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ تعجب ہے کہ ہمارے یہاں کے امراء شملہ اور نینی تال کی بجائے قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے! پانی پہاڑ سے آتا ہے۔ اور نہایت ہاضم اور خوش گوار ہے۔

  • سَر آرنلڈ کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے ”کلیمِ ذروۂ سینائے علم“ کہا!

    سَر آرنلڈ کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے ”کلیمِ ذروۂ سینائے علم“ کہا!

    نالۂ فراق کے عنوان سے ایک نظم علّامہ اقبال نے اپنے استاد ڈاکٹر تھامس واکر آرنلڈ کی یاد میں 1904ء میں لکھی تھی۔ ڈاکٹر آرنلڈ ہی تھے جنھوں نے علّامہ اقبال کو فلسفہ اور حکمت کا شیدائی بنایا۔ علّامہ اقبال نے اپنے اس استاد کو ”کلیمِ ذروۂ سینائے علم“ کے لقب سے بھی یاد کیا ہے جو بجا طور پر اس لقب کے مستحق تھے۔ 9 جون 1930ء کو ڈاکٹر آرنلڈ وفات پاگئے تھے۔

    متحدہ ہندوستان میں اُس زمانے کی عالم فاضل اور سربرآوردہ شخصیات جن میں‌ مسلمان اور ہندو سبھی شامل ہیں، ڈاکٹر آرنلڈ کی قابلیت، ان کے کمالاتِ علمی کے معترف تھے۔

    ڈاکٹر آرنلڈ 1887ء کے قریب علی گڑھ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہو کر آئے تھے۔ عربی کا ذوق رکھنے کے سبب انہوں نے مولانا شبلی نعمانی مرحوم سے (جو اس زمانہ میں وہاں عربی اور فارسی کے پروفیسر تھے) عربی ادب کی بعض کتابیں پڑھی تھیں۔ مولانا نے ان سے فرینچ سیکھی تھی۔ 1895ء میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب Preaching of Islam شائع کی، جس کو انہوں نے بیس سال کی مدت میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ اور اس میں تاریخی شواہد کی بنا پر یہ ثابت کیا تھا کہ اسلام دنیا میں تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنی خوبیوں کی بدولت پھیلا۔ اس کتاب کا مسٹر عنایت اللہ صاحب دہلوی نے ترجمہ کیا تھا جو 1896ء میں شائع ہوا۔

    سَر تھامس واکر آرنلڈ فلسفہ کے استاد، برطانوی متشرق اور مؤرخ تھے جنھوں‌ نے اسلامی فلسفہ و تعلیمات کا مطالعہ کیا اور بالخصوص فنونِ لطیفہ اور مسلم ثقافت کے حوالے سے کام کیا۔ اس موضوع پر ان کے مضامین، مقالے اور لیکچرز اس وقت ایک بڑا کام تھا اور مسلم ثقافت پر ان کی تحریروں کو بہت اہمیت دی گئی۔ وہ ہندوستان میں انگریز دور میں‌ محمڈن اینگلواورینٹل کالج، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہاں ان کی دوستی سر سید احمد خان سے ہوئی اور انہی کے اصرار پر آرنلڈ نے اپنی مشہور کتاب "اسلام کی تبلیغ” لکھی۔ ڈاکٹر آرنلڈ شاعر اور فلسفی علّامہ محمد اقبال اور سیّد سلیمان ندوی کے استاد بھی رہے، وہ شبلی نعمانی کے بھی گہرے دوست تھے۔

    ڈاکٹر آرنلڈ 19 اپریل 1864 کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لندن میں تعلیم حاصل کی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد متحدہ ہندوستان میں استاد کی حیثیت سے اپنی زندگی کے کئی برس گزارے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا تھا۔ سَر آرنلڈ کے بارے میں‌ کتب میں‌ لکھا ہے کہ وہ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی جانتے تھے۔ لگ بھگ 1897ء میں آرنلڈ علی گڑھ سے لاہور آئے اور یہیں علّامہ اقبال سے ملاقات ہوئی جو ان کے شاگرد بنے۔ یہاں ڈاکٹر آرنلڈ نے کئی اہم اسلامی کتب اور تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ 1904ء کے شروع میں ڈاکٹر آرنلڈ ولایت واپس چلے گئے اور انڈیا آفس میں لائبریرین کے طور پر کام کیا۔ 1920ء میں لندن یونیورسٹی آف اورینٹیل اسٹڈیز میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

    ممتاز مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب شبلی نعمانی عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

    اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

    اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

  • مصر: آثارِ قدیمہ میں کوئی شہر اس کی ہمسری نہیں کرسکتا

    مولانا شبلی نعمانی نے روم، مصر و شام كے سفر سے ہندوستان واپس آكر وہاں کے تمدن اور حسنِ معاشرت کو بیان کرنے کے علاوہ اپنے سفرنامے میں‌ قابلِ دید مقامات، اور قدیم عمارات کے بارے میں‌ بھی تفصیل رقم کی تھی جس میں مصر کی قدیم یادگاریں کے عنوان سے ایک باب بھی شامل ہے۔ اس میں اہرامِ مصر سے متعلق معلوماتی مضمون میں‌ وہ لکھتے ہیں:

    آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے کوئی شہر اس شہر کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ایک ایک ٹھیکری قدامت کی تاریخ ہے۔

    سوادِ شہر کے ویرانوں میں اس وقت تک سیکڑوں خزف ریزے ملتے ہیں جن پر کئی کئی ہزار سال قبل کے حروف و نقوش کندہ ہیں۔ مجھ کو اتنا وقت بلکہ سچ ہے کہ اتنی ہمّت کہاں تھی کہ تمام قدیم یادگاروں کی سیر کرتا۔ البتہ چند مشہور مقامات دیکھے اور انہی کے حال کے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

    اہرام، یہ وہ قدیم مینار ہیں جن کی نسبت عام روایت ہے کہ طوفاں نوحؑ سے پہلے موجود تھے۔ اور اس قدر تو قطعی طور سے ثابت ہے کہ یونان کی علمی ترقی سے ان کی عمر زیادہ ہے، کیوں کہ جالینوس نے اپنی تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ مینار نہایت کثرت سے تھے۔ یعنی دو دن کی مسافت میں پھیلے ہوئے تھے۔ صلاح الدین کے زمانہ میں اکثر ڈھا دیے گئے۔ ان میں سے جو باقی رہ گئے ہیں۔ اور جن پر خاص طور پر اہرام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صرف تین ہیں، جو سب سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو اسّی فٹ یعنی قطب صاحب کی لاٹ سے دگنی ہے۔ نیچے کے چبوترہ کا ہر ضلع سات سو چونسٹھ فٹ ہے۔ مینار کا مکعب آٹھ کروڑ نوے لاکھ فٹ ہے۔ اور وزن اڑسٹھ لاکھ چالیس ہزار ٹن۔

    اس کی تعمیر میں ایک لاکھ آدمی بیس برس تک کام کرتے رہے۔ جڑ میں تیس تیس فٹ لمبی اور پانچ پانچ فٹ چوڑی پتھر کی چٹانیں ہیں اور چوٹی پر جو چھوٹی سے چھوٹی ہیں آٹھ فٹ کی ہیں۔

    اس کی شکل یہ ہے کہ ایک نہایت وسیع مربع چبوترہ ہے۔ اس پر ہر طرف سے کسی قدر سطح چھوڑ کر دوسرا چبوترہ ہے۔ اس طرح چوٹی تک اوپر تلے چبوترے ہیں۔ اور ان چبوتروں کے بتدریج چھوٹے ہوتے جانے سے زینوں کی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ پتھروں کو اس طرح وصل کیا ہے کہ جوڑ یا درز کا معلوم ہونا تو ایک طرف۔ چونا یا مسالے کا بھی اثر نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر استحکام کا یہ حال ہے کہ کئی ہزار برس ہو چکے اور جوڑوں میں بال برابر فصل نہیں پیدا ہوا ہے۔

    ان میناروں کو دیکھ کر خوا مخواہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جَرِّ ثَقِیل کا فن قدیم زمانہ میں موجود تھا۔ کیوں کہ اس قدر بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر جَرِّ ثَقِیل کے بغیر چڑھائے نہیں جا سکتے۔ اور اگر اس ایجاد کو زمانۂ حال کے ساتھ مخصوص سمجھیں تو جرِّ ثقیل سے بھی بڑھ کر عجیب صنعت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

    ان میناروں میں سے ایک جو سب سے چھوٹا ہے۔ کسی قدر خراب ہو گیا ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ 593 ہجری میں ملک العزیز (پسر سلطان صلاح الدّین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگ تراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کر دیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔ مجبور ہو کر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

    اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سَر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اِس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستّر گز سے کم نہ ہو گا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔

    عبداللّطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیوں کہ عالمِ قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں، اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔

  • شبلی کی "الفاروق” اور طبلچی

    شبلی کی "الفاروق” اور طبلچی

    "ذکرِ آزاد” عبدالرّزاق ملیح آبادی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ہے۔

    یہ اُن اڑتیس برسوں کی یادیں ہیں جس میں مصنّف نے برصغیر کی بلند مرتبہ ہستی مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ وقت گزارا۔ اس کتاب میں انھوں نے مولانا شبلی نعمانی کا ایک دل چسپ واقعہ مولانا آزاد کی زبانی بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    جیل میں ایک دن مولانا (ابوالکلام آزاد) نے مرحوم شبلی نعمانی کے متعلق ایک دل چسپ لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے، مولانا شبلی نہایت زندہ دل صاحبِ ذوق آدمی تھے، حسن پرست بھی تھے اور موسیقی وغیرہ فنونِ لطیفہ سے گہری دل چسپی رکھتے تھے مگر مولوی تھے، عام رائے سے ڈرتے تھے اور بڑی احتیاط سے اپنا ذوق پورا کرتے تھے۔

    ایک دفعہ موصوف دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ خواجہ حسن نظامی ملنے آئے اور کہنے لگے، آج میرے ہاں قوالی ہے، دہلی کی ایک مشہور طوائف (میں نام بھول گیا ہوں) گائے گی۔ محفل بالکل خاص ہے،م یرے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا۔

    مولانا شبلی نے دعوت قبول کر لی، کشمیری شال اوڑھی، وضع بدلی، بند گاڑی میں بیٹھے اور خواجہ صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔ واقعی کوئی تیسرا آدمی مدعو نہ تھا، قوالی شروع ہوئی اور مولانا نے اپنے آپ کو محتسبوں سے محفوظ پا کر ضرورت سے زیادہ آزادی سے کام لیا۔ دل کھول کر گانے کی اور گانے والی کی تعریف کی۔ طوائف سے ہنستے بھی رہے اور اسے چھیڑتے بھی رہے۔

    طوائف کا طبلچی ایک لحیم شحیم سن رسیدہ آدمی تھا۔ سر پر پٹّے تھے اور منہ پر چوکور بڑی سی داڑھی، پٹے اور داڑھی خضاب سے بھونرا ہو رہے تھے۔ محفل جب برخاست ہونے لگی تو طبلچی دونوں ہاتھ بڑھائے مولانا کی طرف لپکا اور بڑے جوش سے مولانا کے ہاتھ پکڑ لیے، چومے، آنکھوں سے لگائے اور جوش سے کہنے لگا، "کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں کہ عمر بھر کی آرزو آج پوری ہوئی، مولانا سبحان اللہ، ماشاء اللہ، آپ نے "الفاروق” لکھ کر وہ کام کیا ہے جو نہ کسی سے ہوا نہ ہو سکے گا۔ بخدا آپ نے قلم توڑ دیا ہے، بندے کی کتنی تمنا تھی کہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہو، سو آج بائی جی اور خواجہ صاحب کی بدولت یہ سعادت اس گنہگار کو نصیب ہوگئی۔”

    مولانا آزاد نے فرمایا، علامہ شبلی بڑے ذکی الحس تھے، اس غیر متوقع واقعہ نے ان کی ساری خوشی کرکری کر دی۔ شرم سے عرق عرق ہو گئے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں؟ طبلچی کو کیا جواب دیں؟ کس طرح محفل سے غائب ہو جائیں؟ بے جان بت کی طرح بیٹھے رہ گئے۔ خواجہ صاحب نے موقع کی نزاکت محسوس کی اور طائفے کو رخصت کر دیا مگر علّامہ کو سخت ذہنی صدمہ پہنچ چکا تھا، ہفتوں شگفتہ نہ ہو سکے۔

    مولانا نے فرمایا، یہ واقعہ خود علاّمہ شبلی نے ان سے بیان کیا تھا۔ بیان کرتے وقت بھی متاثر تھے اور بار بار کہتے تھے، کاش "الفاروق” میرے قلم سے نہ نکلی ہوتی اور نکلی تھی تو اسے پڑھنے والا طبلچی اس قوالی سے پہلے ہی ناپید ہو چکا ہوتا، یہ نہیں تو مجھے موت آ گئی ہوتی کہ اس ذلت سے بچ جاتا۔”

  • شبلی نعمانی: عالمِ دین اور سیرت و سوانح نگار

    شبلی نعمانی: عالمِ دین اور سیرت و سوانح نگار

    علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی سیرت و سوانح نگاری نے برصغیر اور متحدہ ہندوستان میں اہلِ قلم اور اردو داں طبقہ میں ممتاز کیا اور ایک عالمِ دین اور مفکّر کی حیثیت سے بھی انھوں نے بلند مقام و مرتبہ پایا۔

    شبلی کے والد شیخ حبیب ﷲ اعظم گڑھ کے نامور وکیل اور شعر و ادب کے بڑے رسیا تھے۔ رفاہِ عام کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور انھوں نے اپنے بچّوں کو دنیاوی اور دینی تعلیم دلائی تھی۔ علامہ شبلی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور چند جیّد علماء سے استفادہ کیا۔ انھوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ علمِ دین سیکھا۔ بعد میں وکالت کا امتحان پاس کیا، لیکن اس میں ان کا دل نہیں‌ لگا۔

    ان کے والد علی گڑھ تحریک کے ابتدائی ہم نواؤں میں سے تھے اور سر سیّد کے ساتھ رہے تھے۔ شبلی کبھی شعر و شاعری کی محفل سجاتے، کبھی طلبہ کو درس دیتے یا مطالعہ کرتے ہوئے وقت گزارتے تھے۔ چناں چہ اپنے اسی ذوق و شوق اور علمی و ادبی مشاغل کی وجہ سے علی گڑھ کالج سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔ یہاں سرسیّد اور بعد میں پروفیسر آرنلڈ سے تبادلۂ خیال نے ان کے ذوق و نظر کی دنیا ہی بدل دی۔ شبلی سرسیّد کی زبان بولنے لگے اور مضامین و مقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو سرسیّد کے افکار و خیالات کے زیراثر تھے۔ شبلی نے اپنی تحریروں‌ میں ہندوستان مسلمانوں کو اپنے اسلاف اور رفتگاں کی تعلیم اور مختلف ادوار میں مسلمانوں کی ترقیوں کے بارے میں‌ بتایا اور علم و عمل کی ترغیب دی۔شبلی نے اسلام اور شعائرِ اسلام پر دنیا کے اعتراضات کا جواب بھی دیا۔ ان کی شاعری سے زیادہ نثر مشہور ہوئی جو ان کی علمیت کے ساتھ اسلوب کا بھی پتا دیتی ہے۔

    وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1882ء میں علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہونے کے بعد انھیں وہاں مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سے راہ و رسم اور ان کی صحبت سے فیض اٹھانے کا خوب موقع ملا جس کے باعث وہ جدید فکر و نظر کے حامل اور باکمال سیرت و سوانح نگار بنے۔ سیرت النّبی‌ ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ حیاتِ شبلی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ بعد میں‌ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر علمی و ادبی تصانیف میں شعرُ العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی مشہور ہیں۔

    علم و ادب کی دنیا کے اس نام وَر کو اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ علّامہ شبلی نعمانی نے 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔

  • ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    برطانوی ماہرِ تعلیم اور مستشرق سَر تھامس واکر آرنلڈ کو ہندوستان اور بالخصوص برطانوی دور کے مسلمانوں میں‌ بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ سر سیّد احمد خان اور دیگر مسلمان اکابرین کے دوستوں میں‌ شامل رہے اور اسلام اور اسلامی ثقافت سے متعلق نہایت مفید مضامین اور کتب تحریر کیں۔

    پروفیسر آرنلڈ نے سر سیّد احمد خان کے اصرار ہی پر نے کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ بہت مشہور ہوا۔ وہ شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کے استاد بھی تھے۔

    نام وَر مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر پروفیسر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب وہ عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔وہ لکھتے ہیں۔ "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

    اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

    اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

    پروفیسر آرنلڈ کا سنِ پیدائش 1864ء ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا۔ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ 1888ء میں اس انگریز ماہرِ تعلیم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علیگڑھ میں بطور استاد اپنے فرائض‌ انجام دینا شروع کیے۔ 1898ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1909ء میں انھیں برطانیہ میں ہندوستانی طلبہ کا تعلیمی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ 1921ء سے 1930ء تک انھوں نے لندن یونیورسٹی میں مشرقی علوم کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    1921ء ہی میں برطانوی سرکار نے انھیں‌ ’’سَر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اور سماجی راہ نماؤں کے قریب رہنے والے سر آرنلڈ 1930ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    علّامہ اقبال سے سر آرنلڈ نے ہمیشہ خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا۔ مشہور ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے ہی علّامہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لیے ان کی مدد کی تھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال بھی اپنے استاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ جب ہندوستان چھوڑ کر انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ لکھی جو بانگِ درا میں شامل ہے۔

  • گالیوں کا پٹارا

    گالیوں کا پٹارا

    نواب تاباںؔ بھی شاعر تھے، اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔

    حکیم اجمل خاں کے ہاں شرفائے دہلی کا جمگھٹا رہتا تھا۔ حکیم صاحب بھی طرفہ خوبیوں کے آدمی تھے، یہ جتنے بڑے طبیب تھے اتنے ہی بڑے شاعر بھی تھے۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباںؔ کی تعریفِ غائبانہ بہت کچھ سن چکے تھے، ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔

    حکیم صاحب نے سوچا کہ نواب صاحب کو اگر یہاں بلایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا برا مان جائیں، لہٰذا ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا، عزت سے بٹھایا، خاطر تواضع کی۔

    شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مدمغ آدمی تھے۔ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباںؔ نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے، ’’ ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر غزل کا اگلا شعر سنایا۔

    مولانا نے اوپری دل سے کہا، ’’ سبحان اللہ! اچھا شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘ بس پھر تاباںؔ آئیں تو جائیں کہاں؟ بولے، ’’ابے لنگڑے! میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تُو نے ایک منٹ میں اسے سمجھ لیا؟ بیٹا، یہ شعرُ العجم نباشد!‘‘ اس کے بعد ان کا گالیوں کا پٹارا کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہو گیا۔ ویسے اپنی روز مرّہ کی زندگی میں تاباںؔ بڑے زندہ دل آدمی تھے اور دوستوں کو کھلا پلا کر خوش ہوتے تھے۔ شطرنج کی انہیں دھت تھی اور چال بھی اچھی تھی۔ بڑے بڑے کھلاڑی ان کے ہاں آتے رہتے تھے۔

    (اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے اقتباس)

  • علّامہ شبلی نعمانی کا یومِ وفات

    علّامہ شبلی نعمانی کا یومِ وفات

    علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی سیرت و سوانح نگاری اور ندوۃُ العلما کے قیام نے ہندوستان میں بڑے مقام و مرتبے سے سرفراز کیا جب کہ ادبی میدان میں بھی ان کی تصانیف نے انھیں اپنے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا۔ علّامہ شبلی نعمانی نے 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ آج اردو کے اس نام ور ادیب کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام محمد شبلی تھا۔ وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت نہایت پاکیزہ ماحول اور اس دور کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں ہوئی۔

    1882ء میں وہ علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہو گئے۔ یہاں سرسیّد احمد خان اور دوسرے صاحبانِ علم و فن کی صحبت میں‌ بیٹھنے کے علاوہ مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سے راہ رسم کا موقع ملا جس نے ان کی فکر کو وسعت دی اور ذوق کو نکھارا اور سیرت و سوانح نگاری کے ساتھ متعدد علمی اور ادبی موضوعات پر ان کی کتب سامنے آئیں۔

    سیرت النّبی ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ حیاتِ شبلی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ بعد میں‌ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر علمی و ادبی تصانیف میں شعرُ العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی بہت مشہور ہیں۔

    علم و ادب کی دنیا کے اس نام وَر کو اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • حقائقِ اشیا اور حاصلِ زندگی

    حقائقِ اشیا اور حاصلِ زندگی

    جو چیز جس قدر حقیقی اور واقعی ہے، اسی قدر غیر محسوس اور غیر مشاہد ہے۔ آج کل کے مذاق کے موافق اس کو یوں سمجھو کہ سب سے یقینی اور قطعی چیز مادّہ ہے، لیکن زیادہ غور کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ مادّے میں سے جو چیز محسوس اور مشاہد ہے، وہ صرف رنگ اور مقدار ہے۔ باقی کوئی چیز حواس سے محسوس نہیں ہوسکتی۔

    ہم قیاس کرتے ہیں کہ چوں کہ رنگ اور طول و عرض خود نہیں قائم ہوسکتے، اس لیے کوئی اور چیز ہے جس میں رنگ اور طول و عرض قائم ہے، لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جوہر خود کوئی چیز نہیں، بلکہ چند عرضوں کا مجموعہ ہے، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مادّہ کوئی چیز نہیں، چند اغراض جمع ہوگئے ہیں جن کو ہم مادّہ کہتے ہیں۔ غرض کسی چیز کے موجود ہونے کا مدار صرف محسوس اور مشاہد ہونے پر نہیں۔

    اجمالی طور پر جب یہ ذہن نشیں ہو جاتا ہے کہ حقائقِ اشیا میں ہم غلطی کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں، تو حضراتِ صوفیہ خاص خاص چیزوں کی نسبت جن سے تصوف کو تعلق ہے، تلقین کرتے ہیں کہ ان کی وہ حقیقت نہیں، جو عام لوگ سمجھتے ہیں۔ مثلاً تمام عالم اس پر متفق ہے کہ زندگی کا اصلی مقصد حصولِ لذّت ہے۔ حضراتِ صوفیہ بھی اسی کے قائل ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ پہلےاس کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ اصلی لذّت کیا ہے؟

    شروع سے لو۔ بچہ کھیل کود، آلات لہو و لعب، رنگین اور ملمع چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ بڑا ہو کر سمجھتا ہے کہ یہ طفلانہ مذاق تھا۔ اب خوش لباسی، عیش پرستی، سیر و تفریح پر جان دیتا ہے۔ جب معلومات اور خیالات میں اور ترقی ہوتی ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ جوانی کی ترنگیں تھیں، اب ان کا وقت نہیں۔

    اب وہ زیادہ اونچے کاموں میں مصروف ہوتا ہے، علم اور قابلیت پیدا کرتا ہے، نام وری اور عزّت کا جُویا ہوتا ہے۔ دولت و جاہ، عزت و شہرت، عہدہ و منصب حاصل کرتا ہے۔ مقتدائے عام بن جاتا ہے اور یہ گویا کمالِ زندگی کا اخیر درجہ ہے، لیکن حقیقت شناسی اس سے بھی آگے بڑھتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی بے حقیقت چیزیں تھیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا جاتا ہے، لیکن بالآخر ایک حد قرار پا جاتی ہے اور اربابِ ظاہر کے نزدیک وہی حاصلِ زندگی ہوتا ہے۔

    (عظیم مفکّر، عالمِ دین، سیرت و سوانح نگار، مؤرخ، شاعر اور نقّاد شبلی نعمانی کے مضمون "حقائق اشیا اور معشوقِ حقیقی” سے اقتباس)