Tag: شبلی نعمانی کی تحریریں

  • ’’اگر دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا!‘‘

    ’’اگر دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا!‘‘

    ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر واقع قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) دنیا کے اہم اور عظیم ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا جس کی ثقافتی اور جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر فرانس کے مشہور حکم ران نپولین نے کہا تھا: ’’اگر پوری دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا۔‘‘

    یہاں ہم قسطنطنیہ کے مختصر حالات کے عنوان سے علّامہ شبلی نعمانی کے سفر نامے سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ علّامہ شبلی نعمانی 1914ء میں وفات پاگئے تھے۔ یہ سفرنامہ ایک صدی پہلے رقم کیا گیا تھا۔

    کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی شہر قسطنطنیہ کے برابر خوش منظر نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ منظر کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش نما ہونا خیال میں بھی نہیں آتا۔ اسی لحاظ سے اس کی بندر گاہ کو انگریزی میں گولڈن ہارن یعنی سنہری سینگ کہتے ہیں۔ کہیں کہیں عین دریا کے کنارے پر عمارتوں کا سلسلہ ہے اور دور تک چلا گیا ہے۔ عمارتوں کے آگے جو زمین ہے۔ وہ نہایت ہموار اور صاف ہے۔ اس کی سطح سمندر کی سطح کے بالکل برابر ہے۔ اور وہاں عجیب خوش نما منظر پیدا ہو گیا ہے۔

    شہر کی وسعتِ تمدن کا اس اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خاص استنبول میں پانچ سو جامع مسجدیں، ایک سو اکہتّر حمام، تین سو چونیتیس سرائیں، ایک سو چونسٹھ مدارس، قدیم پانچ سو مدارس، جدید بارہ کالج، پینتالیس کتب خانے، تین سو پانچ خانقاہیں، اڑتالیس چھاپے خانے ہیں۔ کاروبار اور کثرتِ آمدورفت کی یہ کیفیت ہے کہ متعدد ٹراموے گاڑیاں، بارہ دخانی جہاز، زمین کے اندر کی ریل، معمولی ریلیں، جو ہر آدھ گھٹنے کے بعد چھوٹتی ہیں، ہر وقت چلتی رہتی ہیں۔ اور باوجود اس کے سڑکوں پر پیادہ پا چلنے والوں کا اس قدر ہجوم رہتا ہے کہ ہر وقت میلہ سا معلوم ہوتا ہے۔

    غلطہ اور استنبول کے درمیان جو پل ہے، اس پر سے گزرنے کا محصول فی شخص ایک پیسہ ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔

    قہوہ خانے نہایت کثرت سے ہیں۔ میرے تخمینہ میں چار پانچ ہزار سے کم نہ ہوں گے۔ بعض بعض نہایت عظیم الشان ہیں جن کی عمارتیں شاہی محل معلوم ہوتی ہیں۔ قہوہ خانوں میں ہمیشہ ہر قسم کے شربت اور چائے قہوہ وغیرہ مہیا رہتا ہے۔ اکثر قہوہ خانے دریا کے ساحل پر اور بعض عین دریا میں ہیں جن کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ قہوہ خانوں میں روزانہ اخبارات بھی موجود رہتے ہیں۔ لوگ قہوہ پیتے جاتے ہیں اور اخبارات دیکھے جاتے ہیں۔ قسطنطنیہ بلکہ ان تمام ممالک میں قہوہ خانے ضروریات زندگی میں محسوب ہیں۔ میرے عرب احباب جب مجھ سے سنتے تھے کہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں تو تعجب سے کہتے تھے: "وہاں لوگ جی کیونکر بہلاتے ہیں۔” ان ملکوں میں دوستوں کے ملنے جلنے اور گرمی صحبت کے موقعے یہی قہوہ خانے ہیں۔

    افسوس ہے کہ ہندوستانیوں کو ان باتوں کا ذوق نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ اس قسم کی عام صحبتیں زندگی کی دل چسپی لے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ اور طبیعت کی شگفتگی پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔ دوستانہ مجلسیں ہمارے ہاں بھی ہیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دوست کے مکان پر دو چار احباب کبھی کبھی مل بیٹھتے ہیں لیکن اس طریقہ میں دو بڑے نقص ہیں۔ اوّل تو تفریح کے جلسے پُرفضا مقامات میں ہونے چاہییں کہ تازہ اور لطیف ہوا کی وجہ سے صحتِ بدنی کو فائدہ پہنچے۔دوسرے سخت خرابی یہ ہے کہ یہ جلسے پرائیوٹ جلسے ہوتے ہیں اس لیے ان میں غیبت، شکایت اور اسی قسم کی لغویات کے سوا اور کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ بخلاف قہوہ خانوں کے جہاں مجمعِ عام کی وجہ سے اس قسم کی باتوں کا موقع نہیں مل سکتا۔ قسطنطنیہ اور مصر میں، مَیں ہمیشہ شام کے وقت دوستوں کے قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن میں نے سوائے کبھی اس قسم کے تذکرے نہیں سنے۔ تفریح اور بذلہ سنجی کے سوا وہاں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہو سکتا تھا۔

    قسطنطنیہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی کو یورپین اور ایشیائی تمدن کی تصویر ایک مرقع میں دیکھنی ہو تو یہاں دیکھ سکتا ہے۔ کتب فروشوں کی دکانوں کی سیر کرو تو ایک طرف نہایت وسیع دکان ہے۔ سنگِ رخام کا فرش ہے۔ شیشہ کی نہایت خوبصورت الماریاں ہیں۔ کتابیں جس قدر ہیں مجلّد اور جلدیں بھی معمولی نہیں بلکہ عموماً مطلا و مُذَہَّب۔ مالکِ دکان میز کرسی لگائے بیٹھا ہے۔ دو تین کم سن، خوش لباس لڑکے اِدھر اُدھر کام میں لگے ہیں۔ تم نے دکان میں قدم رکھا۔ ایک لڑنے نے کرسی لا کر سامنے رکھ دی۔ اور کتابوں کی فہرست حوالہ کی۔ قیمت فہرست میں مذکور ہے۔ اس میں کمی بیشی کا احتمال نہیں۔

    دوسری طرف سڑک کے کنارے چبوتروں پر کتابوں کا بے قاعدہ ڈھیر لگا ہے۔زمین کا فرز اور وہ بھی اس قدر مختصر کہ تین چار آدمی سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ قیمت چکانے میں گھنٹوں کا عرصہ درکار ہے۔

    اسی طرح پیشہ و صنعت کی دکانیں دونوں نمونہ کی موجود ہیں۔ عام صفائی اور زیب و زینت کا بھی یہی حال ہے۔ غلطہ کو دیکھو تو یورپ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ دکانیں بلند اور آراستہ۔ سڑکیں وسیع اور ہموار۔ کیچڑ اور نجاست کا کہیں نام نہیں۔ بخلاف اس کے استنبول میں جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اکثر سڑکیں ناصاف اور بعض بعض جگہ اس قدر ناہموار کہ چلنا مشکل۔

    اس شہر میں آ کر ایک سیاح کے دل میں غالباً جو خیال سب سے پہلے آتا ہو گا۔ وہ یہ ہو گا کہ اس عظیم الشان دارالسلطنت کے دو حصّوں میں اس قدر اختلافِ حالت کیوں ہے؟ چنانچہ میرے دل میں سب سے پہلے یہی خیال آیا۔ میں نے اس کے متعلق کچھ بحث و تفتیش کی۔ باشندوں کے اختلافِ حالت کا سبب تو میں نے آسانی سے معلوم کر لیا۔ یعنی مسلمانوں کا افلاس اور دوسری قوموں کا تموّل۔ لیکن سڑکوں اور گزر گاہوں کی ناہمواری و غلاظت کا بظاہر یہ سبب قرار نہیں پا سکتا تھا۔ اس لیے میں نے ایک معزز ترکی افسر یعنی حسین حسیب آفندی پولیس کمشنر سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری میونسپلٹی کے ٹیکس بہت کم ہیں۔ بہت سی چیزیں محصول سے معاف ہیں۔ لیکن غلطہ میں یورپین سوداگر خود اپنی خواہش سے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے میونسپلٹی اس رقموں کو فیاضی سے صرف کرسکتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ وہی غلطہ ہے۔ جس کی نسبت ابنِ بطوطہ نے نجاست اور میلے پن کی سخت شکایت کی ہے۔ یا اب ان کو صفائی و پاکیزگی کا یہ اہتمام ہے کہ اس کے لیے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صفائی اور خوش سلیقگی آج کل یورپ کا خمیر بن گیا ہے۔ یہاں کی عمارتیں ہندوستان کی عمارتوں سے بالکل جدا وضع کی ہیں۔ مکانات عموماً منزلہ، چو منزلہ ہیں۔ صحن مطلق نہیں ہوتا۔ عمارتیں تمام لکڑی کی ہیں۔ بڑے بڑے امرا اور پاشاؤں کے محل بھی لکڑی ہی کے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ یہاں اکثر آگ لگتی ہے۔ کوئی مہینہ بلکہ ہفتہ خالی نہیں جاتا۔ کہ دو چار گھر آگ سے جل کر تباہ نہ ہوں۔ اور کبھی کبھی تو محلّے کے محلّے جل کر خاکِ سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آگ بجھانے کے لیے سلطنت کی طرف سے نہایت اہتمام ہے۔ کئی سو آدمی خاص اس کام پر مقرر ہیں۔ ایک نہایت بلند منارہ بنا ہوا جس پر چند ملازم ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ جس وقت کہیں آگ لگتی دیکھیں، فوراً خبر کریں۔ اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے منارے جا بجا بنے ہوئے ہیں۔ جس وقت کہیں آگ لگتی ہے فوراً توپیں سر ہوتی ہیں اور شہر کے ہر حصّے کے آگ بجھانے والے ملازم تمام آلات کے ساتھ موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ بے تحاشہ دوڑتے جائیں۔ یہاں تک اگر کوئی راہ چلتا ان کی جھپٹ میں آ کر پس جائے تو کچھ الزام نہیں۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ پتھر کی عمارتیں کیوں نہیں بنتیں۔ معلوم ہوا کہ سردی کے موسم میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور تندرستی کو نقصان پہنچتا ہے۔

    آب و ہوا یہاں کی نہایت عمدہ ہے۔ جاڑوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور کبھی کبھی برف بھی گرتی ہے۔ گرمیوں کا موسم جس کا مجھ کو خود تجربہ ہوا، اس قدر خوش گوار ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ تعجب ہے کہ ہمارے یہاں کے امراء شملہ اور نینی تال کی بجائے قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے! پانی پہاڑ سے آتا ہے۔ اور نہایت ہاضم اور خوش گوار ہے۔

  • ‘امراء قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!’

    ‘امراء قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!’

    آبنائے باسفورس کی شاخ جو دور تک چلی گئی، یہ شہر اس کے دو کناروں پر آباد ہے۔ اور اس وجہ سے اس کے دو حصّے بن گئے ہیں۔

    ایک حصّہ استنبول کہلاتا ہے اور تمام بڑی بڑی مسجدیں، کتب خانے، سلاطین کے مقبرے اسی حصّہ میں ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی بھی کثرت سے یہیں ہے۔ دوسرا حصہ پیرہ سے شروع ہوتا ہے اور اس کے انتہائی جانب پر بشک طاس وغیرہ واقع ہیں۔ جہاں سلطان کا ایوانِ شاہی اور قصرِ عدالت ہے۔ پیرہ کی دوسری طرف غلطہ ہے اور چونکہ تمام بڑے بڑے یورپین سوداگر اور سفرائے سلطنت یہیں سکونت رکھتے ہیں۔ اس کو یورپین آبادی کہنا زیادہ مناسب ہے۔

    کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی شہر قسطنطنیہ کے برابر خوش منظر نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ منظر کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش نما ہونا خیال میں بھی نہیں آتا۔ اسی لحاظ سے اس کی بندر گاہ کو انگریزی میں گولڈن ہارن یعنی سنہری سینگ کہتے ہیں۔ کہیں کہیں عین دریا کے کنارے پر عمارتوں کا سلسلہ ہے اور دور تک چلا گیا ہے۔ عمارتوں کے آگے جو زمین ہے وہ نہایت ہموار اور صاف ہے۔ اس کی سطح سمندر کی سطح کے بالکل برابر ہے۔ اور وہاں عجیب خوش نما منظر پیدا ہو گیا ہے۔

    شہر کی وسعتِ تمدن کا اس اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خاص استنبول میں پانچ سو جامع مسجدیں۔ ایک سو اکھتّر حمام۔ تین سو چونیتیس سرائیں۔ ایک سو چونسٹھ مدارس قدیم، پانچ سو مدارس جدید۔ بارہ کالج۔ پینتالیس کتب خانے۔ تین سو پانچ خانقاہیں۔ اڑتالیس چھاپہ خانے ہیں۔

    کاروبار اور کثرتِ آمدورفت کی یہ کیفیت ہے کہ متعدد ٹراموے گاڑیاں۔ بارہ دخانی جہاز۔ زمین کے اندر کی ریل، معمولی ریلیں جو ہر آدھ گھٹنے کے بعد چھوٹتی ہیں ہر وقت چلتی رہتی ہیں۔ اور باوجود اس کے سڑکوں پر پیادہ پا چلنے والوں کا اس قدر ہجوم رہتا ہے کہ ہر وقت میلہ سا معلوم ہوتا ہے۔ غلطہ اور استنبول کے درمیان جو پل ہے اس پر سے گزرنے کا محصول فی شخص ایک پیسہ ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔

    قہوہ کانے نہایت کثرت سے ہیں۔ میرے تخمینہ میں چار پانچ ہزار سے کم نہ ہوں گے۔ بعض بعض نہایت عظیم الشّان ہیں۔ جن کی عمارتیں شاہی محل معلوم ہوتی ہیں۔ قہوہ خانوں میں ہمیشہ ہر قسم کے شربت اور چائے قہوہ وغیرہ مہیا رہتا ہے۔ اکثر قہوہ خانے دریا کے ساحل پر اور بعض عین دریا میں ہیں جن کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ قہوہ خانوں میں روزانہ اخبارات بھی موجود رہتے ہیں۔ لوگ قہوہ پیتے جاتے ہیں اور اخبارات دیکھے جاتے ہیں۔ قسطنطنیہ بلکہ ان تمام ممالک میں قہوہ خانے ضروریاتِ زندگی میں محسوب ہیں۔ میرے عرب احباب جب مجھ سے سنتے تھے کہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں تو تعجب سے کہتے تھے: "وہاں لوگ جی کیونکر بہلاتے ہیں۔”ان ملکوں میں دوستوں کے ملنے جلنے اور گرمیِ صحبت کے موقعے یہی قہوہ خانے ہیں۔

    افسوس ہے کہ ہندوستانیوں کو ان باتوں کا ذوق نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ اس قسم کی عام صحبتیں زندگی کی دل چسپی کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ اور طبیعت کی شگفتگی پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔ دوستانہ مجلسیں ہمارے ہاں بھی ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دوست کے مکان پر دو چار احباب کبھی کبھی مل بیٹھتے ہیں لیکن اس طریقہ میں دو بڑے نقص ہیں۔ اوّل تو تفریح کے جلسے پُر فضا مقامات میں ہونے چاہیئیں کہ تازہ اور لطیف ہوا کی وجہ سے صحتِ بدنی کو فائدہ پہنچے۔دوسرے سخت خرابی یہ ہے کہ یہ جلسے پرائیوٹ جلسے ہوتے ہیں اس لیے ان میں غیبت، شکایت اور اسی قسم کی لغویات کے سوا اور کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ بخلاف قہوہ خانوں کے جہاں مجمعِ عام کی وجہ سے اس قسم کی باتوں کا موقع نہیں مل سکتا۔

    قسطنطنیہ اور مصر میں، مَیں ہمیشہ شام کے وقت دوستوں کے قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن میں نے سوائے کبھی اس قسم کے تذکرے نہیں سنے۔ تفریح اور بذلہ سنجی کے سوا وہاں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہو سکتا تھا۔

    قسطنطنیہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی کو یورپین اور ایشیائی تمدن کی تصویر ایک مرقع میں دیکھنی ہو تو یہاں دیکھ سکتا ہے۔ کتب فروشوں کی دکانوں کی سیر کرو تو ایک طرف نہایت وسیع دکان ہے۔ سنگِ رخام کا فرش ہے۔ شیشہ کی نہایت خوبصورت الماریاں ہیں۔ کتابیں جس قدر ہیں مجلّد اور جلدیں بھی معمولی نہیں بلکہ عموماً مطلا و مذہب۔ مالکِ دکان میز کرسی لگائے بیٹھا ہے۔ دو تین کم سن خوش لباس لڑکے اِدھر اُدھر کام میں لگے ہیں۔ تم نے دکان میں قدم رکھا۔ ایک لڑکے نے کرسی لا کر سامنے رکھ دی۔ اور کتابوں کی فہرست حوالہ کی۔ قیمت فہرست میں مذکور ہے۔ اس میں کمی بیشی کا احتمال نہیں۔

    دوسری طرف سڑک کے کنارے چبوتروں پر کتابوں کا بے قاعدہ ڈھیر لگا ہے۔ زمین کا فرز اور وہ بھی اس قدر مختصر کہ تین چار آدمی سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ قیمت چکانے میں گھنٹوں کا عرصہ درکار ہے۔ اسی طرح پیشہ و صنعت کی دکانیں۔ دونوں نمونہ کی موجود ہیں۔ عام صفائی اور زیب و زینت کا بھی یہی حال ہے۔

    غلطہ کو دیکھو تو یورپ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ دکانیں بلند اور آراستہ۔ سڑکیں وسیع اور ہموار۔ کیچڑ اور نجاست کا کہیں نام نہیں۔ بخلاف اس کے استنبول میں جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اکثر سڑکیں ناصاف اور بعض بعض جگہ اس قدر ناہموار کہ چلنا مشکل۔

    اس شہر میں آ کر ایک سیاح کے دل میں غالباً جو خیال سب سے پہلے آتا ہو گا وہ یہ ہو گا کہ اس عظیم الشان دارُالسّلطنت کے دو حصوں میں اس قدر اختلافِ حالت کیوں ہے؟ چنانچہ میرے دل میں سب سے پہلے یہی خیال آیا۔ میں نے اس کے متعلق کچھ بحث و تفتیش کی۔ باشندوں کے اختلاف حالت کا سبب تو میں نے آسانی سے معلوم کر لیا۔ یعنی مسلمانوں کا افلاس اور دوسری قوموں کا تموّل۔ لیکن سڑکوں اور گزر گاہوں کی ناہمواری و غلاظت کا بظاہر یہ سبب قرار نہیں پا سکتا تھا۔ اس لیے میں نے ایک معزز ترکی افسر یعنی حسین حسیب آفندی پولیس کمشنر سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری میونسپلٹی کے ٹیکس بہت کم ہیں۔ بہت سی چیزیں محصول سے معاف ہیں۔ لیکن غلطہ میں یورپین سوداگر خود اپنی خواہش سے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے میونسپلٹی اس رقموں کو فیاضی سے صَرف کرسکتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ وہی غلطہ ہے۔ جس کی نسبت ابنِ بطوطہ نے نجاست اور میلے پن کی سخت شکایت کی ہے۔ یا اب ان کو صفائی و پاکیزگی کا یہ اہتمام ہے کہ اس کے لیے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ صفائی اور خوش سلیقگی آج کل یورپ کا خمیر بن گیا ہے۔
    یہاں کی عمارتیں ہندوستان کی عمارتوں سے بالکل جدا وضع کی ہیں۔ مکانات عموماً منزلہ، چو منزلہ ہیں۔ صحن مطلق نہیں ہوتا۔ عمارتیں تمام لکڑی کی ہیں۔ بڑے بڑے امرا اور پاشاؤں کے محل بھی لکڑی ہی کے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ یہاں اکثر آگ لگتی ہے۔ کوئی مہینہ بلکہ ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ دو چار گھر آگ سے جل کر تباہ نہ ہوں۔ اور کبھی کبھی تو محلے کے محلے جل کر خاک و سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آگ بجھانے کے لیے سلطنت کی طرف سے نہایت اہتمام ہے۔ کئی سو آدمی خاص اس کام پر مقرر ہیں۔ ایک نہایت بلند منارہ بنا ہوا جس پر چند ملازم ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ جس وقت کہیں آگ لگتی دیکھیں فوراً خبر کریں۔ اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے منارے جا بجا بنے ہوئے ہیں۔ جس وقت کہیں آگ لگتی ہے فوراً توپیں سر ہوتی ہیں اور شہر کے ہر حصّے کے آگ بجھانے والے ملازم تمام آلات کے ساتھ موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ بے تحاشہ دوڑتے جائیں۔ یہاں تک اگر کوئی راہ چلتا ان کی جھپٹ میں آ کر پس جائے تو کچھ الزام نہیں۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ پتھر کی عمارتیں کیوں نہیں بنتیں۔ معلوم ہوا کہ سردی کے موسم میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور تندرستی کو نقصان پہنچتا ہے۔

    آب و ہوا یہاں کی نہایت عمدہ ہے۔ جاڑوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور کبھی کبھی برف بھی گرتی ہے۔ گرمیوں کا موسم جس کا مجھ کو خود تجربہ ہوا۔ اس قدر خوش گوار ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ تعجب ہے کہ ہمارے یہاں کے امرا شملہ اور نینی تال کی بجائے قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!

  • مصر: آثارِ قدیمہ میں کوئی شہر اس کی ہمسری نہیں کرسکتا

    مولانا شبلی نعمانی نے روم، مصر و شام كے سفر سے ہندوستان واپس آكر وہاں کے تمدن اور حسنِ معاشرت کو بیان کرنے کے علاوہ اپنے سفرنامے میں‌ قابلِ دید مقامات، اور قدیم عمارات کے بارے میں‌ بھی تفصیل رقم کی تھی جس میں مصر کی قدیم یادگاریں کے عنوان سے ایک باب بھی شامل ہے۔ اس میں اہرامِ مصر سے متعلق معلوماتی مضمون میں‌ وہ لکھتے ہیں:

    آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے کوئی شہر اس شہر کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ایک ایک ٹھیکری قدامت کی تاریخ ہے۔

    سوادِ شہر کے ویرانوں میں اس وقت تک سیکڑوں خزف ریزے ملتے ہیں جن پر کئی کئی ہزار سال قبل کے حروف و نقوش کندہ ہیں۔ مجھ کو اتنا وقت بلکہ سچ ہے کہ اتنی ہمّت کہاں تھی کہ تمام قدیم یادگاروں کی سیر کرتا۔ البتہ چند مشہور مقامات دیکھے اور انہی کے حال کے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

    اہرام، یہ وہ قدیم مینار ہیں جن کی نسبت عام روایت ہے کہ طوفاں نوحؑ سے پہلے موجود تھے۔ اور اس قدر تو قطعی طور سے ثابت ہے کہ یونان کی علمی ترقی سے ان کی عمر زیادہ ہے، کیوں کہ جالینوس نے اپنی تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ مینار نہایت کثرت سے تھے۔ یعنی دو دن کی مسافت میں پھیلے ہوئے تھے۔ صلاح الدین کے زمانہ میں اکثر ڈھا دیے گئے۔ ان میں سے جو باقی رہ گئے ہیں۔ اور جن پر خاص طور پر اہرام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صرف تین ہیں، جو سب سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو اسّی فٹ یعنی قطب صاحب کی لاٹ سے دگنی ہے۔ نیچے کے چبوترہ کا ہر ضلع سات سو چونسٹھ فٹ ہے۔ مینار کا مکعب آٹھ کروڑ نوے لاکھ فٹ ہے۔ اور وزن اڑسٹھ لاکھ چالیس ہزار ٹن۔

    اس کی تعمیر میں ایک لاکھ آدمی بیس برس تک کام کرتے رہے۔ جڑ میں تیس تیس فٹ لمبی اور پانچ پانچ فٹ چوڑی پتھر کی چٹانیں ہیں اور چوٹی پر جو چھوٹی سے چھوٹی ہیں آٹھ فٹ کی ہیں۔

    اس کی شکل یہ ہے کہ ایک نہایت وسیع مربع چبوترہ ہے۔ اس پر ہر طرف سے کسی قدر سطح چھوڑ کر دوسرا چبوترہ ہے۔ اس طرح چوٹی تک اوپر تلے چبوترے ہیں۔ اور ان چبوتروں کے بتدریج چھوٹے ہوتے جانے سے زینوں کی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ پتھروں کو اس طرح وصل کیا ہے کہ جوڑ یا درز کا معلوم ہونا تو ایک طرف۔ چونا یا مسالے کا بھی اثر نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر استحکام کا یہ حال ہے کہ کئی ہزار برس ہو چکے اور جوڑوں میں بال برابر فصل نہیں پیدا ہوا ہے۔

    ان میناروں کو دیکھ کر خوا مخواہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جَرِّ ثَقِیل کا فن قدیم زمانہ میں موجود تھا۔ کیوں کہ اس قدر بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر جَرِّ ثَقِیل کے بغیر چڑھائے نہیں جا سکتے۔ اور اگر اس ایجاد کو زمانۂ حال کے ساتھ مخصوص سمجھیں تو جرِّ ثقیل سے بھی بڑھ کر عجیب صنعت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

    ان میناروں میں سے ایک جو سب سے چھوٹا ہے۔ کسی قدر خراب ہو گیا ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ 593 ہجری میں ملک العزیز (پسر سلطان صلاح الدّین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگ تراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کر دیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔ مجبور ہو کر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

    اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سَر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اِس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستّر گز سے کم نہ ہو گا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔

    عبداللّطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیوں کہ عالمِ قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں، اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔