Tag: شبیر نازش

  • آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ

    آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ

    معروف شاعر شبیر نازش کا مجموعہ کلام ’ آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘ ان کے مداحوں کے شعری ذوق کی تسکین کررہا ہے ، دو دہائیوں سے زائد عرصے سے شعرو شاعری سے وابستہ شبیر ایک منفرد لب ولہجے کے شاعر ہیں۔

    آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ شبیر نازش کے نوجوانی کے رت جگوں اور جوانی کی ریاضتوں کا ثمر ہے، ان کا یہ شعری مجموعہ دو دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ان کے شعری سفر کی مختلف جہتوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ ان کا بنیادی میدان غزل ہے ، لیکن نظم اور نثری نظم کے معاملے میں بھی انہوں نے اپنے مداحوں کو مایوس نہیں کیا۔

    حال ہی میں شائع ہونے والا ان کا یہ شعری مجموعہ ’آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘ شائع ہوا ہے ۔ کتاب میں صفحات کی تعداد 168 ہے، اسے فکشن ہاؤ س نے شائع کیا ہے ۔ سرورق دیدہ زیب اور جاذب نظر ہے جبکہ طباعت میں معیاری کاغذ کاا ستعمال کیا گیا ہے۔ اس کی قیمت 300 روپے متعین کی گئی ہے۔

    کتاب میں غزلوں کی تعداد 52ہے جبکہ16 نظمیں بھی اس مجموعے کا حصہ ہیں۔ آج کا جد ت پسند شاعر نثری نظم کو نظر انداز نہیں کرسکتا تو 5نثری نظمیں بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔

    شبیر نازش کے بارے میں


    شبیرنازش سندھ کے شہر ڈگری کے نواح ’’کچھیوں والی گوٹھ‘‘ کے ایک مزدور گھرانے میں 17اکتوبر1980 کو پیدا ہوئے۔ 5 برس ٹنڈوالہیار میں رہے پھر پنجاب ہجرت کرگئے اور میاں چنوں کے قریب چک نمبر132 سولہ ایل میں سکونت اختیار کی۔

    شاعری میں شفیق استاد مرزا نصیرخالد(مرحوم) کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے۔ مادری زبان پنجابی ہے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ 23مارچ2004 کو ایک بارپھر رختِ سفر باندھا اور کراچی آگئے اور تب سے اب تک یہیں رہائش پذیر ہیں۔غزل،پابند نظم، نظمِ معریٰ، آزاد نظم اور نثری نظم کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔

    شبیرکی شاعری


    دو دہائیوں تک شعر گوئی کے فن کو اپنا خونِ جگر پلانے والے شبیر نازش کی شاعری جدید و قدیم کے درمیان کی راہ پر گامزن ہے ، وہ ادب کی ہیت ، لفظوں کی ساخت اور اسلوب کے حسن پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے ہم عصر شعراء کی طرح الفاظ کر برتنے میں بے احتیاطی سے کام نہیں لیتے ۔ ان کے اشعار میں ان کے اندر کا تخلیق کار پوری قوت سے انگڑائیاں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔

    اپنی الگ ہی سمت میں نئی راہیں نکال کر
    وہ لے گیا ہے جسم سے سانسیں نکال کر

    شبیر کی شاعری احساسات کی شاعری ہے ، ان کے اشعار میں ان کی زندگی میں بیتے حالات اور واقعات اور مشکلات کی نمائندگی کرتے ہیں ، وہ اپنے اشعار میں اس کرب کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جس کا ادراک ایک حقیقی شاعر ہی کرسکتا ہے۔

    دیکھے ضعیف کاندھوں پہ محنت کے جب نشاں
    بچوں نے کچھ بھی باپ سے مانگا نہ پھر کبھی

    شعر گوئی یقینا ً ایک الہامی امر ہے اور شاعر کے لیے اپنے خیال پر یقین ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی عام انسان کے زندہ رہنے کے لیے سانس ، اگر آپ جو سوچتے ہیں اس پر خود یقین نہیں رکھتے تو کسی بھی مستعد قاری کو ان الفاظ میں اعتبار کی کمی واضح دکھائی دے گی اور وہ اشعار کسی بھی قسم کی تحریک کا سبب بننے سے قاصر رہیں گے ، شبیر کی شاعری میں ہمیں یہی اعتماد بدرجہ اتم نظر آتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس پر اسے یقین ہے۔

    کم ترے ضبط کی قیمت نہیں کرنے والے
    ہم تری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے

    کربلا کے لیے مخصوص ہے بس ایک ہی شخص
    دوسرا کوئی بھی شبیر نہیں ہوسکتا

    شبیر اپنے بعض اشعار میں معروف شاعر جون ایلیاء کی طرح وسعت خیال کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے ، وہ اپنے الفاظ کے ذریعے بتاتا ہے کہ اس کا تخیل کس قدر زور آور ہے ،اور یہ کہ وہ اس طاقت ور قوت ِ تخیل کا ادراک بھی رکھتا ہے۔

    پر نہ کھولے اسی تردد میں
    کم نہ پڑجائے کائنات مجھے

    اک نظر دیکھنے پہ یہ عالم
    اک نظر اور دیکھ لیتے تو؟

    شبیر اپنے اشعار میں کئی طرح کے موضوعات کے برتنے پرعبوررکھتا ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے ہاں عشق و محبت ایک مخصوص انداز و معانی لیے ہوئے ہیں اور وہ روایتی عشق و محبت کے بجائے خود پر بیتے حالات بیان کرتا نظر آتا ہے ، ہجر اور وصل کے موضوعات یقیناً کسی بھی غزل گو شاعر کے لئے ضروری ہیں، اور ان میں انفرادیت ہی کسی شاعر کو ممتاز بناتی ہے، شبیر اپنی اس کوشش میں کسی حد تک ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔

    کیسا آزاد کیا باندھ کے دل سے اس نے
    چلنےلگتا ہوں تو زنجیر نظر آتی ہے

    میرے کفن کے بند نہ باندھو !ابھی مجھے
    ملنا ہے ایک شخص سے بانہیں نکال کر

    غزل کی طرح شبیر کی نظم بھی معاشرتی اقدار، سماجی رویوں اور معروضی حالات کے حقائق سے مزین ہے ، اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے شبیر کہیں بھی حقیقت سے آنکھیں نہیں چراتا اور حالات کی تلخی کو اتنی سچائی سے بیان کرتا ہے جتنا کہ وہ تلخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس کے اشعار میں اس کا اپنا تجربہ اور گئی عمر کے تجربوں کی تلخیاں بھی امڈ آتی ہیں۔ جیسا کہ اس کی نظم جس کا عنوان ’ترقی ‘ ہے ، میں دیکھتے ہیں کہ:

    کتنی ترقی کرلی ہم نے
    اور کہاں تک جانا ہے
    ہر کوئی مصروف ہے اپنی دنیا میں
    آج کسی کے پاس نہیں ہے فرصت کا اک لمحہ بھی
    وہ لمحہ
    جس لمحے بیٹا
    بوڑھی ماں سے پوچھ سکے
    ماں!۔۔۔ کیسی ہو؟

    معروف نقاد خرم سہیل نے آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر کہا تھا کہ غزل اور نظم دونوں میں یکساں مہارت رکھنے والے اس شاعر نے معیار پر بھی سمجھوتہ نہیں،کم لکھا مگر اچھا لکھا، کیونکہ برا لکھنے کے لیے بہت سارے شاعر ان کے ہم عصروں میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور انجام کو پہنچ رہے ہیں۔

    یقیناً شبیر نازش کو ابھی شعری افق کے اور بہت سے مدارج طے کرنے ہیں ، ان کے سامنے ایک طویل تخلیقی سفر ہے جس کی پر خار راہ پر حسبِ سابق انہیں تنہا ہی سفر کرنا ہے ، لیکن امید ہے کہ اس مجموعے کی اشاعت کی بعد اس راہ ِ خاردار میں دھوپ کی تمازت پہلے سے کچھ کم ہوگی۔

    درپیش تھا سفر کسی صحرا میں شام کا
    شبیر نے قیام کیا اور چل پڑا

  • آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ

    آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ

    جواں سال شاعر شبیر نازش کی کتاب’’ آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کراچی پریس کلب میں منعقد کی گئی ، اس موقع پر کثیر تعداد میں علم دوست شخصیات اور معززین ِ شہر موجود تھے جو کہ اس منفرد لب و لہجے کے شاعر کی پذیرائی کے لیے تشریف لائے تھے ۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیرِاہتمام جواں سال شاعرشبیرنازش کے اولین مجموعہ کلام’’آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت معروف شاعروادیب ڈاکٹرپیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے فرمائی۔ اکرم کنجاہی، ڈاکٹرآفتاب مضطر، حنیف عابد، اورخرم سہیل نے کتاب اور صاحبِ کتاب پر شاندار الفاظ میں اظہارِخیال کیا جب کہ منجھے ہوئے صداکار شاہ رخ مرزا نے مانچسٹر سے بھیجا گیا معروف شاعر باصرسلطان کاظمی کا خط پڑھ کے سنایا اور ٹورنٹو سے تشریف لائے ہوئے مہمان شاعر منیف اشعر نے کتاب و صاحبِ کتاب کی منظوم تحسین کی۔

    نظامت کے فرائض معروف شاعرہ آئرین فرحت اور موسیٰ کلیم نے بخوبی ادا کیے۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا جس کی سعادت آصف الیاس نے حاصل کی جب کہ صغیراحمد جعفری نے بحضور سرورِکونین گلہائے عقیدت پیش کیے۔ تقریبِ پذیرائی کے حوالے سے اے ایچ خانزادہ نے ابتائی کلمات ادا کیےاور زیب اذکار حسین نے آنے والے معزز مہانوں کا شکریہ ادا کیا۔ کتاب کی تقریبِ پذیرائی کے موقع پر شہر کی علم دوست شخصیات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

    ڈاکٹرپیرزادہ قاسم نےاپنے صدارتی خطاب میں فرمایا مجھے خوشی ہے کہ شبیرنازش نے بڑے بھرپورانداز سے،بڑے سلیقے کے ساتھ اپنے ہونے کا احساس کرایا ہے کہ میں ہوں، ظاہر ہے کہ ان کا یہ سفر بہت آگے تک جانے کا ہے۔ ان کے موضوعات میں عشق ایک خاص موضوع کے طورپر سامنے آیا ہے،جسے شبیرنازش نے منفرد انداز میں برتا ہے اور یہ دیگر موضوعات کو بھی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ برتتے ہیں۔ کنارے کنارے بہنے کے بجائے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے لیے بڑی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور شبیرنازش کی شاعری میں مین دھارے میں شامل ہونے والی شعری توانائی کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔ میں ان کے اندر جو توانائی دیکھ رہا ہوں ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ شبیرنازش ہمارے اس دور میں شامل ہیں جو رواں دواں شاعری کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    معروف شاعرو نقاد اکرم کنجاہی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا شبیرنازش کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بڑی توانائی کے ساتھ دونوں شعری قطبین پر ایستادہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایک طرف غزل کی بنیادی تہذیب سے جڑا ہوا ہے اور دوسری طرف متنوی فکریات کی حامل جدید حسیت سے مزین نظم میں بھی اپنے جوہر نمایاں کررہا ہے۔ شبیرنازش اس حوالے سے مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے اپنا لہجہ تراشنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔

    حنیف عابد نے اپنے مضمون میں کہا ’’آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘‘شبیرنازش کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ اس کے مطالعے سے جہاں شبیرنازش کے شعری قدکاٹھ کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ان کے مستقبل کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ شبیرنازش ہمارے عہد کا ایک ایسا شاعر ہے جس کے تخیلات نے قبولِ عام کی سند حاصل کی اور اس کی شاعری عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان بن گئی۔

    ڈاکٹرآفتاب مضطر نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ شبیرنازش کے شعری مجموعہ کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس مجموعہ کے ہر صفحے پر ایک شعر جمکتا ہوا ضرور نظر آتا ہے۔

    معروف نقاد خرم سہیل نے کہا کہ غزل اور نظم دونوں میں یکساں مہارت رکھنے والے اس شاعر نے معیار پر بھی سمجھوتہ نہیں،کم لکھا مگر اچھا لکھا، کیونکہ برا لکھنے کے لیے بہت سارے شاعر ان کے ہم عصروں میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور انجام کو پہنچ رہے ہیں۔